باب تین
ایک پائدار شادی کیلئے دو کُنجیاں
۱، ۲. (ا) شادی کو کتنی دیر تک قائم رہنے کیلئے ترتیب دیا گیا تھا؟ (ب) یہ کیسے ممکن ہے؟
جب خدا نے پہلے مرد اور عورت کو شادی کے بندھن میں باندھا تو ایسا کوئی اشارہ نہیں ملتا کہ اس بندھن کو صرف عارضی ہونا تھا۔ آؔدم اور حوؔا کو زندگیبھر اکٹھے رہنا تھا۔ (پیدایش ۲:۲۴) ایک باعزت شادی کے لئے خدا کا معیار ایک نر اور ایک ناری کو اکٹھا کرنا ہے۔ ایک یا دونوں ساتھیوں کی طرف سے سنگین جنسی بداخلاقی ہی دوبارہ شادی کرنے کے امکان کے ساتھ طلاق کیلئے صحیفائی وجوہات فراہم کرتی ہے۔–متی ۵:۳۲۔
۲ کیا دو اشخاص کے لئے غیرمُعیّنہ طور پر طویل مدت تک خوشی کیساتھ اکٹھے رہنا ممکن ہے؟ جیہاں، اور بائبل دو نہایت اہم عوامل، یا کُنجیوں کی نشاندہی کرتی ہے، جو اِسے ممکن بنانے کیلئے مدد کرتی ہیں۔ اگر شوہر اور بیوی دونوں اِنہیں کام میں لاتے ہیں تو خوشی اور بہت سی برکات کے دروازے اُن کیلئے کُھل جائینگے۔ وہ کُنجیاں کیا ہیں؟
پہلی کُنجی
۳. بیاہتا ساتھیوں کو محبت کی کن تین اقسام کو پیدا کرنا چاہئے؟
۳ پہلی کُنجی محبت ہے۔ دلچسپی کی بات ہے کہ بائبل میں محبت کی مختلف اقسام کی نشاندہی کی گئی ہے۔ ایک کسی کیلئے پُرتپاک، ذاتی اُلفت ہے یعنی محبت کی وہ قسم جو قریبی دوستوں میں پائی جاتی ہے۔ (یوحنا ۱۱:۳) ایک دوسری محبت وہ ہے جو خاندانی افراد کے مابین نشوونما پاتی ہے۔ (رومیوں ۱۲:۱۰) اور تیسری رومانوی محبت ہے جو کوئی کسی مخالف جنس کے فرد کیساتھ رکھ سکتا ہے۔ (امثال ۵:۱۵-۲۰) بِلاشُبہ، ایک شوہر اور بیوی کو اِن تمام کو پیدا کرنا چاہئے۔ لیکن محبت کی ایک چوتھی قسم بھی ہے، جو دیگر اقسام سے زیادہ اہم ہے۔
۴. محبت کی چوتھی قسم کونسی ہے؟
۴ مسیحی یونانی صحائف کی اصلی زبان میں، محبت کی اِس چوتھی قسم کیلئے لفظ اگاپے ہے۔ اس لفظ کو ۱-یوحنا ۴:۸ میں استعمال کِیا گیا ہے جہاں ہمیں بتایا گیا ہے: ”خدا محبت ہے۔“ واقعی، ”ہم اِسلئے محبت رکھتے ہیں کہ پہلے [خدا] نے ہم سے محبت رکھی۔“ (۱-یوحنا ۴:۱۹) ایک مسیحی ایسی محبت پہلے یہوؔواہ خدا کیلئے اور پھر ساتھی انسانوں کیلئے پیدا کرتا ہے۔ (مرقس ۱۲:۲۹-۳۱) لفظ اگاپے افسیوں ۵:۲ میں بھی استعمال کِیا گیا ہے جو بیان کرتی ہے: ”محبت سے چلو۔ جیسے مسیح نے تم سے محبت کی اور ہمارے واسطے اپنے آپ کو . . . نذر کرکے قربان کِیا۔“ یسوؔع نے کہا تھا کہ اِس قسم کی محبت اُسکے سچے پیروکاروں کی شناخت کرائیگی: ”اگر آپس میں محبت [اگاپے] رکھو گے تو اِس سے سب جانینگے کہ تم میرے شاگرد ہو۔“ (یوحنا ۱۳:۳۵) ۱-کرنتھیوں ۱۳:۱۳ میں بھی، اگاپے کے استعمال پر غور کریں: ”غرض ایمان اُمید محبت یہ تینوں دائمی ہیں مگر افضل اِن میں محبت [اگاپے] ہے۔“
۵، ۶. (ا) محبت ایمان اور اُمید سے افضل کیوں ہے؟ (ب) بعض وجوہات کیا ہیں جنکی وجہ سے محبت شادی کو پائدار بنانے کیلئے مدد کریگی؟
۵ کونسی چیز اِس اگاپے محبت کو ایمان اور اُمید سے افضل بناتی ہے؟ یہ خدا کے کلام میں پائے جانے والے اصولوں–راست اصولوں–پر مبنی ہے۔ (زبور ۱۱۹:۱۰۵) جیہاں، یہ دوسروں کے لئے وہ کام کرنے کے لئے بےلوث فکرمندی ہے جو خدا کے نقطۂنظر سے درست اور اچھا ہے، خواہ وصولکنندہ اِس کا مستحق دکھائی دیتا ہے یا نہیں۔ ایسی محبت بیاہتا ساتھیوں کو بائبل کی مشورت پر چلنے کے قابل بناتی ہے: ”اگر کسی کو دوسرے کی شکایت ہو تو ایک دوسرے کی برداشت کرے اور ایک دوسرے کے قصور معاف کرے۔ جیسے خداوند نے تمہارے قصور معاف کئے ویسے ہی تم بھی کرو۔“ (کلسیوں ۳:۱۳) محبت دکھانے والے شادیشُدہ جوڑے ”[ایک دوسرے کے لئے] بڑی محبت [اگاپے]“ رکھتے اور پیدا کرتے ہیں، ”کیونکہ محبت بہت سے گناہوں پر پردہ ڈال دیتی ہے۔“ (۱-پطرس ۴:۸) غور کریں کہ یہ محبت غلطیوں پر پردہ ڈالتی ہے۔ یہ انہیں جڑ سے اُکھاڑ کر نہیں پھینک دیتی، اِس لئے کہ کوئی بھی ناکامل انسان خطا سے پاک نہیں ہو سکتا۔–زبور ۱۳۰:۳، ۴؛ یعقوب ۳:۲۔
۶ جب ایک بیاہتا جوڑا خدا اور ایک دوسرے کیلئے ایسی محبت پیدا کرتا ہے تو اُنکی شادی قائم اور خوشحال رہیگی، کیونکہ ”محبت کو زوال نہیں۔“ (۱-کرنتھیوں ۱۳:۸) محبت ”اتحاد کا کامل بندھن“ ہے۔ (کلسیوں ۳:۱۴، اینڈبلیو) اگر آپ شادیشُدہ ہیں تو آپکا بیاہتا ساتھی اور آپ اس قسم کی محبت کیسے پیدا کر سکتے ہیں؟ اکٹھے ملکر خدا کا کلام پڑھیں اور اِسکی بابت باتچیت کریں۔ یسوؔع کی محبت کے نمونے کا مطالعہ کریں اور اُس کی تقلید کرنے، اُسکی طرح سوچنے اور عمل کرنے کی کوشش کریں۔ اِسکے علاوہ، مسیحی اجلاسوں پر حاضر ہوں، جہاں پر خدا کے کلام کی تعلیم دی جاتی ہے۔ اور محبت کی اِس اعلیٰ قسم کو پیدا کرنے کی خاطر خدا کی مدد کیلئے دُعا کریں، جو خدا کی روحالقدس کا ایک پھل ہے۔–امثال ۳:۵، ۶؛یوحنا ۱۷:۳؛ گلتیوں ۵:۲۲؛عبرانیوں ۱۰:۲۵،۲۴۔
دوسری کُنجی
۷. احترام کیا ہے، اور شادی میں کسے احترام ظاہر کرنا چاہئے؟
۷ اگر دو شادیشُدہ افراد ایک دوسرے سے واقعی محبت رکھتے ہیں تو وہ ایک دوسرے کا احترام بھی کریں گے، اور احترام خوشحال شادی کی دوسری کُنجی ہے۔ احترام کی تعریف ”دوسروں کا پاسولحاظ رکھنے، اُنہیں عزت دینے“ کے طور پر کی گئی ہے۔ خدا کا کلام تمام مسیحیوں کو، بشمول شوہروں اور بیویوں کے، مشورت دیتا ہے: ”عزت کی رو سے ایک دوسرے کو بہتر سمجھو۔“ (رومیوں ۱۲:۱۰) پطرؔس رسول نے لکھا: ”اَے شوہرو! تم بھی [اپنی] بیویوں کیساتھ عقلمندی سے بسر کرو اور عورت کو نازک ظرف جان کر اُس کی عزت کرو۔“ (۱-پطرس ۳:۷) بیوی کو ”اپنے شوہر کا گہرااحترام کرنے“ کی نصیحت کی گئی ہے۔ (افسیوں ۵:۳۳، اینڈبلیو) اگر آپ کسی کو عزت دینا چاہتے ہیں تو آپ اُس شخص پر مہربان ہوتے ہیں، اُس شخص کے وقار اور ظاہرکردہ نظریات کا احترام کرتے ہیں، اور کسی بھی معقول فرمائش کو پورا کرنے کیلئے تیار ہوتے ہیں جو آپ سے کی گئی ہے۔
۸-۱۰. بعض طریقے کیا ہیں کہ احترام شادی کے بندھن کو مستحکم اور خوشحال بنانے میں مدد کریگا؟
۸ جو لوگ ایک پُرمسرت شادی سے لطفاندوز ہونے کی خواہش رکھتے ہیں وہ ”اپنے ہی احوال پر نہیں بلکہ . . . دوسروں [اپنے بیاہتا ساتھیوں] کے احوال پر بھی نظر رکھنے“ سے اپنے بیاہتا ساتھیوں کے لئے احترام دکھاتے ہیں۔ (فلپیوں ۲:۴) وہ صرف اپنی بہتری ہی کا خیال نہیں رکھتے–جوکہ خودغرضی ہوگی۔ اِسکی بجائے، وہ اپنے ساتھیوں کے مفاد کا بھی خیال رکھتے ہیں۔ واقعی، وہ اِسی بات کو ترجیح دیتے ہیں۔
۹ احترام بیاہتا ساتھیوں کی مدد کریگا کہ نقطۂنظر میں اختلافات کو تسلیم کریں۔ دو افراد سے ہر بات پر بالکل ایک جیسے نظریات رکھنے کی توقع کرنا معقول نہیں ہے۔ جو بات شوہر کیلئے اہم ہو سکتی ہے شاید بیوی کے لئے اتنی اہم نہ ہو، اور جس چیز کو بیوی پسند کرتی ہے شاید شوہر اُسے پسند نہ کرتا ہو۔ لیکن ہر ایک کو دوسرے کے نظریات اور انتخابات کا احترام کرنا چاہئے، جبتک یہ یہوؔواہ کے آئین اور اصولوں کے دائرے کے اندر ہیں۔ (۱-پطرس ۲:۱۶؛ مقابلہ کریں فلیمون ۱۴۔) علاوہازیں، ہر ایک کو چاہئے کہ جَلوت یا خَلوت میں تحقیرآمیز تمسخر یا تبصروں کا نشانہ نہ بنانے سے دوسرے کی حُرمت کا احترام کرے۔
۱۰ جیہاں، خدا اور ایک دوسرے کے لئے محبت اور باہمی احترام ایک کامیاب شادی کیلئے دو نہایت اہم کُنجیاں ہیں۔ شادیشُدہ زندگی کے بعض زیادہ اہم حلقوں میں اِنکا اطلاق کیسے ہو سکتا ہے؟
مسیح جیسی سرداری
۱۱. صحیفائی طور پر، ایک شادی میں سر کون ہے؟
۱۱ بائبل ہمیں بتاتی ہے کہ مرد کو ایسی صفات کے ساتھ خلق کِیا گیا تھا جو اُسے ایک کامیاب خاندانی سردار بنائینگی۔ اِس حیثیت سے، مرد اپنی بیوی اور بچوں کی روحانی اور جسمانی فلاحوبہبود کیلئے یہوؔواہ کے حضور جوابدہ ہوگا۔ اُسے متوازن فیصلے کرنے پڑینگے جو یہوؔواہ کی مرضی اور خداپرستانہ چالچلن کی ایک اچھی مثال ہونے کو منعکس کرتے ہیں۔ ”اَے بیویو! اپنے شوہروں کی ایسی تابع رہو جیسے خداوند کی۔ کیونکہ شوہر بیوی کا سر ہے جیسےکہ مسیح کلیسیا کا سر ہے۔“ (افسیوں ۵:۲۲، ۲۳) تاہم، بائبل بیان کرتی ہے کہ شوہر کا بھی ایک سر ہے جو اُس پر اختیار رکھتا ہے۔ پولسؔ رسول نے لکھا: ”مَیں تمہیں آگاہ کرنا چاہتا ہوں کہ ہر مرد کا سر مسیح اور عورت کا سر مرد اور مسیح کا سر خدا ہے۔“ (۱-کرنتھیوں ۱۱:۳) عقلمند شوہر اپنے سر، مسیح یسوؔع کی نقل کرنے سے سیکھتا ہے کہ سرداری کو کیسے عمل میں لائے۔
۱۲. یسوؔع نے سرداری کو عمل میں لانے اور تابعداری دکھانے میں دونوں طرح سے کونسا عمدہ نمونہ قائم کِیا؟
۱۲ یسوؔع کا بھی ایک سر ہے یعنی یہوؔواہ، اور وہ صحیح طور پر اُس کی تابعداری کرتا ہے۔ یسوؔع نے کہا: ”مَیں اپنی مرضی نہیں بلکہ اپنے بھیجنے والے کی مرضی چاہتا ہوں۔“ (یوحنا ۵:۳۰) کیا ہی شاندار مثال! یسوؔع ”تمام مخلوقات سے پہلے مولود ہے۔“ (کلسیوں ۱:۱۵) وہ مسیحا بنا۔ اُسے تمام فرشتوں سے افضل، ممسوح مسیحیوں کی کلیسیا کا سردار اور خدا کی بادشاہت کا منتخب بادشاہ ہونا تھا۔ (فلپیوں ۲:۹-۱۱؛عبرانیوں ۱:۴) ایسے اعلیٰ مرتبے اور بلندپایۂ امکانات کے باوجود، وہ انسان یسوؔع سختگیر، بےلوچ، یا حد سے زیادہ متقاضی نہیں تھا۔ وہ اپنے شاگردوں کو لگاتار یہ بات یاد کرانے والا، جابر حکمران نہیں تھا کہ اُن پر اُسکی فرمانبرداری کرنا لازم تھا۔ یسوؔع ستمرسیدہ لوگوں کیلئے خاص طور پر شفیق اور دردمند تھا۔ اُس نے کہا: ”اَے محنت اُٹھانے والو اور بوجھ سے دبے ہوئے لوگو سب میرے پاس آؤ۔ مَیں تمکو آرام دونگا۔ میرا جؤا اپنے اُوپر اُٹھا لو اور مجھ سے سیکھو۔ کیونکہ مَیں حلیم ہوں اور دل کا فروتن۔ تو تمہاری جانیں آرام پائینگی۔ کیونکہ میرا جؤا ملائم ہے اور میرا بوجھ ہلکا۔“ (متی ۱۱:۲۸-۳۰) اُس سے رفاقت رکھنا مسرتبخش تھا۔
۱۳، ۱۴. ایک پُرمحبت شوہر، مسیح کی نقل میں اپنی سرداری کو کیسے عمل میں لائیگا؟
۱۳ خوشحال خاندانی زندگی کا متمنی شوہر یسوؔع کے عمدہ اوصاف پر غوروخوض کرکے اچھا کرتا ہے۔ ایک نیک شوہر اپنی بیوی کو دھمکانے کیلئے اپنی سرداری کو غلط طریقے سے بطور آلۂکار استعمال کرتے ہوئے سختگیر اور استبدادی نہیں ہوتا۔ اِس کی بجائے، وہ اُس سے محبت رکھتا اور اُسکا احترام کرتا ہے۔ اگر یسوؔع ”دل کا فروتن“ تھا تو شوہر کے پاس ایسا بننے کی اَور بھی زیادہ وجہ ہے، اِسلئےکہ یسوؔع کے برعکس، وہ غلطیاں کرتا ہے۔ جب وہ ایسا کرتا ہے تو وہ اپنی بیوی سے مفاہمت چاہتا ہے۔ اِسلئے، ایک فروتن شوہر اپنی غلطیوں کو تسلیم کرتا ہے، اگرچہ ”معاف کیجئے؛ آپ درست تھیں“ کہنا، مشکل الفاظ ہو سکتے ہیں۔ ایک بیوی ایک مغرور اور ہٹدھرم شوہر کی نسبت ایک منکسرالمزاج اور فروتن شوہر کی سرداری کا احترام کرنا زیادہ آسان پائے گی۔ اِس کے بعد، احترام دکھانے والی بیوی بھی معافی مانگ لیتی ہے جب وہ خطاکاری کرتی ہے۔
۱۴ خدا نے عورت کو عمدہ اوصاف کیساتھ خلق کِیا جنہیں وہ ایک خوشحال شادی کا باعث بننے کیلئے استعمال کر سکتی ہے۔ ایک دانشمند شوہر اِس چیز کو تسلیم کریگا اور اُسکی زبان بند نہیں کریگا۔ بہت سی عورتیں زیادہ دردمندی اور سرِیعالعمل ہونے کا میلان رکھتی ہیں، ایسی صفات جنکی ایک خاندان کی نگہداشت کرنے اور انسانی رشتوں کو پروان چڑھانے کیلئے ضرورت ہوتی ہے۔ عام طور پر، ایک عورت گھر کو رہنے کیلئے ایک دلکش جگہ بنانے کیلئے کافی ماہر ہوتی ہے۔ امثال ۳۱ باب میں مذکورہ ”لائق بیوی“ بہت سی شاندار خوبیوں اور عمدہ صلاحیتوں کی مالک تھی، اور اُسکے خاندان نے اُن سے بھرپور فائدہ اُٹھایا۔ کیوں؟ اِسلئے کہ اُسکے شوہر کے دل کو اُس پر ”اعتماد ہے۔“–امثال ۳۱:۱۰، ۱۱۔
۱۵. ایک شوہر اپنی بیوی کیلئے مسیح جیسی محبت اور احترام کیسے دکھا سکتا ہے؟
۱۵ بعض ثقافتوں میں، ایک شوہر کے اختیار پر بہت زیادہ زور دیا جاتا ہے، اِس حد تک کہ اُس سے سوال پوچھنے کو بھی گستاخی خیال کِیا جاتا ہے۔ وہ اپنی بیوی کیساتھ بالکل ایک غلام کی طرح سلوک کر سکتا ہے۔ ایسے غلط طریقے سے سرداری کو عمل میں لانا نہ صرف اُسکی بیوی بلکہ خدا کیساتھ بھی کمزور رشتے پر منتج ہوتا ہے۔ (مقابلہ کریں ۱-یوحنا ۴:۲۰، ۲۱۔) دوسری طرف، بعض شوہر اپنی بیویوں کو گھرانے پر اختیار چلانے کی اجازت دیتے ہوئے پیشوائی کرنے سے غفلت برتتے ہیں۔ صحیح طور پر مسیح کی تابعداری کرنے والا شوہر اپنی بیوی سے ناجائز فائدہ نہیں اُٹھاتا یا اُسکے وقار کو غصب نہیں کرتا۔ اِسکی بجائے، وہ یسوؔع کی خودایثارانہ محبت کی نقل کرتا ہے اور پولسؔ کی نصیحت کے مطابق عمل کرتا ہے: ”اَے شوہرو! اپنی بیویوں سے محبت رکھو جیسے مسیح نے بھی کلیسیا سے محبت کرکے اپنے آپکو اُسکے واسطے موت کے حوالہ کر دیا۔“ (افسیوں ۵:۲۵) مسیح یسوؔع نے اپنے پیروکاروں سے اتنی زیادہ محبت رکھی کہ اُس نے اُن کیلئے جان دے دی۔ ایک اچھا شوہر اپنی بیوی سے طلب کرنے کی بجائے اُسکی بھلائی کی جستجو میں، اس بےلوث رویے کی نقل کرنے کی کوشش کریگا۔ جب ایک شوہر مسیح کی تابعداری کرتا ہے اور مسیح جیسی محبت اور احترام دکھاتا ہے، تو اُسکی بیوی خود کو اُسکے تابع رکھنے کی تحریک پائیگی۔–افسیوں ۵:۲۸، ۲۹، ۳۳۔
اچھی بیوی کے شایان تابعداری
۱۶. ایک بیوی کو اپنے شوہر کیساتھ اپنے رشتے میں کونسی خوبیاں ظاہر کرنی چاہئیں؟
۱۶ آؔدم کی تخلیق کے کچھ عرصہ بعد، ”خداوند خدا نے کہا کہ آؔدم کا اکیلا رہنا اچھا نہیں۔ مَیں اُس کیلئے ایک مددگار اُسکی مانند بناؤنگا۔“ (پیدایش ۲:۱۸) خدا نے حوؔا کو بطور ایک مدِمقابل کے نہیں بلکہ بطور ”ایک مددگار“ خلق کِیا تھا۔ شادی کو دو مدِمقابل کپتانوں والے جہاز کی مانند نہیں ہونا تھا۔ شوہر کو محبتآمیز سرداری کو عمل میں لانا تھا، اور بیوی کو محبت، احترام، اور رضامندانہ اطاعت ظاہر کرنا تھی۔
۱۷، ۱۸. بعض طریقے کیا ہیں جن سے ایک بیوی اپنے شوہر کیلئے ایک حقیقی مددگار ثابت ہو سکتی ہے؟
۱۷ تاہم، ایک اچھی بیوی محض اطاعتشعار ہونے سے زیادہ کچھ ہوتی ہے۔ اُسکا شوہر جو فیصلے کرتا ہے وہ اُنکی حمایت کرنے سے، ایک حقیقی مددگار ہونے کی کوشش کرتی ہے۔ بِلاشُبہ، یہ اُس کیلئے اُسوقت زیادہ آسان ہوتا ہے جب وہ اُسکے فیصلوں سے اتفاق کرتی ہے۔ لیکن جب وہ ایسا نہیں بھی کرتی تو بھی اُسکی فعال حمایت زیادہ کامیاب نتیجہ حاصل کرنے کیلئے اُسکے فیصلے کی مدد کر سکتی ہے۔
۱۸ ایک بیوی اپنے شوہر کی ایک اچھا سردار بننے کیلئے دیگر طریقوں سے بھی مدد کر سکتی ہے۔ وہ پیشوائی کرنے میں اُسکی کوششوں کیلئے قدردانی کا اظہار کر سکتی ہے، بجائے اِسکے کہ اُس پر تنقید کرے یا اُسے احساس دلائے کہ وہ اُسکی توقع پر کبھی پورا نہیں اُتر سکتا۔ اپنے شوہر کیساتھ مثبت طریقے سے پیش آتے ہوئے، اُسے یاد رکھنا چاہئے کہ نہ صرف اُسکے شوہر کی نظر میں بلکہ ”حلم اور مزاج کی غربت کی . . . خدا کے نزدیک [بھی] . . . بڑی قدر ہے۔“ (۱-پطرس ۳:۳، ۴؛ کلسیوں ۳:۱۲) اگر شوہر ایماندار نہیں تو کیا ہو؟ خواہ وہ ہے یا نہیں، صحائف بیویوں کی حوصلہافزائی کرتے ہیں کہ ”اپنے شوہروں کو پیار کریں۔ بچوں کو پیار کریں۔ اور مُتقی اور پاکدامن اور گھر کا کاروبار کرنے والی اور مہربان ہوں اور اپنے اپنے شوہر کے تابع رہیں تاکہ خدا کا کلام بدنام نہ ہو۔“ (ططس ۲:۴، ۵) اگر ضمیر کی بات آتی ہے تو اِس بات کا زیادہ امکان ہے کہ ایک بےایمان شوہر اپنی بیوی کے مؤقف کا احترام کریگا اگر اِسے ”حلم اور خوف [”احترام،“ اینڈبلیو]“ کیساتھ پیش کِیا گیا ہے۔ بعض بےایمان شوہر ”پاکیزہ چالچلن اور خوف کو دیکھ کر بغیر کلام کے اپنی اپنی بیوی کے چالچلن سے خدا کی طرف کھنچ“ گئے ہیں۔–۱-پطرس ۳:۱، ۲، ۱۵؛۱-کرنتھیوں ۷:۱۳-۱۶۔
۱۹. اگر ایک شوہر اپنی بیوی سے خدا کے آئین کی خلافورزی کرنے کیلئے کہتا ہے تو کیا ہو؟
۱۹ اگر ایک شوہر اپنی بیوی سے خدا کی طرف سے کوئی ممنوعہ کام کرنے کا تقاضا کرتا ہے تو کیا ہو؟ اگر ایسے واقع ہوتا ہے تو اُسے یاد رکھنا چاہئے کہ اُسکا حاکمِاعلیٰ خدا ہے۔ جوکچھ رسولوں نے کِیا وہ اُسے نمونے کے طور پر قبول کرتی ہے جب حکام نے اُنہیں خدا کے آئین کی خلافورزی کرنے کیلئے کہا تھا۔ اعمال ۵:۲۹ بیان کرتی ہے: ”پطرؔس اور رسولوں نے کہا کہ ہمیں آدمیوں کے حکم کی نسبت خدا کا حکم ماننا زیادہ فرض ہے۔“
اچھا رابطہ
۲۰. وہ ضروری حلقہ کونسا ہے جہاں محبت اور احترام لازمی ہیں؟
۲۰ شادی کے ایک اَور حلقے–رابطے میں بھی محبت اور احترام ضروری ہیں۔ ایک شفیق شوہر اپنی بیوی سے اُس کی کارگذاریوں، اُس کے مسائل، مختلف معاملات پر اُس کے نظریات کی بابت گفتگو کرے گا۔ اُسے اِس کی ضرورت ہے۔ ایک شوہر جو وقت نکالکر اپنی بیوی سے باتچیت کرتا ہے اور جوکچھ وہ کہتی ہے اُسے واقعی سنتا ہے، وہ اُس کے لئے محبت اور احترام دکھاتا ہے۔ (یعقوب ۱:۱۹) بعض بیویاں شکایت کرتی ہیں کہ اُن کے شوہر اُن کے ساتھ گفتگو کرنے کے لئے بہت کم وقت صرف کرتے ہیں۔ یہ افسوسناک بات ہے۔ سچ ہے کہ اِن مصروف ایّام میں شوہر شاید زیادہ دیر تک گھر سے باہر کام کرتے ہیں، اور شاید معاشی حالات بعض بیویوں کے لئے بھی ملازمت کرنے کا سبب بنیں۔ لیکن ایک شادیشُدہ جوڑے کو ایک دوسرے کے لئے وقت بچا کر رکھنے کی ضرورت ہے۔ ورنہ، وہ ایک دوسرے سے مُستغنی ہو سکتے ہیں۔ اگر وہ شادی کے بندوبست کے باہر ہمدردانہ رفاقت کی تلاش کرنے کے لئے ناچار محسوس کرتے ہیں تو یہ سنگین مسائل کا باعث ہو سکتا ہے۔
۲۱. خوشگوار باتچیت شادی کو خوشحال رکھنے کیلئے کیسے مدد کریگی؟
۲۱ جس طریقے سے شوہر اور بیویاں رابطہ رکھتی ہیں وہ اہم ہے۔ ”دلپسند باتیں . . . جی کو میٹھی لگتی ہیں اور ہڈیوں کے لئے شفا ہیں۔“ (امثال ۱۶:۲۴) خواہ بیاہتا ساتھی ایماندار ہے یا نہیں، بائبل مشورت کا اطلاق ہوتا ہے: ”تمہارا کلام ہمیشہ . . . پُرفضل اور نمکین ہو،“ یعنی پسندیدہ ہو۔ (کلسیوں ۴:۶) جب کسی کا دن سخت گزرا ہو تو اُس کے بیاہتا ساتھی کی طرف سے چند مہربانہ، ہمدردانہ الفاظ بہت کچھ کر سکتے ہیں۔ ”باموقع باتیں روپہلی ٹوکریوں میں سونے کے سیب ہیں۔“ (امثال ۲۵:۱۱) لبولہجہ اور الفاظ کا انتخاب بہت اہم ہیں۔ مثال کے طور پر، کوئی شخص ایک چڑچڑے، متقاضی انداز میں دوسرے سے کہہ سکتا ہے؛ ”دروازہ بند کرو۔“ لیکن ایک پُرسکون، مفاہمتآمیز آواز میں ادا کئے گئے الفاظ کس قدر ”پُرفضل اور نمکین“ ہوتے ہیں، ”اگر زحمت نہ ہو تو کیا آپ مہربانی سے دروازہ بند کر دیں گے؟“
۲۲. اچھا رابطہ قائم رکھنے کیلئے بیاہتا جوڑوں کو کن رجحانات کی ضرورت ہے؟
۲۲ جب دھیمے لہجے میں بات کی جاتی ہے، لطفوکرم والی نگاہ اور تاثرات، مہربانی، مفاہمت اور شفقت دکھائی جاتی ہے تو اچھا رابطہ فروغ پاتا ہے۔ اچھا رابطہ قائم رکھنے کیلئے محنت کرنے سے، شوہر اور بیوی دونوں اپنی ضروریات بتانے کیلئے آزاد محسوس کرینگے، اور وہ مایوسی یا دباؤ کے اوقات میں ایک دوسرے کیلئے اطمینان کا ذریعہ بن سکتے ہیں۔ خدا کا کلام تلقین کرتا ہے کہ ”کمہمتوں کو دلاسا دو۔“ (۱-تھسلنیکیوں ۵:۱۴) ایسے اوقات ہوتے ہیں جب شوہر مغموم ہوتا ہے اور ایسے اوقات بھی ہوتے ہیں جب بیوی مغموم ہوتی ہے۔ وہ ایک دوسرے کی حوصلہافزائی کرتے ہوئے ”دلاسا“ دے سکتے ہیں۔–رومیوں ۱۵:۲۔
۲۳، ۲۴. جب اختلافات پیدا ہوتے ہیں تو محبت اور احترام کیسے مدد کرینگے؟ ایک مثال دیں۔
۲۳ محبت اور احترام دکھانے والے بیاہتا ساتھی ہر اختلاف کو ایک چیلنج خیال نہیں کرینگے۔ وہ ایک دوسرے کیساتھ ”تلخمزاجی“ نہ کرنے کیلئے سخت کوشش کرینگے۔ (کلسیوں ۳:۱۹) دونوں کو یاد رکھنا چاہئے کہ ”نرم جواب قہر کو دُور کر دیتا ہے۔“ (امثال ۱۵:۱) محتاط رہیں کہ ایک ساتھی کی تحقیر اور مذمت نہ کریں جو اپنے دِلی جذبات کا اظہار کرتا ہے۔ اِس کی بجائے، ایسے اظہارات کو دوسرے کے نقطۂنظر کی بصیرت حاصل کرنے کا موقع خیال کریں۔ اکٹھے ملکر اختلافات کا حل نکالنے اور ایک ہمآہنگ نتیجے پر پہنچنے کی کوشش کریں۔
۲۴ اُس موقع کو یاد کریں جب ساؔرہ نے ایک خاص مسئلے کے حل کیلئے اپنے شوہر اؔبرہام کو ایک تجویز پیش کی اور وہ اُس کے جذبات کے منافی تھی۔ پھربھی، خدا نے اؔبرہام سے کہا: ”تُو اُس کی بات مان۔“ (پیدایش ۲۱:۹-۱۲) اؔبرہام نے ایسا کِیا، اور اُس نے برکت پائی تھی۔ اِسی طرح سے، اگر ایک بیوی اپنے شوہر سے کوئی مختلف چیز تجویز کرتی ہے جو وہ ذہن میں رکھتا ہے، تو کمازکم اُسے سننا چاہئے۔ اِس کیساتھ ساتھ، ایک بیوی کو گفتگو پر حاوی نہیں ہونا چاہئے بلکہ سننا چاہئے کہ اُسکا شوہر کیا کہنا چاہتا ہے۔ (امثال ۲۵:۲۴) شوہر یا بیوی دونوں میں سے کوئی بھی اگر ہمیشہ اپنے طریقے پر زور دیتا ہے تو یہ بےادبی اور محبت کی کمی ہے۔
۲۵. ازدواجی زندگی کے جنسی پہلوؤں میں اچھا رابطہ خوشی کا سبب کیسے بنیگا؟
۲۵ جوڑے کے جنسی تعلقات کے سلسلے میں بھی اچھا رابطہ ضروری ہے۔ خودغرضی اور ضبطِنفس کی کمی شادی کے اندر اِس نہایت ہی قریبی رشتے کو شدید نقصان پہنچا سکتی ہے۔ تحمل کے ساتھ، بےتکلف رابطہ، لازمی ہے۔ جب ہر ایک بےغرضی سے دوسرے کی فلاح چاہتا ہے تو جنسی تعلق شاذونادر ہی سنگین مسئلہ بنتا ہے۔ دیگر معاملات کی طرح اِس سلسلے میں بھی، ”کوئی اپنی بہتری نہ ڈھونڈے بلکہ دوسرے کی۔“–۱-کرنتھیوں ۷:۳-۵؛۱۰:۲۴۔
۲۶. اگرچہ ہر شادی کے اپنے نشیبوفراز ہوتے ہیں، تاہم خدا کے کلام پر توجہ دینا بیاہتا جوڑوں کی خوشی حاصل کرنے کیلئے کیسے مدد کریگا؟
۲۶ خدا کا کلام کیا ہی عمدہ مشورت پیش کرتا ہے! سچ ہے کہ ہر شادی کے اپنے نشیبوفراز ہوتے ہیں۔ لیکن جب شریکِحیات بائبل میں آشکارا، یہوؔواہ کی سوچ کی اطاعت کرتے ہیں، اور اپنے رشتے کو اصولی محبت اور احترام پر قائم رکھتے ہیں تو وہ اعتماد رکھ سکتے ہیں کہ اُنکی شادی پائدار اور خوشحال ہوگی۔ یوں وہ نہ صرف ایک دوسرے کی، بلکہ شادی کے بانی، یہوؔواہ خدا کی بھی عزت کرینگے۔
یہ بائبل اصول . . . ایک جوڑے کی ایک دائمی، خوشحال شادی سے لطف اُٹھانے کیلئے کیسے مدد کر سکتے ہیں؟
سچے مسیحی ایک دوسرے سے محبت رکھتے ہیں۔ –یوحنا ۱۳:۳۵۔
مسیحی ایک دوسرے کو معاف کرنے کیلئے تیار ہیں۔ –کلسیوں ۳:۱۳۔
سرداری کی ایک درست ترتیب موجود ہے۔ –۱-کرنتھیوں ۱۱:۳۔
درست بات کا صحیح طریقے سے کہنا ضروری ہے۔ –امثال ۲۵:۱۱۔
[صفحہ ۲۸ پر تصویر]
باہمی محبت اور احترام شادی میں کامیابی کا باعث بنتے ہیں