سترھواں باب
دُعا کے ذریعے خدا کے نزدیک جائیں
ہمیں خدا سے کیوں دُعا مانگنی چاہئے؟
ہمیں کیسے دُعا کرنی چاہئے تاکہ خدا ہماری سنے؟
خدا ہماری دُعاؤں کا جواب کیسے دیتا ہے؟
۱، ۲. ہمارے لئے یہ بہت بڑا شرف کیوں ہے کہ ہم خدا سے دُعا کر سکتے ہیں؟ دُعا کے بارے میں پاک صحائف کی تعلیم حاصل کرنا ہمارے لئے اتنا اہم کیوں ہے؟
اگر کائنات کے اَنگنت ستاروں اور سیاروں کو دیکھا جائے تو ان کے مقابلے میں زمین کیا چیز ہے۔ اور اگر زمین پر رہنے والی تمام قوموں کو دیکھا جائے تو یہ ’آسمان اور زمین کو بنانے‘ والے خالق کی نظروں میں ترازو کی باریک گرد کی مانند ہیں۔ (زبور ۱۱۵:۱۵؛ یسعیاہ ۴۰:۱۵) اس کے باوجود ہمارا خالق یہوواہ ”اُن سب کے قریب ہے جو اُس سے دُعا کرتے ہیں۔ یعنی اُن سب کے جو سچائی سے دُعا کرتے ہیں۔ جو اُس سے ڈرتے ہیں وہ اُن کی مُراد پوری کرے گا۔ وہ اُن کی فریاد سنے گا۔“ (زبور ۱۴۵:۱۸، ۱۹) اس کا مطلب ہے کہ کائنات کا خالق یہوواہ نہ صرف ہمارے قریب ہے بلکہ اگر ہم ”سچائی سے دُعا کرتے ہیں“ تو وہ ہماری سنتا بھی ہے۔ واقعی، یہ انسانوں کے لئے بہت بڑا شرف ہے کہ وہ خدا سے دُعا کر سکتے ہیں۔
۲ البتہ خدا صرف ایسی دُعاؤں کو سنتا ہے جو اُس کی مرضی کے مطابق کی جاتی ہیں۔ توپھر ہم کیسے جان سکتے ہیں کہ آیا ہماری دُعائیں اُسے قبول ہیں یا نہیں؟ ایسا کرنے کے لئے ہمیں یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ پاک صحائف میں دُعا کرنے کے بارے میں کیا تعلیم دی گئی ہے۔ یہ بہت اہم ہے کیونکہ ہم دُعا کے ذریعے خدا کے نزدیک جا سکتے ہیں۔
ہمیں یہوواہ خدا سے کیوں دُعا مانگنی چاہئے؟
۳. ہمیں خدا سے کیوں دُعا کرنی چاہئے؟
۳ خدا سے دُعا کرنے کی ایک وجہ یہ ہے کہ وہ چاہتا ہے کہ ہم ایسا کریں۔ اُس کے کلام میں لکھا ہے: ”کسی بات کی فکر نہ کرو بلکہ ہر ایک بات میں تمہاری درخواستیں دُعا اور مِنت کے وسیلہ سے شکرگذاری کے ساتھ خدا کے سامنے پیش کی جائیں۔ تو خدا کا اطمینان جو سمجھ سے بالکل باہر ہے تمہارے دلوں اور خیالوں کو مسیح یسوؔع میں محفوظ رکھے گا۔“ (فلپیوں ۴:۶، ۷) کائنات کے خالق نے ہمیں اُس تک رسائی کرنے کا شرف عطا کِیا ہے۔ اس کا ہمیں بھرپور فائدہ اُٹھانا چاہئے۔
۴. باقاعدگی سے دُعا کرنے سے یہوواہ خدا کے ساتھ ہماری دوستی زیادہ مضبوط کیوں ہو جاتی ہے؟
۴ باقاعدگی سے دُعا کرنے کی ایک اَور وجہ یہ ہے کہ یہوواہ خدا کے ساتھ ہماری دوستی اَور بھی مضبوط ہو جاتی ہے۔ دوست صرف ضرورت کے وقت ایک دوسرے سے بات نہیں کرتے۔ بلکہ وہ ایک دوسرے سے بات کرنے کا موقع ہاتھ سے نکلنے نہیں دیتے۔ جب وہ ایک دوسرے کو اپنے خیالات اور احساسات کے بارے میں بتاتے ہیں تو اُن کی دوستی زیادہ مضبوط ہو جاتی ہے۔ یہی بات یہوواہ خدا کے ساتھ ہماری دوستی پر بھی لاگو ہوتی ہے۔ اِس کتاب کا مطالعہ کرنے سے آپ یہوواہ خدا کے بارے میں بہت کچھ جان گئے ہیں، مثلاً یہ کہ وہ کن خوبیوں کا مالک ہے اور وہ مستقبل میں کیا کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ جب آپ دُعا کرتے ہیں تو آپ یہوواہ خدا کو اپنے دل کی باتیں بتاتے ہیں اور ایسا کرنے سے آپ اُس کے زیادہ نزدیک آ جاتے ہیں۔—یعقوب ۴:۸۔
دُعا کی شرطیں
۵. ہم کیسے جانتے ہیں کہ یہوواہ خدا ہر ایک کی دُعاؤں پر کان نہیں لگاتا ہے؟
۵ کیا یہوواہ خدا ہر ایک کی دُعاؤں کو سنتا ہے؟ جینہیں۔ یسعیاہ نبی کے زمانے میں جب بنیاسرائیل نے خدا کے خلاف بغاوت کی تو خدا نے اُن سے کہا: ”جب تُم اپنے ہاتھ پھیلاؤ گے تو مَیں تُم سے آنکھ پھیر لوں گا۔ ہاں جب تُم دُعا پر دُعا کرو گے تو مَیں نہ سنوں گا۔ تمہارے ہاتھ تو خون آلُودہ ہیں۔“ (یسعیاہ ۱:۱۵) اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اگر ہم ایسے کام کرتے ہیں جو خدا کو پسند نہیں تو وہ ہماری نہیں سنتا۔ پاک صحائف میں کچھ ایسی شرطیں بتائی گئی ہیں جن پر پورا اُترنے سے ہماری دُعائیں قبول ہوتی ہیں۔
۶. خدا کس شرط پر ہماری دُعا سنتا ہے اور اس شرط پر پورا اُترنے میں کیا کچھ شامل ہے؟
۶ سب سے پہلی شرط تو یہ ہے کہ ہمیں ایمان لانا ہوگا۔ (متی ۲۱:۲۲) پولس رسول نے لکھا کہ ”بغیر ایمان کے [خدا] کو پسند آنا ناممکن ہے۔ اس لئے کہ خدا کے پاس آنے والے کو ایمان لانا چاہئے کہ وہ موجود ہے اور اپنے طالبوں کو بدلہ دیتا ہے۔“ (عبرانیوں ۱۱:۶) لیکن ایمان لانے کا مطلب صرف یہ نہیں کہ ہم مانیں کہ خدا کا وجود ہے اور وہ ہماری دُعائیں سنتا ہے۔ دراصل ہمیں اپنے اعمال سے اپنے ایمان کا ثبوت بھی پیش کرنا ہوگا۔ جیہاں، ہمارے چالچلن سے ظاہر ہونا چاہئے کہ ہم خدا کو مانتے اور اُس کے حکموں پر عمل کرتے ہیں۔—یعقوب ۲:۲۶۔
۷. (ا) دُعا کرتے وقت ہمیں عاجزی سے کیوں کام لینا چاہئے؟ (ب) عاجزی اور سچے دل سے دُعا کرنے میں کیا کچھ شامل ہے؟
۷ دُعا قبول ہونے کی ایک اَور شرط یہ ہے کہ ہم عاجزی اور سچے دل سے دُعا کریں۔ اور واقعی یہوواہ خدا سے مخاطب ہوتے وقت ہمیں عاجزی سے کام لینا چاہئے۔ جب لوگ ایک بادشاہ یا حکمران سے بات کرتے ہیں تو وہ بڑی عاجزی سے ایسا کرتے ہیں کیونکہ وہ اُس کے عہدے کو مانتے ہیں۔ ایک بادشاہ کے برعکس یہوواہ ”قادرِمطلق“ ہے۔ (پیدایش ۳۵:۱۱) توپھر یہ کتنا موزوں ہے کہ ہم یہوواہ خدا سے بات کرتے وقت عاجزی ظاہر کریں۔ (زبور ۱۳۸:۶) ہماری دُعاؤں سے ظاہر ہونا چاہئے کہ ہم خود کو خدا کے خادم کے طور پر خیال کرتے ہیں۔ ہمیں اس بات کا بھی خیال رکھنا چاہئے کہ ہم دُعا کرتے وقت سوچےسمجھے بغیر ایک ہی بات کو بار بار نہ دُہرائیں۔—متی ۶:۷، ۸۔
۸. جب ہم خدا سے کسی بات کی درخواست کرتے ہیں تو ہمیں کیا کرنا چاہئے تاکہ ہماری سنی جائے؟
۸ جب ہم خدا سے کسی بات کی درخواست کرتے ہیں تو ہمیں اس کو حاصل کرنے کے لئے کچھ کرنا بھی چاہئے۔ اسی شرط پر خدا ہماری دُعاؤں کو قبول کرتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر ہم خدا سے دُعا کرتے ہیں کہ ”ہماری روز کی روٹی آج ہمیں دے“ تو اس روٹی کو حاصل کرنے کے لئے ہمیں نوکری تلاش کرنے کی پوری کوشش کرنی چاہئے اور محنتمزدوری کرنے کو تیار ہونا چاہئے۔ (متی ۶:۱۱؛ ۲-تھسلنیکیوں ۳:۱۰) یا پھر اگر ہم کسی بُری عادت میں پڑ گئے ہیں اور خدا سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ ہمیں اس کو چھوڑنے میں مدد دے تو ہمیں ہر ایسی بات سے کنارہ کرنا چاہئے جو اس عادت کو فروغ دیتی ہے۔ (کلسیوں ۳:۵) آئیں اب ہم دُعا کے سلسلے میں چند ایسے سوالوں پر غور کرتے ہیں جو لوگوں کے دلوں میں اُٹھتے ہیں۔
دُعا کے سلسلے میں معلومات
۹. ہمیں کس سے دُعا کرنی چاہئے اور کس کے وسیلے سے؟
۹ ہمیں کس سے دُعا کرنی چاہئے؟ یسوع مسیح نے شاگردوں کو اپنے ”باپ“ سے دُعا کرنے کو کہا ”جو آسمان پر ہے۔“ (متی ۶:۹) اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہمیں صرف یہوواہ خدا ہی سے دُعا کرنی چاہئے۔ یہوواہ خدا چاہتا ہے کہ ہم اُس کے بیٹے یسوع مسیح کے رُتبے کو تسلیم کرتے ہوئے دُعا مانگیں۔ جیسا کہ ہم نے پانچویں باب میں سیکھا تھا یسوع نے اپنی جان قربان کر دی تاکہ ہم گُناہ اور موت سے چھٹکارا حاصل کر سکیں۔ (یوحنا ۳:۱۶؛ رومیوں ۵:۱۲) خدا نے عدالت کا کام یسوع مسیح کو سونپا ہے اور اُسے ہمارے سردارکاہن کے طور پر مقرر بھی کِیا ہے۔ (یوحنا ۵:۲۲؛ عبرانیوں ۶:۲۰) اس وجہ سے پاک صحائف میں ہمیں یسوع مسیح کے وسیلے سے ہی خدا سے دُعا کرنے کو کہا گیا ہے۔ یسوع مسیح نے کہا تھا کہ ”راہ اور حق اور زندگی مَیں ہوں۔ کوئی میرے وسیلہ کے بغیر باپ کے پاس نہیں آتا۔“ (یوحنا ۱۴:۶) اگر ہم چاہتے ہیں کہ خدا ہماری سنے تو ہمیں اپنی دُعاؤں میں یہوواہ خدا سے مخاطب ہونا چاہئے اور اپنی دُعائیں یسوع مسیح کے نام کے وسیلے سے پیش کرنی چاہئیں۔
۱۰. ہمیں دُعا کرتے وقت کوئی خاص انداز اپنانے کی ضرورت کیوں نہیں ہے؟
۱۰ کیا ہمیں ایک خاص انداز میں دُعا کرنی چاہئے؟ جینہیں۔ پاک صحائف میں بتایا گیا ہے کہ ہم بہت سے مختلف انداز میں دُعا کر سکتے ہیں، مثلاً سجدے میں، بیٹھ کر، گھٹنے ٹیک کر یا کھڑے ہو کر۔ (۱-تواریخ ۱۷:۱۶؛ نحمیاہ ۸:۶؛ دانیایل ۶:۱۰؛ مرقس ۱۱:۲۵) دُعا کرتے وقت کوئی خاص انداز اپنانے کی بجائے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ ہم سچے دل سے دُعا کریں۔ یہاں تک کہ ہم کامکاج کرتے وقت یا پھر کسی آزمائش کا سامنا کرتے وقت دل ہی دل میں دُعا کر سکتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ دوسرے لوگوں کو اس بات کا علم نہ ہو کہ آپ دُعا کر رہے ہیں لیکن یقین رکھیں کہ یہوواہ خدا ایسی دُعاؤں پر ضرور کان لگاتا ہے۔—نحمیاہ ۲:۱-۶۔
۱۱. چند ایسی باتوں کا ذکر کریں جن کے بارے میں دُعا کرنا مناسب ہے۔
۱۱ کن باتوں کے لئے دُعا کرنا مناسب ہے؟ پاک صحائف میں لکھا ہے کہ ”اگر [ہم] اُس کی مرضی کے موافق کچھ مانگتے ہیں تو وہ ہماری سنتا ہے۔“ (۱-یوحنا ۵:۱۴) اس کا مطلب ہے کہ ہم ہر ایسی بات کے بارے میں دُعا کر سکتے ہیں جو یہوواہ خدا کی مرضی کے مطابق ہو۔ اور یہوواہ خدا کی مرضی یہ ہے کہ ہم اپنی دُعاؤں میں اپنی فکر اور اپنے ذاتی معاملات کا ذکر کریں۔ یہوواہ خدا سے دُعا کرنا اپنے کسی بہت اچھے دوست سے بات کرنے کی مانند ہے۔ دُعا میں ہم ”اپنے دل کا حال اُس کے سامنے کھول“ سکتے ہیں۔ (زبور ۶۲:۸) ہم خدا سے اُس کی روحُالقدس یا پاک روح کی درخواست کر سکتے ہیں کیونکہ اِس کی مدد سے ہم اچھے کام کرنے کے قابل ہوتے ہیں۔ (لوقا ۱۱:۱۳) کسی معاملے کے بارے میں فیصلہ کرتے وقت ہم خدا سے حکمت کی درخواست کر سکتے ہیں تاکہ ہم اچھے فیصلے کر پائیں۔ (یعقوب ۱:۵) آزمائشوں اور مشکلات کا سامنا کرتے وقت ہم دُعا کر سکتے ہیں کہ خدا ہمیں ان سے نپٹنے کی قوت عطا فرمائے۔ اگر ہم سے گُناہ ہو جائے تو ہمیں یسوع مسیح کی جان کی قربانی کی بِنا پر معافی کی درخواست کرنی چاہئے۔ (افسیوں ۱:۳، ۷) لیکن ہمیں دُعا میں صرف اپنے ذاتی معاملات کا ہی ذکر نہیں کرنا چاہئے بلکہ ہمیں اپنے خاندان اور مسیحی بہنبھائیوں کے لئے بھی دُعا کرنی چاہئے۔—اعمال ۱۲:۵؛ کلسیوں ۴:۱۲۔
۱۲. دُعا کرتے وقت ہم ایسی باتوں کو زیادہ اہمیت کیسے دے سکتے ہیں جن کا تعلق یہوواہ خدا سے ہے؟
۱۲ دُعا کرتے وقت ہمیں ایسی باتوں کو زیادہ اہمیت دینی چاہئے جن کا تعلق یہوواہ خدا سے ہے۔ مثال کے طور پر ہمیں خدا کی بڑائی کرنی چاہئے اور اُن تمام نعمتوں کے لئے یہوواہ خدا کا شکر ادا کرنا چاہئے جو اُس نے ہمیں عطا کی ہیں۔ (۱-تواریخ ۲۹:۱۰-۱۳) یسوع مسیح نے اپنے شاگردوں کو دُعا کرنے کا ایک نمونہ دیا تھا جو متی ۶:۹-۱۳ میں درج ہے۔ اس دُعا میں یسوع نے سب سے پہلے یہ درخواست کی کہ خدا کا نام پاک مانا جائے، اُس کی بادشاہی آئے اور اُس کی مرضی جیسے آسمان پر پوری ہو رہی ہے زمین پر بھی پوری ہو۔ یہوواہ خدا سے تعلق رکھنے والی ان باتوں کے بارے میں دُعا کرنے کے بعد ہی یسوع نے چند ذاتی معاملات کے بارے میں دُعا کی۔ اس نمونے کو مدِنظر رکھتے ہوئے اگر ہم بھی دُعا میں یہوواہ خدا کو پہلا درجہ دیں گے تو اس سے ظاہر ہوگا کہ ہم صرف اپنے فائدے کا نہیں سوچتے ہیں۔
۱۳. پاک صحائف کے مطابق ہماری دُعاؤں کو کتنا لمبا ہونا چاہئے؟
۱۳ ہماری دُعائیں کتنی لمبی ہونی چاہئیں؟ پاک صحائف میں یہ نہیں بتایا گیا کہ دُعاؤں کو کتنا لمبا ہونا چاہئے۔ کئی دُعائیں مختصر ہوتی ہیں، مثلاً جب ہم کھانا کھانے سے پہلے خدا کا شکر ادا کرتے ہیں۔ مگر جب ہم یہوواہ خدا کے آگے اپنا دل اُنڈیلتے ہیں تو ہو سکتا ہے کہ ہم دیر تک دُعا کرتے رہیں۔ (لوقا ۶:۱۲) ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ یسوع مسیح نے اُن لوگوں کو سخت ملامت کی تھی جو دکھاوے کے لئے دوسروں کے سامنے لمبی چوڑی دُعائیں کرتے تھے۔ (لوقا ۲۰:۴۶، ۴۷) یہوواہ خدا ایسی دُعاؤں سے ہرگز خوش نہیں ہے۔ مختلف حالات کے مطابق ہماری دُعائیں یا تو مختصر یا پھر لمبی ہو سکتی ہیں۔ لیکن سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہم سچے دل اور صاف نیت سے دُعا کریں۔
۱۴. پاک صحائف کی اس ہدایت کا کیا مطلب ہے کہ ’ہر وقت دُعا کرتے رہو‘؟ یہ ہمارے لئے خوشی کا باعث کیوں ہے؟
۱۴ ہمیں دن میں کتنی بار دُعا کرنی چاہئے؟ پاک صحائف میں ہمیں یہ ہدایت دی جاتی ہے کہ ’ہر وقت دُعا کرتے رہو،‘ ”دُعا کرنے میں مشغول رہو“ اور ”بِلاناغہ دُعا کرو۔“ (لوقا ۱۸:۱؛ رومیوں ۱۲:۱۲؛ ۱-تھسلنیکیوں ۵:۱۷) اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہمیں دن رات دُعا کرتے رہنا چاہئے بلکہ ان صحیفوں میں ہمیں باقاعدگی سے دُعا کرنے کو کہا جا رہا ہے۔ ہمیں باقاعدگی سے اُن تمام نعمتوں کے لئے خدا کا شکر ادا کرنا چاہئے جو وہ ہمیں عطا کرتا ہے اور ہمیں اُس سے راہنمائی، تسلی اور قوت کی بھی فریاد کرنی چاہئے۔ کیا آپ یہ جان کر خوش نہیں کہ ہم جب بھی چاہیں اور جتنی دیر تک چاہیں یہوواہ خدا سے دُعا کر سکتے ہیں؟ اگر ہم اس شرف کے لئے واقعی شکرگزار ہیں تو ہم یہوواہ خدا سے اکثر دُعا کریں گے۔
۱۵. ہمیں دُعا کرنے کے بعد ”آمین“ کیوں کہنا چاہئے؟
۱۵ ہمیں دُعا کرنے کے بعد ”آمین“ کیوں کہنا چاہئے؟ لفظ ”آمین“ کا مطلب ہے کہ ”ایسا ہی ہو۔“ پاک صحائف میں بہت سے ایسے واقعات کا ذکر ہے جب خدا کے بندوں نے دُعا کرنے کے بعد ”آمین“ کہا تھا۔ (۱-تواریخ ۱۶:۳۶؛ زبور ۴۱:۱۳) اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ چاہے ہم اکیلے میں دُعا کر رہے ہوں یا پھر دوسروں کے ساتھ، ہمیں دُعا کے آخر میں آمین کہنا چاہئے۔ جب ہم اکیلے میں دُعا کرنے کے بعد آمین کہتے ہیں تو ہم ظاہر کرتے ہیں کہ ہم نے سچے دل سے دُعا مانگی ہے۔ اور جب کوئی اَور دُعا کرتا ہے تو ہم یا تو دل میں یا پھر اُونچی آواز میں آمین کہنے سے ظاہر کرتے ہیں کہ ہم اُس کی دُعا سے متفق ہیں۔—۱-کرنتھیوں ۱۴:۱۶۔
خدا ہماری دُعاؤں کا جواب کیسے دیتا ہے؟
۱۶. دُعا کے بارے میں ہمیں کس بات کا یقین ہے؟
۱۶ کیا یہوواہ خدا واقعی ہماری دُعاؤں کا جواب دیتا ہے؟ جیہاں۔ پاک صحائف میں یہوواہ خدا کو ’دُعا کا سننے والا‘ کہا گیا ہے۔ (زبور ۶۵:۲) ہمیں یقین ہے کہ وہ ایسے لاکھوں لوگوں کی سنتا ہے جو صاف دل سے اُس سے دُعا کرتے ہیں۔ البتہ یہوواہ خدا ہماری دُعاؤں کا جواب مختلف طریقوں سے دیتا ہے۔
۱۷. ہم کیسے جانتے ہیں کہ یہوواہ خدا اپنے فرشتوں اور انسانی خادموں کے ذریعے ہماری دُعاؤں کا جواب دیتا ہے؟
۱۷ یہوواہ خدا ہماری دُعاؤں کا جواب فرشتوں یا پھر اپنے انسانی خادموں کے ذریعے دیتا ہے۔ (عبرانیوں ۱:۱۳، ۱۴) اکثر ایسا واقع ہوا ہے کہ جب ایک شخص نے خدا سے فریاد کی کہ اُسے پاک صحائف کو سمجھنے میں مدد دی جائے تو اس کے تھوڑے ہی عرصے بعد یہوواہ کے خادموں نے اِس شخص سے رابطہ کِیا ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ خدا کی بادشاہت کی خوشخبری سنانے میں فرشتے ہماری راہنمائی کر رہے ہیں۔ (مکاشفہ ۱۴:۶) اور جب ہم کسی کڑی مصیبت میں خدا سے مدد کی التجا کرتے ہیں تو وہ اکثر ہمارے مسیحی بہنبھائیوں کے ذریعے ہماری مدد کرتا ہے۔—امثال ۱۲:۲۵؛ یعقوب ۲:۱۶۔
۱۸. یہوواہ خدا اپنی پاک روح اور اپنے کلام کے ذریعے ہماری دُعاؤں کا جواب کیسے دیتا ہے؟
۱۸ یہوواہ خدا اپنی پاک روح اور اپنے کلام کے ذریعے بھی ہماری دُعاؤں کا جواب دیتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر ہم کسی آزمائش میں پڑ کر اُس سے فریاد کرتے ہیں تو وہ اپنی پاک روح کے ذریعے ہمیں اس آزمائش سے نپٹنے کے لئے راہنمائی اور قوت فراہم کرتا ہے۔ (۲-کرنتھیوں ۴:۷) جب ہم خدا سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ کسی معاملے میں ہماری راہنمائی کرے تو اکثر وہ پاک صحائف کے ذریعے ایسا کرتا ہے۔ مثال کے طور پر ہو سکتا ہے کہ ہمیں بائبل یا مسیحی کتابوں اور رسالوں پر غور کرتے وقت کوئی ایسی بات مل جائے جس کے ذریعے ہم راہنمائی پائیں۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ مسیحی اجلاسوں پر کوئی ایسی بات کا ذکر ہو جس سے ہم فائدہ حاصل کر سکیں یا پھر کلیسیا کا ایک بزرگ پاک صحائف میں سے ہماری راہنمائی کرے۔—گلتیوں ۶:۱۔
۱۹. جب ہمیں لگتا ہے کہ خدا ہماری دُعاؤں کا جواب نہیں دے رہا ہے تو ہمیں کیا یاد رکھنا چاہئے؟
۱۹ کبھیکبھار ہمیں ایسا لگتا ہے کہ خدا ہماری نہیں سنتا کیونکہ ہمیں اپنی دُعاؤں کا جواب فوراً نہیں ملتا۔ یاد رکھیں کہ یہوواہ ہماری ہر فریاد پوری کر سکتا ہے۔ لیکن وہ ایسا اپنی مرضی کے مطابق کرتا ہے اور اُس وقت کرتا ہے جب وہ مناسب سمجھتا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ ہماری ضروریات کیا ہیں اور ان کو کیسے پورا کِیا جا سکتا ہے۔ ہماری درخواستیں پوری کرنے سے پہلے کبھیکبھار وہ ہمیں کچھ دیر تک ’مانگنے، ڈھونڈنے اور دروازہ کھٹکھٹانے‘ دیتا ہے۔ (لوقا ۱۱:۵-۱۰) ایسی صورتحال میں جب ہم صبر سے کام لیتے ہوئے دُعا مانگتے رہیں گے تو ہم ثابت کریں گے کہ ہماری درخواست ہمارے لئے بہت ہی اہمیت رکھتی ہے۔ ہم اس بات پر بھی اپنا یقین ظاہر کریں گے کہ خدا آخرکار ہماری ضرور سنے گا۔ اس کے علاوہ ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ یہوواہ خدا ہماری دُعاؤں کا جواب ہمیشہ ہماری مرضی کے مطابق نہیں دیتا۔ مثال کے طور پر جب ہم اُس سے فریاد کرتے ہیں کہ وہ ہمیں کسی مصیبت سے نجات دلائے تو ہو سکتا ہے کہ وہ اس مصیبت کو دُور کرنے کی بجائے ہمیں اسے برداشت کرنے کی قوت دے۔—فلپیوں ۴:۱۳۔
۲۰. ہمیں باقاعدگی سے دُعا کیوں کرنی چاہئے؟
۲۰ ہم اس بات کیلئے بہت ہی شکرگزار ہیں کہ کائنات کا خالق یہوواہ اُن سب کے قریب ہے جو سچے دل سے اور اُس کی مرضی کے مطابق دُعا کرتے ہیں۔ (زبور ۱۴۵:۱۸) خدا نے ہمیں دُعا میں اُس تک رسائی حاصل کرنے کا شرف عطا کِیا ہے۔ لہٰذا آئیں ہم باقاعدگی سے یہوواہ خدا سے دُعا کریں۔ اگر ہم ایسا کریں گے تو ہم یہوواہ خدا کے زیادہ قریب آ جائیں گے کیونکہ وہ ہماری سنتا ہے۔
پاک صحائف کی تعلیم یہ ہے
▪ جب ہم باقاعدگی سے دُعا کرتے ہیں تو ہم یہوواہ خدا کے زیادہ نزدیک ہو جاتے ہیں۔—یعقوب ۴:۸۔
▪ خدا اُن لوگوں کی سنتا ہے جو ایمان لاتے ہیں اور عاجزی اور سچے دل سے دُعا کرتے ہیں۔—متی ۲۱:۲۲۔
▪ ہمیں صرف یہوواہ خدا ہی سے دُعا کرنی چاہئے اور اپنی دُعا یسوع مسیح کے نام کے وسیلے سے پیش کرنی چاہئے۔—متی ۶:۹؛ یوحنا ۱۴:۶۔
▪ یہوواہ ’دُعا کو سننے والا‘ کہلاتا ہے۔ وہ اپنے فرشتوں، اپنے انسانی خادموں، اپنے کلام اور اپنی پاک روح کے ذریعے ہماری دُعاؤں کا جواب دیتا ہے۔—زبور ۶۵:۲۔
[صفحہ ۱۶۵ پر تصویر کی عبارت]
’آسمان اور زمین کو بنانے‘ والا خالق، یہوواہ خدا ہماری دُعاؤں کو سنتا ہے
[صفحہ ۱۷۱ پر تصویر کی عبارت]
چاہے آپ کسی بھی موقعے پر دُعا کریں، خدا آپ کی ضرور سنے گا
[صفحہ ۱۷۳، ۱۷۲ پر تصویریں]
ہماری فریاد سن کر یہوواہ خدا ہمارے مسیحی بہنبھائیوں کے ذریعے ہماری مدد کر سکتا ہے