ایک بحالشُدہ ”ملک“ میں اکٹھے بسنے والے
”تم خداوند کے کاہن کہلاؤگے۔ وہ تمکو ہمارے خدا کے خادم کہینگے۔“—یسعیاہ ۶۱:۶۔
۱، ۲. (ا) اسرائیل میں نومریدوں کی کیا حالت تھی؟ (ب) جدید وقتوں میں ”بڑی بِھیڑ“ کے ارکان نے کیا رویہ دکھایا ہے؟
قدیم وقتوں میں، جب اسرائیل وفادار رہا تو اُس نے منظرِعالم پر یہوؔواہ کے جلال کیلئے گواہی کا کام دیا۔ (یسعیاہ ۴۱:۸، ۹؛ ۴۳:۱۰) بہت سے اجنبی اثرپذیر ہوئے اور اُسکی برگزیدہ اُمت کے ساتھ ملکر یہوؔواہ کی پرستش کرنے لگے۔ عملاً، اُنہوں نے اسرائیل سے وہی کہا جو رؔوت نے نعوؔمی سے کہا تھا: ”تیرے لوگ میرے لوگ اور تیرا خدا میرا خدا ہوگا۔“ (روت ۱:۱۶) آدمیوں کے ختنے کراتے ہوئے، اُنہوں نے شریعتی عہد کی شرائط کی اطاعت کی۔ (خروج ۱۲:۴۳-۴۸) بعض عورتوں نے اسرائیلیوں سے شادیاں کر لیں۔ یریحوؔ کی راؔحب اور موآبی رؔوت یسوؔع مسیح کی مائیں بنیں۔ (متی ۱:۵) ایسے نومرید اسرائیل کی جماعت کا حصہ تھے۔—استثنا ۲۳:۷، ۸۔
۲ اسرائیل میں نومریدوں کی طرح، آجکل ”بڑی بِھیڑ“ نے ممسوح بقیے سے کہا ہے: ”ہم تمہارے ساتھ جائینگے کیونکہ ہم نے سنا ہے کہ خدا تمہارے ساتھ ہے۔“ (مکاشفہ ۷:۹؛ زکریاہ ۸:۲۳) وہ سمجھتے ہیں کہ یہ ممسوح مسیحی یہوؔواہ کا ”دیانتدار اور عقلمند نوکر“ ہیں، اور وہ اُن کیساتھ ایسی قربت میں کام کرتے ہیں کہ ممسوح اور ”دوسری بھیڑیں . . . ایک ہی گلہ، . . . ایک ہی چرواہا“ ہیں۔ (متی ۲۴:۴۵-۴۷؛ یوحنا ۱۰:۱۶، اینڈبلیو) جب بڑی بِھیڑ کے تمام ممسوح بھائی اپنا آسمانی انعام حاصل کرتے ہیں تو اُن کیساتھ کیا ہوگا؟ اُنہیں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ اِن ”آخری ایّام“ کے دوران، یہوؔواہ نے اُس وقت کیلئے تیاری کر لی ہے۔—۲-تیمتھیس ۳:۱، اینڈبلیو۔
ایک روحانی ”ملک“
۳. پطرؔس کے ذریعے پیشینگوئیکردہ ”نیا آسمان“ کیا ہے، اور یہ کب قائم ہوا تھا؟
۳ جس آسمانی فرمانروائی کا حصہ ۱۴۴،۰۰۰ ممسوح مسیحی ہونگے اس کی پیشینگوئی پطرؔس رسول کی معرفت کی گئی تھی۔ اُس نے کہا: ”اُسکے وعدہ کے موافق ہم نئے آسمان اور نئی زمین کا انتظار کرتے ہیں جن میں راستبازی بسی رہیگی۔“ (۲-پطرس ۳:۱۳) اِس ”نئے آسمان“ کو ۱۹۱۴ میں قائم کِیا گیا جب مسیح کو بادشاہ کے طور پر آسمانی بادشاہت میں تختنشین کِیا گیا تھا۔ لیکن ”نئی زمین“ کی بابت کیا ہے؟
۴. (ا) ۱۹۱۹ میں کونسا غیرمتوقع واقعہ رونما ہوا؟ (ب) ’یکبارگی پیدا ہونے والی قوم‘ کیا تھی، اور ’ایک دن میں پیدا ہونے والا ملک‘ کیا تھا؟
۴ ۱۹۱۹ میں، یہوؔواہ ممسوح بقیے کو بڑے بابل کی اسیری سے نکال لایا۔ (مکاشفہ ۱۸:۴) مسیحی دُنیا کے پیشواؤں کیلئے، یہ ڈرامائی واقعہ بالکل غیرمتوقع تھا۔ اِس کی بابت بائبل کہتی ہے: ”ایسی بات کس نے سنی؟ ایسی چیزیں کس نے دیکھیں؟ کیا ایک دن میں کوئی ملک پیدا ہو سکتا ہے؟ کیا یکبارگی ایک قوم پیدا ہو جائے گی؟“ (یسعیاہ ۶۶:۸) جب ممسوح کلیسیا ایک آزادشُدہ اُمت کے طور پر قوموں کے سامنے اچانک نمودار ہوئی تو یقیناً ایک قوم ”یکبارگی . . . پیدا“ ہوئی تھی۔ تاہم، ”ملک“ کیا تھا؟ ایک لحاظ سے، یہ قدیم اسرائیل کے ملک کا روحانی مماثل تھا۔ یہ نوزائیدہ ”قوم“ کو عطاکردہ کارگزاری کا قلمرو تھا، ایک ایسی جگہ جہاں فردوس سے متعلق یسعیاؔہ کی کتاب کی پیشینگوئیوں کو جدید، روحانی تکمیل حاصل ہوتی ہے۔ (یسعیاہ ۳۲:۱۶-۲۰؛ ۳۵:۱-۷؛ مقابلہ کریں عبرانیوں ۱۲:۱۲-۱۴۔) ایک مسیحی جسمانی طور پر خواہ کہیں بھی ہو، وہ اُس ”ملک“ میں ہے۔
۵. ۱۹۱۹ میں کونسا مرکزی حصہ وجود میں آیا؟ وضاحت کریں۔
۵ اِسکا پطرؔس کے ذریعے پیشینگوئیکردہ ”نئی زمین“ سے کیا تعلق تھا؟ ہاں، ۱۹۱۹ میں ایک بحالشُدہ ”ملک“ میں پیدا ہونے والی وہ نئی ”قوم“ کو یہوؔواہ کے ممسوح اور غیرممسوح مدّاحین پر مشتمل ایک عالمگیر تنظیم بننا تھا۔ یہ تنظیم ہرمجِدّؔون سے بچ کر خدا کی نئی دُنیا میں جائیگی۔ اِس طریقے سے اُس قوم کو راستباز انسانی معاشرے، نئی زمین، کا مرکزی حصہ خیال کِیا جا سکتا ہے، جو شیطان کی دُنیا کی تباہی کے بعد موجود رہیگی۔a ۱۹۳۰ کے دہے کے وسط تک، ممسوح، ایک گروہ کے طور پر، ایک بحالشُدہ ملک میں جمع کر لئے گئے تھے۔ اُس وقت سے لیکر، زور دوسری بھیڑوں کی بڑی بِھیڑ کو جمع کئے جانے پر رہا ہے، جسکی تعداد آجکل تقریباً پانچ ملین ہے۔ (مکاشفہ ۱۴:۱۵، ۱۶) کیا ”ملک“ کی آبادی حد سے تجاوز کر گئی ہے؟ جینہیں، اِس کی حدود کو جتنا ضروری ہو اتنا وسیع کِیا جا سکتا ہے۔ (یسعیاہ ۲۶:۱۵) بیشک، جب ممسوح بقیہ ”رُویِزمین“ کو ”میووں“—صحتبخش، تقویتبخش روحانی خوراک—سے مالامال کرتا ہے تو اِسکی آبادی کو بڑھتے ہوئے دیکھنا ہیجانخیز ہے۔ (یسعیاہ ۲۷:۶) لیکن خدا کے لوگوں کے بحالشُدہ ”ملک“ میں اِن دوسری بھیڑوں کی کیا حیثیت ہے؟
”ملک“ میں سرگرمِعمل پردیسی
۶. پردیسی خدا کے لوگوں کے ”ملک“ میں کیسے سرگرمِعمل رہے ہیں؟
۶ جس طرح اسرائیل کے ملک میں نومریدوں نے موسوی شریعت کی اطاعت کی، آجکل بڑی بِھیڑ بحالشُدہ ”ملک“ میں یہوؔواہ کے احکام کی تعمیل کرتی ہے۔ اپنے ممسوح بھائیوں سے تعلیم پاتے ہوئے، وہ تمام قسم کی جھوٹی پرستش سے اجتناب کرتے ہیں اور خون کے تقدس کو تسلیم کرتے ہیں۔ (اعمال ۱۵:۱۹، ۲۰؛ گلتیوں ۵:۱۹، ۲۰؛ کلسیوں ۳:۵) وہ یہوؔواہ سے اپنے سارے دل، عقل، جان، اور طاقت سے محبت رکھتے اور اپنے پڑوسی سے اپنے برابر محبت رکھتے ہیں۔ (متی ۲۲:۳۷؛ یعقوب ۲:۸) قدیم اسرائیل میں نومریدوں نے سلیماؔن کی ہیکل کی تعمیر کرنے میں مدد کی اور سچی پرستش کی بحالیوں کی حمایت کی۔ (۱-تواریخ ۲۲:۲؛ ۲-تواریخ ۱۵:۸-۱۴؛ ۳۰:۲۵) آجکل، بڑی بِھیڑ بھی تعمیراتی کاموں میں حصہ لیتی ہے۔ مثال کے طور پر، وہ کلیسیائیں اور سرکٹ تعمیر کرنے میں مدد دیتے ہیں، کنگڈم ہال، اسمبلی ہال، اور برانچ سہولیات جیسے تعمیراتی پروجیکٹ کے سازوسامان کی ذمہداری اٹھانے کا ذکر ہی کیا۔
۷. اسیری کے بعد یرؔوشلیم میں کیا واقع ہوا جب مقدِس کی خدمات انجام دینے کیلئے کافی تعداد میں لاوی نہیں تھے؟
۷ جب اسرائیل ۵۳۷ ق.س.ع. میں، بابلؔ کی اسیری سے واپس لوٹا تو اُنہوں نے ہیکل کے مقام پر خدمت کو منظم کرنے کا آغاز کِیا۔ تاہم، جو لاوی واپس لوٹے وہ بہت زیادہ نہیں تھے۔ چنانچہ، نتنیم—مختون پردیسی باشندوں کو جو پہلے وقتوں میں لاویوں کے معاون تھے—ہیکل کی خدمت میں اضافی استحقاقات دئے گئے تھے۔ تاہم، وہ ممسوح ہارونی کاہنوں کے برابر نہیں تھے۔b—عزرا ۷:۲۴؛ ۸:۱۵-۲۰؛ نحمیاہ ۳:۲۲-۲۶۔
۸، ۹. آخری ایّام کے دوران پاک خدمت انجام دینے کے کام میں اضافی حصہ لینے کیلئے دوسری بھیڑوں نے ذمہداری کیسے قبول کر لی ہے؟
۸ آجکل ممسوح مسیحیوں نے اِسی نمونے کی پیروی کی ہے۔ جونہی ”آخری وقت“ آگے بڑھا ہے، ممسوحوں میں سے باقیماندہ اشخاص خدا کے لوگوں کے ”ملک“ میں بہت ہی تھوڑے رہ گئے ہیں۔ (دانیایل ۱۲:۹؛ مکاشفہ ۱۲:۱۷) اِسکے پیشِنظر، ”پاک خدمت“ کرنے کا زیادہتر کام اب بڑی بِھیڑ انجام دیتی ہے۔ (مکاشفہ ۷:۱۵، اینڈبلیو) اپنے ممسوح بھائیوں کی قیادت کی پیروی کرتے ہوئے، وہ ”حمد کی قربانی یعنی اُن ہونٹوں کا پھل جو اُسکے نام کا اقرار کرتے ہیں خدا کیلئے [چڑھاتے ہیں]۔“ وہ یہ جانتے ہوئے ”بھلائی اور سخاوت کرنا [نہیں بھولتے] کہ ”خدا ایسی قربانیوں سے خوش ہوتا ہے۔“—عبرانیوں ۱۳:۱۵، ۱۶۔
۹ علاوہازیں، بڑی بِھیڑ میں ہر سال سینکڑوں ہزاروں کے اضافے کیساتھ، نگہبانی کیلئے ہمہوقت بڑھتی ہوئی ضرورت ہے۔ ایک وقت تھا کہ یہ ذمہداری صرف اور صرف ممسوح مسیحیوں کے ذریعے ہی پوری کی جاتی تھی۔ اب، زیادہتر کلیسیاؤں، نیز سرکٹوں، ڈسٹرکٹوں، اور برانچوں کی نگہداشت، دوسری بھیڑوں کے سپرد کرنے کی ضرورت رہی ہے۔ ۱۹۹۲ میں اِن میں سے چند ایک کو گورننگ باڈی کی کمیٹیوں کے اجلاسوں میں حاضر ہونے اور رائےدہندگی کا حق نہ رکھنے والے مددگاروں کے طور پر خدمت کرنے کا شرف دیا گیا تھا۔ تاہم، دوسری بھیڑیں اپنے ممسوح ساتھی مسیحیوں کے وفادار رہتی ہیں اور یہوؔواہ کے دیانتددار اور عقلمند نوکر کے طور پر اُنکی مدد کرنے کو استحقاق سمجھتی ہیں۔—متی ۲۵:۳۴-۴۰۔
”رئیس . . . کی مانند“
۱۰، ۱۱. بعض فلستیوں کے نمونے کی پیروی کرتے ہوئے، خدا کے لوگوں کے بعض سابقہ دشمنوں نے کیسے تبدیلی پیدا کی تھی؟ کس نتیجے کیساتھ؟
۱۰ جس طریقے سے دیانتدار اور عقلمند نوکر نے دوسری بھیڑوں کو ذمہدارانہ مرتبوں پر استعمال کِیا ہے، اِس کی پیشینگوئی زکریاہ ۹:۶، ۷ میں کی گئی تھی۔ وہاں ہم پڑھتے ہیں: ”مَیں فلستیوں کا فخر مٹاؤنگا۔ اور مَیں اُس کے خون کو اُس کے مُنہ سے اور اُس کی مکروہات اُس کے دانتوں سے نکال ڈالونگا اور وہ بھی ہمارے خدا کے لئے بقیہ ہوگا اور وہ یہوؔداہ میں سردار [”رئیس،“ اینڈبلیو] ہوگا اور عقرونی یبوسیوں کی مانند ہونگے۔“c فلستی یہوؔواہ کے لوگوں کے جانی دشمن تھے، جیسے کہ آجکل شیطان کی دُنیا ہے۔ (۱-یوحنا ۵:۱۹) جس طرح فلستی آخرکار بطور ایک اُمت کے نیست کر دئے گئے تھے، اسی طرح سے یہ دُنیا، اپنے مذہبی، سیاسی، اور تجارتی عناصر کے ساتھ جلد ہی یہوؔواہ کے تباہکُن قہر کا تجربہ کرے گی۔—مکاشفہ ۱۸:۲۱؛ ۱۹:۱۹-۲۱۔
۱۱ تاہم، زکرؔیاہ کے الفاظ کے مطابق، بعض فلستیوں نے سوچ اور احساسات میں تبدیلی پیدا کر لی تھی، اور اِس چیز نے عکس پیش کِیا کہ آجکل بعض دُنیادار شخص یہوؔواہ کے دشمن نہیں رہینگے۔ وہ مذہبی بتپرستی کو اِسکی نفرتانگیز رسوم اور مکروہ قربانیوں سمیت ترک کر دینگے اور یہوؔواہ کی نظر میں پاک ہو جائیں گے۔ ایسے تبدیلشُدہ ”فلستیوں“ کو ہمارے زمانے میں بڑی بِھیڑ میں دیکھا جاتا ہے۔
۱۲. جدید وقتوں میں، ”عقرؔون“ کیسے ”یبوسیوں کی مانند“ بن گیا ہے؟
۱۲ پیشینگوئی کے مطابق، عقرؔون کا بڑا فلسطینی شہر ”یبوسیوں کی مانند“ ہوگا۔ یبوسی بھی ایک وقت میں اسرائیل کے دشمن تھے۔ یرؔوشلیم اُنکے قبضہ میں تھا جبتک داؔؤد نے اُسے فتح نہ کر لیا۔ پھربھی، اُن میں سے بعض، اسرائیلیوں کیساتھ جنگ میں سے بچنے والے بدیہی طور پر نومرید بن گئے۔ اُنہوں نے اسرائیل کے ملک میں غلاموں کے طور پر خدمت کی اور ہیکل کی تعمیر کے کام میں حصہ لینے کا شرف بھی حاصل کِیا تھا۔ (۲-سموئیل ۵:۴-۹؛ ۲-تواریخ ۸:۱-۱۸) آجکل، ”عقرونی“ جو یہوؔواہ کی پرستش کرنے کی طرف رجوع ہوتے ہیں ”ملک“ میں دیانتدار اور عقلمند نوکر کی نگرانی کے تحت خدمت کے استحقاقات بھی رکھتے ہیں۔
۱۳. قدیم دُنیا میں رئیس کیا تھے؟
۱۳ زکرؔیاہ کہتا ہے کہ فلسطین یہوؔداہ میں رئیس کی مانند ہوگا۔ عبرانی لفظ آلوف کا جب ترجمہ ”رئیس“ کِیا گیا تو اِسکا مطلب ”ایک ہزار کا سردار“ (یا، ”سالار“) ہے۔ یہ ایک بہت بلند مرتبہ ہے۔ اؔدوم کی قدیم قوم کے بظاہر صرف ۱۳ رئیس ہی تھے۔ (پیدایش ۳۶:۱۵-۱۹) اسرائیل کا ذکر کرتے ہوئے لفظ ”رئیس“ اکثر استعمال نہیں ہوا ہے، لیکن اصطلاح ”ہزار ہزار کے سردار“ (یا، حاکم) اکثروبیشتر ظاہر ہوتی ہے۔ جب موسیٰؔ نے اسرائیل کی قوم کے نمائندوں کو طلب کِیا تو اُس نے ”بنی اسرائیل میں ہزاروں کے سردار“ بلائے۔d اُن میں سے ۱۲، ظاہری طور پر صرف موسیٰؔ کے ماتحت تھے۔ (گنتی ۱:۴-۱۶) اِسی طرح سے، فوج کی تنظیم میں، ہزاروں کے سردار ہی جرنیل یا بادشاہ کے دوسرے درجے پر ہوتے تھے۔—۲-سموئیل ۱۸:۱، ۲؛ ۲-تواریخ ۲۵:۵۔
۱۴. آجکل ”فلسطین“ رئیس کی مانند کیسے بن گیا ہے؟
۱۴ زکرؔیاہ نے یہ پیشینگوئی نہیں کی تھی کہ تائب فلسطین درحقیقت اسرائیل کے اندر رئیس ہوگا۔ یہ موزوں نہیں ہوگا کیونکہ وہ پیدائشی اسرائیلی نہیں تھا۔ لیکن وہ رئیس کے ہمپلہ اختیار کا مرتبہ رکھتے ہوئے، رئیس کی مانند ہوگا۔ اور یہ ایسے ثابت ہوا ہے۔ جوں جوں ممسوح مسیحیوں کے بقیے کی تعداد میں کمی واقع ہوتی ہے اور بہتیرے باقیماندہ جو زندہ ہیں عمر کی وجہ سے محدود ہیں تو گویا خوب تربیتیافتہ دوسری بھیڑیں مدد کرتی ہیں جب اُن کی ضرورت پڑتی ہے۔ وہ اپنے ممسوح بھائیوں کی جگہ لینا نہیں چاہتے۔ لیکن دیانتدار اور عقلمند نوکر اُنہیں ”ملک“ میں اختیار دیتا ہے تاکہ خدا کی تنظیم ایک منظم طریقے سے ترقی کرنا جاری رکھ سکے۔ ایسے ترقیپسندانہ عمل کو ایک اور پیشینگوئی میں بھی دیکھا گیا ہے۔
کاہن اور ہل چلانے والے
۱۵. (ا) یسعیاہ ۶۱:۵، ۶ کی تکمیل میں، ”خداوند کے کاہن“ کون ہیں، اور وہ اِس حیثیت میں ایک مکمل مفہوم میں کب خدمت کرتے ہیں؟ (ب) ”بیگانے“ کون ہیں جو اسرائیل کا کھیتیباڑی کا کام کرتے ہیں، اور—ایک روحانی مفہوم میں—اِس کام میں کیا کچھ شامل ہے؟
۱۵ یسعیاہ ۶۱:۵، ۶ پیشینگوئی کرتی ہیں: ”پردیسی آ کھڑے ہونگے اور تمہارے گلوں کو چرائینگے اور بیگانوں کے بیٹے تمہارے ہل چلانے والے اور تاکستانوں میں کام کرنے والے ہونگے۔ پر تم خداوند کے کاہن کہلاؤگے۔ وہ تمکو ہمارے خدا کے خادم کہینگے۔ تم قوموں کا مال کھاؤگے اور تم اُن کی شوکت پر فخر کروگے۔“ آجکل ممسوح مسیحی ”خداوند کے کاہن“ ہیں۔ حتمی اور مکمل مفہوم میں، وہ آسمانی بادشاہت میں بطور ”خداوند کے کاہن . . . ہمارے خدا کے خادم“ خدمت کرینگے۔ (مکاشفہ ۴:۹-۱۱) کھیتیباڑی کے کام کے ذمہدار ”پردیسی“ کون ہیں؟ یہ دوسری بھیڑیں ہیں، جو خدا کے اسرائیل کے ”ملک“ میں رہائشپذیر ہیں۔ گلّہبانی، کھیتیباڑی، اور تاکستانی کے کام کیا ہیں جو اُنکے سپرد کئے گئے ہیں؟ اہم روحانی مفہوم میں، اِن کاموں کا تعلق خوراک پہنچانے، تعلیموتربیت کرنے، اور کٹائی کرنے والے لوگوں سے ہے۔—یسعیاہ ۵:۷؛ متی ۹:۳۷، ۳۸؛ ۱-کرنتھیوں ۳:۹؛ ۱-پطرس ۵:۲۔
۱۶. بالآخر خدا کے لوگوں کے ”ملک“ میں تمام کام کون انجام دینگے؟
۱۶ اِس وقت، زمین پر روحانی گلّہبانی، کھیتیباڑی، اور تاکستانی کے کاموں میں حصہ لینے والے روحانی اسرائیلیوں کی ایک چھوٹی تعداد باقی ہے۔ جب پوری ممسوح کلیسیا آخرکار مسیح کیساتھ متحد ہو جاتی ہے تو یہ تمام کام کرنے کی ذمہداری دوسری بھیڑوں کی ہوگی۔ حتیٰکہ ”ملک“ میں انسانی نگرانی بھی لائق دوسری بھیڑوں کے ہاتھوں میں ہوگی، جنہیں حزقیایل کی کتاب میں فرمانروا جماعت کے طور پر نامزد کِیا گیا ہے۔—حزقیایل، ابواب ۴۵، ۴۶۔e
”ملک“ قائم رہتا ہے
۱۷. یہوؔواہ اِن آخری ایّام کے دوران کیا تیاریاں کرتا رہا ہے؟
۱۷ جیہاں، بڑی بِھیڑ کو خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے! یہوؔواہ نے اُن کیلئے بہت تیاریاں کر لی ہیں۔ اِن آخری ایّام میں زمین پر نہایت اہم ترقی ممسوح اشخاص پر مہر کرنے اور اُنہیں جمع کرنے میں ہوئی ہے۔ (مکاشفہ ۷:۳) تاہم، یہ دیکھتے ہوئے کہ یہ کام انجام پا رہا ہے، یہوؔواہ بحالشُدہ روحانی ملک میں دوسری بھیڑوں کو اُنکی رفاقت میں لایا ہے۔ یہاں اُنہیں روحانی طور پر سیر کِیا گیا ہے اور مسیحی زندگی بسر کرنے میں اُنہیں تربیت دی گئی ہے۔ علاوہازیں، پاک خدمت سمیت نگرانی میں انہیں خوب تربیت دی گئی ہے۔ اِس کیلئے وہ یہوؔواہ اور اپنے ممسوح بھائیوں کے دل سے شکرگزار ہیں۔
۱۸. دوسری بھیڑیں کن واقعات کے دوران روحانی اسرائیل کے ”ملک“ میں وفادار رہینگی؟
۱۸ جب ماؔجوج کا جوؔج خدا کے لوگوں پر اپنا آخری حملہ کرتا ہے تو دوسری بھیڑیں ”دیہات کی سرزمین“ میں ممسوح بقیے کے ساتھ ثابتقدم رہیں گی۔ دوسری بھیڑیں ابھی اُس ”ملک“ میں ہی ہونگی جب وہ قوموں کی تباہی سے بچ جائینگی اور خدا کی نئی دُنیا میں داخل ہو جائیں گی۔ (حزقیایل ۳۸:۱۱؛ ۳۹:۱۲، ۱۳؛ دانیایل ۱۲:۱؛ مکاشفہ ۷:۹، ۱۴) وفادار رہتے ہوئے، اُنہیں اُس مسرتبخش مقام کو کبھی چھوڑنا نہیں پڑیگا۔—یسعیاہ ۱۱:۹۔
۱۹، ۲۰. (ا) نئی دُنیا میں، ”ملک“ کے باشندے کس شاندار نگہبانی سے لطف اُٹھائینگے؟ (ب) ہم بڑی توقع کیساتھ کس چیز کی آس رکھتے ہیں؟
۱۹ قدیم اسرائیل پر انسانی بادشاہ حکمران تھے اور وہ لاوی کاہن رکھتے تھے۔ نئی دُنیا میں، مسیحیوں کو کہیں زیادہ شاندار نگہبانی حاصل ہوگی۔ یہوؔواہ خدا کے تحت، وہ عظیم سردار کاہن اور بادشاہ، یسوؔع مسیح، اور ۱۴۴،۰۰۰ نائب کاہنوں اور بادشاہوں کے تابع ہونگے—جن میں سے بعض کو وہ پہلے اپنے مسیحی بھائیوں اور بہنوں کے طور پر جانتے تھے۔ (مکاشفہ ۲۱:۱) روحانی ملک کے وفادار باشندے، نئے یرؔوشلیم کے ذریعے پہنچائی جانے والی شفائیہ برکات سے خوش ہوتے ہوئے، حقیقی فردوس میں بحالکردہ زمین پر رہیں گے۔—یسعیاہ ۳۲:۱؛ مکاشفہ ۲۱:۲؛ ۲۲:۱، ۲۔
۲۰ جب یہوؔواہ کا شاندار فلکی رتھ اپنے مقاصد کو حاصل کرنے کیلئے بِلامزاحمت آگے کی طرف حرکت کرتا ہے تو ہم سب اپنے تفویضکردہ کردار کو پورا کرتے ہوئے بڑی توقع کیساتھ آس لگائے رکھتے ہیں۔ (حزقیایل ۱:۱-۲۸) آخرکار جب یہ مقاصد پورے ہو جاتے ہیں تو سوچیں کہ یہوؔواہ کی فاتحانہ تقدیس کا جشن کتنی خوشی کیساتھ منایا جائیگا! پھر تمام مخلوقات کے ذریعے مکاشفہ ۵:۱۳ میں درج پُرزور ترانہ گایا جائیگا: ”جو تخت پر بیٹھا ہے اُسکی اور بّرہ کی حمد اور عزت اور تمجید اور سلطنت ابدالآباد رہے“! ہمارا مقام خواہ آسمان میں ہوگا یا زمین پر تو بھی کیا ہم حمد کے اُس پُرشکوہ طائفے میں اپنی آوازیں ملاتے ہوئے، وہاں ہونے کی آرزو نہیں کرتے؟ (۲۰ ۷/۰۱ w۹۵)
[فٹنوٹ]
a دیکھیں واچٹاور بائبل اینڈ ٹریکٹ سوسائٹی آف نیو یارک، انکارپوریٹڈ کی ۱۹۵۳ میں شائعکردہ ”نیو ہیونز اینڈ اے نیو ارتھ،“ صفحات ۳۲۲-۳۲۳۔
b ایک مکمل بحث کیلئے، اکتوبر، ۱۹۹۲ کے مینارِنگہبانی کے شمارے میں ”یہوؔواہ کی فراہمی، ’عطاکردہ لوگ‘“ کے مضمون کو دیکھیں۔
c دیکھیں واچٹاور بائبل اینڈ ٹریکٹ سوسائٹی آف نیویارک، انکارپوریٹڈ کی ۱۹۷۲ میں شائع کردہ پیراڈائیز ریسٹورڈ ٹو مینکائنڈ—بائے تھیوکریسی! کے صفحات ۲۶۴-۲۶۹۔
d عبرانی: راشے آلف یسرائیل، کا ہفتادی میں ترجمہ خیلیارِخوئی اسرائیل ”اسرائیل کے سالار“ کِیا گیا ہے۔
e دیکھیں واچٹاور بائبل اینڈ ٹریکٹ سوسائٹی آف نیو یارک، انکارپوریٹڈ کی ۱۹۷۱ میں شائعکردہ ”دی نیشنز شیل نو دیٹ آئی ایم جیہوواہ—ہاؤ؟،“ صفحات ۴۰۱-۴۰۷۔
آپ کیسے جواب دیتے ہیں؟
▫ ۱۹۱۹ میں کونسا ”ملک“ بحال کِیا گیا تھا، اور اِسے رہائشی باشندوں سے کیسے معمور کِیا گیا تھا؟
▫ خدا کے بحالشُدہ لوگوں کے ”ملک“ میں دوسری بھیڑوں کو اضافی ذمہداریاں کیسے دی گئی ہیں؟
▫ کس طریقے سے بڑی بِھیڑ کے رکن ”یبوسیوں کی مانند“ اور ”یہوؔداہ میں رئیسوں کی مانند“ ہیں؟
▫ کتنی دیر تک وفادار دوسری بھیڑیں ”ملک“ میں رہینگی؟