ایمان لانے سے خدا کے وعدوں کیلئے جوابی عمل دکھائیں
”اس [یہوواہ خدا] نے ہم سے قیمتی اور نہایت بڑے وعدے کئے۔“—۲-پطرس ۱:۴۔
۱. کیا چیز ہمیں حقیقی ایمان لانے کے قابل بناتی ہے؟
یہوواہ چاہتا ہے کہ ہم اسکے وعدوں پر ایمان لائیں۔ تاہم، ”سب میں ایمان نہیں۔“ (۲-تھسلنیکیوں ۳:۲) یہ خوبی خدا کی پاک روح، یا سرگرم قوت کا پھل ہے۔ (گلتیوں ۵:۲۲، ۲۳) لہذا، صرف یہوواہ کی روح سے راہنمائی پانے والے ہی ایمان لا سکتے ہیں۔
۲. پولس رسول ”ایمان“ کی تعریف کیسے کرتا ہے؟
۲ لیکن ایمان ہے کیا؟ پولس رسول اسے ”اندیکھی چیزوں کا ثبوت“ کہتا ہے۔ ان اندیکھی چیزوں کا ثبوت اتنا قوی ہے کہ ایمان اسکے برابر ہے۔ ایمان کی بابت یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ ”امید کی ہوئی چیزوں کا اعتماد“ ہے، کیونکہ وہ جو اس کے مالک ہیں یہ گارنٹی رکھتے ہیں کہ ہر بات جسکا وعدہ یہوواہ خدا نے کیا ہے اتنی یقینی ہے کہ تقریباً پوری ہو گئی ہے۔—عبرانیوں ۱۱:۱۔
ایمان اور یہوواہ کے وعدے
۳. ممسوح مسیحی کیا تجربہ کرینگے اگر وہ ایمان لاتے ہیں؟
۳ یہوواہ کو خوش کرنے کیلئے، ہمیں اسکے وعدوں پر ایمان لانا چاہیے۔ پطرس رسول نے اسے اپنے دوسرے الہامی خط میں ظاہر کیا، جو تقریباً ۶۴ س۔ع۔ میں لکھا گیا۔ اس نے نشاندہی کی کہ اگر اسکے ساتھی ممسوح مسیحی ایمان لائینگے تو وہ خدا کے ”قیمتی اور نہایت بڑے [وعدوں]“ کی تکمیل دیکھیں گے۔ نتیجے کے طور پر، وہ آسمانی بادشاہت میں یسوع مسیح کے ساتھ ساتھی وارثوں کے طور پر ”ذاتالہٰی میں شریک ہو“ جائینگے۔ ایمان اور یہوواہ خدا کی مدد کے ساتھ وہ اس دنیا کی خراب عادات اور کاموں کی غلامی سے آزاد ہو چکے ہیں۔ (۲-پطرس ۱:۲-۴) اور ذرا تصور کریں! جو سچا ایمان رکھتے ہیں وہ آجکل اسی انمول آزادی سے لطف اٹھاتے ہیں۔
۴. ہمیں اپنے ایمان پر کن خوبیوں کو بڑھانا چاہیے؟
۴ یہوواہ کے وعدوں پر ایمان اور اپنی خداداد آزادی کیلئے احسانمندی کو ہمیں تحریک دینی چاہیے کہ قابلنمونہ مسیحی بننے کیلئے اپنی پوری کوشش کریں۔ پطرس نے کہا: ”پس اسی باعث تم اپنی طرف سے کمال کوشش کرکے اپنے ایمان پر نیکی اور نیکی پر معرفت۔ اور معرفت پر پرہیزگاری اور پرہیزگاری پر صبر اور صبر پر دینداری اور دینداری پر برادرانہ الفت اور برادرانہ الفت پر محبت بڑھاؤ۔“ (۲-پطرس ۱:۵-۷) پس پطرس ہمیں ایک فہرست دیتا ہے جسے زبانی یاد کرکے ہم اچھا کرینگے۔ آئیے ہم ان خوبیوں کا قریبی جائزہ لیں۔
ایمان کے لازمی عنصر
۵، ۶. نیکی کیا ہے، اور اسے ہم اپنے ایمان پر کیسے بڑھا سکتے ہیں؟
۵ پطرس نے کہا کہ ایکدوسرے کیلئے اور اپنے ایمان کیلئے نیکی، معرفت، پرہیزگاری، صبر، دینداری، برادرانہ الفت، اور محبت کو بڑھائیں۔ ہمیں سخت محنت کرنی چاہیے کہ ان خوبیوں کو اپنے ایمان کے لازمی عنصر بنائیں۔ مثال کے طور پر، نیکی ایسی خوبی نہیں جسے ہم ایمان سے الگ ظاہر کر سکتے ہیں۔ لغتنویس ڈبلیو۔ ای۔ وائن نشاندہی کرتا ہے کہ ۲-پطرس ۱:۵ میں ”ایمان لانے میں نیکی کو ایک لازمی خوبی کے طور پر شامل کر دیا گیا ہے۔“ دوسری خوبیوں میں سے ہر ایک کو بھی ہمارے ایمان کا عنصر ہونا ہے جسکا ذکر پطرس نے کیا۔
۶ اول، ہمیں اپنے ایمان پر نیکی کو بڑھانا چاہیے۔ نیک ہونے کا مطلب ہے وہ کام کرنا جو خدا کی نظر میں اچھا ہے۔ کیونکہ جس یونانی لفظ کا ترجمہ یہاں ”نیکی“ کیا گیا ہے، بعض ترجمے اسکے لئے لفظ ”بھلائی“ استعمال کرتے ہیں۔ (نیو انٹرنیشنل ورشن، دی جیروسلیم بائبل، ٹوڈیز انگلش ورشن) نیکی ہمیں بدی کرنے یا ساتھی انسانوں کو ضرر پہنچانے کا سبب بننے سے بچنے کی تحریک دیتی ہے۔ (زبور ۹۷:۱۰) یہ دوسروں کے روحانی، جسمانی، اور جذباتی، فائدے کیلئے نیکی کرنے میں جرأتمندانہ کام کرنے پر آمادہ کرتی ہے۔
۷. ہمیں اپنے ایمان پر معرفت اور نیکی کو کیوں بڑھانا چاہیے؟
۷ پطرس ہمیں اپنے ایمان اور نیکی پر معرفت کو بڑھانے کی تلقین کیوں کرتا ہے؟ جب ہم اپنے ایمان کیلئے نئے چیلنجوں کا سامنا کرتے ہیں، تو درست اور غلط میں امتیاز کرنے کیلئے ہمیں معرفت کی ضرورت ہے۔ (عبرانیوں ۵:۱۴) بائبل مطالعہ اور خدا کے کلام کا اطلاق کرنے میں تجربہ اور روزمرہ زندگی میں عملی حکمت کو کام میں لانے کے ذریعہ ہم اپنے علم میں اضافہ کرتے ہیں۔ اسکے بعد، جب ہم آزمائش کے تحت ہوتے ہیں تو یہ ہمیں اپنے ایمان کو قائم رکھنے اور جو نیک ہے اسے کرتے رہنے کے قابل بناتا ہے۔—امثال ۲:۶-۸، یعقوب ۱:۵-۸۔
۸. پرہیزگاری کیا ہے، اور اسے صبر کے ساتھ کیونکر جوڑا گیا ہے؟
۸ ایمان کے ساتھ آزمائشوں کا مقابلہ کرنے میں اپنی مدد کرنے کیلئے، ہمیں اپنی معرفت پر پرہیزگاری بڑھانے کی ضرورت ہے۔ ”پرہیزگاری“ کیلئے یونانی لفظ اپنے اوپر گرفت رکھنے کا مفہوم دیتا ہے۔ خدا کی روح کا یہ پھل سوچ، کلام، اور چالچلن میں روکتھام کو ظاہر کرنے کیلئے ہماری مدد کرتا ہے۔ پرہیزگاری کو عمل میں لانے میں مستقلمزاجی سے ہم اس پر صبر کو بڑھاتے ہیں۔ ”صبر“ کیلئے یونانی اصطلاح جرأتمندانہ ثابتقدمی کا مفہوم دیتی ہے، نہ کہ ناگزیر مشکل میں غمگین چہرے کے ساتھ ہمت ہار جانے کا۔ یہ اس کے سامنے رکھی ہوئی اس خوشی کی وجہ سے تھا کہ یسوع نے سولی کا دکھ برداشت کیا۔ (عبرانیوں ۱۲:۲) خداداد قوت صبر کے ساتھ منسلک ہے جو ہمارے ایمان کو سہارا دیتی ہے اور مصیبت میں خوش ہونے، آزمائش کا مقابلہ کرنے، اور جب ستائے جائیں تو مصالحت کرنے سے بچنے کیلئے ہماری مدد کرتی ہے۔—فلپیوں ۴:۱۳۔
۹. (ا) دینداری کیا ہے؟ (ب) اپنی دینداری پر برادرانہ الفت کو کیوں بڑھانا چاہیے؟ (پ) ہم اپنی برادرانہ الفت پر محبت کو کیسے بڑھا سکتے ہیں؟
۹ ہمیں اپنے صبر پر دینداری—تعظیم، پرستش، اور یہوواہ کیلئے خدمت کو بڑھانا چاہیے۔ جب ہم دینداری کو عمل میں لاتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ یہوواہ اپنے لوگوں کے ساتھ کسطرح برتاؤ کرتا ہے تو ہمارا ایمان بڑھتا ہے۔ تاہم، خداپرستی ظاہر کرنے کیلئے، ہمیں برادرانہ الفت کی ضرورت ہے۔ بہرصورت، ”جو اپنے بھائی سے جسے اس نے دیکھا ہے محبت نہیں رکھتا وہ خدا سے بھی جسے اس نے نہیں دیکھا محبت نہیں رکھ سکتا۔“ (۱-یوحنا ۴:۲۰) ہمارے دلوں کو ہمیں یہوواہ کے دیگر خادموں کیلئے حقیقی الفت دکھانے اور ہمہوقت انکی فلاح کی تلاش میں رہنے کی تحریک دینی چاہیے۔ (یعقوب ۲:۱۴-۱۷) لیکن ہمیں اپنی برادرانہ الفت پر محبت کو بڑھانے کیلئے کیوں کہا گیا ہے؟ ظاہری طور پر پطرس کا مطلب تھا کہ ہمیں تمام نسلانسانی کیلئے محبت ظاہر کرنی چاہیے، نہ کہ صرف اپنے بھائیوں کیلئے؟ یہ محبت خوشخبری کی منادی کرنے اور روحانی طور پر لوگوں کی مدد کرنے سے ظاہر کی گئی ہے۔—متی ۲۴:۱۴، ۲۸:۱۹، ۲۰۔
متضاد اثرات
۱۰. (ا) اگر ہمارے ایمان پر نیکی، معرفت، صبر، دینداری، برادرانہ الفت، اور محبت کو بڑھا دیا جائے تو ہم کیسے کام کرینگے؟ (ب) اگر ایک دعویدار مسیحی میں ان خوبیوں کی کمی ہے تو کیا واقع ہوتا ہے؟
۱۰ اگر ہم اپنے ایمان پر نیکی، معرفت، پرہیزگاری، صبر، دینداری، برادرانہ الفت، اور محبت کو بڑھاتے ہیں تو ہم خدا کے قابلقبول طریقوں سے سوچیں گے، بولیں گے، اور عمل کرینگے۔ اور اسکے برعکس، اگر ایک دعویدار مسیحی ان خوبیوں کو ظاہر کرنے میں ناکام ہو جاتا ہے تو وہ روحانی طور پر اندھا ہو جاتا ہے۔ وہ خدا کی طرف سے ”روشنی سے اپنی آنکھیں بند کر لیتا ہے“ اور اپنے پہلے گناہوں کے دھوئے جانے کو بھول جاتا ہے۔ (۲-پطرس ۱:۸-۱۰، ۲:۲۰-۲۲) ہم اس طریقے سے کبھی ناکام نہ ہوں اور یوں خدا کے وعدوں پر ایمان نہ کھو دیں۔
۱۱. ہم وفادار ممسوحوں سے جائز طور پر کس چیز کی توقع کر سکتے ہیں؟
۱۱ وفادار ممسوح مسیحی یہوواہ کے وعدوں پر ایمان رکھتے ہیں اور اپنی بلاہٹ اور برگزیدگی کو یقینی بنانے کیلئے وہ جانفشانی کرتے ہیں۔ اپنی راہ میں کسی بھی ٹھوکر کھلانے والی روکاوٹ کے باوجود، ہم ان سے توقع کر سکتے ہیں کہ خدائی صفات ظاہر کریں۔ وفادار ممسوح آسمان میں روحانی زندگی کیلئے اپنی قیامت کے ذریعے ”یسوع مسیح کی ابدی بادشاہی میں بڑی عزت کے ساتھ داخل کئے جاتے“ ہیں۔—۲-پطرس ۱:۱۱۔
۱۲. ہمیں ۲-پطرس ۱:۱۲-۱۵ کے الفاظ کو کیسے سمجھنا ہے؟
۱۲ پطرس پہچان گیا تھا کہ جلد ہی وہ مر جائیگا، اور اس نے انجامکار آسمانی زندگی کی قیامت حاصل کرنے کی توقع کی۔ لیکن جبتک وہ ”اس خیمہ“—اپنے انسانی بدن—میں زندہ تھا، اس نے اپنے ساتھی ایمانداروں میں ایمان بڑھانے اور الہٰی خوشنودی کیلئے ضروری چیزوں کی یاد دلانے سے انہیں بیدار کرنے کی کوشش کی۔ پطرس کے موت میں انتقال کے بعد، اسکے روحانی بھائی بہنیں اسکے الفاظ کو یاد کرکے اپنے ایمان کو سہارا دے سکتے تھے۔—۲-پطرس ۱:۱۲-۱۵۔
نبیوں کے کلام پر ایمان
۱۳. خدا نے مسیح کے آنے کی بابت ایمان کو تقویت دینے والی شہادت کیسے فراہم کی؟
۱۳ ”قدرت اور جلال کے ساتھ“ یسوع کی ”آمد“ کے یقینی ہونے کی بابت خدا نے خود ایمان کو تقویت دینے والی شہادت دی ہے۔ (متی ۲۴:۳۰، ۲-پطرس ۱:۱۶-۱۸) شہادت سے محروم، بتپرست پجاریوں نے اپنے دیوتاؤں کی بابت جھوٹے قصے بیان کئے، جبکہ پطرس، یعقوب، اور یوحنا تبدیلہیئت میں مسیح کی شانوشوکت کے عینی شاہد تھے۔ (متی ۱۷:۱-۵) انہوں نے اسے جلالی حالت میں دیکھا اور خدا کی ذاتی آواز کو یسوع کو اپنا پیارا بیٹا تسلیم کرتے ہوئے سنا۔ یہ تصدیق اور جلالی ظہور جو مسیح نے اسوقت پائے وہ اسکو عطاکردہ عزت اور جلال تھے۔ اس الہٰی مکاشفے کی وجہ سے، پطرس نے غالباً حرمون کے پہاڑی سلسلے کی چوٹی پر، اس مقام کو ”مقدس پہاڑ“ کا نام دیا۔—مقابلہ کریں خروج ۳:۴، ۵۔
۱۴. یسوع کی تبدیلہیئت سے ہمارے ایمان کو کیسے اثرانداز ہونا چاہیے؟
۱۴ یسوع کی تبدیلہئت کو ہمارے ایمان پر کیسے اثرانداز ہونا چاہیے؟ پطرس نے کہا: ”اور ہمارے پاس نبیوں کا وہ کلام ہے جو زیادہ معتبر ٹھہرا اور تم اچھا کرتے ہو جو یہ سمجھ کر اس پر غور کرتے ہو کہ وہ چراغ ہے جو اندھیری جگہ میں روشنی بخشتا ہے جب تک پو نہ پھٹے اور صبح کا ستارہ تمہارے دلوں میں نہ چمکے۔“ (۲-پطرس ۱:۱۹) ظاہری طور پر ”نبیوں کا کلام“ نہ صرف مسیحا کی بابت عبرانی صحائف کی پیشینگوئیوں پر بلکہ یسوع کے اس بیان پر بھی مشتمل ہے کہ وہ ”بڑی قدرت اور جلال کے ساتھ“ آئیگا۔ وہ کلام تبدیلہیئت کے ذریعے ”زیادہ معتبر“ کیسے ٹھہرا تھا؟ اس واقعے نے بادشاہی اختیار میں مسیح کی جلالی آمد کی بابت نبیوں کے کلام کی تصدیق کی۔
۱۵. نبیوں کے کلام پر توجہ دینے میں کیا کچھ شامل ہے؟
۱۵ اپنے ایمان کو مضبوط کرنے کیلئے ضرور ہے کہ ہم نبیوں کے کلام پر توجہ دیں۔ اس میں اس کلام کا مطالعہ کرنا، مسیحی اجلاسوں میں اس پر باتچیت کرنا، اور اسکی مشورت کا اطلاق کرنا شامل ہے۔ (یعقوب ۱:۲۲-۲۷) ہمیں اسکو ”اندھیری جگہ میں روشنی بخشنے والا چراغ“ بننے دینا چاہیے جو ہمارے دلوں کو روشن کرے۔ (افسیوں ۱:۱۸) تب ہی یہ ہماری راہنمائی کریگا جبتک ”صبح کا ستارہ،“ یا ”صبح کا چمکتا ہوا ستارہ،“ یسوع مسیح، جلال میں خود کو ظاہر نہیں کرتا۔ (مکاشفہ ۲۲:۱۶) اس ظہور کا مطلب بےایمانوں کیلئے تباہی اور ایمان لانے والوں کیلئے برکات ہوگا۔—۲-تھسلنیکیوں ۱:۶-۱۰۔
۱۶. ہم کیوں ایمان رکھ سکتے ہیں کہ خدا کے کلام میں تمام نبوتی وعدے پورے ہونگے؟
۱۶ خدا کے نبی محض تیزفہم انسان نہ تھے جنہوں نے دانشمندانہ پیشینگوئیاں کیں، کیونکہ پطرس نے کہا: ”کتابمقدس کی کسی نبوت کی بات کی تاویل کسی کے ذاتی اختیار پر موقوف نہیں۔ کیونکہ نبوت کی کوئی بات آدمی کی خواہش سے کبھی نہیں ہوئی بلکہ آدمی روحالقدس کی تحریک کے سبب سے خدا کی طرف سے بولتے تھے۔“ (۲-پطرس ۱:۲۰، ۲۱) مثال کے طور پر داؤد نے کہا: ”خداوند کی روح نے میری معرفت کلام کیا۔“ (۲-سموئیل ۲۳:۱، ۲) اور پولس نے لکھا: ”ہر ایک صحیفہ ... خدا کے الہام سے ہے۔“ (۲-تیمتھیس ۳:۱۶) چونکہ خدا کے نبیوں کو اسکی پاک روح کے ذریعے الہام دیا گیا تھا، اسلئے ہم ایمان رکھ سکتے ہیں کہ اسکے کلام میں دئے گئے تمام وعدے پورے ہونگے۔
وہ خدا کے وعدوں پر ایمان رکھتے تھے
۱۷. کونسا وعدہ ہابل کے ایمان کی بنیاد تھا؟
۱۷ یہوواہ کے وعدے مسیح سے پہلے کے اسکے گواہوں کے ”بڑے بادل“ کے ایمان کی بنیاد تھے۔ (عبرانیوں ۱۱:۱-۱۲:۱) مثال کے طور پر، ہابل ”نسل“ کی بابت خدا کے وعدے پر ایمان رکھتا تھا جو ”سانپ“ کے سر کو کچلے گا۔ ہابل کے والدین پر خدا کی سزا کی تکمیل کا ثبوت موجود تھا۔ عدن سے باہر، آدم اور اسکے خاندان نے اپنے مُنہ کے پسینے کی روٹی کھائی کیونکہ لعنتی زمین نے کانٹے اور اونٹکٹارے اگائے۔ غالباً ہابل نے حوا کی اپنے خاوند کیلئے رغبت دیکھی اور سمجھا کہ آدم اس پر حکم چلاتا ہے۔ یقینی طور پر اس نے اپنے دردحمل کا ذکر کیا۔ اور باغعدن کی راہ کی حفاظت کروبیوں اور گھومنے والی شعلہزن تلوار سے کی گئی تھی۔ (پیدایش ۳:۱۴-۱۹، ۲۴) اس سب نے ایک ”ثبوت“ کو تشکیل دیا جس نے ہابل کو یقین دلایا کہ رہائی موعودہ نسل کے ذریعے سے آئے گی۔ ایمان کے مطابق عمل کرتے ہوئے، ہابل نے خدا کیلئے ایک قربانی پیش کی جو قائن کی قربانی سے افضل ثابت ہوئی۔—عبرانیوں ۱۱:۱، ۴۔
۱۸، ۱۹. ابرہام اور سارہ کن طریقوں سے ایمان لائے؟
۱۸ آبائی بزرگ ابرہام، اضحاق، اور یعقوب بھی یہوواہ کے وعدوں پر ایمان رکھتے تھے۔ ابرہام خدا کے وعدے پر ایمان لایا کہ زمین کے سب قبیلے اسکے وسیلے سے برکت پائینگے اور اسکی نسل کو ایک ملک دیا جائیگا۔ (پیدایش ۱۲:۱-۹، ۱۵:۱۸-۲۱) اسکا بیٹا اضحاق اور پوتا یعقوب ”اسکے ساتھ اسی وعدہ کے وارث تھے۔“ ایمان ہی سے ابرہام نے ”ملکموعود میں اس طرح مسافرانہ طور پر بودوباش کی کہ گویا غیرملک ہے“ اور ”پایدار شہر،“ خدا کی آسمانی بادشاہت، کا انتظار کیا جسکے تحت وہ زمین پر زندگی کی قیامت پائیگا۔ (عبرانیوں ۱۱:۸-۱۰) کیا آپ اسی طرح کا ایمان رکھتے ہیں؟
۱۹ ابرہام کی بیوی، سارہ، جب وہ خدا کے وعدے پر ایمان لائی اور اس نے ”حاملہ ہونے کی طاقت پائی“ اور اضحاق کو جنم دیا تو تقریباً ۹۰ برس کی تھی اور اولاد پیدا کرنے کی عمر سے کافی آگے نکل چکی تھی۔ یوں، ۱۰۰ برس کے ابرہام سے جو افزائشنسل کے لحاظ سے ”مردہ سا تھا“ آخرکار ”آسمان کے ستاروں کے برابر کثیر ... اولاد پیدا ہوئی۔“—عبرانیوں ۱۱:۱۱، ۱۲، پیدایش ۱۷:۱۵-۱۷، ۱۸:۱۱، ۲۱:۱-۷۔
۲۰. اگرچہ آبائی بزرگوں نے اپنے لئے خدا کے وعدوں کی مکمل تکمیل کو نہ دیکھا، تو بھی انہوں نے کیا کیا؟
۲۰ وفادار آبائی بزرگ اپنے لئے خدا کے وعدوں کی پوری تکمیل کو دیکھے بغیر مر گئے۔ پھر بھی، ”یہ ... دور ہی سے انہیں [موعودہ چیزوں کو] دیکھ کر خوش ہوئے اور اقرار کیا کہ ہم زمین پر پردیسی اور مسافر ہیں۔“ نسلیں گزر گئیں اس سے پیشتر کہ موعودہ ملک ابرہام کی اولاد کی ملکیت بنتا۔ تاہم، خداترس آبائی بزرگوں نے اپنی پوری زندگیوں میں یہوواہ کے وعدوں پر ایمان دکھایا۔ اسلئے کہ انہوں نے کبھی ایمان نہیں کھویا، وہ جلد ہی ”شہر“ یعنی مسیحائی بادشاہت کے زمینی قلمرو میں زندگی کی قیامت پائینگے جسے خدا نے انکے لئے تیار کیا۔ (عبرانیوں ۱۱:۱۳-۱۶) اسی طریقے سے، ایمان ہمیں یہوواہ کیلئے وفادار رکھ سکتا ہے، اگرچہ ہم اسکے تمام شاندار وعدوں کی فوری تکمیل نہیں دیکھتے۔ ہمارا ایمان خدا کی فرمانبرداری کرنے کیلئے ہمیں بھی تحریک دیگا، جیسے ابرہام نے کی۔ اور جیسے اس نے اپنی اولاد کو ایک روحانی میراث دی، اسی طرح ہم اپنے بچوں کی مدد کر سکتے ہیں کہ یہوواہ کے بیشقیمت وعدوں پر ایمان رکھیں۔—عبرانیوں ۱۱:۱۷-۲۱۔
مسیحیوں کیلئے ایمان لازمی
۲۱. آجکل خدا کو پسند آنے کیلئے، ہمارے ایمان لانے میں کیا شامل ہونا چاہیے؟
۲۱ بیشک، ایمان میں یہوواہ کے وعدوں کی تکمیل پر اعتماد رکھنے سے زیادہ کچھ شامل ہے۔ پوری انسانی تاریخ میں، اگر ہم کو اسکی خوشنودی سے استفادہ کرنا ہے تو مختلف طریقوں سے خدا پر ایمان لانا ضروری رہا ہے۔ پولس نے نشاندہی کی کہ ”بغیر ایمان کے [یہوواہ خدا] کو پسند آنا ناممکن ہے۔ اسلئے کہ خدا کے پاس آنے والے کو ایمان لانا چاہیے کہ وہ موجود ہے اور اپنے طالبوں کو بدلہ دیتا ہے۔“ (عبرانیوں ۱۱:۶) آجکل یہوواہ کو پسند آنے کیلئے، ایک شخص کو یسوع مسیح اور فدیے کی قربانی پر ایمان لانا چاہیے جو خدا نے اسکے ذریعے فراہم کی ہے۔ (رومیوں ۵:۸، گلتیوں ۲:۱۵، ۱۶) یہ اسی طرح سے ہے جیسے خود یسوع نے کہا: ”خدا نے [بنیآدم کی] دنیا سے ایسی محبت رکھی کہ اس نے اپنا اکلوتا بیٹا بخشدیا تاکہ جو کوئی اس پر ایمان لائے ہلاک نہ ہو بلکہ ہمیشہ کی زندگی پائے۔ جو بیٹے پر ایمان لاتا ہے ہمیشہ کی زندگی اسکی ہے لیکن جو بیٹے کی نہیں مانتا زندگی کو نہ دیکھیگا بلکہ اس پر خدا کا غضب رہتا ہے۔“—یوحنا ۳:۱۶، ۳۶۔
۲۲. مسیحائی بادشاہت کس وعدے کو پورا کریگی؟
۲۲ بادشاہت کی بابت خدا کے وعدوں کی تکمیل کے سلسلے میں یسوع ایک اہم کردار ادا کرتا ہے جسکے لئے مسیحی دعا کرتے ہیں۔ (یسعیاہ ۹:۶، ۷، دانیایل ۷:۱۳، ۱۴، متی ۶:۹، ۱۰) جیسے پطرس نے ظاہر کیا کہ تبدیلہیئت نے یسوع کے بادشاہی قدرت اور جلال میں آنے کے متعلق نبیوں کے کلام کی تصدیق کی۔ مسیحائی بادشاہت خدا کے ایک اور وعدے کی تکمیل کریگی، کیونکہ پطرس نے لکھا: ”لیکن اسکے وعدے کے موافق ہم نئے آسمان اور نئی زمین کا انتظار کرتے ہیں جن میں راستبازی بسی رہیگی۔“ (۲-پطرس ۳:۱۳) اسی طرح کی ایک پیشینگوئی اسوقت پوری ہوئی تھی جب بابل میں اسیر یہودیوں کو انکے ملک میں ایک حکومت کے تحت ۵۳۷ ق۔س۔ع۔ میں بحال کیا گیا تھا جس میں زربابل بطور گورنر اور یشوع بطور سردار کاہن تھا۔ (یسعیاہ ۶۵:۱۷) لیکن پطرس نے مستقبل کے وقت کی نشاندہی کی جب ”نیا آسمان“—مسیحائی آسمانی بادشاہت—”نئی زمین“ راستباز انسانی معاشرے—پر حکومت کریگا جو اس کرہارض پر رہیگا۔—مقابلہ کریں زبور ۹۶:۱۔
۲۳. اسکے بعد ہم نیکی کی بابت کن سوالوں پر بحث کرینگے؟
۲۳ یہوواہ کے وفادار خادموں اور اسکے عزیز بیٹے، یسوع مسیح، کے پیروکاروں کے طور پر، ہم خدا کی موعودہ نئی دنیا کے آرزومند ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ یہ نزدیک ہے اور ہم ایمان رکھتے ہیں کہ یہوواہ کے تمام بیشقیمت وعدے پورے ہونگے۔ اپنے خدا کے حضور قبولیت میں چلنے کیلئے، ہمیں اپنے ایمان کو نیکی، معرفت، پرہیزگاری، صبر، دینداری، برادرانہ الفت، اور محبت کو بڑھانے سے مضبوط بنانا چاہیے۔a اس مقام پر یہ پوچھا جا سکتا ہے کہ ہم نیکی کس طرح ظاہر کر سکتے ہیں؟ اور ہمارا نیک ہونا ہم کو اور دوسروں کو، خاص طور پر ہمارے مسیحی ساتھیوں کو کیسے فائدہ پہنچا سکتا ہے، جو خدا کے وعدوں پر ایمان لانے سے اثرپذیر ہوئے ہیں؟ (۱۳ ۷/۱ w۹۳)
[فٹنوٹ]
a ایمان اور نیکی پر مینارنگہبانی کے اس شمارے میں بحث کی گئی ہے۔ معرفت، پرہیزگاری، صبر، دینداری، برادرانہ الفت، اور محبت پر آئندہ شماروں میں زیادہ تفصیلی باتچیت کی جائیگی۔
آپکے جوابات کیا ہیں؟
▫ ”ایمان“ کی تعریف کیسے کی جا سکتی ہے؟
▫ ۲-پطرس ۱:۵-۷ کی مطابقت میں ہمیں اپنے ایمان پر کونسی خوبیوں کو بڑھانا ہے؟
▫ یسوع کی تبدیلہیئت کو ہمارے ایمان پر کیا اثر کرنا چاہیے؟
▫ ہابل، ابرہام، سارہ، اور قدیم وقتوں کے دوسرے لوگوں کے ذریعے ایمان کی کونسی مثالیں فراہم ہوئیں؟
[تصویر]
کیا آپ جانتے ہیں کہ یسوع کی تبدیلہیئت کس طرح ایک شخص کے ایمان پر اثرانداز ہو سکتی ہے؟