پریشانی سے مغلوب نہ ہوں
”کل کے لئے فکر نہ کرو کیونکہ کل کا دن اپنے لئے آپ فکر کر لے گا۔ آج کیلئے آج ہی کا دُکھ کافی ہے۔“ (متی ۶:۳۴) یسوع کی طرف سے دی گئی یہ مشورت ہم سب کیلئے بھی عملی ہے جو آج کے تیزرفتار اور دباؤ سے پُر معاشرے میں رہتے ہیں۔
تاہم کیا واقعی یہ ممکن ہے کہ ہم اپنے مسائل، فیصلوں، فرائض اور ذمہداریوں کی بابت پریشان نہ ہوں؟ لاکھوں لوگ افسردہ، رنجیدہ اور بوجھ تلے دبے ہوئے محسوس کرتے ہیں۔ اسی لئے خوابآور اور نشہآور ادویات کروڑوں کا کاروبار کر رہی ہیں۔
حد کہاں مقرر کریں
ہمیں اپنی ذمہداریوں، تفویضات، فیصلوں اور مسائل کے لئے تیاری اور منصوبہسازی کرنے کی ضرورت ہے—خواہ وہ فوری نوعیت کے حامل ہیں یا نہیں۔ بائبل ہماری حوصلہافزائی کرتی ہے کہ ہم کسی بڑے کام کا بیڑا اُٹھانے سے ”پہلے بیٹھ کر لاگت کا حساب“ لگائیں۔ (لوقا ۱۴:۲۸-۳۰) اس میں دستیاب انتخابات پر غور کرنا، نتائج کے ممکنہ اثرات کا تجزیہ کرنا، نیز وقت، توانائی اور پیسوں کی صورت میں لاگت کا تعیّن کرنا شامل ہے۔
اگرچہ کسی شخص کو احتیاط کیساتھ اس بات پر غور کرنا چاہئے کہ کیا کچھ واقع ہو سکتا ہے تو بھی ہر امکانی صورتحال کی بابت سوچنے کی کوشش کرنا ممکن یا مفید نہیں ہے۔ مثال کے طور پر، اپنے خاندان کے تحفظ کے پیشِنظر شاید آپ اس بات پر غور کریں کہ گھر میں آگ لگنے کی صورت میں کیا کِیا جانا چاہئے۔ آپ شاید دھوئیں کی نشاندہی کرنے اور آگ بجھانے والے آلات خرید کر گھر میں نصب کرائیں۔ آپ شاید گھر کے مختلف حصوں سے باہر نکلنے کے راستوں کی بابت منصوبہ بنائیں اور اُس کی مشق بھی کریں۔ تاہم معقول، عملی منصوبہسازی کب ختم ہوتی ہے اور شدید، بِلاجواز پریشانی شروع ہوتی ہے؟ ایسی پریشانی کا آغاز اُس وقت ہوتا ہے جب آپ ایسی لاتعداد فرضی حالتوں کی بابت سوچ کر ذہنی کوفت میں مبتلا ہونے لگتے ہیں جن میں سے اکثر شاید تخیل کی پیداوار ہوں۔ تشویشناک خیالات آپ کو مغلوب کر کے یہ سوچنے پر مجبور کر سکتے ہیں کہ آپ نے کچھ چیزوں کو ضرور نظرانداز کر دیا ہے یا اپنے خاندان کے تحفظ کیلئے مناسب بندوبست نہیں کِیا ہے۔ یہ خودساختہ پریشانی آپ کے ذہن پر اتنی مسلّط ہو سکتی ہے کہ آپ کی نیند حرام ہو جائے۔
موسیٰ فرعون کے رُوبُرو
یہوواہ خدا نے اپنے نبی موسیٰ کو ایک مشکل تفویض سونپی۔ سب سے پہلے تو موسیٰ کو اسرائیلیوں کے پاس جا کر اُنہیں یقین دلانا تھا کہ یہوواہ نے اُسے انہیں مصر سے نکال لے جانے کیلئے مقرر کِیا ہے۔ اسکے بعد اُسے فرعون کے سامنے جا کر درخواست کرنی تھی کہ وہ اسرائیلیوں کو جانے دے۔ آخر میں موسیٰ کو لاکھوں لوگوں کے ایک ازدحام کو بیابان میں سے اُس ملک میں لے جانا تھا جس پر اُنکے دشمن قابض تھے۔ (خروج ۳:۱-۱۰) یہ سب بہت خوفزدہ کرنے والا ہو سکتا تھا لیکن کیا موسیٰ نے اس ذمہداری کو غیرضروری ذہنی پریشانی کا سبب بننے کی اجازت دی تھی؟
واضح طور پر، موسیٰ بہت سے معاملات کی بابت فکرمند تھا۔ اُس نے یہوواہ سے استفسار کِیا: ”جب مَیں بنیاسرائیل کے پاس جا کر ان کو کہوں کہ تمہارے باپ دادا کے خدا نے مجھے تمہارے پاس بھیجا ہے اور وہ مجھے کہیں کہ اُسکا نام کیا ہے؟ تو مَیں انکو کیا بتاؤں؟“ یہوواہ نے اُسے جواب فراہم کِیا۔ (خروج ۳:۱۳، ۱۴) موسیٰ اس کی بابت بھی فکرمند تھا کہ اگر فرعون نے اُسکا یقین نہ کِیا تو کیا ہوگا۔ یہوواہ نے پھر نبی کو جواب فراہم کِیا۔ ایک آخری مسئلہ—موسیٰ نے تسلیم کِیا کہ ”مَیں فصیح نہیں۔“ اسکا حل کیا ہو سکتا تھا؟ یہوواہ نے ہارون کو موسیٰ کی طرف سے بولنے کیلئے مقرر کِیا۔—خروج ۴:۱-۵، ۱۰-۱۶۔
اپنے سوالوں کے جوابات سے لیس اور خدا پر ایمان کیساتھ موسیٰ نے یہوواہ کے حکم کی تعمیل کی۔ خوفزدہ کرنے والے خیالات سے خود کو پریشان کرنے کی بجائے کہ جب وہ فرعون کا سامنا کرے گا تو کیا ہوگا موسیٰ نے ”ویسا ہی کِیا۔“ (خروج ۷:۶) اگر وہ پریشانیوں کو غالب آنے کی اجازت دے دیتا تو یہ اُس کی تفویض کو پورا کرنے کیلئے درکار ایمان اور جرأت کو کمزور کر سکتی تھیں۔
موسیٰ نے جس متوازن طریقے سے اپنی تفویض کو پورا کِیا وہ پولس رسول کے مطابق ”ذہنی پختگی“ کی مثال ہے۔ (۲-تیمتھیس ۱:۷، اینڈبلیو؛ ططس ۲:۲-۶) اگر موسیٰ ذہنی پختگی کا مظاہرہ نہ کرتا تو وہ اپنی تفویض کی بھاری ذمہداری کے احساس تلے دب کر اسے قبول کرنے سے بڑی آسانی سے انکار کر سکتا تھا۔
اپنے خیالات پر قابو رکھنا
جب روزمرّہ زندگی میں آپ کو اپنے ایمان کے امتحانات یا آزمائشوں کا سامنا ہوتا ہے تو آپ کیسا ردِعمل دکھاتے ہیں؟ کیا آپ درپیش رکاوٹوں اور چیلنجوں کی بابت سوچتے ہوئے حد سے زیادہ پریشان ہو جانے کا میلان رکھتے ہیں؟ یا کیا آپ اُن کی بابت متوازن سوچ رکھتے ہیں؟ جیساکہ بعض کہتے ہیں، ’پُل پر پہنچنے سے پہلے اسے پار نہ کریں۔‘ شاید اس خیالی پُل کو پار کرنے کی کوئی ضرورت ہی نہ ہو! تو پھر اُس چیز کے باعث کیوں پریشان ہوں جو شاید کبھی واقع ہی نہ ہو؟ بائبل کہتی ہے: ”آدمی کا دل فکرمندی سے دب جاتا ہے۔“ (امثال ۱۲:۲۵) اسکا نتیجہ اکثر یہ ہوتا ہے کہ فیصلہ کرنے والا اتنی دیر کر دیتا ہے کہ موقع ہاتھ سے نکل جاتا ہے۔
بِلاجواز پریشانی کی وجہ سے سب سے زیادہ روحانی نقصان ہو سکتا ہے۔ یسوع مسیح نے آگاہ کِیا کہ دولت کے پُرفریب اثر اور ”دُنیا کی فکر“ کے باعث ”بادشاہی کے کلام“ کیلئے قدردانی بالکل ختم ہو سکتی ہے۔ (متی ۱۳:۱۹، ۲۲) جیسے جھاڑیاں ننھے پودوں کو بڑھنے اور پھل لانے سے روک سکتی ہیں اُسی طرح بےقابو پریشانی ہمیں روحانی ترقی کرنے اور خدا کی تعریف کے لائق پھل پیدا کرنے سے روک سکتی ہے۔ اس خودساختہ، تباہکُن پریشانی نے بعض کو یہوواہ کیلئے اپنی زندگیاں مخصوص کرنے سے بھی روک رکھا ہے۔ اُنکی پریشانی یہ ہے کہ ’اگر مَیں اپنی مخصوصیت کے مطابق زندگی بسر نہ کر سکا تو کیا ہو گا؟‘
پولس رسول نے ہمیں بتایا کہ ہم اپنی روحانی جنگ میں ”ہر ایک خیال کو قید کر کے مسیح کا فرمانبردار“ بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ (۲-کرنتھیوں ۱۰:۵) ہمارا سب سے بڑا دشمن شیطان ابلیس ہمیں جسمانی، جذباتی اور روحانی طور پر بےحوصلہ اور کمزور کرنے کیلئے ہماری پریشانیوں سے فائدہ اُٹھا کر بہت خوش ہوگا۔ وہ خدشات کو استعمال کر کے غافلوں کو پھنسانے میں ماہر ہے۔ اسی لئے پولس نے مسیحیوں کو اس بات سے بھی آگاہ کِیا کہ ”ابلیس کو موقع نہ“ دیں۔ (افسیوں ۴:۲۷) ”اِس جہان کے خدا“ کے طور پر شیطان نے بڑی کامیابی سے ”بےایمانوں . . . کی عقلوں کو . . . اندھا کر دیا ہے۔“ (۲-کرنتھیوں ۴:۴) دُعا ہے کہ ہم کبھی بھی اُسے اپنے ذہنوں پر قبضہ نہ کرنے دیں!
مدد دستیاب ہے
جب مسائل کا سامنا ہو تو ایک بچہ اپنے شفیق باپ کے پاس جا کر رہنمائی اور تسلی حاصل کر سکتا ہے۔ اسی طرح سے ہم اپنے مسائل کے ساتھ اپنے آسمانی باپ یہوواہ کے پاس جا سکتے ہیں۔ درحقیقت، یہوواہ ہمیں اپنے بوجھ اور پریشانیاں اُس پر ڈال دینے کی دعوت دیتا ہے۔ (زبور ۵۵:۲۲) ایک بچے کی طرح جو اپنے باپ کی طرف سے یقیندہانی کے بعد پریشان نہیں ہوتا ہمیں بھی نہ صرف اپنے بوجھ یہوواہ پر ڈال دینے چاہئیں بلکہ اُنکو اُس پر چھوڑ دینا چاہئے۔—یعقوب ۱:۶۔
ہم اپنی پریشانیاں یہوواہ پر کیسے ڈال سکتے ہیں؟ فلپیوں ۴:۶، ۷ جواب دیتی ہے: ”کسی بات کی فکر نہ کرو بلکہ ہر ایک بات میں تمہاری درخواستیں دُعا اور منت کے وسیلہ سے شکرگزاری کے ساتھ خدا کے سامنے پیش کی جائیں۔ تو خدا کا اطمینان جو سمجھ سے بالکل باہر ہے تمہارے دلوں اور خیالوں کو مسیح یسوؔع میں محفوظ رکھیگا۔“ جیہاں، ہماری مسلسل دُعاؤں اور مناجات کے جواب میں یہوواہ ہمیں ایسا باطنی اطمینان بخش سکتا ہے جو ہمارے ذہنوں کو غیرضروری پریشانیوں کے دباؤ سے بچائے رکھے گا۔—یرمیاہ ۱۷:۷، ۸؛ متی ۶:۲۵-۳۴۔
تاہم، اپنی دُعاؤں کی مطابقت میں عمل کرتے ہوئے ہمیں خود کو ذہنی یا جسمانی طور پر الگ نہیں کر لینا چاہئے۔ (امثال ۱۸:۱) اسکے برعکس اپنے فہم پر تکیہ کرنے سے گریز کرتے ہوئے اپنے مسئلے سے متعلق بائبل اصولوں اور ہدایات پر غور کرنا ہمارے لئے اچھا ہوگا۔ (امثال ۳:۵، ۶) نوجوان اور عمررسیدہ دونوں فیصلے کرنے اور مسائل سے نپٹنے کیلئے بائبل اور واچ ٹاور کی مطبوعات سے وسیع معلومات حاصل کر سکتے ہیں۔ مزیدبرآں، مسیحی کلیسیا میں ہمیں دانشمند اور تجربہکار بزرگوں اور دوسرے پُختہ مسیحیوں کی برکت حاصل ہے جو ہمیشہ ہمارے ساتھ باتچیت کرنے کو تیار رہتے ہیں۔ (امثال ۱۱:۱۴؛ ۱۵:۲۲) جو لوگ ہمارے مسائل سے جذباتی طور پر وابستہ نہیں اور خدائی سوچ رکھتے ہیں وہ مسائل کو مختلف زاویے سے دیکھنے میں ہماری مدد کر سکتے ہیں۔ اگرچہ وہ ہمارے لئے فیصلے تو نہیں کرتے تو بھی وہ بڑے اطمینان اور حوصلہافزائی کا باعث ہو سکتے ہیں۔
”خدا سے اُمید رکھ“
کوئی بھی اس بات سے انکار نہیں کر سکتا کہ خیالی مسائل کی بابت فکرمند ہونا تو درکنار اپنے روزمرّہ حقیقی مسائل سے نپٹنا ہی بڑے دباؤ کا سبب بنتا ہے۔ مستقبل میں جو کچھ واقع ہو سکتا ہے اگر اُسکی بابت فکر ہمیں مضطرب اور خوفزدہ کرتی ہے تو آیئے دُعا اور مناجات کے ذریعے یہوواہ کی طرف رجوع کریں۔ راہنمائی، فہم اور ذہنی پختگی کیلئے اُسکے کلام اور تنظیم کی طرف متوجہ ہوں۔ ہم دیکھیں گے کہ حالات کیسے بھی ہوں اُن سے نپٹنے کیلئے مدد دستیاب ہوگی۔
زبور نویس نے بوجھ سے دبے ہوئے دل کیساتھ مضطرب ہو کر نغمہسرائی کی: ”اَے میری جان تُو کیوں گری جاتی ہے؟ تُو اندر ہی اندر کیوں بےچین ہے؟ خدا سے اُمید رکھ کیونکہ وہ میرے چہرے کی رونق اور میرا خدا ہے۔ مَیں پھر اُسکی ستایش کرونگا۔“ (زبور ۴۲:۱۱) ہمیں بھی ایسا ہی محسوس کرنا چاہئے۔
جیہاں، معقول طور پر متوقع حالات کے پیشِنظر منصوبہسازی کریں اور غیرمتوقع حالات کو یہوواہ پر چھوڑ دیں۔ ”اپنی ساری فکر اُس پر ڈال دو کیونکہ اُسکو تمہاری فکر ہے۔“—۱-پطرس ۵:۷۔
[صفحہ 23 پر تصویر]
کیا داؤد کی طرح آپ بھی اپنے بوجھ اور پریشانیاں یہوواہ پر ڈالتے ہیں؟