بائبل کا نقطۂنظر
کیا ہمیں اپنے گناہوں کیلئے شیطان کو ذمہدار ٹھہرانا چاہئے؟
پہلے انسانی گناہ کا الزام شیطان پر لگایا گیا۔ ”سانپ نے مجھکو بہکایا تو مَیں نے کھایا،“ حوّا نے کہا۔ (پیدایش ۳:۱۳) اُسوقت سے لیکر ”وہی پُرانا سانپ جو ابلیس اور شیطان کہلاتا ہے“ بنی نوعِانسان کے خلاف طیش میں ہے اور لوگوں کی ’عقلوں کو اندھا‘ اور ”سارے جہاں کو گمراہ“ کر رہا ہے۔ (مکاشفہ ۱۲:۹؛ ۲-کرنتھیوں ۴:۴) کوئی بھی انسان اُسکے دباؤ سے بچ نہیں سکتا، تاہم کیا اسکا یہ مطلب ہے کہ ہم اُسکے اثرورسوخ کی مزاحمت نہیں کر سکتے؟ لہٰذا جب ہم گناہ کرتے ہیں تو کیا ہمیشہ اُسی کا قصور ہوتا ہے؟
بائبل بیان کرتی ہے کہ شیطان نے واقعی حوّا کو دھوکا دیا تھا۔ (۱-تیمتھیس ۲:۱۴) وہ یہ سوچنے سے دھوکا کھا گئی کہ خدا کی حکمعدولی کرنے سے وہ خدا کی طرح کی بصیرت اور خودمختاری حاصل کر سکتی ہے۔ (پیدایش ۳:۴، ۵) اس مفروضے کی وجہ سے اُس نے گناہ کِیا۔ تاہم خدا نے اُسے ذمہدار ٹھہرایا اور اُسے موت کی سزا سنائی۔ کیوں؟ اسلئے کہ اگرچہ شیطان نے جھوٹ بولا تھا توبھی وہ خود خدا کے حکم سے پوری طرح واقف تھی۔ اُسے کبھی بھی نافرمانی کرنے کیلئے مجبور نہیں کِیا گیا تھا؛ اس کے برعکس، وہ پورے طور پر شیطانی اثر کی مزاحمت کرنے کے قابل ہونے کے باوجود اپنے افعال کے تابع رہی تھی۔
ابلیس کی مزاحمت کریں
ہم انسانوں کیلئے ابلیس کی مزاحمت کرنا ممکن ہے۔ افسیوں ۶:۱۲ میں ہمیں بتایا گیا ہے کہ ”[ہماری] کشتی . . . شرارت کی اُن روحانی فوجوں سے [ہے] جو آسمانی مقاموں میں ہیں۔“ لہٰذا بدیہی طور پر خدا ہم سے شیطانی اثر کا مقابلہ کرنے کی توقع کرتا ہے۔ تاہم، ایک انسان مافوقالفطرت شیطان اور اُسکے شیاطین کا کیسے مقابلہ کر سکتا ہے؟ کیا ہمیں ایک بےجوڑ جنگ لڑنے کیلئے کہا جا رہا ہے، ایک ایسی جنگ جس میں ہماری شکست یقینی ہے؟ جینہیں، کیونکہ خدا ہمیں اپنی طاقت سے ابلیس کا مقابلہ کرنے کیلئے نہیں کہتا۔ یہوواہ ہمیں مختلف ذرائع فراہم کرتا ہے جنکی بدولت ہم ابلیس کے ہتھکنڈوں کا مقابلہ کرتے ہوئے فتح حاصل کر سکتے ہیں۔ بائبل ہمیں بتاتی ہے کہ ابلیس کون ہے اور وہ کیسے کام کرتا ہے اور ہم اپنے آپکو کیسے محفوظ رکھ سکتے ہیں۔—یوحنا ۸:۴۴؛ ۲-کرنتھیوں ۲:۱۱؛ ۱۱:۱۴۔
”ابلیس کا مقابلہ“ کیسے کریں
ابلیس کا مقابلہ کرنے کے سلسلے میں صحائف دو اقدام پر مبنی رسائی کی سفارش کرتے ہیں۔ ہمیں نصیحت کی گئی ہے: ”پس خدا کے تابع ہو جاؤ اور ابلیس کا مقابلہ کرو تو وہ تُم سے بھاگ جائے گا۔“ (یعقوب ۴:۷) اپنے آپ کو خدا کے تابع کرنے کے سلسلے میں پہلا قدم خدا کے احکام کی فرمانبرداری ہے۔ ہمارا ہر وقت خدا کی موجودگی، اُس کی نیکی، اُس کی پُرجلال قوت اور اختیار اور اُس کے بلند معیاروں سے باخبر رہنا ہمیں شیطان کا مقابلہ کرنے کے لئے قوت عطا کرے گا۔ مستقلمزاجی سے خدا سے دُعا کرنا بھی اہم ہے۔—افسیوں ۶:۱۸۔
اُس موقع پر غور کریں جب ابلیس نے یسوع کو آزمایا۔ خدا کے احکامات کو ذہن میں رکھنے اور اُنکا حوالہ دینے سے یقیناً یسوع کی مزاحمت کرنے میں مدد ہوئی تھی۔ یسوع کو گناہ میں پھنسانے میں ناکام ہونے پر شیطان اُسے چھوڑ کر چلا گیا۔ اس سخت آزمائش کے بعد یہوواہ نے فرشتوں کے ذریعے یسوع کو مزید تقویت بخشی۔ (متی ۴:۱-۱۱) لہٰذا، یسوع پورے اعتماد کے ساتھ اپنے شاگردوں کی خدا سے یہ درخواست کرنے کیلئے حوصلہافزائی کر سکتا تھا کہ وہ ’اُنہیں اُس شریر سے بچائے۔‘—متی ۶:۱۳۔
خدا کا ہمیں بچانے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ ہماری گرد کوئی حفاظتی باڑ لگا دیتا ہے۔ اسکے برعکس وہ ہمیں سچائی، راستبازی، امن اور ایمان جیسی خدائی صفات کی جستجو کرنے کیلئے کہتا ہے۔ یہ صفات ”سب ہتھیاروں“ کے طور پر ہمیں ”ابلیس کے منصوبوں کے مقابلہ میں قائم“ رہنے کے قابل بناتی ہیں۔ (افسیوں ۶:۱۱، ۱۳-۱۸) اسلئے خدا کی مدد سے ابلیس کی آزمائشوں کو ناکام بنا دینا ممکن ہے۔
دوسرا قدم جس کی سفارش یعقوب ۴:۷ میں کی گئی ہے وہ ”ابلیس کا مقابلہ“ کرنا ہے۔ اس میں قطعی کارروائی کرنا، اُسکے تباہکُن اثر سے بچنا شامل ہے۔ ایک شخص کو اُسکی پُرفریب قوت سے بچنے اور بداخلاق اور مادہپرستانہ فیلسوفیوں کو رد کرنے کی ضرورت ہے جو آجکل دُنیا میں بہت عام ہیں۔ ابلیس کا مقابلہ کرنے کیساتھ ساتھ خدا کیلئے مخصوصشدہ زندگی جو اُسے پسند ہے شیطان کے خلاف ہماری لڑائی میں گرانقدر ہے۔ تاہم، کیا تمام گناہ براہِراست شیطان کے اثر کا نتیجہ ہوتے ہیں؟
ہماری باطنی جنگ
بائبل نویس یعقوب وضاحت کرتا ہے: ”ہر شخص اپنی ہی خواہشوں میں کھینچ کر اور پھنس کر آزمایا جاتا ہے۔ پھر خواہش حاملہ ہو کر گناہ کو جنتی ہے۔“ (یعقوب ۱:۱۴، ۱۵) بدقسمتی سے ہم موروثی گناہ اور ناکاملیت پر مکمل طور پر قابو نہیں پا سکتے۔ (رومیوں ۵:۱۲) بائبل بیان کرتی ہے، ”زمین پر کوئی ایسا راستباز انسان نہیں کہ نیکی ہی کرے اور خطا نہ کرے۔“—واعظ ۷:۲۰۔
اسکا یہ مطلب نہیں کہ تمام گناہ ہمارے قابو سے باہر ہیں۔ بعض معاملات میں غلط انتخاب کی وجہ سے ہم اپنے اُوپر آزمائش لے آتے ہیں۔ لہٰذا، اگرچہ غلط خواہش ہماری ناکاملیت یا شیطانی اثر کی وجہ سے پیدا ہو سکتی ہے توبھی اسے بڑھنے دینے یا مسترد کر دینے کا پورا اختیار ہمارے پاس ہے۔ موزوں طور پر، پولس رسول نے لکھا: ”آدمی جو کچھ بوتا ہے وہی کاٹیگا۔“—گلتیوں ۶:۷۔
ذمہداری قبول کریں
اکثراوقات انسانوں کے لئے اپنی کمزوریوں، ناکامیوں، غلطیوں—جیہاں، گناہوں کا اعتراف کرنا مشکل ہوتا ہے۔ (زبور ۳۶:۲) ایک چیز جو اپنے گناہوں کی ذمہداری قبول کرنے میں ہماری مدد کریگی وہ یہ علم ہے کہ خدا اسوقت ہم سے کامل ہونے کا تقاضا نہیں کرتا۔ زبورنویس داؤد نے بیان کِیا: ”اُس نے ہمارے گناہوں کے موافق ہم سے سلوک نہیں کِیا۔ اور ہماری بدکاریوں کے مطابق ہمکو بدلہ نہیں دیا۔“ (زبور ۱۰۳:۱۰) اگرچہ خدا معاف کرنے والا ہے، توبھی وہ توقع کرتا ہے کہ ہم شیطان کے ہتھکنڈوں کے خلاف اپنی تربیت کریں اور گناہ کیلئے اپنی رغبتوں کا مقابلہ کرنے کی سخت کوشش کریں۔—۱-کرنتھیوں ۹:۲۷۔
ہمیں یہ سمجھ لینا چاہئے کہ اگرچہ خدا جانتا ہے کہ ابلیس ہمارے افعال پر اثر رکھتا ہے اور انسان کی گنہگارانہ حالت کا بڑی حد تک ذمہدار ہے توبھی یہ ہمیں ذاتی جوابدہی سے آزاد نہیں کرتا۔ لہٰذا رومیوں ۱۴:۱۲ کہتی ہے: ”ہم میں سے ہر ایک خدا کو اپنا حساب دیگا۔“
تاہم، اگر ہم ”بدی سے نفرت“ کریں اور ”نیکی سے لپٹے“ رہیں تو ہم برائی پر غالب آ سکتے ہیں۔ (رومیوں ۱۲:۹، ۲۱) پہلی عورت حوّا ایسا کرنے میں ناکام ہو گئی اور اُسے اُسکی نافرمانی کیلئے سزا دی گئی؛ وہ مزاحمت کر کے خدا کی فرمانبرداری کر سکتی تھی۔ (پیدایش ۳:۱۶) تاہم، خدا نے اُسے دھوکا دینے میں ابلیس کے کردار کو نظرانداز نہیں کِیا تھا۔ ابلیس پر لعنت کی گئی اور اُسکی حتمی تباہی کا فیصلہ سنا دیا گیا۔ (پیدایش ۳:۱۴، ۱۵؛ رومیوں ۱۶:۲۰؛ عبرانیوں ۲:۱۴) جلد ہی ہمیں اُسکے بدکار اثر کا مقابلہ نہیں کرنا پڑیگا۔—مکاشفہ ۲۰:۱-۳، ۱۰۔