ہم کس لحاظ سے یسوع مسیح کے گواہ ہیں؟
”[یسوع] نے اُن سے کہا . . . تُم . . . زمین کی اِنتہا تک میرے گواہ ہوگے۔“—اعما 1:7، 8۔
1، 2. (الف) یہوواہ خدا کا سب سے عظیم گواہ کون ہے؟ (ب) نام یسوع کا مطلب کیا ہے؟ اور خدا کا بیٹا اِس نام پر کیسے پورا اُترا؟
یسوع مسیح پر مُقدمہ چل رہا تھا۔ اُنہوں نے ابھی ابھی رومی حاکم پُنطیُس پیلاطُس کے سامنے یہ تسلیم کِیا کہ وہ بادشاہ ہیں۔ پھر اُنہوں نے کہا: ”مَیں اِس لئے پیدا ہوا اور اِس واسطے دُنیا میں آیا ہوں کہ حق پر گواہی دوں۔“ (یوحنا 18:33-37 کو پڑھیں۔) اِس واقعے کے کئی سال بعد پولُس رسول نے یسوع مسیح کی دلیری کو سراہتے ہوئے کہا کہ اُنہوں نے ”پُنطیُس پیلاطُس کے سامنے اپنے ایمان کی اچھی گواہی دی۔“ (1-تیم 6:13، اُردو جیو ورشن) شیطان کی نفرت بھری دُنیا میں ”سچا اور برحق گواہ“ ہونے کے لیے واقعی دلیری کی ضرورت ہے۔—مکا 3:14۔
2 چونکہ یسوع مسیح یہودی قوم سے تھے اِس لیے وہ پیدائشی طور پر یہوواہ کے گواہ تھے۔ (یسع 43:10) بِلاشُبہ یسوع مسیح یہوواہ خدا کے سب سے عظیم گواہ ثابت ہوئے۔ وہ اُس نام پر بھی پورے اُترے جو خدا نے اُنہیں دیا تھا۔ اُن کی پیدائش سے پہلے ایک فرشتے نے یوسف کو بتایا کہ مریم پاک روح کے ذریعے حاملہ ہوئی ہیں۔ فرشتے نے یوسف سے کہا: ”اُس کے بیٹا ہوگا اور تُو اُس کا نام یسوؔع رکھنا کیونکہ وہی اپنے لوگوں کو اُن کے گُناہوں سے نجات دے گا۔“ (متی 1:20، 21) بائبل کے زیادہتر عالم اِس بات سے متفق ہیں کہ نام یسوع عبرانی نام یشوعا سے نکلا ہے جس کا مطلب ہے: ”یہوواہ نجات ہے۔“ اپنے نام کے مطلب کے عین مطابق یسوع مسیح نے ”اِؔسرائیل کے گھرانے کی کھوئی ہوئی بھیڑوں“ کی مدد کی تاکہ وہ اپنے گُناہوں سے توبہ کریں اور یوں یہوواہ کی خوشنودی پھر سے حاصل کریں۔ (متی 10:6؛ 15:24؛ لو 19:10) اِسی لیے یسوع مسیح نے دلوجان سے خدا کی بادشاہت کے بارے میں گواہی دی۔ مرقس نے بتایا: ”یسوؔع نے گلیلؔ میں آ کر خدا کی خوشخبری کی مُنادی کی اور کہا کہ وقت پورا ہو گیا ہے اور خدا کی بادشاہی نزدیک آ گئی ہے۔ توبہ کرو اور خوشخبری پر ایمان لاؤ۔“ (مر 1:14، 15) یسوع مسیح نے دلیری سے یہودی مذہبی رہنماؤں کی ریاکاری کا پردہ فاش کِیا جس کی وجہ سے وہ اُن کی نفرت کا نشانہ بنے۔ آخرکار اُن رہنماؤں نے اُن کو سُولی پر چڑھا دیا۔—مر 11:17، 18؛ 15:1-15۔
”خدا کے بڑے بڑے کاموں“ کا اِعلان
3. یسوع مسیح کی موت کے تیسرے دن پر کیا ہوا؟
3 لیکن پھر کچھ ایسا ہوا کہ سب دنگ رہ گئے۔ یسوع مسیح کی موت کے تیسرے دن یہوواہ خدا نے اُنہیں روحانی ہستی کے طور پر زندہ کِیا۔ (1-پطر 3:18) یہ ثابت کرنے کے لیے کہ وہ مُردوں میں سے زندہ ہو چکے ہیں، یسوع مسیح اِنسانی روپ میں اپنے شاگردوں کو دِکھائی دیے۔ جس دن وہ زندہ ہوئے، وہ کم سے کم پانچ موقعوں پر مختلف شاگردوں پر ظاہر ہوئے۔—متی 28:8-10؛ لو 24:13-16، 30-36؛ یوح 20:11-18۔
4. مُردوں میں سے زندہ ہونے کے بعد یسوع مسیح نے اپنے شاگردوں کو کن باتوں کی وضاحت کی؟ اور اُس موقعے پر اُنہوں نے اپنے شاگردوں کو کونسی ذمےداری دی؟
4 پانچویں بار یسوع مسیح اپنے رسولوں اور کچھ اَور شاگردوں پر ظاہر ہوئے۔ اُس موقعے پر اُنہوں نے پاک صحیفوں کی خوب وضاحت کی اور ”اُن کا ذہن کھولا تاکہ کتابِمُقدس کو سمجھیں۔“ اِس طرح شاگرد سمجھ گئے کہ پاک صحیفوں میں پہلے سے ہی بتا دیا گیا تھا کہ یسوع مسیح کو قتل کِیا جائے گا اور پھر زندہ کِیا جائے گا۔ یہ ساری وضاحت کرنے کے بعد یسوع مسیح نے اُنہیں بتایا کہ اب اُن کی ذمےداری کیا ہے۔ اُنہوں نے کہا: ”یرؔوشلیم سے شروع کرکے سب قوموں میں توبہ اور گُناہوں کی معافی کی مُنادی [میرے] نام سے کی جائے گی۔“ اُنہوں نے یہ بھی کہا کہ ”تُم اِن باتوں کے گواہ ہو۔“—لو 24:44-48۔
5، 6. (الف) یسوع مسیح نے کیوں کہا کہ ’تُم میرے گواہ ہوگے‘؟ (ب) یسوع مسیح کے شاگردوں کو کس بات کا اِعلان کرنا تھا؟
5 لہٰذا جب یسوع مسیح 40 دن بعد آخری بار اپنے رسولوں سے ملے اور اُن سے کہا کہ ”[تُم] یرؔوشلیم اور تمام یہوؔدیہ اور ساؔمریہ میں بلکہ زمین کی اِنتہا تک میرے گواہ ہوگے“ تو رسول فوراً سمجھ گئے کہ اب اُن سے کیا توقع کی جا رہی ہے۔ (اعما 1:8) لیکن یسوع مسیح نے اُن سے یہ کیوں نہیں کہا کہ ”تُم یہوواہ کے گواہ ہوگے“ بلکہ یہ کہا کہ ’تُم میرے گواہ ہوگے‘؟ کیونکہ اُن کے سب شاگرد اِسرائیلی تھے اور یوں پیدائشی طور پر یہوواہ کے گواہ تھے۔
6 اب سے یسوع مسیح کے شاگردوں کو نجات حاصل کرنے کے ایک نئے ذریعے کا اِعلان کرنا تھا۔ بنیاِسرائیل کو تو مصر کی غلامی اور بابل کی غلامی سے آزادی ملی لیکن یسوع مسیح کی قربانی کی بِنا پر تمام اِنسانوں کو گُناہ اور موت کی غلامی سے آزادی حاصل ہو سکتی ہے۔ سن 33ء کی عیدِپنتِکُست پر یسوع مسیح کے ممسوح شاگردوں نے لوگوں کو ”خدا کے بڑے بڑے کاموں“ کے بارے میں بتایا۔ اُس موقعے پر ہزاروں لوگوں نے توبہ کی اور اِس بات پر ایمان لائے کہ یسوع مسیح ہی نجات کا ذریعہ ہیں۔ یسوع مسیح اپنے آسمانی تخت سے دیکھ سکتے تھے کہ وہ اپنے نام کے مطلب کے مطابق نجات کا باعث بن گئے ہیں۔—اعما 2:5، 11، 37-41۔
اِنسانوں کی نجات کے لیے ایک شاندار بندوبست
7. سن 33ء کی عیدِپنتِکُست پر ہونے والے واقعے سے کیا ظاہر ہوا؟
7 سن 33ء کی عیدِپنتِکُست پر ہونے والے واقعے سے یہ ظاہر ہو گیا کہ یہوواہ خدا نے یسوع مسیح کی قربانی کو ہمارے گُناہوں کے کفارے کے طور پر قبول کر لیا ہے۔ (عبر 9:11، 12، 24) یسوع مسیح نے کہا کہ وہ دُنیا میں ”اِس لئے نہیں آیا کہ خدمت لے بلکہ اِس لئے کہ خدمت کرے اور اپنی جان بہتیروں کے بدلے فدیہ میں دے۔“ (متی 20:28) یسوع مسیح نے جن لوگوں کے لیے اپنی جان قربان کی، اُن میں صرف یہودی ہی شامل نہیں تھے۔ خدا چاہتا ہے کہ ”سب آدمی نجات پائیں“ کیونکہ یسوع مسیح کی قربانی ’دُنیا کے گُناہ اُٹھا لے جاتی ہے۔‘—1-تیم 2:4-6؛ یوح 1:29۔
8. یسوع مسیح کے اِبتدائی شاگردوں نے کس حد تک خوشخبری پھیلائی؟ اور وہ ایسا کرنے کے قابل کیسے بنے؟
8 کیا یسوع مسیح کے اِبتدائی شاگردوں میں اِتنی دلیری تھی کہ وہ اُن کے بارے میں گواہی دیتے رہیں؟ یقیناً وہ دلیر تھے لیکن وہ یہ کام اپنی طاقت سے نہیں کرتے تھے۔ یہوواہ خدا کی پاک روح نے اُنہیں گواہی دینے کی ترغیب دی اور اِس کام کے لیے طاقت بخشی۔ (اعمال 5:30-32 کو پڑھیں۔) سن 33ء کی عیدِپنتِکُست کے کوئی 27 سال بعد یہ کہا جا سکتا تھا کہ ’کلامِحق کی خوشخبری‘ ”آسمان کے نیچے کی تمام مخلوقات“ تک پہنچ چکی ہے۔ اِس کا مطلب تھا کہ نہ صرف یہودیوں میں بلکہ غیرقوموں میں بھی خوشخبری پھیل چکی تھی۔—کل 1:5، 23۔
9. یسوع مسیح کی پیشگوئی کے مطابق مسیحی کلیسیا کے ساتھ کیا ہوا؟
9 افسوس کی بات ہے کہ مسیحی کلیسیا آہستہآہستہ جھوٹی تعلیمات سے آلودہ ہو گئی۔ (اعما 20:29، 30؛ 2-پطر 2:2، 3؛ یہوداہ 3، 4) جیسے یسوع مسیح نے ظاہر کِیا تھا، اِس برگشتگی کے پیچھے ”شریر“ یعنی شیطان کا ہاتھ تھا اور کافی عرصے تک یہ واضح نہیں تھا کہ سچے مسیحی کون ہیں۔ یہ صورتحال آخری زمانے تک رہی۔ (متی 13:37-43) پھر اکتوبر 1914ء میں یہوواہ خدا نے یسوع مسیح کو بادشاہ بنایا۔ یوں اِس دُنیا کا ”اخیر زمانہ“ شروع ہو گیا۔—2-تیم 3:1۔
10. (الف) ممسوح مسیحی کس خاص تاریخ کا اِعلان کر رہے تھے؟ (ب) اکتوبر 1914ء میں کیا ہوا؟ اور یہ کیسے ظاہر ہوا؟
10 اکتوبر 1914ء سے کافی عرصہ پہلے ہی ممسوح مسیحی یہ اِعلان کر رہے تھے کہ اِس مہینے میں خدا کی بادشاہت کی حکمرانی شروع ہوگی۔ اُن کا یہ اِعلان دانیایل نبی کی ایک پیشگوئی پر مبنی تھا جو ایک بڑے درخت کے متعلق تھی۔ یہ درخت کاٹا گیا اور ”سات دَور“ گزرنے کے بعد وہ پھر سے بڑھنے لگا۔ (دان 4:16) آخری زمانے کے بارے میں اپنی پیشگوئی میں یسوع مسیح نے اِن سات دوروں کا حوالہ ”غیرقوموں کی میعاد“ کے طور پر دیا۔ سن 1914ء میں یہ میعاد ختم ہو گئی اور اُس وقت سے یسوع مسیح کے ’آنے کا نشان‘ صاف نظر آتا ہے۔ اِس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ وہ اب حکمرانی کر رہے ہیں۔ (متی 24:3، 7، 14؛ لو 21:24) تب سے ”خدا کے بڑے بڑے کاموں“ میں یہ بھی شامل ہے کہ اُس نے یسوع مسیح کو تمام اِنسانوں کا بادشاہ بنایا ہے۔
11، 12. (الف) زمین کے بادشاہ یسوع مسیح نے 1919ء میں کیا کرنا شروع کِیا؟ (ب) سن 1935ء میں کیا واضح ہو گیا؟ (اِس مضمون کی پہلی تصویر کو دیکھیں۔)
11 زمین کا بادشاہ بننے کے تھوڑے ہی عرصے بعد یسوع مسیح نے اپنے ممسوح شاگردوں کو ’بڑے شہر بابل‘ کی گِرفت سے آزادی دِلائی۔ (مکا 18:2، 4) پہلی عالمی جنگ کے بعد پوری دُنیا میں گواہی دینا ممکن ہو گیا۔ لہٰذا 1919ء میں ممسوح مسیحی اِس موقعے سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے دُنیابھر میں خدا کی بادشاہت اور اِنسانوں کی نجات کے بندوبست کے بارے میں خوشخبری پھیلانے لگے۔ اِس کے نتیجے میں ہزاروں اَور ممسوح مسیحی یسوع مسیح کے ہممیراث بننے کے لیے جمع ہو گئے۔
12 سن 1935ء میں واضح ہو گیا کہ یسوع مسیح سب قوموں میں سے ”اَور بھی بھیڑیں“ جمع کر رہے ہیں۔ ممسوح مسیحیوں کی رہنمائی میں یہ ”بڑی بِھیڑ“ یسوع مسیح کی طرح گواہی دیتی ہے اور دلیری سے اِعلان کرتی ہے کہ نجات خدا اور یسوع مسیح کی طرف سے ہے۔ اگر یہ مسیحی شیطان کی دُنیا کے خاتمے تک گواہی دیتے ہیں اور یسوع مسیح کے فدیے پر ایمان رکھتے ہیں تو وہ ”بڑی مصیبت“ سے زندہ بچ نکلیں گے۔—یوح 10:16؛ مکا 7:9، 10، 14۔
خوشخبری سنانے کے لیے دلیر بنیں
13. (الف) یہوواہ کے گواہوں کے طور پر ہم نے کیا کرنے کی ٹھان لی ہے؟ (ب) ہم اپنی خدمت کو کامیابی سے کیسے جاری رکھ سکتے ہیں؟
13 آئیں، ہمیشہ اِس اعزاز کی قدر کریں کہ ہم لوگوں کو ”خدا کے بڑے بڑے کاموں“ اور اُس کے وعدوں کے متعلق بتا سکتے ہیں۔ سچ ہے کہ گواہی دینے کا کام آسان نہیں ہے۔ بہت سے علاقوں میں لوگ ہمارے پیغام میں دلچسپی نہیں لیتے، ہمارا مذاق اُڑاتے ہیں یا پھر ہمیں اذیت پہنچاتے ہیں۔ ایسی صورت میں ہم پولُس رسول اور اُن کے ساتھیوں کی مثال پر عمل کر سکتے ہیں۔ اُنہوں نے کہا: ”خدا نے ہمیں جُرأت دی کہ باوجود بڑی مخالفت کے ہم تمہیں اُس کی طرف سے خوشخبری سنائیں۔“ (1-تھس 2:2، نیو اُردو بائبل ورشن) لہٰذا ہمت نہ ہاریں۔ یہ ٹھان لیں کہ آپ اُس وقت تک وفاداری سے خدا کی خدمت کرتے رہیں گے جب تک شیطان کی دُنیا کا خاتمہ نہیں آ جاتا۔ (یسع 6:11) ہم اپنی طاقت سے ایسا کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکتے۔ اِس لیے ہمیں اِبتدائی مسیحیوں کی طرح یہ دُعا کرنی چاہیے کہ خدا ہمیں اپنی پاک روح کے ذریعے ”حد سے زیادہ قدرت“ عطا کرے۔—2-کرنتھیوں 4:1، 7 کو پڑھیں؛ لو 11:13۔
14، 15. (الف) پہلی صدی میں سچے مسیحیوں کے ساتھ کیسا سلوک کِیا جاتا تھا؟ اور پطرس رسول نے اِس سلسلے میں کیا لکھا؟ (ب) جب ہماری مخالفت کی جاتی ہے تو ہمیں کیا یاد رکھنا چاہیے؟
14 آجکل لاکھوں لوگ مسیحی ہونے کا دعویٰ تو کرتے ہیں ”مگر اپنے کاموں سے [خدا] کا اِنکار کرتے ہیں کیونکہ وہ مکروہ اور نافرمان ہیں اور کسی نیک کام کے قابل نہیں۔“ (طط 1:16) ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ پہلی صدی میں بھی زیادہتر لوگ سچے مسیحیوں سے نفرت کرتے تھے۔ اِسی لیے پطرس رسول نے لکھا: ”اگر مسیح کے نام کے سبب سے تمہیں ملامت کی جاتی ہے تو تُم مبارک ہو کیونکہ . . . خدا کا روح تُم پر سایہ کرتا ہے۔“—1-پطر 4:14۔
15 کیا یہ بات آج یہوواہ کے گواہوں پر بھی لاگو ہوتی ہے؟ جیہاں کیونکہ لوگ ہم سے صرف اِس لیے نفرت نہیں کرتے کہ ہم یہوواہ کے نام سے کہلاتے ہیں بلکہ اِس لیے بھی کہ ہم اپنے بادشاہ یسوع مسیح کے بارے میں گواہی دیتے ہیں۔ یسوع مسیح نے اپنے مخالفین سے کہا: ”مَیں اپنے باپ کے نام سے آیا ہوں اور تُم مجھے قبول نہیں کرتے۔“ (یوح 5:43) اگر آئندہ آپ کو مُنادی کے کام میں مخالفت کا سامنا ہوتا ہے تو حوصلہ رکھیں۔ یہ مخالفت اِس بات کا ثبوت ہے کہ آپ کو خدا کی خوشنودی حاصل ہے اور اُس کی ’روح آپ پر سایہ کرتی ہے۔‘
16، 17. (الف) دُنیا کے بہت سے علاقوں میں گواہی دینے کا کام کیسا چل رہا ہے؟ (ب) آپ کا عزم کیا ہے؟
16 یہ بھی یاد رکھیں کہ بہت سے علاقوں میں یہوواہ کے گواہوں کی تعداد میں تیزی سے اِضافہ ہو رہا ہے۔ ایسے علاقے جہاں ہم اکثر مُنادی کرتے ہیں، وہاں بھی ہمیں ایسے لوگ ملتے ہیں جو ہمارا پیغام سنتے ہیں۔ اُن لوگوں سے دوبارہ ملنے کی ہر ممکن کوشش کریں جو دلچسپی ظاہر کرتے ہیں۔ اگر ممکن ہو تو اُن کے ساتھ بائبل کا مطالعہ شروع کریں اور اُن کی مدد کریں تاکہ وہ اپنی زندگی خدا کے لیے وقف کریں۔ یقیناً آپ ویسا ہی محسوس کرتے ہیں جیسا ساری نامی بہن محسوس کرتی ہیں۔ وہ تقریباً 60 سال سے جنوبی افریقہ میں گواہی دے رہی ہیں۔ وہ کہتی ہیں: ”مَیں اِس بات کے لیے بہت شکرگزار ہوں کہ یسوع مسیح کی قربانی کی بدولت مَیں کائنات کے حکمران یہوواہ خدا کی قربت میں رہ سکتی ہوں اور دوسروں کو اُس کے عظیم نام کے بارے میں بتا سکتی ہوں۔“ بہن ساری اور اُن کے شوہر مارٹینس نے اپنے تین بچوں سمیت بہت سے لوگوں کی مدد کی ہے تاکہ وہ یہوواہ خدا کے پرستار بنیں۔ بہن ساری کہتی ہیں: ”خوشخبری کی مُنادی کرنے کے علاوہ کوئی اَور ایسا کام نہیں جس سے ہمیں اِتنا اِطمینان ملے۔ یہوواہ خدا اپنی پاک روح کے ذریعے ہمیں طاقت بخشتا ہے تاکہ ہم اِس زندگیبخش کام کو جاری رکھ سکیں۔“
17 چاہے ہم بپتسمہیافتہ مسیحی ہیں یا بپتسمہ لینے کے لیے قدم اُٹھا رہے ہیں، ہمیں اِس اعزاز کے لیے شکر گزار ہونا چاہیے کہ ہم یہوواہ کے گواہوں کی عالمگیر کلیسیا کا حصہ ہیں۔ لہٰذا گواہی دینے کے ہر موقعے سے فائدہ اُٹھائیں اور شیطان کی دُنیا سے آلودہ نہ ہوں۔ یوں آپ آسمانی باپ یہوواہ کے نام کی بڑائی کریں گے جس کے عظیم نام سے کہلانے کا اعزاز آپ کو حاصل ہے۔