اپنی لیاقت کو اپنی کمزوری نہ بننے دیں
پُرآسائش ٹائیٹینک میں ۱۶ مضبوط واٹرپروف کمرے تھے جسکی وجہ سے یہ خیال کِیا جاتا تھا کہ یہ کبھی ڈوب نہیں سکتا۔ سن ۱۹۱۲ میں پہلے سفر کے دوران اس میں درکار لائف بوٹس کی صرف نصف تعداد موجود تھی۔ جہاز برف کے ایک تودے سے ٹکرا کر ڈوب گیا اور تقریباً ۱،۵۰۰ سے زیادہ جانیں ضائع ہو گئیں۔
قدیم یروشلیم کا خداترس بادشاہ عزیاہ ایک ذہین فوجی کمانڈر تھا۔ یہوواہ کی مدد سے اُس نے یکےبعددیگرے اپنے دُشمنوں کو شکست دی۔ ”سو اُس [عزیاہ] کا نام دُور تک پھیل گیا کیونکہ اُسکی مدد ایسی عجیب طرح سے ہوئی کہ وہ زورآور ہو گیا۔“ لیکن اسکے بعد ”اُسکا دل اس قدر پھول گیا کہ وہ . . . [یہوواہ] اپنے خدا کی نافرمانی کرنے لگا۔“ عزیاہ اپنے تکبّر کی وجہ سے کوڑھ میں مبتلا ہو گیا تھا۔—۲-تواریخ ۲۶:۱۵-۲۱؛ امثال ۱۶:۱۸۔
یہ دونوں سرگزشتیں ہمیں سکھاتی ہیں کہ جب لیاقتوں کو حکمت، انکساری اور فروتنی کیساتھ متوازن نہیں کِیا جاتا تو یہ بڑی آسانی کیساتھ کمزوریاں یا خامیاں بن سکتی ہیں۔ یہ ہر لحاظ سے سنجیدہ بات ہے کیونکہ ہم سب کسی نہ کسی طرح کی لیاقتوں یا قابلیتوں کے مالک ہیں اور ہم چاہتے ہیں کہ یہ ہمارے لئے اور دوسروں کیلئے بالخصوص ہمارے خالق کیلئے ایک اثاثہ اور خوشی کا باعث ثابت ہوں۔ بِلاشُبہ، ہمیں ہر خداداد نعمت سے پورا پورا فائدہ اُٹھانا چاہئے لیکن اس کیساتھ ساتھ اسے اس طرح سے عمل میں بھی لانا چاہئے کہ یہ ایک قیمتی اثاثہ ہی بنی رہے۔
مثال کے طور پر، اپنے کام سے لگاؤ رکھنے والا شخص حد سے زیادہ کام کرنے سے بڑی آسانی کیساتھ اس نعمت کو کمزوری میں بدل سکتا ہے۔ ایک محتاط شخص نہ تو آسانی سے فریب میں آتا ہے اور نہ ہی اُسے دھوکا دیا جا سکتا ہے تاہم، شاید وہ اس حد تک محتاط ہو کہ کبھی کوئی فیصلہ ہی نہ کر پائے۔ خوشاسلوبی بھی ایک اچھی خوبی ہے لیکن اگر اسے اس انتہا تک لے جائیں کہ یہ انسانی فطرت کو ہی نظرانداز کرنے لگے تو یہ سرد، سختگیر ماحول پر منتج ہو سکتی ہے جوکہ مایوسی کا باعث بنتا ہے۔ لہٰذا کچھ وقت کیلئے اپنی لیاقتوں پر غور کریں۔ کیا آپ اُنہیں اچھی طرح استعمال کر رہے ہیں؟ کیا وہ دوسروں کیلئے ایک برکت ہیں؟ سب سے بڑھ کر، کیا آپ اُنہیں یہوواہ کو جلال دینے کیلئے استعمال کرتے ہیں جوکہ ”ہر اچھی بخشش“ کا عطا کرنے والا ہے؟ (یعقوب ۱:۱۷) اِس سلسلے میں آیئے لیاقتوں کی چند ایسی مثالوں کا بغور جائزہ لیں جن پر اگر دھیان نہ دیا جائے تو وہ کمزوریاں، حتیٰکہ خامیاں بن سکتی ہیں۔
ذہنی صلاحیتوں کو دانشمندی سے استعمال کریں
ایک اچھا دماغ یقینی طور پر ایک عمدہ اثاثہ ہے۔ اس کے باوجود اگر یہ حد سے زیادہ خوداعتمادی یا خودپسندی کا باعث بنتا ہے، بالخصوص اگر دوسرے ہمیں سراہتے یا ہماری بہت زیادہ خوشامد کرتے ہیں تو یہ ایک کمزوری بن سکتا ہے۔ یا ہم خدا کے کلام اور بائبل پر مبنی مطالعاتی مطبوعات کے متعلق بھی اپنی غیرمعمولی ذہنی لیاقتوں پر اکتفا کر سکتے ہیں۔
حد سے زیادہ خوداعتمادی مختلف طریقوں سے ظاہر ہو سکتی ہے۔ مثال کے طور پر، مسیحی کلیسیا میں جب کسی ذہین شخص کو پبلک تقریر یا تھیوکریٹک منسٹری سکول میں تقریر کی صورت میں خطاب کرنے کی تفویض حاصل ہوتی ہے تو ہو سکتا ہے کہ وہ اُس کی تیاری کو آخری وقت تک رکھ چھوڑے یا شاید یہوواہ کی برکت کے لئے دُعا بھی نہ کرے۔ اس کی بجائے، وہ اپنے ذہن میں محفوظ علم اور عین وقت پر سوچنے کی اپنی لیاقت پر بھروسہ کرتا ہے۔ قدرتی لیاقت وقتی طور پر اُس کی غفلت پر پردہ ڈال سکتی ہے مگر یہوواہ کی بھرپور برکت کے بغیر، اُس کی روحانی ترقی کی رفتار میں کمی واقع ہو سکتی یا پھر وہ بالکل رُک سکتی ہے۔ ایک عمدہ بخشش کا کیسا ضیاع!—امثال ۳:۵، ۶؛ یعقوب ۳:۱۔
ایک ذہین شخص بائبل اور بائبل مطالعے سے متعلق امدادی کتب کے سلسلے میں بھی اپنی غیرمعمولی ذہنی صلاحیتوں کو اہم خیال کر سکتا ہے۔ تاہم، ایسا علم صرف ”غرور پیدا کرتا ہے“ یا انا کو ایک غبارے کی مانند پھلا دیتا ہے؛ یہ پُرمحبت مسیحی تعلقات کو ’فروغ‘ نہیں دیتا۔ (۱-کرنتھیوں ۸:۱؛ گلتیوں ۵:۲۶) اسکے برعکس، روحانی شخص، اپنی ذہنی صلاحیتوں سے قطعنظر، ہمیشہ خدا کی رُوح پر بھروسہ کرتا اور اُس کے لئے دُعاگو رہتا ہے۔ جب وہ خوشگوار طریقے سے محبت، فروتنی، علم اور حکمت میں توازن کیساتھ ترقی کرتا ہے تو اُسکی لیاقت ایک اثاثہ بن جاتی ہے۔—کلسیوں ۱:۹، ۱۰۔
اگر ہم انکساری کی کمی ظاہر کرتے ہوئے اپنے بارے میں خودپسندانہ رائے قائم کر لیتے ہیں تو ہماری لیاقت کمزوری بن جائے گی۔ خداداد قابلیت کا حامل کوئی بھی شخص—نیز جو اُسکی بےجا خوشامد کرتا ہے—یہ بھول سکتا ہے کہ یہوواہ ”دانا دلوں کی پروا نہیں کرتا،“ خواہ وہ کتنی ہی زیادہ قابلیت کے مالک کیوں نہ ہوں۔ (ایوب ۳۷:۲۴) خدا کا کلام بیان کرتا ہے، ”خاکساروں کے ساتھ حکمت ہے۔“ (امثال ۱۱:۲) پولس رسول نے انتہائی ذہین اور اعلیٰ تعلیمیافتہ ہونے کے باوجود کرنتھیوں سے کہا: ”اَے بھائیو! جب مَیں تمہارے پاس آیا اور تم میں خدا کے بھید کی منادی کرنے لگا تو اعلیٰ درجے کی تقریر یا حکمت کے ساتھ نہیں آیا۔ . . . مَیں کمزوری اور خوف اور بہت تھرتھرانے کی حالت میں تمہارے پاس رہا۔ اور میری تقریر اور میری منادی میں حکمت کی لبھانے والی باتیں نہ تھیں بلکہ وہ روح اور قدرت سے ثابت ہوتی تھی۔ تاکہ تمہارا ایمان انسان کی حکمت پر نہیں بلکہ خدا کی قدرت پر موقوف ہو۔“—۱-کرنتھیوں ۲:۱-۵۔
حقیقت میں دانا شخص ذہانت سے متعلق دُنیا کے نظریے اور کامیابی کی بابت اس کی تشریح سے دھوکا نہیں کھاتا۔ لہٰذا وہ اپنی لیاقتوں کو انسانوں سے داد وصول کرنے یا دُنیاوی حاصلات کے حصول کی بجائے، اپنی زندگی کا بہترین حصہ اُسے دیتا ہے جس نے اُسے زندگی اور یہ صلاحتیں عطا کی ہیں۔ (۱-یوحنا ۲:۱۵-۱۷) اِس سلسلے میں وہ بادشاہتی مفادات کو اپنی زندگی میں پہلا درجہ دینے سے اُس درخت کی مانند پھلدار ثابت ہوتا ہے جو ”پانی کی ندیوں کے پاس لگایا گیا ہے۔“ اُس کی فطری لیاقتوں کی بجائے یہوواہ کی برکت کی بدولت ”جوکچھ وہ کرے بارور ہوگا۔“—زبور ۱:۱-۳؛ متی ۶:۳۳۔
مسیحیت کو اپنی لیاقت میں اضافہ کرنے دیں
شروع ہی سے مسیحیت اسقدر طاقتور ہے کہ دُنیاوی فیلسوفیاں اس کے مقابلے میں انتہائی کمزور دکھائی دیتی ہیں۔ مثال کے طور پر، مسیحی طرزِزندگی بہترین شوہر اور بیویاں، بہترین پڑوسی اور بہترین ملازمین پیدا کرتی ہے—ایسے لوگ جو دیانتدار، باادب، امنپسند اور محنتی ہوتے ہیں۔ (کلسیوں ۳:۱۸-۲۳) مزیدبرآں، گفتگو کرنے اور تعلیم دینے کے سلسلے میں مسیحی تربیت رابطے کی اچھی مہارتوں کو فروغ دیتی ہے۔ (۱-تیمتھیس ۴:۱۳-۱۵) پس اِس میں کوئی حیرانی کی بات نہیں کہ اکثر مسیحیوں کو اُنکے مالک پسند کرتے اور اضافی ذمہداریوں اور ترقیوں سے نوازتے ہیں۔ تاہم ایسی لیاقتوں کی اگر حفاظت نہ کی جائے تو انہیں غلط طریقے سے بھی استعمال کِیا جا سکتا ہے۔ ترقی یا پُرکشش ملازمت کا مطلب اپنا بیشتر وقت کمپنی کیلئے وقف کر دینا بھی ہو سکتا ہے جوکہ لگاتار مسیحی اجلاسوں سے غیرحاضر رہنے یا اپنے خاندان کیساتھ گزارے جانے والے قیمتی وقت کو قربان کرنے پر منتج ہو سکتا ہے۔
آسٹریلیا میں ایک مسیحی بزرگ اور خاندان کے ایک سربراہ کیلئے جو ایک انتہائی کامیاب بزنسمین بھی تھا، عام مقولے کے مطابق ”ترقی کے سارے دروازے کھلے تھے۔“ تاہم اُس نے اس نظام میں یہ سب کچھ حاصل کرنے سے انکار کر دیا۔ اُس نے کہا، ”مَیں زیادہ وقت اپنے خاندان اور مسیحی خدمتگزاری میں صرف کرنا چاہتا تھا،“ اُس نے مزید کہا۔ ”پس مَیں نے اور میری بیوی نے متفقہ فیصلہ کِیا کہ مَیں اپنی ملازمت کی جگہ پر زیادہ وقت صرف نہ کروں۔ مجھے ہفتے میں پانچ دن کام کیوں کرنا چاہئے جبکہ مجھے اسکی ضرورت نہیں ہے؟“ اُس نے اضافہ کِیا۔ خوب سوچبچار کے بعد اپنی زندگی میں ردوبدل کرنے سے اس بزرگ نے دیکھا کہ وہ ہفتے میں تین یا چار دن کام کرکے بھی اپنے خاندان کی کفالت کر سکتا ہے۔ اسی دوران میں اُسے خدمت کے دیگر استحقاقات یعنی مقامی اسمبلی ہال کمیٹی اور ڈسٹرکٹ کنونشن کی انتظامیہ میں خدمت انجام دینے کیلئے مدعو کِیا گیا۔ دانشمندانہ استعمال سے اُسکی صلاحتیں اُس کیلئے اور اُسکے خاندان کیلئے خوشی اور اطمینان پر منتج ہوئیں۔
استحقاقات کی بابت متوازن نظریہ
مسیحی مردوں کی حوصلہافزائی کی جاتی ہے کہ کلیسیا میں خدمتی استحقاقات کے لئے آگے بڑھیں۔ ”یہ سچ ہے کہ جو شخص نگہبان [یا خدمتگزار خادم] کا عہدہ چاہتا ہے وہ اچھے کام کی خواہش کرتا ہے۔“ (۱-تیمتھیس ۳:۱) پہلے بیانکردہ لیاقتوں کی طرح ذمہداریاں قبول کرنے کیلئے آمادگی کو بھی اچھی بصیرت کیساتھ متوازن کرنے کی ضرورت ہے۔ کسی بھی شخص کو اتنی زیادہ تفویضات قبول نہیں کرنی چاہئیں کہ وہ خدا کی خدمت بجا لانے میں اپنی خوشی کو ہی گنوا بیٹھے۔ جیہاں، آمادگی کے جذبے کی قدر کی جاتی ہے، یقیناً یہ ضروری ہے کیونکہ یہوواہ کام چوری کرنے والے شخص کو پسند نہیں کرتا؛ تاہم آمادگی سے انکساری اور ”پرہیزگاری“ بھی ظاہر ہونی چاہئے۔—ططس ۲:۱۲؛ مکاشفہ ۳:۱۵، ۱۶۔
یسوع کی حلیمی، بصیرت اور حساسطبیعت کی وجہ سے ادنیٰ لوگ بھی اُسکے پاس آکر اطمینان محسوس کرتے تھے۔ اسی طرح آجکل، لوگ اُن اشخاص کی موجودگی میں اطمینان محسوس کرتے ہیں جو ہمدرد اور فکرمندانہ شخصیت کے مالک ہوتے ہیں۔ مسیحی کلیسیا میں، ایسے پُرتپاک، قابلِرسائی بزرگوں کی ”آدمیوں [میں] انعام“ کے طور پر قدر کی جاتی ہے۔ وہ ”آندھی سے پناہگاہ کی مانند . . . اور طوفان سے چھپنے کی جگہ اور خشک زمین میں پانی کی ندیوں کی مانند اور ماندگی کی زمین میں بڑی چٹان کے سایہ کی مانند“ ہیں۔—افسیوں ۴:۸؛ یسعیاہ ۳۲:۲۔
تاہم بزرگوں کو دوسروں کی مدد میں صرف کئے جانے والے وقت کو اپنے ذاتی مطالعہ، غوروخوض، دُعا اور عوامی خدمتگزاری میں شرکت کرنے کے ساتھ متوازن کرنے کی ضرورت ہے۔ طبعی طور پر شادیشُدہ بزرگوں کو اپنے خاندانوں کو بھی وقت دینے کی ضرورت ہے جنکے لئے اُنہیں بالخصوص قابلِرسائی ہونا چاہئے۔
لائق خواتین—ایک شاندار برکت
لائق بزرگوں کی طرح، روحانی سوچ رکھنے والی خواتین بھی یہوواہ کی تنظیم کیلئے قیمتی اثاثہ ہیں۔ عموماً، خواتین دوسرے لوگوں میں ذاتی دلچسپی رکھنے کی خداداد لیاقت کی مالک ہوتی ہیں—ایک ایسی خوبی جسکی یہوواہ قدر اور حوصلہافزائی کرتا ہے۔ پولس رسول نے لکھا، ”اپنے ہی احوال پر نہیں بلکہ ہر ایک دوسروں کے احوال پر بھی نظر“ رکھو۔ (فلپیوں ۲:۴) تاہم، ان ”احوال“ کی بھی کچھ حدود ہوتی ہیں کیونکہ کوئی بھی مسیحی یہ نہیں چاہے گا کہ وہ ”اَوروں کے کام میں دستانداز“ ہو؛ نہ ہی اُسے ناشائستہ باتیں کرنے والا ہونا چاہئے۔—۱-پطرس ۴:۱۵؛ ۱-تیمتھیس ۵:۱۳۔
خواتین میں کئی دوسری خوبیاں بھی ہوتی ہیں۔ مثال کے طور پر، ایک مسیحی بیوی اپنے شوہر سے زیادہ ذہین ہو سکتی ہے۔ تاہم یہوواہ کا خوف ماننے والی ”لائق بیوی“ کے طور پر وہ اپنے شوہر کا احترام کریگی اور اپنی خوبیوں کو اُس کا مقابلہ کرنے کیلئے نہیں بلکہ اُسکی مدد کرنے کیلئے استعمال کریگی۔ لہٰذا اُس سے حسد کرنے یا ناراض ہونے کی بجائے، ایک دانا اور فروتن شوہر اپنی بیوی کی لیاقتوں کی قدر کریگا اور ان سے خوش ہوگا۔ وہ اُس کی حوصلہافزائی کرے گا کہ گھرانے کی تعمیروترقی کرنے اور اپنے بچوں کو اپنی طرح ’یہوواہ کا خوف ماننے‘ میں مدد دینے کے لئے اپنی لیاقتوں کا بھرپور استعمال کرے۔ (امثال ۳۱:۱۰، ۲۸-۳۰؛ پیدایش ۲:۱۸) ایسے منکسرالمزاج، فروتن شوہروں اور بیویوں کی شادیاں کامیاب اور یہوواہ کیلئے حقیقی جلال کا باعث بنتی ہیں۔
ایک مضبوط شخصیت کو تابع کرنا
راستبازی اور دلوجان سے یہوواہ کی مرضی بجا لانے پر مبنی ایک مضبوط شخصیت میں اگر انکساری اور فروتنی کا عنصر شامل کِیا جاتا ہے تو یہ ایک قیمتی اثاثہ ثابت ہو سکتی ہے۔ تاہم، اگر یہ دوسروں پر تسلط جتانے یا اُنہیں خوفزدہ کرنے کا سبب بنتی ہے تو یہ ایک کمزوری بن سکتی ہے۔ مسیحی کلیسیا کے معاملے میں یہ بالخصوص سچ ہے۔ مسیحیوں کو ایک دوسرے کے ساتھ اور کلیسیائی بزرگوں کی رفاقت میں بھی اطمینان محسوس کرنا چاہئے۔—متی ۲۰:۲۵-۲۷۔
اسی طرح، بزرگوں کو بھی ایک دوسرے کی رفاقت سے اطمینان حاصل کرنا چاہئے۔ نیز جب وہ باہم جمع ہوتے ہیں تو اُن کی رُعبدار شخصیت کی بجائے رُوحالقدس کو اُن کے فیصلوں پر اثرانداز ہونا چاہئے۔ یقیناً، رُوحالقدس بزرگوں کی جماعت کے کسی بھی بزرگ پر اثرانداز ہو سکتی ہے خواہ وہ نوجوان ہے یا انتہائی خاموشطبع شخص ہے۔ لہٰذا مضبوط شخصیت کے مالک بزرگ اگر کبھی یہ محسوس کرتے ہیں کہ وہ صحیح کہہ رہے ہیں تو بھی اُنہیں پاسولحاظ کی خوبی کو عمل میں لاتے ہوئے اپنی لیاقت کو قابو میں رکھنا اور یوں ساتھی بزرگوں کو ”عزت کی رُو سے“ بہتر خیال کرنا چاہئے۔ (رومیوں ۱۲:۱۰) واعظ ۷:۱۶ مشفقانہ طور پر آگاہ کرتی ہے: ”حد سے زیادہ نیکوکار نہ ہو اور حکمت میں اعتدال سے باہر نہ جا۔ اِسکی کیا ضرورت ہے کہ تُو اپنے آپ کو برباد کرے؟“
”ہر اچھی بخشش“ کا سرچشمہ یہوواہ، اپنی غیرمعمولی لیاقتوں کو قطعی کاملیت کیساتھ استعمال کرتا ہے۔ (یعقوب ۱:۱۷؛ استثنا ۳۲:۴) نیز وہ ہمارا اُستاد ہے! پس آیئے ہم اُس سے سیکھیں اور اپنی فطری لیاقتوں یا صلاحیتوں کو ترقی دینے اور اُنہیں دانشمندی، منکسرالمزاجی اور محبت کیساتھ استعمال کرنے کیلئے سخت محنت کریں۔ اس صورت میں ہم دوسروں کیلئے برکت ثابت ہونگے!
[صفحہ 27 پر تصویریں]
روحانی ترقی کا انحصار دُعائیہ مطالعے اور یہوواہ پر بھروسے پر ہے
[صفحہ 29 پر تصویریں]
ذاتی دلچسپی کیساتھ انکساری کا ہونا ایک برکت ہے
[صفحہ 26 پر تصویر کا حوالہ]
Courtesy of The Mariners’ Museum, Newport News, VA