خدا اپنے وعدے میں دیر نہیں کرتا
”اے خداوند! [”یہوواہ،“ اینڈبلیو] مَیں کب تک نالہ کروں گا اور تو نہ سنے گا؟“ یہ الفاظ ساتویں صدی ق.س.ع. کے عبرانی نبی حبقوق کے ہیں۔ تاہم یہ کچھ جانے پہچانے معلوم ہوتے ہیں، کیا ایسا نہیں ہے؟ یہ انسانی فطرت ہے کہ وہ اپنی پسند کی چیزوں کو فوراً یا جلدازجلد حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ اسی طرح سے یہ بات ہمارے فوری تسکین کے حامی دَور میں بالخصوص سچ ہے۔—حبقوق ۱:۲۔
پہلی صدی میں بعض ایسے تھے جو بظاہر یہ سوچتے تھے کہ خدا کو اپنے وعدے جلد پورے کر دینے چاہئیں۔ وہ اتنے بےصبرے ہو گئے تھے کہ اُنہوں نے خدا کو دیر یا تاخیر کرنے والا خیال کِیا۔ اس موقع پر، پطرس رسول کو اُنہیں یاد دلانا پڑا کہ وقت کے لحاظ سے خدا کا نظریہ اُنکے نظریے سے بالکل مختلف ہے۔ پطرس لکھتا ہے: ”اَے عزیزو! یہ خاص بات تم پر پوشیدہ نہ رہے کہ [یہوواہ] کے نزدیک ایک دن ہزار برس کے برابر ہے اور ہزار برس ایک دن کے برابر۔“—۲-پطرس ۳:۸۔
اس طریقے سے وقت کا حساب رکھنے کا مطلب ہے کہ ایک ۸۰سالہ شخص صرف دو گھنٹے زندہ رہا ہے اور نوعِانسان کی تمام تاریخ صرف چھ دنوں کی ہے۔ جب ہم چیزوں کو اس نقطۂنظر سے دیکھتے ہیں تو ہمارے لئے اپنے ساتھ خدا کے برتاؤ کے طریقہ کو سمجھنا زیادہ آسان ہو جاتا ہے۔
تاہم، خدا وقت سے بےنیاز نہیں ہے۔ اسکے برعکس، وہ وقت کا بڑا حساب رکھتا ہے۔ (اعمال ۱:۷) لہٰذا، پطرس بیان کرتا ہے: ”[یہوواہ] اپنے وعدہ میں دیر نہیں کرتا جیسی دیر بعض لوگ سمجھتے ہیں بلکہ تمہارے بارے میں تحمل کرتا ہے اس لئے کہ کسی کی ہلاکت نہیں چاہتا بلکہ یہ چاہتا ہے کہ سب کی توبہ تک نوبت پہنچے۔“ (۲-پطرس ۳:۹) انسانوں کے برعکس، خدا کوئی کام کرنے کیلئے صرف اس وجہ سے دباؤ محسوس نہیں کرتا ہے کہ اُسکا وقت کم رہ گیا ہے۔ ”ازلی بادشاہ“ کے طور پر وہ شاندار بصیرت رکھتا ہے اور فیصلہ کر سکتا ہے کہ وقت کے دھارے میں اُسکے کام تمام متعلقہ لوگوں کے لئے کب زیادہ مفید ہونگے۔—۱-تیمتھیس ۱:۱۷۔
خدا کی طرف سے ظاہری تاخیر کی وجہ بیان کرنے کے بعد پطرس یہ آگاہی دیتا ہے: ” [یہوواہ] کا دن چور کی طرح آ جائیگا۔“ اس کا مطلب ہے کہ عدالت کا دن بِلاتوقع آ جائیگا۔ اس کے بعد کی آیات میں پطرس ”پاک چالچلن اور دینداری [”خدائی عقیدت،“ اینڈبلیو]“ کے ساتھ زندگی بسر کرنے والے لوگوں کیلئے خدا کے موعودہ ”نئے آسمان اور نئی زمین“ میں اُنکے بچنے کے شاندار امکانات کا ذکر کرتا ہے۔—۲-پطرس ۳:۱۰-۱۳۔
اس بات کو ہمیں اس چیز کیلئے اور زیادہ قدردانی دکھانے کے لائق بنانا چاہئے کہ خدا کی عدالت ابھی نہیں آئی۔ اُسکے تحمل نے ہمارے لئے اُسکے مقاصد کو جاننا اور اُسکی موعودہ برکات حاصل کرنے کیلئے اپنی زندگیوں میں تبدیلیاں لانے کو ممکن بنایا ہے۔ کیا ہمیں ”خداوند کے تحمل کو نجات“ نہیں سمجھنا چاہئے جیسے کہ پطرس استدلال کرتا ہے؟ (۲-پطرس ۳:۱۵) تاہم خدا کے تحمل کرنے میں ایک اور عنصر بھی شامل ہے۔
گناہوں کا ایک خاص درجے تک پورا ہونا
ماضی میں نوعِانسان کے ساتھ خدا کے برتاؤ کا مطالعہ کرنے سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اکثر سزا کو بہتری کی ہر اُمید ختم ہو جانے تک روکے رکھتا ہے۔ مثال کے طور پر کنعانیوں کی بابت خدا کی عدالت کے سلسلے میں اُس نے کافی عرصہ پہلے ہی ابرہام کو اُنکے گناہوں کی بابت بتا دیا تھا۔ تاہم اُسکے سزا دینے کا وقت ابھی نہیں آیا تھا۔ کیوں نہیں؟ بائبل بیان کرتی ہے: ”کیونکہ اموریوں [کنعانیوں] کے گناہ اب تک پورے نہیں ہوئے،“ تھے یا جیسے نوکس کا ترجمہ بیان کرتا ہے: ”اموریوں کی بدکاری اپنے پورے عروج کو نہیں پہنچی تھی۔“—پیدایش ۱۵:۱۶۔a
تاہم کوئی ۴۰۰، سال بعد خدائی عدالت عمل میں آئی اور ابرہام کی اولاد، اسرائیلیوں نے ملک پر قبضہ کر لیا۔ راحب اور جبعونیوں جیسے چند کنعانی اپنے رویے اور اعمال کے باعث بچ گئے لیکن اکثریت کی ناپاکی انتہا کو پہنچ چکی تھی جیسے کہ حالیہ آثارِقدیمہ کی کھدائی سے دریافت ہوا ہے۔ وہ اعضائےتناسل کی پرستش، مندر میں عصمتفروشی اور بچوں کی قربانی کِیا کرتے تھے۔ ہیلی کی بائبل ہینڈبُک بیان کرتی ہے: ”کنعانی شہروں کے کھنڈروں کی کھدائی کرنے والے ماہرینِآثارِقدیمہ حیران تھے کہ خدا نے انہیں اس سے پہلے نیست کیوں نہ کِیا۔“ بالآخر کنعانیوں کے ’گناہ پورے ہو گئے تھے‘؛ اُن کی بدکاری ”اپنے عروج کو پہنچ گئی“ تھی۔ جب خدا نے ملک کی صفائی کی اجازت دی تو کوئی بھی اُسے بےانصاف نہیں ٹھہرا سکتا اگرچہ درست میلان رکھنے والے چند لوگوں کو چھوڑ دیا گیا تھا۔
نوح کے زمانے میں بھی ہم ایسا ہی منظر پاتے ہیں۔ اس حقیقت کے باوجود کہ طوفان سے قبل لوگ بدکار تھے، خدا نے رحمدلی ظاہر کرتے ہوئے انہیں ۱۲۰ سال کا مزید وقت دینے کا فیصلہ کِیا۔ اس وقت کے دوران نوح نے ”راستبازی [کی] منادی“ کرنے والے کے طور پر خدمت کی۔ (۲-پطرس ۲:۵) وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ انکی برائی میں اضافہ ہوتا گیا۔ ”خدا نے زمین پر نظر کی اور دیکھا کہ وہ ناراست ہو گئی ہے کیونکہ ہر بشر نے زمین پر اپنا طریقہ بگاڑ لیا تھا۔“ (پیدایش ۶:۳، ۱۲) اُنکے ’گناہ پورے ہو چکے تھے؛‘ وقت گزرنے کیساتھ ساتھ اُنکی غلط خواہشات اپنے عروج کو پہنچ گئی تھیں۔ جب خدا نے کارروائی کی تو وہ پوری طرح حق بجانب تھا۔ صرف آٹھ لوگ خدا کی نظر میں راستباز ٹھہرے اور اس نے اُنہیں بچا لیا۔
اسرائیل کے ساتھ خدا کے برتاؤ سے بھی یہی بات سامنے آتی ہے۔ ان کے بےوفا اور گہنگارانہ چالچلن کے باوجود خدا اُنکے ساتھ سینکڑوں سال تک متحمل رہا تھا۔ ریکارڈ بیان کرتا ہے: ”[یہوواہ] . . . نے اپنے پیغمبروں کو . . . بھیج بھیج کر پیغام بھیجا کیونکہ اُسے اپنے لوگوں اور اپنے مسکن پر ترس آتا تھا۔ لیکن اُنہوں نے . . . اُسکی باتوں کو ناچیز جانا اور اُسکے نبیوں کی ہنسی اُڑائی یہاں تک کہ [یہوواہ] کا غضب اپنے لوگوں پر ایسا بھڑکا کہ کوئی چارہ نہ رہا۔“ (۲-تواریخ ۳۶:۱۵، ۱۶) لوگ ایک ایسی حد تک جا چکے تھے کہ بہتری کی گنجائش نہ تھی۔ صرف یرمیاہ کے علاوہ چند دیگر لوگوں کو بچایا جا سکا تھا۔ بالآخر جب خدا نے باقی لوگوں پر سزا نازل کی تو اُسے بےانصاف نہیں کہا جا سکتا تھا۔
خدا کے کارروائی کرنے وقت آ پہنچا ہے
ہم ان مثالوں سے دیکھ سکتے ہیں کہ خدا وقت کے پورا ہونے تک اس موجودہ نظاماُلعمل کی عدالت کو روکے ہوئے ہے۔ یہ اُس حکم سے ظاہر ہوتا ہے جو خدا کے علامتی سزا دینے والے کو دیا جاتا ہے: ”اپنی تیز درانتی چلا کر زمین کے انگور کے درخت کے گچھے کاٹ لے کیونکہ اُسکے انگور بالکل پک گئے ہیں۔ اور اُس فرشتہ نے اپنی درانتی زمین پر ڈالی اور زمین کے انگور کے درخت کی فصل کاٹ کر خدا کے قہر کے بڑے حوض میں ڈال دی۔“ غور کریں کہ نوعِانسان کی بدکاری کی فصل ”پک گئی“ ہے یعنی یہ ایسے مرحلے میں پہنچ گئی ہے جہاں بہتری کی کوئی گنجائش نہیں رہی۔ جب خدا عدالتی کارروائی کرتا ہے تو اس میں کوئی شک نہیں رہیگا کہ اُسکی مداخلت جائز ہو گی۔—مکاشفہ ۱۴:۱۸، ۱۹۔
مذکورہبالا باتوں پر غور کرنے سے، یہ واضح ہو جاتا ہے کہ دُنیا کے خلاف خدا کی عدالت قریب ہے کیونکہ دُنیا نے ایسی خصلتیں پیدا کر لی ہیں جو ماضی میں خدا کی طرف سے یقینی سزا کا باعث بنی تھیں۔ ہم جہاں بھی نظر ڈالتے ہیں، زمین نوح کے زمانے میں طوفان سے پہلے کی طرح تشدد سے پُر ہے۔ لوگوں کے رجحانات زیادہ سے زیادہ ویسے ہوتے جا رہے جیسے پیدایش ۶:۵ میں بیان کئے گئے ہیں: ”انسان . . . کے دل کے تصور اور خیال سدا بُرے ہی ہوتے ہیں۔“ جن سنگین گناہوں کے سبب سے کنعانیوں پر خدا کی طرف سے سزا نازل ہوئی تھی آجکل تو وہ بھی عام ہیں۔
بالخصوص پہلی عالمی جنگ کے بعد سے نوعِانسان نے ہولناک تبدیلیوں کا تجربہ کِیا ہے۔ اس نے زمین کو لاکھوں انسانوں کے خون سے تر دیکھا ہے۔ جنگوجدل، نسلکشی، دہشتگردی، جرم اور لاقانونیت ساری دُنیا میں پھوٹ نکلی ہے۔ قحط، بیماری اور بداخلاقی نے ہمارے کرہّارض کو دبوچ لیا ہے۔ تمام شہادتیں اس بات کی نشاندہی کرتی ہیں کہ ہم اب اُس شریر نسل کے درمیان رہ رہے ہیں جسکی بابت یسوع نے فرمایا تھا: ”جب تک یہ سب باتیں نہ ہو لیں یہ نسل ہرگز تمام نہ ہوگی۔“ (متی ۲۴:۳۴) اب دُنیا کے ”گناہ پورے“ ہو رہے ہیں۔ ”زمین کے انگور کے درخت کے گچھے“ کٹائی کیلئے پک رہے ہیں۔
آپ کے لئے کارروائی کرنے کا وقت
یوحنا رسول کو بتایا گیا تھا کہ جب عدالت کا وقت قریب آتا ہے تو دو طرح کی فصل تیار ہو گی۔ ایک طرف تو وہ ”جو برائی کرتا ہے وہ برائی ہی کرتا جائے اور جو نجس ہے وہ نجس ہی ہوتا جائے۔“ اسی طرح سے دوسری طرف ”جو راستباز ہے وہ راستبازی ہی کرتا جائے اور جو پاک ہے وہ پاک ہی ہوتا جائے۔“ (مکاشفہ ۲۲:۱۰، ۱۱) موخرالذکر کام بائبل پر مبنی عالمی تعلیمی کام کی وجہ سے ترقی پا رہا ہے جسے یہوواہ کے گواہ انجام دے رہے ہیں۔ اس کام کا مقصد لوگوں کو یہ سکھانا ہے کہ خدا اُن سے کیا تقاضا کرتا ہے تاکہ وہ ہمیشہ کی زندگی پانے کے لائق ٹھہر سکیں۔ اب یہ کام ۲۳۳ ممالک میں ۸۷،۰۰۰ کلیسیاؤں کے ذریعے عمل میں آ رہا ہے۔
خدا دیر نہیں کرتا۔ اُس نے تحمل سے لوگوں کو ضروری وقت دیا ہے تاکہ ”نئی انسانیت“ کو پہن کر اُسکے وعدوں کو حاصل کرنے والے بن جائیں۔ (افسیوں ۴:۲۴) خدا، آجکل بھی دُنیا کی مسلسل بگڑتی ہوئی صورتحال کے باوجود، انتظار کر رہا ہے۔ یہوواہ کے گواہ ساری دُنیا میں اپنے ساتھی انسانوں کو ہمیشہ کی زندگی کا باعث بننے والے علم میں شریک کرنے کے لئے معقول طور پر اپنی پوری کوشش کر رہے ہیں۔ (یوحنا ۱۷:۳، ۱۷) خوشی کی بات ہے کہ ہر سال ۳،۰۰،۰۰۰ سے زیادہ لوگ جوابیعمل دکھاتے ہوئے بپتسمہ لے رہے ہیں۔
ہمیشہ کی زندگی کو مدِنظر رکھتے ہوئے اب وقت ہے کہ انتظار کی بجائے عمل کریں۔ اِسلئے کہ تھوڑے ہی عرصے میں ہم یسوع کے وعدے کی تکمیل دیکھیں گے، ”جو کوئی زندہ ہے اور مجھ پر ایمان لاتا ہے وہ ابد تک کبھی نہ مریگا۔“—یوحنا ۱۱:۲۶۔
[فٹنوٹ]
a دی سانسینو کوماش میں اس آیت پر ایک فٹنوٹ بیان کرتا ہے: ”نکال دئے جانے کے سزاوار ٹھہرنا، اِسلئے کہ خدا کسی قوم کو اُس وقت تک سزا نہیں دیتا جب تک کہ اُسکے گناہ پورے نہ ہو جائیں۔“
[صفحہ 6 پر تصویر]
خدا کی طرف سے سزا دینے والے کو کہا گیا تھا کہ اپنی درانتی زمین پر اُس وقت ڈالے جب زمین کے انگور پک جائیں
[صفحہ 7 پر تصویر]
یہوواہ کے گواہ ساری دُنیا میں لوگوں کی مدد کر رہے ہیں تاکہ وہ خدا کی ابدی برکات کے لائق ٹھہر سکیں