سچے پرستاروں کی ایک بڑی بھیڑ—وہ کہاں سے آئی ہے؟
”ہر ایک قوم اور قبیلہ اور اُمت اور اہلِزبان کی ایک ایسی بڑی بھیڑ . . . تخت اور برّہ کے آگے کھڑی ہے۔“—مکاشفہ ۷:۹۔
۱. مکاشفہ کی نبوّتی رویتیں آجکل ہمارے لئے بڑی دلچسپی کی حامل کیوں ہیں؟
پہلیصدی س.ع. کے خاتمے کے قریب، یوؔحنا رسول نے یہوؔواہ کے مقصد کے سلسلے میں حیرتانگیز واقعات کی رویا دیکھی۔ بعض چیزیں جو اُس نے رویا میں دیکھیں عین اِس وقت تکمیلپذیر ہیں۔ دیگر کا ابھی مستقبلقریب میں تکمیلپذیر ہونا باقی ہے۔ یہ سب کی سب تمام مخلوق کے سامنے اپنے نام کی تقدیس کرانے کے یہوؔواہ کے مقصد کے ڈرامائی نقطۂعروج پر مُرتکز ہیں۔ (حزقیایل ۳۸:۲۳؛ مکاشفہ ۴:۱۱؛ ۵:۱۳) مزیدبرآں، ان میں ہم میں سے ہر ایک کی زندگی کے امکانات شامل ہیں۔ ایسا کیونکر ہے؟
۲. (ا) یوؔحنا رسول نے اپنی چوتھی رویا میں کیا دیکھا؟ (ب) اس رویا کی بابت ہم کونسے سوالات پر غور کرنے والے ہیں؟
۲ مکاشفہ کی رویتوں کے سلسلے کی چوتھی رویا میں یوؔحنا نے دیکھا کہ فرشتے تباہکُن ہواؤں کو اُس وقت تک تھامے رہتے ہیں جب تک کہ ”[ہمارے] خدا کے بندوں“ کے ماتھوں پر مہر نہیں ہو جاتی۔ اسکے بعد اُس نے ایک نہایت ہی ہیجانخیز نئی چیز دیکھی—”ہر ایک قوم اور قبیلہ اور اُمت اور اہلِزبان کی ایک ایسی بڑی بھیڑ جسے کوئی شمار نہیں کر سکتا“ یہوؔواہ کی پرستش کرنے اور اُسکے بیٹے کی تعظیم کرنے میں متحد ہے۔ یوؔحنا کو بتایا گیا تھا کہ یہ وہ لوگ تھے جو بڑی مصیبت میں سے نکل آئیں گے۔ (مکاشفہ ۷:۱-۱۷) وہ کون ہیں جن کو ”[ہمارے] خدا کے بندے“ کہا گیا ہے؟ اور بڑی مصیبت میں سے زندہ بچنے والوں کی ”بڑی بھیڑ“ کو کون تشکیل دیں گے؟ کیا آپ اُن میں سے ایک ہونگے؟
”[ہمارے] خدا کے بندے“ کون ہیں؟
۳. (ا) یوحنا ۱۰:۱-۱۸ میں، یسوؔع نے اپنے پیروکاروں کے ساتھ اپنے رشتے کی کس طرح وضاحت کی؟ (ب) اپنی قربانی کی موت کے ذریعے یسوؔع نے اپنی بھیڑوں کیلئے کیا چیز ممکن بنا دی؟
۳ اپنی موت سے چار ماہ قبل یسوؔع نے خود کو ”اچھا چرواہا“ اور اپنے پیروکاروں کو ”بھیڑیں“ کہا جنکے لئے وہ اپنی زندگی قربان کر دیگا۔ اُس نے ایسی بھیڑوں کا خاص طور پر ذکر کِیا جنہیں اُس نے علامتی بھیڑخانہ میں سے حاصل کِیا تھا اور بعد میں اُنکی خاص نگہداشت کی تھی۔ (یوحنا ۱۰:۱-۱۸)a بڑی محبت کیساتھ، یسوؔع نے اُس فدیے کی قیمت ادا کرتے ہوئے اپنی بھیڑوں کی خاطر اپنی جان دے دی جو اُنکو گناہ اور موت سے چھڑانے کیلئے درکار تھی۔
۴. جو کچھ یسوؔع نے یہاں پر کہا اُسکے مطابق پہلے اکٹھے کئے جانے والے کون ہیں؟
۴ تاہم، ایسا کرنے سے پہلے، ایک اچھے چرواہے کی مانند یسوؔع نے ذاتی طور پر شاگردوں کو اکٹھا کِیا۔ سب سے پہلے شاگردوں کو، یسوؔع کی تمثیل کے ”دربان،“ یوؔحنا اصطباغی، نے اُس سے متعارف کروایا تھا۔ یسوؔع ایسے لوگوں کو تلاش کر رہا تھا جو ’اؔبرہام کی‘ مجموعی ’نسل‘ کا حصہ بننے کے موقع کیلئے جوابیعمل دکھائینگے۔ (پیدایش ۲۲:۱۸؛ گلتیوں ۳:۱۶، ۲۹) اُس نے اُنکے دلوں میں آسمان کی بادشاہی کیلئے قدردانی کو پیدا کِیا اور اُس نے اُنہیں یقین دلایا کہ وہ اپنے آسمانی باپ کے گھر میں اُنکے لئے جگہ تیار کریگا۔ (متی ۱۳:۴۴-۴۶؛ یوحنا ۱۴:۲، ۳) اُس نے موزوں طور پر کہا: ”یوؔحنا بپتسمہ دینے والے کے دنوں سے اب تک آسمان کی بادشاہی پر زور ہوتا رہا ہے اور زورآور اُسے چھین لیتے ہیں۔“ (متی ۱۱:۱۲) جنہوں نے اس منزل کو حاصل کرنے کیلئے اُسکی پیروی کی وہ اُس بھیڑخانے کے رُکن ثابت ہوئے جسکا ذکر یسوؔع نے کِیا تھا۔
۵. (ا) مکاشفہ ۷:۳-۸ میں، بیانکردہ ”[ہمارے] خدا کے بندے“ کون ہیں؟ (ب) کیا چیز ظاہر کرتی ہے کہ روحانی اسرائیلیوں کے ساتھ پرستش میں اور بہت سے لوگ شامل ہو جائیں گے؟
۵ مکاشفہ ۷:۳-۸ میں، وہ جو کامیابی کیساتھ اُس آسمانی منزل کی جانب بڑھتے ہیں اُن کا ”[ہمارے] خدا کے بندوں“ کے طور پر بھی حوالہ دیا گیا ہے۔ (دیکھیں ۱-پطرس ۲:۹، ۱۶۔) کیا ۱،۴۴۰۰۰ جنکا وہاں پر ذکر کِیا گیا ہے صرف حقیقی یہودی ہی ہیں؟ کیا یسوؔع کی تمثیل کے علامتی بھیڑخانے کے رُکن صرف یہودی ہیں؟ قطعاً نہیں؛ وہ خدا کے روحانی اسرائیل کے رُکن ہیں، سب کے سب اؔبرہام کی روحانی نسل میں مسیح کے ساتھ شریک ہوتے ہیں۔ (گلتیوں ۳:۲۸، ۲۹؛ ۶:۱۶؛ مکاشفہ ۱۴:۱، ۳) بےشک، آخرکار وقت آ جائیگا جب مقررہ تعداد پوری ہو جائیگی۔ اسکے بعد کیا واقع ہوگا؟ جیسے کہ بائبل پیشگوئی کر چکی ہے، دیگر لوگ—اُنکی ایک بڑی بھیڑ—یہوؔواہ کی پرستش کرنے میں ان روحانی اسرائیلیوں کیساتھ آ ملیں گے۔—زکریاہ ۸:۲۳۔
”دوسری بھیڑیں“—کیا وہ غیرقوم مسیحی ہیں؟
۶. یوحنا ۱۰:۱۶ کس نئی چیز کی طرف اشارہ کرتی ہے؟
۶ یوحنا ۱۰:۷-۱۵ میں ایک بھیڑخانے کا ذکر کرنے کے بعد، یسوؔع ان الفاظ میں ایک دوسرے گروہ کو منظرِعام پر لایا: ”میری اَور بھی [”دوسری،“ اینڈبلیو] بھیڑیں ہیں جو اس بھیڑخانہ کی نہیں۔ مجھے اُنکو بھی لانا ضرور ہے اور وہ میری آواز سنیں گی۔ پھر ایک ہی گلّہ اور ایک ہی چرواہا ہوگا۔“ (یوحنا ۱۰:۱۶) وہ ”دوسری بھیڑیں“ کون ہیں؟
۷، ۸. (ا) کیوں یہ نظریہ غلط مفروضے پر مبنی ہے کہ دوسری بھیڑیں غیرقوم مسیحی ہیں؟ (ب) زمین کیلئے خدا کے مقصد کی بابت کن پہلوؤں کو ہماری اس سمجھ پر اثرانداز ہونا چاہئے کہ دوسری بھیڑیں کون ہیں؟
۷ مسیحی دنیا کے مفسرین عموماً یہ نظریہ رکھتے ہیں کہ یہ دوسری بھیڑیں غیرقوم مسیحی ہیں اور اُس بھیڑخانہ کے رُکن جس کا پہلے حوالہ دیا گیا یہودی ہیں جو شریعتی عہد کے ماتحت تھے اور یہ کہ دونوں گروہ آسمان پر جاتے ہیں۔ لیکن یسوؔع ایک یہودی کے طور پر پیدا ہوا تھا اور پیدائشی طور پر شریعتی عہد کے ماتحت تھا۔ (گلتیوں ۴:۴) مزیدبرآں، وہ جو دوسری بھیڑوں کو غیرقوم مسیحی خیال کرتے ہیں جنکو آسمانی زندگی کا اجر ملے گا وہ خدا کے مقصد کے ایک اہم پہلو کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔ جب یہوؔواہ نے پہلے انسانوں کو خلق کِیا اور اُنہیں باغِعدؔن میں رکھا تو اُس نے اس بات کو واضح کر دیا کہ اُسکا مقصد زمین کو آباد کرنا تھا تاکہ یہ ساری کی ساری فردوس بن جائے اور یہ کہ اسکے انسانی نگہبان ابدی زندگی سے لطفاندوز ہوں—بشرطیکہ وہ اپنے خالق کا احترام اور فرمانبرداری کریں۔—پیدایش ۱:۲۶-۲۸؛ ۲:۱۵-۱۷؛ یسعیاہ ۴۵:۱۸۔
۸ جب آؔدم نے گناہ کِیا تو یہوؔواہ کے مقصد میں کوئی رکاوٹ نہیں آئی تھی۔ خدا نے بڑی محبت سے آؔدم کی اولاد کیلئے یہ سہولت فراہم کی کہ جس چیز کی قدر کرنے میں آؔدم ناکام ہو گیا تھا وہ اُسی سے لطف اُٹھانے کا موقع حاصل کرے۔ یہوؔواہ نے پیشگوئی کی کہ وہ ایک نجاتدہندہ، ایک نسل، برپا کریگا جس کے وسیلے سے تمام قوموں کے لئے برکات مہیا کی جائیں گی۔ (پیدایش ۳:۱۵؛ ۲۲:۱۸) اس وعدے کا مطلب یہ نہیں تھا کہ زمین کے تمام نیک انسانوں کو آسمان پر لے جایا جائیگا۔ یسوؔع نے اپنے پیروکاروں کو یہ دعا کرنا سکھائی: ”تیری بادشاہی آئے۔ تیری مرضی جیسی آسمان پر پوری ہوتی ہے زمین پر بھی ہو۔“ (متی ۶:۹، ۱۰) یوحنا ۱۰:۱-۱۶ میں درج اپنے تمثیل بیان کرنے سے تھوڑی ہی دیر پہلے یسوؔع اپنے شاگردوں کو بتا چکا تھا کہ اُسکے باپ نے آسمانی بادشاہت عطا کرنے کی کرمفرمائی صرف ”چھوٹے گلّے“ پر ہی کی ہے۔ (لوقا ۱۲:۳۲، ۳۳) لہٰذا جب ہم یسوؔع کی اچھے چرواہے کے طور پر اسکی اپنی بابت تمثیل کو پڑھتے ہیں جو اپنی بھیڑوں کی خاطر اپنی جان دے دیتا ہے تو ایسے لوگوں کی اکثریت کو مستثنیٰ کر دینا غلطی ہوگی جنہیں یسوؔع اپنی پُرمحبت نگرانی کے تحت لاتا ہے، وہ جو اُسکی آسمانی بادشاہت کی زمینی رعایا بنتے ہیں۔—یوحنا ۳:۱۶۔
۹. ۱۸۸۴ سے لیکر، بائبل طالبعلموں نے کس چیز کو دوسری بھیڑوں کی شناخت سمجھا تھا؟
۹ ۱۸۸۴ سے لیکر مینارِنگہبانی (انگریزی) نے دوسری بھیڑوں کی شناخت ایسے لوگوں کے طور پر کر دی جو اس زمین پر ایسی حالتوں کے تحت زندگی بسر کرینگے جو خدا کے ابتدائی مقصد کو پایۂتکمیل تک پہنچائیں گی۔ بائبل کے اُن ابتدائی طالبعلموں نے پہچان لیا کہ ان دوسری بھیڑوں میں سے کچھ ایسے لوگ ہونگے جو یسوؔع کی زمینی خدمتگزاری سے قبل زندہ رہ چکے اور مر چکے تھے۔ تاہم، کچھ ایسی تفصیلات بھی تھیں جو انہوں نے درست طور پر نہ سمجھیں۔ مثال کے طور پر، اُنہوں نے سوچا کہ دوسری بھیڑوں کا جمع کِیا جانا تمام ممسوح اشخاص کے اپنے آسمانی اجر کو حاصل کر لینے کے بعد واقع ہوگا۔ تاہم، اُنہوں نے قطعی طور پر یہ ضرور سمجھ لیا کہ دوسری بھیڑیں محض غیرقوم مسیحی ہی نہیں ہونگے۔ دوسری بھیڑوں کا رُکن بننے کا موقع دونوں یہودی اور غیرقوم یعنی تمام اُمتوں اور نسلوں کے لوگوں کیلئے دستیاب ہے۔—مقابلہ کریں اعمال ۱۰:۳۴، ۳۵۔
۱۰. ہمارے لئے اُن لوگوں میں شامل ہونے کیلئے جنہیں یسوؔع واقعی اپنی دوسری بھیڑیں خیال کرتا ہے، ہمارے حق میں کونسی بات سچ ہونی چاہئے؟
۱۰ یسوؔع کے دئے ہوئے بیان پر پورا اُترنے کیلئے دوسری بھیڑوں کو ایسے لوگ ہونا ہے جو نسلی اور طبقاتی پسمنظر سے قطعنظر یسوؔع مسیح کو بطور اچھے چرواہے کے تسلیم کرتے ہیں۔ اس میں کیا کچھ شامل ہے؟ اُنہیں راہنمائی حاصل کرنے کیلئے انکساری اور رضامندی ظاہر کرنی چاہئے، ایسی خوبیاں جو بھیڑوں کا خاصہ ہیں۔ (زبور ۳۷:۱۱) جیسا کہ چھوٹے گلّے کے حق میں سچ ہے، اُنہیں ”[اچھے چرواہے] کی آواز پہچاننی“ چاہئے اور خود کو ایسے دیگر لوگوں کے ذریعے گمراہ ہونے کی اجازت نہیں دینی چاہئے جو اُن پر اثرانداز ہونے کی کوشش میں ہیں۔ (یوحنا ۱۰:۴؛ ۲-یوحنا ۹، ۱۰) اپنی بھیڑوں کی خاطر اپنی جان دینے سے یسوؔع نے جو کچھ کِیا انہیں اُسکی اہمیت کی قدر کرنی چاہئے اور اس فراہمی پر مکمل ایمان ظاہر کرنا چاہئے۔ (اعمال ۴:۱۲) انہیں اچھے چرواہے کی آواز کو ضرور ”سننا“ چاہئے جب وہ اُنہیں صرف یہوؔواہ ہی کیلئے پاک خدمت کرنے، بادشاہی کی پہلے تلاش کرنے، دنیا سے علیٰحدہ رہنے اور ایک دوسرے کیلئے خودایثارانہ محبت ظاہر کرنے کی تاکید کرتا ہے۔ (متی ۴:۱۰؛ ۶:۳۱-۳۳؛ یوحنا ۱۵:۱۲، ۱۳، ۱۹) کیا آپ اُن لوگوں کی بابت بیان پر پورے اُترتے ہیں جنہیں یسوؔع اپنی دوسری بھیڑیں خیال کرتا ہے؟ کیا آپ چاہتے ہیں؟ ان سب کو کیا ہی بیشقیمت رشتہ استوار کرنے کا موقع مل جاتا ہے جو واقعی یسوؔع کی دوسری بھیڑیں بن جاتے ہیں!
بادشاہتی اختیار کیلئے احترام
۱۱. (ا) اپنی موجودگی کے نشان میں، یسوؔع نے بھیڑوں اور بکریوں کی بابت کیا کہا تھا؟ (ب) وہ بھائی کون ہیں جنکا یسوؔع حوالہ دیتا ہے؟
۱۱ اُسکے مندرجہبالا تمثیل پیش کرنے کے کئی ماہ بعد، یسوؔع ایک بار پھر یرؔوشلیم میں تھا۔ زیتون کے پہاڑ پر بیٹھ کر ہیکل کے علاقے کا نظارہ کرتے ہوئے اُس نے اپنے شاگردوں کو ’اپنی موجودگی اور اس نظام کے خاتمے کے نشان‘ کی بابت تفصیلات فراہم کیں۔ (متی ۲۴:۳) اُس نے پھر بھیڑوں کے جمع کئے جانے کا ذکر کِیا۔ دیگر باتوں کے ساتھ، اُس نے کہا: ”جب ابنِآدم اپنے جلال میں آئیگا اور سب فرشتے اُسکے ساتھ آئینگے تب وہ اپنے جلال کے تخت پر بیٹھیگا۔ اور سب قومیں اُسکے سامنے جمع کی جائینگی اور وہ ایک کو دوسرے سے جُدا کریگا جیسے چرواہا بھیڑوں کو بکریوں سے جُدا کرتا ہے۔ اور بھیڑوں کو اپنے دہنے اور بکریوں کو بائیں کھڑا کریگا۔“ اس تمثیل میں، یسوؔع نے یہ ظاہر کِیا کہ بادشاہ جن پر اسطرح توجہ مرکوز کرتا ہے اُن کا انصاف اس بنا پر کِیا جائے گا کہ اُنہوں نے اُس کے ”بھائیوں“ کے ساتھ کیسا سلوک کِیا ہے۔ (متی ۲۵:۳۱-۴۶) یہ بھائی کون ہیں؟ وہ روح سے پیداشُدہ مسیحی ہیں اسلئے وہ ”خدا کے بیٹے“ ہیں۔ یسوؔع خدا کا پہلوٹھا بیٹا ہے۔ لہٰذا، وہ مسیح کے بھائی ہیں۔ وہ مکاشفہ ۷:۳ میں بیانکردہ ”[ہمارے] خدا کے بندے“ ہیں، ایسے اشخاص جنکو اُس کی آسمانی بادشاہت میں مسیح کے ساتھ شریک ہونے کیلئے نوعِانسان میں سے چُنا گیا ہے۔—رومیوں ۸:۱۴-۱۷۔
۱۲. جس طریقے سے لوگ مسیح کے بھائیوں کے ساتھ پیش آتے ہیں وہ بڑی اہمیت کا حامل کیوں ہے؟
۱۲ بادشاہت کے ان وارثوں کے ساتھ دیگر انسان جس طریقے سے پیش آتے ہیں وہ بھی نہایت اہمیت کا حامل ہے۔ کیا آپ اُنہیں ویسا ہی خیال کرتے ہیں جیسے کہ یسوؔع مسیح کرتا ہے اور یہوؔواہ کرتا ہے؟ (متی ۲۴:۴۵-۴۷؛ ۲-تھسلنیکیوں ۲:۱۳) ان ممسوح اشخاص کیلئے کسی شخص کا رویہ خود یسوؔع مسیح اور اُس کے باپ، کائنات کے حاکم، کیلئے اُس کے رویے کو منعکس کرتا ہے۔—متی ۱۰:۴۰؛ ۲۵:۳۴-۴۶۔
۱۳. ۱۸۸۴ میں بائبل طالبعلموں نے بھیڑوں اور بکریوں کی تمثیل کو کس حد تک سمجھ لیا تھا؟
۱۳ مینارِنگہبانی (انگریزی) نے اگست ۱۸۸۴ کے اپنے شمارے میں صحیح طور پر نشاندہی کی کہ اس تمثیل میں ”بھیڑیں“ وہ لوگ ہیں جن کے سامنے زمین پر کامل زندگی کے امکان کو رکھا جائیگا۔ اس بات کو بھی سمجھ لیا گیا تھا کہ تمثیل کا اطلاق ضرور اُس وقت ہونا تھا جب مسیح اپنے پُرجلال آسمانی تخت سے حکومت کر رہا ہوگا۔ تاہم، اُس وقت وہ واضح طور پر سمجھ نہ پائے کہ وہاں پر بیانکردہ علیٰحدہ کرنے کا کام وہ کب شروع کریگا یا یہ کتنی دیر تک جاری رہے گا۔
۱۴. ۱۹۲۳ میں ایک کنونشن تقریر نے اس بات کو سمجھنے میں بائبل طالبعلموں کی مدد کیسے کی کہ یسوؔع کی نبوّتی تمثیل کب پوری ہوگی؟
۱۴ تاہم، ۱۹۲۳ میں، ایک کنونشن تقریر میں، اُس وقت کے واچٹاور سوسائٹی کے صدر جے.ایف.روتھرؔفورڈ نے بھیڑوں اور بکریوں کی تمثیل کے پورا ہونے کے وقت کی وضاحت کی۔ کیوں؟ اسلئے کہ کسی حد تک تمثیل ظاہر کرتی ہے کہ بادشاہ کے بھائی—اُن میں سے چند—ابھی تک زمین پر ہی ہونگے۔ انسانوں میں سے، صرف اُسکے روح سے لےپالک پیروکار ہی حقیقت میں اُسکے بھائی کہلا سکتے تھے۔ (عبرانیوں ۲:۱۰-۱۲) یہ عہدِہزار سالہ کے دوران زمین پر نہیں ہونگے تاکہ لوگوں کو اپنے ساتھ اُنہی طریقوں سے بھلائی کرنے کا موقع دیں جن کا یسوؔع نے ذکر کِیا تھا۔—مکاشفہ ۲۰:۶۔
۱۵. (ا) کونسی تبدیلیوں نے یسوؔع کی بھیڑوں والی تمثیل کی صحیح شناخت کرنے میں بائبل طالبعلموں کو مدد دی؟ (ب) بھیڑوں نے بادشاہت کیلئے اپنی قدرافزائی کا ثبوت کیسے دیا ہے؟
۱۵ ۱۹۲۳ میں اس تقریر کے دوران اُن لوگوں کی شناخت کرانے کی کوشش کی گئی تھی جو بھیڑوں اور بکریوں کی بابت خداوند کے بیان پر پورا اُترتے ہیں لیکن اس سے پہلے کہ تمثیل کا مکمل مفہوم واضح ہو دیگر معاملات کو سمجھنے کی ضرورت تھی۔ آئندہ سالوں کے دوران، یہوؔواہ ان اہم تفصیلات کو بتدریج اپنے خادموں کی توجہ میں لایا۔ ان میں، ۱۹۲۷ میں، واضح طور پر سمجھنا شامل تھا کہ ”عقلمند اور دیانتدار نوکر“ زمین پر روح سے مسحشُدہ مسیحیوں کی مکمل جماعت ہے؛ نیز، ۱۹۳۲ میں، یہوؔواہ کے ممسوح خادموں کیساتھ اپنی بےخوف رفاقت کی شناخت کرنے کی ضرورت کی قدر کرنا بھی شامل تھا، جیسے کہ یہوؔناداب نے یاؔہو کیساتھ رکھی تھی۔ (متی ۲۴:۴۵؛ ۲-سلاطین ۱۰:۱۵) اُس وقت پر، مکاشفہ ۲۲:۱۷ کی بنا پر ان بھیڑخصلت لوگوں کی خاص طور پر دوسرے لوگوں تک بادشاہتی پیغام پہنچانے میں شریک ہونے کی حوصلہافزائی کی گئی تھی۔ مسیحائی بادشاہت کیلئے اُنکی قدرافزائی نہ صرف اُنہیں خداوند کے ممسوح لوگوں کیلئے انسان دوست ہمدردی ظاہر کرنے کی تحریک دیگی بلکہ مسیح کے وسیلے سے یہوؔواہ کیلئے اپنی زندگیاں مخصوص کرنے اور اُس کام میں گرمجوشی کیساتھ شرکت کرتے ہوئے ممسوح اشخاص کیساتھ قریبی رفاقت رکھنے کی تحریک بھی دیتی ہے جو وہ کر رہے ہیں۔ کیا آپ ایسا کر رہے ہیں؟ اُن سے جو کرتے ہیں، بادشاہ کہے گا: ”آؤ میرے باپ کے مبارک لوگو جو بادشاہی بنایِعالم سے تمہارے لئے تیار کی گئی ہے اُسے میراث میں لو۔“ اُنکے سامنے بادشاہت کے زمینی قلمرو میں کاملیت کی ابدی زندگی کا شاندار امکان ہوگا۔—متی ۲۵:۳۴، ۴۶۔
”بڑی بھیڑ“—وہ کس طرف جا رہی ہے؟
۱۶. (ا) مکاشفہ ۷:۹ کے بڑے ہجوم یا بڑی بھیڑ کی شناخت کی بابت ابتدائی بائبل طالبعلم کونسے غلط نظریات رکھتے تھے؟ (ب) کب اور کس بنیاد پر اُن کا نظریہ درست کِیا گیا؟
۱۶ ایک وقت تھا جب یہوؔواہ کے خادم یہ یقین رکھتے تھے کہ مکاشفہ ۷:۹، ۱۰ کا بڑا ہجوم (یا بڑی بھیڑ) یوحنا ۱۰:۱۶ اور متی ۲۵:۳۳ کی دوسری بھیڑوں سے فرق ہے۔ چونکہ بائبل کہتی ہے کہ وہ ”تخت کے آگے کھڑے“ ہیں، اسلئے یہ خیال کیا جاتا تھا کہ وہ آسمان میں مسیح کے ہممیراثوں کے طور پر حکمرانی کرنے والے تختوں پر نہیں بلکہ تخت کے سامنے ایک دوسرے درجے پر ہونگے۔ اُنہیں کم وفادار مسیحی خیال کِیا جاتا تھا، ایسے اشخاص جنہوں نے حقیقی خودایثاری کے جذبے کا اظہار نہیں کِیا تھا۔ ۱۹۳۵ میں اس نظریے کو درست کر لیا گیا۔b متی ۲۵:۳۱، ۳۲ جیسی آیات کی روشنی میں مکاشفہ ۷:۹ کے جائزے نے اس بات کو ظاہر کر دیا کہ یہاں زمین پر لوگ ”تخت کے آگے“ ہو سکتے ہیں۔ اس بات کی بھی نشاندہی کی گئی کہ خدا وفاداری کا دوہرا معیار نہیں رکھتا۔ اُن تمام لوگوں کو اُسکے لئے راستی برقرار رکھنا لازم ہے جنہیں اُسکی پسندیدگی حاصل ہوگی۔—متی ۲۲:۳۷، ۳۸؛ لوقا ۱۶:۱۰۔
۱۷، ۱۸. (ا) ۱۹۳۵ سے لیکر، کونسا عنصر اُن لوگوں کی تعداد میں بڑے اضافے کا باعث رہا ہے جو زمین پر ابدی زندگی کے مشتاق ہیں؟ (ب) بڑی بھیڑ کے رکن کس نہایت اہم کام میں گرمجوشی کے ساتھ حصہ لے رہے ہیں؟
۱۷ بہت سالوں تک یہوؔواہ کے لوگ زمین کے سلسلے میں خدا کے وعدوں کی بابت گفتگو کر چکے تھے۔ پیچھے ۱۹۲۰ کے دہے میں جس چیز کے وقوعپذیر ہونے کی توقع انہوں نے کی تھی اُس کے باعث اُنہوں نے اعلان کِیا ”لاکھوں جو اب زندہ ہیں کبھی نہ مریں گے“ لیکن اُس وقت ایسے لاکھوں لوگ نہیں تھے جنہوں نے زندگی کیلئے خدا کی فراہمیوں کو قبول کِیا۔ سچائی قبول کرنے والوں کی اکثریت میں روحالقدس نے آسمانی زندگی کی اُمید پیدا کی۔ تاہم، خاص طور پر ۱۹۳۵ کے بعد، ایک نمایاں تبدیلی رونما ہوئی۔ یہ بات نہیں تھی کہ مینارِنگہبانی (انگریزی) نے زمین پر ابدی زندگی کی اُمید کو نظرانداز کِیا تھا۔ دہوں سے یہوؔواہ کے خادموں نے اسکی بابت گفتگو کی تھی اور ان لوگوں کو تلاش کیا تھا جو بائبل کے بیان پر پورے اُترتے ہیں۔ تاہم، یہوؔواہ کے مقررہ وقت پر اُس نے کارروائی کی اور بڑی بھیڑ کے امکانی ارکان نے اپنی شاخت کروا دی۔
۱۸ دستیاب ریکارڈ ظاہر کرتے ہیں کہ کئی سالوں تک زیادہتر میموریل حاضرین علامات سے تناول فرماتے رہے تھے۔ لیکن ۱۹۳۵ کے بعد ۲۵ سالوں کے اندر مسیح کی موت کی سالانہ یادگاری پر حاضری اُس تعداد سے بھی سو گنا بڑھ گئی جو علامات سے تناول فرما رہے تھے۔ یہ دوسرے لوگ کون تھے؟ بڑی بھیڑ کے امکانی رکن۔ صاف طور پر اُنہیں جمع کرنے کا اور آنے والی بڑی مصیبت میں سے زندہ بچ نکلنے کیلئے اُنہیں تیار کرنے کا یہوؔواہ کا وقت آ چکا تھا۔ جیسا کہ پیشگوئی کی گئی تھی، وہ ”ہر ایک قوم اور قبیلہ اور اُمت اور اہلِزبان“ میں سے آئے تھے۔ (مکاشفہ ۷:۹) وہ گرمجوشی سے اُس کام میں حصہ لے رہے ہیں جسکی یسوؔع نے پیشگوئی کی جب اُس نے کہا: ”بادشاہی کی اس خوشخبری کی منادی تمام دنیا میں ہوگی تاکہ سب قوموں کیلئے گواہی ہو۔ تب خاتمہ ہوگا۔“—متی ۲۴:۱۴۔ (۹ ۲/۰۱ w۹۵)
[فٹنوٹ]
a یوحنا ۱۰ باب کے بھیڑخانوں کی بابت ایک جامع، جدید گفتگو کے لئے یکم مارچ ۱۹۸۵ کے مینارِنگہبانی، صفحات ۲۱-۳۱ کو دیکھیں۔
b مینارِنگہبانی (انگریزی) اگست ۱ اور ۱۵، ۱۹۳۵۔
آپ کا تبصرہ کیا ہے؟
▫ مکاشفہ ۷ باب کی رویا خاص دلچسپی کی حامل کیوں ہے؟
▫ یوحنا ۱۰:۱۶ کی دوسری بھیڑیں غیرقوم مسیحیوں تک ہی محدود کیوں نہیں ہیں؟
▫ جو لوگ دوسری بھیڑوں کی بابت بائبل کے بیان پر پورا اُترتے ہیں اُنکی بابت کیا بات سچ ہونی چاہئے؟
▫ بھیڑوں اور بکریوں کی تمثیل بادشاہتی اختیار کیلئے احترام کو کس طرح اُجاگر کرتی ہے؟
▫ کیا چیز ظاہر کرتی ہے کہ مکاشفہ ۷:۹ کی بڑی بھیڑ کو جمع کرنے کے لئے یہوؔواہ کا وقت کب آیا تھا؟