یہوواہ خدا اپنے بندوں کو بچانا جانتا ہے
”[یہوواہ] دینداروں کو آزمایش سے نکال لینا . . . جانتا ہے۔“—۲-پطر ۲:۹۔
کس مثال سے ظاہر ہوتا ہے کہ . . .
یہوواہ خدا مقررہ وقت پر اپنا مقصد پورا کرے گا؟
یہوواہ خدا اپنے بندوں کو بچانے کے لئے اپنی لامحدود طاقت استعمال کرے گا؟
یہوواہ خدا خوب جانتا ہے کہ دُنیا کے خاتمے سے پہلے کونکون سے واقعات پیش آئیں گے؟
۱. ”بڑی مصیبت“ کے دوران حالات کیسے ہوں گے؟
جب خدا، شیطان کی دُنیا کو سزا دینا شروع کرے گا تو زیادہتر لوگ ہکابکا رہ جائیں گے۔ (۱-تھس ۵:۲، ۳) اُس وقت دُنیا میں ہلچل مچ جائے گی اور بہت زیادہ مشکلیں ہوں گی۔ (صفن ۱:۱۴-۱۷) وہ ایسی ”بڑی مصیبت“ کا دَور ہوگا جو ”دُنیا کے شروع سے نہ اب تک ہوئی نہ کبھی ہوگی۔“—متی ۲۴:۲۱، ۲۲ کو پڑھیں۔
۲، ۳. (الف) ”بڑی مصیبت“ کے دوران خدا کے بندوں کے ساتھ کیا ہوگا؟ (ب) ہم اِس بات پر اپنے ایمان کو کیسے مضبوط کر سکتے ہیں کہ یہوواہ خدا اپنے بندوں کو بڑی مصیبت سے بچائے گا؟
۲ ”بڑی مصیبت“ ختم ہونے سے تھوڑا پہلے ’ماجوج کی سرزمین کا جوج‘ خدا کے بندوں پر بہت بڑا حملہ کرے گا۔ جس طرح ’بادل زمین کو چھپا لیتے ہیں‘ اُسی طرح ایک ”بھاری لشکر“ خدا کے بندوں پر چڑھ آئے گا۔ (حز ۳۸:۲، ۱۴-۱۶) کوئی بھی انسانی تنظیم یہوواہ خدا کے بندوں کو بچانے کے لئے آگے نہیں بڑھے گی۔ اِس بھیانک حملے سے اُنہیں صرف یہوواہ خدا ہی بچائے گا۔ جب خدا کے بندوں کا نامونشان مٹانے کی کوشش کی جائے گی تو اُن کا ردِعمل کیا ہوگا؟
۳ اگر آپ یہوواہ خدا کے خادم ہیں تو کیا آپ یہ ایمان رکھتے ہیں کہ وہ اپنے بندوں کو بڑی مصیبت سے بچانے کی طاقت رکھتا ہے اور وہ ایسا کرے گا بھی؟ اِس سلسلے میں پطرس رسول نے لکھا: ”[یہوواہ] دینداروں کو آزمایش سے نکال لینا اور بدکاروں کو عدالت کے دن تک سزا میں رکھنا جانتا ہے۔“ (۲-پطر ۲:۹) یہوواہ خدا نے ماضی میں اپنے بندوں کو مصیبتوں اور خطروں سے بچایا تھا۔ ماضی کی مثالوں پر غور کرنے سے ہمارا یہ یقین زیادہ مضبوط ہو جائے گا کہ یہوواہ خدا مستقبل میں بھی اپنے بندوں کو بچائے گا۔ آئیں، اِن میں سے تین مثالوں پر غور کریں۔
وہ بڑے طوفان سے بچ گئے
۴. طوفان سے بچنے کے لئے نوح کو وقت کا لحاظ کیوں رکھنا تھا؟
۴ ہم پہلے یہ دیکھیں گے کہ یہوواہ خدا نے نوح اور اُن کے گھر والوں کو طوفان سے کیسے بچایا۔ یہوواہ خدا نے طوفان کا ایک وقت مقرر کِیا تھا۔ طوفان سے پہلے نوح کو ایک بڑی کشتی بنانی تھی اور جانوروں کو کشتی میں لانا تھا۔ پیدائش کی کتاب میں یہ نہیں لکھا کہ یہوواہ خدا نے طوفان کی تاریخ طے کرنے کے لئے اُس وقت تک انتظار کِیا جب کشتی تیار ہو گئی۔ یہوواہ خدا نے یہ نہیں سوچا تھا کہ ”اگر کشتی بنانے میں دیر ہوئی تو مَیں طوفان دیر سے لاؤں گا۔“ دراصل یہوواہ خدا نے نوح کو کشتی بنانے کا حکم دینے سے بہت عرصہ پہلے ہی طے کر لیا تھا کہ طوفان کب آئے گا۔ لیکن ہم یہ بات کیسے جانتے ہیں؟
۵. (الف) پیدایش ۶:۳ میں یہوواہ خدا نے کیا فیصلہ سنایا؟ (ب) یہ فیصلہ کب سنایا گیا تھا؟
۵ بائبل کے مطابق یہوواہ خدا نے آسمان پر یہ فیصلہ سنایا:”میری روح انسان کے ساتھ ہمیشہ مزاحمت نہ کرتی رہے گی کیونکہ وہ بھی تو بشر ہے تو بھی اُس کی عمر ایک سو بیس برس کی ہوگی۔“ (پید ۶:۳) اِس آیت میں یہوواہ خدا یہ نہیں بتا رہا تھا کہ انسان کی اوسط عمر کتنی ہوگی بلکہ وہ یہ بتا رہا تھا کہ وہ زمین سے بُرائی کو کب ختم کرے گا۔ طوفان ۲۳۷۰ قبلازمسیح میں آیا جس سے ہم یہ حساب لگا سکتے ہیں کہ یہوواہ خدا نے بدکار لوگوں کو ہلاک کرنے کا فیصلہ ۲۴۹۰ قبلازمسیح میں کِیا تھا۔ اُس وقت نوح کی عمر ۴۸۰ سال تھی۔ (پید ۷:۶) اِس کے تقریباً ۲۰ سال بعد یعنی ۲۴۷۰ قبلازمسیح میں نوح کا پہلا بیٹا پیدا ہوا اور بعد میں اُن کے دو اَور بیٹے بھی پیدا ہوئے۔ (پید ۵:۳۲) اب طوفان آنے میں صرف ۱۰۰ سال باقی رہ گئے تھے۔ لیکن یہوواہ خدا نے ابھی تک نہیں بتایا تھا کہ وہ انسانوں کو بچانے کے سلسلے میں نوح سے کیا کام لے گا۔ خدا نے نوح کو یہ سب کچھ بتانے سے پہلے کتنی دیر انتظار کِیا تھا؟
۶. یہوواہ خدا نے نوح کو کشتی بنانے کا حکم کب دیا؟
۶ ایسا لگتا ہے کہ یہوواہ خدا نے نوح کے بیٹوں کی پیدائش کے بہت سال بعد ہی نوح کو بتایا تھا کہ وہ کیا کرنے والا ہے۔ہم یہ کیوں کہہ سکتے ہیں؟ پیدایش کی کتاب میں بتایا گیا ہے کہ جب یہوواہ خدا نے نوح کو کشتی بنانے کا حکم دیا تو اُس وقت اُن کے بیٹے شادیشُدہ تھے۔ یہوواہ خدا نے کہا: ”تیرے ساتھ مَیں اپنا عہد قائم کروں گا اور تُو کشتی میں جانا۔ تُو اور تیرے ساتھ تیرے بیٹے اور تیری بیوی اور تیرے بیٹوں کی بیویاں۔“ (پید ۶:۹-۱۸) لہٰذا جب نوح کو کشتی بنانے کا حکم ملا تو ممکن ہے کہ طوفان آنے میں صرف ۴۰ یا ۵۰ سال رہ گئے تھے۔
۷. (الف) نوح اور اُن کے گھر والوں نے کیسے ظاہر کِیا کہ وہ خدا پر بھروسا رکھتے ہیں؟ (ب) یہوواہ خدا نے نوح کو طوفان کے شروع ہونے کا وقت کب بتایا؟
۷ کشتی بناتے وقت نوح اور اُن کے گھر والے یہ ضرور سوچتے ہوں گے کہ خدا طوفان کب اور کیسے لائے گا؟ حالانکہ وہ اِن تمام باتوں سے واقف نہیں تھے پھر بھی اُنہوں نے کشتی بنانے کا کام بند نہیں کِیا۔ پاک کلام میں لکھا ہے: ”نوؔح نے یوں ہی کِیا۔ جیسا خدا نے اُسے حکم دیا تھا ویسا ہی عمل کِیا۔“ (پید ۶:۲۲) آخرکار یہوواہ خدا نے نوح کو بتایا کہ سات دن بعد طوفان آئے گا۔ خدا نے نوح اور اُن کے گھر والوں کو جتنا وقت دیا، وہ جانوروں کو اِکٹھا کرکے کشتی میں لانے کے لئے کافی تھا۔ لہٰذا جب ’نوح کی عمر کے چھسوویں سال کے دوسرے مہینے کی ٹھیک سترھویں تاریخ‘ کو طوفان آیا تو سارا کام مکمل ہو چُکا تھا۔—پید ۷:۱-۵، ۱۱۔
۸. یہوواہ خدا نے نوح اور اُن کے گھر والوں کو جس طرح بچایا، اُس سے ہم کیا سیکھتے ہیں؟
۸ یہوواہ خدا نے نوح اور اُن کے گھر والوں کو جس طرح بچایا، اُس سے ہم کیا سیکھتے ہیں؟ ہم سیکھتے ہیں کہ یہوواہ خدا اپنے بندوں کو مصیبت سے نجات دِلانے کا صحیح وقت اور بہترین طریقہ جانتا ہے۔ جوںجوں اِس دُنیا کا خاتمہ قریب آ رہا ہے، ہم بھروسا رکھ سکتے ہیں کہ انسانوں کے لئے یہوواہ خدا کا مقصد اُس کے مقررہ ’دن اور گھڑی‘ پر پورا ہوگا۔—متی ۲۴:۳۶؛ حبقوق ۲:۳ کو پڑھیں۔
بنیاسرائیل، فرعون کے ہاتھ سے بچ گئے
۹، ۱۰. یہوواہ خدا نے مصریوں کو یہ تاثر کیسے دیا کہ بنیاسرائیل کو پکڑنا بہت آسان ہے؟
۹ پہلی مثال سے ہم سیکھ چکے ہیں کہ یہوواہ خدا اپنا مقصد پورا کرنے کے لئے ہمیشہ مقررہ وقت پر کارروائی کرتا ہے۔ آئیں، اب دوسری مثال پر غور کریں۔ اِس مثال سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہم اَور کس وجہ سے بھروسا رکھ سکتے ہیں کہ یہوواہ خدا اپنے بندوں کو بڑی مصیبت سے بچائے گا۔ ہم سیکھیں گے کہ یہوواہ خدا بےپناہ طاقت کا مالک ہے۔ وہ اپنی مرضی کو پورا کرنے کے لئے اپنی لامحدود طاقت کو استعمال کرے گا۔ بِلاشُبہ یہوواہ خدا اپنے بندوں کو ہر طرح کی مصیبت یا خطرے سے بچا سکتا ہے۔ لیکن بعض اوقات وہ اپنے دُشمنوں کو پھنسانے کے لئے اُنہیں یہ تاثر دیتا ہے کہ اُس کے بندوں پر فتح حاصل کرنا بہت آسان ہے۔جب اُس نے بنیاسرائیل کو مصریوں کی غلامی سے نجات دِلائی تو اُس نے فرعون کو یہی تاثر دیا۔
۱۰ جب بنیاسرائیل، مصر سے نکلے تو اُن کی تعداد تقریباً ۳۰ لاکھ تھی۔ یہوواہ خدا کے کہنے پر موسیٰ، بنیاسرائیل کو بہت عجیب راستے سے لے گئے۔ دراصل یہوواہ خدا فرعون کو یہ تاثر دینا چاہتا تھا کہ بنیاسرائیل ”زمین کی اُلجھنوں میں آ کر بیابان میں گِھر“ جائیں گے اور وہ آسانی سے اُنہیں پکڑ لیں گے۔ (خروج ۱۴:۱-۴ کو پڑھیں۔) فرعون واقعی اِس جھانسے میں آ گئے۔ وہ اپنا لشکر لے کر بنیاسرائیل کے پیچھے گئے اور اُنہیں بحرِقلزم کے پاس جا لیا۔ ایسا لگتا تھا کہ اب بنیاسرائیل، فرعون کے ہاتھ سے بچ نہیں سکیں گے۔ (خر ۱۴:۵-۱۰) لیکن دراصل بنیاسرائیل کو کوئی خطرہ نہیں تھا کیونکہ یہوواہ خدا اُن کو بچانے کے لئے کارروائی کرنے والا تھا۔
۱۱، ۱۲. (الف) یہوواہ خدا نے بنیاسرائیل کو بچانے کے لئے کیا کارروائی کی؟ (ب) اِس کارروائی کا کیا نتیجہ نکلا؟ (ج) ہم اِس واقعے سے یہوواہ خدا کے بارے میں کیا سیکھتے ہیں؟
۱۱ ’بادل کا ستون‘ جو بنیاسرائیل کے آگے چلتا تھا، وہ سامنے سے ہٹ کر اُن کے پیچھے جا کھڑا ہوا۔ فرعون کی فوج پر اندھیرا چھا گیا اور وہ اسرائیلیوں کو دیکھ نہیں سکتی تھی۔ لیکن بادل کے ستون نے اسرائیلیوں پر رات میں بھی روشنی رکھی۔ (خروج ۱۴:۱۹، ۲۰ کو پڑھیں۔) پھر یہوواہ خدا نے تیز آندھی کے ذریعے سمندر کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا اور ”سمندر کو . . . خشک زمین بنا دیا۔“ اِس میں کافی وقت لگا ہوگا کیونکہ بائبل میں بتایا گیا ہے کہ ’راتبھر آندھی چلتی رہی۔‘ اِس کے بعد ”بنیاسرائیل سمندر کے بیچ میں سے خشک زمین پر چل کر نکل گئے۔“ فرعون کے رتھوں کے مقابلے میں بنیاسرائیل بہت آہستہآہستہ چل رہے تھے۔ پھر بھی فرعون اُن کو پکڑ نہیں سکتے تھے کیونکہ یہوواہ خدا، بنیاسرائیل کی طرف سے فرعون کے ساتھ لڑ رہا تھا۔ یہوواہ خدا نے ”مصریوں کے . . . لشکر کو گھبرا دیا۔ اور اُس نے اُن کے رتھوں کے پہیوں کو نکال ڈالا۔ سو اُن کا چلانا مشکل ہو گیا۔“—خر ۱۴:۲۱-۲۵۔
۱۲ جب تمام بنیاسرائیل صحیحسلامت دوسری طرف پہنچ گئے تو یہوواہ خدا نے موسیٰ کو حکم دیا: ”اپنا ہاتھ سمندر کے اُوپر بڑھا تاکہ پانی مصریوں اور اُن کے رتھوں اور سواروں پر پھر بہنے لگے۔“ جب فوجی پانی کی موجوں سے ڈر کر پیچھے بھاگنے لگے تو ”[یہوواہ] نے سمندر کے بیچ ہی میں مصریوں کو تہوبالا کر دیا۔“ اُنہیں بچنے کا کوئی موقع نہ ملا اور ”ایک بھی اُن میں سے باقی نہ چُھوٹا۔“ (خر ۱۴:۲۶-۲۸) یوں یہوواہ خدا نے ظاہر کِیا کہ وہ اپنے بندوں کو ہر طرح کی مصیبت، ہر طرح کے خطرے سے بچانے کی طاقت رکھتا ہے۔
مسیحی، یروشلیم کی تباہی سے بچ گئے
۱۳. (الف) یسوع مسیح نے اپنے شاگردوں کو کونسی ہدایات دی تھیں؟ (ب) یسوع مسیح کے شاگردوں کے ذہن میں کونسا سوال پیدا ہوا ہوگا؟
۱۳ یہوواہ خدا خوب جانتا ہے کہ دُنیا کے خاتمے سے پہلے کونکون سے واقعات پیش آئیں گے اور اِن کے ذریعے انسانوں کے لئے اُس کا مقصد کیسے پورا ہوگا۔ اِس سلسلے میں آئیں، ہم تیسری مثال پر غور کریں۔ یہوواہ خدا نے اپنے بیٹے کے ذریعے بتایا تھا کہ ایک وقت آئے گا جب یروشلیم کو تباہ کر دیا جائے گا۔اِس تباہی سے بچنے کے سلسلے میں یسوع مسیح نے یروشلیم اور یہودیہ میں رہنے والے مسیحیوں کو کچھ ہدایات دیں۔ اُنہوں نے کہا: ”جب تُم اُس اُجاڑنے والی مکروہ چیز کو جس کا ذکر دانیؔایل نبی کی معرفت ہوا۔ مُقدس مقام میں کھڑا ہوا دیکھو . . . تو جو یہوؔدیہ میں ہوں وہ پہاڑوں پر بھاگ جائیں۔“ (متی ۲۴:۱۵، ۱۶) یہ ہدایات سُن کر یسوع مسیح کے شاگردوں کے ذہن میں شاید یہ سوال پیدا ہوا ہوگا کہ ”ہم کیسے پہچان سکتے ہیں کہ یسوع مسیح کی پیشینگوئی پوری ہو رہی ہے؟“
۱۴. کن واقعات سے پتہ چلا کہ یسوع مسیح کی پیشینگوئی پوری ہو رہی ہے؟
۱۴ وقت کے ساتھساتھ کچھ ایسے واقعات سامنے آئے جن سے پتہ چلا کہ یسوع مسیح کی پیشینگوئی پوری ہو رہی ہے۔ یہودیوں نے رومیوں کے خلاف بغاوت کی۔ اِس بغاوت کا سر کچلنے کے لئے ۶۶ عیسوی میں ایک رومی جرنیل سیسٹیئس گیلس اپنی فوج کو لے کر آئے اور یروشلیم کو گھیر لیا۔ جن یہودیوں نے بغاوت کی تھی، اُنہوں نے ہیکل کے پاس بنے ہوئے ایک قلعے میں پناہ لے لی۔ رومی فوجی اُن تک پہنچنے کے لئے ہیکل کی دیوار کو گِرانے کی کوشش کرنے لگے۔ جو مسیحی روحانی طور پر جاگ رہے تھے، وہ سمجھ گئے کہ یسوع مسیح کی پیشینگوئی پوری ہو رہی ہے۔ ایک بُتپرست فوج ناپاک نشانوں والے جھنڈوں (یعنی ”مکروہ چیز“) کے ساتھ ہیکل (یعنی ”مُقدس مقام“) کے سامنے کھڑی تھی۔ یہی وہ وقت تھا جب یسوع مسیح کے پیروکاروں کو ’پہاڑوں پر بھاگ جانا‘ تھا۔ لیکن فوج نے شہر کو چاروں طرف سے گھیر رکھا تھا۔ تو پھر وہ پہاڑوں پر کیسے جا سکتے تھے؟ اچانک حالات نے ایک نیا موڑ لیا۔
۱۵، ۱۶. (الف) یسوع مسیح نے اپنے پیروکاروں کو کونسی ہدایت کی تھی اور اِس ہدایت پر عمل کرنا ضروری کیوں تھا؟ (ب) بڑی مصیبت سے زندہ بچنے کے لئے ہمیں کیا کرنا ہوگا؟
۱۵ حیرانی کی بات ہے کہ سیسٹیئس گیلس اور اُن کے فوجی یروشلیم کا محاصرہ چھوڑ کر واپس چلے گئے۔ باغی یہودی بھی اُن کے پیچھے نکل پڑے۔ اب وہاں نہ تو رومی فوجی تھے اور نہ ہی باغی یہودی تھے۔ اِس لئے یسوع مسیح کے پیروکاروں کو شہر سے بھاگنے کا موقع مل گیا۔ یسوع مسیح نے اُنہیں خاص طور پر یہ ہدایت بھی کی تھی کہ وہ اپنا سب کچھ چھوڑ دیں اور شہر سے بھاگنے میں ذرا بھی دیر نہ کریں۔ (متی ۲۴:۱۷، ۱۸ کو پڑھیں۔) اُس شہر سے فوراً نکل جانا ضروری کیوں تھا؟ کیونکہ کچھ ہی دنوں بعد باغی یہودی لوٹ آئے اور یروشلیم اور یہودیہ میں رہنے والے لوگوں کو مجبور کرنے لگے کہ وہ رومیوں کے خلاف لڑائی میں اُن کا ساتھ دیں۔ کچھ یہودی گروہ اختیار حاصل کرنے کے لئے آپس میں لڑنے لگے جس کی وجہ سے شہر کے حالات اَور بھی بگڑ گئے۔ اِس صورت میں شہر سے بھاگنا خطرے سے خالی نہیں تھا۔ لیکن جب ۷۰ عیسوی میں رومی فوج نے شہر کو دوبارہ گھیر لیا تو کسی کا بھی وہاں سے نکلنا ناممکن تھا۔ (لو ۱۹:۴۳) جن لوگوں نے شہر سے نکلنے میں دیر کی تھی، اب وہ وہاں بُری طرح پھنس چکے تھے۔ لیکن جو مسیحی یسوع مسیح کی بات پر عمل کرتے ہوئے پہاڑوں پر بھاگ گئے تھے، اُن کی جانیں بچ گئیں۔ اُنہوں نے یہ دیکھ لیا تھا کہ یہوواہ خدا اپنے بندوں کو مصیبت سے بچانا جانتا ہے۔ ہم اِس واقعے سے کیا سیکھتے ہیں؟
۱۶ بڑی مصیبت کے دوران مسیحیوں کے لئے یہ بہت ضروری ہوگا کہ وہ اُن ہدایات پر عمل کریں جو یہوواہ خدا اپنے کلام اور اپنی تنظیم کے ذریعے دے گا۔ پہلی صدی میں یسوع مسیح نے اپنے پیروکاروں کو ’پہاڑوں پر بھاگ جانے‘ کی ہدایت کی تھی۔ بڑی مصیبت کے دوران یسوع مسیح کی یہ ہدایت ہم پر بھی لاگو ہوگی لیکن ہم یہ نہیں جانتے کہ کس لحاظ سے۔ مگر ہمیں یقین ہے کہ یہوواہ خدا صحیح وقت پر ہمیں بتا دے گا کہ ہمیں کیا کرنا ہوگا۔a ہم صرف اُسی صورت میں بڑی مصیبت سے زندہ بچیں گے اگر ہم خدا کی طرف سے ملنے والی ہدایات پر عمل کریں گے۔ لہٰذا ہمیں خود سے پوچھنا چاہئے: ”آج جب یہوواہ خدا کی طرف سے کوئی ہدایت ملتی ہے تو میرا ردِعمل کیا ہوتا ہے؟ کیا مَیں فوراً اُس ہدایت پر عمل کرتا ہوں یا پھر دیر لگاتا ہوں؟“—یعقو ۳:۱۷۔
ہم حملے کا سامنا کرنے کے لئے تیار ہیں
۱۷. حبقوق نبی کی پیشینگوئی سے ہمیں اُس حملے کے بارے میں کیا پتہ چلتا ہے جو خدا کے بندوں پر کِیا جائے گا؟
۱۷ آئیں، اب دوبارہ اُس وقت کے بارے میں بات کریں جب ’ماجوج کی سرزمین کا جوج‘ خدا کے بندوں پر حملہ کرے گا۔ حبقوق نبی نے بھی اُس وقت کے بارے میں بتایا۔ اُنہوں نے کہا:”مَیں نے سنا اور میرا دل دہل گیا، اُس آواز سے میرے ہونٹ تھرتھرانے لگے؛ میری ہڈیاں گلنے لگیں، اور میری ٹانگیں کانپنے لگیں۔ پھر بھی مَیں صبر سے مصیبت کے دن کا انتظار کروں گا جو ہمارے اُوپر حملہ کرنے والی قوم [یعنی جوج کی فوجوں] پر آنے کو ہے۔“ (حبق ۳:۱۶، نیو اُردو بائبل ورشن۔) خدا کے بندوں پر ہونے والے حملے کا سُن کر ہی حبقوق نبی کا دل بیٹھ گیا، اُن کے ہونٹ کانپنے لگے اور وہ بےجان سے ہو گئے۔ اُن کی حالت سے ہمیں یہ اشارہ ملتا ہے کہ جب جوج کا لشکر ہم پر چڑھائی کرے گا تو ہماری صورتحال کتنی خطرناک معلوم ہوگی۔ حبقوق نبی صبر سے یہوواہ خدا کے دن کے منتظر رہے۔ اُن کا ایمان تھا کہ یہوواہ خدا اپنے بندوں کو اِس حملے سے ضرور بچائے گا۔ حبقوق نبی کی طرح ہم بھی بھروسا رکھ سکتے ہیں کہ یہوواہ خدا اپنے بندوں کو بڑی مصیبت سے بچائے گا۔—حبق ۳:۱۸، ۱۹۔
۱۸. (الف) ہمیں جوج کے حملے سے کیوں نہیں ڈرنا چاہئے؟ (ب) اگلے مضمون میں کس سوال کا جواب دیا جائے گا؟
۱۸ اِس مضمون میں ہم نے جن تین مثالوں پر غور کِیا ہے، اُن سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہوواہ خدا اپنے بندوں کو مصیبت سے بچا لینا جانتا ہے۔ زمین اور انسانوں کے لئے اُس کا مقصد ضرور پورا ہوگا۔ یہوواہ خدا یقیناً اپنے دُشمنوں پر فتح حاصل کرے گا۔ اگر ہم یہوواہ خدا کی فتح کے جشن میں شریک ہونا چاہتے ہیں تو یہ بہت ضروری ہے کہ ہم آخر تک اُس کے وفادار رہیں۔ لیکن یہوواہ خدا ہماری مدد کیسے کرتا ہے تاکہ ہم اُس کے وفادار رہیں؟ اِس سوال کا جواب اگلے مضمون میں دیا جائے گا۔
[فٹنوٹ]
a یکم مئی ۱۹۹۹ء کے مینارِنگہبانی کے صفحہ ۱۹ کو دیکھیں۔
[صفحہ ۲۶ پر تصویر]
کیا بنیاسرائیل واقعی خطرے میں تھے؟