”دانشمند کی تعلیم“ حیات کا چشمہ ہے
پولس رسول نے بیان کِیا: ”واہ! خدا کی دولت اور حکمت اور علم کیا ہی عمیق ہے! اُس کے فیصلے کس قدر اِدراک سے پرے اور اُس کی راہیں کیا ہی بےنشان ہیں!“ (رومیوں ۱۱:۳۳) ایوب نبی نے بھی یہوواہ خدا کے بارے میں کہا کہ ”وہ دل کا عقلمند“ ہے۔ (ایوب ۹:۴) واقعی، زمینوآسمان کے خالق کی حکمت کا کوئی ثانی نہیں۔ تو پھر ہم اُس کے کلام بائبل سے حاصل ہونے والی تعلیم کی بابت کیا کہہ سکتے ہیں؟
زبورنویس نے اپنے گیت میں یوں اظہار کِیا: ”[یہوواہ] کی شریعت کامل ہے۔ وہ جان کو بحال کرتی ہے۔ [یہوواہ] کی شہادت برحق ہے۔ نادان کو دانش بخشتی ہے۔ [یہوواہ] کے قوانین راست ہیں۔ وہ دل کو فرحت پہنچاتے ہیں۔ [یہوواہ] کا حکم بےعیب ہے۔ وہ آنکھوں کو روشن کرتا ہے۔“ (زبور ۱۹:۷، ۸) بادشاہ سلیمان ان الفاظ سے متفق تھا! اس لئے اُس نے کہا: ”دانشمند کی تعلیم حیات کا چشمہ ہے جو موت کے پھندوں سے چھٹکارے کا باعث ہو۔“ (امثال ۱۳:۱۴) آئیے ہم امثال ۱۳:۱-۱۳ آیت پر غور کرتے ہیں۔ ان آیات سے ہم سیکھیں گے کہ ہم اپنی زندگی میں خوشی کس طرح حاصل کر سکتے ہیں۔
خدائی تربیت سے فائدہ حاصل کرنا
امثال ۱۳:۱ یوں بیان کرتی ہے: ”دانشمند بیٹا اپنے باپ کی تعلیم کو سنتا ہے لیکن ٹھٹھاباز سرزنش پر کان نہیں لگاتا۔“ ایک باپ اپنے بیٹے کی دو طریقوں سے تربیت کرتا ہے۔ پہلے تو وہ نرمی سے ایسا کرے گا۔ اگر بیٹا تربیت کو نظرانداز کرے تو باپ کو سزا دینے کا حق ہے۔ لیکن سمجھدار بیٹا باپ کی تربیت کو نظرانداز نہیں کرے گا۔
عبرانیوں ۱۲:۶ میں پولس نے یوں لکھا: ”جس سے [یہوواہ] محبت رکھتا ہے اُسے تنبیہ بھی کرتا ہے اور جس کو بیٹا بنا لیتا ہے اُس کے کوڑے بھی لگاتا ہے۔“ یہوواہ بائبل کے ذریعے ہمیں تنبیہ کرتا ہے۔ جب ہم بائبل کو غور سے پڑھ کر اُس پر عمل کرتے ہیں تو ہم یہوواہ کی ہدایت سے فائدہ حاصل کرتے ہیں۔—یسعیاہ ۴۸:۱۷۔
یہوواہ خدا کلیسیا کے بہنبھائیوں کے ذریعے بھی ہمیں تنبیہ کرتا ہے۔ جب وہ ہمیں بائبل سے مشورہ دیتے ہیں تو ہمیں یہ جان کر اُسے قبول کرنا چاہئے کہ یہ یہوواہ کی طرف سے ہے۔ اس کے علاوہ جب ہم کلیسیا کے اجلاسوں پر حاضر ہوتے یا بائبل پر مبنی مطبوعات پڑھتے ہیں تو اصل میں یہوواہ ہمیں تربیت دے رہا ہوتا ہے۔ ایسی تربیت یا ہدایت سے ہم اُسی وقت فائدہ حاصل کر سکتے ہیں جب ہم اس پر عمل کرکے اپنی زندگی میں تبدیلی لاتے ہیں۔
اس کے برعکس، ٹھٹھاباز کسی قِسم کی تربیت کو نہیں مانتا۔ متکبر شخص سرزنش یعنی ملامت کو بھی نظرانداز کرتا ہے۔ اُس کی یہ سوچ انتہائی بیوقوفی ہے! اسلئےکہ یہوواہ خدا کی نصیحت ہمیشہ ہماری بھلائی کے لئے ہوتی ہے۔ سلیمان نے امثال ۱۳:۱ میں کیا ہی خوبصورت انداز میں تربیت قبول کرنے کے فائدے بیان کئے ہیں!
اپنی زبان کو قابو میں رکھنا!
سلیمان ہمیں بولنے کے لہجے کے بارے میں نصیحت کرتے ہوئے کہتا ہے: ”آدمی اپنے کلام کے پھل سے اچھا کھائے گا لیکن دغابازوں کی جان کے لئے ستم ہے۔“ (امثال ۱۳:۲) یہاں پر سلیمان ہماری بولچال کو پھل سے تشبیہ دے رہا ہے۔ اگر ہم دوسروں کے ساتھ باتچیت کرتے وقت ہمیشہ نرمی سے پیش آئیں گے تو ہم ’اچھے پھل کھائیں گے‘ یعنی خوشی اور سکون کی زندگی گزاریں گے۔ لیکن اگر ہم دوسروں کو اپنے لبولہجے سے ٹھیس پہنچائینگے تو اس کے بدلے میں ہم خود بھی ”ستم“ یعنی تکلیف پائیں گے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایک شخص جو بوتا ہے وہی کاٹتا ہے۔
اگلی آیت میں سلیمان کہتا ہے: ”اپنے مُنہ کی نگہبانی کرنے والا اپنی جان کی حفاظت کرتا ہے لیکن جو اپنے ہونٹ پسارتا ہے ہلاک ہوگا۔“ (امثال ۱۳:۳) زبان کو قابو میں نہ رکھنے کے نتائج نقصاندہ ہوتے ہیں۔ اس سے ہماری اپنی بدنامی ہوگی اور کوئی ہماری عزت نہیں کرے گا۔ اس کے علاوہ ہم اپنی جان کو بھی خطرے میں ڈال سکتے ہیں اور ہم خدا کی نظروں میں قصوروار ٹھہرائے جائیں گے۔ (متی ۱۲:۳۶، ۳۷) ان تمام نقصانات سے بچنے کے لئے ہمیں اپنی زبان کو قابو میں رکھنے کی ضرورت ہے۔ لیکن ہم ایسا کیسے کر سکتے ہیں؟
ایک طریقہ تو یہ ہے کہ ہمیں ضرورت سے زیادہ نہیں بولنا چاہئے۔ بائبل اس کے بارے میں یوں کہتی ہے: ”کلام کی کثرت خطا سے خالی نہیں۔“ (امثال ۱۰:۱۹) دوسرا طریقہ یہ ہے کہ ہمیں سوچسمجھ کر بات کرنی چاہئے۔ اس کے بارے میں امثال ۱۲:۱۸ یوں بیان کرتی ہے: ”بےتامل بولنے والے کی باتیں تلوار کی طرح چھیدتی ہیں۔“ جب ایک شخص سوچسمجھ کر بات نہیں کرتا تو وہ اپنے آپ کو اور دوسروں کو نقصان پہنچاتا ہے۔ اسی لئے سلیمان نے یوں نصیحت کی، ”صادق کا دل سوچ کر جواب دیتا ہے۔“—امثال ۱۵:۲۸۔
محنتی بنیں
سلیمان آگے کہتا ہے: ”سُست آدمی آرزو کرتا ہے پر کچھ نہیں پاتا لیکن محنتی کی جان فربہ ہوگی۔“ (امثال ۱۳:۴) ایک کتاب اس آیت کے بارے میں کہتی ہے کہ ”محض آرزو کرنے سے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ سُست انسان اپنی خواہشات کو پورا کرنے کے لئے محنت نہیں کرتا اس لئے کبھی مطمئن نہیں ہوتا۔“ لیکن محنتی کی جان فربہ ہوگی یعنی اُس کی آرزو پوری ہوگی۔
ایسے شخص کے بارے میں کیا کہا جا سکتا ہے جو یہوواہ کے لئے اپنی زندگی مخصوص کرنے سے ہچکچاتا ہے؟ وہ ہمیشہ کی زندگی تو چاہتا ہے لیکن کیا وہ اس کے لئے کچھ کرنے کو تیار ہے؟ تاہم، بائبل بتاتی ہے کہ ’بڑی مصیبت سے بچ نکلنے‘ کے لئے ہمیں یسوع کی قربانی پر ایمان لانے، یہوواہ کے لئے اپنی زندگی مخصوص کرنے اور بپتسمہ لینے کی ضرورت ہے۔—مکاشفہ ۷:۱۴، ۱۵۔
شاید کوئی بھائی کلیسیا میں عہدہ چاہتا ہے اور ایسی خواہش رکھنا مناسب بھی ہے۔ (۱-تیمتھیس ۳:۱) لیکن صرف خواہش رکھنا ہی کافی نہیں۔ بزرگ بننے کے لئے اُسے اپنے اندر مسیحی صفات اور قابلیت پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔
صداقت—ایک تحفظ
صادق شخص اپنے اندر مسیحی صفات پیدا کرتا اور ہمیشہ سچ بولتا ہے۔ کیونکہ اُسے معلوم ہے کہ جھوٹ بولنا خدا کے حکم کے خلاف ہے۔ (امثال ۶:۱۶-۱۹؛ کلسیوں ۳:۹) سلیمان اس کے بارے میں کہتا ہے: ”صادق کو جھوٹ سے نفرت ہے لیکن شریر نفرتانگیزورُسوا ہوتا ہے۔“ (امثال ۱۳:۵) اس آیت کے مطابق صادق شخص ہمیشہ جھوٹ سے نفرت کرتا ہے۔ خواہ جھوٹ بڑا ہو یا چھوٹا اس سے دوستیاں تباہ ہو جاتیں اور اعتماد کو بھی ٹھیس پہنچتی ہے۔ جھوٹ بولنے سے ہماری اپنی بےعزتی بھی ہوتی ہے۔
یہ ظاہر کرنے کے لئے کہ خدا کے احکام پر چلنے میں ہمارے لئے کیا فائدہ ہے بادشاہ سلیمان نے یوں کہا: ”صداقت راسترَو کی حفاظت کرتی ہے لیکن شرارت شریر کو گرا دیتی ہے۔“ (امثال ۱۳:۶) راستبازی ایک مضبوط قلعے کی مانند ہے جو ہماری حفاظت کرتی ہے لیکن شرارت یا بُرائی ہمیں تباہوبرباد کر دیتی ہے۔
ریاکاری سے بچیں
سلیمان انسان کی فطرت سے اچھی طرح واقف تھا۔ اس لئے اُس نے کہا: ”کوئی اپنے آپ کو دولتمند جتاتا ہے لیکن نادار ہے اور کوئی اپنے آپ کو کنگال بتاتا ہے پر بڑا مالدار ہے۔“ (امثال ۱۳:۷) کچھ غریب لوگ دکھاوے کے لئے اپنے آپ کو بڑا مالدار ظاہر کرتے ہیں اور کچھ امیر لوگ اپنی دولت کو چھپانے کے لئے اپنے آپ کو غریب ظاہر کرتے ہیں۔
ان دونوں کا رویہ غلط ہے۔ اگر ہم دکھاوے کے لئے حد سے زیادہ پیسے خرچ کرتے ہیں تو اس میں ہمارے خاندان کا نقصان ہوگا۔ اسی طرح ایک مالدار شخص جو پیسے بچانے کے لئے بہانے بناتا ہے وہ کنجوس کہلاتا ہے اور لوگوں میں اُس کی کوئی عزت نہیں رہتی۔ وہ اُس خوشی سے محروم رہتا ہے جو دوسروں کو دینے سے حاصل ہوتی ہے۔ (اعمال ۲۰:۳۵) اپنی حیثیت کے مطابق زندگی گزارنا دانشمندی کی بات ہے۔
سادہ زندگی گزاریں
سلیمان مزید بیان کرتا ہے: ”آدمی کی جان کا کفّارہ اُس کا مال ہے پر کنگال دھمکی کو نہیں سنتا۔“ (امثال ۱۳:۸) اس آیت کا کیا مطلب ہے؟
امیر ہونا فائدہمند تو ہے لیکن اِس سے اکثر مسائل بھی پیدا ہوتے ہیں۔ آجکل کے حالات اتنے بُرے ہیں کہ کبھیکبھار امیر لوگوں یا اُن کے خاندان کے افراد کو پیسوں کی خاطر اغوا کر لیا جاتا ہے اور ان میں سے اکثر کو قتل کر دیا جاتا ہے۔ یہ ایک ایسا ڈر ہے جو امیروں کے سر پر ہمیشہ تلوار کی طرح لٹکتا رہتا ہے۔
اس کے برعکس غریب لوگوں کو اس قِسم کی پریشانی کا سامنا نہیں ہوتا۔ یہ بات درست ہے کہ اُن کی زندگی آسان نہیں ہوتی لیکن کمازکم وہ پیسوں کی خاطر اغوا تو نہیں ہوتے۔ یہ سادہ زندگی گزارنے کا ایک فائدہ ہے۔—۲-تیمتھیس ۲:۴۔
یہوواہ کی راہنمائی حاصل کریں
سلیمان کا کہنا ہے کہ یہوواہ کی راہ پر چلنے میں ہماری بہتری ہے: ”صادقوں کا چراغ روشن رہے گا لیکن شریروں کا دِیا بُجھایا جائے گا۔“—امثال ۱۳:۹۔
اس آیت میں چراغ سے مُراد وہ راہنمائی ہے جس پر ہم عمل کرتے ہیں۔ زبورنویس نے کہا کہ ’یہوواہ کا کلام ہمارے قدموں کے لئے چراغ اور ہماری راہ کے لئے روشنی ہے۔‘ (زبور ۱۱۹:۱۰۵) ہم اس سے بہترین راہنمائی حاصل کر سکتے ہیں کیونکہ یہ ہمارے خالق یہوواہ کی طرف سے ہے۔ اگر ہم اس راہنمائی سے مستفید ہونا چاہتے ہیں تو ہمیں خدا کے کلام کا لگاتار مطالعہ کرنا چاہئے۔ ایسا کرنے سے ہم بہت خوشی محسوس کریں گے! اس کے برعکس بائبل دُنیا کے دِیے یعنی دُنیا کی راہنمائی کو ”بیہودہ بکواس“ کہتی ہے جس پر عمل کرنے سے ہم کبھی خوشی حاصل نہیں کر سکتے۔—۱-تیمتھیس ۶:۲۰؛ ۱-کرنتھیوں ۱:۲۰؛ کلسیوں ۲:۸۔
ممکن ہے کہ شریر کامیاب اور خوشباش نظر آئیں لیکن ان کا دِیا جلد ہی بجھ جائے گا۔ پھر اندھیرے میں وہ راہنمائی کے بغیر ادھراُدھر بھٹکتے پھریں گے۔ امثال ۲۴:۲۰ میں کہا گیا ہے کہ ”بدکردار کے لئے کچھ اَجر نہیں۔“
کبھیکبھار ہمیں ایسے مسائل کا سامنا ہوتا ہے جن کے حل کی بابت ہمیں کچھ معلوم نہیں ہوتا۔ بعضاوقات شاید ہمیں کسی کام کے بارے میں ٹھیک طرح سے معلوم نہ ہو کہ آیا ہم یہ کر سکتے ہیں یا نہیں۔ ایسی صورتحال میں ہمیں امثال ۱۳:۱۰ کے الفاظ کو یاد رکھنا چاہئے جہاں لکھا ہے: ”تکبّر سے صرف جھگڑا پیدا ہوتا ہے۔“ اپنی حکمت پر بھروسا کرنے کی بجائے ہمیں امثال ۱۳:۱۰ کے دوسرے حصے پر غور کرنا چاہئے: ”مشورت پسند کے ساتھ حکمت ہے۔“ اس آیت سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ہمیں ایسی صورتحال میں دوسروں سے مشورہ لے کر فیصلہ کرنا چاہئے۔
غلط توقعات سے بچیں
روپےپیسے سے زندگی آسان ہوتی ہے۔ (واعظ ۷:۱۱، ۱۲) تاہم، سلیمان ہمیں آگاہی دیتا ہے کہ اگر ہم بددیانتی سے روپےپیسے کماتے ہیں تو ہمیں کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوگا۔ اُس نے یوں لکھا: ”جو دولت بطالت سے حاصل کی جائے کم ہو جائے گی لیکن محنت سے جمع کرنے والے کی دولت بڑھتی رہے گی۔“—امثال ۱۳:۱۱۔
آئیے ہم اُس شخص کی مثال پر غور کرتے ہیں جو جؤا کھیلتا ہے۔ وہ اپنی دولت ضائع کرکے اپنے خاندان کو نقصان پہنچاتا ہے! اگر وہ جوئے میں پیسے جیت بھی جائے تو وہ اکثر تمام پیسے عیش میں اُڑا دیتا ہے۔ وہ ایسا کیوں کرتا ہے؟ اسلئےکہ اُس نے یہ پیسہ محنت کرکے نہیں کمایا ہوتا لہٰذا وہ اس کی قدر بھی نہیں کرتا۔ اس سے بہتر یہ ہے کہ ہم محنت کرکے پیسے جمع کریں اور اُن کو اچھے مقصد کے لئے استعمال کریں۔
سلیمان مزید کہتا ہے: ”اُمید کے بَر آنے میں تاخیر دل کو بیمار کرتی ہے پر آرزو کا پورا ہونا زندگی کا درخت ہے۔“ (امثال ۱۳:۱۲) اگر ہم زندگی میں کسی چیز کی اُمید رکھتے ہیں اور وہ پوری نہیں ہوتی تو ہم افسردہ ہو جاتے ہیں یعنی ہمارا دل بیمار ہو جاتا ہے۔ اس کے برعکس خدا اپنے کلام میں جو وعدے کرتا ہے وہ ضرور پورے ہوں گے۔ شاید ہمیں یہ لگے کہ خدا اپنے وعدے پورے کرنے میں دیر کر رہا ہے۔ لیکن پھر بھی ہمیں ہمت نہیں ہارنی چاہئے۔
بائبل یہ ظاہر کرتی ہے کہ خدا کی نئی دُنیا نزدیک ہے۔ (۲-پطرس ۳:۱۳) ہم بڑی خوشی کے ساتھ اُس وقت کا انتظار کرتے ہیں۔ اگر ہم اس انتظار کی گھڑی کو آسان بنانا چاہتے ہیں تو ہمیں خدا کی خدمت میں مصروف رہنا، اپنے مسیحی بہنبھائیوں کی حوصلہافزائی کرنا اور یہوواہ کے ساتھ اپنے رشتے کو مضبوط بنانا چاہئے۔ (۱-کرنتھیوں ۱۵:۵۸؛ عبرانیوں ۱۰:۲۴، ۲۵؛ یعقوب ۴:۸) ایسا کرنے سے ہمارا وقت جلد گزرے گا۔ پھر جب نئی دُنیا آئے گی تو وہ ہمارے لئے زندگی کے درخت کی مانند تازگیبخش ہوگی۔
خدا کی تعلیم حیات کا چشمہ ہے
خدا کے تابع رہنے پر زور دیتے ہوئے امثال ۱۳:۱۳ بیان کرتی ہے: ”جو کلام کی تحقیر کرتا ہے اپنے آپ پر ہلاکت لاتا ہے پر جو فرمان سے ڈرتا ہے اَجر پائے گا۔“ اگر کوئی شخص اپنا قرض واپس نہیں کر پاتا تو وہ اپنی ضمانت پر رکھی ہوئی چیز کو کھو دیتا ہے۔ اسی طرح اگر ہم خدا کے احکام کو پورا کرنے کا وعدہ کرتے ہیں اور ایسا نہیں کر پاتے تو ہم بھی کچھ کھو دیں گے۔ ہم کونسی چیز کھو دیں گے؟
”دانشمند کی تعلیم حیات کا چشمہ ہے جو موت کے پھندوں سے چھٹکارے کا باعث ہو۔“ (امثال ۱۳:۱۴) اس آیت سے ظاہر ہوتا ہے کہ اگر ہم خدا کے کلام کے مطابق زندگی نہیں گزارتے تو ہم اُس کی راہنمائی سے محروم ہو جائیں گے اور پھر کبھی خوش نہیں ہو سکیں گے۔ اگر ہم دانشمندی سے چلنا چاہتے ہیں تو ہمیں خدا کے کلام کا مطالعہ کرنے اور اسے اپنی زندگیوں پر لاگو کرنا چاہئے۔—۲-کرنتھیوں ۱۰:۵؛ کلسیوں ۱:۱۰۔
[صفحہ ۲۳ پر تصویریں]
خدا اپنے کلام کے ذریعے ہماری تربیت کرتا ہے
[صفحہ ۲۴ پر تصویریں]
”صادق کا دل سوچ کر جواب دیتا ہے“
[صفحہ ۲۴ پر تصویریں]
”خداوند کے کام میں“ مصروف رہنے سے ہم خوش ہونگے