”عالمِبالا کی چیزوں کے خیال میں رہو“
”عالمِبالا کی چیزوں کے خیال میں رہو نہ کہ زمین پر کی چیزوں کے۔“—کل 3:2۔
1، 2. (الف) پہلی صدی میں کُلسّے کی کلیسیا کس خطرے میں تھی؟ (ب) پولُس رسول نے کُلسّے کے مسیحیوں کو خدا کے ساتھ اپنا رشتہ مضبوط رکھنے کے سلسلے میں کیا نصیحت کی؟
پہلی صدی میں کُلسّے کی کلیسیا خطرے میں تھی۔ اِس کلیسیا کے کچھ ارکان موسیٰ کی شریعت پر عمل کرنے پر زور دے رہے تھے جبکہ کچھ ارکان اِس نظریے کو فروغ دے رہے تھے کہ ایک شخص کو زندگی کی ہر آسائش سے محروم رہنا چاہیے۔ جب پولُس رسول نے اِن جھوٹی تعلیمات کے بارے میں سنا تو اُنہوں نے کُلسّے کی کلیسیا کے مسیحیوں کو ایک خط لکھا جس میں اُنہوں نے یہ نصیحت کی: ”خبردار کوئی شخص تُم کو اُس فیلسوفی اور لاحاصل فریب سے شکار نہ کر لے جو اِنسانوں کی روایت اور دُنیوی اِبتدائی باتوں کے موافق ہیں نہ کہ مسیح کے موافق۔“—کل 2:8۔
2 اگر یہ ممسوح مسیحی اپنا دھیان ”دُنیوی اِبتدائی باتوں“ پر لگا لیتے تو وہ اُس بندوبست سے مُنہ موڑ لیتے جو خدا نے اُن کی نجات کے لیے فراہم کِیا تھا۔ (کل 2:20-23) پولُس رسول چاہتے تھے کہ یہ مسیحی یہوواہ خدا کے ساتھ اپنے رشتے کی حفاظت کریں۔ اِس لیے اُنہوں نے اِن مسیحیوں کو نصیحت کی کہ ”عالمِبالا کی چیزوں کے خیال میں رہو نہ کہ زمین پر کی چیزوں کے۔“ (کل 3:2) مسیح کے اِن بھائیوں کو اپنا دھیان اُس میراث پر رکھنا تھا ’جو اُن کے واسطے آسمان پر رکھی ہوئی تھی۔‘—کل 1:4، 5۔
3. (الف) ممسوح مسیحی کس اُمید پر اپنی توجہ مرکوز رکھتے ہیں؟ (ب) اِس مضمون میں ہم کن سوالوں پر غور کریں گے؟
3 آج بھی ممسوح مسیحی اپنی پوری توجہ خدا کی آسمانی بادشاہت اور ”مسیح کے ہممیراث“ ہونے کی اُمید پر رکھتے ہیں۔ (روم 8:14-17) لیکن جو لوگ زمین پر ہمیشہ کی زندگی حاصل کرنے کی اُمید رکھتے ہیں، اُن پر پولُس رسول کے الفاظ کیسے لاگو ہوتے ہیں؟ مسیح کی ”اَور بھی بھیڑیں“ کس لحاظ سے ”عالمِبالا کی چیزوں کے خیال میں“ رہ سکتی ہیں؟ (یوح 10:16) اور ہم سب کو خدا کے وفادار بندے ابرہام اور موسیٰ کی مثال پر غور کرنے سے کیسے فائدہ ہو سکتا ہے جنہوں نے مشکلات کے باوجود اپنا دھیان عالمِبالا کی چیزوں پر رکھا؟
عالمِبالا کی چیزوں کے خیال میں رہنے کا کیا مطلب ہے؟
4. مسیح کی ”اَور بھی بھیڑیں“ عالمِبالا کی چیزوں پر اپنا دھیان کیسے رکھ سکتی میں؟
4 مسیح کی ”اَور بھی بھیڑیں“ آسمان پر جانے کی اُمید نہیں رکھتیں تو پھر وہ کیسے عالمِبالا کی چیزوں کے خیال میں رہ سکتی ہیں؟ وہ یہوواہ خدا اور اُس کی بادشاہت کو اپنی زندگی میں سب سے زیادہ اہمیت دینے سے ایسا کر سکتی ہیں۔ (لو 10:25-27) ایسا کرنے کے لیے وہ مسیح کے نقشِقدم پر چلتی ہیں۔ (1-پطر 2:21) پہلی صدی کے مسیحیوں کی طرح ہمیں بھی شیطان کی دُنیا کی طرف سے مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جیسے کہ جھوٹی تعلیمات، غلط نظریات اور مالودولت حاصل کرنے کی جستجو۔ (2-کرنتھیوں 10:5 کو پڑھیں۔) لیکن یسوع مسیح کی مثال پر عمل کرتے ہوئے ہمیں ایسے خطرات سے چوکس رہنا چاہیے جو ہمیں خدا سے دُور لے جا سکتے ہیں۔
5. ہم کیسے جان سکتے ہیں کہ مالودولت کے سلسلے میں ہماری سوچ کیا ہے؟
5 کیا مالودولت حاصل کرنے کے سلسلے میں دُنیا کی سوچ آپ پر بھی اثر انداز ہو رہی ہے؟ عموماً ہماری سوچ اور کاموں سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہم کن چیزوں سے پیار کرتے ہیں۔ یسوع مسیح نے کہا: ”جہاں تیرا مال ہے وہیں تیرا دل بھی لگا رہے گا۔“ (متی 6:21) یہ جاننے کے لیے کہ ہمارے دل میں کیا ہے، ہمیں وقتاًفوقتاً اپنا جائزہ لینا چاہیے۔ خود سے پوچھیں: ”مَیں مالودولت حاصل کرنے کے بارے میں کتنا سوچتا ہوں؟ کیا مَیں کاروبار بڑھانے، اپنی زندگی کو پُرآسائش بنانے یا سرمایہکاری میں اپنا بہت سا وقت لگا رہا ہوں؟ یا کیا مَیں اپنی توجہ روحانی باتوں پر رکھنے کی پوری کوشش کر رہا ہوں؟“ (متی 6:22) یسوع مسیح نے کہا تھا کہ جو لوگ ”زمین پر مال جمع“ کرنے کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں، وہ خود کو روحانی طور پر خطرے میں ڈال رہے ہوتے ہیں۔—متی 6:19، 20، 24۔
6. ہم غلط کاموں سے بچنے کے لیے کیا کر سکتے ہیں؟
6 چونکہ ہم عیبدار ہیں اِس لیے ہم غلط کام کرنے کی طرف مائل ہیں۔ (رومیوں 7:21-25 کو پڑھیں۔) اگر ہم پاک روح کے مطابق زندگی نہیں گزارتے تو ہم ”تاریکی کے کاموں“ میں پڑ سکتے ہیں، جیسے کہ ”ناچ رنگ اور نشہبازی . . . زِناکاری اور شہوتپرستی“ وغیرہ۔ (روم 13:12، 13) ”زمین پر کی چیزوں“ یعنی غلط کاموں سے بچنے کے لیے ہمیں اپنا دھیان عالمِبالا کی چیزوں پر رکھنا چاہیے۔ ایسا کرنے کے لیے سخت کوشش درکار ہے۔ اِسی لیے پولُس رسول نے کہا: ”مَیں اپنے بدن کو مارتا کوٹتا اور اُسے قابو میں رکھتا ہوں۔“ (1-کر 9:27) ہمیں بھی زندگی کی دوڑ میں شامل رہنے کے لیے سخت کوشش کرنی ہوگی۔ آئیں، دیکھتے ہیں کہ اِس سلسلے میں خدا کے دو وفادار بندوں نے ہمارے لیے کون سی مثال قائم کی۔—عبر 11:6۔
ابرہام ’یہوواہ خدا پر ایمان لائے‘
7، 8. (الف) ابرہام اور سارہ کو کن مشکلوں کا سامنا کرنا پڑا؟ (ب) ابرہام نے اپنی توجہ کس بات پر مرکوز رکھی؟
7 جب یہوواہ خدا نے ابرہام سے کہا کہ وہ اپنے گھر والوں کو لے کر ملک کنعان چلے جائیں تو ابرہام خوشی سے وہاں چلے گئے۔ اُن کے ایمان اور فرمانبرداری کی وجہ سے یہوواہ خدا نے اُن کے ساتھ ایک وعدہ کِیا۔ اُس نے ابرہام سے کہا: ”مَیں تجھے ایک بڑی قوم بناؤں گا اور برکت دوں گا۔“ (پید 12:2) لیکن اِس وعدے کے سالوں بعد بھی ابرہام اور سارہ بےاولاد رہے۔ کیا یہوواہ خدا ابرہام کے ساتھ اپنا وعدہ بھول گیا تھا؟ ابرہام اور اُن کے گھر والے مسوپتامیہ کے ایک امیر شہر اُور میں بہت خوشحال زندگی گزار رہے تھے۔ لیکن وہ اپنا سب کچھ چھوڑچھاڑ کر کنعان چلے گئے جہاں اُن کے لیے زندگی گزارنا آسان نہیں تھا۔ یہاں آنے کے لیے اُنہوں نے 1600 کلو میٹر (1000 میل) کا سفر طے کِیا۔ اِس کے علاوہ اُنہیں خیموں میں رہنا پڑا، وہ قحط کا شکار ہوئے اور اُنہیں چور ڈاکوؤں کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ (پید 12:5، 10؛ 13:18؛ 14:10-16) اِتنی مشکلوں کے باوجود بھی ابرہام اور سارہ نے آرامدہ زندگی گزارنے کے لیے اُور لوٹنے کے بارے میں نہیں سوچا۔—عبرانیوں 11:8-12، 15 کو پڑھیں۔
8 ابرہام ”زمین پر کی چیزوں“ پر دھیان دینے کی بجائے ’یہوواہ پر ایمان لائے۔‘ (پید 15:6) اُنہوں نے اپنی توجہ یہوواہ خدا کے وعدوں پر مرکوز رکھی۔ ابرہام کو اُن کے ایمان کا اجر دینے کے لیے یہوواہ خدا نے اُن سے کہا: ”آسمان کی طرف نگاہ کر اور اگر تُو ستاروں کو گن سکتا ہے تو گن اور اُس سے کہا کہ تیری اولاد ایسی ہی ہوگی۔“ (پید 15:5) یہ سُن کر ابرہام کا حوصلہ کتنا بڑھا ہوگا! ابرہام جب بھی ستاروں بھرے آسمان کو دیکھتے ہوں گے تو اُنہیں یہوواہ خدا کا یہ وعدہ یاد آتا ہوگا۔ خدا کے مقررہ وقت پر ابرہام کے ہاں ایک وارث پیدا ہوا۔—پید 21:1، 2۔
9. ہم خدا کی خدمت میں مصروف رہنے کے سلسلے میں ابرہام کی مثال سے کیا سیکھ سکتے ہیں؟
9 ابرہام کی طرح ہم بھی خدا کے وعدوں کے پورا ہونے کے منتظر ہیں۔ (2-پطر 3:13) اگر ہم عالمِبالا کی چیزوں کے خیال میں نہیں رہیں گے تو شاید ہمیں لگے گا کہ یہوواہ خدا اپنے وعدوں کو پورا کرنے میں دیر کر رہا ہے۔ اور ہو سکتا ہے کہ ہم پہلے کی طرح جوش سے اُس کی خدمت نہ کریں۔ مثال کے طور پر کیا ماضی میں آپ نے پہلکار کے طور پر خدمت کرنے یا یہوواہ خدا کی خدمت میں زیادہ حصہ لینے کے لیے کچھ قربانیاں دی تھیں؟ اگر آپ نے ایسا کِیا تھا تو یہ بہت اچھی بات ہے۔ لیکن کیا آپ اب بھی ایسا کر رہے ہیں؟ یاد رکھیں کہ ابرہام نے اپنا دھیان ’اُس پائیدار شہر پر رکھا جس کا بنانے والا خدا ہے۔‘ (عبر 11:10) وہ ’یہوواہ خدا پر ایمان لائے اور یہ اُن کے لیے راستبازی گنا گیا۔‘—روم 4:3۔
موسیٰ ’اَندیکھے کو گویا دیکھ کر ثابتقدم رہے‘
10. نوجوانی میں موسیٰ کی زندگی کیسی تھی؟
10 موسیٰ نے بھی اپنا پورا دھیان عالمِبالا کی چیزوں پر رکھا۔ موسیٰ نے مصر کے شاہی گھرانے میں پرورش پائی تھی۔ اُس وقت مصر عالمی طاقت تھا۔ نوجوانی میں اُنہوں نے ”مصریوں کے تمام علوم کی تعلیم پائی“ جو کہ کوئی عام تعلیم نہیں تھی۔ لہٰذا اِس میں حیرانی کی کوئی بات نہیں کہ موسیٰ ’کلام اور کام میں قوت والے تھے۔‘ (اعما 7:22) ذرا سوچیں کہ اگر وہ چاہتے تو وہ خوب نام کما سکتے تھے۔ لیکن اُنہوں نے اپنا پورا دھیان یہوواہ خدا کی مرضی کے مطابق چلنے پر رکھا۔
11، 12. موسیٰ کس تعلیم کی سب سے زیادہ قدر کرتے تھے؟ اور ہم یہ کیوں کہہ سکتے ہیں؟
11 جب موسیٰ چھوٹے تھے تو اُن کی ماں یوکبد نے یقیناً اُنہیں عبرانیوں کے خدا کے بارے میں سکھایا ہوگا۔ موسیٰ یہوواہ خدا کی تعلیم کی بہت قدر کرتے تھے۔ اُن کی نظر میں یہوواہ خدا کی تعلیم مالودولت سے کہیں زیادہ اہم تھی۔ یہی وجہ ہے کہ اُنہوں نے ہر اُس اِختیار اور کامیابی کے موقعے کو ٹھکرا دیا جو اُنہیں فرعون کی بیٹی کا بیٹا کہلانے کی وجہ سے ملا تھا۔ (عبرانیوں 11:24-27 کو پڑھیں۔) بِلاشُبہ یہوواہ خدا پر ایمان رکھنے اور اُس کے بارے میں تعلیم پانے کی وجہ سے موسیٰ کو ترغیب ملی کہ وہ اپنا دھیان عالمِبالا کی چیزوں پر رکھیں۔
12 موسیٰ نے اپنے زمانے کی سب سے اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔ لیکن کیا اُنہوں نے اِس تعلیم کو مصر میں کامیابی حاصل کرنے، نام کمانے یا مالودولت حاصل کرنے کے لیے اِستعمال کِیا؟ نہیں۔ اگر وہ ایسا کرنا چاہتے تو وہ کبھی بھی ”فرؔعون کی بیٹی کا بیٹا کہلانے سے اِنکار“ نہ کرتے اور نہ ہی ”گُناہ کا چند روزہ لطف اُٹھانے کی نسبت خدا کی اُمت کے ساتھ بدسلوکی برداشت کرنا“ پسند کرتے۔ موسیٰ نے دراصل یہوواہ خدا کی تعلیم کو اُس کی مرضی پوری کرنے کے لیے اِستعمال کِیا۔
13، 14. (الف) موسیٰ کو اپنے اندر کون سی خوبیاں پیدا کرنے کی ضرورت تھی؟ (ب) ہمیں بھی موسیٰ کی طرح کیا کرنا چاہیے؟
13 موسیٰ کو یہوواہ خدا اور اُس کے لوگوں سے بہت لگاؤ تھا۔ جب وہ 40 سال کے تھے تو اُنہوں نے سوچا کہ اب وہ خدا کے لوگوں کو مصریوں کی غلامی سے آزاد کرانے کو تیار ہیں۔ (اعما 7:23-25) لیکن اِس سے پہلے کہ یہوواہ خدا موسیٰ کو یہ ذمےداری سونپتا، موسیٰ کو اپنے اندر کچھ خوبیاں پیدا کرنی تھیں، جیسے کہ خاکساری، صبر، نرمی اور ضبطِنفس۔ (امثا 15:33) اِس سلسلے میں موسیٰ کو تربیت کی ضرورت تھی تاکہ وہ آنے والی مشکلوں اور تکلیفوں کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہو سکیں۔ موسیٰ نے کئی سال تک ایک چرواہے کے طور پر کام کِیا اور یقیناً اِس دوران اُنہیں اپنے اندر ایسی خوبیاں پیدا کرنے کا موقع ملا ہوگا۔
14 کیا اُن کے اندر یہ خوبیاں پیدا ہوئیں؟ بالکل۔ خدا کے کلام میں لکھا ہے کہ موسیٰ ”رویِزمین کے سب آدمیوں سے زیادہ حلیم تھا۔“ (گن 12:3) اُنہوں نے اپنے اندر خاکساری کی خوبی پیدا کی اور یوں وہ مختلف لوگوں اور اُن کے مسئلوں سے صبر سے نپٹ سکے۔ (خر 18:26) بِلاشُبہ ہمیں بھی اپنے اندر ایسی خوبیاں پیدا کرنی چاہئیں جن کی مدد سے ہم ”بڑی مصیبت“ سے نکل کر نئی دُنیا میں جا سکیں۔ (مکا 7:14) کیا ہم ایسے لوگوں کے ساتھ بھی اچھی طرح سے پیش آتے ہیں جو چھوٹی چھوٹی باتوں کو دل پر لے لیتے ہیں یا بہت جلدی غصے میں آ جاتے ہیں؟ ہمیں پطرس رسول کی اِس نصیحت کو ہمیشہ یاد رکھنے کی ضرورت ہے: ”سب کی عزت کرو۔ برادری سے محبت رکھو۔“—1-پطر 2:17۔
عالمِبالا کی چیزوں کے خیال میں رہیں
15، 16. (الف) یہ کیوں ضروری ہے کہ ہم اپنی توجہ اچھے کاموں پر رکھیں؟ (ب) ہمیں اپنے چالچلن کو نیک کیوں رکھنا چاہیے؟
15 ہم ’بُرے دنوں‘ میں رہ رہے ہیں۔ (2-تیم 3:1) اِس لیے روحانی طور پر جاگتے رہنے کے لیے ہمیں اپنی پوری توجہ اچھے کاموں پر رکھنی چاہیے۔ (1-تھس 5:6-9) آئیں، دیکھتے ہیں کہ ہم زندگی کے تین حلقوں میں ایسا کیسے کر سکتے ہیں۔
16 ہمارا چالچلن: پطرس رسول اچھے چالچلن کی اہمیت سے واقف تھے۔ اِس لیے اُنہوں نے کہا: ’غیرقوموں میں اپنا چالچلن نیک رکھو تاکہ وہ تمہارے نیک کاموں کو دیکھ کر خدا کی تمجید کریں۔‘ (1-پطر 2:12) چاہے ہم گھر پر ہوں، کام پر ہوں، سکول میں ہوں، تفریح کر رہے ہوں یا مُنادی کا کام کر رہے ہوں؛ ہمیں اپنے چالچلن سے یہوواہ خدا کو جلال دینا چاہیے۔ سچ ہے کہ عیبدار ہونے کی وجہ سے ہم سب غلطیاں کرتے ہیں۔ (روم 3:23) لیکن ’ایمان کی اچھی کُشتی لڑتے‘ رہنے سے ہم اپنے چالچلن کو نیک رکھ سکتے ہیں۔—1-تیم 6:12۔
17. ہم یسوع مسیح جیسا مزاج کیسے اپنا سکتے ہیں؟ (اِس مضمون کی پہلی تصویر کو دیکھیں۔)
17 ہمارا مزاج: ہمارا چالچلن اُسی وقت اچھا ہوتا ہے اگر ہمارا مزاج اچھا ہے۔ پولُس رسول نے کہا: ”ویسا ہی مزاج رکھو جیسا مسیح یسوؔع کا بھی تھا۔“ (فل 2:5) یسوع مسیح کا مزاج کیسا تھا؟ وہ بہت فروتن تھے۔ فروتنی کی وجہ سے ہی وہ مُنادی کا کام کرنے کے لیے ہر طرح کی قربانی دینے کو تیار تھے۔ اُن کی نظر میں دوسروں کو خدا کی بادشاہت کی خوشخبری سنانا سب سے اہم تھا۔ (مر 1:38؛ 13:10) یسوع مسیح تعلیم دیتے وقت لوگوں کی توجہ ہمیشہ خدا کے کلام پر دِلاتے تھے۔ (یوح 7:16؛ 8:28) اُنہوں نے پاک صحیفوں کا گہرا مطالعہ کِیا تاکہ وہ اِن کا حوالہ دے سکیں اور اِن کی صحیح وضاحت کر سکیں۔ اگر ہم فروتن بنیں گے اور بائبل کا گہرا مطالعہ اور جوش سے مُنادی کریں گے تو ہم یسوع مسیح جیسا مزاج اپنانے کے قابل ہو جائیں گے۔
18. ہم کس خاص طریقے سے خدا کے کام کی حمایت کر سکتے ہیں؟
18 خدا کے کام کی حمایت: یہوواہ خدا چاہتا ہے کہ ”یسوؔع کے نام پر ہر ایک گھٹنا جھکے۔ خواہ آسمانیوں کا ہو خواہ زمینیوں کا۔“ (فل 2:9-11) اِتنا اعلیٰ مرتبہ رکھنے کے باوجود یسوع مسیح فروتنی سے اپنے باپ کے تابع ہو جائیں گے۔ اور ہمیں بھی ایسا ہی کرنا چاہیے۔ (1-کر 15:28) لیکن ہم یہ کیسے کر سکتے ہیں؟ ہم ’سب قوموں کو شاگرد بنانے‘ کے کام میں بھرپور حصہ لینے سے ایسا کر سکتے ہیں۔ (متی 28:19) اِس کے علاوہ ہمیں ”سب کے ساتھ نیکی“ کرنی چاہیے، چاہے یہ ہمارے بہن بھائی ہوں یا دوسرے لوگ۔—گل 6:10۔
19. ہمیں کیا کرنے کا عزم کرنا چاہیے؟
19 ہم کتنے شکر گزار ہیں کہ یہوواہ خدا ہمیں یاد دِلاتا رہتا ہے کہ ہم اپنا دھیان عالمِبالا کی چیزوں پر رکھیں۔ عالمِبالا کی چیزوں پر اپنا دھیان رکھنے کے لیے ہمیں ’اُس دوڑ میں صبر سے دوڑنا ہوگا جو ہمیں درپیش ہے۔‘ (عبر 12:1) آئیں، ہم سب پورے دل سے یہوواہ خدا کے لیے کام کریں۔ اگر ہم ایسا کریں گے تو ہمارا آسمانی باپ ہمیں ہماری محنت کا اجر دے گا۔—کل 3:23، 24۔