آپ کے ایمان کی خوبی—آزمائش اب ہوتی ہے
”اے میرے بھائیو! جب تم طرح طرح کی آزمایشوں میں پڑو۔ تو اسکو یہ جان کر کمال خوشی کی بات سمجھنا کہ تمہارے ایمان کی آزمایش صبر [”برداشت،“ اینڈبلیو] پیدا کرتی ہے۔“—یعقوب ۱:۲، ۳۔
۱. مسیحیوں کو اپنے ایمان کی آزمائشوں کی توقع کیوں کرنی چاہئے؟
سچے مسیحیوں کو مصیبت اُٹھانے کا کوئی شوق نہیں اور نہ ہی اُنہیں تکلیف یا تذلیل سے کچھ خوشی حاصل ہوتی ہے۔ تاہم، وہ یسوع کے سوتیلے بھائی یعقوب کے مندرجہبالا الفاظ کو ذہن میں رکھتے ہیں۔ مسیح نے اپنے شاگردوں پر واضح کر دیا تھا کہ وہ خدا کے معیاروں کی پابندی کرنے کی وجہ سے اذیت اور دیگر مشکلات کی توقع رکھ سکتے ہیں۔ (متی ۱۰:۳۴؛ ۲۴:۹-۱۳؛ یوحنا ۱۶:۳۳) تاہم، ایسی آزمائشوں کا انجام خوشی ہو سکتا ہے۔ وہ کیسے؟
۲. (ا) ہمارے ایمان کی آزمائشیں خوشی پر کیسے منتج ہوتی ہیں؟ (ب) ہمارے معاملے میں برداشت اپنا کام کیسے پورا کر سکتی ہے؟
۲ ایمان کی آزمائشوں یا امتحانات میں سے گزرتے وقت ہمارے خوشی حاصل کرنے کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ان سے اچھے نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔ جیسے یعقوب کہتا ہے، آزمائشوں یا مشکلات کی صورت میں ہمت نہ ہارنا ”برداشت پیدا“ کرتا ہے۔ ہم اس قابلِقدر مسیحی خوبی کو پیدا کرنے سے فائدہ اُٹھا سکتے ہیں۔ یعقوب نے لکھا: ”صبر [”برداشت،“ اینڈبلیو] کو اپنا کام پورا کرنے دو تاکہ تم پورے اور کامل ہو جاؤ اور تم میں کسی بات کی کمی نہ رہے۔“ (یعقوب ۱:۴) برداشت کا ایک خاص فعل، ایک ”کام“ ہے۔ اسکی تفویض خوب پُختہ مسیحی بننے میں ہماری مدد کرتے ہوئے، ہمیں ہر لحاظ سے کامل بنانا ہے۔ لہٰذا، آزمائشوں کو غیرصحیفائی ذرائع استعمال کرنے سے فوراً ختم کرنے کی کوششوں کے بغیر اُنہیں اپنا کام کرنے کی اجازت دینے سے ہمارے ایمان کی آزمائش ہوتی ہے جس سے یہ خالص ہو جاتا ہے۔ اگر حالات سے نپٹنے یا ساتھی انسانوں کیساتھ برتاؤ میں ہمیں تحمل، رحم، شفقت یا محبت کے فقدان کا سامنا ہے تو برداشت ہمیں مزید کامل بنا سکتی ہے۔ جیہاں، ترتیب یہ ہے: آزمائشیں برداشت پیدا کرتی ہیں؛ برداشت مسیحی خوبیوں کو بڑھاتی ہے؛ یہ خوشی کا باعث ہیں۔—۱-پطرس ۴:۱۴؛ ۲-پطرس ۱:۵-۸۔
۳. ہمیں ایمان کی آزمائشوں یا امتحانات سے ڈر کر پیچھے کیوں نہیں ہٹنا چاہئے؟
۳ پطرس رسول نے بھی اس بات کو اُجاگر کِیا کہ ہمیں اپنے ایمان کی آزمائشوں سے ڈرنے یا پیچھے ہٹنے کی ضرورت کیوں نہیں۔ اُس نے تحریر کِیا: ”اِسکے سبب سے تم خوشی مناتے ہو۔ اگرچہ اب چند روز کے لئے ضرورت کی وجہ سے طرح طرح کی آزمایشوں کے سبب سے غمزدہ ہو۔ اور یہ اسلئے ہے کہ تمہارا آزمایا ہوا ایمان جو آگ سے آزمائے ہوئے فانی سونے سے بھی بہت ہی بیشقیمت ہے یسوؔع مسیح کے ظہور کے وقت تعریف اور جلال اور عزت کا باعث ٹھہرے۔“ (۱-پطرس ۱:۶، ۷) یہ الفاظ اب خاص طور پر حوصلہافزا ہیں کیونکہ ”بڑی مصیبت“—حمد، جلال، تعظیم اور بقا کا وقت—بہتیروں کی سوچ سے بھی زیادہ قریب ہے اور اُس وقت سے بھی زیادہ قریب ہے جب ہم ایماندار بنے تھے۔—متی ۲۴:۲۱؛ رومیوں ۱۳:۱۱، ۱۲۔
۴. ایک بھائی نے اپنے اور دیگر ممسوح مسیحیوں کے تجربے میں آنے والی آزمائشوں کی بابت کیسا محسوس کِیا تھا؟
۴ پچھلے مضمون میں، ہم نے اُن آزمائشوں پر غور کِیا تھا جن کا ممسوح بقیے کو ۱۹۱۴ سے سامنا رہا تھا۔ یہ خوشی کا باعث کیوں تھیں؟ اے. ایچ. میکملن نے ماضی کی روشنی میں یہ خیال پیش کِیا: ”مَیں نے تنظیم پر بہت سی شدید آزمائشوں کو آتے اور اس کے ارکان کے ایمان کو امتحانات میں سے گزرتے دیکھا ہے۔ خدا کی روح کی مدد سے یہ بچ نکلی اور ترقی کرتی رہی ہے۔ مَیں نے کسی نئے خیال سے برہم ہو جانے کی بجائے صحیفائی معاملات کے سلسلے میں اپنی سمجھ کو واضح کرنے کے لئے صبر سے یہوواہ پر آس لگانے کی حکمت کو جان لیا ہے۔ . . . وقتاًفوقتاً ہمیں اپنے نظریات میں خواہ کتنا بھی ردوبدل کرنا پڑے اس سے فدیے اور ابدی زندگی کے خدا کے وعدے کی مشفقانہ فراہمی میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوگی۔ لہٰذا ہمیں غیرتکمیلشُدہ توقعات یا نظریات میں تبدیلیوں سے اپنے ایمان کو کمزور کر لینے کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔“—دی واچٹاور، اگست ۱۵، ۱۹۶۶، صفحہ ۵۰۴۔
۵. (ا) بقیے کا آزمائشوں میں سے گزرنا کن فوائد پر منتج ہوا تھا؟ (ب) آزمائش کا معاملہ اب ہمارے لئے دلچسپی کا حامل کیوں ہے؟
۵ ممسوح مسیحی جو ۱۹۱۴-۱۹۱۹ کے آزمائشی دَور سے بچ نکلے وہ دُنیا کے مغلوب کرنے والے اثر اور بابلی مذہبی رسومات سے آزاد ہو گئے۔ بقیہ خوشی کیساتھ خدا کے حضور حمد کی قربانیاں چڑھاتے ہوئے اور اس بات کا یقین رکھتے ہوئے کہ اُنہیں اُسکی مقبولیت حاصل ہے ایک پاکصاف اور خالص اُمت کے طور پر آگے بڑھتا رہا۔ (یسعیاہ ۵۲:۱۱؛ ۲-کرنتھیوں ۶:۱۴-۱۸) عدالت خدا کے گھر سے شروع ہو چکی تھی مگر یہ ایک مُتعیّنہ عرصے میں مکمل نہیں ہوگی۔ خدا کے لوگوں کی آزمائش اور جانچ جاری رہتی ہے۔ آنے والی ”بڑی مصیبت“ سے ”بڑی بِھیڑ“ کے حصے کے طور پر زندہ بچ نکلنے کی اُمید رکھنے والوں کے ایمان کی بھی آزمائش ہو رہی ہے۔ (مکاشفہ ۷:۹، ۱۴) ممسوح بقیے کے تجربے میں آنے والے طریقوں اور دیگر طریقوں سے بھی ایسا ہو رہا ہے۔
آپ کی آزمائش کیسے ہو سکتی ہے؟
۶. کڑی آزمائش کی ایک صورت کیا ہے جسکا بہتیروں کو تجربہ ہوا ہے؟
۶ بہتیرے مسیحیوں نے براہِراست حملوں کی صورت میں آزمائشوں کا سامنا کرنے کے چیلنج کا تصور کِیا ہے۔ وہ اس رپورٹ کو یاد کرتے ہیں: ”[یہودی پیشواؤں] نے . . . رسولوں کو پاس بلا کر اُنکو پٹوایا اور یہ حکم دے کر چھوڑ دیا کہ یسوؔع کا نام لیکر بات نہ کرنا۔ پس وہ عدالت سے اس بات پر خوش ہو کر چلے گئے کہ ہم اُس نام کی خاطر بےعزت ہونے کے لائق تو ٹھہرے۔“ (اعمال ۵:۴۰، ۴۱) نیز خدا کے لوگوں کی جدید تاریخ، بالخصوص عالمی جنگوں کے درمیان، یہ عیاں ہے کہ بہتیرے یہوواہ کے گواہوں کو سچمچ اذیت پہنچانے والوں کے ہاتھوں مارپیٹ اور اس سے بھی بدتر سلوک کا تجربہ ہوا۔
۷. دورِحاضر کے بعض مسیحیوں نے کس حد تک ایمان کا مظاہرہ کِیا ہے؟
۷ مسیحیوں کو اذیت کا نشانہ بنانے کے سلسلے میں، دُنیا ممسوح بقیے اور ”دوسری بھیڑوں“ کی بڑی بِھیڑ میں کوئی امتیاز نہیں کرتی۔ (یوحنا ۱۰:۱۶، اینڈبلیو) سالوں کے دوران، ان دونوں گروہوں کے ارکان کو خدا کیلئے محبت اور اُس پر ایمان کی وجہ سے قیدوبند حتیٰکہ شہید کر دئے جانے کی سخت آزمائش کا سامنا ہوا ہے۔ اپنی اُمید سے قطعنظر، دونوں گروہوں کو خدا کی روح کی ضرورت رہی ہے۔ (مقابلہ کریں دی واچٹاور، جون ۱۵، ۱۹۹۶، صفحہ ۳۱۔) نازی جرمنی میں ۱۹۳۰ اور ۱۹۴۰ کے عشروں کے دوران، بچوں سمیت یہوواہ کے بہت سے خادموں نے غیرمعمولی ایمان کا مظاہرہ کِیا اور بہتیرے آخری دم تک آزمائے گئے۔ حالیہ وقتوں میں، یہوواہ کے لوگوں نے ایتھوپیا، ایریٹریا، برونڈی، روانڈا، زائر، سنگاپور، ملاوی، اور موزمبیق جیسے ممالک میں اذیت کی آزمائش کا سامنا کِیا ہے۔ تاہم ایسی آزمائشیں ابھی بھی جاری ہیں۔
۸. ایک افریقی بھائی کے بیانات سے کیسے ظاہر ہوتا ہے کہ ہمارے ایمان کی آزمائش میں مارپیٹ کی صورت میں اذیت برداشت کرنے سے زیادہ کچھ شامل ہے؟
۸ چنانچہ، جیساکہ پہلے بیان کِیا گیا ہے، ہمارا ایمان بہت سے پوشیدہ طریقوں سے بھی آزمایا جا رہا ہے۔ بعض آزمائشیں بالکل براہِراست اور بآسانی قابلِشناخت نہیں ہوتیں۔ غور کریں کہ آپ نے درجذیل بعض آزمائشوں کے لئے کیسا جوابیعمل دکھایا ہوتا۔ انگولا کا ایک بھائی جس کے دس بچے ہیں ایک ایسی کلیسیا میں تھا جسکا کچھ عرصے کے لئے ذمہدار بھائیوں سے رابطہ منقطع ہو گیا تھا۔ بعدازاں دوسروں کے لئے اس کلیسیا میں جانا ممکن ہوا۔ اُس سے پوچھا گیا کہ اُس نے اپنے خاندان کی کفالت کیسے کی۔ اُس کے لئے جواب دینا آسان نہ تھا اس لئے اُس نے محض اتنا کہا کہ صورتحال بہت مشکل تھی۔ کیا وہ اپنے بچوں کو دن میں ایک مرتبہ بھی کھانا کھلانے کے قابل تھا؟ اُس نے جواب دیا: ”بہرکیف، بمشکل۔ جوکچھ ہمارے پاس ہے ہم نے اُسی پر قناعت کرنا سیکھ لیا ہے۔“ پھر پُراعتماد آواز سے اُس نے کہا: ”لیکن کیا ہم ان آخری ایّام میں اسی بات کی توقع نہیں کرتے؟“ ایسا ایمان دُنیا میں تو غیرمعمولی ہی ہے مگر بادشاہتی وعدوں کے پورا ہونے پر پورا بھروسہ رکھنے والے وفادار مسیحیوں میں یہ غیرمعمولی نہیں ہے۔
۹. ہم ۱-کرنتھیوں ۱۱:۳ کے سلسلے میں کیسے آزمائے جا رہے ہیں؟
۹ بڑی بِھیڑ کی تھیوکریٹک طریقۂکار کے سلسلے میں بھی آزمائش ہوئی ہے۔ عالمگیر مسیحی کلیسیا کی الہٰی اُصولوں اور تھیوکریٹک معیاروں کے مطابق راہنمائی کی جاتی ہے۔ اسکا مطلب سب سے پہلے یسوع مسیح کو پیشوا تسلیم کرنا ہے جسے کلیسیا کا سردار مقرر کِیا گیا ہے۔ (۱-کرنتھیوں ۱۱:۳) اُسکے اور اُسکے باپ کیلئے رضامندانہ اطاعت تھیوکریٹک تقرریوں اور متحد ہو کر یہوواہ کی مرضی بجا لانے سے متعلق فیصلوں پر ہمارے ایمان سے ظاہر ہوتی ہے۔ مزیدبرآں، ہر مقامی کلیسیا میں پیشوائی کیلئے آدمی مقرر کئے گئے ہیں۔ وہ ناکامل انسان ہیں جنکی غلطیاں ہمیں بآسانی دکھائی دے سکتی ہیں؛ پھر بھی ہمیں ایسے نگہبانوں کی عزت اور اطاعت کرنے کی تاکید کی گئی ہے۔ (عبرانیوں ۱۳:۷، ۱۷) کیا آپ کو بعضاوقات یہ کٹھن معلوم ہوتا ہے؟ کیا یہ واقعی آپ کیلئے ایک آزمائش ہے؟ اگر ایسا ہے تو کیا آپ اپنے ایمان کی اس آزمائش سے مستفید ہو رہے ہیں؟
۱۰. میدانی خدمتگزاری کے معاملے میں ہم کس آزمائش کا سامنا کرتے ہیں؟
۱۰ ہم میدانی خدمت میں باقاعدگی سے شرکت کرنے کے استحقاق اور تقاضے کے سلسلے میں بھی آزمائے جاتے ہیں۔ اس آزمائش میں کامیاب ہونے کیلئے ہمیں یہ تسلیم کرنا پڑیگا کہ خدمتگزاری میں بھرپور شرکت کرنے میں منادی کی نہایت کم یا برائےنام مقدار سے زیادہ کچھ شامل ہے۔ اُس غریب بیوہ کی بابت یسوع کے تعریفی بیان کو یاد کریں جس نے اپنا سب کچھ دے ڈالا۔ (مرقس ۱۲:۴۱-۴۴) ہم خود سے پوچھ سکتے ہیں، ’کیا مَیں بھی اسی طرح میدانی خدمتگزاری کیلئے اپنا سب کچھ دے رہا ہوں؟‘ ہم سب اپنی روشنی چمکانے کے ہر موقع کیلئے تیار، ہمہوقت یہوواہ کے گواہ ہیں۔—متی ۵:۱۶۔
۱۱. سمجھ میں ردوبدل یا چالچلن کی بابت مشورت کیسے ایک آزمائش ہو سکتی ہے؟
۱۱ ہمیں درپیش ایک اَور آزمائش کا تعلق بائبل سچائی پر ڈالی جانے والی اضافی روشنی اور دیانتدار نوکر جماعت کی طرف سے فراہمکردہ مشورت کیلئے ہماری قدردانی کی حد سے ہے۔ (متی ۲۴:۴۵) بعضاوقات یہ ذاتی چالچلن میں ردوبدل کا تقاضا کرتی ہے، جیساکہ اُس وقت ہوا جب یہ وضاحت کی گئی کہ تمباکو استعمال کرنے والے اگر کلیسیا میں رہنا چاہتے ہیں تو اُنہیں اِسے ترک کرنا ہوگا۔a (۲-کرنتھیوں ۷:۱) یا شاید آزمائش موسیقی یا دیگر اقسام کی تفریح کیلئے اپنے ذوق میں تبدیلی پیدا کرنے کی ضرورت کو تسلیم کرنے کی صورت میں بھی آ سکتی ہے۔b کیا ہم پیشکردہ مشورت کی حکمت پر اعتراض کرینگے؟ یا کیا ہم خدا کی روح کو اپنے اندازِفکر کی اصلاح کرنے اور نئی مسیحی انسانیت پہننے میں اپنی مدد کرنے دینگے؟—افسیوں ۴:۲۰-۲۴؛ ۵:۳-۵۔
۱۲. کسی شخص کے بپتسمہ لینے کے بعد ایمان کو مضبوط کرنے کیلئے کیا چیز درکار ہے؟
۱۲ کئی عشروں سے، بڑی بِھیڑ کے ارکان کی تعداد بڑھ رہی ہے اور اپنے بپتسمے کے بعد وہ یہوواہ کیساتھ اپنے رشتے کو مسلسل مضبوط کر رہے ہیں۔ اس میں مسیحی اسمبلی پر حاضر ہونے، کنگڈم ہال میں چند ایک اجلاسوں پر جانے یا کبھیکبھار میدانی خدمت میں حصہ لینے سے زیادہ کچھ شامل ہے۔ مثلاً: شاید کوئی شخص جسمانی طور پر تو بڑے بابل، جھوٹے مذہب کی عالمی مملکت سے باہر ہو لیکن کیا اُس نے واقعی اُسے چھوڑ دیا ہے؟ کیا وہ ابھی تک اُن چیزوں سے لپٹا ہوا ہے جو بڑے بابل کی روح کی عکاسی کرتی ہیں—ایسی روح جو خدا کے راست معیاروں کی تحقیر کرتی ہے؟ کیا وہ جنسی اخلاقیات اور ازدواجی وفاداری کو معمولی خیال کرتا ہے؟ کیا وہ ذاتی اور مادی مفادات کو روحانی مفادات سے زیادہ اہم سمجھتا ہے؟ مزیدبرآں، کیا اُس نے اپنے آپ کو دُنیا سے بیداغ رکھا ہے؟—یعقوب ۱:۲۷۔
آزمودہ ایمان سے مستفید ہوں
۱۳، ۱۴. بعض نے سچی پرستش کی راہ پر چلنا شروع کرنے کے بعد کیا کِیا ہے؟
۱۳ اگر ہم واقعی بڑے بابل سے بھاگ آئے ہیں اور دُنیا سے بھی نکل آئے ہیں تو آئیے پھر پیچھے کی چیزوں پر دھیان نہ دیں۔ لوقا ۹:۶۲ میں درج اُصول کے مطابق، ہم میں سے ہر ایک کا پیچھے مڑ کر دیکھنا خدا کی بادشاہت کی رعایا بننے کے شرف کو کھو دینے کے مترادف ہے۔ یسوع نے کہا: ”جو کوئی اپنا ہاتھ ہل پر رکھ کر پیچھے دیکھتا ہے وہ خدا کی بادشاہی کے لائق نہیں۔“
۱۴ تاہم ماضی میں مسیحی بننے والے بعض لوگوں نے اُس وقت سے ہی خود کو اس جہان کا ہمشکل بنا لیا ہے۔ اُنہوں نے دُنیا کی روح کی مزاحمت نہیں کی۔ (۲-پطرس ۲:۲۰-۲۲) دُنیاوی رنگرلیاں اُنکی دلچسپی اور وقت پر قبضہ کرتے ہوئے اُنکی ترقی کی راہ میں حائل ہوئی ہیں۔ اپنے دلودماغ کو پوری طرح خدا کی بادشاہت اور اُسکی راستبازی پر مرکوز رکھتے ہوئے انہیں اپنی زندگی میں مقدم رکھنے کی بجائے وہ مادہپرستانہ نصبالعین کے حصول کی راہ پر چل نکلے ہیں۔ جبتک وہ اپنے کمزور ایمان اور نیمگرم حالت کو تسلیم کرنے کی تحریک نہیں پاتے اور الہٰی مشورت کے طالب ہونے سے اپنی روش کو نہیں بدلتے وہ یہوواہ اور اُسکی تنظیم کیساتھ اپنے بیشقیمت رشتے کو کھو دینے کے خطرے میں رہتے ہیں۔—مکاشفہ ۳:۱۵-۱۹۔
۱۵. خدا کے نزدیک مقبول رہنے کیلئے کس چیز کی ضرورت ہوتی ہے؟
۱۵ ہمارے پسندیدہ حیثیت حاصل کرنے اور تیزی سے نزدیک آتی ہوئی بڑی مصیبت سے زندہ بچ نکلنے کے لائق ٹھہرنے کا دارومدار پاکصاف رہنے، اپنے جامے ’برّہ کے خون سے دھونے‘ پر ہے۔ (مکاشفہ ۷:۹-۱۴؛ ۱-کرنتھیوں ۶:۱۱) اگر ہم خدا کے حضور پاکصاف، راست حیثیت برقرار نہیں رکھتے تو ہماری پاک خدمت قابلِقبول نہیں ہوگی۔ یقیناً، ہم میں سے ہر ایک کو یہ تسلیم کرنا چاہئے کہ ایمان کی آزمودہ خوبی ہمیں برداشت کرنے اور خدا کی ناراضگی مول لینے سے گریز کرنے میں مدد دیگی۔
۱۶. کن طریقوں سے دروغگوئیاں ہمارے ایمان کی آزمائش ثابت ہو سکتی ہیں؟
۱۶ بعضاوقات، نیوز میڈیا اور دُنیاوی حکام ہمارے مسیحی اعتقادات اور طرزِزندگی کی بابت غلطبیانی کرتے ہوئے، خدا کے لوگوں پر جھوٹے لیبل لگاتے ہیں۔ اس سے ہمیں حیران نہیں ہونا چاہئے کیونکہ یسوع صاف طور پر بیان کرتا ہے کہ ’دُنیا ہم سے نفرت کریگی کیونکہ ہم اسکا حصہ نہیں ہیں۔‘ (یوحنا ۱۷:۱۴) کیا ہم شیطان کے ہاتھوں اندھے ہو جانے والے لوگوں کو ہمیں ڈرانے اور بےحوصلہ کرنے اور ہمارے اندر خوشخبری سے شرمانے کا احساس پیدا کرنے کی اجازت دینگے؟ کیا ہم سچائی کی بابت دروغگوئیوں کو اس بات کی اجازت دینگے کہ ہماری اجلاسوں پر باقاعدہ حاضری اور ہماری منادی کی کارگزاری کو متاثر کرے؟ یا کیا ہم ثابتقدم رہینگے اور یہوواہ اور اُسکی بادشاہت کی بابت سچائی کا اعلان کرتے رہنے کیلئے پہلے سے بھی زیادہ دلیر اور پُرعزم رہینگے؟
۱۷. کونسی یقیندہانی ہمیں ایمان کا مظاہرہ کرتے رہنے کی تحریک دے سکتی ہے؟
۱۷ تکمیلشُدہ بائبل پیشینگوئی کے مطابق، اب ہم اخیر زمانہ کے بالکل آخری ایّام میں رہ رہے ہیں۔ نئی راستباز دُنیا کیلئے بائبل پر مبنی ہماری توقعات کا خوشکُن حقیقت بننا یقینی ہے۔ جبتک وہ دن نہیں آ جاتا، دُعا ہے کہ ہم سب خدا کے کلام پر غیرمتزلزل ایمان کا مظاہرہ کریں اور پوری دُنیا میں بادشاہت کی خوشخبری کی منادی کرنے میں ہمت نہ ہارنے سے اپنے ایمان کا ثبوت پیش کریں۔ ہر ہفتے بپتسمہ پانے والے ہزاروں نئے شاگردوں کی بابت سوچیں۔ اس بات کی قدر کرنے کیلئے یہ وجہ کافی نہیں ہے کہ اپنی عدالتی کارروائی کے سلسلے میں یہوواہ کا صبر اَور بہت سے لوگوں کی نجات کا باعث بن سکتا ہے؟ کیا ہم خوش نہیں ہیں کہ خدا نے زندگی بچانے والی بادشاہتی منادی کی کارگزاری کو جاری رہنے کی اجازت دے رکھی ہے؟ نیز کیا ہم خوش نہیں ہیں کہ لاکھوں نے سچائی کو قبول کر لیا ہے اور اپنے ایمان کا مظاہرہ کر رہے ہیں؟
۱۸. یہوواہ کی خدمت کرنے کے سلسلے میں آپ کا عزمِمُصمم کیا ہے؟
۱۸ ہمارے ایمان کی موجودہ آزمائش کب تک جاری رہیگی ہم کچھ نہیں کہہ سکتے۔ تاہم ایک بات تو یقینی ہے: یہوواہ نے موجودہ بدکار آسمانوں اور زمین کے احتساب کیلئے ایک دن طے کر رکھا ہے۔ اس اثنا میں، آئیے ہمارے ایمان کو کامل کرنے والے، یسوع کے آزمودہ ایمان کی نہایت شاندار خوبی کی نقل کرنے کا عزمِمُصمم کریں۔ نیز آئیے عمررسیدہ ممسوح بقیے اور اپنے درمیان دلیرانہ خدمت انجام دینے والے دیگر لوگوں کے نمونے کی پیروی کریں۔
۱۹. آپکے خیال میں کونسی چیز یقینی طور پر اس دُنیا پر فتح پا سکتی ہے؟
۱۹ ہمارا عزمِمُصمم ہونا چاہئے کہ آسمان کے بیچ اُڑنے والے فرشتے کے ساتھ ملکر ہمت ہارے بغیر ہر قوم، قبیلہ، اہلِزبان اور اُمت میں ابدی خوشخبری کا اعلان کریں۔ اُنہیں اس ملکوتی پیغام کو سننے کا موقع دیں: ”خدا سے ڈرو اور اُس کی تمجید کرو کیونکہ اُس کی عدالت کا وقت آ پہنچا ہے۔“ (مکاشفہ ۱۴:۶، ۷) جب یہ الہٰی عدالت عمل میں لائی جاتی ہے توپھر ہمارے ایمان کی آزمودہ خوبی کا کیا انجام ہوگا؟ کیا یہ شاندار فتح نہیں ہوگی—موجودہ نظامالعمل سے خدا کی راست نئی دُنیا میں مخلصی؟ اپنے ایمان کی آزمائشوں کو برداشت کرنے سے، ہم یوحنا رسول کی طرح یہ کہنے کے لائق ہونگے: ”وہ غلبہ جس سے دُنیا مغلوب ہوئی ہے ہمارا ایمان ہے۔“—۱-یوحنا ۵:۴۔
[فٹنوٹ]
a دیکھیں دی واچٹاور جون ۱، ۱۹۷۳، صفحات ۳۳۶-۳۴۳ اور جولائی ۱، ۱۹۷۳، صفحات ۴۰۹-۴۱۱۔
b دیکھیں دی واچٹاور جولائی ۱۵، ۱۹۸۳، صفحات ۲۷-۳۱۔
کیا آپ کو یاد ہے؟
◻یہ کیونکر ممکن ہے کہ ہمارے ایمان کی آزمائشیں خوشی کا باعث ہو سکتی ہیں؟
◻ہمارے ایمان کی بعض ایسی آزمائشیں کونسی ہیں جنکی بآسانی شناخت نہیں ہو سکتی؟
◻کامیابی سے اپنے ایمان کی آزمائشیں برداشت کرنے سے ہم کیسے مستفید ہو سکتے ہیں؟
[صفحہ 15 پر تصویریں]
اے. ایچ. میکملن (آگے بائیں طرف) تقریباً اُس وقت جب اُنہیں اور واچ ٹاور سوسائٹی کے اہلکاروں کو غیرمنصفانہ طور پر قید میں ڈال دیا گیا
اُسے ۱۹۲۸ میں ڈیٹرویٹ، مشیگن کنونشن پر بطور نمائندہ بھیجا گیا
اپنے آخری سالوں میں بھی بھائی میکملن ایمان کا مظاہرہ کرتے رہے
[صفحہ 16 پر تصویر]
اس خاندان کی طرح، افریقہ میں بہتیرے مسیحیوں نے ایمان کی آزمودہ خوبی کا مظاہرہ کِیا ہے