لوگ بُرے کام کیوں کرتے ہیں؟
ہم ہر روز اپنے اردگرد بُرے کام ہوتے ہوئے دیکھتے ہیں۔ اِن بُرے کاموں کے لئے بعض لوگ یہ جواز پیش کرتے ہیں کہ انسان خطا کا پتلا ہے۔ یہ سچ ہے کہ خطاکار ہونے کی وجہ سے ہم اکثر ایسے کام کر گزرتے ہیں جن پر ہمیں بعد میں پچھتانا پڑتا ہے۔ لیکن کیا آجکل ہونے والے بُرے کاموں کے لئے یہ جواز پیش کرنا درست ہے کہ انسان خطا کا پتلا ہے؟
خطاکار ہونے کے باوجود لوگ یہ مانتے ہیں کہ بعض کام ایسے ہیں جن سے بچنا ضروری ہے۔ مثال کے طور پر بیشتر لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ انجانے میں کوئی غلط بات کہہ دینے اور جانبوجھ کر جھوٹ بولنے میں فرق ہوتا ہے۔ نیز حادثاً کسی کو زخمی کرنے اور جانبوجھ کر کسی کو قتل کرنے میں بھی فرق ہوتا ہے۔ یہ بھی سچ ہے کہ چہرے سے معصوم دکھائی دینے والے لوگ اکثر گھناؤنے کام کرتے ہیں۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ لوگ آخر بُرے کام کیوں کرتے ہیں؟
خدا کا کلام اِس سوال کا جواب بڑے واضح الفاظ میں دیتا ہے۔ اِس میں ایسی وجوہات بتائی گئی ہیں جن کی بِنا پر لوگ بُرے کام کرتے ہیں۔ آئیں اِن میں سے چند ایک پر غور کریں۔
▪ ”ظلم دانشور آدمی کو دیوانہ بنا دیتا ہے۔“—واعظ ۷:۷۔
خدا کے کلام کے اِس بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ لوگ حالات کے ہاتھوں مجبور ہو کر ایسے کام کر بیٹھتے ہیں جو وہ عموماً نہیں کرتے۔ بعض تو مسائل اور ناانصافی کو ختم کرنے کے لئے جُرم کا سہارا لیتے ہیں۔ اِس سلسلے میں دہشتگردی کے موضوع پر لکھی گئی ایک کتاب بیان کرتی ہے کہ ”سیاسی، سماجی اور معاشی حالات سے تنگ آ کر بہت سے لوگ دہشتگرد بن جاتے ہیں۔“
▪ ”زر کی دوستی ہر قسم کی بُرائی کی جڑ ہے۔“—۱-تیمتھیس ۶:۱۰۔
آجکل عام نظریہ ہے کہ اگر زیادہ پیسوں کا لالچ دیا جائے تو نیک لوگ بھی بدی کرنے پر آمادہ ہو جاتے ہیں۔ یہ سچ ہے کہ بعض لوگ عام حالات میں تو بہت سیدھےسادھے اور شریف دکھائی دیتے ہیں مگر جب پیسوں کی بات آتی ہے تو وہ مکار اور ظالم بن جاتے ہیں۔ پیسے کے لالچ میں لوگ دھوکےبازی، غنڈاگردی، اغوا یہاں تک کہ قتل بھی کرتے ہیں۔
▪ ”چُونکہ بُرے کام پر سزا کا حکم فوراً نہیں دیا جاتا اِس لئے بنیآدم کا دل اُن میں بدی پر بہشدت مائل ہے۔“—واعظ ۸:۱۱۔
انسان اکثر یہ سوچتے ہیں کہ اگر کوئی بااختیار شخص دیکھ نہ رہا ہو تو ہم جو چاہیں کر سکتے ہیں۔ یہ سوچ مختلف کاموں میں نظر آتی ہے جیسے کہ تیز گاڑی چلانا، امتحان میں نقل کرنا اور پیسوں کا غبن کرنا وغیرہ وغیرہ۔ جب پکڑے جانے کا ڈر نہ ہو تو بہت سے لوگ ایسے کام کرتے ہیں جو وہ عام حالات میں نہیں کرتے۔ اِس سلسلے میں ایک رسالہ بیان کرتا ہے: ”آجکل مجرموں کو آسانی سے بَری ہوتا ہوا دیکھ کر بعض لوگ بڑےبڑے جُرم کرنے پر دلیر ہو جاتے ہیں۔“
▪ ”ہر شخص اپنی ہی خواہشوں میں کھنچ کر اور پھنس کر آزمایا جاتا ہے۔ پھر خواہش حاملہ ہو کر گُناہ کو جنتی ہے اور گُناہ جب بڑھ چکا تو موت پیدا کرتا ہے۔“—یعقوب ۱:۱۴، ۱۵۔
ہم سب خطاکار ہیں اِس لئے ہمارے ذہن میں غلط خیال پیدا ہوتے ہیں۔ ہر روز ہمیں مختلف طریقوں سے بُرے کام کرنے پر اُکسایا جاتا ہے۔ یسوع مسیح کے ایک رسول پولس نے کہا تھا کہ ”تُم کسی ایسی آزمایش میں نہیں پڑے جو انسان کی برداشت سے باہر ہو۔“ (۱-کرنتھیوں ۱۰:۱۳) جب کوئی غلط خیال ہمارے دل میں پیدا ہوتا ہے تو ہم کیا کرتے ہیں؟ کیا ہم اُس کو فوراً اپنے ذہن سے جھٹک دیتے ہیں یا کیا ہم اُس پر سوچتے رہتے ہیں جس کی وجہ سے وہ ہمارے دل میں جڑ پکڑ لیتا ہے؟ یسوع مسیح کے رسول یعقوب نے خدا کی طرف سے یہ لکھا تھا کہ ”خواہش حاملہ ہو کر گُناہ کو جنتی ہے۔“ اِس کا مطلب ہے کہ اگر ہم اپنے دل میں غلط خواہش کو بڑھنے دیں گے تو ہم بُرے کاموں میں پڑ جائیں گے۔
▪ ”وہ جو داناؤں کے ساتھ چلتا ہے دانا ہوگا پر احمقوں کا ساتھی ہلاک کِیا جائے گا۔“—امثال ۱۳:۲۰۔
یہ سچ ہے کہ جن لوگوں کے ساتھ ہمارا اُٹھنا بیٹھنا ہے وہ ہم پر گہرا اثر ڈالتے ہیں۔ یہ اثر اچھا بھی ہو سکتا ہے اور بُرا بھی۔ اکثر لوگ بُری صحبت کی وجہ سے بُرے کاموں میں پڑ جاتے ہیں جن کا انجام نہایت بھیانک ہوتا ہے۔ امثال ۱۳:۲۰ میں لفظ ”احمقوں“ سے مُراد ایسے لوگ ہیں جو خدا کے کلام کی حکمت سے بھری باتوں کو نظرانداز کرتے ہیں۔ اگر ہم خدا کے کلام کے اصولوں کے مطابق اپنے دوستوں کا انتخاب نہیں کرتے تو اِس کا انجام بہت بُرا ہو سکتا ہے۔
خدا کے کلام کی اِن چند آیات سے ہم نے سیکھ لیا ہے کہ لوگ کن وجوہات کی بِنا پر بُرے کام کرتے ہیں۔ لیکن کیا خدا کے کلام میں مستقبل کے متعلق کوئی اُمید پائی جاتی ہے؟ اِس میں وعدہ کِیا گیا ہے کہ ایک ایسا وقت آئے گا جب کوئی بھی انسان بُرے کام نہیں کرے گا۔ اِس سلسلے میں خدا کے وعدوں کو جاننے کے لئے آئیں اگلے مضمون پر غور کریں۔