ہمیں یہوواہ پر اعتماد رکھنا چاہئے
”خداوند [”یہوواہ،“ اینڈبلیو] تیرا سہارا ہوگا۔“—امثال ۳:۲۶۔
۱. اگرچہ بہتیرے خدا پر بھروسہ رکھنے کا دعویٰ کرتے ہیں لیکن کیا چیز ثابت کرتی ہے کہ وہ ہمیشہ ایسا نہیں کرتے؟
”ہم خدا پر بھروسہ کرتے ہیں“ یہ ماٹو ریاستہائےمتحدہ امریکہ کی کرنسی پر نظر آتا ہے۔ تاہم اس ملک میں یا دیگر ممالک میں اس کرنسی کو استعمال کرنے والے تمام لوگ کیا واقعی خدا پر بھروسہ رکھتے ہیں؟ یا کیا وہ روپےپیسے پر زیادہ بھروسہ کرتے ہیں؟ پیسہ خواہ اس ملک کا ہو یا کسی دوسرے ملک کا اس پر بھروسے کو پُرمحبت قادرِمطلق خدا پر بھروسے کےساتھ ہمآہنگ نہیں کِیا جا سکتا جو کبھی اپنی طاقت کا کسی بھی لحاظ سے ناجائز استعمال نہیں کرتا اور جو لالچی نہیں ہے۔ درحقیقت وہ لالچ کی صریحاً مذمت کرتا ہے۔—افسیوں ۵:۵۔
۲. سچے مسیحی مالودولت کی طاقت کی بابت کیا رُجحان رکھتے ہیں؟
۲ سچے مسیحی ”فریب“ دینے والے مالودولت کی بجائے خدا پر توکل رکھتے ہیں۔ (متی ۱۳:۲۲) وہ سمجھتے ہیں کہ خوشحالی کو فروغ دینے اور زندگی کو محفوظ رکھنے کے سلسلے میں پیسے کی طاقت بہت محدود ہے۔ قادرِمطلق خدا کی طاقت ایسی نہیں ہے۔ (صفنیاہ ۱:۱۸) چنانچہ، یہ فہمائش کسقدر پُرحکمت ہے: ”زر کی دوستی سے خالی رہو اور جو تمہارے پاس ہے اسی پر قناعت کرو کیونکہ اس نے خود فرمایا ہے کہ مَیں تجھ سے ہرگز دستبردار نہ ہونگا اور کبھی تجھے نہ چھوڑونگا۔“—عبرانیوں ۱۳:۵۔
۳. استثنا ۳۱:۶ کا سیاقوسباق پولس کے اس آیت کے اقتباس پر کیسے روشنی ڈالتا ہے؟
۳ پولس نے عبرانی مسیحیوں کو مندرجہبالا الفاظ لکھتے ہوئے اُن ہدایات کا حوالہ دیا جو موسیٰ نے اپنی موت سے ذرا پہلے اسرائیلیوں کو دی تھیں: ”مضبوط ہو جا اور حوصلہ رکھ۔ مت ڈر اور نہ اُن سے خوف کھا کیونکہ خداوند تیرا خدا خود ہی تیرے ساتھ جاتا ہے۔ وہ تجھ سے دستبردار نہیں ہوگا اور نہ تجھ کو چھوڑیگا۔“ (استثنا ۳۱:۶) سیاقوسباق سے ظاہر ہوتا ہے کہ موسیٰ یہوواہ پر اعتماد کی حوصلہافزائی کر رہا تھا جو اُس پر مادی ضروریات کی فراہمی کے سلسلے میں بھروسہ کرنے سے کہیں بڑھکر تھا۔ کیسے؟
۴. خدا نے اسرائیلیوں کو اپنے قابلِبھروسہ ہونے کا یقین کیسے دلایا؟
۴ اسرائیل کے ۴۰ برس تک بیابان میں چلنےپھرنے کے دوران خدا وفاداری سے اُنہیں ضروریاتِزندگی فراہم کرتا رہا۔ (استثنا ۲:۷؛ ۲۹:۵) اُس نے پیشوائی کا انتظام بھی کِیا۔ اس بات کا ایک اظہار وہ اَبر تھا جو دن کے وقت مسکن پر ٹھہرا رہتا اور رات کے وقت اُس میں آگ رہتی تھی جس کی راہنمائی میں اسرائیلی اُس ”ملک میں جہاں دودھ اور شہد بہتا“ تھا، پہنچ گئے۔ (خروج ۳:۸؛ ۴۰:۳۶-۳۸) جب موعودہ ملک میں حقیقتاً داخل ہونے کا وقت آ پہنچا تو یہوواہ نے یشوع کو موسیٰ کا جانشین منتخب کِیا۔ اُس ملک کے باشندوں کی طرف سے مزاحمت کی توقع کی جا سکتی تھی۔ چونکہ یہوواہ عشروں تک اپنے لوگوں کےساتھ ساتھ چلتا رہا تھا، لہٰذا ڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔ اسرائیلیوں کے پاس یہوواہ کو قابلِبھروسہ خدا تسلیم کرنے کی ہر وجہ موجود تھی!
۵. آجکل مسیحیوں کی حالت ملکِموعود میں داخل ہونے سے قبل اسرائیلیوں کی حالت کے مترادف کیسے ہے؟
۵ آجکل مسیحی بھی خدا کی نئی دُنیا میں داخل ہونے کے لئے اس بدکار دُنیا کے بیابان میں سے گزر رہے ہیں۔ بعض تو ۴۰ سال سے زیادہ عرصے سے اس راہ پر گامزن ہیں۔ اب وہ خدا کی نئی دُنیا کی دہلیز پر کھڑے ہیں۔ تاہم، دشمن ابھی تک اس ارادے سے راستہ روکے کھڑے ہیں کہ کسی کو بھی ملکِموعود جیسے اُس ملک میں داخل نہ ہونے دیں جو پُرانے موعودہ ملک کی نسبت کہیں زیادہ شاندار ہوگا جہاں دودھ اور شہد بہتا تھا۔ پس آجکل مسیحیوں کے لئے موسیٰ کے یہ الفاظ کتنے موزوں ہیں جنہیں پولس نے دہرایا: ”مَیں تجھ سے ہرگز دستبردار نہ ہونگا اور کبھی تجھے نہ چھوڑونگا“! ایسے تمام لوگ جو مضبوط اور دلیر، ایمان پر قائم رہتے ہیں اور یہوواہ پر توکل کرتے ہیں یقیناً اجر پائیں گے۔
علم اور دوستی پر مبنی اعتماد
۶، ۷. (ا) کس چیز نے یہوواہ پر ابرہام کے اعتماد کو امتحان میں ڈال دیا تھا؟ (ب) ابرہام نے اُس جگہ کی طرف سفر کرتے ہوئے کیسا محسوس کِیا ہوگا جہاں اضحاق کو قربان کِیا جانا تھا؟
۶ ایک مرتبہ اسرائیل کے جد ابرہام کو اپنے بیٹے اضحاق کو سوختنی قربانی کے طور پر پیش کرنے کا حکم ملا۔ (پیدایش ۲۲:۲) کس چیز نے اس شفیق باپ کو یہوواہ پر ایسا پُختہ توکل رکھنے کے قابل بنایا کہ وہ حکم کی تعمیل کرنے پر فوراً راضی ہو گیا؟ عبرانیوں ۱۱:۱۷-۱۹ جواب دیتی ہے: ”ایمان ہی سے اؔبرہام نے آزمایش کے وقت اؔضحاق کو نذر گزرانا اور جس نے وعدوں کو سچ مان لیا تھا وہ اس اکلوتے کو نذر کرنے لگا۔ جس کی بابت یہ کہا گیا تھا کہ اؔضحاق ہی سے تیری نسل کہلائے گی۔ کیونکہ وہ سمجھا کہ خدا مُردوں میں سے جلانے پر بھی قادر ہے چُنانچہ ان ہی میں سے تمثیل کے طور پر وہ اُسے پھر ملا۔“
۷ یاد کریں کہ جس جگہ قربانی پیش کی جانی تھی وہاں پہنچنے کے لئے ابرہام اور اضحاق کو تین دن لگے تھے۔ (پیدایش ۲۲:۴) ابرہام سے جوکچھ کہا گیا تھا اُس میں ردوبدل کرنے کے لئے اُس کے پاس کافی وقت تھا۔ کیا ہم اُس کے احساسات اور جذبات کا تصور کر سکتے ہیں؟ اضحاق کی پیدائش غیرمتوقع خوشی کا موقع تھی۔ الہٰی مداخلت کے اس ثبوت نے ابرہام اور اُس کی بیوی سارہ کا جو پہلے بانجھ تھی خدا کےساتھ رشتہ اَور بھی گہرا کر دیا تھا۔ اس کے بعد وہ یقیناً یہ دیکھنے کی آرزو میں زندہ تھے کہ اضحاق اور اُس کی اولاد کے لئے مستقبل کیا تھامے ہوئے ہے۔ کیا ایسا نہیں لگتا کہ اب خدا نے جوکچھ کہا ہے اُس سے اُن کے سپنے چکناچور ہونے والے تھے؟
۸. خدا پر ابرہام کا توکل کیسے اس یقین سے بڑھکر تھا کہ وہ اضحاق کو زندہ کر سکتا ہے؟
۸ تاہم، ابرہام نے ایسے ذاتی علم کی بِنا پر اعتماد بحال رکھا جو قریبی دوست ایک دوسرے کے لئے رکھتے ہیں۔ ”خدا کا دوست“ ہوتے ہوئے ابرہام ”خدا پر ایمان لایا اور یہ اُس کے لئے راستبازی گنا گیا۔“ (یعقوب ۲:۲۳) یہوواہ پر ابرہام کا اعتماد محض اس یقین تک محدود نہیں تھا کہ خدا اضحاق کو زندہ کر سکتا ہے۔ اگرچہ ابرہام تمام حقائق سے واقف نہیں تھا تو بھی اُسے یقین تھا کہ یہوواہ اُس سے جو کچھ کرنے کو کہہ رہا ہے وہ درست ہے۔ اُس کے پاس اس بات پر شک کرنے کی کوئی وجہ نہیں تھی کہ یہوواہ یہ مطالبہ کرنے میں راست ہے۔ بعدازاں، جب یہوواہ کے فرشتے نے اضحاق کو واقعی قربان کر دینے سے روکا تو ابرہام کے ایمان کو اَور زیادہ تقویت ملی۔—پیدایش ۲۲:۹-۱۴۔
۹، ۱۰. (ا) ابرہام نے پہلے کیسے یہوواہ پر توکل ظاہر کِیا تھا؟ (ب) ہم ابرہام سے کونسا اہم سبق سیکھ سکتے ہیں؟
۹ ابرہام نے کوئی ۲۵ سال پہلے بھی یہوواہ کی راستبازی پر ایسے ہی ایمان کا مظاہرہ کِیا تھا۔ جب اُسے سدوم اور عمورہ کی تباہی کی خبر ملی تو فطری طور پر وہ اپنے بھتیجے لوط سمیت وہاں رہنے والے راستباز لوگوں کی فلاحوبہبود کی بابت فکرمند ہوا۔ ابرہام نے ان الفاظ کےساتھ خدا سے التجا کی: ”ایسا کرنا تجھ سے بعید ہے کہ نیک کو بد کے ساتھ مار ڈالے اور نیک بد کے برابر ہو جائیں۔ یہ تجھ سے بعید ہے۔ کیا تمام دُنیا کا انصاف کرنے والا انصاف نہ کریگا؟“—پیدایش ۱۸:۲۵۔
۱۰ آبائی بزرگ ابرہام کو پورا یقین تھا کہ یہوواہ کبھی بھی غیرمنصفانہ کام نہیں کرتا۔ بعدازاں زبورنویس نے اپنے گیت میں کہا: ”خدا اپنی سب راہوں میں صادق اور اپنے سب کاموں میں رحیم ہے۔“ (زبور ۱۴۵:۱۷) ہمارا خود سے یہ سوال پوچھنا نہایت مفید ہے: ’کیا مَیں یہوواہ کی راستی پر شُبہ کئے بغیر آزمائش کو قبول کرتا ہوں؟ کیا مجھے یقین ہے کہ وہ جس آزمائش کی اجازت دیتا ہے وہ میری اور دوسروں کی بھلائی پر منتج ہوگی؟‘ اگر ہمارا جواب مثبت ہے تو پھر ہم نے ابرہام سے ایک اہم سبق سیکھ لیا ہے۔
یہوواہ کے انتخابات پر اعتماد ظاہر کرنا
۱۱، ۱۲. (ا) خدا کے خادموں کے لئے اعتماد کا کونسا پہلو لازمی رہا ہے؟ (ب) بعضاوقات ہمارے لئے کیا مشکل ہو سکتی ہے؟
۱۱ یہوواہ پر اعتماد رکھنے والے لوگ اُن آدمیوں پر بھی اعتماد رکھتے ہیں جنہیں یہوواہ اپنے مقصد کی تکمیل کے لئے منتخب کرتا ہے۔ اسرائیلیوں کے لئے اس کا مطلب موسیٰ پر اور بعدازاں اُس کے جانشین یشوع پر اعتماد ظاہر کرنا تھا۔ ابتدائی مسیحیوں کے لئے اس سے مُراد یروشلیم کی کلیسیا کے رسولوں اور بزرگوں پر اعتماد ظاہر کرنا تھا۔ آجکل ہمارے لئے اس کا مطلب ”وقت پر“ روحانی ”کھانا“ فراہم کرنے پر معمور ”دیانتدار اور عقلمند نوکر“ اور ان میں سے منتخبکردہ ارکان پر مشتمل گورننگ باڈی پر اعتماد رکھنا ہے۔—متی ۲۴:۴۵۔
۱۲ دراصل، مسیحی کلیسیا کے پیشواؤں پر اعتماد رکھنا ہمارے اپنے مفاد میں ہے۔ ہمیں بتایا گیا ہے: ”اپنے پیشواؤں کے فرمانبردار اور تابع رہو کیونکہ وہ تمہاری روحوں کے فائدہ کے لئے ان کی طرح جاگتے رہتے ہیں جنہیں حساب دینا پڑیگا تاکہ وہ خوشی سے یہ کام کریں نہ کہ رنج سے کیونکہ اس صورت میں تمہیں کچھ فائدہ نہیں۔“—عبرانیوں ۱۳:۱۷۔
یہوواہ کے انتخابات کی بابت شکایت کرنے سے گریز کریں
۱۳. ہمارے پاس مقررہ پیشواؤں پر اعتماد کرنے کی کیا وجہ موجود ہے؟
۱۳ بائبل ہماری مدد کرتی ہے کہ ہم یہوواہ کے لوگوں کے درمیان پیشوائی کرنے والوں پر اعتماد رکھنے میں متوازن ہوں۔ ہم خود سے یہ سوال پوچھ سکتے ہیں: ’کیا موسیٰ نے کبھی کوئی غلطی کی تھی؟ کیا رسول ہمیشہ یسوع کی خواہش کے مطابق اُس جیسا رجحان رکھتے تھے؟‘ جواب واضح ہیں۔ یہوواہ نے اپنے لوگوں کی راہنمائی کرنے کے لئے وفادار اور عقیدتمند اشخاص کو استعمال کرنے کا انتخاب کِیا ہے اگرچہ وہ ناکامل ہیں۔ لہٰذا، آجکل اگرچہ بزرگ ناکامل ہیں تو بھی ہمیں اُنہیں ”خدا کی کلیسیا کی گلّہبانی“ کرنے کے لئے ”روحالقدس [کے ذریعے مقرر] نگہبان“ خیال کرنا چاہئے۔ وہ ہماری حمایت اور عزت کے مستحق ہیں۔—اعمال ۲۰:۲۸۔
۱۴. ہارون یا مریم کی نسبت یہوواہ کے موسیٰ کو بطور پیشوا منتخب کرنے کی بابت کیا بات قابلِغور ہے؟
۱۴ ہارون موسیٰ سے تین سال بڑا تھا لیکن دونوں ہی اپنی بہن مریم سے چھوٹے تھے۔ (خروج ۲:۳، ۴؛ ۷:۷) لہٰذا موسیٰ کی نسبت ہارون کو زیادہ فصیح ہونے کی وجہ سے اپنے بھائی کے نمائندے کے طور پر خدمت انجام دینے کے لئے مقرر کِیا گیا تھا۔ (خروج ۶:۲۹–۷:۲) تاہم، اسرائیل کی پیشوائی کے لئے یہوواہ نے عمر میں بڑی مریم یا زیادہ فصیح ہارون کو منتخب نہیں کِیا تھا۔ اُس نے موسیٰ کا انتخاب تمام حقائق سے آگہی اور وقت کی ضرورت کے پیشِنظر کِیا تھا۔ ایک مرتبہ اس بات کی واضح سمجھ کے فقدان کے باعث ہارون اور مریم نے شکایت کی: ”کیا خداوند نے فقط موسیٰ ہی سے باتیں کی ہیں؟ کیا اُس نے ہم سے بھی باتیں نہیں کیں؟“ اس فتنے کی جڑ یعنی مریم کو سزا ملی کیونکہ اُس نے یہوواہ کے انتخاب کی بابت گستاخانہ رویے کا مظاہرہ کِیا تھا جبکہ مریم اور ہارون کو اُسے ”رویِزمین کے سب آدمیوں سے زیادہ حلیم“ سمجھنا چاہئے تھا۔—گنتی ۱۲:۱-۳، ۹-۱۵۔
۱۵، ۱۶. کالب نے کیسے ثابت کِیا کہ وہ یہوواہ پر اعتماد رکھتا تھا؟
۱۵ جب ۱۲ جاسوسوں کو ملکِموعود کی جاسوسی کرنے کے لئے بھیجا گیا تو ۱۰ منفی رپورٹ لے کر لوٹے۔ اُنہوں نے یہ بتا کر کہ کنعانی ”آدمی . . . بڑے قدآور ہیں“ اسرائیلیوں کے دلوں میں خوف پیدا کر دیا تھا۔ اس کے نتیجے میں اسرائیلی ”موسیٰ اور ہارون کی شکایت کرنے لگے۔“ تاہم تمام جاسوسوں نے موسیٰ اور یہوواہ پر توکل کی کمی کا مظاہرہ نہیں کِیا تھا۔ ہم پڑھتے ہیں: ”تب کاؔلب نے موسیٰؔ کے سامنے لوگوں کو چپ کرایا اور کہا چلو ہم ایک دم جا کر اس پر قبضہ کریں کیونکہ ہم اس قابل ہیں کہ اُس پر تصرف کر لیں۔“ (گنتی ۱۳:۲، ۲۵-۳۳؛ ۱۴:۲) کالب کے ساتھی جاسوس یشوع نے بھی اُس کے اس مضبوط مؤقف میں اُس کی حمایت کی۔ دونوں نے یہ کہہ کر یہوواہ پر اپنا اعتماد ظاہر کِیا: ”اگر خدا ہم سے راضی ہے تو وہ ہمکو اُس ملک میں پہنچائے گا اور وہی ملک جس میں دودھ اور شہد بہتا ہے ہمکو دے گا۔ فقط اتنا کہ تم . . . نہ اُس ملک کے لوگوں سے ڈرو . . . ہمارے ساتھ خداوند ہے۔ سو اُنکا خوف نہ کرو۔“ (گنتی ۱۴:۶-۹) یہوواہ پر ایسا اعتماد بااجر ثابت ہوا۔ اُس وقت زندہ بالغ لوگوں میں سے صرف کالب، یشوع اور چند لاویوں کو موعودہ ملک میں داخل ہونے کا شرف حاصل ہوا۔
۱۶ کچھ سال بعد کالب نے کہا: ”مَیں نے خداوند اپنے خدا کی پوری پیروی کی۔ . . . اور اب دیکھ جب سے خداوند نے یہ بات موؔسیٰ سے کہی تب سے اِن پینتالیس برسوں تک جن میں بنیاسرائیل بیابان میں آوارہ پھرتے رہے خداوند نے مجھے اپنے قول کے مطابق جیتا رکھا اور اب دیکھ مَیں آج کے دن پچاسی برس کا ہوں۔ اور آج کے دن بھی مَیں ویسا ہی ہوں جیسا اُس دن تھا جب موؔسیٰ نے مجھے بھیجا تھا اور . . . جیسی قوت مجھ میں اُس وقت تھی ویسی ہی اب بھی ہے۔“ (یشوع ۱۴:۶-۱۱) کالب کے مثبت رُجحان، اُس کی وفاداری اور اُس کی جسمانی صلاحیتوں پر غور کریں۔ پھربھی، یہوواہ نے کالب کو موسیٰ کا جانشین بننے کے لئے منتخب نہیں کِیا تھا۔ یہ استحقاق صرف یشوع ہی کو حاصل ہوا۔ ہم اعتماد رکھ سکتے ہیں کہ اس انتخاب کے لئے یہوواہ کے پاس ٹھوس وجوہات تھیں اور یہ ایک بہترین انتخاب تھا۔
۱۷. بظاہر کونسی باتیں پطرس کو ذمہداری اُٹھانے کے لئے نااہل قرار دیتی ہیں؟
۱۷ پطرس رسول نے تین مرتبہ اپنے خداوند کا انکار کِیا۔ اُس نے سردار کاہن کے نوکر کا کان اُڑا کر بڑی جلدبازی سے معاملات کو اپنے ہاتھ میں بھی لے لیا تھا۔ (متی ۲۶:۴۷-۵۵، ۶۹-۷۵؛ یوحنا ۱۸:۱۰، ۱۱) بعض شاید یہ کہیں کہ پطرس خاص استحقاقات سے لطفاندوز ہونے کے نااہل ایک بزدل، غیرمتوازن شخص تھا۔ تاہم، بادشاہی کی کُنجیاں حاصل کرنے یعنی تینوں گروہوں کے لئے آسمانی بلاوے کی راہ کھولنے کا شرف کسے حاصل ہوا تھا؟ یہ شرف پطرس ہی کو حاصل ہوا تھا۔—اعمال ۲:۱-۴۱؛ ۸:۱۴-۷۱؛ ۱۰:۱-۴۸۔
۱۸. یہوداہ کے مطابق ہم کس خطا سے بچنا چاہتے ہیں؟
۱۸ ان مثالوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہمیں ظاہری وضعقطع کی بِنا پر رائے قائم کرنے کی بابت محتاط رہنا چاہئے۔ اگر ہم یہوواہ پر توکل رکھتے ہیں تو ہم اُس کے انتخابات پر شُبہ نہیں کرینگے۔ اگرچہ اُس کی زمینی کلیسیا ناکامل انسانوں پر مشتمل ہے جو کبھی بھی غلطی سے مبرا ہونے کا دعویٰ نہیں کرتے پھربھی وہ اُنہیں مؤثر طریقے سے استعمال کرتا ہے۔ یسوع کے سوتیلے بھائی یہوداہ نے پہلی صدی کے مسیحیوں کو ایسے اشخاص سے آگاہ کِیا جو ”حکومت کو ناچیز جانتے اور عزتداروں پر لعنطعن کرتے ہیں۔“ (یہوداہ ۸-۱۰) ہمیں کبھی بھی اُن کی مانند نہیں بننا چاہئے۔
۱۹. ہمارے پاس یہوواہ کے انتخابات کی بابت شکایت کرنے کی وجہ کیوں نہیں ہے؟
۱۹ صاف ظاہر ہے کہ کسی خاص وقت میں یہوواہ جس راہ پر اپنے لوگوں کو لیجانا چاہتا ہے اُسی راہ پر اُن کی راہنمائی کرنے کے لئے درکار خوبیوں کے مالک اشخاص ہی کو وہ مخصوص ذمہداریوں کے لئے منتخب کرتا ہے۔ ہمیں اس حقیقت کو تسلیم کرنا چاہئے اور کبھی بھی خدا کے انتخابات کی بابت شکایت نہیں کرنی چاہئے بلکہ یہوواہ نے ہمیں جس مقام پر رکھا ہے اُسی سے مطمئن ہو کر فروتنی سے خدمت کرنا چاہئے۔ یوں ہم ظاہر کرتے ہیں کہ ہم یہوواہ پر اعتماد رکھتے ہیں۔—افسیوں ۴:۱۱-۱۶؛ فلپیوں ۲:۳۔
یہوواہ کی راستی پر اعتماد ظاہر کرنا
۲۰، ۲۱. موسیٰ کےساتھ خدا کے برتاؤ سے ہم کیا سیکھ سکتے ہیں؟
۲۰ بعضاوقات اگر ہم یہوواہ کی نسبت اپنی ذات پر حد سے زیادہ اعتماد کرنے لگتے ہیں تو آئیے موسیٰ سے سبق سیکھیں۔ جب وہ ۴۰ برس کا تھا تو اُس نے اپنے زورِبازو سے اسرائیلیوں کو مصری غلامی سے چھڑانے کی کوشش کی۔ بِلاشُبہ اُس نے نیکنیتی سے کوشش کی مگر اس سے اسرائیل کو فوری طور پر آزادی حاصل نہ ہوئی اور نہ ہی اُس کی اپنی حالت بہتر ہوئی۔ درحقیقت، اُسے وہاں سے بھاگنا پڑا تھا۔ پردیسی ملک میں ۴۰ برس کی سخت تربیت کے بعد ہی وہ اُس کام کو کرنے کے لئے منتخب ہونے کے لائق ٹھہرا تھا جو وہ پہلے کرنا چاہتا تھا۔ اس مرتبہ وہ یہوواہ کی حمایت پر توکل کر سکتا تھا کیونکہ اب سب کچھ یہوواہ کے طریقے سے اور اُس کے مقررہ وقت پر ہو رہا تھا۔—خروج ۲:۱۱–۳:۱۰۔
۲۱ ہم سب خود سے پوچھ سکتے ہیں: ’کیا مَیں بعضاوقات کام کی رفتار کو بڑھانے یا اپنے طریقے سے کام کرنے کی کوشش میں یہوواہ اور کلیسیا میں مقررکردہ بزرگوں سے بھی آگے نکل جاتا ہوں؟ یہ محسوس کرنے کی بجائے کہ مجھے بعض استحقاقات کے لئے نظرانداز کر دیا گیا ہے، کیا مَیں موجودہ تربیتی مدت کو خوشی سے قبول کرتا ہوں؟‘ بنیادی طور پر، کیا ہم نے موسیٰ سے اہم سبق سیکھ لیا ہے؟
۲۲. ایک بہت بڑا استحقاق کھونے کے باوجود موسیٰ نے یہوواہ کی بابت کیسا محسوس کِیا؟
۲۲ اس کے علاوہ ہم موسیٰ سے ایک اَور سبق سیکھ سکتے ہیں۔ گنتی ۲۰:۷-۱۳ ہمیں اُس کی ایک ایسی غلطی کی بابت بتاتی ہیں جس کی اُسے بھاری قیمت ادا کرنا پڑی۔ وہ اسرائیل کو ملکِموعود میں لیجانے کا شرف کھو بیٹھا۔ کیا اُس کا ردِعمل یہ تھا کہ اس معاملے میں یہوواہ کا فیصلہ غیرمنصفانہ تھا؟ کیا وہ اس بات سے آزردہ ہو کر گوشہنشین ہو گیا، گویا خدا اُس سے بہت بُرا سلوک کر رہا ہے؟ کیا موسیٰ یہوواہ کی راستی پر اعتماد کھو بیٹھا تھا؟ ان سوالات کا جواب ہمیں موسیٰ کے اپنے الفاظ سے ملتا ہے جو اُس نے اپنی موت سے کچھ ہی دیر پہلے اسرائیل سے کہے تھے۔ موسیٰ نے یہوواہ کی بابت کہا: ”اُس کی صنعت کامل ہے۔ کیونکہ اُس کی سب راہیں انصاف کی ہیں۔ وہ وفادار خدا اور بدی سے مبرا ہے۔ وہ منصف اور برحق ہے۔“ (استثنا ۳۲:۴) موسیٰ نے یقیناً آخری دم تک یہوواہ پر اعتماد بحال رکھا تھا۔ ہماری بابت کیا ہے؟ کیا ہم یہوواہ اور اُس کی راستی پر اپنے اعتماد کو مضبوط بنانے کے لئے اقدام اُٹھا رہے ہیں؟ ہم یہ کیسے کر سکتے ہیں؟ آئیے دیکھیں۔
آپ کیسے جواب دینگے؟
◻اسرائیلیوں کے پاس یہوواہ پر اعتماد کرنے کی کیا وجوہات تھیں؟
◻اعتماد کے سلسلے میں ابرہام سے کیا سبق سیکھا جا سکتا ہے؟
◻ہمیں یہوواہ کے انتخابات کی بابت شکایت کرنے سے کیوں گریز کرنا چاہئے؟
[صفحہ 13 پر تصویر]
یہوواہ پر توکل کرنے میں کلیسیا کے پیشواؤں کی عزت کرنا شامل ہے