مسیح جیسا ذہنی رُجحان رکھیں
”خدا صبر اور تسلی کا چشمہ تُم کو یہ توفیق دے کہ مسیح یسوع کے مطابق آپس میں یکدل رہو۔“ —رومیوں ۱۵:۵۔
۱. کسی شخص کی زندگی اُسکے رُجحان سے کیسے متاثر ہو سکتی ہے؟
رُجحان زندگی میں بڑی اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ لاپرواہی یا مستعدی کا رُجحان، مثبت یا منفی رُجحان، مخالفانہ یا مصالحانہ رُجحان، شکایتی یا احسانمندانہ رُجحان کسی شخص کے معاملات نپٹانے کے طریقۂکار اور اُس کی بابت دوسرے لوگوں کے نظریات پر گہرا اثر ڈال سکتا ہے۔ اچھے رُجحان والا شخص مشکل حالات میں بھی خوش رہ سکتا ہے۔ لیکن زندگی اگر حقیقت میں خوشگوار بھی ہو تو بُرے رُجحان والا شخص اِس سے مطمئن نہیں ہوتا۔
۲. ایک شخص رُجحانات کیسے سیکھتا ہے؟
۲ رُجحانات اچھے ہوں یا بُرے اُنہیں سیکھا جا سکتا ہے۔ درحقیقت، اِنہیں سیکھا ہی جاتا ہے۔ ایک نوزائیدہ بچے کی بابت کولئیرز انسائیکلوپیڈیا بیان کرتا ہے: ”ایک بچہ جس طرح کوئی زبان یا ہنر سیکھتا ہے اُسی طرح وہ رُجحانات بھی سیکھتا ہے جو بالآخر اُس کی شخصیت کا خاصہ بن جاتے ہیں۔“ ہم رُجحانات کیسے سیکھتے ہیں؟ اگرچہ اِس میں بہت سی باتوں کا عملدخل ہے مگر ماحول اور رفاقت زیادہ مؤثر ثابت ہوتے ہیں۔ متذکرہبالا انسائیکلوپیڈیا بیان کرتا ہے: ”ہم اپنے قریبی رفیقوں کے رُجحانات سیکھتے ہیں گویا یہ ہمارے اندر جذب ہو جاتے ہیں۔“ ہزاروں سال پہلے بائبل نے بھی یہی بات کہی تھی: ”وہ جو داناؤں کے ساتھ چلتا ہے دانا ہوگا پر احمقوں کا ساتھی ہلاک کِیا جائے گا۔“—امثال ۱۳:۲۰؛ ۱-کرنتھیوں ۱۵:۳۳۔
مناسب رُجحان کا نمونہ
۳. اپنے رُجحان کے سلسلے میں کون قابلِتقلید تھا اور ہم اُسکی نقل کیسے کر سکتے ہیں؟
۳ یسوع مسیح دیگر باتوں کی طرح رُجحان کے معاملے میں بھی عمدہ نمونہ قائم کرتا ہے۔ اُس نے کہا: ”مَیں نے تم کو ایک نمونہ دکھایا ہے کہ جیسا مَیں نے تمہارے ساتھ کِیا ہے تم بھی کِیا کرو۔“ (یوحنا ۱۳:۱۵) یسوع کی مانند بننے کے لئے ہمیں پہلے اُس کی بابت سیکھنا چاہئے۔a ہم یسوع کی زندگی کا مطالعہ پطرس رسول کے اِس مشورے پر عمل کرنے کے ارادے سے کرتے ہیں: ”تم اِسی کے لئے بلائے گئے ہو کیونکہ مسیح بھی تمہارے واسطے دُکھ اُٹھا کر تمہیں ایک نمونہ دے گیا ہے تاکہ اُسکے نقشِقدم پر چلو۔“ (۱-پطرس ۲:۲۱) ہمارا نصباُلعین یسوع کی مانند بننے کی حتیالوسع کوشش کرنا ہے۔ اِس میں اُس جیسا ذہنی رُجحان پیدا کرنا شامل ہے۔
۴، ۵. رومیوں ۱۵:۱-۳ میں یسوع کے ذہنی رُجحان کے کس پہلو کو اُجاگر کِیا گیا ہے اور مسیحی اُسکی نقل کیسے کر سکتے ہیں؟
۴ مسیح یسوع جیسا ذہنی رُجحان رکھنے میں کیا شامل ہے؟ رومیوں کے نام پولس کے خط کا ۱۵ باب اِس سوال کا جواب حاصل کرنے میں ہماری مدد کرتا ہے۔ اِس باب کی پہلی چند آیات میں، یسوع کی ایک نمایاں خوبی کا حوالہ دیتے ہوئے پولس بیان کرتا ہے: ”غرض ہم زورآوروں کو چاہئے کہ ناتوانوں کی کمزوریوں کی رعایت کریں نہ کہ اپنی خوشی کریں۔ ہم میں ہر شخص اپنے پڑوسی کو اُسکی بہتری کے واسطے خوش کرے تاکہ اُسکی ترقی ہو۔ کیونکہ مسیح نے بھی اپنی خوشی نہیں کی بلکہ یوں لکھا ہے کہ تیرے لعنطعن کرنے والوں کے لعنطعن مجھ پر آ پڑے۔“—رومیوں ۱۵:۱-۳۔
۵ یسوع کے رُجحان کی نقل کرنے کیلئے مسیحیوں کی حوصلہافزائی کی جاتی ہے کہ وہ صرف اپنی خوشی کی بجائے، فروتنی کیساتھ دوسروں کی ضروریات پوری کرنے کیلئے تیار رہیں۔ واقعی، دوسروں کی خدمت کرنے کیلئے ایسی انکسارانہ رضامندی ”زورآوروں“ کا خاصہ ہے۔ یسوع نے، جو زمین پر رہنے والے کسی بھی انسان سے روحانی طور پر زیادہ مضبوط تھا، اپنی بابت کہا: ”ابنِآدم اِسلئے نہیں آیا کہ خدمت لے بلکہ اِسلئے کہ خدمت کرے اور اپنی جان بہتیروں کے بدلے فدیہ میں دے۔“ (متی ۲۰:۲۸) مسیحیوں کے طور پر، ہم ”ناتوانوں“ سمیت دوسروں کی خدمت کرنا چاہتے ہیں۔
۶. مخالفت اور رسوائی کے سلسلے میں ہم یسوع کے ردِعمل کی نقل کیسے کر سکتے ہیں؟
۶ یسوع نے ہمیشہ مثبت فکروعمل کی عمدہ خصوصیت کا بھی مظاہرہ کِیا۔ اُس نے کبھی بھی دوسروں کے منفی رُجحان کو خدا کی خدمت کے سلسلے میں اپنے عمدہ رُجحان پر اثرانداز ہونے کی اجازت نہ دی اور ہمیں بھی نہیں دینی چاہئے۔ وفاداری سے خدا کی پرستش کرنے کے باعث جب یسوع کی بےعزتی کی گئی اور اُسے اذیت کا نشانہ بنایا گیا تو اُس نے کوئی شکایت نہ کی بلکہ صبر سے برداشت کی۔ وہ جانتا تھا کہ اپنے پڑوسی کو ”اُسکی بہتری کے واسطے خوش“ کرنے کی کوشش کرنے والے اشخاص بےایمان اور بےسمجھ دُنیا کی طرف سے آزمائش کی توقع کر سکتے ہیں۔
۷. یسوع نے صبر کا مظاہرہ کس طرح کِیا اور ہمیں بھی کیوں ایسا کرنا چاہئے؟
۷ یسوع نے دیگر طریقوں سے بھی مناسب رُجحان کا مظاہرہ کِیا۔ وہ کبھی بھی یہوواہ کیساتھ بےصبری سے پیش نہیں آیا تھا بلکہ ہمیشہ صبر کیساتھ اُسکے مقاصد کی تکمیل کا انتظار کِیا تھا۔ (زبور ۱۱۰:۱؛ متی ۲۴:۳۶؛ اعمال ۲:۳۲-۳۶؛ عبرانیوں ۱۰:۱۲، ۱۳) مزیدبرآں، یسوع اپنے پیروکاروں کے ساتھ بھی کبھی بےصبری سے پیش نہیں آیا تھا۔ اُس نے اُن سے کہا: ”مجھ سے سیکھو“؛ کیونکہ وہ ”حلیم“ تھا اِس لئے اُسکی تعلیم تعمیری اور تازگیبخش تھی۔ نیز ”دل کا فروتن“ ہونے کی وجہ سے وہ کبھی بھی بڑے بول نہیں بولتا تھا اور متکبر بھی نہیں تھا۔ (متی ۱۱:۲۹) پولس، یسوع کے رُجحان کے اِن پہلوؤں کی تقلید کرنے کیلئے ہماری حوصلہافزائی کرتے ہوئے بیان کرتا ہے: ”ویسا ہی مزاج رکھو جیسا مسیح کا بھی تھا۔ اُس نے اگرچہ خدا کی صورت پر تھا خدا کے برابر ہونے کو قبضہ میں رکھنے کی چیز نہ سمجھا۔ بلکہ اپنے آپ کو خالی کر دیا اور خادم کی صورت اختیار کی اور انسانوں کے مشابہ ہو گیا۔“—فلپیوں ۲:۵-۷۔
۸، ۹. (ا) ہمیں بےغرضانہ رُجحان پیدا کرنے کے لئے جدوجہد کیوں کرنی پڑتی ہے؟ (ب) اگر ہم یسوع کے کامل نمونے کی پیروی کرنے سے قاصر رہتے ہیں تو ہمیں بےحوصلہ کیوں نہیں ہونا چاہئے اور پولس اِس سلسلے میں کیسے ایک عمدہ نمونہ تھا؟
۸ یہ کہنا تو آسان ہے کہ ہم دوسروں کی خدمت کرنا اور اپنی ضروریات کی پرواہ کئے بغیر اُنکی ضروریات کو پورا کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن اپنے ذہنی رُجحان کا دیانتدارانہ جائزہ ظاہر کر سکتا ہے کہ ہمارے دل ایسا کرنے پر بالکل آمادہ نہیں ہوتے۔ کیوں نہیں؟ اوّل، آدم اور حوا سے خودغرضانہ خصائل کا ورثہ پانے کی وجہ سے؛ دوم، خودغرضی کو فروغ دینے والی دُنیا میں رہنے کی وجہ سے۔ (افسیوں ۴:۱۷، ۱۸) بےغرضانہ رُجحان پیدا کرنے کیلئے اکثر اپنی پیدائشی ناکامل فطرت کے برعکس طرزِفکر اختیار کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اِس کیلئے عزمِمُصمم اور کوشش درکار ہے۔
۹ بعضاوقات ہم یسوع کے کامل نمونے کے مقابلے میں اپنی ناکاملیت پر غور کرنے سے بےحوصلہ ہو جاتے ہیں۔ کبھیکبھار تو ہم یہ سوچنے لگتے ہیں کہ یسوع جیسا ذہنی رُجحان رکھنا ممکن ہی نہیں ہے۔ تاہم، پولس کے اِن حوصلہافزا الفاظ پر غور کریں: ”مَیں جانتا ہوں کہ مجھ میں یعنی میرے جسم میں کوئی نیکی بسی ہوئی نہیں البتہ ارادہ تو مجھ میں موجود ہے مگر نیک کام مجھ سے بن نہیں پڑتے۔ چنانچہ جس نیکی کا ارادہ کرتا ہوں وہ تو نہیں کرتا مگر جس بدی کا ارادہ نہیں کرتا اُسے کر لیتا ہوں۔ کیونکہ باطنی انسانیت کی رُو سے تو مَیں خدا کی شریعت کو بہت پسند کرتا ہوں۔ مگر مجھے اپنے اعضا میں ایک اَور طرح کی شریعت نظر آتی ہے جو میری عقل کی شریعت سے لڑ کر مجھے اُس گُناہ کی شریعت کی قید میں لے آتی ہے جو میرے اعضا میں موجود ہے۔“ (رومیوں ۷:۱۸، ۱۹، ۲۲، ۲۳) سچ ہے کہ پولس کی ناکاملیت بارہا اُس کی خواہش کے مطابق خدا کی مرضی پوری کرنے میں رکاوٹ بنی، لیکن اُس کا رُجحان—یہوواہ اور اُس کی شریعت کی بابت اُس کا نظریہ اور احساس—مثالی تھا۔ ہمارا رُجحان بھی مثالی ہو سکتا ہے۔
غلط رُجحانات کی اصلاح کرنا
۱۰. پولس نے فلپیوں کی کونسا ذہنی رُجحان پیدا کرنے کیلئے حوصلہافزائی کی؟
۱۰ کیا یہ ممکن ہے کہ بعض کو غلط رُجحان کی اصلاح کرنے کی ضرورت ہے؟ جیہاں۔ پہلی صدی کے بعض مسیحیوں کو واقعی ایسا کرنا پڑا تھا۔ پولس نے فلپیوں کے نام اپنے خط میں درست رُجحان رکھنے پر گفتگو کی۔ اُس نے لکھا: ”یہ غرض نہیں کہ مَیں [پہلی قیامت کے ذریعے آسمانی زندگی] پا چُکا یا کامل ہو چُکا ہوں بلکہ اُس چیز کے پکڑنے کیلئے دوڑا ہؤا جاتا ہوں جسکے لئے مسیح یسوؔع نے مجھے پکڑا تھا۔ اَے بھائیو! میرا یہ گمان نہیں کہ پکڑ چُکا ہوں بلکہ صرف یہ کرتا ہوں کہ جو چیزیں پیچھے رہ گئیں اُنکو بھول کر آگے کی چیزوں کی طرف بڑھا ہؤا۔ نشان کی طرف دوڑا ہؤا جاتا ہوں تاکہ اُس انعام کو حاصل کروں جسکے لئے خدا نے مجھے مسیح یسوؔع میں اُوپر بلایا ہے۔ پس ہم میں سے جتنے کامل ہیں یہی خیال [”ذہنی رُجحان،“ اینڈبلیو] رکھیں۔“—فلپیوں ۳:۱۲-۱۵۔
۱۱، ۱۲. یہوواہ کن طریقوں سے ہم پر مناسب رُجحان آشکارا کرتا ہے؟
۱۱ پولس کے الفاظ سے ظاہر ہوتا ہے کہ مسیحی بننے کے باوجود ترقی کرنے کی ضرورت محسوس نہ کرنے والا ہر شخص غلط رُجحان رکھتا ہے۔ وہ مسیح جیسا ذہنی رُجحان اپنانے میں ناکام ہو گیا ہے۔ (عبرانیوں ۴:۱۱؛ ۲-پطرس ۱:۱۰؛ ۳:۱۴) کیا ایسے شخص کا کوئی مددگار نہیں؟ ہرگز نہیں۔ اگر ہم چاہیں تو خدا اپنا رُجحان بدلنے میں ہماری مدد کر سکتا ہے۔ پولس مزید بیان کرتا ہے: ”اگر کسی بات میں تمہارا اَور طرح کا خیال [”ذہنی رُجحان،“ اینڈبلیو] ہو تو خدا اُس بات کو بھی تم پر ظاہر کر دیگا۔“—فلپیوں ۳:۱۵۔
۱۲ تاہم، اگر ہم چاہتے ہیں کہ یہوواہ ہم پر مناسب رُجحان آشکارا کرے تو ہمیں اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ ”دیانتدار اور عقلمند نوکر“ کی طرف سے فراہمکردہ مسیحی مطبوعات کی مدد کے ساتھ خدا کے کلام کا دُعائیہ مطالعہ ایسے اشخاص کو مناسب رُجحان پیدا کرنے کے قابل بنائے گا جو کسی ”اَور طرح کا خیال [”ذہنی رُجحان،“ اینڈبلیو]“ رکھتے ہیں۔ (متی ۲۴:۴۵) ”کلیسیا کی گلّہبانی“ کرنے کے لئے رُوحاُلقدس سے مقررشُدہ مسیحی بزرگ اِس ضمن میں خوشی سے مدد کریں گے۔ (اعمال ۲۰:۲۸) ہم کتنے شکرگزار ہیں کہ یہوواہ ہماری ناکاملیتوں کا لحاظ رکھتا اور بڑی محبت سے مدد کرتا ہے! ہمیں اِسے قبول کرنا چاہئے۔
دوسروں سے سیکھنا
۱۳. بائبل میں ایوب کی سرگزشت سے ہم مناسب رُجحان کی بابت کیا سیکھتے ہیں؟
۱۳ رومیوں ۱۵ باب میں، پولس ظاہر کرتا ہے کہ تاریخی مثالوں پر غور کرنا اپنے رُجحان کی اصلاح کرنے میں ہماری مدد کر سکتا ہے۔ وہ لکھتا ہے: ”کیونکہ جتنی باتیں پہلے لکھی گئیں وہ ہماری تعلیم کے لئے لکھی گئیں تاکہ صبر سے اور کتابِمُقدس کی تسلی سے اُمید رکھیں۔“ (رومیوں ۱۵:۴) قدیم زمانے میں یہوواہ کے بعض وفادار خادموں کو اپنے رُجحان کے کچھ پہلوؤں کی اصلاح کرنے کی ضرورت پڑی تھی۔ مثال کے طور پر، ایوب عمدہ رُجحان رکھتا تھا۔ اُس نے بُرائی کے لئے کبھی بھی یہوواہ کو الزام نہیں دیا تھا اور نہ ہی کبھی دُکھتکلیف کی وجہ سے خدا پر اپنے اعتماد میں لغزش آنے دی۔ (ایوب ۱:۸، ۲۱، ۲۲) تاہم وہ خود کو راست ٹھہرانے کی طرف بھی مائل تھا۔ یہوواہ نے الیہو کو ہدایت کی کہ وہ اِس میلان کی اصلاح کے سلسلے میں ایوب کی مدد کرے۔ توہین محسوس کرنے کی بجائے، ایوب نے اپنے رُجحان کو بدلنے کی ضرورت پہچان لی اور خوشی سے ایسا کرنے کیلئے راضی ہو گیا۔—ایوب ۴۲:۱-۶۔
۱۴. اگر ہمارے رُجحان کے متعلق ہمیں تنبیہ کی جاتی ہے تو ہم ایوب کی مانند کیسے بن سکتے ہیں؟
۱۴ اگر کوئی ساتھی مسیحی نرمی کیساتھ ہمیں یہ بتاتا ہے کہ ہمارا رُجحان غلط ہے تو کیا ہم ایوب جیسا ردِعمل دکھائیں گے؟ دُعا ہے کہ ایوب کی طرح ہم کبھی بھی ”خدا پر بیجا کام کا عیب“ نہ لگائیں۔ (ایوب ۱:۲۲) اگر ہمارے ساتھ ناانصافی ہوتی ہے تو ہمیں کبھی بھی شکایت نہیں کرنی چاہئے اور نہ ہی اپنی مشکلات کیلئے یہوواہ کو الزام دینا چاہئے۔ خدا کرے کہ ہم یہ یاد رکھتے ہوئے خود کو راست ٹھہرانے کی کوشش کرنے سے اجتناب کریں کہ یہوواہ کی خدمت میں ہمارا شرف خواہ کچھ بھی ہو، ہم ”نکمّے نوکر“ ہی ہیں۔—لوقا ۱۷:۱۰۔
۱۵. (ا) یسوع کے بعض پیروکاروں نے کونسا غلط رُجحان ظاہر کِیا؟ (ب) پطرس نے عمدہ رُجحان کیسے ظاہر کِیا؟
۱۵ پہلی صدی کے دوران، یسوع کے سامعین میں سے بعض اشخاص نے نامناسب رُجحان کا مظاہرہ کِیا تھا۔ ایک موقع پر، یسوع نے کوئی ایسی بات کہی جسے سمجھنا مشکل تھا۔ نتیجتاً، ”بہتوں نے سنکر کہا کہ یہ کلام ناگوار ہے۔ اِسے کون سُن سکتا ہے؟“ ایسی بات کہنے والوں کا رُجحان بالکل غلط تھا۔ نیز اپنے اِسی غلط رُجحان کی وجہ سے اُنہوں نے یسوع کے کلام کو سننا ترک کر دیا۔ بیان یوں ہے: ”اِس پر اُسکے شاگردوں میں سے بہتیرے اُلٹے پھر گئے اور اِسکے بعد اُسکے ساتھ نہ رہے۔“ کیا سب کا رُجحان غلط تھا؟ جینہیں۔ بیان جاری رہتا ہے: ”پس یسوؔع نے اُن بارہ سے کہا کیا تم بھی چلا جانا چاہتے ہو؟ شمعوؔن پطرس نے اُسے جواب دیا اَے خداوند! ہم کس کے پاس جائیں؟“ پھر، پطرس نے اپنے سوال کا خود ہی جواب دیا: ”ہمیشہ کی زندگی کی باتیں تو تیرے ہی پاس ہیں۔“ (یوحنا ۶:۶۰، ۶۶-۶۸) کتنا عمدہ رُجحان! جب ہمارے سامنے صحائف کی کوئی ایسی نئی وضاحت یا سمجھ پیش کی جاتی ہے جسے فوراً قبول کرنا ہمارے لئے مشکل ہوتا ہے تو کیا پطرس جیسے رُجحان کا مظاہرہ کرنا اچھا نہیں ہوگا؟ شروع شروع میں بعض باتوں کو سمجھنے میں دقت محسوس کرنے کی وجہ سے یہوواہ کی خدمت چھوڑ دینا یا ”صحیح [باتوں] . . . کے خاکہ“ کے برعکس کچھ کہنا کتنی بڑی حماقت ہوگی!—۲-تیمتھیس ۱:۱۳۔
۱۶. یسوع کے زمانے کے یہودی مذہبی پیشواؤں نے کونسے حیرانکُن رُجحان کا مظاہرہ کِیا؟
۱۶ پہلی صدی کے یہودی مذہبی پیشوا یسوع جیسا ذہنی رُجحان ظاہر کرنے میں ناکام ہو گئے تھے۔ جب یسوع نے لعزر کو مُردوں میں سے زندہ کِیا تو اُس وقت اُنکا اُسکی بات نہ سننے کا پکا ارادہ ظاہر ہو گیا تھا۔ درست رُجحان رکھنے والے کسی بھی شخص کیلئے یہ معجزہ اِس بات کا قطعی ثبوت تھا کہ یسوع خدا کی طرف سے آیا ہے۔ تاہم، ہم پڑھتے ہیں: ”پس سردار کاہنوں اور فریسیوں نے صدرعدالت کے لوگوں کو جمع کر کے کہا ہم کرتے کیا ہیں؟ یہ آدمی تو بہت معجزے دکھاتا ہے۔ اگر ہم اُسے یوں ہی چھوڑ دیں تو سب اُس پر ایمان لے آئینگے اور رُومی آکر ہماری جگہ اور قوم دونوں پر قبضہ کر لینگے۔“ اُنہوں نے اِسکا کیا حل نکالا؟ ”وہ اُسی روز سے اُسے قتل کرنے کا مشورہ کرنے لگے۔“ یسوع کو قتل کرنے کی سازش کے علاوہ، اُنہوں نے تو اُسکی معجزانہ طاقت کے زندہ ثبوت کو بھی مٹا ڈالنا چاہا۔ ”سردار کاہنوں نے مشورہ کِیا کہ لعزؔر کو بھی مار ڈالیں۔“ (یوحنا ۱۱:۴۷، ۴۸، ۵۳؛ ۱۲:۹-۱۱) ایسا رُجحان پیدا کرنا اور ایسے کاموں سے مشتعل یا پریشان ہونا جن کی بابت ہمیں خوش ہونا چاہئے کتنی بُری بات ہوگی! جیہاں، اور کتنی خطرناک بھی!
مسیح کے مثبت رُجحان کی نقل کرنا
۱۷. (ا) کن حالات کے تحت دانیایل نے دلیرانہ رُجحان ظاہر کِیا؟ (ب) یسوع نے دلیری کیسے دکھائی؟
۱۷ یہوواہ کے خادم مثبت رُجحان برقرار رکھتے ہیں۔ جب دانیایل کے دُشمنوں نے ۳۰ دن کیلئے بادشاہ کے علاوہ کسی بھی معبود یا انسان سے دُعا کرنے کی ممانعت کرنے والا قانون نافذ کرانے کی سازش کی تو دانیایل جانتا تھا کہ یہ بات یہوواہ خدا کیساتھ اُسکے رشتے کو نقصان پہنچا سکتی ہے۔ کیا وہ ۳۰ دن تک خدا سے دُعا نہیں کریگا؟ ہرگز نہیں، اُس نے دلیری کیساتھ اپنے دستور کے مطابق دن میں تین مرتبہ یہوواہ سے دُعا کرنا جاری رکھا۔ (دانیایل ۶:۶-۱۷) اِسی طرح یسوع بھی اپنے دُشمنوں سے خوفزدہ نہیں ہوا تھا۔ ایک سبت پر اُسے ایک آدمی ملا جسکا ہاتھ سُوکھا ہوا تھا۔ یسوع جانتا تھا کہ اگر وہ کسی شخص کو سبت پر شفا دیگا تو وہاں پر موجود بہتیرے یہودی اِس سے خوش نہیں ہونگے۔ اُس نے اُن سے اِس معاملے پر اپنی رائے کا اظہار کرنے کیلئے کہا۔ جب وہ چپ رہے تو یسوع نے اُس آدمی کو اچھا کر دیا۔ (مرقس ۳:۱-۶) یسوع اپنے فرض کو پورا کرنے سے کبھی بھی پیچھے نہ ہٹا جو اُسکی نظر میں بالکل درست تھا۔
۱۸. بعض لوگ ہماری مخالفت کیوں کرتے ہیں لیکن ہمیں اُنکے منفی رُجحان کیلئے کیسا ردِعمل دکھانا چاہئے؟
۱۸ یہوواہ کے گواہ آجکل اِس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ اُنہیں کبھی بھی مخالفین کے منفی رُجحان سے ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ورنہ وہ یسوع جیسا ذہنی رُجحان ظاہر نہیں کر سکیں گے۔ بہتیرے یہوواہ کے گواہوں کی مخالفت کرتے ہیں، بعض حقائق سے ناواقفیت کی بِنا پر جبکہ دیگر یہوواہ کے گواہوں یا اُنکے پیغام سے نفرت کی بِنا پر ایسا کرتے ہیں۔ لیکن ہمیں کبھی بھی اُنکے نامہربانہ رُجحان کو اپنے مثبت رُجحان پر اثرانداز ہونے کی اجازت نہیں دینی چاہئے۔ ہمیں دوسروں کو اپنی پرستش کے طریقۂکار پر اثرانداز نہیں ہونے دینا چاہئے۔
۱۹. ہم یسوع مسیح جیسا ذہنی رُجحان کیسے ظاہر کر سکتے ہیں؟
۱۹ یسوع نے ہمیشہ اپنے ساتھی پیروکاروں اور خدا کے انتظامات کے لئے مثبت ذہنی رُجحان ظاہر کِیا، حالانکہ اِس کیلئے اُسے کافی مشکل بھی اُٹھانی پڑی۔ (متی ۲۳:۲، ۳) ہمیں اُس کے نمونے کی نقل کرنی چاہئے۔ ہمارے بھائی ہماری ہی طرح ناکامل ہیں۔ لیکن ہم اپنی عالمگیر برادری کے علاوہ اَور کہاں اتنے اچھے رفیق اور حقیقی وفادار دوست پا سکتے ہیں؟ یہوواہ نے ابھی تک ہمیں اپنے تحریری کلام کی مکمل سمجھ عطا نہیں کی لیکن اَور کس مذہبی گروہ کے پاس اتنا زیادہ علم ہے؟ آئیے ہمیشہ درست رُجحان، یسوع مسیح جیسا ذہنی رُجحان رکھیں۔ اِس میں دیگر باتوں کے علاوہ یہوواہ کے منتظر رہنا بھی شامل ہے جس پر ہم اگلے مضمون میں باتچیت کرینگے۔
[فٹنوٹ]
a واچٹاور بائبل اینڈ ٹریکٹ سوسائٹی آف نیویارک انکارپوریٹڈ کی شائعکردہ اشاعت عظیمترین انسان جو کبھی ہو گزرا یسوع کی زندگی اور خدمتگزاری پر مفصل گفتگو کرتی ہے۔
کیا آپ وضاحت کر سکتے ہیں؟
• ہماری زندگی ہمارے رُجحان سے کیسے متاثر ہوتی ہے؟
• یسوع مسیح کا ذہنی رُجحان بیان کریں۔
• ہم ایوب کے رُجحان سے کیا سیکھ سکتے ہیں؟
• مخالفت کے پیشِنظر درست رُجحان کونسا ہوتا ہے؟
[صفحہ ۷ پر تصویریں]
درست رُجحان رکھنے والا مسیحی دوسروں کی مدد کرتا ہے
[صفحہ ۹ پر تصویر]
خدا کے کلام کا دُعائیہ مطالعہ مسیح جیسا ذہنی رُجحان اپنانے میں ہماری مدد کرتا ہے