ایمان ہمیں عمل کرنے کی تحریک دیتا ہے!
”تُو نے دیکھ لِیا کہ ایمان نے اُسکے [اؔبرہام کے] اعمال کے ساتھ مِل کر اثر کِیا اور اعمال سے ایمان کامل ہوا۔“—یعقوب ۲:۲۲۔
۱، ۲. اگر ہم ایمان رکھتے ہیں تو ہم کیسے کام کرینگے؟
بہتیرے کہتے ہیں کہ وہ خدا پر ایمان رکھتے ہیں۔ تاہم، ایمان کا جھوٹا دعویٰ ایک لاش کی طرح بےجان ہے۔ ”ایمان بھی اگر اُسکے ساتھ اعمال نہ ہوں تو اپنی ذات سے مُردہ ہے،“ شاگرد یعقوب نے لکھا۔ اُس نے یہ بھی کہا کہ خداترس ابرہام ایسا ایمان رکھتا تھا جس نے ”اُسکے اعمال کے ساتھ مِل کر اثر کِیا۔“ (یعقوب ۲:۱۷، ۲۲) ایسے الفاظ کی ہمارے لئے کیا اہمیت ہے؟
۲ اگر ہم حقیقی ایمان رکھتے ہیں تو ہم مسیحی اجلاسوں پر جو کچھ سنتے ہیں اُسکا محض یقین ہی نہیں کرینگے۔ ہم ایمان کا اظہار بھی کرینگے کیونکہ ہم یہوواہ کے سرگرم گواہ ہیں۔ جیہاں، ایمان ہمیں زندگی میں خدا کے کلام کا اطلاق کرنے پر آمادہ کریگا اور ہمیں عمل کرنے کی تحریک دیگا۔
پاسداری ایمان سے ہمآہنگ نہیں
۳، ۴. ہم دوسروں کے ساتھ جس طرح کا سلوک کرتے ہیں ایمان کو اُس پر کیسے اثرانداز ہونا چاہئے؟
۳ اگر ہم خدا اور مسیح پر حقیقی ایمان رکھتے ہیں تو ہم پاسداری نہیں دکھائینگے۔ (یعقوب ۲:۱-۴) بعض لوگ جنہیں یعقوب نے لکھا وہ اُس غیرجانبداری کا مظاہرہ نہیں کر رہے تھے جسکا سچے مسیحیوں سے تقاضا کِیا جاتا تھا۔ (رومیوں ۲:۱۱) لہٰذا، یعقوب استدعا کرتا ہے: ”ہمارے خداوند ذُوالجلال یسوع مسیح کا ایمان تم میں طرفداری کے ساتھ نہ ہو۔“ اگر ایک بےایمان دولتمند سونے کی انگوٹھیوں اور قیمتی ملبوسات کیساتھ جبکہ ایک بےایمان ”غریب آدمی میلے کُچیلے کپڑے پہنے“ اجلاس پر آتا ہے تو اُن دونوں کا خیرمقدم کِیا جانا چاہئے تھا لیکن خصوصی توجہ دولتمند کو دی جا رہی تھی۔ اُنہیں ”اچھی جگہ“ بٹھایا جاتا جبکہ بےایمان غریبوں سے کھڑے رہنے یا پھر کسی کے پاؤں میں فرش پر بیٹھ جانے کو کہا جاتا تھا۔
۴ یہوواہ نے یسوع مسیح کی فدیے کی قربانی دولتمندوں اور غریبوں دونوں کیلئے یکساں مہیا کی تھی۔ (۲-کرنتھیوں ۵:۱۴) اسلئے، اگر ہم دولتمندوں کیلئے جانبداری ظاہر کرتے ہیں تو ہم مسیح کے ایمان سے منحرف ہو رہے ہونگے جو ’غریب بن گیا تاکہ ہم اُسکی غریبی کے سبب سے دولتمند ہو جائیں۔‘ (۲-کرنتھیوں ۸:۹) انسانوں کو عزت دینے کے غلط میلان کیساتھ—ہمیں کبھی بھی لوگوں کی بابت اس طرح سے رائے قائم نہیں کرنی چاہئے۔ خدا طرفدار نہیں ہے لیکن اگر ہم طرفداری دکھاتے ہیں تو ہم ”بدنیت منصف“ ہونگے۔ (ایوب ۳۴:۱۹) خدا کو خوش کرنے کی خواہش کیساتھ، یقینی طور پر ہم کبھی بھی پاسداری دکھانے یا ’اپنے ذاتی نفع کیلئے لوگوں کی رُوداری‘ کرنے کی آزمائش میں نہیں پڑینگے۔—یہوداہ ۴، ۱۶۔
۵. ”ایمان میں دولتمند“ ہونے کے لئے خدا نے کسے منتخب کِیا ہے، اور مادی طور پر دولتمند اکثر کیسا ردِعمل دکھاتے ہیں؟
۵ یعقوب حقیقی دولتمندوں کی شناخت کراتا ہے اور ہمیں تاکید کرتا ہے کہ غیرجانبدارانہ طور پر سب کیلئے محبت دکھائیں۔ (یعقوب ۲:۵-۹) ’خدا نے غریبوں کو ایمان میں دولتمند اور بادشاہی کے وارث ہونے کیلئے برگزیدہ کِیا ہے۔‘ یہ اس وجہ سے ہے کہ غریب اکثر خوشخبری کیلئے زیادہ اثرپذیری دکھاتے ہیں۔ (۱-کرنتھیوں ۱:۲۶-۲۹) مادی اعتبار سے دولتمند لوگ، ایک گروہ کے طور پر، قرضہجات، اُجرت اور قانونی کارروائیوں کے سلسلے میں دوسروں پر ظلم کرتے ہیں۔ وہ مسیح کی بابت بُری باتیں کرتے اور ہمیں اذیت دیتے ہیں کیونکہ ہم اُسکے نام سے کہلاتے ہیں۔ لیکن ہمارا عزمِمُصمم یہ ہونا چاہئے کہ اُس ”بادشاہی شریعت“ کی فرمانبرداری کریں جو پڑوسی سے محبت—دولتمند اور غریب دونوں سے ایک جیسی محبت کرنے کا تقاضا کرتی ہے۔ (احبار ۱۹:۱۸؛ متی ۲۲:۳۷-۴۰) چونکہ خدا اسکا تقاضا کرتا ہے اسلئے پاسداری دکھانا ”گناہ کرنے“ کے مترادف ہے۔
’رحم انصاف پر غالب آتا ہے‘
۶. اگر ہم دوسروں کیساتھ رحمدلی کا سلوک نہیں کرتے تو ہم کیونکر شریعت کا عدول کرنے والے ٹھہرینگے؟
۶ اگر ہم بیرحمی کیساتھ پاسداری دکھاتے ہیں تو ہم شریعت کا عدول کرنے والے ٹھہرتے ہیں۔ (یعقوب ۲:۱۰-۱۳) اس سلسلے میں غلط قدم اُٹھانے سے ہم خدا کے تمام قوانین کے خلاف قصوروار ٹھہرتے ہیں۔ اسرائیلی جو زناکاری کے مُرتکب تو نہیں تھے مگر چور ضرور تھے وہ موسوی شریعت کے مجرم ٹھہرے۔ مسیحیوں کے طور پر ہمارا انصاف ”آزاد لوگوں کی شریعت“ کے مطابق ہوتا ہے—وہ شریعت جو نئے عہد میں شامل روحانی اسرائیل کے دلوں پر لکھی ہوئی ہے۔—یرمیاہ ۳۱:۳۱-۳۳۔
۷. جو لوگ پاسداری دکھاتے رہتے ہیں وہ کیوں خدا سے رحم کی توقع نہیں کر سکتے؟
۷ اگر ہم ایمان رکھنے کا دعویٰ تو کرتے ہیں مگر پاسداری دکھاتے رہتے ہیں تو ہم خطرے میں ہیں۔ جو لوگ نامہربان اور بیرحم ہیں اُنکا انصاف بھی رحم کے بغیر ہی کِیا جائیگا۔ (متی ۷:۱، ۲) یعقوب بیان کرتا ہے: ”رحم اِنصاف پر غالب آتا ہے۔“ اگر ہم اپنے تمام برتاؤ میں رحم ظاہر کرتے ہوئے یہوواہ کی پاک روح کی راہنمائی کو قبول کرتے ہیں تو ہم اُس وقت ردّ نہیں کئے جائینگے جب ہمارا انصاف کِیا جاتا ہے۔ اسکی بجائے، ہم پر رحم کِیا جائیگا اور یوں ہم سختگیر انصاف یا ناموافق سزا سے بچ جائینگے۔
ایمان اچھے اعمال پر منتج ہوتا ہے
۸. اُس شخص کی حالت کیسی ہے جو یہ کہتا ہے کہ وہ ایمان رکھتا ہے مگر اُس کے مطابق کام نہیں کرتا؟
۸ ہمیں مہربان اور رحمدل بنانے کے علاوہ، ایمان دیگر اچھے اعمال پر بھی منتج ہوتا ہے۔ (یعقوب ۲:۱۴-۲۶) بِلاشُبہ، ایمان کا جھوٹا دعویٰ جس کیساتھ اعمال نہیں وہ ہمیں بچا نہیں سکتا۔ سچ ہے کہ ہم اعمال کی شریعت کے سبب سے خدا کے نزدیک راستباز نہیں ٹھہر سکتے۔ (رومیوں ۴:۲-۵) یعقوب اُن اعمال کی بات کر رہا ہے جو شریعتی ضابطے سے نہیں بلکہ ایمان اور محبت سے ترغیب پاتے ہیں۔ اگر ہم ایسی خوبیوں سے تحریک پاتے ہیں تو ہم کسی ضرورتمند ساتھی ایماندار کیلئے محض دُعائےخیر کا اظہار ہی نہیں کرینگے۔ ہم پھٹےپُرانے کپڑوں میں ملبّس یا ایک بھوکے بھائی یا بہن کی مادی اعانت کرینگے۔ یعقوب استفسار کرتا ہے: ’اگر تُم ایک ضرورتمند بھائی سے کہو ”سلامتی کیساتھ جاؤ۔ گرم اور سیر رہو“ مگر جو چیزیں درکار ہیں وہ فراہم نہیں کرتے تو اسکا کیا فائدہ ہے؟‘ کچھ بھی نہیں۔ (ایوب ۳۱:۱۶-۲۲) ایسا ”ایمان“ مُردہ ہے!
۹. کیا چیز ظاہر کرتی ہے کہ ہم ایمان رکھتے ہیں؟
۹ شاید ہم کسی حد تک خدا کے لوگوں سے رفاقت رکھتے ہوں لیکن صرف دلوجان سے کئے جانے والے کام ہی ہمارے اس دعوے کو سچ ثابت کر سکتے ہیں کہ ہم ایمان رکھتے ہیں۔ یہ اچھی بات ہے اگر ہم نے تثلیث کے عقیدے کو مسترد کر دیا ہے اور یہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ صرف ایک ہی سچا خدا ہے۔ تاہم، محض اعتقاد ہی ایمان نہیں ہے۔ ”شیاطین بھی ایمان رکھتے“ اور خوف سے ”تھرتھراتے“ ہیں کیونکہ ہلاکت اُنکی منتظر ہے۔ اگر ہم واقعی ایمان رکھتے ہیں تو یہ ہمیں خوشخبری کی مُنادی کرنے اور ضرورتمند ساتھی ایمانداروں کیلئے خوراک اور لباس مہیا کرنے والے کام کرنے کی ترغیب دیگا۔ یعقوب استفسار کرتا ہے: ”مگر اَے نکمّے [خدا کے درست علم سے خالی] آدمی! کیا تُو یہ بھی نہیں جانتا کہ ایمان بغیر اعمال کے بیکار ہے؟“ جیہاں، ایمان اعمال کا تقاضا کرتا ہے۔
۱۰. ابرہام ”ایمانداروں کا باپ“ کیوں کہلایا؟
۱۰ خداپرست بزرگ ابرہام کے ایمان نے اُسے عمل کرنے کی تحریک دی تھی۔ ”اُن سب [کے] باپ“ کے طور پر ”جو ایمان لاتے ہیں“ وہ ”اپنے بیٹے اضحاق کو قربانگاہ پر قربان“ کرنے کے بعد ”اپنے اعمال سے راستباز ٹھہرا۔“ (رومیوں ۴:۱۱، ۱۲؛ پیدایش ۲۲:۱-۱۴) اگر ابرہام میں اس ایمان کی کمی ہوتی کہ خدا اضحاق کو زندہ کر سکتا اور اُس کے ذریعے نسل کے اپنے وعدہ کو پورا کر سکتا ہے تو کیا ہوتا؟ ایسی صورت میں ابرہام نے کبھی بھی اپنے بیٹے کو قربان کرنے کی کوشش نہ کی ہوتی۔ (عبرانیوں ۱۱:۱۹) پس یہ ابرہام کے اطاعتشعاری کے کام ہی تھے جن سے ”اُسکا ایمان کامل“ یا مکمل ہوا تھا۔ یوں، ”یہ نوشتہ [پیدایش ۱۵:۶] پورا ہوا کہ اؔبرہام خدا پر ایمان لایا اور یہ اُسکے لئے راستبازی گنا گیا۔“ اضحاق کو قربان کرنے سے متعلق ابرہام کے اعمال نے خدا کی پہلے کہی ہوئی اس بات کی تصدیق کر دی کہ ابرہام راستباز تھا۔ ایمان کے مطابق اعمال سے اُس نے خدا کیلئے اپنی محبت کا اظہار کِیا اور ”خدا کا دوست“ کہلایا۔
۱۱. راحب کے سلسلے میں ہمارے پاس ایمان کا کیا ثبوت ہے؟
۱۱ ابرہام نے ثابت کر دیا کہ ”انسان صرف ایمان ہی سے نہیں بلکہ اعمال سے راستباز ٹھہرتا ہے۔“ یریحو کی ایک کسبی، راحب کے سلسلے میں بھی یہ بات سچ تھی۔ ”جب اُس نے [اسرائیلی] قاصدوں کو اپنے گھر میں اُتارا اور [اُنہیں] دوسری راہ سے رُخصت کِیا“ تاکہ وہ اپنے کنعانی دُشمنوں سے بچ جائیں تو وہ بھی اپنے ”اعمال سے راستباز“ ٹھہری۔ اسرائیل کے جاسوسوں سے ملاقات سے پیشتر اُس نے یہوواہ کو بطور سچے خدا کے تسلیم کر لیا تھا اور بعدازاں اُس کی باتچیت اور ترکِعصمتفروشی نے اُسکے ایمان کا ثبوت پیش کِیا۔ (یشوع ۲:۹-۱۱؛ عبرانیوں ۱۱:۳۱) اعمال کے ذریعے ایمان کا مظاہرہ کرنے والی اس دوسری مثال کے بعد، یعقوب بیان کرتا ہے: ”غرض جیسے بدن بغیر روح کے مُردہ ہے ویسے ہی ایمان بھی بغیر اعمال کے مُردہ ہے۔“ جب ایک شخص مر جاتا ہے تو اُس میں زندہ رکھنے والی کوئی قوت یا ”روح“ نہیں ہوتی اور وہ کچھ انجام نہیں دیتا۔ ایمان کا محض جھوٹا دعویٰ مُردہ بدن کی طرح بےجان اور بیکار ہے۔ تاہم، اگر ہم حقیقی ایمان رکھتے ہیں تو یہ ہمیں خداپرست کام کرنے کی تحریک دیگا۔
زبان پر قابو رکھیں!
۱۲. کلیسیا کے بزرگوں کو کیا کرنا چاہئے؟
۱۲ باتچیت اور تعلیم دینا بھی ایمان کا ثبوت فراہم کر سکتا ہے مگر اس سلسلے میں قابو رکھنے کی ضرورت ہے۔ (یعقوب ۳:۱-۴) کلیسیا میں اُستادوں کے طور پر، بزرگ خدا کے حضور ایک اہم ذمہداری اور جوابدہی کے حامل ہیں۔ لہٰذا اُنہیں انکساری کے ساتھ اپنے محرکات اور لیاقتوں کا جائزہ لینا چاہئے۔ علم اور قابلیت کے علاوہ، ان اشخاص کو خدا اور ساتھی ایمانداروں کیساتھ گہری محبت بھی رکھنی چاہئے۔ (رومیوں ۱۲:۳، ۱۶؛ ۱-کرنتھیوں ۱۳:۳، ۴) بزرگوں کی مشورت کو صحائف پر مبنی ہونا چاہئے۔ اگر کوئی بزرگ اپنے تعلیم دینے اور نصیحت کرنے میں غلطی کرتا ہے اور یہ دوسروں کیلئے مسائل کا باعث بنتا ہے تو وہ مسیح کے وسیلہ سے خدا کی طرف سے ناموافق سزا پائیگا۔ اسلئے بزرگوں کو فروتن اور مطالعہ کے شائق، وفاداری سے خدا کے کلام کی حمایت کرنے والے ہونا چاہئے۔
۱۳. ہم باتوں میں کیوں خطا کرتے ہیں؟
۱۳ ناکاملیت کی وجہ سے لائق اُستاد بھی—درحقیقت ہم سب کے سب—”اکثر خطا کرتے ہیں۔“ الفاظ میں خطا کرنا اکثروبیشتر ہونے والی اور ممکنہ طور پر سب سے زیادہ ضرررساں خطاؤں میں سے ایک ہے۔ یعقوب بیان کرتا ہے: ”کامل شخص وہ ہے جو باتوں میں خطا نہ کرے۔ وہ سارے بدن کو بھی قابو میں رکھ سکتا ہے۔“ یسوع مسیح کے بالکل برعکس، ہم زبان پر مکمل اختیار نہیں رکھتے۔ اگر ہم رکھتے تو ہم اپنے بدن کے دیگر اعضا کو بھی قابو میں رکھ سکتے تھے۔ بہرصورت، لگامیں اور لوہے کی لگام کا دھانہ گھوڑوں کو اُسی سمت میں لیجاتا ہے جدھر ہم چاہتے ہیں اور ایک چھوٹی سی پتوار کے ذریعے جہاز بھی جو تیز ہواؤں سے چلتے ہیں، مانجھی کی مرضی کے موافق گھمائے جا سکتے ہیں۔
۱۴. یعقوب زبان کو قابو میں رکھنے کی خاطر جدوجہد کرنے کی ضرورت پر کیوں زور دیتا ہے؟
۱۴ ہم سب کو دیانتداری سے یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ زبان کو قابو میں رکھنے کے لئے حقیقی کوشش درکار ہے۔ (یعقوب ۳:۵-۱۲) گھوڑے کے مقابلے میں لگام بہت چھوٹی ہوتی ہے؛ اسی طرح جہاز کے مقابلے میں پتوار چھوٹی ہوتی ہے۔ اور انسانی بدن کے مقابلے میں، زبان بھی ایک چھوٹا سا عضو ہے ”اور بڑی شیخی مارتی ہے۔“ چونکہ صحائف یہ واضح کرتے ہیں کہ شیخی بگھارنا خدا کو ناراض کرتا ہے اِسلئے آئیے اس سے بچنے کیلئے اُسکی مدد کے خواہاں ہوں۔ (زبور ۱۲:۳، ۴؛ ۱-کرنتھیوں ۴:۷) دُعا ہے کہ ہم اشتعال دلائے جانے پر بھی اپنی زبان کو قابو میں رکھیں، یہ یاد رکھتے ہوئے کہ ایک چھوٹی سی چنگاری ہی سارے جنگل میں آگ لگانے کیلئے کافی ہوتی ہے۔ جیسے یعقوب نشاندہی کرتا ہے، بہت زیادہ نقصان پہنچانے کی صلاحیت رکھتے ہوئے ”زبان بھی ایک آگ ہے۔“ (امثال ۱۸:۲۱) بےقابو زبان ”شرارت کا ایک عالم ہے“! اس بیدین دُنیا کی ہر بُری خصلت بےقابو زبان سے وابستہ ہے۔ یہ تہمت اور جھوٹی تعلیم جیسی مُضر چیزوں کی ذمہدار ہے۔ (احبار ۱۹:۱۶؛ ۲-پطرس ۲:۱) آپکا کیا خیال ہے؟ کیا ہمارے ایمان کو ہمیں اپنی زبان کو قابو میں رکھنے کے سلسلے میں کام کرنے کی تحریک نہیں دینی چاہئے؟
۱۵. بےلگام زبان سے کونسا نقصان پہنچ سکتا ہے؟
۱۵ بےلگام زبان ہمیں مکمل طور پر ’داغدار بنا دیتی ہے۔‘ مثال کے طور پر اگر ہم بار بار جھوٹ بولتے ہوئے پکڑے جاتے ہیں تو ہم جھوٹے شخص کے طور پر مشہور ہو سکتے ہیں۔ تاہم، کیسے ایک بےقابو زبان ’دائرۂدُنیا کو آگ لگا دیتی ہے‘؟ زندگی کو بُرائی کے ایک چکر کی مانند بنا دینے سے۔ ایک بےلگام زبان کی وجہ سے پوری کلیسیا پریشان ہو سکتی ہے۔ یعقوب ”جہنم“ ہنوم کی وادی کا ذکر کرتا ہے۔ جسے کبھی بچوں کی قربانی کیلئے استعمال کِیا جاتا تھا، یہ یروشلیم کے کوڑےکرکٹ کو آگ سے جلانے کی جگہ بن گئی۔ (یرمیاہ ۷:۳۱) لہٰذا جہنم مکمل ہلاکت کی علامت ہے۔ یوں کہہ لیں کہ جہنم نے اپنی تباہ کرنے کی قوت بےقابو زبان کو عطا کر دی ہے۔ اگر ہم اپنی زبان کو لگام نہیں دیتے تو ہو سکتا ہے کہ ہم خود ہی اپنی لگائی ہوئی آگ کی لپیٹ میں آ جائیں۔ (متی ۵:۲۲) ہمیں کسی شخص کیساتھ گالیگلوچ کرنے کی وجہ سے کلیسیا سے خارج بھی کِیا جا سکتا ہے۔—۱-کرنتھیوں ۵:۱۱-۱۳۔
۱۶. اُس نقصان کے پیشِنظر جو ایک بےقابو زبان کے ذریعے ہو سکتا ہے، ہمیں کیا کرنا چاہئے؟
۱۶ خدا کے کلام کے اپنے مطالعے سے آپ شاید اس بات سے واقف ہوں کہ یہوواہ نے یہ حکم دیا تھا کہ انسان حیواناتی مخلوق پر اختیار رکھے گا۔ (پیدایش ۱:۲۸) لہٰذا ہر طرح کی مخلوق کو سدھایا گیا ہے۔ مثال کے طور پر، پالتو شکروں کو شکار کیلئے استعمال کِیا گیا ہے۔ ’کیڑےمکوڑے‘ جنکا یعقوب ذکر کرتا ہے اُن میں سپیروں کے قابو میں کئے ہوئے سانپ بھی شامل ہو سکتے ہیں۔ (زبور ۵۸:۴، ۵) انسان ویلز کو بھی قابو میں کر سکتا ہے، مگر گنہگار انسانوں کے طور پر ہم پوری طرح سے اپنی زبان پر قابو نہیں رکھ سکتے۔ تاہم، ہمیں غیرمہذبانہ، دلآزار یا بہتانآمیز تبصرے کرنے سے گریز کرنا چاہئے۔ بےقابو زبان زہرِقاتل سے معمور ایک خطرناک آلہ ہو سکتی ہے۔ (رومیوں ۳:۱۳) افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ جھوٹے اُستادوں کی زبانوں نے بعض ابتدائی مسیحیوں کو خدا سے دُور کر دیا تھا۔ پس آئیے کبھی بھی خود کو زبانی یا تحریری کینہپرور برگشتہ الفاظ سے مغلوب نہ ہونے دیں۔—۱-تیمتھیس ۱:۱۸-۲۰؛ ۲-پطرس ۲:۱-۳۔
۱۷، ۱۸. یعقوب ۳:۹-۱۲ میں، کس تضاد کی نشاندہی کی گئی ہے اور ہمیں اس سلسلے میں کیا کرنا چاہئے؟
۱۷ خدا پر ایمان اور اُسے خوش کرنے کی خواہش ہمیں برگشتگی سے محفوظ اور اپنی زبان کو غلطانداز میں استعمال کرنے سے باز رکھ سکتی ہے۔ بعض کے تضاد کا حوالہ دیتے ہوئے یعقوب کہتا ہے کہ ’زبان ہی سے ہم اپنے باپ یہوواہ کی حمد کرتے ہیں اور انسانوں کو جو خدا کی صورت پر پیدا کئے گئے ہیں بددُعا دیتے ہیں۔‘ (پیدایش ۱:۲۶) یہوواہ ہمارا باپ ہے کیونکہ وہ ”سب کو زندگی اور سانس اور سب کچھ دیتا ہے۔“ (اعمال ۱۷:۲۴، ۲۵) روحانی اعتبار سے وہ ممسوح مسیحیوں کا بھی باپ ہے۔ جہاں تک ذہنی اور اخلاقی خوبیوں کا تعلق ہے جس میں محبت، انصاف اور حکمت شامل ہے جوکہ ہمیں حیوانات سے مختلف بناتی ہیں، ہم سب ”خدا کی شبِیہ“ پر ہیں۔ اسلئے اگر ہم یہوواہ پر ایمان رکھتے ہیں تو ہمیں کس طرح سے کام کرنا چاہئے؟
۱۸ اگر ہم انسانوں کو بددُعا دیتے ہیں تو اسکا یہ مطلب ہوگا کہ ہم اُن کا بُرا چاہینگے یا اُن پر لعنت کرینگے۔ چونکہ ہم کسی پر لعنت کرنے کیلئے الہٰی طور پر الہامیافتہ نبی نہیں ہیں، اسطرح کی گفتگو نفرت کا ثبوت دیگی جوکہ ہمارے خدا کی حمد کرنے کو رائیگاں بنا دیگی۔ ایک ہی مُنہ سے ”مبارکباد اور دُعا“ دونوں کا نکلنا مناسب نہیں ہے۔ (لوقا ۶:۲۷، ۲۸؛ رومیوں ۱۲:۱۴، ۱۷-۲۱؛ یہوداہ ۹) اجلاسوں پر خدا کی حمد کے گیت گانا اور بعدازاں ساتھی ایمانداروں کی بُرائیاں کرنا کسقدر گنہگارانہ فعل ہوگا! ایک ہی چشمہ سے میٹھا اور کھاری دونوں طرح کا پانی نہیں نکل سکتا۔ جیسے ”انجیر کے درخت میں زیتون اور انگور میں انجیر پیدا نہیں ہو سکتے“ اسی طرح کھاری چشمہ سے میٹھا پانی نہیں نکل سکتا۔ اگر ہم جنہیں اچھی باتیں کرنی چاہئیں متواتر تلخکلامی کرتے ہیں تو اسکا مطلب ہے کہ روحانی طور پر کچھ گڑبڑ ہے۔ اگر ہم نے اسے اپنا شعار بنا لیا ہے تو ہمیں چاہئے کہ اس طرح کی باتچیت کو ختم کرنے کی غرض سے مدد کیلئے یہوواہ سے دُعا کریں۔—زبور ۳۹:۱۔
اُوپر سے آنے والی حکمت کے مطابق عمل کریں
۱۹. اگر ہم آسمانی حکمت سے راہنمائی حاصل کرتے ہیں تو ہم دوسروں پر کیسا اثر ڈال سکتے ہیں؟
۱۹ ایسے کام کرنے اور ایسی باتیں کہنے کیلئے جو ایمان رکھنے والے لوگوں کیلئے زیبا ہیں ہم سب کو حکمت کی ضرورت ہے۔ (یعقوب ۳:۱۳-۱۸) اگر ہم خدا کا مؤدبانہ خوف رکھتے ہیں تو وہ ہمیں آسمانی حکمت، علم کو درست طور پر استعمال کرنے کی لیاقت عطا کرتا ہے۔ (امثال ۹:۱۰؛ عبرانیوں ۵:۱۴) اُسکا کلام ہمیں سکھاتا ہے کہ کیسے وہ ”حلم ظاہر کریں جو حکمت سے پیدا ہوتا ہے۔“ لہٰذا حلیم ہونے کی وجہ سے ہم کلیسیائی امن کو فروغ دیتے ہیں۔ (۱-کرنتھیوں ۸:۱، ۲) جو کوئی بھی ساتھی ایمانداروں کے بڑے اُستاد ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں وہ ’مسیحی سچائی کے خلاف جھوٹ بولتے‘ ہیں جوکہ اُنکی خودپسندی کی مذمت کرتی ہے۔ (گلتیوں ۵:۲۶) اُنکی ”حکمت“ ”دُنیوی“—خدا سے جُدا گنہگار انسانوں کی خاصیت ہے۔ یہ جسمانی رغبتوں سے پیدا ہونے کی وجہ سے ”نفسانی“ ہے۔ یہ ”شیطانی“ بھی ہے کیونکہ شریر ارواح اس پر بہت ناز کرتی ہیں! (۱-تیمتھیس ۳:۶) اسلئے ہمیں حکمت اور فروتنی سے کام لینا چاہئے تاکہ ہم ایسی فضا پیدا نہ کریں جس میں بہتان اور پاسداری جیسی ’خراب باتیں‘ کامیابی سے فروغ پا سکیں۔
۲۰. آپ آسمانی حکمت کو کیسے بیان کرینگے؟
۲۰ ”حکمت جو اُوپر سے آتی ہے اوّل تو وہ پاک ہوتی ہے،“ جو ہمیں اخلاقی اور روحانی طور پر پاکصاف رکھتی ہے۔ (۲-کرنتھیوں ۷:۱۱) ہمیں صلح کے طالب ہونے کی تحریک دیتے ہوئے یہ ”ملنسار“ ہوتی ہے۔ (عبرانیوں ۱۲:۱۴) آسمانی حکمت ہمیں اِدعاپسند اور سختگیر بنانے کی بجائے ”حلیم“ بناتی ہے۔ (فلپیوں ۴:۵) الہٰی تعلیم کی فرمانبرداری اور یہوواہ کی تنظیم کیساتھ تعاون کو فروغ دیتے ہوئے، اُوپر سے آنے والی حکمت ”تربیتپذیر“ ہوتی ہے۔ (رومیوں ۶:۱۷) اُوپر سے آنے والی حکمت ہمیں مہربان اور رحمدل بھی بناتی ہے۔ (یہوداہ ۲۲، ۲۳) ”اچھے پھلوں“ سے لدی ہونے کے باعث یہ دوسروں کیلئے فکرمندی اور نیکی، راستبازی اور سچائی کی مطابقت میں اعمال کو بھی تحریک دیتی ہے۔ (افسیوں ۵:۹) نیز صلح کرانے والوں کے طور پر ہم ”راستبازی کے پھل“ سے استفادہ کرتے ہیں جو صلحپسند حالتوں کے تحت پھلتاپھولتا ہے۔
۲۱. یعقوب ۲:۱–۳:۱۸ کے مطابق، خدا پر ہمارے ایمان کو ہمیں کن کاموں کی تحریک دینی چاہئے؟
۲۱ بِلاشُبہ، ایسی صورتحال میں، ایمان ہمیں عمل کرنے کی تحریک دیتا ہے۔ یہ ہمیں غیرجانبدار، رحمدل اور نیک کاموں میں فعال بناتا ہے۔ ایمان ہمیں زبان کو قابو میں رکھنے اور آسمانی حکمت کیساتھ کام کرنے میں مدد دیتا ہے۔ لیکن اِس خط سے ہم صرف یہی نہیں سیکھتے ہیں۔ یعقوب کے پاس مزید مشورت ہے جو ہمیں ایسا طرزِزندگی اختیار کرنے میں مدد دے سکتی ہے جو یہوواہ پر ایمان رکھنے والے لوگوں کے شایانِشان ہے۔
آپ کیسے جواب دینگے؟
◻پاسداری دکھانے میں کیا بُرائی ہے؟
◻ایمان اور اعمال ایک دوسرے سے کیسے تعلق رکھتے ہیں؟
◻زبان پر قابو رکھنا اسقدر ضروری کیوں ہے؟
◻آسمانی حکمت کس کی مانند ہے؟