’ہم نے خدا کو پہچان لیا ہے‘—اب ہم کیا کریں گے؟
”تُم نے خدا کو پہچانا۔“ —گل ۴:۹۔
۱. پائلٹ پرواز سے پہلے ایک فہرست کے مطابق جہاز کا جائزہ کیوں لیتا ہے؟
ہر پائلٹ پرواز سے پہلے ایک فہرست کے مطابق جہاز کا جائزہ لیتا ہے تاکہ اُسے تسلی ہو جائے کہ جہاز میں کوئی نقص نہیں۔ اگر وہ ایسا نہیں کرتا تو اِس بات کا زیادہ امکان ہوتا ہے کہ جہاز کسی حادثے کا شکار ہو جائے۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ کس طرح کے پائلٹ کو خاص طور پر یاد دِلایا جاتا ہے کہ وہ جہاز کا جائزہ لے؟ تجربہکار پائلٹ کو۔ اِس کی وجہ یہ ہے کہ ایک تجربہکار پائلٹ بڑی آسانی سے لاپرواہی برت سکتا ہے اور یوں جہاز کا اچھی طرح جائزہ نہیں لیتا۔
۲. مسیحیوں کو کس بات کا جائزہ لینا چاہئے؟
۲ جس طرح پائلٹ جہاز کا جائزہ لیتا ہے اُسی طرح ہمیں اپنے ایمان کا جائزہ لینا چاہئے تاکہ مشکل وقت میں وہ لڑکھڑا نہ جائے۔ چاہے ہم نے حال ہی میں بپتسمہ لیا ہے یا کئی سالوں سے خدا کی خدمت کر رہے ہیں، ہمیں باقاعدگی سے اِس بات کا جائزہ لینا چاہئے کہ ہمارا ایمان کتنا مضبوط ہے اور یہوواہ خدا کے ساتھ ہماری دوستی کتنی گہری ہے۔ اگر ہم ایسا کرنے میں لاپرواہی برتتے ہیں تو ہم خدا کی قربت سے محروم ہو سکتے ہیں۔ اِس لئے بائبل میں کہا گیا ہے: ”جو کوئی اپنے آپ کو قائم سمجھتا ہے وہ خبردار رہے کہ گِر نہ پڑے۔“—۱-کر ۱۰:۱۲۔
۳. گلتیہ میں رہنے والے مسیحیوں کو کیا کرنے کی ضرورت تھی؟
۳ شہر گلتیہ میں رہنے والے مسیحیوں کو بھی اپنے ایمان کا جائزہ لینے کی ہدایت کی گئی تھی۔ اُنہیں اِس بات کی قدر کرنے کی ضرورت تھی کہ وہ شریعت کی غلامی سے آزاد ہو گئے ہیں۔ یسوع مسیح کی قربانی کے ذریعے اُنہیں یہ موقع ملا کہ وہ خدا کو ایک خاص لحاظ سے پہچان سکیں یعنی اُنہیں اُس کے بیٹے بننے کا موقع ملا۔ (گل ۴:۹) خدا کی قربت میں رہنے کے لئے یہ ضروری تھا کہ وہ کلیسیا کے اُن رُکنوں کی تعلیم کو رد کریں جو کہہ رہے تھے کہ مسیحیوں کو موسیٰ کی شریعت پر عمل کرنا چاہئے۔ غیرقوموں سے تعلق رکھنے والے مسیحی تو کبھی بھی موسیٰ کی شریعت کے پابند نہیں رہے تھے۔ یہودی اور غیریہودی مسیحیوں دونوں کو آگے بڑھنے کی ضرورت تھی۔ اُنہیں اِس حقیقت کو تسلیم کرنا تھا کہ خدا اب اُن سے شریعت پر عمل کرنے کی توقع نہیں کر رہا تھا۔
خدا کو پہچاننے کی طرف ہمارے پہلے قدم
۴، ۵. گلتیوں ۴:۹ میں درج پولس رسول کی ہدایت کا مقصد کیا تھا؟ اور اِس ہدایت پر غور کرنے سے ہمیں کیا فائدہ ہوتا ہے؟
۴ گلتیوں ۴:۹ میں درج پولس رسول کی ہدایت صرف گلتیہ میں رہنے والے مسیحیوں پر نہیں بلکہ تمام مسیحیوں پر لاگو ہوتی ہے۔ اِس ہدایت کا مقصد یہ تھا کہ سب مسیحی پاک کلام کی سچائیوں پر قائم رہیں اور اُن چیزوں کی طرف لوٹ نہ جائیں جو وہ پیچھے چھوڑ آئے تھے۔ اِس ہدایت پر غور کرنے سے ہمیں یہ حوصلہافزائی ملتی ہے کہ ہم ہمیشہ یہوواہ خدا کے وفادار رہیں۔
۵ ذرا اُس وقت کو یاد کریں جب آپ یہوواہ کے گواہ بنے تھے اور جھوٹے عقیدوں کی غلامی سے آزاد ہوئے تھے۔ کیا آپ کو یاد ہے کہ آپ نے کونسے قدم اُٹھائے تھے تاکہ آپ بپتسمہ لینے کے لائق بنیں؟ آپ خدا کے دوست کیسے بنے تھے؟
۶. ہم کن باتوں کی فہرست پر غور کریں گے؟
۶ ہم سب نے وہ نو قدم اُٹھائے تھے جن کا ذکر بکس ”بپتسمے تک لے جانے والے قدم“ میں کِیا گیا ہے۔ ہمیں باقاعدگی سے اِن نو قدموں پر غور کرنا چاہئے تاکہ ہمارا ایمان مضبوط رہے اور ہم دُنیا کی چیزوں کی طرف لوٹ نہ جائیں۔ جس طرح ایک محتاط پائلٹ ایک فہرست کے مطابق اپنے جہاز کا جائزہ لیتا ہے اور یوں حادثے سے بچتا ہے اُسی طرح ہم اِن نو قدموں کی فہرست پر غور کرنے سے یہوواہ خدا کی خدمت میں قائم رہ سکتے ہیں۔
علم اور ایمان میں بڑھتے رہیں
۷. ہمیں کس خاکے کے مطابق چلنا چاہئے؟ اور کیوں؟
۷ جس طرح پائلٹ باقاعدگی سے اپنے جہاز کا جائزہ لیتا ہے اِسی طرح ہمیں بھی باقاعدگی سے اپنا جائزہ لینا چاہئے۔ پولس رسول نے تیمتھیس کو یہ ہدایت دی: ”جو صحیح باتیں تُو نے مجھ سے سنیں اُس ایمان اور محبت کے ساتھ جو مسیح یسوؔع میں ہے اُن کا خاکہ یاد رکھ۔“ (۲-تیم ۱:۱۳) ’صحیح باتیں‘ خدا کے کلام میں پائی جاتی ہیں۔ (۱-تیم ۶:۳) جب ایک مُصوّر تصویر بنانے سے پہلے اِس کا خاکہ تیار کرتا ہے تو ہم اندازہ لگا سکتے ہیں کہ تصویر میں کیاکیا ہوگا۔ اِسی طرح ہم ’صحیح باتوں کے خاکے‘ سے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ خدا ہم سے کنکن باتوں کی توقع کرتا ہے۔ آئیں، اب اُن قدموں پر غور کریں جو ہم نے بپتسمہ لینے سے پہلے اُٹھائے تھے۔ یوں ہم اِس بات کا جائزہ لے سکیں گے کہ ہم ابھی کس حد تک ’صحیح باتوں کے خاکے‘ کے مطابق چل رہے ہیں۔
۸، ۹. (الف) ہمیں اپنے علم اور ایمان کو کیوں بڑھاتے رہنا چاہئے؟ (ب) درخت کی مثال سے کیسے ظاہر ہوتا ہے کہ ہمیں روحانی طور پر بڑھتے رہنا چاہئے؟
۸ نو قدموں کی فہرست میں پہلا قدم یہ تھا کہ ہم نے علم حاصل کِیا۔ اِس علم کی بدولت ہم میں ایمان پیدا ہوا۔ اب بھی ہمیں اپنے علم اور ایمان کو بڑھاتے رہنا چاہئے۔ (۲-تھس ۱:۳) جو چیز بڑھتی رہتی ہے، اُس میں مسلسل تبدیلیاں ہوتی رہتی ہیں۔ لہٰذا بپتسمے کے بعد ہمیں اپنے اندر تبدیلیاں کرتے رہنا چاہئے اور روحانی طور پر بڑھتے رہنا چاہئے۔
۹ ہمارا علم اور ایمان ویسے ہی بڑھتا ہے جیسے ایک درخت بڑھتا ہے۔ بعض درخت بہت اُونچے ہوتے ہیں، خاص طور پر وہ درخت جن کی جڑیں بہت گہری اور پھیلی ہوئی ہوتی ہیں۔ مثال کے طور پر لبنان کے دیوداروں کا قد ۱۲ منزلہ عمارت کے برابر ہو سکتا ہے اور اِن کے تنے کا گھیرا ۱۲ میٹر (۴۰ فٹ) تک ہو سکتا ہے۔ اِن کی جڑیں بھی بہت گہری ہوتی ہیں۔ (زبور ۹۲:۱۲) جب درخت کا بیج پھوٹتا ہے تو شروع میں ننھا سا پودا بڑی تیزی سے بڑھتا ہے۔ جیسےجیسے اِس کی جڑیں پھیلتی ہیں، اِس کا تنا موٹا اور لمبا ہوتا جاتا ہے۔ اگرچہ کچھ عرصے کے بعد درخت کی نشوونما اِتنی واضح نہیں ہوتی لیکن پھر بھی درخت بڑھ رہا ہوتا ہے۔ اِس کی جڑیں اَور بھی گہری ہوتی جاتی ہیں اور یوں درخت بہت مضبوط ہو جاتا ہے۔ ہمارا علم اور ایمان بھی اِسی طرح بڑھتا ہے۔ جب ہم نے بائبل کا مطالعہ کرنا شروع کِیا تھا تو ہم نے بڑی تیزی سے ترقی کی۔ آخرکار ہم نے بپتسمہ لے لیا اور ہماری ترقی کو دیکھ کر کلیسیا میں سب خوش ہوئے۔ پھر ہم شاید پہلکار بن گئے یا ہمیں کلیسیا میں کچھ اَور ذمہداریاں ملیں۔ لیکن اِس کے بعد دوسروں پر اِتنا واضح نہیں رہا تھا کہ ہم روحانی طور پر بڑھ رہے ہیں۔ پھر بھی ہمیں اپنے علم اور ایمان کو بڑھاتے رہنا چاہئے تاکہ ہم ”مسیح کے پورے قد کے اندازہ تک . . . پہنچ جائیں۔“ (افس ۴:۱۳) یوں ہمارے علم اور ایمان کا پودا بڑھتےبڑھتے ایک تناور اور مضبوط درخت بن جاتا ہے۔
۱۰. کافی سالوں سے یہوواہ خدا کی خدمت کرنے کے باوجود بھی یہ کیوں ضروری ہے کہ ہم علم اور ایمان میں بڑھتے رہیں؟
۱۰ اِس مرحلے تک پہنچ کر ہمیں یہ نہیں سوچنا چاہئے کہ اب ہمیں روحانی طور پر بڑھنے کی ضرورت نہیں۔ ہمارا علم اور ایمان اَور بھی بڑھ سکتا ہے۔ اِس طرح ہم خدا کے کلام کی زمین میں اَور زیادہ جڑ پکڑتے جائیں گے۔ (امثا ۱۲:۳) اِس سلسلے میں ہمارے بہت سے بہنبھائیوں نے بہترین مثال قائم کی ہے۔ ایک بھائی ۳۰ سال سے کلیسیا میں بزرگ کے طور پر خدمت کر رہا ہے۔ اُس نے بتایا کہ آج بھی اُس کا علم اور ایمان بڑھ رہا ہے۔ اُس نے کہا: ”میرے دل میں خدا کے کلام کے لئے قدر روزبروز بڑھتی جا رہی ہے۔ مَیں ابھی بھی سیکھ رہا ہوں کہ مَیں مختلف صورتحال میں پاک کلام کے اصولوں پر اَور بہتر طور پر کیسے عمل کر سکتا ہوں۔ مُنادی کے کام کے لئے بھی میرا جوش مسلسل بڑھ رہا ہے۔“
خدا کے ساتھ اپنی دوستی کو مضبوط بنائیں
۱۱. یہوواہ خدا کی ذات کو اچھی طرح جاننے کے لئے ہم کیا کر سکتے ہیں؟
۱۱ روحانی طور پر بڑھنے میں یہ شامل ہے کہ یہوواہ خدا کے ساتھ ہماری دوستی اَور گہری ہو جائے۔ وہ ہمارا باپ ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ اُس کے سائے میں ہم اُس کی محبت اور تحفظ کو محسوس کریں، بالکل ویسے ہی جیسے ایک بچہ اپنے باپ کی گود میں اُس کی محبت محسوس کرتا ہے یا پھر جیسے ہم اپنے کسی جگری دوست کی صحبت میں اطمینان محسوس کرتے ہیں۔ ہم یہ بات سمجھتے ہیں کہ خدا کے ساتھ گہری دوستی راتوں رات پیدا نہیں ہوتی۔ خدا کو پہچاننے اور اپنے دل میں اُس کے لئے محبت پیدا کرنے میں وقت لگتا ہے۔ لہٰذا یہ ٹھان لیں کہ آپ خدا کا کلام ہر روز پڑھیں گے تاکہ آپ یہوواہ خدا کی ذات کو بہتر طور پر جان لیں۔ اِس کے ساتھ ہی ساتھ مینارِنگہبانی اور جاگو! کے ہر شمارے اور ہماری دیگر کتابوں کو بھی پڑھیں۔
۱۲. ہمیں کیا کرنے کی ضرورت ہے تاکہ خدا کے ساتھ ہماری دوستی قائم رہے؟
۱۲ نو قدموں کی فہرست کے مطابق تیسرا قدم باقاعدگی سے دُعا کرنا اور چوتھا قدم خدا کے خادموں کے ساتھ جمع ہونا ہے۔ یہ دو قدم اُٹھانے سے بھی خدا کے ساتھ ہماری دوستی زیادہ گہری اور مضبوط ہو گئی تھی۔ (ملاکی ۳:۱۶ کو پڑھیں۔) یہوواہ خدا کے ”کان اُن کی دُعا پر لگے ہیں“ جو اُس کے دوست ہیں۔ (۱-پطر ۳:۱۲) ایک شفیق باپ کی طرح یہوواہ خدا ہماری التجاؤں کو بڑے دھیان سے سنتا ہے۔ لہٰذا ہمیں ”دُعا کرنے میں مشغول“ رہنا چاہئے۔ (روم ۱۲:۱۲) خدا کی مدد کے بغیر اُس کے ساتھ ہماری دوستی قائم نہیں رہ سکتی۔ شیطان کی دُنیا کی طرف سے ہم پر جو مشکلات آتی ہیں، ہم اپنے بلبوتے پر اُن سے نپٹ نہیں سکتے۔ اگر ہم دُعا کرنے میں کوتاہی برتتے ہیں تو ہم وہ طاقت حاصل نہیں کر پاتے جو خدا ہمیں مشکلات سے نپٹنے کے لئے دینا چاہتا ہے۔ کیا آپ دُعا میں خدا سے ایسے ہی بات کرتے ہیں جیسے آپ اپنے کسی دوست سے بات کرتے ہیں؟ یا آپ کے خیال میں آپ کو اِس سلسلے میں کچھ بہتری لانے کی ضرورت ہے؟—یرم ۱۶:۱۹۔
۱۳. خدا کے ساتھ اپنی دوستی مضبوط کرنے کے لئے کلیسیا کے طور پر جمع ہونا کیوں ضروری ہے؟
۱۳ یہوواہ خدا اُن سب لوگوں سے خوش ہے جو اُسے اپنی ”پناہگاہ“ سمجھتے ہیں۔ لہٰذا خدا کو پہچان لینے کے بعد بھی ہمیں باقاعدگی سے اُن لوگوں کے ساتھ جمع ہونا چاہئے جو اُس کے دوست ہیں۔ (ناحوم ۱:۷) اِس دُنیا میں ہمیں بہت سے ایسے حالات کا سامنا ہوتا ہے جن کی وجہ سے ہمارا حوصلہ پست ہو سکتا ہے۔ اِس لئے ہمیں حوصلہافزائی حاصل کرنے کے لئے باقاعدگی سے اپنے بہنبھائیوں کے ساتھ جمع ہونا چاہئے۔ کلیسیا میں ہی ہمیں ایسے لوگ ملتے ہیں جو ہمیں ”محبت اور نیک کاموں کی ترغیب“ دیتے ہیں۔ (عبر ۱۰:۲۴، ۲۵) ہم ایک دوسرے کو محبت کی ترغیب اُسی صورت میں دے سکتے ہیں اگر ہم کلیسیا کے طور پر جمع ہوتے ہیں۔ لہٰذا یہ عزم کریں کہ آپ باقاعدگی سے اجلاسوں میں جائیں گے اور اِن میں حصہ بھی لیں گے۔
۱۴. بپتسمہ لینے کے بعد بھی ہمیں توبہ کرنے اور رُجوع لانے کی ضرورت کیوں پڑتی ہے؟
۱۴ بپتسمے سے پہلے ہم نے توبہ کی تھی اور رُجوع لائے تھے یعنی ہم نے بُرے کاموں کو ترک کر دیا تھا۔ لیکن ہمیں اب بھی توبہ کرنے کی ضرورت ہے۔ ہم گُناہ کی طرف مائل ہیں۔ گُناہ ہمارے اندر ایک ایسے سانپ کی طرح چھپا بیٹھا ہے جو ہمیں کسی بھی وقت ڈس سکتا ہے۔ (روم ۳:۹، ۱۰؛ ۶:۱۲-۱۴) اِس لئے ہمیں محتاط رہنا چاہئے کہ ہم اپنی غلطیوں کو نظرانداز نہ کریں۔ یہ ہمارے لئے تسلی کی بات ہے کہ یہوواہ خدا ہمارے ساتھ بڑے تحمل سے پیش آتا ہے۔ وہ ہمیں اپنی کمزوریوں پر قابو پانے اور اپنے چالچلن میں تبدیلی لانے کا موقع دیتا ہے۔ (فل ۲:۱۲؛ ۲-پطر ۳:۹) ایسا کرنا تب زیادہ آسان ہوگا جب ہم اپنے وقت اور وسائل کو ذاتی فائدے کے لئے نہیں بلکہ خدا کی خدمت کے لئے استعمال کریں۔ اِس سلسلے میں ایک بہن نے کہا: ”میرے والدین یہوواہ کے گواہ ہیں۔ پھر بھی مَیں نے بچپن سے ہی یہوواہ خدا کے بارے میں غلط نظریہ اپنا لیا۔ مَیں خدا سے بہت زیادہ ڈرتی تھی اور یہ سمجھتی تھی کہ مَیں اُسے کبھی خوش نہیں کر پاؤں گی۔“ اِس کی وجہ سے اُس نے زندگی میں کچھ غلط قدم اُٹھائے اور خدا سے اَور بھی دُور ہو گئی۔ اُس نے کہا: ”مَیں خدا سے محبت تو کرتی تھی مگر اُسے اچھی طرح جانتی نہیں تھی۔ بڑی دُعاؤں کے بعد مَیں واپس خدا کی طرف مڑی۔ یہوواہ خدا نے ایک باپ کی طرح میرا ہاتھ تھام کر مجھے صحیح راہ پر ڈالا۔ اُس نے ہر رُکاوٹ کو پار کرنے میں میری مدد کی۔ اُس نے بڑی نرمی سے مجھے دِکھایا کہ مجھے کیا کرنا ہے۔“
۱۵. یسوع مسیح اور یہوواہ خدا کس بات پر توجہ دیتے ہیں؟
۱۵ خدا کے فرشتے نے جب پطرس اور دوسرے رسولوں کو قیدخانے سے نکالا تھا تو اُس نے اُنہیں کہا کہ ”اِس زندگی کی سب باتیں لوگوں کو سناؤ۔“ (اعما ۵:۱۹-۲۱) ہر ہفتے مُنادی کے کام میں حصہ لینا ایک اَور قدم ہے جس پر ہمیں بپتسمے کے بعد بھی عمل کرنا چاہئے۔ یسوع مسیح اور یہوواہ خدا ہمارے ایمان اور ہماری خدمت پر توجہ دیتے ہیں۔ (مکا ۲:۱۹) جس بزرگ کا پہلے ذکر کِیا گیا ہے، اُس نے کہا: ”مُنادی کا کام ہماری پہچان ہے۔“
۱۶. ہمیں خود کو یہوواہ خدا کے لئے وقف کرنے کی اہمیت پر کیوں سوچبچار کرنا چاہئے؟
۱۶ اِس بات پر سوچبچار کریں کہ خود کو یہوواہ خدا کے لئے وقف کرنا آپ کی زندگی کا سب سے اہم فیصلہ تھا۔ اِس سے بڑا اعزاز اَور کوئی نہیں کہ ہمیں خدا کی قربت حاصل ہے۔ ہم اُس کے ہیں اور وہ ہمیں پہچانتا ہے۔ (یسعیاہ ۴۴:۵ کو پڑھیں۔) اِس بات کا جائزہ لیں کہ یہوواہ خدا کے ساتھ آپ کی دوستی کتنی گہری ہے اور اُس سے مدد مانگیں تاکہ آپ ہمیشہ اُس کی قربت میں رہیں۔ اِس کے ساتھساتھ اُس تاریخ کو بھی یاد رکھیں جس پر آپ نے بپتسمہ لیا تھا کیونکہ اُس دن آپ نے یہ اقرار کِیا تھا کہ آپ نے اپنی زندگی خدا کے نام کر دی ہے۔
ہمت نہ ہاریں اور خدا کی قربت میں رہیں
۱۷. خدا کی قربت میں رہنے کے لئے یہ کیوں ضروری ہے کہ ہم ہمت نہ ہاریں؟
۱۷ گلتیوں کے نام اپنے خط میں پولس رسول نے اِس بات پر زور دیا کہ ہمیں ہمت نہیں ہارنی چاہئے۔ (گل ۶:۹) ہمیں آزمائشوں کا سامنا تو ہوگا مگر یہوواہ خدا ہماری مدد کرے گا۔ خدا کی پاک روح کے لئے دُعا کریں۔ خدا آپ کے غم اور پریشانی کو دُور کرکے آپ کو خوشی اور اطمینان بخشے گا۔ (متی ۷:۷-۱۱) ذرا سوچیں کہ اگر یہوواہ خدا پرندوں کا خیال رکھتا ہے تو پھر اُسے آپ کا کتنا خیال ہوگا کیونکہ آپ اُس سے محبت کرتے ہیں اور اُس کے ہو گئے ہیں۔ (متی ۱۰:۲۹-۳۱) چاہے مشکلات کتنی بھی ہوں، کبھی ہمت نہ ہاریں اور پیچھے نہ ہٹیں۔ خدا ہمارا دوست ہے اور اِس سے بڑی برکت اَور کوئی نہیں ہو سکتی۔
۱۸. چاہے آپ کا بپتسمہ حال ہی میں ہوا ہے یا بہت سال پہلے، آپ کا عزم کیا ہے؟
۱۸ اگر حال ہی میں آپ کا بپتسمہ ہوا ہے تو آپ کو کیا کرنا چاہئے؟ خدا کے بارے میں علم حاصل کرتے رہیں اور روحانی طور پر بڑھتے رہیں۔ اگر آپ کو بپتسمہ لئے ہوئے کئی سال ہو گئے ہیں تو پھر آپ کو کیا کرنا چاہئے؟ آپ کو بھی خدا کو اَور اچھی طرح جاننے کی کوشش کرنی چاہئے۔ کبھی بھی یہ نہ سوچیں کہ آپ کو خدا کے اَور قریب جانے کی ضرورت نہیں ہے۔ اِس کی بجائے ہمیں وقتاًفوقتاً اُن نو قدموں پر غور کرنا چاہئے جو ہم نے بپتسمہ لینے سے پہلے اُٹھائے تھے۔ یوں ہم اپنے شفیق باپ اور دوست یہوواہ خدا کے اَور بھی قریب ہو جائیں گے۔—۲-کرنتھیوں ۱۳:۵، ۶ کو پڑھیں۔