”آدمیوں [میں] انعاموں“ کی قدر کرنا
”جو تم میں محنت کرتے ہیں . . . اُنہیں مانو اور اُنکے کام کے سبب سے محبت کے ساتھ اُنکی بڑی عزت کرو۔“—۱-تھسلنیکیوں ۵:۱۲، ۱۳۔
۱. اعمال ۲۰:۳۵ کے مطابق، دینے میں کیا قوت ہے؟ مثال دیں۔
”دینا لینے سے مبارک ہے۔“ (اعمال ۲۰:۳۵) کیا آپ یاد کر سکتے ہیں کہ آپ نے یسوع کے ان الفاظ کی صداقت کا آخری مرتبہ تجربہ کب کِیا تھا؟ شاید یہ ایک تحفہ تھا جو آپ نے کسی ایسے شخص کو دیا جس سے آپ بےحد محبت رکھتے ہیں۔ آپ نے احتیاط کیساتھ اسکا انتخاب کِیا کیونکہ آپ چاہتے تھے کہ آپکا عزیز اسے پسند کرے۔ آپ کے عزیز کے چہرے کی خوشی نے آپکے دل کو کیسا گرما دیا! جب تحریک درست ہو تو دینا محبت کا اظہار ہے اور محبت کا اظہار خوشی لانے کی قوت رکھتا ہے۔
۲، ۳. (ا) یہ کیوں کہا جا سکتا ہے کہ یہوواہ سے زیادہ خوش کوئی نہیں ہے اور ”آدمیوں [میں] انعاموں“ کی فراہمی اُسکے دل کو کیسے خوش کرتی ہے؟ (ب) ہم خدا کی طرف سے انعام کے ساتھ کیا نہیں کرنا چاہینگے؟
۲ پس ”ہر کامل انعام“ کے دینے والے یہوواہ خدا سے زیادہ خوش کون ہو سکتا ہے؟ (یعقوب ۱:۱۷؛ ۱-تیمتھیس ۱:۱۱) اُس کی ہر بخشش کا محرک محبت ہے۔ (ا-یوحنا ۴:۸) یہ خدا کی جانب سے مسیح کے وسیلے سے کلیسیا کو دئے گئے—”آدمیوں [میں] انعام“ کی بخشش کی بابت یقیناً سچ ہے۔ (افسیوں ۴:۸) گلّے کی دیکھبھال کرنے کے لئے بزرگوں کی فراہمی یہوواہ خدا کی اپنے لوگوں کیلئے گہری محبت کا اظہار ہے۔ ان آدمیوں کا احتیاط کے ساتھ انتخاب کِیا گیا ہے—اُنہیں صحیفائی لیاقتوں پر پورا اترنا چاہئے۔ (۱-تیمتھیس ۳:۱-۷؛ ططس ۱:۵-۹) اُنہیں معلوم ہے کہ اُنہیں ”گلّہ پر . . . ترس“ کھانا چاہئے، ایسی صورت ہی میں بھیڑوں کے پاس ان پُرمحبت چرواہوں کے احسانمند ہونے کی وجہ ہوگی۔ (اعمال ۲۰:۲۹؛ زبور ۱۰۰:۳) جب یہوواہ یہ دیکھتا ہے کہ اُسکی بھیڑوں کے دل شکرگزاری سے معمور ہیں تو یقیناً اُسکا دل بھی شاد ہوگا!—امثال ۲۷:۱۱۔
۳ ہم یقیناً خدا کی طرف سے انعام کی قدروقیمت کو کم نہیں کرنا چاہینگے؛ نہ ہی ہم اُسکے انعاموں کیلئے بےقدری کرنا چاہینگے۔ پس دو سوال پیدا ہوتے ہیں: بزرگوں کو کلیسیا میں اپنے کردار کو کیسا خیال کرنا چاہئے؟ اور گلّہ کیسے یہ ظاہر کر سکتا ہے کہ وہ ”آدمیوں [میں] انعاموں“ کی قدر کرتا ہے؟
’ہم تمہارے ساتھ کام کرنے والے ہیں‘
۴، ۵. (ا) پولس کلیسیا کو کس سے تشبِیہ دیتا ہے اور یہ کیوں موزوں تمثیل ہے؟ (ب) پولس کی تمثیل کیسے ظاہر کرتی ہے کہ ہمیں ایک دوسرے کو کیسا خیال کرنا چاہئے اور ایک دوسرے سے کیسا برتاؤ کرنا چاہئے؟
۴ یہوواہ نے کلیسیا میں ”آدمیوں [میں] انعاموں“ کو کچھ اختیار سونپا ہے۔ بلاشُبہ، بزرگ اپنے اختیار کا غلط استعمال نہیں کرنا چاہینگے، تاہم وہ جانتے ہیں کہ ناکامل انسان ہوتے ہوئے ایسا کرنا بہت آسان ہے۔ چنانچہ اُنہیں خود کو باقی گلّے کے مقابلے میں کیسا خیال کرنا چاہئے؟ پولس رسول نے جو تمثیل استعمال کی اُس پر غور کریں۔ یہ بیان کرنے کے بعد کہ ”آدمیوں [میں] انعام“ کیوں فراہم کئے گئے ہیں، پولس نے لکھا: ”محبت کے ساتھ سچائی پر قائم رہ کر اور اُسکے ساتھ جو سر ہے یعنی مسیح کے ساتھ پیوستہ ہو کر ہر طرح سے بڑھتے جائیں۔ جس سے سارا بدن ایک جوڑ کی مدد سے پیوستہ ہو کر اور گٹھ کر اُس تاثیر کے مؤافق جو بقدرِ ہر حصہ ہوتی ہے اپنے آپ کو بڑھاتا ہے تاکہ محبت میں ترقی کرتا جائے۔“ (افسیوں ۴:۱۵، ۱۶) پس پولس بزرگوں سمیت کلیسیا کے دیگر ممبران کو ایک انسانی جسم سے تشبِیہ دیتا ہے۔ یہ ایک موزوں تمثیل کیوں ہے؟
۵ ایک انسانی جسم مختلف اعضاء سے تشکیل پاتا ہے مگر ایک ہی سر ہوتا ہے۔ تاہم، جسم میں کوئی بھی چیز—کوئی نس، کوئی شریان—بیکار نہیں ہے۔ ہر عضو بیشقیمت ہے اور پورے جسم کی صحت اور خوبصورتی کے سلسلے میں کوئی نہ کوئی کردار ادا کرتا ہے۔ اسی طرح، کلیسیا بہتیرے مختلف ارکان سے بنی ہوتی ہے، تاہم ہر رکن—بوڑھا یا جوان، قوی یا کمزور—کلیسیا کی مجموعی خوبصورتی اور روحانی فلاحوبہبود کے لئے کوئی نہ کوئی کردار ادا کر سکتا ہے۔ (۱-کرنتھیوں ۱۲:۱۴-۲۶) کسی کو بھی یہ نہیں سوچنا چاہئے کہ اس معاملے میں اُسکی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ دوسری جانب، کسی کو بھی برتر خیال نہیں کرنا چاہئے کیونکہ ہم سب—بھیڑیں اور چرواہے ایک ہی طرح سے—جسم کا حصہ ہیں، تاہم سر صرف ایک ہے یعنی مسیح۔ لہٰذا ہم سب کو ایک دوسرے کیلئے جو محبت، فکر اور احترام رکھنا چاہئے پولس اُس کی تصویرکشی کرتا ہے۔ اس بات کو تسلیم کرنے سے بزرگوں کی مدد ہوتی ہے کہ کلیسیا میں اپنے کردار کی بابت ایک فروتن اور متوازن نظریہ رکھیں۔
۶. رسولی اختیار رکھنے کے باوجود، پولس نے فروتن جذبے کا مظاہرہ کیسے کِیا؟
۶ ”آدمیوں [میں]“ یہ ”انعام“ اپنے ساتھی پرستاروں کے ایمان یا زندگیوں پر اختیار حاصل کرنے کی کوشش نہیں کرتے۔ پولس نے رسولی اختیار رکھنے کے باوجود، فروتنی سے کرنتھیوں کو بتایا: ”یہ نہیں کہ ہم ایمان کے بارے میں تم پر حکومت جتاتے ہیں بلکہ خوشی میں تمہارے مددگار ہیں کیونکہ تم ایمان ہی سے قائم رہتے ہو۔“ (۲-کرنتھیوں ۱:۲۴) پولس اپنے بھائیوں کے ایمان اور طرزِزندگی پر اختیار نہیں رکھنا چاہتا تھا۔ درحقیقت، اُس نے ایسا کرنے کی کوئی ضرورت ہی محسوس نہیں کی کیونکہ اُس نے اعتماد ظاہر کِیا کہ وہ وفادار مرد اور عورتیں پہلے ہی یہوواہ کی تنظیم میں تھے کیونکہ وہ درست کام کرنا چاہتے تھے۔ لہٰذا، اپنی اور اپنے ہمسفر تیمتھیس کی بابت بات کرتے ہوئے، پولس یہ کہہ رہا تھا: ’تمہارے ساتھ خوشی سے خدا کی خدمت کرنا ہماری ذمہداری ہے۔‘ (۲-کرنتھیوں ۱:۱) کیا ہی فروتن جذبہ!
۷. فروتن بزرگ کلیسیا میں اپنے کردار کی بابت کیا تسلیم کرتے ہیں اور اُنہیں اپنے ساتھی کارکنوں پر کیا اعتماد ہے؟
۷ ”آدمیوں [میں] انعام“ آجکل بھی یہی کام کرتے ہیں۔ وہ ’ہماری خوشی کے لئے ہمارے ساتھی کارکن‘ ہیں۔ فروتن بزرگ یہ تسلیم کرتے ہیں کہ اُنہیں یہ فیصلہ نہیں کرنا ہے کہ دوسرے خدا کی خدمت میں کیا کچھ کرنے کے قابل ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ وہ دوسروں کی اپنی خدمتگزاری کو وسیع کرنے یا بہتر بنانے کے لئے حوصلہافزائی کر سکتے ہیں، تاہم خدا کی خدمت کرنے کی خواہش اُن کے دل سے اُٹھنی چاہئے۔ (مقابلہ کریں ۲-کرنتھیوں ۹:۷۔) وہ پُراعتماد ہیں کہ اگر اُن کے ساتھی کارکن خوش ہیں تو وہ اپنی استطاعت کے مطابق سب کچھ کرینگے۔ پس ”خوشی سے [یہوواہ] کی [خدمت]“ کرنے میں اپنے بھائیوں کی مدد کرنا اُن کی دلی خواہش ہے۔—زبور ۱۰۰:۲۔
خوشی سے خدمت کرنے کیلئے سب کی مدد کرنا
۸. خوشی سے یہوواہ کی خدمت کرنے کیلئے بزرگ کن طریقوں سے اپنے بھائیوں کی مدد کر سکتے ہیں؟
۸ آپ جو بزرگ ہیں، آپ خوشی سے خدمت کرنے کے سلسلے میں اپنے بھائیوں کی مدد کیسے کر سکتے ہیں؟ آپ اپنے نمونہ سے حوصلہافزائی فراہم کر سکتے ہیں۔ (۱-پطرس ۵:۳) آپکو خدمتگزاری میں اپنے جوش اور خوشی کو ظاہر کرنا چاہئے اور اس سے دوسرے آپکے نمونہ کی پیروی کرنے کی حوصلہافزائی حاصل کر سکتے ہیں۔ پورے دلوجان سے کی جانے والی دوسروں کی کوششوں کی تعریف کریں۔ (افسیوں ۴:۲۹) گرمجوش اور حقیقی تعریف دوسروں کو کارآمد ہونے اور اپنائیت کا احساس دلاتی ہے۔ یہ بھیڑوں کی خدا کی خدمت میں بہترین چیز پیش کرنے کی خواہش رکھنے کیلئے حوصلہافزائی کرتی ہے۔ نامناسب موازنوں سے گریز کریں۔ (پیدایش ۶:۴) ایسے موازنے دوسروں کو بہتری لانے کی تحریک دینے کی بجائے بےحوصلہ کرتے ہیں۔ اسکے علاوہ، یہوواہ کی بھیڑیں ایسے اشخاص پر مشتمل ہیں—جنکے حالات اور لیاقتیں مختلف ہیں۔ پولس کی طرح، اپنے بھائیوں پر اعتماد ظاہر کریں۔ محبت ”سب کچھ یقین کرتی ہے،“ پس ہم یہ یقین کر کے اچھا کرتے ہیں کہ ہمارے بھائی خدا سے محبت رکھتے ہیں اور اُسے خوش کرنا چاہتے ہیں۔ (۱-کرنتھیوں ۱۳:۷) جب آپ ’دوسروں کو عزت دیتے ہیں‘ تو آپ اُنکی بہترین صلاحتیوں کو اُبھارتے ہیں۔ (رومیوں ۱۲:۱۰) یقین رکھیں کہ جب بھیڑوں کی حوصلہافزائی کی جاتی ہے اور اُنہیں تازگی فراہم کی جاتی ہے تو اُن میں سے بیشتر خدا کی خدمت میں اپنی استطاعت کے مطابق سب کچھ کرینگے اور اُس خدمت سے خوشی حاصل کرینگے۔—متی ۱۱:۲۸-۳۰۔
۹. ساتھی بزرگوں کیلئے کونسا نقطۂنظر ہر بزرگ کو خوشی سے خدمت کرنے میں مدد دیگا؟
۹ فروتنی سے خود کو ”ساتھی کارکن‘ سمجھنے سے آپکی مدد ہو گی کہ خوشی سے خدمت کریں اور اپنے ساتھی بزرگوں کے منفرد انعامات کی قدر کریں۔ ہر بزرگ کی اپنی لیاقتیں اور صلاحتیں ہیں جنہیں وہ کلیسیا کے مفاد کیلئے استعمال کر سکتا ہے۔ (۱-پطرس ۴:۱۰) شاید ایک کو تعلیم دینے کی نعمت حاصل ہو۔ دوسرا شاید ایک ممتاز منتظم ہو۔ کوئی دوسرا شاید اپنی گرمجوشی اور شفقت کے سبب سے بہت زیادہ قابلِرسائی ہو۔ یہ حقیقت ہے کہ ہر بزرگ کے پاس ہر نعمت ایک جیسی نہیں ہوتی۔ کیا کسی خاص نعمت کا ہونا—مثلاً تعلیم دینے کی نعمت—ایک بزرگ کو دوسرے سے برتر بنا دیتی ہے؟ ہرگز نہیں! (۱-کرنتھیوں ۴:۷) اس کے برعکس، کسی دوسرے کی نعمت سے کینہ رکھنے یا جب کسی بزرگ کی لیاقت کی وجہ سے اُس کی تعریف کی جاتی ہے تو نااہل محسوس کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ یاد رکھیں کہ آپ کی اپنی بخششیں ہیں جنہیں یہوواہ دیکھتا ہے۔ لہٰذا وہ اُن بخششوں کو بہتر بنانے اور اپنے بھائیوں کے مفاد کے لئے اُنہیں استعمال کرنے میں آپکی مدد کر سکتا ہے۔—فلپیوں ۴:۱۳۔
’فرمانبردار اور تابعدار بنیں‘
۱۰. ”آدمیوں [میں] انعاموں“ کیلئے قدردانی ہی کا اظہار کرنا کیوں موزوں ہے؟
۱۰ جب ہمیں کوئی انعام حاصل ہوتا ہے تو قدردانی کا اظہار کرنا مناسب ہے۔ ”تم شکرگزار ہو،“ کلسیوں ۳:۱۵ کہتی ہے۔ تاہم، ”آدمیوں [میں] انعاموں“ کی بابت کیا ہے، بیشقیمت انعام جو یہوواہ نے ہمیں دیا ہے؟ بلاشُبہ، ہم بنیادی طور پر یہوواہ کے شکرگزار ہیں جو فیاضی سے انعام دینے والا ہے۔ تاہم خود ”آدمیوں [میں] انعاموں“ کی بابت کیا ہے؟ ہم کیسے ظاہر کر سکتے ہیں کہ ہم اُنکی قدر کرتے ہیں؟
۱۱. (ا) ہم ”آدمیوں [میں] انعاموں“ کیلئے اپنی قدردانی کیسے دکھا سکتے ہیں؟ (ب) ”فرمانبردار“ اور ”تابع“ رہنے کی اصطلاحات کی اہمیت کیا ہے؟
۱۱ ہم ”آدمیوں [میں] انعاموں“ کی بائبل پر مبنی مشورت اور فیصلوں پر جلدی دھیان دینے سے اُن کیلئے اپنی قدردانی کا اظہار کر سکتے ہیں۔ بائبل ہمیں مشورت دیتی ہے: ”اپنے پیشواؤں کے فرمانبردار اور تابع رہو کیونکہ وہ تمہاری روحوں کے فائدہ کے لئے انکی طرح جاگتے رہتے ہیں جنہیں حساب دینا پڑیگا تاکہ وہ خوشی سے یہ کام کریں نہ کہ رنج سے کیونکہ اس صورت میں تمہیں کچھ فائدہ نہیں۔“ (عبرانیوں ۱۳:۱۷) غور کریں کہ ہمیں ”فرمانبردار“ ہونے کے علاوہ پیشوائی کرنے والوں کے ”تابع“ بھی رہنا ہے۔ ”تابعدار“ کیلئے یونانی لفظ کا مطلب ”ہدایت کے مطابق عمل کرنے والا ہے“، ”فرمانبردار“ اور ”تابع رہنے“ کی اصطلاحات پر تبصرہ کرتے ہوئے بائبل عالم آر. سی. ایچ. لینسکی بیان کرتا ہے: ”ایک شخص اُس وقت فرمانبرداری کرتا ہے جب وہ اُس بات سے اتفاق کرتا ہے جو اُس سے کرنے کیلئے کہی گئی ہے اور اُسکی صداقت اور افادیت کا قائل ہے؛ ایک شخص اُس وقت ماننے والا [تابعدار] ہوتا ہے . . . جب وہ مختلف نقطۂنظر رکھتا ہے۔“ جب ہم سمجھتے ہیں اور پیشوائی کرنے والوں کی راہنمائی سے رضامندی سے متفق ہوتے ہیں تو فرمانبرداری خودبخود کی جاتی ہے۔ تاہم اُس وقت کیا ہو جب ہم کسی خاص فیصلے کی وجہ نہیں سمجھ سکتے؟
۱۲. ہمیں کسی خاص فیصلے کی پوری سمجھ نہ حاصل ہونے پر بھی تابع یا ہدایت کے مطابق عمل کرنے کی ضرورت کیوں ہے؟
۱۲ یہاں پر ہمیں تابعدار یا ماننے والا ہونے کی ضرورت ہے۔ کیوں؟ ایک وجہ تو یہ ہے کہ ہمیں بھروسہ رکھنے کی ضرورت ہے کہ روحانی طور پر یہ لائق اشخاص ہماری بہتری چاہتے ہیں۔ بہرحال، وہ جانتے ہیں کہ وہ اپنے سپرد کی گئی بھیڑوں کے لئے یہوواہ کے حضور جوابدہ ہیں۔ (یعقوب ۳:۱) مزیدبرآں، ہم یہ یاد رکھ کر اچھا کرتے ہیں کہ شاید ہم اُن تمام خفیہ حقائق سے واقف نہ ہوں جن کے تحت انہوں نے کوئی باشعور فیصلہ کِیا ہے۔—امثال ۱۸:۱۳۔
۱۳. جب بزرگوں کے عدالتی فیصلوں کی بات آتی ہے تو کیا چیز ہمیں تابع رہنے میں مدد دے سکتی ہے؟
۱۳ جب عدالتی فیصلوں کی بات آتی ہے تو تابع رہنے کی بابت کیا ہے؟ درست ہے کہ یہ شاید آسان نہ ہو، بالخصوص اُس وقت جب ہمارے کسی عزیز—قریبی دوست یا رشتےدار کو خارج کرنے کا فیصلہ کِیا جاتا ہے۔ اس صورتحال میں بھی، ”آدمیوں [میں] انعاموں“ کے فیصلوں کو ماننا بہترین ہے۔ وہ ہم سے زیادہ واقعیتپسندانہ حالت میں ہیں اور وہ حقائق کی بابت شاید ہم سے زیادہ جانتے ہوں۔ ایسے فیصلے کرتے وقت یہ بھائی تکلیفدہ حالت سے گزرتے ہیں؛ ’[یہوواہ] کی طرف سے عدالت کرنا‘ سنجیدہ ذمہداری ہے۔ (۲-تواریخ ۱۹:۶) وہ رحم کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں کیونکہ وہ یاد رکھتے ہیں کہ خدا ”معاف کرنے کو تیار“ ہے۔ (زبور ۸۶:۵) تاہم اُنہیں کلیسیا کو پاکصاف بھی رکھنا ہے اور بائبل کی ہدایت کے مطابق غیرتائب خطاکاروں کو خارج بھی کرتے ہیں۔ (۱-کرنتھیوں ۵:۱۱-۱۳) کئی معاملات میں تو خود خطاکار فیصلے کو قبول کر لیتا ہے۔ تادیب شاید اس لئے کی جاتی ہے کہ اُس کی ذہنی حالت بحال کرنے کے لئے اُسے تربیت کی ضرورت ہے۔ اگر ہم اُس سے محبت کرتے ہیں اور فیصلے کے وقت تابع رہتے ہیں تو ہم اُسے تربیت سے مستفید ہونے میں مدد دے رہے ہوتے ہیں۔—عبرانیوں ۱۲:۱۱۔
”اُنکی بڑی عزت کرو“
۱۴، ۱۵. (ا) ۱-تھسلنیکیوں ۵:۱۲، ۱۳ کے مطابق بزرگ ہماری عزت کے مستحق کیوں ہیں؟ (ب) یہ کیوں کہا جا سکتا ہے کہ بزرگ ’ہم میں محنت کرتے ہیں‘؟
۱۴ ہم ”آدمیوں [میں] انعاموں“ کی عزت کرنے سے بھی اُن کیلئے قدردانی دکھا سکتے ہیں۔ تھسلنیکے میں کلیسیا کو لکھتے وقت پولس اُسکے ممبران کو نصیحت کرتا ہے: ”جو تُم میں محنت کرتے اور خداوند میں تمہارے پیشوا ہیں اور تُم کو نصیحت کرتے ہیں اُنہیں مانو۔ اور اُنکے کام کے سبب سے محبت کے ساتھ اُنکی بڑی عزت کرو۔“ (۱-تھسلنیکیوں ۵:۱۲، ۱۳) ”محنت کرنا“—کیا یہ عقیدتمند بزرگوں کی تصویرکشی نہیں کرتا جو خود کو ہمارے لئے بےغرضانہ طور پر وقف کر دیتے ہیں؟ ذرا اُس بھاری بوجھ کی بابت سوچیں جو یہ بھائی اُٹھائے ہوئے ہیں۔
۱۵ بیشتر معاملات میں ان کے اپنے خاندان ہیں، اُنہیں اپنے خاندانوں کی ضروریات پوری کرنے کیلئے دنیاوی ملازمت کرنی پڑتی ہے۔ (۱-تیمتھیس ۵:۸) اگر کسی بزرگ کے بچے ہیں تو اُنہیں اپنے والد کی طرف سے وقت اور توجہ کی ضرورت ہے۔ اُسے سکول کے کام میں اور صحتمندانہ تفریح میں اُنکی جوانی کی توانائی کو استعمال میں لانے کیلئے کچھ وقت صرف کرنے کی ضرورت ہو سکتی ہے۔ (واعظ ۳:۱، ۴) سب سے اہم بات یہ ہے کہ وہ باقاعدگی سے خاندانی بائبل مطالعہ کرانے، میدانی خدمتگزاری میں اُنکے ساتھ کام کرنے اور اُنہیں مسیحی اجلاسوں پر لے جانے سے اپنے خاندان کی روحانی ضروریات کا خیال رکھتا ہے۔ (استثنا ۶:۴-۷؛ افسیوں ۶:۴) ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ ان بہت سی ذمہداریوں کے علاوہ جن سے ہم واقف ہیں، بزرگوں کی اضافی ذمہداریاں بھی ہیں: اجلاسوں کے حصوں کی تیاری کرنا، گلّہبانی کی ملاقاتیں کرنا، کلیسیا کی روحانی فلاح کی دیکھبھال کرنا اور حسبِضرورت عدالتی معاملات سے نپٹنا۔ بعض سرکٹ اسمبلیوں، ڈسٹرکٹ کنونشنوں، کنگڈم ہال تعمیر کرنے اور ہسپتال رابطہ کمیٹیوں کے حوالے سے اضافی ذمہداریاں رکھتے ہیں۔ یہ بھائی واقعی ”محنت“ کرتے ہیں!
۱۶. ایسے طریقے بیان کریں جن سے ہم بزرگوں کیلئے عزت دکھا سکتے ہیں۔
۱۶ ہم اُنکے لئے کیسے عزت دکھا سکتے ہیں؟ ایک بائبل مثل کہتی ہے: ”باموقع بات کیا خوب ہے!“ (امثال ۱۵:۲۳؛ ۲۵:۱۱) پس پُرخلوص قدردانی اور حوصلہافزائی کے اظہارات اُن پر عیاں کر سکتے ہیں کہ ہم اُنکے کام کو معمولی خیال نہیں کرتے۔ نیز، ہمیں اُن سے معقول توقع کرنی چاہئے۔ ایک طرف تو ہمیں مدد کیلئے اُن کے پاس بِلاجھجھک جانا چاہئے۔ بعضاوقات ’ہمارا دل بیتاب ہو سکتا ہے‘ اور ہمیں خدا کے کلام کی ”تعلیم دینے کے لائق“ اشخاص کی طرف سے روحانی حوصلہافزائی، راہنمائی، مشورت کی ضرورت ہوتی ہے۔ (زبور ۵۵:۴؛ ۱-تیمتھیس ۳:۲) تاہم، ہمیں یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ کوئی بزرگ ہمیں محدود وقت ہی دے سکتا ہے کیونکہ وہ کلیسیا میں دوسروں یا اپنے خاندان کی ضروریات کو نظرانداز نہیں کر سکتا۔ سخت محنت کرنے والے ان بھائیوں کیساتھ ”ہمدرد“ ہونے سے ہم اُن سے غیرمعقول تقاضے نہیں کرینگے۔ (۱-پطرس ۳:۸) اس کی بجائے، وقت اور توجہ جو وہ آسانی سے ہمیں دے سکتے ہیں ہمیں اُس کی قدر کرنی چاہئے۔—فلپیوں ۴:۵۔
۱۷، ۱۸. وہ بیویاں کیا قربانیاں دیتی ہیں جنکے خاوند بزرگ ہیں اور ہم کیسے ظاہر کر سکتے ہیں کہ ہم ان وفادار بہنوں کو کماہم خیال نہیں کرتے؟
۱۷ بزرگوں کی بیویوں کے متعلق کیا ہے؟ کیا وہ بھی ہماری طرف سے عزت کی مستحق نہیں ہیں؟ بہرصورت وہ بھی تو اپنے شوہروں کو کلیسیا کے کام کے لئے اجازت دیتی ہیں۔ اکثراوقات یہ اُن سے قربانیوں کا تقاضا کرتا ہے۔ اکثروبیشتر، بزرگوں کے شام کے اوقات کلیسیائی معاملات کی دیکھبھال کرنے کی نظر ہو جاتے ہیں جو کہ بصورتِدیگر وہ اپنے خاندانوں کے ساتھ صرف کر سکتے ہیں۔ بہتیری کلیسیاؤں میں وفادار مسیحی خواتین رضامندی سے ایسی قربانیاں دے رہی ہیں تاکہ اُن کے شوہر یہوواہ کی بھیڑوں کی دیکھبھال کر سکیں۔—مقابلہ کریں ۲-کرنتھیوں ۱۲:۱۵۔
۱۸ ہم کیسے ظاہر کر سکتے ہیں کہ ہم ان وفادار مسیحی بہنوں کو کماہم خیال نہیں کرتے؟ یقیناً نامعقول طریقے سے اُن کے شوہروں سے تقاضا نہ کرنے سے ہم ایسا کر سکتے ہیں۔ تاہم ہمیں قدردانی کے معمولی الفاظ کو نہیں بھولنا چاہئے۔ امثال ۱۶:۲۴ کہتی ہے: ”دلپسند باتیں شہد کا چھتا ہیں وہ جی کو میٹھی لگتی ہیں اور ہڈیوں کے لئے شفا ہیں۔“ ایک تجربے پر غور کریں۔ ایک اجلاس کے ختم ہونے کے بعد ایک بیاہتا جوڑا ایک بزرگ کے پاس آیا اور اپنے نوعمر لڑکے کی بابت بات کرنا چاہی۔ جب بزرگ جوڑے سے گفتگو کر رہا تھا تو اُسکی بیوی صبر سے انتظار کر رہی تھی۔ اسکے بعد، ماں بزرگ کی بیوی کے پاس گئی اور کہا: ”مَیں اُس وقت کیلئے شکرگزار ہوں جو آپکے خاوند نے میرے خاندان کی مدد کیلئے دیا ہے۔“ ان سادہ اور دلکش الفاظ نے بزرگ کی بیوی کے دل پر گہرا اثر کِیا۔
۱۹. (ا) مجموعی طور پر، بزرگ وفاداری سے کیا مقاصد سرانجام دے رہے ہیں؟ (ب) ہم سب کو کیا کرنے کا عزم کرنا چاہئے؟
۱۹ یہوواہ کی بھیڑوں کی دیکھبھال کرنے کیلئے بزرگوں کی فراہمی ’اچھی بخشش‘ ہے۔ (یعقوب ۱:۱۷) یہ اشخاص کسی بھی طرح کامل نہیں ہیں؛ ہماری طرح وہ بھی غلطیاں کرتے ہیں۔ (۱-سلاطین ۸:۴۶) تاہم، مجموعی طور پر، بزرگ پوری دُنیا میں وفاداری سے بحال کرنے، ترقی دینے، متحد کرنے اور گلّے کی حفاظت کرنے کے یہوواہ کے مقاصد کو پورا کر رہے ہیں۔ دُعا ہے کہ ہر بزرگ مشفقانہ طریقے سے یہوواہ کی بھیڑوں کی دیکھبھال کرنے کا عزم کرے اور یوں خود کو اپنے بھائیوں کیلئے انعام یا برکت ثابت کرے۔ پس آئیے ہم سب ”آدمیوں [میں] انعاموں“ کے فرمانبردار اور تابع رہنے اور اُنکی محنت کی عزت کرنے سے اُن کیلئے قدردانی دکھانے کیلئے عزمِمُصمم کریں۔ ہم کتنے شکرگزار ہو سکتے ہیں کہ یہوواہ نے پُرمحبت طور پر ان آدمیوں کو فراہم کِیا ہے جو اُسکی بھیڑوں سے کہتے ہیں: ’خوشی سے خدا کی خدمت کرنے میں آپکی مدد کرنا ہماری ذمہداری ہے‘!
آپ کیسے جواب دینگے؟
◻کلیسیا کو موزوں طور پر بدن سے تشبِیہ کیوں دی جا سکتی ہے؟
◻بزرگ خوشی سے یہوواہ کی خدمت کرنے میں اپنے بھائیوں کی مدد کیسے کر سکتے ہیں؟
◻ہمیں پیشوائی کرنے والوں کے نہ صرف فرمانبردار بلکہ تابع بھی کیوں رہنا چاہئے؟
◻کن طریقوں سے ہم بزرگوں کیلئے عزت دکھا سکتے ہیں؟
[صفحہ 16 پر تصویر]
بزرگ، پورے دلوجان سے کی جانے والی دوسروں کی کوششوں کی تعریف کرتے ہیں
[صفحہ 17 پر تصویر]
خدمتگزاری میں اپنے سرگرم نمونہ سے، بزرگ خاندان کے افراد اور دوسروں کی خوشی سے خدمت کرنے میں مدد کر سکتے ہیں
[صفحہ 18 پر تصویر]
ہم محنتی بزرگوں کی قدر کرتے ہیں!