ایک باسلیقہ معمول میں ترقی پسندانہطور پر رہیں
۱ پولس رسول فلپی میں اس کلیسیا کیلئے خاص الفت رکھتا تھا جس کو تشکیل دینے میں وہ آلہءکار تھا۔ وہ ان کی مہربان مادی فراہمیوں کیلئے شکر گزار تھا اور اس نے ان کا اچھے نمونے کے طور پر ذکر کیا۔—۲-کرنتھیوں ۸:۱-۶۔
۲ فلپیوں کے نام پولس کے خط نے گہری محبت سے تحریک پائی تھی۔ انسائیٹ کی جلد ۲، صفحہ ۶۳۱، بیان کرتی ہے: ”سارے خط میں وہ فلپیوں کی کلیسیا کی اپنی عمدہ روش کو برقرار رکھنے کی حوصلہافزائی کرتا ہے یعنی زیادہ سمجھداری کے طالب ہوں اور کلامحیات پر یقینی گرفت، مضبوطتر ایمان، اور آنے والے انعام کی امید رکھیں۔“ انہوں نے اپنے اور رسول کے درمیان محبت کے بندھن کو مضبوط بناتے ہوئے گرمجوشی سے جوابیعمل دکھایا۔ آجکل پولس کے الفاظ خاصکر جو کچھ فلپیوں ۳:۱۵-۱۷ میں بیان کیا گیا ہے، اسکی نصیحت پر احتیاط سے غور کرنے کیلئے ہم کو اچھی وجہ دیتے ہوئے، ہمارے لئے خاص مطلب اختیار کر جاتے ہیں۔
۳ ایک پختہ ذہنی میلان ناگزیر ہے: فلپیوں ۳:۱۵ میں، پولس نے سالوں کا تجربہ رکھنے والے آدمی کے طور پر لکھا۔ وہ درست ذہنی رویے والے پختہ مسیحیوں کے طور پر ان سے استدعا کرتے ہوئے فلپیوں کی روحانی ترقی کو تسلیم کرتا ہے۔ جب تک انکا ذہنی رویہ فروتنی اور قدردانی کو ظاہر کرتا ہے جس کا مظاہرہ یسوع نے کیا اس وقت تک وہ ”بےعیب اور معصوم بن کر، خدا کے بےداغ فرزند بنے ... اور کلام حیات پر مضبوط گرفت رکھے“ رہیں گے۔ (فلپیوں ۲:۱۵، ۱۶، اینڈبلیو ) جب ہم پولس کے الفاظ پڑھتے ہیں تو ہمیں محسوس کرنا چاہئے کہ وہ ہم سے بات کر رہا ہے۔ یوں ہم اشتیاق کیساتھ خواہش کرتے ہیں کہ ویسا ہی ذہنی میلان رکھیں جو یسوع رکھتا تھا اور اپنے استحقاقات کی فروتن قدردانی ظاہر کریں۔ ہم دعا میں یہوواہ سے اس معاملے اور دیگر معاملات میں مدد کی درخواست کرتے ہوئے التجا کرنا جاری رکھتے ہیں۔—فلپیوں ۴:۶، ۷۔
۴ جیسے کہ فلپیوں ۳:۱۶ ظاہر کرتی ہے، ہم سب کو ترقی کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ لفظ ”ترقی“ کا مطلب ”آگے بڑھنا، پیشقدمی کرنا“ ہے۔ وہ لوگ جو ترقی پسند ہیں ”نئے خیالات، دریافتوں، یا ترقی کے مواقع میں دلچسپی“ رکھتے ہیں۔ پولس چاہتا تھا کہ فلپی کے رہنے والے یہ سمجھیں کہ مسیحیت کبھی بھی ساکن نہیں ہے اور جو اس کو مانتے ہیں وہ ضرور آگے بڑھتے رہیں۔ انکا ترقی پسندانہ جذبہ، رضامندی سے خود کو جانچنے، اپنی کمزوریوں کو تسلیم کرنے، اور مزید کام کرنے کی خاطر مواقع کیلئے آگے بڑھنے یا جو کچھ وہ کر رہے تھے اس کی خوبی میں بہتری لانے سے ظاہر ہوگا۔ آجکل یہوواہ کی زمینی تنظیم، اپنی کارگزاری کی دسترس اور خدا کے کلام کی اپنی سمجھ کو ہمیشہ وسیع کرتے ہوئے، ترقی پسندانہ طور پر آگے بڑھ رہی ہے۔ ہم میں سے ہر ایک ضرور ہے کہ اس کی تمام فراہمیوں سے فائدہ اٹھاتے اور اس کے کام میں پوری طرح حصہ لیتے ہوئے اس کی رفتار سے ترقی کرے۔
۵ ترقی باسلیقہ معمول کا تقاضا کرتی ہے: اپنے بھائیوں کو ”اسی معمول میں باسلیقہ طور پر چلنے“ کی تاکید کرتے ہوئے پولس بات کو جاری رکھتا ہے۔ (فلپیوں ۳:۱۶، اینڈبلیو ) باسلیقہ ہونا ہم سے تقاضا کرتا ہے کہ اشخاص یا چیزوں کو ایک دوسرے کے تعلق میں، اور تمیز سے پیش آنے کیلئے انکے مناسب مقامات پر رکھیں۔ فلپی کے مسیحیوں نے یہوواہ کی تنظیم اور ایک دوسرے کے قریب رہنے سے خود کو اپنے مناسب مقام پر رکھا تھا۔ ان کی زندگیاں محبت کی شریعت سے اثرپذیر ہوئی تھیں۔ (یوحنا ۱۵:۱۷، فلپیوں ۲:۱، ۲) پولس نے انکو تاکید کی کہ ان کا ”چالچلن ... خوشخبری کے موافق رہے۔“ (فلپیوں ۱:۲۷) سلیقہشعاری اور عمدہ طرزعمل کی ضرورت آجکل کے مسیحیوں کیلئے ویسی ہی اہمیت کی حامل ہے۔
۶ ایک معمول قائمکردہ طریقہکار کی عادتاً تعمیل ہے۔ یوں قریبی طور پر اس کا تعلق چیزوں کو معمول کے مطابق کرنے سے ہے۔ ایک معمول کا ہونا ہمارے فائدے کیلئے کام کر سکتا ہے کیونکہ ہمیں اپنے اگلے قدم کی بابت فیصلے کرتے وقت رکنا یا صلاح مشورہ نہیں کرنا پڑتا—ہم نے پہلے ہی نمونہ قائم کر لیا ہوتا ہے جس کی ہم عادت سے مجبور پیروی کرتے ہیں۔
۷ ایک باسلیقہ تھیوکریٹک معمول ان عادات اور دستورات پر مشتمل ہوتا ہے جو—خوشگوار، فائدمند ، خدا پرست ہوتے ہیں۔ خود کو روحانی طور پر مضبوط کرنے، دوسروں کی مدد کرنے، اور، اگر ممکن ہو تو یہوواہ کی خدمت میں زیادہ کام کرنے کے مقصد سمیت—خوشگوار، فائدہمند، خدائی ہیں۔ ایسے نشانوں کو حاصل کرنے میں کامیابی ایک معمول کو قائم اور برقرار رکھنے کا تقاضا کرتی ہے جس میں ذاتی مطالعہ، اجلاسوں پر باقاعدہ حاضری، اور منادی کے کام میں شرکت شامل ہوتی ہے۔
۸ ایک باسلیقہ معمول میں شامل لازمی باتیں: ایک نہایت لازمی ”صحیح علم اور پوری سمجھداری“ ہے۔ (فلپیوں ۱:۹، اینڈبلیو ) ذاتی مطالعہ ہمارے ایمان کو گہرا کرتا، سچائی کیلئے ہماری قدردانی کو تقویت بخشتا، اور عمدہ کاموں کی جانب ہمیں متحرک کرتا ہے۔ تاہم، بعض نے اپنے مطالعہ کی عادات میں بااصول ہونے کو مشکل پایا ہے۔ دی جانے والی اہم وجوہات میں سے ایک وقت کی کمی ہے۔
۹ روزانہ بائبل پڑھائی کے فوائد پر زیادہ زور نہیں دیا جا سکتا۔ اس کی ہدایت ہر طرح سے ”فائدہمند“ ہے۔ (۲-تیمتھیس ۳:۱۶، ۱۷) ہم اپنے روزمرہ کے معمول میں بائبل مطالعہ کیلئے وقت کیسے نکال سکتے ہیں؟ بعض نے جان لیا ہے کہ وہ ہر صبح جب انکے ذہن چوکس ہوتے ہیں چند منٹ جلدی اٹھ سکتے ہیں، دیگر نے دیکھا ہے کہ وہ بہتر کرتے ہیں جب رات کو سونے سے پہلے چند منٹ کیلئے پڑھائی کرتے ہیں۔ بیویاں جو دن کے وقت گھر پر ہوتی ہیں وہ دوپہر کو دوسروں کے کام یا سکول سے گھر پہنچنے سے پہلے تھوڑا وقت مختص کرنے کے لائق ہو سکتی ہیں۔ باقاعدہ بائبل پڑھائی کے علاوہ، بعض نے پروکلیمر کتاب کی پڑھائی کو اپنے ہفتہوار مطالعہ کے معمول میں شامل کر لیا ہے۔
۱۰ جب ہم نئی عادات کو استوار کرتے ہیں تو اس بات کا حقیقی امکان موجود ہے کہ ان کا ہماری سابقہ عادات سے اختلاف ہوگا۔ ہو سکتا ہے کہ ماضی میں ہم غیرضروری سرگرمیوں کو دستیاب وقت کے اصراف کی اجازت دینے کی طرف مائل رہے ہوں۔ اس معمول سے پیچھا چھڑانا آسان نہیں ہے۔ کوئی بھی ہمیں ہمارے مطالعے کی عادات کا حکم نہیں دے گا، نہ ہی اس سلسلے میں جو کچھ ہم کرتے ہیں اس کی جوابدہی کا ہم سے تقاضا کیا گیا ہے۔ ہمارے مطالعے کی عادات کی استقامت کا انحصار بڑی حد تک ”زیادہ اہم باتوں“ کی ہماری قدردانی پر اور ان سے فائدہ اٹھانے کیلئے ”مناسب وقت“ کو نکالنے کی ہماری رضامندی پر ہے۔—فلپیوں ۱:۱۰، افسیوں ۵:۱۶۔
۱۱ مسیحی اجلاس ضروری ہدایت اور حوصلہافزائی فراہم کرتے ہوئے ہماری روحانی ترقی میں نہایت اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ تاہم، اجلاسوں پر حاضر ہونا ہمارے باسلیقہ معمول کا ایک اور لازمی جزو ہے۔ پولس نے اسکی اہمیت پر زور دیا۔ یہ ترجیح کے ذریعے طے پانے والا انتخاب نہیں ہے۔—عبرانیوں ۱۰:۲۴، ۲۵۔
۱۲ جب ہم کارگزاری کے اپنے ہفتہوار جدول کی منصوبہسازی کرتے ہیں تو اس وقت کس طرح سلیقہمندی ظاہر کی جا سکتی ہے؟ بعض لوگ ذاتی کاموں کو انجام دینے کیلئے قطعی اوقات کا بندوبست کرتے ہیں اور پھر بچا کچا وقت اجلاسوں کو دینے کی کوشش کرتے ہیں، لیکن اسے اسکے بالکل الٹ ہونا چاہئے۔ ہمارے ہفتہوار اجلاسوں کو دیگر کارگزاریوں کا منصوبہ بناتے وقت ترجیح دی جانی چاہئے۔
۱۳ اجلاس پر باقاعدہ حاضری اچھی منصوبہسازی اور خاندانی تعاون کا تقاضا کرتی ہے۔ ہفتہ کے دوران ہم میں سے بہتیرے کارگزاری کا مصروف جدول رکھتے ہیں جو اکثر ہمارے پاس کافی وقت کو نہیں چھوڑتا۔ اس کا مطلب ہے کہ اگر ممکن ہو تو شام کے کھانے کو کافی پہلے جدول دیا جانا چاہئے تاکہ خاندان کیلئے کھانے، تیار ہونے، اور اجلاس کے شروع ہونے سے پیشتر پہنچنے کیلئے کافی وقت ہو۔ اس مقصد کو حاصل کرنے کیلئے خاندانی افراد مختلف طریقوں سے تعاون کر سکتے ہیں۔
۱۴ اگر ہمیں ایک باسلیقہ معمول میں ترقی پسندانہ طور پر چلتے رہنا ہے تو باقاعدہ میدانی خدمت ناگزیر ہے۔ ہم سب بادشاہتی پیغام کی منادی کرنے کی اپنی بھاری ذمہداری کو واضح طور پر پہچانتے ہیں۔ یہی چیز ہمیں یہوواہ کے گواہ بناتی ہے۔ (یسعیاہ ۴۳:۱۰) چونکہ آجکل کیا جانے والا یہ انتہائی اہمیت کا حامل اور فائدہمند کام ہے، اس لئے کوئی ایسا راستہ نہیں ہے جس سے ہم اسکو مناسب طور پر اپنے معمول کے اتفاقی حصے کے طور پر خیال کر سکتے۔ پولس نے نصیحت کی: ”پس ہم ... حمد کی قربانی یعنی ان ہونٹوں کا پھل جو اسکے نام کا اقرار کرتے ہیں خدا کیلئے ہر وقت چڑھایا کریں۔“—عبرانیوں ۱۳:۱۵۔
۱۵ جب ہم ہر ہفتے کیلئے اپنی کارگزاری کا منصوبہ بناتے ہیں تو میدانی خدمت کیلئے قطعی اوقات کو مختص کیا جانا چاہئے۔ غالباً کلیسیا خدمت کیلئے اجلاس رکھتی ہے جن کا ہر ہفتے متعدد بار بندوبست کیا جاتا ہے اور یہ محض فیصلہ کرنے کا معاملہ ہی ہے کہ ہم کس کی حمایت کر سکتے ہیں۔ خدمت کے ہر پہلو میں حصہ لینے کیلئے آگے بڑھنا اچھا ہوگا، جیسا کہ رسالوں اور دیگر لٹریچر کیساتھ گھرباگھر کے کام کو کرنا، واپسی ملاقاتیں کرنا، اور بائبل مطالعے کرانا۔ ہم لٹریچر پاس رکھنے اور باتچیت شروع کرنے کے مواقع کیلئے چوکس رہنے سے غیررسمی گواہی دینے کیلئے بھی پہلے سے منصوبہسازی کر سکتے ہیں۔ چونکہ ہم عام طور پر دوسروں کیساتھ میدانی خدمت کیلئے جاتے ہیں اس لئے ہمیں ان کے جدول کی بابت دریافت کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ہم ایسے انتظامات کر سکیں جو باہمی طور پر موزوں ہونگے۔
۱۶ علاقے میں بےاعتنائی کے باوجود ہمارے منادی کے معمول کو برقرار رہنا چاہئے۔ ہم پہلے ہی سے جانتے ہیں کہ صرف چند ہی سازگار ردعمل دکھائیں گے۔ (متی ۱۳:۱۵، ۲۴:۹) حزقیایل کو ان لوگوں کو منادی کرنے کی تفویض دی گئی تھی جو ”باغی، بےحیا، اور سخت دل“ تھے۔ یہوواہ نے حزقیایل کی ”پیشانی انکی پیشانی کے مقابل سخت“ یعنی ”ہیرے کی مانند چقماق سے بھی زیادہ سخت“ کر دینے سے اس کی مدد کرنے کا وعدہ فرمایا۔ (حزقیایل ۲:۳، ۴، ۳:۷-۹) لہذا خدمت کیلئے ایک باقاعدہ معمول ثابتقدمی کا تقاضا کرتا ہے۔
۱۷ تقلید کیلئے اچھے نمونے: جب کوئی پیشوائی کرنے والا ہو تو ہم میں سے اکثر میدانی خدمت میں بہتر کام کرتے ہیں۔ پولس اور اس کے رفقاء نے اچھا نمونہ قائم کیا اور اس نے دوسروں کو تاکید کی کہ اس کی مانند بنیں۔ (فلپیوں ۳:۱۷) اس کے معمول میں وہ تمام عناصر شامل تھے جو روحانی طور پر خود کو مضبوط کرنے کیلئے درکار تھے۔
۱۸ آجکل بھی، ہمیں عمدہ نمونے عطا کئے گئے ہیں۔ عبرانیوں ۱۳:۷ میں پولس نے تاکید کی: ”جو تمہارے پیشوا تھے ... انہیں یاد رکھو اور انکی زندگی کے انجام پر غور کرکے ان جیسے ایماندار ہو جاؤ۔“ یقیناً مسیح ہمارا نمونہ دینے والا ہے، لیکن ہم پیشوائی کرنے والوں کی طرف سے ظاہرکردہ ایمان کی تقلید کر سکتے ہیں۔ پولس کی طرح بزرگوں کو دوسروں کیلئے اچھے نمونے ہونے کی ضرورت سے باخبر ہونا چاہئے۔ جبکہ ان کے ذاتی حالات مختلف ہو سکتے ہیں تو بھی ہر ایک کو یہ ظاہر کرنے کے قابل ہونا چاہئے کہ وہ بادشاہتی مفادات کو مقدم رکھنے میں ایک باسلیقہ معمول کو برقرار رکھے ہوئے ہے۔ دنیوی اور خاندانی فرائض کیساتھ بھی، بزرگوں کی ذاتی مطالعہ، اجلاس پر حاضر ہونے، اور میدانی خدمت میں پیشوائی کرنے کی خوب پختہ مستقل عادات ہونی چاہئیں۔ بزرگوں کی طرف سے سب لوگ یہ شہادت دینے سے کہ وہ ”اپنے گھر کا بخوبی بندوبست کر رہے“ ہیں، کلیسیا میں سب لوگ باسلیقہ معمول میں چلنے کی حوصلہافزائی حاصل کریں گے۔—۱-تیمتھیس ۳:۴، ۵۔
۱۹ نئے خدمتی سال کیلئے نشانے: نئے خدمتی سال کی شروعات اپنے ذاتی معمول پر غور کرنے کیلئے موزوں وقت ہے۔ گزشتہ سال کی ہماری کارگزاری پر نظرثانی کیا ظاہر کرتی ہے؟ کیا ہم اپنی خدمتگزاری کی سطح کو برقرار رکھنے، یا ممکنہ طور پر بہتر بنانے کے قابل ہوئے ہیں؟ ہو سکتا ہے کہ ہم اپنے ذاتی مطالعہ میں اور زیادہ جامع ہو گئے ہوں۔ ہو سکتا ہے کہ ہم زیادہ باقاعدگی کیساتھ اجلاسوں پر حاضر ہوئے ہوں یا امدادی پائنیروں کے طور پر اندراج کرانے سے اپنی خدمت میں اضافہ کیا ہو۔ شاید ہم مسیحی مہربانی کے خاص کاموں کی طرف توجہ دلانے کے لائق ہیں جو ہم نے اپنی کلیسیا یا خاندان میں دوسروں کی خاطر کئے ہیں۔ اگر ایسا ہے تو ہم خوش ہو سکتے ہیں کہ ہم اس طریقے سے چلے ہیں جو خدا کو خوش کرتا ہے، اور ہمارے پاس ”اور ترقی کرتے [رہنے]“ کیلئے اچھی وجہ ہے۔—۱-تھسلنیکیوں ۴:۱۔
۲۰ اس وقت کیا ہو اگر ہمارا معمول کسی حد تک تغیرپذیر یا کبھی کبھار عمل میں آنے والا ہے؟ ہم روحانی طور پر کس طرح متاثر ہوئے ہیں؟ کیا کسی وجہ سے ہماری ترقی رک گئی تھی؟ یہوواہ کی مدد کیلئے درخواست کرنے سے بہتری کا آغاز ہوتا ہے۔ (فلپیوں ۴:۶، ۱۳) اپنے معمول کے پہلوؤں میں ردوبدل کرنے میں باقی خاندان سے مدد کی درخواست کرتے ہوئے اپنی ضروریات پر انکے ساتھ باتچیت کریں۔ اگر آپ مسائل سے دو چار ہیں تو بزرگوں سے اعانت کیلئے کہیں۔ اگر ہم دلی کوشش کریں اور یہوواہ کی ہدایت پر جوابی عمل دکھائیں تو ہم یقین رکھ سکتے ہیں کہ ہم ”یا تو بےعمل یا بےپھل“ ہونے سے بچ جائیں گے۔—۲-پطرس ۱:۵-۸، اینڈبلیو۔
۲۱ باسلیقہ معمول میں چلنا ان برکات کا باعث بنتا ہے جو آپ کی کوششوں کو سودمند بناتی ہیں۔ جب آپ ایک باسلیقہ معمول میں ترقی پسندانہ طور پر چلنے کیلئے عزم مصمم کرتے ہیں تو ”کوشش میں سستی نہ [کریں]۔ روحانی جوش سے بھرے [رہیں]۔ خداوند کی خدمت کرتے [رہیں]۔“ (رومیوں ۱۲:۱۱)—اس موضوع کی زیادہ مفصل غوروفکر کیلئے، دیکھیں واچٹاور یکم مئی ۱۹۸۵ صفحات ۱۳-۱۷۔