یہوؔواہ معقولیت پسند ہے!
”جو حکمت اُوپر سے آتی ہے . . . وہ معقول ہے۔“—یعقوب ۳:۱۷، نیو ورلڈ ٹرانسلیشن۔
۱. بعض نے نامعقولیت پسند کے طور پر خدا کی تصویرکشی کیسے کی ہے اور خدا کی بابت ایسے نظریے کے سلسلے میں آپ کیا محسوس کرتے ہیں؟
آپکس قسم کے خدا کی پرستش کرتے ہیں؟ کیا آپ اُسے ایک بےلوچ، کرخت منصف، اپنے مزاج میں درُشت اور تُند خدا مانتے ہیں؟ پروٹسٹنٹ مصلح جاؔن کیلون کو شاید خدا ایسا ہی لگا ہو۔ کیلون نے دعویٰ کِیا کہ ہر ایک کا مقدر لکھ دینے سے کہ آیا وہ شادمانی میں ابد تک زندہ رہیگا یا جہنم میں ابدی عذاب پائیگا، خدا ہر فرد کے سلسلے میں ایک ”ابدی اور ناقابلِتغیر منصوبہ“ رکھتا ہے۔ ذرا تصور کریں: اگر یہ سچ ہوتا تو خواہ آپ کتنی بھی سخت کوشش کرتے آپ اپنے اور اپنے مستقبل کی بابت خدا کے قدیم، کرخت منصوبے کو بدلنے کیلئے کبھی بھی کچھ نہ کر سکتے تھے۔ کیا آپ ایک ایسے نامعقول خدا کے قریب جاتے؟—مقابلہ کریں یعقوب ۴:۸۔
۲، ۳. (ا) ہم انسانی اداروں اور تنظیموں کی نامعقولیت کو مثالیں دے کر کسطرح سمجھا سکتے ہیں؟ (ب) یہوؔواہ کے فلکی رتھ کی بابت حزقیؔایل کی رویا اُسکی مطابقتپذیری کے متعلق کیا آشکارا کرتی ہے؟
۲ یہ جان کر ہم کتنے مطمئن ہیں کہ بائبل کا خدا نمایاں طور پر معقول ہے! یہ خدا نہیں بلکہ انسان ہیں جو اپنی ناکاملیتوں کے ہاتھوں مجبور ہو کر کرخت اور بےلوچ ہونے کی طرف مائل ہوتے ہیں۔ انسانی تنظیمیں مال گاڑیوں کی طرح بھاری بھرکم ہو سکتی ہیں۔ جب ایک بہت بڑی مال گاڑی پٹڑی کے اوپر راہ میں حائل کسی رکاوٹ کی جانب بڑھ رہی ہوتی ہے تو مڑنا ناممکن ہوتا ہے اور رُکنا بھی بہت مشکل ہوتا ہے۔ بعض گاڑیوں کا آگے کی سمت حرکت کرنے کا زور اسقدر زیادہ ہوتا ہے کہ وہ بریکیں لگانے کے بعد بھی رُکتے رُکتے ایک کلومیٹر سے زیادہ کا فاصلہ طے کر جاتی ہیں! اسی طرح، ایک بہت بڑا تیل بردار بحری جہاز انجنوں کے بند کر دئے جانے کے بعد مزید ۸ کلومیٹر تک آگے کی طرف ساحل کے ساتھ ساتھ چل سکتا ہے۔ اگر انہیں مخالف سمت میں بھی ڈال دیا جائے تو بھی یہ پانی میں ۳ کلومیٹر تک چلنا جاری رکھ سکتا ہے! لیکن اب ان دونوں سے کہیں زیادہ مہیب گاڑی پر غور کریں، ایسی جو خدا کی تنظیم کی نمائندگی کرتی ہے۔
۳ ۲،۶۰۰ سال سے بھی زیادہ عرصہ قبل، یہوؔواہ نے حزقیؔایل نبی کو ایک رویا دی جس نے اُسکی روحانی مخلوقات کی آسمانی تنظیم کی تصویرکشی کی۔ یہ مہیب طولوعرض والا ایک رتھ تھا، یہوؔواہ کی اپنی ”گاڑی“ جو ہمیشہ اُسکے قابو میں رہتی ہے۔ سب سے دلچسپ بات اُسکی طرزِحرکت تھی۔ بڑے بڑے پہیے چاروں طرف گھومنے والے اور آنکھوں سے بھرے ہوئے تھے، تاکہ وہ ہر طرف دیکھ سکیں اور بغیر رُکے یا مڑے فوراً سمت تبدیل کر سکیں۔ اور اس ضخیم گاڑی کو تیل بردار بحری جہاز یا مال گاڑی کی طرح آہستہ آہستہ گڑگڑاہٹ کیساتھ نہیں چلنا تھا۔ یہ قائمہ زاویہ بناتے ہوئے برقرفتاری سے بھی حرکت کر سکتی تھی۔ (حزقیایل ۱:۱، ۱۴-۲۸) یہوؔواہ اُس خدا سے جس کی منادی کیلوؔن نے کی اُسی قدر فرق ہے جس قدر اُس کا رتھ انسان ساختہ بھدی مشینوں سے فرق ہے۔ وہ کامل طور پر مطابقتپذیر ہے۔ یہوؔواہ کی شخصیت کے اس پہلو کی قدر کرنے کو مطابقتپذیر رہنے اور نامعقولیت کے پھندے سے بچنے کیلئے ہماری مدد کرنی چاہئے۔
یہوؔواہ—کائنات میں سب سے زیادہ مطابقتپذیر ہستی
۴. (ا) کس طرح یہوؔواہ کا نام ہی اُسے ایک مطابقتپذیر خدا کے طور پر نمایاں کرتا ہے؟ (ب) یہوؔواہ خدا سے منسوب کئے جانے والے بعض القاب کونسے ہیں اور وہ کیوں موزوں ہیں؟
۴ یہوؔواہ کا نام ہی اُسکی مطابقتپذیری کی دلالت کرتا ہے۔ ”یہوؔواہ“ کا لفظی مطلب ہے ”مسبّبالاسباب۔“ نمایاں طور پر اسکا مطلب ہے کہ یہوؔواہ خود کو اپنے تمام وعدوں کو پورا کرنے والا بنانے کا موجب بنتا ہے۔ جب موسیٰؔ نے خدا سے اسکا نام پوچھا تو یہوؔواہ نے اسکے مطلب کو اس طرح تفصیل سے بیان کِیا: ”میں جو ہوں سو میں ہوں۔“ (خروج ۳:۱۴) رؔوتھرہیم کا ترجمہ واضح طور پر اسے بیان کرتا ہے: ”میں جیسا چاہوں گا ویسا ہی بن جاؤں گا۔“ اپنے راست مقاصد اور وعدوں کو پورا کرنے کیلئے جیسی ضرورت ہو یہوؔواہ ویسا ہی ثابت ہوتا یا بننے کا انتخاب کرتا ہے۔ لہٰذا وہ بہت زیادہ اثرآفرین القاب کا مالک ہے جیسے کہ خالق، باپ، حاکمِاعلیٰ، چوپان، لشکروں کا یہوؔواہ، دعاؤں کا سننے والا، منصف، عظیم مُعلم، فدیہ دینے والا۔ اُس نے خود کو یہ سب کچھ بنایا ہے اور زیادہتر اپنے پُرمحبت مقاصد کو پورا کرنے کی غرض سے۔—یسعیاہ ۸:۱۳؛ ۳۰:۲۰؛ ۴۰:۲۸؛ ۴۱:۱۴؛ زبور ۲۳:۱؛ ۶۵:۲؛ ۷۳:۲۸؛ ۸۹:۲۶؛ قضاۃ ۱۱:۲۷؛ نیز دیکھیں نیو ورلڈ ٹرانسلیشن، اپنڈیکس ۔
۵. ہمیں کیوں یہ نتیجہ اخذ نہیں کرنا چاہئے کہ یہوؔواہ کی مطابقتپذیری اُسکی ماہیت یا معیاروں کے بدل جانے کی دلالت کرتی ہے؟
۵ تو پھر کیا اسکا یہ مطلب ہے کہ خدا کی ماہیت یا معیار بدل جاتے ہیں؟ نہیں؛ جیسے کہ یعقوب ۱:۱۷ بیان کرتی ہے، ”جس میں نہ کوئی تبدیلی ہو سکتی ہے اور نہ گردش کے سبب سے اُس پر سایہ پڑتا ہے۔“ کیا یہاں پر کوئی تضاد پایا جاتا ہے؟ ہرگز نہیں۔ مثال کے طور پر، کونسا ایسا باپ یا ماں ہے جو اپنے بچوں کو فائدہ پہنچانے کیلئے اپنے کرداروں میں تبدیلی نہیں کرتا؟ ایک ہی دن کے دوران، ایک ماں یا باپ ایک مشیر، ایک باورچی، ایک خانہدار، ایک اُستاد، ایک تادیب کرنے والا، ایک دوست، ایک مکینک، ایک تیماردار ہو سکتا ہے—فہرست بڑھتی ہی جاتی ہے۔ ان کرداروں کو نبھاتے وقت ماں یا باپ شخصیت نہیں بدلتے؛ باپ یا ماں محض حالیہ ضروریات کے مطابق بن جاتے ہیں۔ یہوؔواہ کے ساتھ بھی ایسا ہی ہے مگر ایک وسیع پیمانے پر۔ اسکی کوئی حد نہیں کہ اپنی مخلوقات کو فائدہ پہنچانے کیلئے وہ خود کو کیا کچھ بنا سکتا ہے۔ اُسکی حکمت کی گہرائی واقعی بوکھلا دینے والی ہے!—رومیوں ۱۱:۳۳۔
معقولیت الہٰی حکمت کا ایک امتیازی وصف
۶. الہٰی حکمت کو بیان کرنے میں یعقوب نے جس یونانی لفظ کو استعمال کِیا اُسکا لفظی مطلب اور مفہوم کیا ہیں؟
۶ یعقوب شاگرد نے اس نہایت ہی مطابقتپذیر خدا کی حکمت کو بیان کرنے کیلئے ایک دلچسپ لفظ استعمال کِیا۔ اُس نے لکھا: ”جو حکمت اُوپر سے آتی ہے . . . وہ معقول ہے۔“ (یعقوب ۳:۱۷، اینڈبلیو) جس یونانی لفظ (ایپیایکس) کو اُس نے استعمال کِیا اُسکا ترجمہ کرنا مشکل ہے۔ مترجمین نے ایسے الفاظ استعمال کئے ہیں جیسے کہ ”نرم،“ ”متحمل،“ ”صابر،“ اور ”بامروّت۔“ نیو ورلڈ ٹرانسلیشن اسکا ترجمہ ”معقول“ کرتا ہے جسکا فٹنوٹ لفظی مطلب ”لچکدار“ دیتا ہے۔a یہ لفظ ہر تحریری ضابطے کی پابندی نہ کرنے، بہت زیادہ سخت یا سختگیر نہ ہونے کا مفہوم بھی دیتا ہے۔ نیو ٹسٹامنٹ ورڈز میں سکالر ولیمؔ بارکلے تبصرہ کرتا ہے: ”ایپیایکیا کی بابت بنیادی اور اہم بات یہ ہے کہ اس کی اصل خدا سے جا ملتی ہے۔ اگر خدا اپنے ہی حقوق پر اصرار کرتا، اگر خدا ہم پر شریعت کے سخت معیاروں کے سوا کچھ بھی صادر نہ کرتا تو ہم کہاں پر ہوتے؟ خدا ایسے شخص کی اعلیٰ مثال ہے جو ایپیایکس ہے اور جو ایپیایکیا کیساتھ دوسروں سے پیش آتا ہے۔“
۷. یہوؔواہ نے باغِعدن میں معقولیت کا مظاہرہ کیسے کِیا؟
۷ اُس وقت پر غور کریں جب نوعِانسان نے یہوؔواہ کی حاکمیت کے خلاف بغاوت کی۔ خدا کیلئے اُن تین ناشکر باغیوں—آؔدم، حوؔا اور شیطان—کو سزا دینا کتنا آسان رہا ہوتا! یوں اُس نے خود کو کتنے بڑے دُکھ سے بچا لیا ہوتا! اور کون اُس سے جرح کر سکتا تھا کہ وہ ایسا سخت انصاف کرنے کا حق نہیں رکھتا؟ تاہم، یہوؔواہ نے کبھی بھی اپنی فلکی رتھنما تنظیم کو انصاف کے کسی سخت اور غیرمطابقتپذیر معیار میں جکڑ نہیں رکھا ہے۔ لہٰذا اُس رتھ نے انسانی خاندان اور نسلِانسانی کے خوشآئند مستقبل کے تمام امکانات کو بےرحمی سے روندا نہیں تھا۔ اسکے برعکس، یہوؔواہ نے برقنما تیزرفتاری کیساتھ اپنے رتھ کو بڑی مہارت سے استعمال کِیا ہے۔ بغاوت کے فوراً بعد، یہوؔواہ نے ایک ایسے طویلالمدت مقصد کی خاکہکشی کی جس نے آؔدم کی تمام اولاد کیلئے رحم اور امید کو پیش کِیا۔—پیدایش ۳:۱۵۔
۸. (ا) معقولیت کی بابت مسیحی دنیا کا غلط نظریہ یہوؔواہ کی حقیقی معقولیت سے کیسے فرق ہے؟ (ب) ہم یہ کیوں کہہ سکتے کہ یہوؔواہ کی معقولیت اس بات کی دلالت نہیں کرتی کہ وہ الہٰی اصولوں پر مصالحت کر سکتا ہے؟
۸ تاہم، یہوؔواہ کی معقولیت اس بات کی دلالت نہیں کرتی کہ وہ الہٰی اصولوں سے مصالحت کر سکتا ہے۔ آجکل کی مسیحی دنیا کی کلیسیائیں شاید یہ سوچیں کہ محض اپنے برگشتہ گلوں کی خوشامد کرنے کیلئے بداخلاقی کو نظرانداز کر دینے سے وہ معقول بن رہی ہیں۔ (مقابلہ کریں ۲-تیمتھیس ۴:۳۔) یہوؔواہ نہ تو کبھی اپنے قوانین توڑتا ہے اور نہ ہی وہ اپنے اصولوں سے مصالحت کرتا ہے۔ بلکہ وہ لچکدار ہونے، حالات کے مطابق بننے کیلئے آمادگی کو ظاہر کرتا ہے تاکہ ان اصولوں کو منصفانہ اور رحمانہ طریقے سے عائد کِیا جا سکے۔ وہ ہمیشہ انصاف اور طاقت کے اپنے استعمال کو اپنی محبت اور معقول حکمت کے ساتھ متوازن رکھنے کا خیال رکھتا ہے۔ آئیں تین طریقوں پر غور کریں جن سے یہوؔواہ معقولیت کا مظاہرہ کرتا ہے۔
”معاف کرنے کو تیار“
۹، ۱۰. (ا) ”معاف کرنے کو تیار“ ہونے کا معقولیت کیساتھ کیا واسطہ ہے؟ (ب) معاف کرنے کیلئے یہوؔواہ کی آمادگی سے داؔؤد نے کیسے فائدہ اُٹھایا اور کیوں؟
۹ داؔؤد نے لکھا: ”اسلئے کہ تُو یارب! نیک اور معاف کرنے کو تیار ہے اور اپنے سب دعا کرنے والوں پر شفقت میں غنی ہے۔“ (زبور ۸۶:۵) جب عبرانی صحائف کا یونانی میں ترجمہ کِیا گیا تو ”معاف کرنے کو تیار“ کا ترجمہ ایپیایکس، یا ”معقول،“ کِیا گیا۔ واقعی، معاف کرنے کو تیار ہونا اور رحم دکھانا معقولیت ظاہر کرنے کا بنیادی طریقہ ہو سکتا ہے۔
۱۰ داؔؤد خود بھی اس سے واقف تھا کہ اس سلسلے میں یہوؔواہ کتنا معقولیت پسند ہے۔ جب داؔؤد نے بتؔسبع کے ساتھ زنا کِیا اور اُسکے خاوند کو مروانے کا انتظام کِیا تو وہ اور بتؔسبع دونوں موت کی سزا کے مستوجب تھے۔ (استثنا ۲۲:۲۲؛ ۲-سموئیل ۱۱:۲-۲۷) اگر بےلوچ انسانی جج اس مقدمے کا فیصلہ کرتے تو دونوں ہی شاید اپنی زندگیوں سے ہاتھ دھو بیٹھتے۔ لیکن یہوؔواہ نے معقولیت (ایپیایکس) دکھائی، جو، جیسے کہ وائنز ایکسپوزیٹری ڈکشنری آف ببلیکل ورڈز بیان کرتی ہے، ”اُس پاسداری کو ظاہر کرتی ہے جو کسی معاملے کے حقائق پر ’ہمدردی اور معقول پسندی سے نگاہ ڈالتی ہے۔‘“ ایسے حقائق جو یہوؔواہ کے رحمانہ فیصلے پر اثرانداز ہوئے اُن میں غالباً خطاکاروں کی مخلصانہ توبہ اور وہ رحم شامل تھا جو خود داؔؤد دوسروں کے حق میں پہلے دکھا چکا تھا۔ (۱-سموئیل ۲۴:۴-۶؛ ۲۵:۳۲-۳۵؛ ۲۶:۷-۱۱؛ متی ۵:۷؛ یعقوب ۲:۱۳) تاہم، خروج ۳۴:۴-۷ میں اپنی بابت یہوؔواہ کے بیان کے مطابق یہ معقول تھا کہ یہوؔواہ داؔؤد کی اصلاح کرے۔ اس حقیقت کو داؔؤد کے ذہن میں ڈالنے کیلئے کہ اُس نے یہوؔواہ کے کلام کی حقارت کی ہے اُس نے ایک سخت پیغام دیکر ناتنؔ نبی کو داؔؤد کے پاس بھیجا۔ داؔؤد نے توبہ کی اور یوں اپنے گناہ کی وجہ سے نہ مرا۔—۲-سموئیل ۱۲:۱-۱۴۔
۱۱. یہوؔواہ نے منسیؔ کے معاملے میں معاف کرنے کیلئے آمادگی کیسے دکھائی؟
۱۱ اس سلسلے میں یہوؔداہ کے بادشاہ منسیؔ کی مثال بہت ہی غیرمعمولی ہے، چونکہ داؔؤد کے برعکس منسیؔ بہت عرصے سے نہایت ہی بدکار تھا۔ منسیؔ نے ملک میں انسانی قربانی سمیت مکروہ مذہبی رسومات کو فروغ دیا۔ ہو سکتا ہے کہ وہ وفادار نبی یسعیاؔہ کے ”آرے سے چیرے“ جانے کا ذمہدار بھی رہا ہو۔ (عبرانیوں ۱۱:۳۷) منسیؔ کو سزا دینے کیلئے، یہوؔواہ نے اُسے بابلؔ میں اسیر ہو کر لے جانے کی اجازت دے دی۔ تاہم، قید میں منسیؔ نے توبہ کر لی اور رحم کیلئے التجا کی۔ اس سچی توبہ کے جواب میں یہوؔواہ ”معاف کرنے کو تیار“ تھا—اس سنگین معاملے میں بھی۔—۲-تواریخ ۳۳:۹-۱۳۔
نئے حالات پیدا ہونے پر روش بدلنا
۱۲، ۱۳. (ا) نینوہ کے معاملے میں حالات کی کونسی تبدیلی نے یہوؔواہ کو روش بدل لینے کی ترغیب دی؟ (ب) یہوؔواہ کے مقابلے میں یوؔناہ کیسے کم معقول ثابت ہوا؟
۱۲ نئے حالات پیدا ہو جانے پر ایک سوچی سمجھی روش کو بدلنے میں اپنی رضامندی سے بھی یہوؔواہ کی معقولیت ظاہر ہوتی ہے۔ مثال کے طور، جب یوؔناہ نبی نے قدیم نینوہ کی گلیوں میں سے گزر کِیا تو اُسکا پیغام نہایت سادہ تھا: یہ بڑا شہر ۴۰ دنوں میں تباہ ہو جائیگا۔ تاہم، حالات—ڈرامائی انداز سے—بدل گئے! نینوہ کے لوگوں نے توبہ کر لی۔—یوناہ، باب ۳۔
۱۳ حالات کی اس تبدیلی کیلئے یہوؔواہ اور یوؔناہ نے جیسا ردِعمل دکھایا اُسکا موازنہ کرنا معلوماتافزا ہے۔ دراصل یہوؔواہ نے اپنے فلکی رتھ کی روش کو بدل دیا۔ اس واقعہ میں اُس نے ”صاحبِجنگ“ بننے کی بجائے خود کو گناہوں کا معاف کرنے والا بناتے ہوئے نئے حالات کے مطابق ڈھال لیا۔ (خروج ۱۵:۳) دوسری طرف یوؔناہ بہت کم لچکدار تھا۔ یہوؔواہ کے رتھ کیساتھ قدمبہقدم چلنے کی بجائے اُس نے مذکورہ بالا مال گاڑی یا تیل بردار بحری جہاز کی مانند زیادہ عمل کِیا۔ اُس نے تباہی کا اعلان کِیا تھا، لہٰذا تباہی ہی ہونی چاہئے تھی! شاید اُس نے محسوس کِیا کہ روش میں کوئی بھی تبدیلی نینوہ کے لوگوں کی نظروں میں اُسکو حقیر بنا دے گی۔ تاہم، یہوؔواہ نے صبر کے ساتھ اپنے اس جذبات سے عاری نبی کو معقولیت پسندی اور رحم کا ایک یاد رکھنے کے قابل سبق سکھایا۔—یوناہ، باب ۴۔
۱۴. یہوؔواہ نے اپنے نبی حزقیؔایل کے سلسلے میں اپنی روش کو کیوں بدلا؟
۱۴ یہوؔواہ نے دیگر مواقع پر بھی روش کو بدلا ہے—نسبتاً چھوٹے معاملات میں بھی۔ مثال کے طور پر، ایک مرتبہ جب اُس نے حزقیؔایل نبی کو نبوتی ڈرامہ کرکے دکھانے کا حکم دیا تو یہوؔواہ کی ہدایات میں یہ حکم بھی شامل تھا کہ حزقیؔایل اپنا کھانا انسانی فضلے سے جلائی گئی آگ پر پکائے۔ یہ نبی کیلئے نہایت ہی مشکل تھا، جو چلا اُٹھا، ”ہائے خداوند خدا!“ اور منت کی کہ اُس سے ایسا کوئی کام نہ کروایا جائے جو اُس کو سخت ناپسند ہے۔ یہوؔواہ نے نبی کے احساسات کو غیرمنطقی سمجھ کر نظرانداز نہ کِیا؛ بلکہ، اُس نے حزقیؔایل کو گوبر استعمال کرنے کی اجازت دے دی جو کہ آج تک بہت سے ممالک میں ایندھن کا عام ذریعہ ہے۔—حزقیایل ۴:۱۲-۱۵۔
۱۵. (ا) کونسی مثالیں یہ ظاہر کرتی ہیں کہ یہوؔواہ انسانوں کی سننے اور جواب دینے کیلئے رضامند رہا ہے؟ (ب) یہ ہمیں کیا سبق سکھا سکتی ہے؟
۱۵ کیا اپنے خدا یہوؔواہ کی فروتنی پر غور کرنا دل کو گرما دینے والی بات نہیں ہے؟ (زبور ۱۸:۳۵) وہ ہم سے کہیں زیادہ بلند ہے؛ لیکن پھر بھی وہ ناکامل انسانوں کی بات تحمل سے سنتا ہے اور بعض اوقات تو اسکے مطابق اپنی روش کو بھی بدل لیتا ہے۔ اُس نے ابرؔہام کو سدوم اور عمورہ کی تباہی کے سلسلے میں کافی دیر تک اپنے ساتھ بحث کرنے کی اجازت دی۔ (پیدایش ۱۸:۲۳-۳۳) اور اُس نے گردنکش اسرائیلیوں کو تباہ کرنے اور موسیٰؔ سے ایک بڑی قوم بنانے کی اپنی تجویز پر اعتراضات اُٹھانے کیلئے موسیٰؔ کو اجازت دی۔ (خروج ۳۲:۷-۱۴؛ استثنا ۹:۱۴، ۱۹؛ مقابلہ کریں عاموس ۷:۱-۶۔) یوں وہ اپنے انسانی خادموں کیلئے ایک کامل نمونہ قائم کرتا ہے جنہیں جب ایسا کرنا معقول اور ممکن ہو تو دوسروں کی بات سننے کیلئے ایسی ہی آمادگی کا اظہار کرنا چاہئے۔—مقابلہ کریں یعقوب ۱:۱۹۔
اختیار کے استعمال میں معقولیت
۱۶. جس طریقے سے وہ اپنے اختیار کو استعمال کرتا ہے اُس میں یہوؔواہ بہتیرے انسانوں سے کیسے مختلف ہے؟
۱۶ کیا آپ نے کبھی غور کِیا ہے کہ جونہی افراد کو زیادہ اختیار حاصل ہوتا ہے تو بہتیرے کم معقول بنتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں؟ اسکے برعکس کائنات میں اختیار کا سب سے بلند مرتبہ یہوؔواہ کے پاس ہے، لیکن پھر بھی وہ معقولیت کا بنیادی نمونہ ہے۔ وہ اپنے اختیار کو مسلسل معقول طریقے سے عمل میں لاتا ہے۔ متعدد انسانوں کے برعکس یہوؔواہ اپنے اختیار کی بابت غیرمحفوظ نہیں ہے اسلئے وہ حسد سے اسکی حفاظت کرنے کی مجبوری محسوس نہیں کرتا—گویا دوسروں کو بہت تھوڑا اختیار دینا بھی اُسکے اپنے اختیار کو خطرے میں ڈال سکتا ہو۔ درحقیقت، جب کائنات میں صرف ایک ہی دوسرا شخص تھا تو یہوؔواہ نے اُسے وسیع اختیار عطا کِیا۔ اُس نے لوگوس کو اپنا ”ماہر کاریگر“ بنایا، اُسوقت سے لیکر تمام چیزوں کو اس پیارے بیٹے کے وسیلے سے وجود میں لایا جانے لگا۔ (امثال ۸:۲۲، ۲۹-۳۱؛ یوحنا ۱:۱-۳، ۱۴؛ کلسیوں ۱:۱۵-۱۷) بعد میں اُس نے ”آسمان اور زمین کا کُل اختیار“ اُس کے سپرد کر دیا۔—متی ۲۸:۱۸؛ یوحنا ۵:۲۲۔
۱۷، ۱۸. (ا) یہوؔواہ نے سدوم اور عمورہ میں فرشتے کیوں بھیجے؟ (ب) اخیؔاب کو بہکانے کیلئے یہوؔواہ نے فرشتگان سے تجاویز کیوں مانگیں؟
۱۷ اسی طرح، یہوؔواہ اپنی بہت سی مخلوقات کو ایسے کام سونپتا ہے جو وہ خود اُس سے بھی زیادہ اچھے طریقے سے کر سکتا ہے۔ مثال کے طور پر جب اُس نے ابرؔہام کو یہ بتایا کہ ”میں اب جا کر دیکھونگا کہ کیا اُنہوں نے سراسر ویسا ہی کِیا ہے جیسا شور میرے کان تک پہنچا ہے،“ تو اُس کا یہ مطلب نہیں تھا کہ وہ بذاتِخود وہاں جائے گا۔ بلکہ اپنے لئے ایسی معلومات کو اکٹھا کرنے کیلئے فرشتوں کو مقرر کرتے ہوئے یہوؔواہ نے اختیار اُنکے سپرد کرنے کا انتخاب کِیا۔ اُس نے اُنہیں حقیقت معلوم کرنے کے اس خصوصی کام کی راہنمائی کرنے اور پھر واپس اُسے اطلاع دینے کا اختیار دیا۔—پیدایش ۱۸:۱-۳، ۲۰-۲۲۔
۱۸ ایک دوسرے موقع پر، جب یہوؔواہ نے بدکار بادشاہ اخیؔاب کو سزا دینے کا فیصلہ کِیا تو اُس نے اس بات پر تجاویز پیش کرنے کیلئے فرشتگان کو ایک آسمانی اجتماع میں مدعو کِیا کہ کیسے اس گمراہ بادشاہ کو اُس جنگ میں شریک ہونے کیلئے ”بہکایا“ جائے جو اُسکی زندگی کا خاتمہ کر دیگی۔ یقیناً، کُل حکمت کے ماخذ، یہوؔواہ کو بہترین روش تجویز کرنے کیلئے مدد کی ضرورت نہیں تھی! پھر بھی، اُس نے حل پیش کرنے اور جس روش کا وہ انتخاب کریں اُس پر عمل کرنے کے اختیار کے شرف کے ساتھ فرشتگان کو عزت بخشی۔—۱-سلاطین ۲۲:۱۹-۲۲۔
۱۹. (ا) یہوؔواہ اُن قوانین کی تعداد محدود کیوں رکھتا ہے جنہیں وہ وضع کرتا ہے؟ (ب) جب یہ بات آتی ہے کہ وہ ہم سے کیا توقع کرتا ہے تو اسوقت یہوؔواہ خود کو معقول کیسے ظاہر کرتا ہے؟
۱۹ یہوؔواہ دوسروں پر بےجا رُعب جمانے کیلئے اپنے اختیار کو استعمال نہیں کرتا۔ اس میں بھی وہ بےمثال معقولیت دکھاتا ہے۔ وہ احتیاط سے ایسے قوانین کی تعداد کو محدود کرتا ہے جو وہ وضع کرتا ہے اور اپنے خادموں کو اُنکی اپنی سمجھ کے بھاری قوانین کا اضافہ کرکے ’لکھے ہوئے سے تجاوز‘ کرنے سے منع کرتا ہے۔ (۱-کرنتھیوں ۴:۶؛ اعمال ۱۵:۲۸؛ موازنہ کریں متی ۲۳:۴۔) وہ اپنی مخلوقات سے کبھی بھی اندھی فرمانبرداری کا تقاضا نہیں کرتا بلکہ وہ انکو فرمانبرداری کرنے کے فوائد اور نافرمانی کرنے کے نتائج کو جاننے کا موقع دیتے ہوئے عموماً اُنہیں اُنکی راہنمائی کیلئے کافی معلومات فراہم کرتا اور اُنکے سامنے انتخاب رکھتا ہے۔ (استثنا ۳۰:۱۹، ۲۰) خطاکاری، ندامت، یا خوف کے ذریعے لوگوں پر دباؤ ڈالنے کی بجائے وہ دلوں تک پہنچنے کی کوشش کرتا ہے؛ وہ چاہتا ہے کہ لوگ لاچاری سے نہیں بلکہ خالص محبت سے اُسکی خدمت کریں۔ (۲-کرنتھیوں ۹:۷) ایسی تمام مخلصانہ خدمت خدا کے دل کو شاد کرتی ہے، لہٰذا وہ نامعقول طور پر ”بدمزاج“ نہیں ہے۔—۱-پطرس ۲:۱۸؛ امثال ۲۷:۱۱؛ مقابلہ کریں میکاہ ۶:۸۔
۲۰. یہوؔواہ کی معقولیت آپکو کیسے متاثر کرتی ہے؟
۲۰ کیا یہ غیرمعمولی بات نہیں کہ مخلوقات میں سے کسی بھی ہستی کے مقابلے میں زیادہ طاقت رکھنے والا یہوؔواہ خدا اس طاقت کو کبھی بھی نامعقولیت کی حد تک عمل میں نہیں لاتا، نہ ہی کبھی دوسروں کو ڈرانے دھمکانے کیلئے اسے استعمال کرتا ہے؟ تاہم، انسان جو کہ مقابلتاً نہایت ہی کمزور ہیں انکے ایکدوسرے پر حکومت کرنے کی سرگزشت موجود ہے۔ (واعظ ۸:۹) بلاشُبہ، معقولیت ایک بیشقیمت خوبی ہے، ایسی خوبی جو ہمیں سب سے بڑھکر یہوؔواہ سے محبت کرنے کی تحریک دے سکتی ہے۔ پھر یہ ہمیں بھی تحریک دیتی ہے کہ ہم خود بھی اس خوبی کو پیدا کریں۔ ہم ایسا کس طرح کر سکتے ہیں؟ اگلا مضمون اس معاملے پر گفتگو کریگا۔ (۹ ۸/۱ w۹۴)
[فٹنوٹ]
a پیچھے ۱۷۶۹ میں، لغت نویس جاؔن پارکحرسٹ نے اس لفظ کی تعریف ”لچکدار، لچکدار مزاج والا، نرم، حلیم، صابر“ کے طور پر کی۔ دیگر سکالروں نے بھی تعریف کے طور پر ”لچکدار“ کو پیش کِیا۔
آپ کیسے جواب دینگے؟
▫ یہوؔواہ کا نام اور اس کے فلکی رتھ کی بابت رویا اس کی مطابقتپذیری پر کیسے زور دیتی ہے؟
▫ معقولیت کیا ہے اور یہ الہٰی حکمت کا نشان کیوں ہے؟
▫ کن طریقوں سے یہوؔواہ ظاہر کر چکا ہے کہ وہ ”معاف کرنے کو تیار“ ہے؟
▫ بعض واقعات میں یہوؔواہ نے ایک سوچی سمجھی روش کو بدل لینے کا انتخاب کیوں کِیا ہے؟
▫ جس طریقے سے وہ اختیار کو عمل میں لاتا ہے اُس میں یہوؔواہ معقولیت کا مظاہرہ کیسے کرتا ہے؟
[تصویر]
یہوؔواہ نے بدکار بادشاہ منسیؔ کو کیوں معاف کر دیا تھا؟