ابدی خوشی خدا پرست دینے والوں کی منتظر ہے
”کیونکہ خدا نے دنیا سے ایسی محبت رکھی کہ اس نے اپنا اکلوتا بیٹا بخش دیا تاکہ جو کوئی اس پر ایمان لائے ہلاک نہ ہو بلکہ ہمیشہ کی زندگی پائے۔“ یوحنا ۳:۱۶۔
۱، ۲. (ا)عظیمترین دینے والا کون ہے، اور بنیآدم کے لئے اس کی سب سے بڑی بخشش کیا ہے؟ (ب) اپنی عظیمترین بخشش کو دینے میں خدا نے کس خوبی کا اظہار کیا؟
یہوواہ خدا سب سے بڑا دینے والا ہے۔ آسمان اور زمین کے خالق ہی کی بابت مسیحی شاگرد یعقوب نے لکھا تھا: ”ہر اچھی بخشش اور ہر کامل انعام اوپر سے ہے اور نوروں کے باپ کی طرف سے ملتا ہے جس میں نہ کوئی تبدیلی ہوسکتی ہے اور نہ گردش کے سبب سے اس پر سایہ پڑتا ہے۔“ (یعقوب ۱:۱۷) اسکے علاوہ یہوواہ ایک ایسی عظیمترین بخشش کا دینے والا ہے جو کہ شاید ہی کبھی دی جا سکتی ہے۔ بنیآدم کو عطا کی گئی اسکی عظیمترین بخشش کی بابت یہ کہا گیا تھا: ”خدا نے دنیا سے ایسی محبت رکھی کہ اس نے اپنا اکلوتا بیٹا بخش دیا تاکہ جو کوئی اس پر ایمان لائے ہلاک نہ ہو بلکہ ہمیشہ کی زندگی پائے۔“ یوحنا ۳:۱۶۔
۲ ان الفاظ کا متکلم کوئی اور نہ تھا بلکہ خود خدا کا اکلوتا بیٹا ہی تھا۔ فطری طور پر زندگی اور تمام مہیاکردہ اچھی چیزوں کے سرچشمے کے کسی باپ کا اکلوتا بیٹا ایسے باپ سے محبت کریگااور اس کی قدر کریگا۔ لیکن خدا کی یہ محبت اس ایک بیٹے تک ہی محدود نہ تھی۔ اپنی مخلوق کے دوسرے اشخاص تک اس بخشش کو پہنچانا خدا کے درجہ انتہا تک محبت کرنے کو ظاہر کریگا۔ (رومیوں ۵:۸-۱۰) یہ اس وقت اور بھی زیادہ واضح ہو جاتا ہے جب ہم یہ تجزیہ کرتے ہیں کہ اس سیاق عبارت میں لفظ ”دینے“ کا درحقیقت مطلب کیا ہے۔
خدا کی ”اپنے عزیز بیٹے“ کی بخشش
۳. ”اس کے عزیز بیٹے“ کے علاوہ، اور کون آسمانی باپ کی محبت سے لطف اٹھاتا ہے؟
۳ ایک نامعلوم عرصہ تک ، خدا نے آسمانی مقاموں میں اس اکلوتے بیٹے ”اپنے عزیز بیٹے“ کیساتھ ذاتی رفاقت کا لطف اٹھایا تھا۔ (کلسیوں ۱:۱۳)اس تمام عرصہ کے دوران، باپ اور بیٹے میں ایک دوسرے کے لئے محبت اور پیار اس قدر بڑھ گیا کہ انکی طرح کی باہمی محبت ہوئی ہی نہیں۔ دوسری مخلوقات جسے خدا اپنے اس اکلوتے بیٹے کے وسیلہ سے وجود میں لایا ان سے بھی یہوواہ کے الہی خاندان کے ممبروں کے طور پر محبت کی جاتی تھی۔ پس، خدا کے پورے گھرانے پر محبت کی حکمرانی تھی۔ پاک صحیفوں میں یہ بالکل درست بیان کیا گیا ہے کہ ”خدا محبت ہے۔“ (۱-یوحنا ۴:۸) اسلئے، الہی خاندان، ان لوگوں پر مشتمل تھا جن سے باپ یہوواہ خدا، محبت کرتا تھا۔
۴. کیسے خدا کے اپنے بیٹے کو بخش دینے میں ذاتی رفاقت سے محروم ہو جانے سے زیادہ کچھ شامل تھا اور کس کی خاطر؟
۴ یہوواہ اور اس کے پہلوٹھے بیٹے کے مابین تعلقات اس قدر گہرے تھے کہ انہیں ایسی قریبی رفاقت سے محروم کرنا بذاتخود ایک بڑا نقصان ہوگا۔ (کلسیوں ۱:۱۵) لیکن اس اکلوتے بیٹے کا بخش دیا جانا خدا کے خود کو ”اپنے عزیز بیٹے“ کی ذاتی رفاقت سے محروم کرلینے سے زیادہ کچھ کا مطلب رکھتا تھا۔ یہ اس حد کو پہنچ گیا کہ یہوواہ کو یہ اجازت دینی پڑی کہ اس کا بیٹا موت کا شکار ہو اور یوں خدا کے عالمگیر گھرانے کے ممبر کے طور پر اس کا وجود ختم ہو جائے۔ یہ موت ان لوگوں کے لئے تھی جو کبھی بھی خدا کے خاندان کے ممبر نہیں ر ہے۔ یہوواہ خدا حاجتمند بنینوع انسان کی خاطر اپنے اکلوتے بیٹے سے بڑھ کر، جسکی صحائف بطور ”خدا کی خلقت کے مبدا“ کے بھی شناخت کرواتے ہیں اور کوئی بخشش نہیں دے سکتا تھا۔ مکاشفہ ۳:۱۴۔
۵. (ا)آدم کی اولاد کی قابلرحم حالت کیا تھی اور خدا کا انصاف اس کے وفادار بیٹوں میں سے ایک سے کیا تقاضا کرتا تھا؟ (ب) خدا کی عظیم بخشش خود اس سے کس بات کا تقاضا کرے گی؟
۵ پہلا انسانی جوڑا، آدم اور حوا، خدا کے خاندان کے ممبروں کے طور پر اپنے مقام کو قائم رکھنے میں ناکام رہا۔ خدا کے خلاف گناہ کرنے کی وجہ سے باغ عدن سے باہر نکال دئے جانے کے بعد انہوں نے خود کو ایسی حالت میں پایا۔اب سے لیکر وہ نہ صرف خدا کے گھرانے کے ممبر ہی نہ رہے بلکہ وہ موت کی سزا کے تابع بھی ہوگئے۔ لہذا، مسئلہ صرف ان کی اولاد کو خدا کی مقبولیت میں لاتے ہوئے اس کے گھرانے کے ممبروں کے طور پر بحال کرنے کا ہی نہ تھا بلکہ اس کیساتھ ساتھ ان پر سے الہی موت کو بھی ختم کرنا تھا۔ الہی انصاف کے تقاصوں کے مطابق، یہ اس بات کا تقاضا کریگا کہ خدا کے وفادار بیٹوں میں سے کوئی بد لے، یا فدیے کے طور پر موت کا مزہ چکھے۔ پس بڑا سوال یہ تھا: کیا جس کا انتخاب کیا گیا ہے وہ گنہگار انسانوں کی جگہ بدلے کی ایسی موت مرنے کیلئے رضامند ہوگا؟ اس کے علاوہ، ایسا کرنا قادرمطلق خدا سے معجزے کا تقاضا کریگا۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ الہی محبت کے ایک بینظیر درجہ تک اظہار کا بھی تقاضا کرے گا۔ رومیوں ۸:۳۲۔
۶. کیسے خدا کا بیٹا گہنگار بنیآدم کی حالت سے متعلق ضرورت کو پورا کرنے کے قابل تھا، اور اس نے اس سلسلے میں کیا کہا؟
۶ صرف یہوواہ کا پہلوٹھا بیٹا ہی گنہگار بنیآدم سے تعلق رکھنے والی اس حالت میں خاص ضروریات کو پورا کرنے کے قابل ہو سکتا تھا۔ الہی طور پر تخلیقشدہ خاندان کے ممبروں کیلئے پیار کا اظہار کرنے میں وہ اسقدر اپنے باپ کی مانند ہے کہ خدا کے دوسرے بیٹوں میں کوئی اسکا ثانی نہیں۔ چونکہ دوسری تمام ذیشعور مخلوق اسی کے وسیلہ سے وجود میں آئی، اسلئے یقینی طور پر ان کیلئے اسکی محبت بہت زیادہ ہوگی۔ مزیدبرآں، یہوواہ کے اکلوتے بیٹے، یسوع مسیح، کی محبت ایک نمایاں خوبی ہے، کیونکہ ”وہ اسکے جلال کا پرتو اور اسکی ذات کا نقش ہے۔“ (عبرانیوں ۱:۳) گنہگار بنیآدم کی خاطر اپنی زندگی دے دینے سے اس محبت کو بدرجہءاتم ظاہر کرنے کیلئے اپنی رضامندی ظاہر کرتے ہوئے، یسوع نے اپنے بارہ رسولوں کو بتایا: ”چنانچہ ابنآدم اسلئے نہیں آیا کہ خدمت لے بلکہ اسلئے کہ خدمت کرے اور اپنی جان بہتیروں کے بدلے فدیہ میں دے۔“ مرقس ۱۰:۴۵، یوحنا ۱۵:۱۳ کو بھی دیکھیں۔
۷، ۸. (ا)بنیآدم کی اس دنیا میں یسوع مسیح کو بھیجنے کے لئے خدا کا محرک کیا تھا؟ (ب) خدا نے اپنے اکلوتے بیٹے کو کس قسم کے مشن پر بھیجا؟
۷ بنیآدم کی اس بدحال دنیا میں یسوع کو بھیجنے کے لئے یہوواہ خدا کے پاس ایک خاص وجہ تھی۔ الہی محبت اس کے لئے ایک محرک تھی، کیونکہ یسوع نے خود کہا: ”خدا نے دنیا سے ایسی محبت رکھی کہ اس نے اپنا اکلوتا بیٹا بخش دیا تاکہ جو کوئی اس پر ایمان لائے ہلاک نہ ہو بلکہ ہمیشہ کی زندگی پائے۔ کیونکہ خدا نے بیٹے کو دنیا میں اس لئے نہیں بھیجا کہ دنیا پر سزا کا حکم کرے بلکہ اس لئے کہ دنیا اس کے وسیلہ سے نجات پا ئے۔“ یوحنا ۳:۱۶، ۱۷۔
۸ یہ نجات کا مشن تھا جس پر یہوواہ نے مشفقانہ طور پر اپنے اکلوتے بیٹے کو بھیجا۔ خدا نے یہاں اپنے بیٹے کو اس دنیا کی عدالت کرنے کے لئے نہیں بھیجا۔ اگر خدا کے بیٹے کو ایسے عدالتی مشن پر بھیجا جاتا تو تمام بنیآدم کے لئے ناامیدی کے آثار ہوتے۔ عدالتی سزا جو یسوع مسیح نے انسانی خاندان کے خلاف سنائی ہوتی وہ موت کا حکم ہوتی۔ (رومیوں ۵:۱۲) پس، الہی محبت کے اس بیمثل اظہار کے ذریعہ، خدا نے موت کی سزا کو اس چیز کے متوازی کر دیا جس کا تقاضا قطعی انصاف نے کیا ہوتا۔
۹. زبور نویس داؤد نے یہوواہ کے دینے کی بابت کیسا محسوس کیا؟
۹ تمام چیزوں میں، یہوواہ خدا محبت کو اپنی ذات کی نمایاں خصوصیت کے طور پر ظاہر کرتا اور اسکی شہادت دیتا ہے۔ اور درست طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ خدا مشفقانہ طور پر زمین پر اپنے وفادار پرستاروں کو ان کی ضرورت سے زیادہ اچھی چیزوں سے نوازتا ہے۔ زبورنویس داؤد نے بھی اس معاملے کی بابت ایسا ہی محسوس کیا جب اس نے خدا سے کہا: ”آہ! تو نے اپنے ڈرنے والوں کے لئے کیسی بڑی نعمت رکھ چھوڑی ہے۔ جسے تو نے بنیآدم کے سامنے اپنے توکل کرنے والوں کے لئے تیار کیا۔“ (زبور ۳۱:۱۹) اسرائیل کی قوم پر داؤد کی بادشاہی کے دوران جیہاں، اپنی عمر بھر اس مخصوصشدہ قوم کے ایک فرد کیطور پر جسے خدا نے خاص طور پر چن لیا تھا، اس نے بارہا یہوواہ کی نیکی کا تجربہ کیا۔ اور داؤد نے اسے باافراط پایا۔
خدا کی ایک بخشش کیلئے اسرائیل کا نقصان
۱۰. کیوں قدیم اسرائیل زمین کی دوسری قوموں سے بالکل فرق تھی؟
۱۰ یہوواہ کو بطور اپنے خدا کے مانتے ہوئے، قدیم اسرائیل زمین کی دوسری تمام قوموں سے مختلف تھی۔ یہوواہ ایک درمیانی کے طور پر موسی نبی کے ذریعے، ابرہام، اضحاق، اور یعقوب کی اولاد کو اپنے ساتھ ایک عہد کے رشتہ میں لے آیا۔ اس نے کسی اور قوم کیساتھ اس طرح کا برتاؤ نہیں کیا تھا۔ اس لئے، الہامی زبورنویس یہ کہہ سکتا تھا: ”وہ اپنا کلام یعقوب پر ظاہر کرتا ہے اور اپنے آئینواحکام اسرائیل پر۔ اس نے کسی اور قوم کیساتھ ایسا سلوک نہیں کیا اور اس کے احکام کو انہوں نے نہیں جانا۔ [یاہ] کی حمد کرو۔“ زبور ۱۴۷:۱۹، ۲۰۔
۱۱. کس وقت تک اسرائیل نے خدا کے ساتھ اپنی مقبول حالت سے لطف اٹھایا، اور کیسے یسوع نے ان کے رشتے میں تبدیلی کو ظاہر کیا؟
۱۱ پیدایشی اسرائیلیوں کی قوم خدا کے ساتھ مقبول رشتہ میں اس وقت تک رہی جب انہوں نے ہمارے سن عام کے ۳۳ میں یسوع مسیح کو بطور مسیحا کے رد کر دیا۔ بیشک اسرائیل کے لئے وہ افسوسناک دن تھا جب یسوع نے یہ دکھ بھری بات کہی: ”اے یروشلیم! اے یروشلیم! تو جو نبیوں کو قتل کرتا اور جو تیرے پاس بھیجے گئے ان کو سنگسار کرتا ہے! کتنی بار میں نے چاہا کہ جس طرح مرغی اپنے بچوں کو پروں تلے جمع کر لیتی ہے اسی طرح میں بھی تیرے لڑکوں کو جمع کر لوں مگر تم نے نہ چاہا! دیکھو تمہارا گھر تمہارے لئے ویران چھوڑا جاتا ہے۔“ (متی ۲۳:۳۷، ۳۸) یسوع کے الفاظ یہ ظاہر کرتے ہیں کہ اسرائیل کی قوم، جسے اگرچہ ماضی میں خدا کی مقبولیت حاصل تھی، خدا کی ایک خاص بخشش کھو بیٹھی تھی۔ یہ کیسے؟
۱۲. ”یروشلیم کے بچے“ کون تھے، ان کو جمع کرنے سے یسوع کی کیا مراد تھی؟
۱۲ اصطلاح ”بچوں“ کو استعمال کرنے سے یسوع نے صرف ان پیدایشی مختون یہودیوں کا حوالہ دیا جو یروشلیم میں رہتے تھے اور پوری یہودی قوم کی نمائندگی کرتے تھے۔ یسوع کا ”یروشلیم کے بچوں“ کو جمع کرنے کا مطلب یہی ہوگا کہ وہ ان ”بچوں“ کو خدا کیساتھ ایک نئے عہد میں لائیگا، جس میں ان پیدایشی یہودیوں اور یہوواہ کے بیچ درمیانی کے فرائض وہ خود سرانجام دیگا۔ (یرمیاہ ۳۱:۳۴-۳۱) یہ گناہوں کے معاف کئے جانے کا باعث ہوتا، کیونکہ خدا کی محبت کی انتہا یہی تھی۔ (ملاکی ۱:۲) یہ یقیناً ایک بڑی بخشش ہوتی۔
۱۳. اسرائیل کا خدا کے بیٹے کو رد کر دینا کس نقصان پر منتج ہوا، لیکن کیوں خدا کی خوشی ماند نہیں پڑی تھی؟
۱۳ اسکے نبوتی الفاظ کی مطابقت میں، یہوواہ نے غیریہودیوں کو نئے عہد میں شریک ہونے کی بخشش دینے سے پہلے اتنا انتظار کیا جتنا کہ وہ معقول طور پر کر سکتا تھا۔ لیکن خدا کے اپنے بیٹے، مسیحا، کو رد کر دینے سے، پیدایشی اسرائیل کی قوم اس بڑی بخشش کو کھو بیٹھی۔ اسلئے یہوواہ نے اپنے بیٹے کے رد کئے جانے کو متوازی کرنے کیلئے اس بخشش کو یہودی قوم سے باہر کے لوگوں تک وسیع کر دیا۔ اسطرح سے، ایک عظیم دینے والے کے طور پر یہوواہ کی خوشی بلارکاوٹ جاری ہے۔
دینے کی خوشی
۱۴. کیوں یسوع مسیح کائنات میں سب سے خوشترین مخلوق ہے؟
۱۴ یہوواہ ”خدائے مبارک“ ہے۔ (۱-تیمتھیس ۱:۱۱) دوسروں کو دینا بھی ایک بات ہے جو اسے مبارک بناتا ہے۔ اور پہلی صدی سن عام میں، اس کے اکلوتے بیٹے نے کہا: ”دینا لینے سے مبارک ہے۔“ (اعمال ۲۰:۳۵) اس اصول کی مطابقت میں، یسوع کل کائنات میں سب سے مبارک ترین مخلوق بن گیا ہے۔ وہ کیسے؟ خود یہوواہ کے بعد، یسوع مسیح نے بنیآدم کے فائدے کے لئے اپنی زندگی قربان کر دینے سے سب سے بڑی بخشش دی ہے۔ درحقیقت، وہ ”مبارک حاکم“ ہے۔ (۱-تیمتھیس ۶:۱۵) یوں یسوع نے دینے کی عظیم خوشی کی بابت جو کچھ کہا اسکا نمونہ بھی دیا۔
۱۵. یہوواہ کا کس چیز میں مثالی ہونا کبھی ختم نہیں ہوگا، اور کیسے اس کی ذیشعور مخلوقات اس کی خوشی کی انتہا کا تجربہ کر سکتی ہے؟
۱۵ یسوع مسیح کے وسیلہ سے، یہوواہ کبھی بھی اپنی تمام ذیشعور مخلوق کو فیاضی سے دینے میں ناکام نہیں ہوگا اور وہ ہمیشہ ان کے لئے دینے کی ایک عمدہ مثال ثابت ہوگا۔ جیسا کہ خدا دوسروں کو اچھی چیزیں دینے میں خوشی محسوس کرتا ہے، اسی طرح سے اس نے زمین پر کی اپنی ذیشعور مخلوق کے دل میں بھی فیاضی کے جذبے کو ڈالا ہے۔ اس طرح سے وہ اس کی شخصیت کو منعکس کرتے، اسکی نقل کرتے اور اس کی طرح کی خوشی کا تجربہ کرتے ہیں۔ (پیدایش ۱:۲۶، افسیوں ۵:۱) موزوں طور پر، یسوع نے اپنے پیروکاروں کو بتایا: ”دیا کرو۔ تمہیں بھی دیا جائیگا۔ اچھا پیمانہ داب داب کر اور ہلا ہلا کر اور لبریز کرکے تمہارے پلے میں ڈالیں گے کیونکہ جس پیمانہ سے تم ناپتے ہو اسی سے تمہارے لئے ناپا جائیگا۔“ لوقا ۶:۳۸۔
۱۶. لوقا ۶:۳۸ میں یسوع نے کس قسم کے دینے کا حوالہ دیا؟
۱۶ یسوع نے دینے کے طریقے کو ایک عادت بنانے کیلئے اپنے شاگردوں کے لئے ایک شاندار نمونہ قائم کیا۔ اس نے کہا کہ اس طرح کے دینے سے لینے والوں کی طرف سے اچھا ردعمل ہوگا۔ لوقا ۶:۳۸ میں، یسوع صرف مادی بخشش دینے کی طرف ہی اشارہ نہیں کر رہا تھا۔ وہ اپنے شاگردوں کو ایسی روش اختیار کرنے کی بابت نہیں کہہ رہا تھا جو کہ انہیں مادی طور پر قلاش کر دیگی۔ اس کے برعکس، وہ ان کی راہنمائی ایک ایسی روش کی طرف کر رہا تھا جو انہیں روحانی تکمیل کا احساس دیگی۔
ابدی خوشی کی یقیندہانی کرائی گئی
۱۷. ان آخری دنوں میں خدا نے کونسی شاندار بخشش اپنے گواہوں پر نچھاور کی ہے؟
۱۷ ان آخری دنوں میں تمام مخلوقات کے سردار یہوواہ نے، اپنے گواہوں پر کیا ہی شاندار بخششیں نچھاور کی ہیں! اس نے ہمیں اپنی بادشاہی کی خوشخبری دی ہے۔ ہمیں خدا کے حکمران بیٹے یسوع مسیح کے ہاتھوں میں اس کی قائمشدہ بادشاہت کا اعلان کرنے والوں کا شرف حاصل ہے۔ (متی ۲۴:۱۴ مرقس ۱۳:۱۰) خدائے بلندوبرتر کے نطقی گواہ ہونا ادراک سے پرے بخشش ہے، اور خدا کی نقل میں دینے کی مشق کرنے کا بہترین طریقہ یہی ہے کہ اس شریرنظام کے خاتمہ کے آنے سے پہلے دوسروں کو اس بادشاہتی پیغام میں شریک کریں۔
۱۸. یہوواہ کے گواہوں کے طور پر ہمیں ضرور دوسروں کو کیا دینا چاہئے؟
۱۸ رسول پولس نے ان مشکلات کا حوالہ دیا جنکا دوسروں کو بادشاہتی پیغام سناتے وقت اسے سامنا کرنا پڑا۔ (۲-کرنتھیوں ۱۱:۲۷-۲۳) جدید زمانے کے یہوواہ کے گواہوں کو بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا اور دوسروں کو بادشاہتی امید دینے کی کوشش میں ذاتی ترجیحات کو پسپشت ڈالنا پڑتا ہے۔ خاص طور پر اگر ہم شرمیلے ہیں تو شاید ہم دوسروں کے دروازوں پر جانے کی طرف کبھی مائل نہ ہوں۔ لیکن مسیح کے پیروکاروں کیطور پر، ”بادشاہی کی اس خوشخبری“ کی منادی کرنے سے دوسروں کو روحانی چیزوں میں شریک کرنے کے اس استحقاق سے ہم نہ تو گریز کر سکتے ہیں، نہ کنیکترا سکتے ہیں۔ (متی ۲۴:۱۴) ہمیں ویسا ہی رجحان رکھنے کی ضرورت ہے جیسا یسوع کا تھا۔ موت کا سامنا کرتے ہوئے، اس نے دعا کی: ”اے میرے باپ، . . . تو بھی نہ کہ جیسا میں چاہتا ہوں بلکہ جیسا تو چاہتا ہے ویسا ہی ہو۔“ (متی ۲۶:۳۹) دوسروں کو بادشاہتی خوشخبری دینے کے سلسلے میں، یہوواہ کے خادموں کو خدا کی مرضی پوری کرنی چاہیے، نہ کہ اپنی جو کچھ وہ چاہتا ہے نہ کہ جو کچھ ہم چاہتے ہیں۔
۱۹. کون ”ہمیشہ کے مسکنوں“ کے مالک ہیں، اور ہم ان کے ساتھ کیسے دوستانہ پیدا کر سکتے ہیں؟
۱۹ اس طرح کے دینے میں ہمارا وقت اور وسائل بھی شامل ہوں گے، لیکن خداپرست دینے والے بننے سے، ہم اس بات کا یقین کر لیتے ہیں کہ ہماری خوشی دائمی ہوگی۔ کیوں؟ اس لئے کہ یسوع نے کہا: ”ناراستی کی دولت سے اپنے واسطے دوست پیدا کرو [ ”دنیاوی دولت“ نیو انٹرنیشنل ورشن] تاکہ جب وہ جاتی رہے تو یہ تم کو ہمیشہ کے مسکنوں میں جگہ دیں۔“ (لوقا ۱۶:۹) ہمارا یہ نصبالعین ہونا چاہیے کہ ہم ”ناراستی کی دولت“ کو ”ہمیشہ کے مسکنوں“ کے مالکوں کو دوست بنانے کے لئے استعمال کریں۔ بطور خالق، یہوواہ ہر چیز کا مالک ہے، اور اس کا پہلوٹھا بیٹا اس ملکیت میں بطور تمام چیزوں کے وارث کے شریک ہے۔ (زبور ۵۰:۱۰-۱۲، عبرانیوں ۱:۱، ۲) ان کے ساتھ دوستی کرنے کے لئے، ہمیں اپنی دولت کو اس طریقے سے استعمال کرنا چاہیے جسے ان کی حمایت حاصل ہے۔ اس میں یہ شامل ہے کہ ہم مادی چیزوں کو دوسروں کے فائدے کے لئے استعمال کرنے کی بابت صحیح رجحان رکھیں۔ (مقابلہ کریں متی ۶:۳، ۴، ۲-کرنتھیوں ۹:۷۔) یہوواہ خدا اور یسوع مسیح کیساتھ اپنی دوستی کو مضبوط کرنے کے لئے ہم پیسے کو مناسب طور پر استعمال کر سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر، جو کچھ ہمارے پاس ہے اسے ان لوگوں کی جو واقعی محتاج ہیں خوشی سے مدد کرنے اور بادشاہتی مفادات کو فروغ دینے کے لئے اپنے وسائل کو خرچ کرنے سے ہم ایسا کرتے ہیں۔ امثال ۱۹:۱۷، متی ۶:۳۳۔
۲۰. (ا)یہوواہ اور یسوع ہمیں کیوں ”ہمیشہ کے مسکنوں“ میں لے جا سکتے ہیں، اور یہ جگہیں کہاں ہو سکتی ہیں؟ (ب) ابد تک کونسا استحقاق ہمارا ہوگا؟
۲۰ اپنے غیرفانی ہونے کی وجہ سے، یہوواہ خدا اور یسوع مسیح ہمیشہ کے لئے ہمارے دوست بن سکتے ہیں اور ہم کو ”ہمیشہ کے مسکنوں“ میں جگہ دے سکتے ہیں۔ یہ دونوں صورتوں میں ممکن ہے چاہے وہ آسمان میں پاک فرشتوں کیساتھ ہوں یا اس زمین پر بحالشدہ فردوس میں ہوں۔ (لوقا ۲۳:۴۳) خدا کی پرمحبت بخشش یسوع مسیح نے یہ سب کچھ ممکن بنا دیا ہے۔ (یوحنا ۳:۱۶) اور یہوواہ خدا یسوع مسیح کو استعمال کرتا رہیگا کہ تمام مخلوق کو اس کی اپنی بینظیر خوشی کی خاطر دیتا ر ہے۔ درحقیقت، ہمیشہ تک ہمیں بھی یہوواہ خدا کی عالمگیر الہی حاکمیت اور اس کے اکلوتے بیٹے، ہمارے خداوند اور نجات دہندہ، یسوع مسیح کے تحت دینے کا شرف حاصل ہوگا۔ یہ تمام خداپرست دینے والوں کے لئے دائمی خوشی پر منتج ہوگا۔ (۹ ۱/۱۵ w۹۲)
کیا آپ کو یاد ہے؟
▫ خدا کی سب سے عظیم بخشش اس سے کس چیز کا تقاضا کریگی؟
▫ خدا نے اپنے اکلوتے بیٹے کو کس قسم کے مشن پر روانہ کیا؟
▫ پوری کائنات میں سب سے خوشترین مخلوق کونسی ہے، اور کیوں؟
▫ کیسے خداپرست دینے والے دائمی خوشی کا تجربہ کریں گے؟
[تصویر]
بطور فدیہ کی قربانی کے کیا آپ خدا کے اپنے بیٹے کی بخشش کی قدر کرتے ہیں؟
[تصویر]
کیا آپ خوشخبری کی منادی کرکے اور اپنے وسائل کے ذریعے اس کام کی حمایت کرکے خدا کی بادشاہت کو پہلے تلاش کر رہے ہیں؟