کیا آپ پاکیزگی کے طالب ہیں؟
”غرض جو نیکی اور تعریف کی باتیں ہیں اُن پر غور کِیا کرو۔“—فلپیوں ۴:۸۔
۱. بُرائی کیا ہے اور کیوں اِس نے یہوواہ کی پرستش کو آلودہ نہیں کِیا؟
بُرائی اخلاقی گراوٹ یا بدچلنی ہے۔ ہم جس دُنیا میں رہتے ہیں، وہ اِس سے بھری پڑی ہے۔ (افسیوں ۲:۱-۳) تاہم، یہوواہ خدا اپنی پاک پرستش کو آلودہ ہونے کی اجازت نہیں دیگا۔ مسیحی مطبوعات، اجلاس، اسمبلیاں، اور کنونشنیں ہمیں ناراست چالچلن کی بابت بروقت آگاہ کرتی ہیں۔ خدا کی نظروں میں ”نیکی سے لپٹے“ رہنے کیلئے ہم قابلِاعتماد روحانی مدد حاصل کرتے ہیں۔ (رومیوں ۱۲:۹) پس ایک تنظیم کے طور پر یہوواہ کے گواہ بےداغ، اور نیک بننے کی کوشش کر رہے ہیں۔ لیکن انفرادی طور پر ہماری بابت کیا ہے؟ کیا آپ واقعی پاکیزگی کے طالب ہیں؟
۲. پاکیزگی کیا ہے اور پاکباز رہنے کیلئے کوشش کیوں درکار ہے؟
۲ پاکیزگی سے مُراد اخلاقی فضیلت، نیکی، درست عمل اور فکر ہیں۔ یہ کوئی انفعالی نہیں بلکہ ایک فعال اور مثبت خوبی ہے۔ پاکیزگی میں گناہ سے گریز کرنے کے علاوہ زیادہ کچھ شامل ہے؛ اِسکا مطلب نیکی کے طالب ہونا ہے۔ (۱-تیمتھیس ۶:۱۱) پطرس رسول نے ساتھی مسیحیوں کو نصیحت کی: ”اپنے ایمان پر نیکی [”پاگیزگی،“ اینڈبلیو] . .بڑھاؤ۔“ کیسے؟ ”اِسی [خدا کے بیشقیمت وعدوں] کے باعث اپنی طرف سے کمال کوشش“ کر کے۔ (۲-پطرس ۱:۵) ہماری گنہگارانہ فطرت کے باعث، نیک رہنے کیلئے حقیقی کوشش درکار ہے۔ تاہم، ماضی کے بہت سے خداترس افراد نے انتہائی رُکاوٹوں کے باوجود بھی ایسا کِیا۔
وہ پاکیزگی کا طالب ہوا
۳. آخز بادشاہ بدکاری کے کس کام کا مرتکب تھا؟
۳ صحائف میں ایسے لوگوں کی بہتیری سرگزشتیں پائی جاتی ہیں جو پاکیزگی کے طالب ہوئے۔ مثال کے طور پر، پاکباز حزقیاہ پر غور کریں۔ بدیہی طور پر، اُسکا باپ، یہوداہ کا بادشاہ آخز، مولک کی پرستش کرتا تھا۔ ”اور جب وہ سلطنت کرنے لگا تو بیس برس کا تھا اور اُس نے سولہ برس یرؔوشلیم میں بادشاہی کی اور اُس نے وہ کام نہ کِیا جو خداوند اُسکے خدا کی نظر میں بھلا ہے۔ جیسا اُسکے باپ داؔؤد نے کِیا تھا۔ بلکہ وہ اؔسرائیل کے بادشاہوں کی راہ پر چلا اور اُس نے اُن قوموں کے نفرتی دستور کے مطابق جنکو خداوند نے بنیاؔسرائیل کے سامنے سے خارج کر دیا تھا اپنے بیٹے کو بھی آگ میں چلوایا۔ اور اُونچے مقاموں پر اور ٹیلوں پر اور ہر ایک ہرے درخت کے نیچے اُس نے قربانی کی اور بخور جلایا۔“ (۲-سلاطین ۱۶:۲-۴) بعض دعویٰ کرتے ہیں کہ ’آگ میں چلنا‘ انسانی قربانی کی طرف نہیں بلکہ ایک طرح کے پاکصاف کرنے کی رسم کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ تاہم، کتاب مولک—اے گاڈ آف ہیومن سیکریفائس اِن دی اولڈ ٹیسٹامنٹ [مولک—پرانے عہدنامے میں انسانی قربانی کا خدا]، از جان ڈے بیان کرتی ہے: ”معتبر اور کارتھیج تحریروں سے اِس بات کا ثبوت ملتا ہے، نیز اثریاتی ثبوت سے بھی پتہ چلتا ہے کہ کنعانی تہذیب میں انسانوں کو قربان کِیا جاتا تھا، لہٰذا پُرانے عہدنامہ میں [انسانی قربانی] کے اشاروں کی بابت شک کرنے کی کوئی گنجائش نہیں۔“ مزیدبرآں، ۲-تواریخ ۲۸:۳ واضح طور پر بیان کرتی ہے کہ آخز نے ”اپنے ہی بیٹوں کو آگ میں جھونکا۔“ (مقابلہ کریں استثنا ۱۲:۳۱؛ زبور ۱۰۶:۳۷، ۳۸۔) کیسے بُرے کام!
۴. حزقیاہ نے بُرائی سے پُر ماحول میں کیسا چلن رکھا؟
۴ حزقیاہ نے کس طرح اُس بُرائی سے پُر ماحول کا سامنا کِیا؟ ۱۱۹ زبور دلچسپی کا حامل ہے کیونکہ بعض لوگ یقین رکھتے ہیں کہ اِسے حزقیاہ نے اُس وقت ترتیب دیا جب وہ ابھی شہزادہ ہی تھا۔ (زبور ۱۱۹:۴۶، ۹۹، ۱۰۰) لہٰذا اُسکے حالات کا اندازہ اُسکے الفاظ سے ہوتا ہے: ”اُمرا بھی بیٹھ کر میرے خلاف باتیں کرتے رہے لیکن تیرا بندہ تیرے آئین پر دھیان لگائے رہا۔ غم کے مارے میری جان گھلی جاتی ہے۔“ (زبور ۱۱۹:۲۳، ۲۸) جھوٹے مذہب کے پیروکاروں کے گھیرے میں، حزقیاہ کو شاید دربار کے اراکین تحقیر کا نشانہ بناتے تھے، اتنا زیادہ کہ وہ سو نہیں سکتا تھا۔ تاہم، وہ پاکیزگی کا طالب ہوا، وقت آنے پر بادشاہ بن گیا اور ”وہ کام کِیا جو خداوند کی نظر میں بھلا تھا . . . اور وہ خداوند اؔسرائیل کے خدا پر توکل کرتا تھا۔“ ۲-سلاطین ۱۸:۱-۵۔
وہ پاکباز رہے
۵. دانیایل اور اُسکے تینوں ساتھیوں نے کن آزمائشوں کا سامنا کِیا؟
۵ پاکیزگی کی مثال دانیایل اور اُس کے تین عبرانی ساتھی حننیاہ اور میساایل اور عزریاہ تھے۔ اُنہیں اُن کے وطن سے زبردستی لے جا کر بابل میں جلاوطن کر دیا گیا تھا۔ اِن چاروں نوجوانوں کو بابلی نام دے دئے گئے—بیلطشضر، سدرک، میسک، اور عبدنجو۔ اُنہیں ایسی خوراک سمیت ”شاہی خوراک“ پیش کی گئی جس سے خدا کی شریعت منع فرماتی تھی۔ نیز، اُنہیں مجبور کِیا گیا کہ وہ ”کسدیوں کے علم اور اُنکی زبان“ سے متعلقہ ایک تین سالہ تربیتی پروگرام میں شرکت کریں۔ اِس میں صرف ایک دوسری زبان سیکھنے کے علاوہ اَور بہت کچھ شامل تھا، کیونکہ یہاں اصطلاح ”کسدی“ ایک عالم فاضل جماعت کی نشاندہی کرتی ہے۔ لہٰذا اِن تین عبرانی نوجوانوں کو گمراہکُن بابلی تعلیمات سے رُوشناس کرایا گیا۔—دانیایل ۱:۱-۷۔
۶. ہم یہ کیوں کہہ سکتے ہیں کہ دانیایل پاکیزگی کا طالب رہا؟
۶ سخت دباؤ کے باوجود، دانیایل اور اُسکے ساتھیوں نے بُرائی کی بجائے پاکیزگی کا انتخاب کِیا۔ دانیایل ۱:۲۱ بیان کرتی ہے: ”دانیایل خوؔرس بادشاہ کے پہلے سال تک زندہ تھا۔“ جیہاں، دانیایل یہوواہ کے پاکباز خادم کے طور پر کئی بادشاہوں کے عروجوزوال کے دوران—۸۰ سال ”زندہ رہا“۔ وہ حکومت کے بدعنوان افسران کی چالوں اور سازشوں اور جنسی بُرائی سے پُر بابلی مذہب کے باوجود بھی خدا کا وفادار رہا۔ دانیایل پاکیزگی کا طالب رہا۔
۷. دانیایل اور اُس کے تینوں ساتھیوں نے جو راہ اختیار کی، ہم اُس سے کیا سیکھ سکتے ہیں؟
۷ ہم خداترس دانیایل اور اُسکے ساتھیوں سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔ وہ پاکیزگی کے حصول میں رہے اور بابلی مذہب کو اپنانے سے انکار کر دیا۔ اگرچہ اُنہیں بابلی نام دئے گئے تَوبھی اُنہوں نے یہوواہ کے خادموں کی حیثیت سے اپنی شناخت نہ کھوئی۔ اِسلئے ۷۰ سال بعد بابلی بادشاہ نے دانیایل کو اُسکے عبرانی نام سے مخاطب کِیا! (دانیایل ۵:۱۳) اپنی طویل زندگی میں دانیایل نے چھوٹے سے چھوٹے معاملے میں بھی مصالحت کرنے سے انکار کر دیا۔ ایک نوجوان کے طور پر اُس نے ”اپنے دل میں ارادہ کِیا کہ اپنے آپ کو شاہی خوراک سے . . . ناپاک نہ کرے۔“ (دانیایل ۱:۸) دانیایل اور اُسکے تینوں ساتھیوں کے اِس غیرمصالحانہ موقف نے بِلاشُبہ اُنہیں زندگی اور موت کی اُن آزمائشوں سے بچ نکلنے کیلئے تقویت دی ہو گی جنکا اُنہوں نے بعد میں سامنا کِیا۔—دانیایل، ۳ اور ۶ ابواب۔
آجکل پاکیزگی کے طالب ہونا
۸. مسیحی نوجوان شیطانی دُنیا کا حصہ بننے کی مزاحمت کس طرح کر سکتے ہیں؟
۸ دانیایل اور اُس کے تین ساتھیوں کی طرح، خدا کے لوگ شیطان کی بدکار دُنیا کا حصہ بن جانے کی مزاحمت کرتے ہیں۔ (۱-یوحنا ۵:۱۹) اگر آپ ایک مسیحی نوجوان ہیں تو شاید آپ لباس، آرائشوزیبائش اور موسیقی کے حوالے سے ہمسروں کی غیرمتوازن پسند کی نقل کرنے کیلئے دباؤ کا تجربہ کر رہے ہوں۔ تاہم، ہر مقبول فیشن یا طریق کو اپنانے کی بجائے مضبوط رہیں اور ”اِس جہان کے ہمشکل“ نہ بنیں۔ (رومیوں ۱۲:۲) ”بیدینی اور دُنیوی خواہشوں کا انکار کر کے . . . پرہیزگاری اور راستبازی اور دینداری کے ساتھ زندگی گذاریں۔“ (ططس ۲:۱۱، ۱۲) اہم چیز یہوواہ کی پسندیدگی ہے آپکے ہمسروں کی نہیں۔—امثال ۱۲:۲۔
۹. کاروباری دُنیا میں مسیحیوں کو کس قسم کے دباؤ کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور اُنہیں اپنا چالچلن کیسا رکھنا چاہئے؟
۹ بالغ مسیحی بھی دباؤ کا سامنا کرتے ہیں اور اُنہیں بھی پاکباز ہونا چاہئے۔ کاروبار کرنے والے مسیحیوں کو شاید قابلِاعتراض طریقے اختیار کرنے یا حکومت کے ضابطوں اور ٹیکس کے قوانین کو نظرانداز کرنے کی آزمائش ہو سکتی ہے۔ تاہم، اِس سے قطعنظر کہ کاروبار میں مقابلہبازوں اور ساتھی کارکنوں کا روّیہ کیسا ہے، ”ہم ہر بات میں نیکی کے ساتھ زندگی گذارنا چاہتے ہیں۔“ (عبرانیوں ۱۳:۱۸) ہم سے صحیفائی تقاضا کِیا جاتا ہے کہ ہم اپنے آجروں، ملازموں، گاہکوں، اور دُنیاوی حکومتوں کے ساتھ دیانتدار اور اُصولپسند رہیں۔ (استثنا ۲۵:۱۳-۱۶؛ متی ۵:۳۷؛ رومیوں ۱۳:۱؛ ۱-تیمتھیس ۵:۱۸؛ ططس ۲:۹، ۱۰) آئیے ہم اپنے کاروباری معاملات میں بھی باضابطہ ہونے کی کوشش کریں۔ ریکارڈ درست رکھنے اور معاہدوں کو تحریری شکل دینے سے ہم اکثر غلطفہمیوں سے بچ سکتے ہیں۔
ہوشیار رہنا!
۱۰. جب موسیقی کے انتخاب کی بات آتی ہے تو ہمیں کیوں ’ہوشیار رہنا‘ چاہئے؟
۱۰ زبور ۱۱۹:۹ خدا کی نظر میں پاکباز رہنے کے ایک اَور پہلو کو نمایاں کرتی ہے۔ زبورنویس نے کہا: ”جوان اپنی روش کس طرح پاک رکھے؟ تیرے کلام کے مطابق اُس پر نگاہ رکھنے سے۔“ شیطان کا ایک انتہائی مؤثر ہتھیار موسیقی ہے جس میں جذبات کو اُبھارنے کی صلاحیت ہے۔ افسوس کی بات ہے کہ بعض مسیحی موسیقی کے سلسلے میں ’ہوشیار رہنے‘ میں ناکام ہو گئے اور ریپ اور ہیوی میٹل جیسی اِسکی انتہائی اقسام کی طرف راغب ہو گئے۔ بعض استدلال کرتے ہیں کہ ایسی موسیقی اُنہیں نقصان نہیں پہنچاتی یا وہ گیت کی شاعری پر کوئی توجہ نہیں دیتے۔ دیگر کا کہنا ہے کہ وہ صرف تیز دُھن یا گٹار کی اُونچی آواز سے ہی محظوظ ہوتے ہیں۔ تاہم، مسیحیوں کے لئے معاملہ کسی چیز کے پُرلطف ہونے کا نہیں۔ بلکہ یہ کہ ”خداوند کو کیا پسند ہے۔“ (افسیوں ۵:۱۰) کسی نہ کسی حد تک، ریپ اور ہیوی میٹل جیسی موسیقی بُرائیوں کو فروغ دیتی ہے جیسےکہ بدکلامی، حرامکاری اور شیطانپرستی—جنکی خدا کے لوگوں کے درمیان یقیناً کوئی جگہ نہیں۔a (افسیوں ۵:۳) ہم میں سے ہر پیروجوان، اِس سوال پر دھیان دیکر اچھا کریگا کہ مَیں اپنے موسیقی کے انتخاب سے پاکیزگی کا یا بُرائی کا طالب بن رہا ہوں؟
۱۱. ایک مسیحی ٹیلیویژن پروگراموں، ویڈیوز اور فلموں کے سلسلے میں کس طرح ہوشیار رہ سکتا ہے؟
۱۱ بہتیرے ٹیلیویژن پروگرام، ویڈیوز، اور فلمیں بُرائی کو فروغ دیتے ہیں۔ ایک مشہور ماہرِنفسیات کے مطابق آجکل جو فلمیں بنائی جاتی ہیں اُن میں زیادہتر ’عیشونشاط، جنسیات، تشدد، لالچ اور خودغرضی‘ جیسے عناصر نمایاں ہوتے ہیں۔ لہٰذا ہوشیار رہنے کا مطلب یہ بھی ہے کہ جو کچھ ہم دیکھتے ہیں اُسکے سلسلے میں ہمیں انتخاب پسند ہونے کی ضرورت ہے۔ زبورنویس نے دُعا کی: ”میری آنکھوں کو بطلان پر نظر کرنے سے بعض رکھ۔“ (زبور ۱۱۹:۳۷) ایک نوجوان مسیحی جوزف نے اِس اُصول کا اطلاق کِیا۔ جب ایک فلم میں جنس اور تشدد کی تصویرکشی شروع ہوئی تو وہ تھیٹر سے اُٹھ کر چلا گیا۔ کیا وہ ایسا کرنے پر نادم تھا؟ ”نہیں، بالکل نہیں،“ جوزف کہتا ہے۔ ”مَیں یہوواہ اور اُسکی خوشنودی کے متعلق پہلے سوچتا ہوں۔“
مطالعہ اور غوروخوض کا کردار
۱۲. ذاتی مطالعہ اور غوروخوض پاکیزگی کے طالب رہنے کیلئے کیوں ضروری ہیں؟
۱۲ بُرے کاموں سے صرف گریز کرنا ہی کافی نہیں ہے۔ پاکیزگی کے طالب ہونے کا مطلب خدا کے پاککلام میں درج اچھی باتوں کا مطالعہ کرنا اور اُن پر غوروخوض کرنا بھی شامل ہے تاکہ زندگی میں اِسکے راست اصولوں کا اطلاق کِیا جا سکے۔ ”آہ مَیں تیری شریعت سے کیسی محبت رکھتا ہوں،“ زبورنویس نے خوشی سے بیان کِیا۔ ”مجھے دنبھر اِسی کا دھیان رہتا ہے۔“ (زبور ۱۱۹:۹۷) کیا بائبل اور دیگر مسیحی مطبوعات کا ذاتی مطالعہ آپکے ہفتہوار شیڈول کا حصہ ہے؟ درست ہے کہ خدا کے کلام کا گہرا مطالعہ اور اُس پر دُعائیہ غوروخوض کرنے کے لئے وقت نکالنا چیلنج ہو سکتا ہے۔ لیکن عموماً دیگر سرگرمیوں کا وقت کم کرنے سے یہ ممکن ہوتا ہے۔ (افسیوں ۵:۱۵، ۱۶) شاید آپ صبح کا وقت دُعا، مطالعے اور غوروخوض کے لئے موزوں پائیں۔—مقابلہ کریں زبور ۱۱۹:۱۴۷۔
۱۳، ۱۴. (ا) غوروفکر کیوں بیشقیمت ہے؟ (ب) کن صحیفوں پر غوروخوض کرنا ہمیں جنسی بداخلاقی سے نفرت کرنے میں مدد دیگا؟
۱۳ غوروخوض کرنا بیشقیمت ہے کیونکہ جو کچھ ہم سیکھتے ہیں، یہ اُسے یاد رکھنے میں ہماری مدد کرتا ہے۔ اور اِس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ یہ خدائی نظریات کو فروغ دینے میں مدد کر سکتا ہے۔ مثال کے طور پر، اِس بات سے واقف ہونا کہ خدا حرامکاری سے منع کرتا ہے ایک بات ہے لیکن ’بدی سے نفرت رکھنا اور نیکی سے لپٹے رہنا‘ اس کے برعکس ہے۔ (رومیوں ۱۲:۹) ہم بائبل کے کلیدی صحائف پر غور کرنے سے جنسی بداخلاقی کے متعلق بالکل ویسے ہی محسوس کر سکتے ہیں جیسے یہوواہ محسوس کرتا ہے جیسےکہ کلسیوں ۳:۵ جو تلقین کرتی ہے ”پس اپنے اُن اعضا کو مُردہ کرو جو زمین پر ہیں۔ یعنی حرامکاری اور ناپاکی اور شہوت اور بُری خواہش اور لالچ کو جو بُتپرستی کے برابر ہے۔“ خود سے پوچھیں: ’مجھے کس قسم کی جنسی خواہش کو مُردہ کرنا چاہئے؟ بُری خواہشات کو اُبھارنے والی کن چیزوں سے مجھے بچنا چاہئے؟ کیا جس طریقے سے مَیں مخالفجنس سے پیش آتا ہوں، مجھے اُس میں تبدیلی لانے کی ضرورت ہے؟‘—مقابلہ کریں ۱-تیمتھیس ۵:۱، ۲۔
۱۴ پولس مسیحیوں کو حرامکاری سے بچنے اور ضبطِنفس کو استعمال میں لانے کی تلقین کرتا ہے تاکہ ”کوئی شخص اپنے بھائی کے ساتھ اِس امر میں زیادتی اور دغا نہ کرے“ (۱-تھسلنیکیوں ۴:۳-۷) خود سے پوچھیں: ’حرامکاری کیوں نقصاندہ ہے؟ مَیں اس سلسلے میں گناہ کا مرتکب ہونے سے خود کو اور کسی دوسرے کو کیا نقصان پہنچاؤنگا؟ مَیں روحانی، جذباتی اور جسمانی طور پر کس طرح متاثر ہونگا؟ کلیسیا میں ایسے افراد کی بابت کیا ہے جنہوں نے خدا کے آئین کو توڑا اور غیرتائب رہے ہیں؟ یہ چیزیں اُن کے لئے کس بات کا باعث بنی ہیں؟‘ صحائف ایسے چالچلن کے بارے میں جوکچھ کہتے ہیں اُسے دل تک لیجانے سے، خدا کی نظر میں جوکچھ بُرا ہے اُس کیلئے ہماری نفرت بھی گہری ہو جاتی ہے۔ (خروج ۲۰:۱۴؛ ۱-کرنتھیوں ۵:۱۱-۱۳؛ ۶:۹، ۱۰؛ گلتیوں ۵:۱۹-۲۱؛ مکاشفہ ۲۱:۸) پولس کہتا ہے کہ حرامکار ”آدمی کو نہیں بلکہ خدا کو نہیں مانتا۔“ (۱-تھسلنیکیوں ۴:۸) کیا سچا مسیحی اپنے آسمانی باپ کو نہیں مانے گا؟
پاکیزگی اور رفاقت
۱۵. ہمارے پاکیزگی کے طالب رہنے میں رفاقت کیا کردار ادا کرتی ہے؟
۱۵ پاکباز رہنے کیلئے ایک اَور مدد اچھی رفاقت ہے۔ ایک زبورنویس نے یوں کہا: ”مَیں اُن سب کا ساتھی ہوں جو تجھ سے ڈرتے ہیں اور اُنکا جو تیرے قوانین کو مانتے ہیں۔“ (زبور ۱۱۹:۶۳) ہمیں اُس خوشگوار رفاقت کی ضرورت ہے جو مسیحی اجلاسوں پر میسر آتی ہے۔ (عبرانیوں ۱۰:۲۴، ۲۵) اگر ہم خود کو الگتھلگ کر لیتے ہیں تو شاید ہم اپنی سوچ میں خودپسند بن جائیں اور بُرائی ہم پر آسانی سے غلبہ پا سکتی ہے۔ (امثال ۱۸:۱) تاہم، پُرتپاک مسیحی رفاقت پاکباز رہنے کے ہمارے عزم کو مضبوط کریگی۔ ہمیں یقیناً بُری صحبتوں کے سلسلے میں بھی ہوشیار رہنا چاہئے۔ ہم اپنے پڑوسیوں، ساتھی کارکنوں، اور طالبعلموں کیلئے پُرتپاک روّیہ دکھا سکتے ہیں۔ لیکن اگر ہم واقعی دانشمندی سے چل رہے ہیں تو ہم اُن لوگوں سے بہت قریبی تعلق استوار نہیں کرینگے جو مسیحی پاکیزگی کے طالب نہیں ہیں۔—مقابلہ کریں کلسیوں ۴:۵۔
۱۶. ۱-کرنتھیوں ۱۵:۳۳ کا اطلاق پاکیزگی کے طالب رہنے میں کس طرح ہماری مدد کر سکتا ہے؟
۱۶ پولس نے لکھا: ”بُری صحبتیں اچھی عادتوں کو بگاڑ دیتی ہیں۔“ اِس بیان سے وہ ایمانداروں کو آگاہ کر رہا تھا کہ اگر وہ اُن نامنہاد مسیحیوں سے رفاقت رکھتے ہیں جو قیامت کے متعلق بائبل کی تعلیمات کو رد کرتے ہیں تو وہ اپنے ایمان سے گمراہ ہو سکتے ہیں۔ پولس کی اِس آگاہی کے پیچھے جو اصول کارفرما ہے، وہ کلیسیا کے اندر اور کلیسیا کے باہر دونوں جگہ پر ہماری رفاقت پر لاگو ہوتا ہے۔ (۱-کرنتھیوں ۱۵:۱۲، ۳۳) ہم یقیناً اپنے روحانی بہن بھائیوں سے صرف اِس وجہ سے گریز نہیں کرنا چاہتے کہ وہ کسی ذاتی معاملے میں ہمارے جیسا نظریہ نہیں رکھتے ہیں۔ (متی ۷:۴، ۵؛ رومیوں ۱۴:۱-۱۲) تاہم، اگر کلیسیا میں کوئی قابلِاعتراض چالچلن میں ملوث ہے یا تلخ اور شکایتی روح کا مظاہرہ کرتا ہے تو احتیاط ضروری ہے۔ (۲-تیمتھیس ۲:۲۰-۲۲) اُن لوگوں کی قربت میں رہنا دانشمندی ہے جنکے ”درمیان . . . ہم . . . تسلی“ پا سکتے ہیں۔ (رومیوں ۱:۱۱، ۱۲) یہ ہمیں پاکبازی کے راستے اور ”زندگی کی راہ“ پر قائم رہنے میں مدد دیگا۔—زبور ۱۶:۱۱۔
پاکیزگی کے طالب رہیں
۱۷. گنتی ۲۵ باب کے مطابق، اسرائیلیوں پر کونسی مصیبت آئی اور اِس سے ہمیں کیا سبق حاصل ہوتا ہے؟
۱۷ ملکِموعود پر قبضہ کرنے کے تھوڑی ہی دیر بعد لاکھوں اسرائیلیوں نے بُرائی کے طالب بننے کا انتخاب کِیا—اور مصیبت کا تجربہ کِیا۔ (گنتی، ۲۵ باب) آج، یہوواہ کے لوگ ایک راستباز نئی دُنیا کی دہلیز پر کھڑے ہیں۔ اِس میں داخلہ اُن کا بابرکت شرف ہوگا جو مسلسل اِس دُنیا کی بُرائی کو رد کرتے رہے ہیں۔ ناکامل انسانوں کے طور پر، ہمارے رحجانات غلط ہو سکتے ہیں لیکن خدا ہماری مدد کر سکتا ہے تاکہ اُسکی رُوح کی راست راہنمائی کی پیروی کریں۔ (گلتیوں ۵:۱۶؛ ۱-تھسلنیکیوں ۴:۳، ۴) لہٰذا آئیے اسرائیل کیلئے یشوع کی نصیحت پر دھیان دیں: ”پس اب تم خداوند کا خوف رکھو اور نیکنیتی اور صداقت سے اُسکی پرستش کرو۔“ (یشوع ۲۴:۱۴) یہوواہ کو ناراض کرنے کا پاک خوف ہماری مدد کریگا کہ پاکیزگی کی راہ اختیار کریں۔
۱۸. بُرائی اور پاکیزگی کے سلسلے میں، تمام مسیحیوں کا کیا عزم ہونا چاہئے؟
۱۸ اگر خدا کو خوش کرنے کی آپ کی دلی خواہش ہے تو پولس کی نصیحت پر دھیان دیں: ”غرض اے بھائیو! جتنی باتیں سچ ہیں اور جتنی باتیں شرافت کی ہیں اور جتنی باتیں واجب ہیں اور جتنی باتیں پاک ہیں اور جتنی باتیں پسندیدہ ہیں اور جتنی باتیں دلکش ہیں غرض جو نیکی اور تعریف کی باتیں ہیں اُن پر غور کِیا کرو۔“ اگر آپ ایسا کرتے ہیں تو نتیجہ کیا ہوگا؟ پولس نے کہا: ”اِن پر عمل کِیا کرو تو خدا جو اطمینان کا چشمہ ہے تمہارے ساتھ رہیگا۔“ (فلپیوں ۴:۸، ۹) جیہاں، یہوواہ کی مدد سے آپ بُرائی کو رد اور پاکیزگی کے طالب رہ سکتے ہیں۔
]فٹ نوٹس[
a جولائی ۱۹۹۳ کے مینارِنگہبانی کے صفحات ۲۴-۲۹، اور فروری ۸، فروری ۲۲، ۱۹۹۳، اور نومبر ۲۲، ۱۹۹۶ کے اویک! اور جولائی ۱۹۹۳ کے جاگو! میں سلسلہوار مضمون ”نوجوان لوگ پوچھتے ہیں . . .“ کو دیکھیں۔
اعادے کیلئے نکات
▫ پاکیزگی کے طالب رہنے کے سلسلے میں کیا درکار ہے؟
▫ کن حالتوں کے تحت حزقیاہ، دانیایل، اور تین عبرانی پاکباز رہے؟
▫ ہم شیطان کے ہتھکنڈوں کا مقابلہ کرنے میں کس طرح دانیایل کی مانند بن سکتے ہیں؟
▫ تفریح کے سلسلے میں مسیحیوں کو کیوں ہوشیار رہنا چاہئے؟
▫ پاکیزگی کے طالب رہنے میں مطالعہ، غوروخوض اور رفاقت کیا کردار ادا کرتے ہیں؟
[صفحہ 15 پر تصویر]
نوجوان حزقیاہ پاکیزگی کا طالب ہوا اگرچہ وہ مولک کے پجاریوں میں گھرا ہوا تھا
[صفحہ 17 پر تصویریں]
جب تفریح کی بات آتی ہے تو مسیحیوں کو ہوشیار رہنا چاہئے