اپنے بیشقیمت ایمان کو مضبوطی سے تھامے رہیں!
”جنہوں نے . . . ہمارا سا قیمتی ایمان پایا ہے۔“—۲-پطرس ۱:۱۔
۱. یسوع نے اپنے رسولوں کی آگاہی کیلئے کیا کہا مگر پطرس کیا شیخی بگھارتا ہے؟
یسوع کی موت سے پہلے کی شام، اُس نے کہا کہ اُس کے سارے رسول اُس کا ساتھ چھوڑ جائینگے۔ اُن میں سے ایک، پطرس، نے شیخی بگھاری: ”گو سب تیری بابت ٹھوکر کھائیں لیکن مَیں کبھی ٹھوکر نہ کھاؤنگا۔“ (متی ۲۶:۳۳) لیکن یسوع جانتا تھا کہ اسکے برعکس ہوگا۔ اسی لئے اُس نے اُسی موقع پر پطرس سے کہا: ”مَیں نے تیرے لئے دُعا کی کہ تیرا ایمان جاتا نہ رہے اور جب تُو رجوع کرے تو اپنے بھائیوں کو مضبوط کرنا۔“—لوقا ۲۲:۳۲۔
۲. پطرس کی حد سے زیادہ خوداعتمادی کے باوجود اُس کے کن اعمال نے ظاہر کِیا کہ اُسکا ایمان کمزور تھا؟
۲ پطرس نے جو اپنے ایمان کی بابت حد سے زیادہ پُراعتماد ہو گیا تھا، اُسی رات یسوع کا انکار کر دیا۔ تین مرتبہ اُس نے کہا کہ وہ تو مسیح کو جانتا تک نہیں! (متی ۲۶:۶۹-۷۵) جب وہ ”رجوع“ لایا ہوگا تو اُسکے کانوں میں اپنے اُستاد کے یہ الفاظ ضرور گونج اُٹھے ہونگے کہ ”اپنے بھائیوں کو مضبوط کرنا۔“ پطرس کی باقی زندگی اس نصیحت سے بہت زیادہ متاثر ہوئی تھی، جیساکہ اُسکے لکھے ہوئے دو خطوط سے ظاہر ہے جوکہ بائبل میں محفوظ ہیں۔
پطرس نے اپنے خطوط کیوں تحریر کئے
۳. پطرس نے اپنا پہلا خط کیوں لکھا؟
۳ یسوع کی موت کے تقریباً ۳۰ سال بعد، پطرس نے پُنطُس، گلتیہ، کپدُکیہ، آسیہ اور بتُھنیہ میں رہنے والے اپنے بھائیوں کے نام پہلا خط لکھا، یہ وہ علاقے ہیں جو آجشمالمغربی تُرکی کو تشکیل دیتے ہیں۔ (۱-پطرس ۱:۱) یہودی، جن میں سے بعض ۳۳ س.ع. پنتِکُست پر مسیحی بن چکے تھے، بِلاشُبہ اُن لوگوں میں شامل تھے جنہیں پطرس نے خط لکھا تھا۔ (اعمال ۲:۱، ۷-۹) بہتیرے غیریہودی تھے جو مخالفین کے ہاتھوں پُرتشدد اذیت اُٹھا رہے تھے۔ (۱-پطرس ۱:۶، ۷؛ ۲:۱۲، ۱۹، ۲۰؛ ۳:۱۳-۱۷؛ ۴:۱۲-۱۴) لہٰذا پطرس نے ان بھائیوں کی حوصلہافزائی کیلئے اُنہیں خط لکھا۔ اُسکی خواہش تھی کہ ”[اُنکے] ایمان کا مقصد یعنی [اُنکی] رُوحوں کی نجات حاصل“ کرنے کیلئے اُنکی مدد کرے۔ پس، اپنی الوداعی نصیحت میں اُس نے تاکید کی: ”ایمان میں مضبوط ہوکر . . . [ابلیس] کا مقابلہ کرو۔“—۱-پطرس ۱:۹؛ ۵:۸-۱۰۔
۴. پطرس نے اپنا دوسرا خط کیوں لکھا؟
۴ بعدازاں، پطرس نے اُنہی مسیحیوں کو دوسرا خط لکھا۔ (۲-پطرس ۳:۱) کیوں؟ اسلئےکہ ایک اَور بڑا خطرہ لاحق تھا۔ بداخلاق اشخاص اپنے ناپاک چالچلن کو ایمانداروں میں پھیلانے کی کوشش کرینگے اور بعض کو گمراہ کرینگے! (۲-پطرس ۲:۱-۳) مزیدبرآں، پطرس نے ٹھٹھابازوں سے بھی آگاہ کِیا۔ وہ اپنے پہلے خط میں لکھ چکا تھا کہ ”سب چیزوں کا خاتمہ جلد ہونے والا ہے،“ اور اب بعض لوگ بظاہر اس خیال کا تمسخر اُڑا رہے تھے۔ (۱-پطرس ۴:۷؛ ۲-پطرس ۳:۳، ۴) آئیے پطرس کے دوسرے خط کا جائزہ لیں اور دیکھیں کہ کیسے اس نے بھائیوں کو ایمان میں ثابتقدم رہنے کیلئے تقویت بخشی۔ اس پہلے مضمون میں ہم ۲-پطرس باب ۱ پر غوروخوض کرینگے۔
باب ۱ کا مقصد
۵. پطرس اپنے قارئین کو مسائل پر باتچیت کرنے کیلئے کیسے تیار کرتا ہے؟
۵ پطرس نے سنجیدہ مسائل پر فوراً ہی گفتگو شروع نہیں کر دی تھی۔ بلکہ وہ اس بات کیلئے اپنے قارئین کی قدردانی بڑھانے سے کہ اُنہوں نے مسیحی بننے کے وقت کیا کچھ حاصل کِیا ان مسائل پر گفتگو کرنے کیلئے راہ تیار کرتا ہے۔ وہ اُنہیں خدا کے شاندار وعدوں اور بائبل پیشینگوئیوں کے قابلِاعتماد ہونے کی بابت یاد دلاتا ہے۔ وہ تبدیلئہیئت کی رویا کی بابت بتانے سے ایسا کرتا ہے جو اُس نے خود مسیح کے بادشاہتی اختیار کی بابت دیکھی تھی۔—متی ۱۷:۱-۸؛ ۲-پطرس ۱:۳، ۴، ۱۱، ۱۶-۲۱۔
۶، ۷. (ا) ہم پطرس کے خط کی تمہید سے کونسے اسباق سیکھ سکتے ہیں؟ (ب) اگر ہم مشورت پیش کرتے ہیں تو بعضاوقات کس قسم کا اعتراف کرنا مفید ہو سکتا ہے؟
۶ کیا ہم پطرس کی تمہید سے کوئی سبق سیکھ سکتے ہیں؟ اگر ہم پہلے اپنی شاندار بادشاہتی اُمید کے پہلوؤں پر سامعین کے ساتھ باتچیت کریں جو ہم مشترکہ طور پر رکھتے ہیں تو کیا مشورت اَور زیادہ قابلِقبول نہیں بن جاتی؟ اور ایک ذاتی تجربے کے استعمال کی بابت کیا ہے؟ غالباً، یسوع کی موت کے بعد، پطرس نے اکثر مسیح کے بادشاہتی جلال کی رویا دیکھنے کی بابت بتایا ہوگا؟—متی ۱۷:۹۔
۷ یہ بھی یاد رکھیں کہ اس بات کا امکان غالب ہے کہ جب پطرس نے اپنا دوسرا خط لکھا تو متی کی انجیل اور گلتیوں کے نام پولس رسول کا خط وسیع پیمانے پر تقسیم کئے جا چکے تھے۔ لہٰذا پطرس کی انسانی کمزوریوں اور اُسکے ایمان کے ریکارڈ سے اُسکے ہمعصر اچھی طرح واقف ہونگے۔ (متی ۱۶:۲۱-۲۳؛ گلتیوں ۲:۱۱-۱۴) تاہم، اس سے اُسکی کلام کرنے کی آزادی ختم نہیں ہوئی تھی۔ یقیناً، اس بات نے اُسکے خط کو اُن لوگوں کیلئے اَور بھی زیادہ جاذبِتوجہ بنا دیا ہوگا جو اپنی کمزوریوں سے باخبر تھے۔ اسلئے، مشکلات سے دوچار لوگوں کی مدد کرتے وقت، کیا اس حقیقت کو تسلیم کرنا اثرآفریں نہیں ہوگا کہ ہم بھی خطاکاری کی طرف مائل ہیں؟—رومیوں ۳:۲۳؛ گلتیوں ۶:۱۔
ایک تقویتبخش سلام
۸. پطرس نے لفظ ”ایمان“ کو غالباً کس مفہوم میں استعمال کِیا تھا؟
۸ اب ذرا پطرس کے سلام پر غور کریں۔ وہ اپنے قارئین کو ”ہمارا سا قیمتی ایمان“ پانے والوں کے طور پر مخاطب کرکے، فوراً ایمان کے موضوع پر گفتگو کرتا ہے۔ (۲-پطرس ۱:۱) یہاں لفظ ”ایمان“ سے مُراد غالباً ”پُختہ عقیدہ“ ہے اور مسیحی اعتقادات یا تعلیمات کے مجموعے کی طرف اشارہ کرتا ہے جسے بعضاوقات صحائف میں ”حق“ کہا گیا ہے۔ (گلتیوں ۵:۷؛ ۲-پطرس ۲:۲؛ ۲-یوحنا ۱) لفظ ”ایمان“ کسی شخص یا شے پر بھروسے یا اعتماد کے عام مفہوم کی بجائے اکثر اسی مفہوم میں استعمال کِیا جاتا ہے۔—اعمال ۶:۷؛ ۲-کرنتھیوں ۱۳:۵؛ گلتیوں ۶:۱۰؛ افسیوں ۴:۵؛ یہوداہ ۳۔
۹. پطرس کا سلام بالخصوص غیریہودیوں کو کیوں پُرتپاک معلوم ہوا ہوگا؟
۹ پطرس کا سلام بالخصوص غیریہودی قارئین کو پُرتپاک معلوم ہوا ہوگا۔ یہودی غیریہودیوں کیساتھ کسی قسم کا برتاؤ نہیں رکھتے تھے حتیٰکہ اُنکی تحقیر کرتے تھے اور غیریہودیوں کیلئے یہی تعصّب مسیحی بننے والے یہودیوں کے دلوں میں قائم تھا۔ (لوقا ۱۰:۲۹-۳۷؛ یوحنا ۴:۹؛ اعمال ۱۰:۲۸) تاہم، پطرس نے جوکہ پیدائشی یہودی اور یسوع مسیح کا رسول تھا کہا کہ اُسکے قارئین—یہودی اور غیریہودی—ایک ہی ایمان میں شریک تھے اور اُس کے ساتھ مساوی استحقاق سے لطفاندوز ہوتے تھے۔
۱۰. ہم پطرس کے سلام سے کونسے اسباق سیکھتے ہیں؟
۱۰ ذرا اُن عمدہ اسباق پر غور کیجئے جو پطرس کا سلام آج ہمیں سکھاتا ہے۔ خدا طرفدار نہیں؛ وہ ایک نسل یا قومیت کو دوسری سے برتر خیال نہیں کرتا۔ (اعمال ۱۰:۳۴، ۳۵؛ ۱۱:۱، ۱۷؛ ۱۵:۳-۹) جیساکہ یسوع نے خود سکھایا، تمام مسیحی بھائی ہیں اور ہم میں سے کسی کو بھی افضل خیال نہیں کرنا چاہئے۔ مزیدبرآں، پطرس کا سلام اس بات پر زور دیتا ہے کہ ہم واقعی ایک عالمگیر برادری ہیں جو ”ہمارا سا قیمتی“ ایمان رکھتی ہے جیساکہ پطرس اور اُسکے ساتھی رسولوں کا تھا۔—متی ۲۳:۸؛ ۱-پطرس ۵:۹۔
علم اور خدا کے وعدے
۱۱. اپنے سلام کے بعد، پطرس کن اہم باتوں پر زور دیتا ہے؟
۱۱ اپنے سلام کے بعد، پطرس لکھتا ہے: ”فضل اور اطمینان تمہیں زیادہ ہوتا رہے۔“ ہمارے لئے غیرمستحق فضل اور اطمینان کیسے زیادہ ہو سکتا ہے؟ ”خدا اور ہمارے خداوند یسوع کی پہچان کے سبب سے،“ پطرس جواب دیتا ہے۔ پھر وہ کہتا ہے: ”اِلہٰی قدرت نے وہ سب چیزیں جو زندگی اور دینداری سے متعلق ہیں ہمیں . . . عنایت کیں۔“ لیکن ہم یہ اہم چیزیں کسطرح حاصل کرتے ہیں؟ ”اُسکی پہچان کے وسیلہ سے . . . جس نے ہمکو اپنے خاص جلال اور نیکی کے ذریعہ سے بلایا۔“ پس پطرس دو مرتبہ اس بات پر زور دیتا ہے کہ خدا اور اُسکے بیٹے کا صحیح علم لازمی ہے۔—۲-پطرس ۱:۲، ۳؛ یوحنا ۱۷:۳۔
۱۲. (ا) پطرس صحیح علم کی اہمیت پر کیوں زور دیتا ہے؟ (ب) خدا کے وعدوں سے مستفید ہونے کیلئے ہمیں پہلے کیا کر لینا چاہئے؟
۱۲ ”جھوٹے اُستاد“ جنکی بابت پطرس ۲ باب میں آگاہ کرتا ہے مسیحیوں کو دھوکا دینے کیلئے ”[منافقانہ] باتیں“ بناتے ہیں۔ اس طرح وہ اُنہیں اُسی بداخلاقی میں پھنسانے کی کوشش کرتے ہیں جس میں سے اُنہیں نکالا گیا تھا۔ ”خداوند اور مُنجی یسوع مسیح کی پہچان [”صحیح علم،“ اینڈبلیو]“ کے وسیلہ سے بچائے جانے والوں اور بعدازاں ایسے فریب میں پھنس جانے والوں کیلئے اسکے نتائج تباہکُن ہیں۔ (۲-پطرس ۲:۱-۳، ۲۰) بظاہر اس مسئلے پر بعد میں گفتگو کرنے کی توقع کے ساتھ، پطرس اپنے خط کے آغاز میں ہی خدا کے حضور پاکصاف حیثیت رکھنے کیلئے صحیح علم کے کردار پر زور دیتا ہے۔ پطرس بیان کرتا ہے کہ خدا نے ”ہم سے قیمتی اور نہایت بڑے وعدے کئے تاکہ اُنکے وسیلہ سے تم . . . ذاتِالہٰی میں شریک ہو جاؤ۔“ تاہم، ان وعدوں سے مستفید ہونے کیلئے جو ہمارے ایمان کا نہایت اہم حصہ ہیں، پطرس فرماتا ہے، ہمیں پہلے ” اُس خرابی سے . . . جو دُنیا میں بُری خواہش کے سبب سے ہے“ آزاد ہونا چاہئے۔—۲-پطرس ۱:۴۔
۱۳. ممسوح مسیحی اور ”دوسری بھیڑیں“ کس چیز کو مضبوطی سے تھامے رہنے کا عزم کئے ہوئے ہیں؟
۱۳ آپ خدا کے وعدوں کو کیسا خیال کرتے ہیں؟ جس طرح ممسوح مسیحیوں کا بقیہ خیال کرتا ہے؟ ۱۹۹۱ میں، واچ ٹاور بائبل اینڈ ٹریکٹ سوسائٹی کے اُسوقت کے صدر، فریڈرک فرینز نے، جنہوں نے ۷۵ سے زائد برسوں تک کُلوقتی خدمت کو ثابتقدمی سے برقرار رکھا، مسیح کیساتھ حکمرانی کرنے کی اُمید رکھنے والوں کے احساسات کی تلخیص ان الفاظ میں کی: ”ہم آج تک ثابتقدم رہے ہیں اور ہم اُس وقت تک ثابتقدم رہینگے جبتک کہ خدا واقعی یہ ثابت نہیں کر دیتا کہ وہ اپنے ’قیمتی اور نہایت شاندار وعدوں‘ میں سچا ہے۔“ بھائی فرینز آسمانی قیامت کے خدائی وعدے کی بابت پُراعتماد رہے اور ۹۹ سال کی عمر میں اپنی موت تک ایمان کو مضبوطی سے تھامے رکھا۔ (۱-کرنتھیوں ۱۵:۴۲-۴۴؛ فلپیوں ۳:۱۳، ۱۴؛ ۲-تیمتھیس ۲:۱۰-۱۲) اسی طرح، لاکھوں اشخاص ایک ایسی زمینی فردوس کی بابت جس میں لوگ ابد تک خوشحال زندگی بسر کرینگے خدا کے وعدے پر اپنی توجہ مرکوز رکھتے ہوئے، ایمان کو مضبوطی سے تھامے ہوئے ہیں۔ کیا آپ اِن میں سے ایک ہیں؟—لوقا ۲۳:۴۳؛ ۲-پطرس ۳:۱۳؛ مکاشفہ ۲۱:۳، ۴۔
خدا کے وعدوں کیلئے جوابیعمل
۱۴. ایمان میں شامل کرنے کیلئے پطرس نیکی کی خوبی کو سرِفہرست کیوں رکھتا ہے؟
۱۴ خدا نے جوکچھ وعدہ فرمایا ہے کیا ہم اُس کیلئے اُسکے شکرگزار ہیں؟ اگر ایسا ہے تو پطرس بحث کرتا ہے کہ ہمیں اسے ظاہر کرنا چاہئے۔ ”پس اسی باعث“ (کیونکہ خدا نے ہمارے ساتھ نہایت قیمتی وعدے کئے ہیں)، ہمیں عمل کرنے کیلئے حقیقی کوشش کرنی چاہئے۔ ہم محض ایمان میں ہونے یا بائبل سچائی سے واقف ہونے پر ہی اکتفا نہیں کر سکتے۔ یہ کافی نہیں ہے! شاید پطرس کے زمانے میں کلیسیا میں بعض لوگ ایمان کی بابت بہت زیادہ گفتگو تو کرتے تھے مگر بداخلاق چالچلن میں ملوث تھے۔ اُنکے رویے کو پاک ہونے کی ضرورت تھی اسی لئے پطرس نے تاکید کی: ”اپنے ایمان پر نیکی . . . بڑھاؤ۔“—۲-پطرس ۱:۵؛ یعقوب ۲:۱۴-۱۷۔
۱۵. (ا) ایمان میں شامل کرنے کے لئے نیکی کے بعد معرفت کی خوبی کو فہرست میں دوسرے درجے پر کیوں رکھا گیا ہے؟ (ب) ایمان کو مضبوطی سے تھامے رہنے کیلئے دیگر کونسی خوبیاں ہمیں لیس کریں گی؟
۱۵ نیکی کا ذکر کرنے کے بعد، پطرس مزید چھ خوبیوں کی فہرست بیان کرتا ہے جنکا ہمارے ایمان میں شامل یا اضافہ ہونا لازمی ہے۔ اگر ہمیں ”ایمان میں قائم“ رہنا ہے تو ان میں سے ہر ایک ضروری ہے۔ (۱-کرنتھیوں ۱۶:۱۳) برگشتہ لوگ چونکہ ’صحائف کو توڑمروڑ رہے‘ تھے اور ”پُرفریب تعلیمات“ پھیلا رہے تھے اسلئے پھر پطرس یہ کہتے ہوئے علم کو اہم قرار دیتا ہے: ”نیکی پر معرفت [بڑھاؤ]۔“ پھر وہ بیان جاری رکھتا ہے: ”معرفت پر پرہیزگاری اور پرہیزگاری پر صبر اور صبر پر دینداری۔ اور دینداری پر برادرانہ اُلفت اور برادارانہ اُلفت پر محبت بڑھاؤ۔“—۲-پطرس ۱:۵-۷؛ ۲:۱۲، ۱۳، اینڈبلیو؛ ۳:۱۶۔
۱۶. اگر پطرس کی فہرستکردہ خوبیوں کا ایمان میں اضافہ کر لیا جائے تو کیا ہوگا لیکن اگر نہ کِیا جائے توپھر کیا ہوگا؟
۱۶ اگر ان ساتوں چیزوں کا ہمارے ایمان میں اضافہ ہو جائے تو کیا ہوگا؟ ”اگر یہ باتیں تم میں موجود ہوں اور زیادہ بھی ہوتی جائیں،“ پطرس جواب دیتا ہے، ”تو تم کو ہمارے خداوند یسوع مسیح کے پہچاننے [”صحیح علم،“ اینڈبلیو] میں بیکار اور بےپھل نہ ہونے دینگی۔“ (۲-پطرس ۱:۸) دوسری جانب پطرس کہتا ہے: ”اور جس میں یہ باتیں نہ ہوں وہ اندھا ہے اور کوتاہ نظر اور اپنے پہلے گناہوں کے دھوئے جانے کو بھولے بیٹھا ہے۔“ (۲-پطرس ۱:۹) غور فرمائیں کہ پطرس ”تم“ اور ”ہمارے“ استعمال کرنے سے ہٹ کر ”جس،“ ”وہ“ اور ”اپنے“ استعمال کرتا ہے۔ افسوس کی بات ہے کہ بعض اگرچہ اندھے، بھولے ہوئے، اور ناپاک ہیں تَوبھی پطرس رحمدلی سے یہ تاثر نہیں دیتا کہ قاری اُنہی میں سے کوئی ایک ہے۔—۲-پطرس ۲:۲۔
اپنے بھائیوں کو تقویت بخشنا
۱۷. کس چیز نے ”ان باتوں“ کو عمل میں لانے کیلئے پطرس کی مشفقانہ اپیل کو تحریک دی ہوگی؟
۱۷ شاید یہ سمجھتے ہوئے کہ نئے اشخاص بآسانی دھوکا کھا سکتے ہیں، پطرس مشفقانہ طور پر اُنکی حوصلہافزائی کرتا ہے: ”پس اَے بھائیو! اپنے بلاوے اور برگزیدگی کو ثابت کرنے کی زیادہ کوشش کرو کیونکہ اگر ایسا کروگے تو کبھی ٹھوکر نہ کھاؤگے۔“ (۲-پطرس ۱:۱۰؛ ۲:۱۸) ممسوح مسیحی جو ان سات چیزوں کو اپنے ایمان میں شامل کر لیتے ہیں شاندار اَجر سے لطفاندوز ہونگے جیسےکہ پطرس کہتا ہے: ”اس سے تم ہمارے خداوند اور مُنجی یسوع مسیح کی ابدی بادشاہی میں بڑی عزت کے ساتھ داخل کئے جاؤگے۔“ (۲-پطرس ۱:۱۱) ”دوسری بھیڑیں“ خدا کی بادشاہت کی زمینی عملداری میں ابدی میراث حاصل کرینگی۔—یوحنا ۱۰:۱۶، اینڈبلیو؛ متی ۲۵:۳۳، ۳۴۔
۱۸. پطرس اپنے بھائیوں کو ”یاد دلانے کو ہمیشہ“ مستعد کیوں ہے؟
۱۸ پطرس اپنے بھائیوں کیلئے ایسے شاندار اَجر کا خلوصدلی سے متمنی تھا۔ وہ لکھتا ہے: ”اِسلئے مَیں تمہیں یہ باتیں یاد دلانے کو ہمیشہ مستعد رہونگا اگرچہ تم اُن سے واقف اور اُس حق بات پر قائم ہو جو تمہیں حاصل ہے۔“ (۲-پطرس ۱:۱۲) پطرس یونانی لفظ سٹےریزو استعمال کرتا ہے جسکا یہاں پر ترجمہ ”قائم“ کِیا گیا ہے لیکن پہلے یسوع نے جو پطرس کو یہ نصیحت کی تھی کہ ”اپنے بھائیوں کو مضبوط کرنا“ اس میں اسکا ترجمہ ”مضبوط“ کِیا گیا ہے۔ (لوقا ۲۲:۳۲) اس لفظ کا استعمال ظاہر کرتا ہے کہ پطرس کو وہ اثرآفرین نصیحت یاد ہے جو اُس نے اپنے خداوند سے حاصل کی تھی۔ اب پطرس کہتا ہے: ”جب تک مَیں اس خیمہ [انسانی بدن] میں ہوں تمہیں یاد دلا دلا کر اُبھارنا اپنے اُوپر واجب سمجھتا ہوں۔ کیونکہ . . . مجھے معلوم ہے کہ میرے خیمہ کے گرائے جانے کا وقت جلد آنے والا ہے۔“—۲-پطرس ۱:۱۳، ۱۴۔
۱۹. آجکل ہمیں کس مدد کی ضرورت ہے؟
۱۹ اگرچہ پطرس رحمدلی سے یہ کہتا ہے کہ اُسکے قارئین ”حق بات پر قائم“ ہیں، وہ تسلیم کرتا ہے کہ اُنکے ایمان کا جہاز غرق ہو سکتا ہے۔ (۱-تیمتھیس ۱:۱۹) چونکہ وہ جانتا ہے کہ وہ جلد مرنے والا ہے، وہ اپنے بھائیوں کو ایسی باتیں بتانے سے تقویت بخشتا ہے جو وہ بعدازاں خود کو روحانی طور پر مضبوط رکھنے کیلئے ذہن میں لا سکتے ہیں۔ (۲-پطرس ۱:۱۵؛ ۳:۱۲، ۱۳) اسی طرح سے، آجکل ہمیں ایمان میں قائم رہنے کیلئے مسلسل یاددہانیوں کی ضرورت ہے۔ اس سے قطعنظر کہ ہم کون ہیں یا کتنے عرصے سے ہم سچائی میں ہیں، ہم باقاعدہ بائبل پڑھائی، ذاتی مطالعہ اور کلیسیائی اجلاسوں پر حاضری کو نظرانداز نہیں کر سکتے۔ بعض یہ کہتے ہوئے اجلاسوں پر حاضر نہ ہونے کے بہانے بناتے ہیں کہ وہ بہت تھکے ہوئے ہیں یا باربار ایک ہی طرز کے اجلاس ہوتے ہیں یا دلچسپ انداز میں پیش نہیں کئے جاتے لیکن پطرس جانتا تھا کہ اگر ہم حد سے زیادہ خوداعتماد ہو جاتے ہیں تو ہم میں سے کوئی بھی کتنی تیزی سے ایمان کھو سکتا ہے۔—مرقس ۱۴:۶۶-۷۲؛ ۱-کرنتھیوں ۱۰:۱۲؛ عبرانیوں ۱۰:۲۵۔
ہمارے ایمان کی مضبوط بنیاد
۲۰، ۲۱. کسطرح تبدیلئہیئت نے پطرس اور اُسکے خط کے قارئین کے ایمان کو تقویت بخشی، جن میں ہم بھی شامل ہیں؟
۲۰ کیا ہمارا ایمان محض چالاکی سے ایجادکردہ اساطیر پر مبنی ہے؟ ”نہیں،“ پطرس پُرزور طریقے سے جواب دیتا ہے، ”جب ہم نے تمہیں اپنے خداوند یسوع مسیح کی قدرت اور آمد سے واقف کِیا تھا تو دغابازی کی گھڑی ہوئی کہانیوں کی پیروی نہیں کی تھی بلکہ خود اُس کی عظمت کو دیکھا تھا۔“ پطرس، یعقوب اور یوحنا اُس وقت یسوع کے ساتھ تھے جب اُنہوں نے اُس کے بادشاہتی اختیار میں آنے کی رویا دیکھی تھی۔ پطرس وضاحت کرتا ہے: ”اُس نے خدا باپ سے اُس وقت عزت اور جلال پایا جب اُس افضل جلال میں سے اُسے یہ آواز آئی کہ یہ میرا پیارا بیٹا ہے جس سے مَیں خوش ہوں۔ اور جب ہم اُسکے ساتھ مُقدس پہاڑ پر تھے تو آسمان سے یہی آواز آتی سنی۔“—۲-پطرس ۱:۱۶-۱۸۔
۲۱ جب پطرس، یعقوب اور یوحنا نے وہ رویا دیکھی تو بادشاہت اُن کیلئے واقعی حقیقی بن گئی! نتیجتاً، پطرس بیان کرتا ہے ”ہمارے پاس نبیوں کا وہ کلام ہے جو زیادہ معتبر ٹھہرا اور تم اچھا کرتے ہو جو یہ سمجھ کر اُس پر غور کرتے ہو۔“ جیہاں، پطرس کے خط کے قارئین، جن میں آج ہم بھی شامل ہیں، خدا کی بادشاہت کی بابت پیشینگوئیوں پر توجہ دینے کی زبردست وجہ رکھتے ہیں۔ ہمیں کس طرح توجہ دینے کی ضرورت ہے؟ پطرس جواب دیتا ہے: ”ایک چراغ ہے جو اندھیری جگہ میں روشنی بخشتا ہے جب تک پَو نہ پھٹے اور صبح کا ستارہ تمہارے دلوں میں نہ چمکے۔“—۲-پطرس ۱:۱۹؛ دانیایل ۷:۱۳، ۱۴؛ یسعیاہ ۹:۶، ۷۔
۲۲. (ا) کس چیز کی بابت ہمارے دلوں کو ہوشیار رہنا چاہئے؟ (ب) ہم نبوّتی باتوں پر کیسے توجہ دیتے ہیں؟
۲۲ نبوتی کلام کی روشنی کے بغیر ہمارے دل تاریک رہینگے۔ لیکن اس پر توجہ دینے سے، مسیحیوں کے دل پَو پھٹنے تک ہوشیار رہے ہیں جب ”صبح کا ستارہ،“ یسوع مسیح، بادشاہتی جلال میں چمکتا ہے۔ (مکاشفہ ۲۲:۱۶) آج ہم نبوّتی باتوں پر کیسے توجہ دیتے ہیں؟ بائبل کا مطالعہ کرنے سے، اجلاسوں کیلئے تیاری کرنے اور حصہ لینے سے، ’ان باتوں پر غوروخوض کرنے اور انہی میں مگن‘ رہنے سے۔ (۱-تیمتھیس ۴:۱۵) اگر نبوّتی باتیں ”اندھیری جگہ“ (ہمارے دلوں) میں چمکتے ہوئے چراغ کی مانند ہیں توپھر ہمیں اسے خود کو—ہماری خواہشات، جذبات، محرکات اور نشانوں—کو گہرائی تک متاثر کرنے کی اجازت دینی چاہئے۔ ہمیں بائبل طالبعلم ہونے کی ضرورت ہے کیونکہ پطرس باب ۱ کو اسطرح ختم کرتا ہے: ”کتابِمُقدس کی کسی نبوّت کی بات کی تاویل کسی کے ذاتی اختیار پر موقوف نہیں۔ کیونکہ نبوّت کی کوئی بات آدمی کی خواہش سے کبھی نہیں ہوئی بلکہ آدمی رُوحاُلقدس کی تحریک کے سبب سے خدا کی طرف سے بولتے تھے۔“—۲-پطرس ۱:۲۰، ۲۱۔
۲۳. ۲-پطرس کے پہلے باب نے قارئین کو کس کیلئے تیار کِیا ہے؟
۲۳ اپنے دوسرے خط کے پہلے باب میں پطرس نے اپنے بیشقیمت ایمان کو مضبوطی سے تھامے رہنے کیلئے ہمیں ایک زبردست محرک فراہم کِیا۔ اب ہم اسکے بعد کے سنجیدہ معاملات پر غور کرنے کیلئے تیار ہیں۔ اگلا مضمون ۲-پطرس کے باب ۲ پر باتچیت کرتا ہے جس میں رسول بداخلاق اثرات کے چیلنج سے نپٹتا ہے جو کلیسیاؤں میں سرایت کر چکے تھے۔
کیا آپ کو یاد ہے؟
◻پطرس صحیح علم کی اہمیت پر کیوں زور دیتا ہے؟
◻کیا وجہ ہو سکتی ہے کہ ایمان میں شامل کرنے کے لئے نیکی کی خوبی کو سرِفہرست رکھا گیا؟
◻پطرس ہمیشہ اپنے بھائیوں کو یاددہانیاں کرانے کیلئے مستعد کیوں ہے؟
◻پطرس ہمارے ایمان کیلئے کونسی مضبوط بنیاد فراہم کرتا ہے؟
[صفحہ 19 پر تصویر]
پطرس کی خطائیں اُس کیلئے اپنے ایمان کا دامن چھوڑ دینے کا باعث نہیں بنی تھیں