کیا آپ پاک کلام میں درج باتوں کا صحیح مطلب سمجھتے ہیں؟
ایک بچی نے دیکھا کہ ایک فیکٹری کی چمنی سے دھواں نکل رہا ہے جس کی وجہ سے بادل سے بن رہے ہیں۔ یہ دیکھ کر اُس نے سوچا کہ یہ فیکٹری بادل بناتی ہے۔ بچوں کی ایسی باتوں پر ہنسی آتی ہے۔ لیکن کچھ باتیں ایسی ہوتی ہیں جن کو اگر غلط طریقے سے سمجھا جائے تو ہماری زندگی پر گہرا اثر پڑ سکتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر دوائی پر لکھی ہدایات کو غلط طریقے سے سمجھا جائے تو یہ بہت نقصاندہ ہو سکتا ہے۔
لیکن اگر خدا کے کلام میں درج باتوں کو صحیح طریقے سے نہ سمجھا جائے تو اِس کے اَور بھی سنگین نتائج نکل سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر کچھ لوگ یسوع مسیح کی باتوں کو صحیح طور پر نہیں سمجھ پائے۔ (یوحنا 6:48-68) اِن باتوں کا مطلب پوچھنے کی بجائے اُنہوں نے یسوع مسیح کی ساری تعلیمات کو رد کر دیا۔ یہ کتنے افسوس کی بات تھی!
کیا آپ پاک کلام سے رہنمائی حاصل کرنے کے لیے اِسے پڑھتے ہیں؟ اگر آپ ایسا کرتے ہیں تو یہ بہت اچھی بات ہے۔ لیکن کیا ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ آپ پاک کلام کی کسی بات کا صحیح مطلب نہ سمجھ پائیں؟ بہت سے لوگوں کے ساتھ ایسا ہوتا ہے۔ آئیں، پاک کلام کی تین ایسی باتوں پر غور کریں جن کا لوگ غلط مطلب نکال لیتے ہیں۔
کچھ لوگ پاک کلام کے اِس حکم کا غلط مطلب لیتے ہیں: ”خدا سے ڈر۔“ وہ سمجھتے ہیں کہ اِس حکم کا مطلب یہ ہے کہ ہمیں خدا سے دہشت کھانی چاہیے۔ (واعظ 12:13) لیکن خدا نہیں چاہتا کہ اُس کی عبادت کرنے والے لوگ اُس سے دہشتزدہ ہوں۔ وہ کہتا ہے: ”تُو مت ڈر کیونکہ مَیں تیرے ساتھ ہوں۔ ہراساں نہ ہو کیونکہ مَیں تیرا خدا ہوں مَیں تجھے زور بخشوں گا۔ مَیں یقیناً تیری مدد کروں گا۔“ (یسعیاہ 41:10) خدا سے ڈرنے کا مطلب ہے کہ ہم اُس کی عظمت کو تسلیم کریں اور دل سے اُس کا احترام کریں۔
بعض لوگ پاک کلام کی اِس آیت کو غلط طریقے سے سمجھتے ہیں: ”ہر چیز کا . . . ایک وقت ہے۔ پیدا ہونے کا ایک وقت ہے اور مر جانے کا ایک وقت ہے۔“ وہ سمجھتے ہیں کہ اِس کا مطلب یہ ہے کہ خدا نے ہر اِنسان کے مرنے کا وقت پہلے سے طے کِیا ہوا ہے۔ (واعظ 3:1، 2) لیکن اِس آیت میں دراصل زندگی کی حقیقت کے بارے میں بتایا گیا ہے اور یہ بھی کہ موت ہر اِنسان پر آتی ہے۔ خدا کے کلام سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ ہمارے فیصلوں کی وجہ سے ہماری زندگی یا تو کم ہو سکتی ہے یا پھر بڑھ سکتی ہے۔ مثال کے طور پر اِس میں لکھا ہے: ”[یہوواہ] کا خوف عمر کی درازی بخشتا ہے۔“ (امثال 10:27؛ زبور 90:10؛ یسعیاہ 55:3) ہم یہ کیوں کہہ سکتے ہیں؟ اگر ہم خدا کے کلام کا احترام کرتے ہیں تو ہم ایسے کاموں سے گریز کریں گے جن کا ہماری صحت پر بُرا اثر پڑ سکتا ہے جیسے کہ حد سے زیادہ شراب پینا اور بدکاری کرنا۔—1-کُرنتھیوں 6:9، 10۔
بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ جب پاک کلام میں یہ کہا گیا کہ ’آسمان اور زمین آگ کے لیے رکھے گئے ہیں‘ تو اِس کا مطلب ہے کہ خدا زمین کو تباہ کر دے گا۔ (2-پطرس 3:7) لیکن خدا نے وعدہ کِیا ہے کہ وہ زمین کو کبھی تباہ نہیں ہونے دے گا۔ پاک کلام میں لکھا ہے کہ خدا نے ”زمین کو اُس کی بنیاد پر قائم کِیا تاکہ وہ کبھی جنبش نہ کھائے۔“ (زبور 104:5؛ یسعیاہ 45:18) خدا ہماری زمین کو نہیں بلکہ اِس پر موجود بُرے نظام کو بالکل اُسی طرح ختم کر دے گا جس طرح کوئی چیز آگ میں جل کر بھسم ہو جاتی ہے۔ جہاں تک آسمان کا تعلق ہے تو یہ یا تو ستاروں بھرے آسمان کی طرف اِشارہ کرتا ہے یا پھر خدا کے تخت کی طرف۔ اور اِن میں سے کسی کو بھی تباہ نہیں کِیا جائے گا۔
لوگ کبھی کبھار پاک کلام کی باتوں کا صحیح مطلب کیوں نہیں سمجھ پاتے؟
اِن مثالوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ لوگ اکثر بائبل کی آیتوں کا غلط مطلب لیتے ہیں۔ لیکن خدا ایسا کیوں ہونے دیتا ہے؟ شاید بعض لوگ سوچیں: ”خدا سب سے زیادہ دانشمند ہے اور سب کچھ جانتا ہے تو پھر اُس نے ہمیں ایک ایسی کتاب کیوں نہیں دی جسے ہر کوئی آسانی سے سمجھ سکے؟“ آئیں، تین ایسی وجوہات پر غور کریں جن کی بِنا پر پاک کلام میں لکھی باتوں کو غلط طریقے سے سمجھا جاتا ہے۔
پاک کلام کو اِس طرح لکھا گیا ہے کہ صرف وہ لوگ اِسے سمجھ سکیں جو خاکسار ہیں اور سیکھنے کا شوق رکھتے ہیں۔ یسوع مسیح نے خدا سے کہا: ”اَے باپ، آسمان اور زمین کے مالک! مَیں سب کے سامنے تیری بڑائی کرتا ہوں کیونکہ تُو نے یہ باتیں دانشمند اور ذہین لوگوں سے چھپائیں اور چھوٹے بچوں پر ظاہر کیں۔“ (لُوقا 10:21) پاک کلام کو اِس طرح لکھا گیا ہے کہ صرف وہ لوگ اِسے سمجھ سکیں جو اِس کے بارے میں صحیح سوچ رکھتے ہیں۔ ’دانشمند اور ذہین لوگ‘ اکثر مغرور ہوتے ہیں۔ اِس لیے وہ پاک کلام میں لکھی باتوں کا غلط مطلب نکالتے ہیں۔ لیکن جو لوگ ”چھوٹے بچوں“ کی طرح خاکسار ہوتے ہیں اور سیکھنے کا شوق رکھتے ہیں، وہ خدا کے کلام کو بہتر طور پر سمجھ پاتے ہیں۔ واقعی خدا نے اپنے کلام کو بڑے شاندار طریقے سے لکھوایا ہے۔
پاک کلام کو اُن لوگوں کے لیے لکھا گیا ہے جو اِسے سمجھنے کے لیے خدا سے مدد مانگتے ہیں۔ یسوع مسیح نے ظاہر کِیا کہ اُن کی تعلیمات کو اچھی طرح سمجھنے کے لیے لوگوں کو مدد کی ضرورت ہوگی۔ لیکن اُنہیں یہ مدد کہاں سے ملے گی؟ یسوع مسیح نے کہا: ”مددگار یعنی پاک روح جسے باپ میرے نام سے بھیجے گا، آپ کو سب باتیں سکھائے گا۔“ (یوحنا 14:26) لہٰذا خدا اپنی پاک روح یعنی اپنی باعمل قوت کے ذریعے لوگوں کی مدد کرتا ہے کہ وہ اُس کے کلام کو سمجھ سکیں۔ لیکن خدا اُن لوگوں کو پاک روح عطا نہیں کرتا جو اُس پر بھروسا نہیں کرتے۔ اِس لیے وہ پاک کلام کی باتوں کو سمجھ نہیں پاتے۔ جو لوگ پاک کلام کا علم رکھتے ہیں، پاک روح اُنہیں ترغیب دیتی ہے کہ وہ اُن لوگوں کی مدد کریں جو پاک کلام کو سمجھنا چاہتے ہیں۔—اعمال 8:26-35۔
اِنسان پاک کلام کی کچھ باتوں کو مقررہ وقت پر ہی سمجھ سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر دانیایل نبی کو مستقبل کے بارے میں ایک پیغام لکھنے کو کہا گیا۔ ایک فرشتے نے اُن سے کہا: ”اَے دانیؔایل اِن باتوں کو بند کر رکھ اور کتاب پر آخری زمانہ تک مُہر لگا دے۔“ دانیایل کی کتاب سینکڑوں سال پہلے لکھی گئی۔ بہت سے اِنسانوں نے اِسے پڑھا لیکن اِسے سمجھ نہیں پائے۔ یہاں تک کہ دانیایل خود بھی کچھ ایسی باتوں کو سمجھ نہیں پائے تھے جو اُنہوں نے لکھی تھیں۔ اُنہوں نے خاکساری سے یہ تسلیم کِیا کہ ”مَیں نے سنا پر سمجھ نہ سکا۔“ اِنسان خدا کے مقررہ وقت پر ہی دانیایل کی پیشگوئی کو سمجھ سکتے تھے۔ فرشتے نے دانیایل سے یہ بھی کہا تھا: ”اَے دانیؔایل تُو اپنی راہ لے کیونکہ یہ باتیں آخری وقت تک بندوسربمہر رہیں گی۔“ لیکن کون لوگ خدا کے پیغام کو سمجھیں گے؟ ”شریروں میں سے کوئی نہ سمجھے گا پر دانشور سمجھیں گے۔“ (دانیایل 12:4، 8-10) لہٰذا خدا، پاک کلام کے کچھ بیانات کا مطلب اپنے مقررہ وقت سے پہلے ظاہر نہیں کرتا۔
کیا اِس وجہ سے کبھی ایسا بھی ہوا ہے کہ یہوواہ کے گواہ پاک کلام کی کچھ باتوں کا صحیح مطلب نہیں سمجھ پائے؟ جی ہاں۔ لیکن جب خدا نے اپنے مقررہ وقت پر اُن باتوں کو واضح کِیا تو یہوواہ کے گواہوں نے اپنی سوچ کو نئی وضاحتوں کے مطابق ڈھال لیا۔ یسوع مسیح کے اِبتدائی شاگرد بھی اُس وقت خاکساری سے اپنی سوچ کو درست کر لیتے تھے جب یسوع مسیح اُن کی اِصلاح کرتے تھے۔ لہٰذا یہوواہ کے گواہ بھی اُن کی مثال پر عمل کرتے ہوئے اپنی سوچ کو نئی وضاحتوں کے مطابق ڈھال لیتے ہیں۔—اعمال 1:6، 7۔
شروع میں ہم نے دیکھا تھا کہ ایک بچی فیکٹری سے نکلنے والے دھویں کو بادل سمجھ بیٹھی تھی۔ یہ ایک چھوٹی سی غلطفہمی تھی۔ لیکن پاک کلام کا پیغام اِتنا اہم ہے کہ اِسے محض پڑھنا نہیں بلکہ صحیح طرح سمجھنا بھی ضروری ہے۔ لہٰذا اِسے سمجھنے کے لیے کسی کی مدد حاصل کریں۔ ایسے لوگوں سے مدد لینے کی کوشش کریں جو خاکسار ہیں اور پاک کلام کو سیکھنے کا شوق رکھتے ہیں، اِسے سمجھنے کے لیے خدا سے پاک روح مانگتے ہیں اور یہ مانتے ہیں کہ ہم تاریخ کے اُس دَور میں رہ رہے ہیں جس میں خدا چاہتا ہے کہ ہم اُس کے کلام کی باتوں کو زیادہ اچھی طرح سمجھ سکیں۔ اِس سلسلے میں آپ یہوواہ کے گواہوں سے رابطہ کر سکتے ہیں یا اُن کی ویبسائٹ jw.org پر اُن کے مضامین کو دیکھ سکتے ہیں جنہیں بڑی تحقیق کے بعد تیار کِیا جاتا ہے۔ خدا نے وعدہ کِیا ہے کہ ’اگر تُو عقل کو پکارے تو تُو خدا کی معرفت (یعنی علم) کو حاصل کرے گا۔‘—امثال 2:3-5۔