’دُعا کرنے کے لئے تیار رہیں‘
”ہوشیار رہو اور دُعا کرنے کے لئے تیار۔“—۱-پطر ۴:۷۔
۱، ۲. (الف) یہ کیوں ضروری ہے کہ ہم ”دُعا کرنے کے لئے تیار“ رہیں؟ (ب) ہمیں دُعا کے سلسلے میں خود سے کونسے سوال پوچھنے چاہئیں؟
ایک شخص جو پہلے رات کی ڈیوٹی کرتا تھا، اُس نے کہا: ”رات کے آخری پہر میں جاگتے رہنا بہت ہی مشکل ہوتا ہے۔“ اَور بھی بہت سے لوگ جو رات کی ڈیوٹی کرتے ہیں، وہ اِس بات سے متفق ہوں گے۔ ہمارا زمانہ بھی رات کے آخری پہر کی طرح ہے۔ شیطان کی دُنیا اپنے سب سے تاریک دَور سے گزر رہی ہے اور بس ختم ہونے ہی والی ہے۔ اِس لئے مسیحیوں کو جاگتے رہنے کی سخت کوشش کرنی چاہئے۔ (روم ۱۳:۱۲) اِس آخری گھڑی میں روحانی لحاظ سے سو جانا خطرے سے خالی نہیں۔ لہٰذا یہ بہت اہم ہے کہ ہم ’ہوشیار رہیں اور دُعا کرنے کے لئے تیار‘ رہیں۔—۱-پطر ۴:۷۔
۲ چونکہ اِس دُنیا کا خاتمہ بہت نزدیک ہے اِس لئے ہمیں خود سے پوچھنا چاہئے: ”میری زندگی میں دُعا کرنا کس قدر اہم ہے؟ کیا مَیں ہر طرح کی دُعا کرتا ہوں اور کیا مَیں بِلاناغہ دُعا کرتا ہوں؟ کیا مَیں اکثر دوسروں کے لئے بھی دُعا کرتا ہے یا صرف اپنے لئے؟ دُعا کرنے کا میری نجات سے کیا تعلق ہے؟“
ہر طرح کی دُعا کرتے رہیں
۳. ہم کس کس طرح کی دُعا کر سکتے ہیں؟
۳ پولسُ رسول نے شہر اِفسس میں رہنے والے مسیحیوں سے کہا: ’ہر طرح سے دُعا کرتے رہو۔‘ (افس ۶:۱۸) بائبل کے بعض ترجموں میں اِس آیت میں لکھا ہے کہ ہر طرح کی دُعا کرتے رہو۔ ہم اپنی دُعاؤں میں اکثر خدا سے یہ درخواست کرتے ہیں کہ وہ ہماری ضروریات پوری کرے اور ہمیں مشکلات سے نپٹنے کی ہمت دے۔ بائبل میں بتایا گیا ہے کہ یہوواہ خدا ’دُعا کا سننے والا‘ ہے۔ اِس لئے جب ہم اُس سے مدد کی درخواست کرتے ہیں تو وہ خوشی سے ہماری مدد کرتا ہے۔ (زبور ۶۵:۲) لیکن ہمیں اَور طرح کی دُعائیں بھی کرنی چاہئیں۔ مثال کے طور پر ہم خدا کی حمد کر سکتے ہیں، اُس کی شکرگزاری کر سکتے ہیں اور اُس سے مِنت کر سکتے ہیں۔
۴. ہمیں یہوواہ خدا کی حمد کیوں کرتے رہنا چاہئے؟
۴ بہت سی ایسی وجوہات ہیں جن کی بِنا پر ہمیں یہوواہ خدا کی حمد کرنی چاہئے۔ مثال کے طور پر جب ہم خدا کی ”قدرت کے کاموں“ اور ”اُس کی بڑی عظمت“ پر غور کرتے ہیں تو ہمیں اُس کی حمد کرنے کی ترغیب ملتی ہے۔ (زبور ۱۵۰:۱-۶ کو پڑھیں۔) زبور ۱۵۰ کی صرف ۶ آیتیں ہیں لیکن اِن میں ۱۳ بار یہوواہ خدا کی حمد کرنے کے لئے کہا گیا ہے۔ ایک اَور زبور نویس نے خدا کے لئے اپنی محبت کو ظاہر کرتے ہوئے کہا: ”مَیں تیری صداقت کے احکام کے سبب سے دن میں سات بار تیری ستایش کرتا ہوں۔“ (زبور ۱۱۹:۱۶۴) واقعی یہوواہ خدا تمام حمد اور ستائش کا حقدار ہے۔ اِس لئے ہمیں ”دن میں سات بار“ یعنی دن میں اکثر اُس کی حمد کرنی چاہئے۔
۵. یہ کیوں اہم ہے کہ ہم یہوواہ خدا کا شکر ادا کرتے رہیں؟
۵ یہوواہ خدا کی شکرگزاری کرنا بھی اہم ہے۔ پولسُ رسول نے شہر فِلپّی میں رہنے والے مسیحیوں کو نصیحت کی: ”کسی بات کی فکر نہ کرو بلکہ ہر ایک بات میں تمہاری درخواستیں دُعا اور مِنت کے وسیلہ سے شکرگذاری کے ساتھ خدا کے سامنے پیش کی جائیں۔“ (فل ۴:۶) اِس آخری زمانے میں بہت سے لوگ ناشکرے ہیں۔ (۲-تیم ۳:۱، ۲) اِس لئے ہمیں خبردار رہنا چاہئے کہ کہیں ہم اِن لوگوں جیسے نہ بن جائیں۔ اگر ہم خدا کی نعمتوں کے لئے اُس کا شکر ادا کرتے رہتے ہیں تو ہم خوش اور مطمئن رہتے ہیں اور اپنے حالات کے بارے میں ”بڑبڑانے والے اور شکایت کرنے والے“ نہیں بنتے۔ (یہوداہ ۱۶) اِس کے علاوہ جب ایک خاندان کا سربراہ اپنے گھر والوں کے ساتھ دُعا کرتے وقت یہوواہ خدا کا شکرادا کرتا ہے تو اُس کے بیویبچوں میں بھی شکرگزاری کا جذبہ فروغ پاتا ہے۔
۶، ۷. (الف) مِنت سے کیا مراد ہے؟ (ب) ہم خدا سے کن معاملوں کے بارے میں مِنت کر سکتے ہیں؟
۶ ہم خدا سے مِنت بھی کر سکتے ہیں۔ مِنت سے مراد دراصل دل کی گہرائیوں سے خدا کے حضور اِلتجا کرنا ہے۔ ہم خدا سے کن معاملوں کے بارے میں مِنت کر سکتے ہیں؟ جب ہم پر اذیت آتی ہے یا پھر ہم کسی سنگین بیماری میں مبتلا ہوتے ہیں تو ہم خدا سے مِنت کر سکتے ہیں کہ وہ ہمیں سنبھالے۔ ایسے موقعوں پر ہم واقعی دل کی گہرائیوں سے خدا سے اِلتجا کرتے ہیں۔ لیکن ہم اَور معاملوں کے بارے میں بھی خدا سے مِنت کر سکتے ہیں۔
۷ اِس سلسلے میں اُس دُعا پر غور کریں جو یسوع مسیح نے اپنے شاگردوں کو سکھائی تھی۔ اِس دُعا میں اُنہوں نے خدا کے نام، اُس کی بادشاہت اور اُس کی مرضی کے حوالے سے کچھ باتیں کہیں۔ (متی ۶:۹، ۱۰ کو پڑھیں۔) یہ دُنیا بُرائی کی دَلدل میں دھنسی ہوئی ہے اور حکومتیں اپنے شہریوں کی بنیادی ضروریات بھی پوری کرنے سے قاصر ہیں۔ ایسی صورت میں ہمیں اپنے آسمانی باپ سے مِنت کرنی چاہئے کہ اُس کا نام پاک ہو اور وہ اپنی بادشاہت کے ذریعے اِس زمین سے شیطان کے اثر کو مٹائے۔ اِس آخری وقت میں ہمیں خدا سے یہ مِنت بھی کرنی چاہئے کہ جیسے اُس کی مرضی آسمان پر ہو رہی ہے ویسے ہی زمین پر بھی ہو۔ آئیں، یہ عزم کریں کہ ہم ہر طرح کی دُعا کرنے میں مشغول رہیں گے۔
باقاعدگی سے دُعا کریں
۸، ۹. ہمیں پطرس رسول اور اُن کے ساتھیوں پر تنقید کیوں نہیں کرنی چاہئے؟
۸ اگرچہ پطرس رسول نے مسیحیوں کو نصیحت کی کہ وہ ”دُعا کرنے کے لئے تیار“ رہیں پھر بھی کمازکم ایک بار وہ خود ایسا کرنے میں ناکام رہے۔ جب یسوع مسیح اپنے شاگردوں کے ساتھ گتسمنی باغ میں تھے تو وہ پطرس اور دیگر دو شاگردوں کو ساتھ لے کر دُعا کرنے گئے۔ یسوع مسیح نے اُن تینوں کو تاکید کی تھی کہ وہ جاگتے رہیں اور دُعا کرتے رہیں۔ پھر بھی وہ سو گئے۔a—متی ۲۶:۴۰-۴۵ کو پڑھیں۔
۹ ہمیں پطرس رسول اور اُن کے دونوں ساتھیوں پر تنقید کرنے کی بجائے یہ یاد رکھنا چاہئے کہ اُس دن وہ سب اِنتہائی مصروف رہے تھے۔ اُنہوں نے عیدِفسح کی تیاری کی تھی اور پھر شام کو عید منائی تھی۔ اِس کے بعد یسوع مسیح نے اُنہیں ہدایات دیں کہ وہ اُن کی قربانی کی یادگاری تقریب کیسے منائیں گے۔ (۱-کر ۱۱:۲۳-۲۵) پھر وہ ”گیت گا کر باہر زیتون کے پہاڑ پر گئے۔“ وہاں تک پہنچنے کے لئے اُنہوں نے یروشلیم کی تنگ گلیوں سے گزرتے ہوئے کافی فاصلہ طے کِیا۔ (متی ۲۶:۳۰، ۳۶) جب وہ وہاں پہنچے تو شاید آدھی سے زیادہ رات گزر چکی تھی۔ اُس رات اگر ہم گتسمنی باغ میں ہوتے تو شاید ہم بھی سو جاتے۔ یسوع مسیح نے اپنے تھکےہارے شاگردوں کو ڈانٹنے کی بجائے یہ کہا: ”روح تو مستعد ہے مگر جسم کمزور ہے۔“
۱۰، ۱۱. (الف) گتسمنی باغ میں جو کچھ ہوا، اُس سے پطرس رسول نے کونسا سبق سیکھا؟ (ب) ہم پطرس رسول کی مثال سے کیا سیکھ سکتے ہیں؟
۱۰ گتسمنی باغ میں جو کچھ ہوا، اُس سے پطرس رسول نے بہت ہی اہم سبق سیکھا۔ اِس واقعے سے پہلے یسوع مسیح نے کہا تھا کہ ”تُم سب اِسی رات میری بابت ٹھوکر کھاؤ گے۔“ لیکن پطرس رسول نے کہا تھا: ”گو سب تیری بابت ٹھوکر کھائیں لیکن مَیں کبھی ٹھوکر نہ کھاؤں گا۔“ یسوع مسیح نے اُن سے کہا کہ ’تُم تین بار میرا اِنکار کرو گے۔‘ اِس پر پطرس رسول نے دعویٰ کِیا کہ ”اگر تیرے ساتھ مجھے مرنا بھی پڑے تو بھی تیرا اِنکار ہرگز نہ کروں گا۔“ (متی ۲۶:۳۱-۳۵) لیکن ہوا وہی جو یسوع مسیح نے کہا تھا۔ پطرس رسول نے واقعی تین بار یسوع مسیح کا اِنکار کِیا۔ لیکن تیسری بار اِنکار کرنے کے بعد اُنہیں اپنی غلطی کا احساس ہوا اور وہ ’زارزار روئے۔‘—لو ۲۲:۶۰-۶۲۔
۱۱ اِس واقعے سے پطرس رسول نے سیکھ لیا کہ حد سے زیادہ خوداعتمادی اچھی نہیں۔ اِس خامی پر قابو پانے میں دُعا نے اُن کی بڑی مدد کی ہوگی۔ اِس کا اِشارہ ہمیں اِس بات سے ملتا ہے کہ پطرس رسول نے ہی یہ نصیحت کی کہ ہمیں ”دُعا کرنے کے لئے تیار“ رہنا چاہئے۔ کیا ہم اِس نصیحت پر عمل کرتے ہیں؟ کیا ہم باقاعدگی سے دُعا کرتے ہیں اور یوں یہ ظاہر کرتے ہیں کہ ہم یہوواہ خدا پر پورا بھروسا رکھتے ہیں؟ (امثا ۳:۵، ۶) ہمیں پولسُ رسول کی اِس نصیحت کو بھی کبھی نہیں بھولنا چاہئے: ”جو کوئی اپنے آپ کو قائم سمجھتا ہے وہ خبردار رہے کہ گِر نہ پڑے۔“—۱-کر ۱۰:۱۲۔
خدا نے نحمیاہ کی دُعائیں سنیں
۱۲. نحمیاہ نے ہمارے لئے کونسی اچھی مثال قائم کی؟
۱۲ نحمیاہ بھی پورے دل سے یہوواہ خدا سے دُعا کرتے تھے۔ وہ پانچویں صدی قبلازمسیح میں فارس کے بادشاہ ارتخششتا کے ساقی تھے۔ وہ یروشلیم کی بدحالی سے پریشان ہو کر ’کئی دنوں سے روزہ رکھ رہے تھے اور خدا سے دُعا کر رہے تھے۔‘ (نحم ۱:۴) جب بادشاہ ارتخششتا نے اُن سے پوچھا کہ ”تیرا چہرہ کیوں اُداس ہے؟“ تو نحمیاہ نے اُنہیں یروشلیم کی صورتحال کے بارے میں بتایا۔ اِس کے بعد بادشاہ نے کہا: ”کس بات کے لئے تیری درخواست ہے؟“ نحمیاہ نے فوراً ”آسمان کے خدا سے دُعا کی۔“ (نحم ۲:۲-۴) اِس کا نتیجہ کیا نکلا؟ یہوواہ خدا نے نحمیاہ کی دُعا سنی اور حالات کا رُخ اِس طرح موڑا کہ اُن کی قوم کو بہت فائدہ ہوا۔ (نحم ۲:۵، ۶) اِس سے نحمیاہ کا ایمان اَور بھی مضبوط ہوا ہوگا۔
۱۳، ۱۴. ہمیں کیا کرنا چاہئے تاکہ ہمارا ایمان مضبوط رہے اور ہم شیطان کے حملوں کے خلاف اپنا دِفاع کر سکیں؟
۱۳ نحمیاہ کی طرح اگر ہم بھی باقاعدگی سے دُعا کرتے ہیں تو ہمارا ایمان مضبوط رہے گا۔ شیطان بہت ہی ظالم ہے اور اکثر ہم پر اُس وقت وار کرتا ہے جب ہم کسی لحاظ سے کمزور محسوس کر رہے ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر اگر ہم سخت بیمار ہیں یا پھر افسردہ ہیں تو شاید ہم یہ سوچنے لگیں کہ ہم مُنادی کے کام میں جو وقت صرف کرتے ہیں، خدا کی نظر میں اُس کی کوئی اہمیت نہیں۔ اِس کے علاوہ بعض بہنبھائیوں کے ماضی کے تلخ تجربات کبھیکبھار اُنہیں پریشان کر دیتے ہیں۔ شیطان چاہتا ہے کہ ہم یہ سوچنے لگیں کہ ہم کسی کام کے نہیں۔ وہ ہمارے حوصلے کو توڑنا چاہتا ہے اور ہمارے ایمان کو کھوکھلا کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ لیکن اگر ہم ”دُعا کرنے کے لئے تیار“ رہتے ہیں تو ہم اپنے ایمان کو ڈگمگانے نہیں دیں گے۔ واقعی ’ایمان کی سپر سے ہم شریر کے سب جلتے ہوئے تیروں کو بجھا سکتے ہیں۔‘—افس ۶:۱۶۔
۱۴ اگر ہم ”دُعا کرنے کے لئے تیار“ رہتے ہیں تو ہم اُس وقت بھی خدا کے وفادار رہیں گے جب اچانک کوئی ہمیں غلط کام کرنے پر اُکساتا ہے۔ کسی بھی مشکل صورتحال کا سامنا کرتے وقت ہمیں نحمیاہ کی مثال کو یاد رکھنا چاہئے اور فوراً یہوواہ خدا سے دُعا کرنی چاہئے۔ صرف یہوواہ خدا کی مدد سے ہی ہم اپنے ایمان کی آزمائش میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔
دوسروں کے لئے دُعا کریں
۱۵. ہمیں دوسروں کے لئے دُعا کرنے کے سلسلے میں کن سوالوں پر غور کرنا چاہئے؟
۱۵ یسوع مسیح نے پطرس رسول کے حق میں مِنت کی کہ اُن کا ایمان کمزور نہ پڑے۔ (لو ۲۲:۳۲) پہلی صدی کے ایک اَور مسیحی اِپفرَاس نے یسوع مسیح کی مثال پر عمل کِیا۔ وہ کُلسّے میں رہنے والے مسیحیوں کے لئے دُعا کِیا کرتے تھے۔ پولسُ رسول نے اُن مسیحیوں سے کہا: ”[اِپفرَاس] تمہارے لئے دُعا کرنے میں ہمیشہ جانفشانی کرتا ہے تاکہ تُم کامل ہو کر پورے اِعتقاد کے ساتھ خدا کی پوری مرضی پر قائم رہو۔“ (کل ۴:۱۲) ہمیں بھی خود سے پوچھنا چاہئے: ”کیا مَیں بھی اپنے تمام مسیحی بہنبھائیوں کے لئے دُعا کرنے میں ”جانفشانی“ کرتا ہوں؟ کیا مَیں اُن بہنبھائیوں کے لئے دُعا کرتا ہوں جو کسی قدرتی آفت کا شکار ہیں؟ کیا مَیں نے حال ہی میں اُن بھائیوں کے لئے دُعا کی ہے جو خدا کی تنظیم میں بھاری ذمےداریاں نبھا رہے ہیں؟ کیا مَیں نے حال ہی میں اپنی کلیسیا کے اُن رُکنوں کے لئے دُعا کی ہے جو کسی مشکل سے دوچار ہیں؟“
۱۶. کیا دوسروں کے لئے دُعا کرنا اہم ہے؟ وضاحت کریں۔
۱۶ جب ہم دوسروں کے لئے دُعا کرتے ہیں تو اُنہیں فائدہ ہوتا ہے۔ (۲-کرنتھیوں ۱:۱۱ کو فٹنوٹ سے پڑھیں۔b) جب بہت سے بہنبھائی باربار کلیسیا کے کسی رُکن کے لئے دُعا کرتے ہیں تو یہوواہ خدا اُنہیں جواب دینے کا پابند نہیں ہو جاتا۔ لیکن وہ اِس بات سے خوش ہوتا ہے کہ بہنبھائی ایک دوسرے کے لئے دُعا کرنے سے اپنی محبت اور فکرمندی ظاہر کرتے ہیں اور وہ اُن کی دُعا کا جواب دیتے وقت اِسی بات کو مدِنظر رکھتا ہے۔ لہٰذا ہمیں ایک دوسرے کے لئے دُعا کرنے کی ذمےداری کو سنجیدگی سے نبھانا چاہئے۔ اِپفرَاس کی طرح ہمیں اپنے بہنبھائیوں کے لئے دُعا کرنے میں ”جانفشانی“ کرنی چاہئے۔ یوں ہم ظاہر کریں گے کہ ہمیں اُن کی فکر ہے اور ہم اُن سے دلوجان سے محبت کرتے ہیں۔ اِس سے ہمیں خوشی بھی حاصل ہوگی کیونکہ پاک کلام میں لکھا ہے: ”لینے والے کی نسبت دینے والے کو زیادہ خوشی ملتی ہے۔“—اعما ۲۰:۳۵، نیو ورلڈ ٹرانسلیشن۔
”ہماری نجات نزدیک ہے“
۱۷، ۱۸. ”دُعا کرنے کے لئے تیار“ رہنے سے ہمیں کیا فائدہ ہوگا؟
۱۷ پولسُ رسول نے لکھا: ”رات بہت گذر گئی اور دن نکلنے والا ہے۔“ لیکن اِس سے پہلے اُنہوں نے کہا: ”وقت کو [پہچانو] . . . اِس لئے کہ اب وہ گھڑی آ پہنچی کہ تُم نیند سے جاگو کیونکہ جس وقت ہم ایمان لائے تھے اُس وقت کی نسبت اب ہماری نجات نزدیک ہے۔“ (روم ۱۳:۱۱، ۱۲) خدا کے وعدے کے مطابق یہ دُنیا بہت ہی جلد فردوس بننے والی ہے۔ ہماری نجات کا وقت اِتنا قریب آ گیا ہے جتنا ہم نے شاید سوچا بھی نہ ہو۔ لہٰذا اِس وقت ہمیں خبردار رہنا چاہئے کہ ہم روحانی لحاظ سے سو نہ جائیں اور دُنیا کے کاموں میں اِتنا مگن نہ ہو جائیں کہ ہمارے پاس دُعا کرنے کے لئے وقت ہی نہ بچے۔ اِس کی بجائے آئیں، ہم ”دُعا کرنے کے لئے تیار“ رہیں۔ یوں ہم یہوواہ خدا کا دن آنے سے پہلے اپنا چالچلن نیک رکھنے اور خدا کی مرضی کے مطابق چلنے کے قابل ہوں گے۔ (۲-پطر ۳:۱۱، ۱۲) اِس سے یہ ظاہر ہوگا کہ ہم روحانی طور پر جاگ رہے ہیں اور یہ مانتے ہیں کہ اِس دُنیا کا خاتمہ بہت نزدیک ہے۔ لہٰذا یہ بہت اہم ہے کہ ہم ”بِلاناغہ دُعا“ کریں۔ (۱-تھس ۵:۱۷) اِس کے علاوہ ہمیں یسوع مسیح کی طرح ایسی جگہ کا اِنتخاب کرنا چاہئے جہاں ہم تنہائی میں دُعا کر سکیں۔ ہم دُعا کرنے میں جتنا زیادہ وقت صرف کریں گے اُتنا ہی ہم یہوواہ خدا کے قریب ہو جائیں گے۔ (یعقو ۴:۷، ۸) یہ واقعی ہمارے لئے بڑی خوشی اور اعزاز کی بات ہوگی۔
۱۸ بائبل میں لکھا ہے: ”[یسوع مسیح] نے اپنی بشریت کے دنوں میں زورزور سے پکار کر اور آنسو بہابہا کر اُسی سے دُعائیں اور اِلتجائیں کیں جو اُس کو موت سے بچا سکتا تھا اور خداترسی کے سبب سے اُس کی سنی گئی۔“ (عبر ۵:۷) یسوع مسیح اپنے باپ یہوواہ خدا سے دُعائیں اور اِلتجائیں کرنے کی وجہ سے اپنی آخری سانس تک اُس کے وفادار رہے۔ اِس لئے یہوواہ خدا نے بھی اپنے بیٹے کو موت کی قید سے آزاد کِیا اور اُسے غیرفانی زندگی اِنعام میں دی۔ ہم بھی تمام مشکلوں اور اِمتحانوں کے باوجود خدا کے وفادار رہ سکتے ہیں۔ ہم ہمیشہ کی زندگی کا اِنعام حاصل کر سکتے ہیں بشرطیکہ ہم ”دُعا کرنے کے لئے تیار“ رہیں۔
[فٹنوٹ]
a اُردو ریوائزڈ ورشن میں متی ۲۶:۴۱ میں لکھا ہے: ”جاگو اور دُعا کرو۔“ لیکن یونانی زبان کے مطابق یسوع مسیح نے شاگردوں کو ہدایت کی تھی کہ جاگتے اور دُعا کرتے رہو۔
b دوسرا کرنتھیوں ۱:۱۱ (نیو اُردو بائبل ورشن): ”اگر تُم مل کر دعا سے ہماری مدد کرو گے تو وہ فضل جو بہت سے لوگوں کی دعاؤں کے وسیلہ سے ہم پر ہوا ہے، اُس کے لیے بہت سے لوگ ہماری خاطر خدا کا شکر ادا کریں گے۔“