’دیکھو مَیں ہمیشہ تمہارے ساتھ ہوں‘
”دیکھو مَیں دُنیا کے آخر تک ہمیشہ تمہارے ساتھ ہوں۔“ —متی ۲۸:۲۰۔
۱. (الف) گیہوں اور کڑوے دانوں کی تمثیل اپنے لفظوں میں بتائیں۔ (ب) یسوع مسیح نے اِس تمثیل کی کیا وضاحت کی؟
یسوع مسیح نے بادشاہت کے بارے میں بہت سی تمثیلیں دیں۔ اِن میں سے ایک تمثیل میں اُنہوں نے بتایا کہ ایک کسان نے اپنے کھیت میں گیہوں بویا مگر ایک دُشمن نے آکر گیہوں میں کڑوے دانے بو دئے۔ کڑوے دانوں کی تعداد گیہوں سے بہت زیادہ ہو گئی۔ لیکن کسان نے اپنے نوکروں سے کہا کہ ”کٹائی تک دونوں کو اِکٹھا بڑھنے دو۔“ کٹائی کے دوران گیہوں کو کھتے میں جمع کر لیا جاتا ہے اور کڑوے دانوں کو جلا دیا جاتا ہے۔ یسوع مسیح نے اِس تمثیل کی وضاحت خود کی۔ (متی ۱۳:۲۴-۳۰، ۳۷-۴۳ کو پڑھیں۔) اِس تمثیل سے کیا ظاہر ہوتا ہے؟ (چارٹ ”گیہوں اور کڑوے دانے“ کو دیکھیں۔)
۲. (الف) گیہوں اور کڑوے دانوں کی تمثیل سے کیا ظاہر ہوتا ہے؟ (ب) اِس مضمون میں ہم تمثیل کے کس پہلو پر بات کریں گے؟
۲ گیہوں ممسوح مسیحیوں کی طرف اشارہ کرتے ہیں جو یسوع مسیح کے ساتھ حکمرانی کریں گے۔ اِس تمثیل سے ظاہر ہوتا ہے کہ یسوع مسیح تمام انسانوں میں سے ممسوح مسیحیوں کو کب اور کیسے جمع کریں گے۔ گیہوں بونے کا کام ۳۳ء میں عیدِپنتِکُست پر شروع ہوا۔ اور گیہوں جمع کرنے کا کام تب مکمل ہوگا جب زمین پر موجود تمام ممسوح مسیحیوں پر حتمی مہر ہو جائے گی اور وہ آسمان پر اُٹھا لئے جائیں گے۔ یہ بڑی مصیبت کے دوران ہوگا۔ (متی ۲۴:۳۱؛ مکا ۷:۱-۴) جس طرح پہاڑ کی چوٹی پر کھڑا ایک شخص اپنے اِردگِرد کے علاقے کو اچھی طرح دیکھ سکتا ہے اُسی طرح اِس تمثیل کے ذریعے ہم ۲۰۰۰ سال کے دوران ہونے والے واقعات کا جائزہ لے سکتے ہیں۔ ہم بادشاہت سے تعلق رکھنے والے واقعات کے بارے میں کیا دیکھتے ہیں؟ اِس تمثیل میں بیج بونے، پودوں کے بڑھنے اور فصل کی کٹائی کا ذکر کِیا گیا ہے۔ اِس مضمون میں ہم خاص طور پر فصل کی کٹائی کے بارے میں بات کریں گے۔a
یسوع مسیح نے ممسوح مسیحیوں کو مٹنے نہیں دیا
۳. (الف) پہلی صدی عیسوی کے بعد کیا ہوا؟ (ب) متی ۱۳:۲۸ کے مطابق مالک سے کونسا سوال پوچھا گیا؟ اور یہ سوال کس نے پوچھا؟ (فٹنوٹ کو دیکھیں۔)
۳ دوسری صدی عیسوی کے شروع میں ”کڑوے دانے“ یعنی جھوٹے مسیحی دِکھائی دینے لگے۔ (متی ۱۳:۲۶) چوتھی صدی تک جھوٹے مسیحیوں کی تعداد ممسوح مسیحیوں کے مقابلے میں بہت زیادہ ہو گئی تھی۔ تمثیل میں بتایا گیا ہے کہ نوکروں نے مالک سے کڑوے دانوں کو اُکھاڑنے کی اجازت مانگی۔b (متی ۱۳:۲۸) مالک نے کیا جواب دیا؟
۴. (الف) مالک یعنی یسوع مسیح نے نوکروں کو جو جواب دیا، اُس سے کیا پتہ چلتا ہے؟ (ب) ممسوح مسیحی کب دِکھائی دینے لگے؟
۴ گیہوں اور کڑوے دانوں کے بارے میں یسوع مسیح نے کہا: ”کٹائی تک دونوں کو اِکٹھا بڑھنے دو۔“ یسوع مسیح کی اِس بات سے پتہ چلتا ہے کہ پہلی صدی سے آج تک ہر زمانے میں ممسوح مسیحی موجود تھے۔ اِس بات کی تصدیق یسوع مسیح کے اِن الفاظ سے ہوتی ہے: ”مَیں دُنیا کے آخر تک ہمیشہ تمہارے ساتھ ہوں۔“ (متی ۲۸:۲۰) اِس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یسوع مسیح نے آخری زمانے تک ممسوح مسیحیوں کی حفاظت کی۔ چونکہ جھوٹے مسیحیوں کی تعداد ممسوح مسیحیوں سے بہت زیادہ رہی اِس لئے اِس لمبے عرصے کے دوران ممسوح مسیحیوں کو پہچاننا مشکل تھا۔ لیکن کٹائی شروع ہونے سے کچھ عرصہ پہلے گیہوں یعنی ممسوح مسیحی دِکھائی دینے لگے۔ ایسا کیسے ہوا؟
راہ تیار کرنے کا کام
۵. ملاکی نبی کی پیشگوئی پہلی صدی میں کیسے پوری ہوئی؟
۵ یسوع مسیح کے گیہوں اور کڑوے دانوں کی تمثیل دینے سے سینکڑوں سال پہلے ملاکی نبی نے ایک پیشگوئی کی جس کا تعلق اِس تمثیل سے ہے۔ (ملاکی ۳:۱-۴ کو پڑھیں۔) یوحنا بپتسمہ دینے والے وہ رسول تھے جنہوں نے ’راہ کو درست کِیا‘ یعنی راہ کو تیار کِیا۔ (متی ۱۱:۱۰، ۱۱) سن ۲۹ء میں جب اُنہوں نے مُنادی کا کام شروع کِیا تو بنیاسرائیل کا انصاف کرنے کا وقت قریب آ گیا تھا۔ ’عہد کے رسول‘ یسوع مسیح ہیں۔ اُنہوں نے ہیکل کو دو مرتبہ پاک صاف کِیا۔ ایک مرتبہ اپنی خدمت کے شروع میں اور دوسری مرتبہ اپنی موت سے تھوڑا پہلے۔ (متی ۲۱:۱۲، ۱۳؛ یوح ۲:۱۴-۱۷) لہٰذا ہیکل کو پاک صاف کرنے کا کام ایک ہی واقعے میں مکمل نہیں ہوا تھا بلکہ اِس میں ایک عرصہ لگا۔
۶. (الف) ملاکی نبی کی پیشگوئی جدید زمانے میں کیسے پوری ہوئی؟ (ب) یسوع مسیح نے کس عرصے کے دوران روحانی ہیکل کی جانچ کی؟ (فٹنوٹ کو دیکھیں۔)
۶ ملاکی نبی کی پیشگوئی جدید زمانے میں کیسے پوری ہوئی؟ سن ۱۹۱۴ء سے تقریباً ۳۰ سال پہلے بھائی چارلس رسل اور اُن کے ساتھیوں نے ایسا کام شروع کِیا جو یوحنا بپتسمہ دینے والے کے کام سے مشابہت رکھتا تھا۔ وہ بائبل کی اُن سچائیوں کو سامنے لائے جو جھوٹی تعلیمات کی وجہ سے دب گئی تھیں۔ بائبل سٹوڈنٹس نے یسوع مسیح کے فدیے پر روشنی ڈالی، دوزخ کے عقیدے کو جھوٹا ثابت کِیا اور یہ اعلان کِیا کہ غیرقوموں کی میعاد ختم ہونے والی ہے۔ لیکن اُس وقت بہت سے ایسے فرقے تھے جو مسیح کے پیروکار ہونے کا دعویٰ کر رہے تھے۔ اب سوال یہ تھا کہ اِن سب میں سے گیہوں یعنی ممسوح مسیحی کون ہیں؟ لہٰذا یسوع مسیح نے ۱۹۱۴ء میں روحانی ہیکل کی جانچ کرنا شروع کی۔ جانچ کرنے اور پاک صاف کرنے کا یہ کام ایک عرصے تک جاری رہا یعنی ۱۹۱۴ء سے ۱۹۱۹ء کے شروع تک۔c
روحانی ہیکل کی جانچ اور صفائی
۷. جب یسوع مسیح نے ۱۹۱۴ء میں روحانی ہیکل کی جانچ کرنا شروع کی تو اُنہوں نے کیا دیکھا؟
۷ جب یسوع مسیح نے روحانی ہیکل کی جانچ کرنا شروع کی تو اُنہوں نے کیا دیکھا؟ اُنہوں نے دیکھا کہ بائبل سٹوڈنٹس ۳۰ سال سے مُنادی کا کام کر رہے ہیں اور اپنا تن من دَھن اِس کام میں لگا رہے ہیں۔d یسوع مسیح اور فرشتوں کو یہ دیکھ کر بڑی خوشی ہوئی ہوگی کہ گیہوں جیسے مسیحی، شیطان کے کڑوے دانوں کے نیچے دب نہیں گئے۔ پھر بھی ’بنیلاوی [یعنی ممسوح مسیحیوں] کو پاک صاف‘ کرنے کی ضرورت تھی۔ (ملا ۳:۲، ۳؛ ۱-پطر ۴:۱۷) لیکن کیوں؟
۸. سن ۱۹۱۴ء کے بعد کیا ہوا؟
۸ سن ۱۹۱۴ء کے آخر میں کچھ بائبل سٹوڈنٹس بےحوصلہ ہو گئے کیونکہ اُنہیں آسمان پر نہیں اُٹھایا گیا تھا۔ سن ۱۹۱۵ء اور ۱۹۱۶ء کے دوران مُنادی کا کام سُست پڑ گیا کیونکہ تنظیم کے باہر سے مخالفت ہوئی۔ اکتوبر ۱۹۱۶ء میں بھائی رسل کی وفات کے بعد صورتحال زیادہ بگڑ گئی کیونکہ تنظیم کے اندر سے بھی مخالفت ہونے لگی۔ واچٹاور بائبل اینڈ ٹریکٹ سوسائٹی کے سات ڈائریکٹروں میں سے چار نے بھائی رتھرفورڈ کو صدر بنانے کے فیصلے پر اعتراض کِیا۔ اُنہوں نے بھائیوں میں تفرقہ ڈالنے کی کوشش کی۔ لیکن اگست ۱۹۱۷ء میں وہ بیتایل چھوڑ کر چلے گئے۔ اِس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یسوع مسیح اپنی تنظیم کو پاک صاف کر رہے تھے۔ کچھ بائبل سٹوڈنٹس نے انسان کے ڈر کی وجہ سے خدا کی خدمت کرنا چھوڑ دی۔ لیکن زیادہتر بائبل سٹوڈنٹس نے پاک صاف کرنے کے کام کے لئے صحیح ردِعمل دِکھایا اور اپنے اندر تبدیلیاں کیں۔ لہٰذا یسوع مسیح نے اُنہیں گیہوں قرار دیا۔ لیکن اُنہوں نے برگشتہ مسیحیوں کو اور تمام جھوٹے مسیحی فرقوں کے رُکنوں کو رد کر دیا۔ (ملا ۳:۵؛ ۲-تیم ۲:۱۹) اِس کے بعد کیا ہوا؟ یہ جاننے کے لئے آئیں، گیہوں اور کڑوے دانوں کی تمثیل پر دوبارہ غور کریں۔
کٹائی کے دوران ہونے والے واقعات
۹، ۱۰. (الف) کٹائی کے سلسلے میں ہم کس بات پر غور کریں گے؟ (ب) کٹائی کے دوران سب سے پہلے کیا ہوا؟
۹ یسوع مسیح نے کہا: ”کٹائی دُنیا کا آخر ہے۔“ (متی ۱۳:۳۹) کٹائی کا یہ عرصہ ۱۹۱۴ء میں شروع ہوا۔ آئیں، پانچ ایسے واقعات پر غور کریں جو یسوع مسیح کے مطابق کٹائی کے دوران ہوں گے۔
۱۰ پہلا واقعہ یہ تھا کہ کڑوے دانوں کو جمع کرنے کا کام شروع ہوا۔ یسوع مسیح نے کہا: ”کٹائی کے وقت مَیں کاٹنے والوں سے کہہ دوں گا کہ پہلے کڑوے دانے جمع کر لو اور جلانے کے لئے اُن کے گٹھے باندھ لو۔“ سن ۱۹۱۴ء کے بعد فرشتوں نے جھوٹے مسیحیوں کو ’بادشاہی کے فرزندوں‘ یعنی ممسوح مسیحیوں سے الگ کرنا شروع کر دیا اور یوں اُنہیں ”جمع“ کِیا۔—متی ۱۳:۳۰، ۳۸، ۴۱۔
۱۱. آج تک سچے مسیحیوں اور جھوٹے مسیحیوں میں سب سے بڑا فرق کیا رہا ہے؟
۱۱ جیسےجیسے کڑوے دانے جمع ہوتے گئے، گیہوں اور کڑوے دانوں میں فرق واضح ہوتا گیا۔ (مکا ۱۸:۱، ۴) سن ۱۹۱۹ء تک یہ ظاہر ہو گیا کہ بڑا شہر بابل گِر پڑا ہے۔ لیکن سچے مسیحیوں اور جھوٹے مسیحیوں میں سب سے بڑا فرق کیا تھا؟ بادشاہت کی مُنادی کا کام۔ بائبل سٹوڈنٹس کی پیشوائی کرنے والے بھائی اِس بات پر زور دینے لگے کہ ہر ممسوح مسیحی کو بادشاہت کی مُنادی کے کام میں حصہ لینا چاہئے۔ اِس سلسلے میں اُنہوں نے ۱۹۱۹ء میں ایک کتاب شائع کی جس کا عنوان تھا بادشاہت کی مُنادی کرنے کا اعزاز کسے بخشا گیا ہے؟ (یہ کتاب انگریزی میں شائع ہوئی ہے۔) اِس کتاب میں تمام ممسوح مسیحیوں کی حوصلہافزائی کی گئی کہ وہ گھرگھر جا کر بادشاہت کی خوشخبری سنائیں۔ اِس میں لکھا تھا: ”کام تو بہت بڑا ہے مگر یہ خداوند کا کام ہے۔ اور ہم اُسی کی مدد اور طاقت کے ذریعے اِسے انجام دیں گے۔ خداوند نے آپ کو یہ کام کرنے کا اعزاز بخشا ہے۔“ اِس حوصلہافزائی کا بہنبھائیوں پر کیا اثر ہوا؟ سن ۱۹۲۲ءمیں مینارِنگہبانی کے ایک شمارے میں بتایا گیا کہ بائبل سٹوڈنٹس نے ۱۹۱۹ء سے مُنادی کے کام کو بڑھا دیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے گھرگھر مُنادی کرنے کا کام اُن کی پہچان بن گیا اور یہ آج تک اُن کی پہچان ہے۔
۱۲. ممسوح مسیحیوں کو کب سے جمع کِیا جا رہا ہے؟
۱۲ دوسرا واقعہ یہ تھا کہ گیہوں کو جمع کرنے کا کام شروع ہوا۔ یسوع مسیح نے فرشتوں کو حکم دیا کہ ”گیہوں میرے کھتے میں جمع کر دو۔“ (متی ۱۳:۳۰) سن ۱۹۱۹ء سے ممسوح مسیحیوں کو پاک صاف کلیسیا میں جمع کِیا جا رہا ہے۔ بڑی مصیبت کے دوران زمین پر موجود تمام ممسوح مسیحیوں کو ایک اَور لحاظ سے بھی جمع کِیا جائے گا۔ اُنہیں آسمان پر اُٹھا لیا جائے گا۔—دان ۷:۱۸، ۲۲، ۲۷۔
۱۳. مکاشفہ ۱۸:۷ سے جھوٹے مسیحی فرقوں اور دیگر جھوٹے مذاہب کے رویے کے بارے میں کیا ظاہر ہوتا ہے؟
۱۳ تیسرا واقعہ یہ ہے کہ جھوٹے مسیحی روئیں گے اور دانت پیسیں گے۔ جب فرشتے کڑوے دانوں کے گٹھے باندھیں گے تو اُس کے بعد کیا ہوگا؟ یسوع مسیح نے کہا کہ وہ ’روئیں گے اور دانت پیسیں گے۔‘ (متی ۱۳:۴۲) کیا ایسا ابھی ہو رہا ہے؟ جینہیں۔ جھوٹے مسیحی فرقے بڑا شہر بابل نامی کسبی میں شامل ہیں جو آج بھی یہ کہتی ہے: ”مَیں ملکہ ہو بیٹھی ہوں۔ بیوہ نہیں اور کبھی غم نہ دیکھوں گی۔“ (مکا ۱۸:۷) جھوٹے مسیحی فرقے یہ سمجھتے ہیں کہ اُنہیں سیاسی رہنماؤں کو اپنے اشاروں پر نچانے کا پورا اختیار ہے۔ اِس وقت جھوٹے مسیحی رو نہیں رہے بلکہ شیخیاں بگھار رہے ہیں۔ لیکن یہ صورتحال بہت جلد بدلنے والی ہے۔
۱۴. (الف) جھوٹے مسیحی کب اور کیوں ’دانت پیسیں گے‘؟ (ب) متی ۱۳:۴۲ کی نئی وضاحت زبور ۱۱۲:۱۰ سے کیسے میل کھاتی ہے؟ (فٹنوٹ کو دیکھیں۔)
۱۴ بڑی مصیبت کے دوران جب تمام جھوٹے مذاہب ختم ہو جائیں گے تو اِن کے رُکن پناہ ڈھونڈتے پھریں گے مگر اُنہیں کہیں پناہ نہیں ملے گی۔ (لو ۲۳:۳۰؛ مکا ۶:۱۵-۱۷) اُنہیں احساس ہو جائے گا کہ وہ تباہی سے بچ نہیں سکتے اِس لئے وہ نااُمیدی کے عالم میں روئیں گے اور غصے میں ’دانت پیسیں گے۔‘ بڑی مصیبت کے بارے میں یسوع مسیح کی پیشگوئی کے مطابق اِس کٹھن وقت میں وہ ”چھاتی پیٹیں“ گے۔e —متی ۲۴:۳۰؛ مکا ۱:۷۔
۱۵. کڑوے دانوں کا حشر کیا ہوگا؟ اور یہ کب ہوگا؟
۱۵ چوتھا واقعہ یہ ہے کہ کڑوے دانوں کو آگ کی بھٹی میں ڈالا جائے گا۔ یسوع مسیح نے تمثیل میں بتایا کہ فرشتے کڑوے دانوں کے گٹھوں کو ”آگ کی بھٹی میں ڈال دیں گے۔“ (متی ۱۳:۴۲) اِس کا مطلب ہے کہ اُنہیں ہمیشہ کے لئے فنا کر دیا جائے گا۔ لہٰذا جو لوگ جھوٹے مذاہب کے حامی تھے، اُنہیں بڑی مصیبت کے آخری مرحلے یعنی ہرمجِدّون میں ہلاک کر دیا جائے گا۔—ملا ۴:۱۔
۱۶، ۱۷. (الف) یسوع مسیح نے اپنی تمثیل کے آخر میں کس واقعے کا ذکر کِیا؟ (ب) ہم اِس نتیجے پر کیوں پہنچتے ہیں کہ یہ واقعہ مستقبل میں ہوگا؟
۱۶ پانچواں واقعہ یہ ہے کہ راستباز چمکیں گے۔ یسوع مسیح نے اپنی پیشگوئی کے آخر میں کہا: ”اُس وقت راستباز اپنے باپ کی بادشاہی میں آفتاب کی مانند چمکیں گے۔“ (متی ۱۳:۴۳) راستباز کب اور کہاں چمکیں گے؟ یسوع مسیح کی یہ بات مستقبل میں پوری ہوگی۔ اُنہوں نے جس واقعے کا ذکر کِیا، وہ زمین پر نہیں بلکہ آسمان پر ہوگا۔f آئیں، دیکھیں کہ ہم کن دو وجوہات کی بِنا پر اِس نتیجے پر پہنچے ہیں۔
۱۷ پہلی وجہ کا تعلق وقت سے ہے۔ یسوع مسیح نے کہا: ’اُس وقت راستباز چمکیں گے۔‘ اِس سے پہلے وہ کڑوے دانوں کو آگ کی بھٹی میں ڈالنے کا ذکر کر رہے تھے۔ لہٰذا جب اُنہوں نے اصطلاح ”اُس وقت“ استعمال کی تو وہ دراصل اِسی واقعے کی طرف اشارہ کر رہے تھے۔ یہ واقعہ بڑی مصیبت کے آخری مرحلے میں ہوگا۔ اِس سے پتہ چلتا ہے کہ راستباز بھی اُسی وقت ’چمکیں گے۔‘ دوسری وجہ کا تعلق جگہ سے ہے۔ یسوع مسیح نے کہا کہ راستباز ’بادشاہی میں چمکیں گے۔‘ اِس کا کیا مطلب ہے؟ تمام وفادار ممسوح مسیحی جو بڑی مصیبت کے پہلے مرحلے کے بعد زمین پر موجود ہوں گے، اُن پر حتمی مہر ہو چکی ہوگی۔ پھر اُنہیں آسمان پر جمع کِیا جائے گا جیسا کہ یسوع مسیح نے بڑی مصیبت کے بارے میں اپنی پیشگوئی میں بتایا تھا۔ (متی ۲۴:۳۱) وہاں پر وہ ”اپنے باپ کی بادشاہی میں“ چمکیں گے۔ اور ہرمجِدّون کے تھوڑی دیر بعد وہ یسوع مسیح کی دُلہن کے طور پر ”برّہ کی شادی“ میں شریک ہوں گے۔—مکا ۱۹:۶-۹۔
ہمارے لئے فائدے
۱۸، ۱۹. گیہوں اور کڑوے دانوں کی تمثیل کو بہتر طور پر سمجھنے سے ہمیں کیا فائدے ہوئے ہیں؟
۱۸ اِس تمثیل کے ذریعے ہم نے تقریباً ۲۰۰۰ سال کے دوران ہونے والے واقعات کا جائزہ لیا ہے۔ ایسا کرنے سے ہمیں کیا فائدے ہوئے ہیں؟ پہلا فائدہ یہ ہے کہ ہم بہتر طور پر سمجھ گئے ہیں کہ خدا نے اب تک بُرائی کو ختم کیوں نہیں کِیا۔ اُس نے ”غضب کے برتنوں“ کو برداشت کِیا ہے تاکہ وہ ”رحم کے برتنوں“ کو تیار کر سکے۔ اِس کا مطلب ہے کہ اُس نے بُرے لوگوں کو ابھی تک ہلاک نہیں کِیا تاکہ ممسوح مسیحیوں کو جمع کِیا جا سکے۔ (روم ۹:۲۲-۲۴) دوسرا فائدہ یہ ہے کہ یہوواہ خدا پر ہمارا بھروسا اَور مضبوط ہو گیا ہے۔ جیسےجیسے خاتمہ قریب آئے گا، ہمارے دُشمن اَور بھی شدت سے ہماری مخالفت کریں گے۔ لیکن وہ ہم پر ”غالب نہ آئیں گے۔“ (یرمیاہ ۱:۱۹ کو پڑھیں۔) جس طرح یہوواہ خدا صدیوں کے دوران ممسوح مسیحیوں کی حفاظت کرتا رہا ہے، وہ یسوع مسیح اور فرشتوں کے ذریعے ”ہمیشہ“ ہماری بھی حفاظت کرے گا۔—متی ۲۸:۲۰۔
۱۹ تیسرا فائدہ یہ ہے کہ ہم نے اِس تمثیل کے ذریعے پہچان لیا ہے کہ مسیحیوں کا کونسا گروہ گیہوں کی طرح ہے۔ اِس گروہ کو پہچاننا اِتنا اہم کیوں ہے؟ کیونکہ اگر ہم اِسے نہیں پہچانتے تو ہم اُس سوال کا جواب معلوم نہیں کر سکتے جو یسوع مسیح نے آخری زمانے کے بارے میں اپنی پیشگوئی میں اُٹھایا تھا۔ اُنہوں نے پوچھا تھا: ”وہ دیانتدار اور عقلمند نوکر کونسا ہے؟“ (متی ۲۴:۴۵) اگلے دو مضامین میں اِس سوال کا تسلیبخش جواب دیا جائے گا۔
a پیراگراف ۲: اِس تمثیل کے دیگر پہلوؤں کے بارے میں مزید معلومات کے لئے مینارِنگہبانی یکم مارچ ۲۰۱۰ء کے مضمون ”راستباز آفتاب کی مانند چمکیں گے“ کو پڑھیں۔
b پیراگراف ۳: یسوع مسیح کے رسول مر چکے تھے اور باقی ممسوح مسیحیوں کو نوکروں سے نہیں بلکہ گیہوں سے تشبیہ دی گئی ہے۔ اِس سے یہ نتیجہ نکالا جا سکتا ہے کہ نوکر، فرشتوں کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ اِس تمثیل کے آخر میں بتایا گیا ہے کہ کڑوے دانوں کو جمع کرنے والے فرشتے ہی ہیں۔—متی ۱۳:۳۹۔
c پیراگراف ۶: یہ نئی وضاحت ہے۔ پہلے ہم یہ سمجھتے تھے کہ یسوع مسیح نے روحانی ہیکل کی جانچ ۱۹۱۸ء میں کی تھی۔
d پیراگراف ۷: سن ۱۹۱۰ء سے ۱۹۱۴ء تک بائبل سٹوڈنٹس نے تقریباً ۴۰ لاکھ کتابیں اور۲۰ کروڑ پرچے لوگوں میں تقسیم کئے۔
e پیراگراف ۱۴: یہ متی ۱۳:۴۲ کی نئی وضاحت ہے۔ پہلے ہماری کتابوں اور رسالوں میں یہ بتایا گیا تھا کہ جھوٹے مسیحی ایک لمبے عرصے سے ’رو رہے ہیں اور دانت پیس رہے ہیں‘ کیونکہ ”بادشاہی کے فرزند“ اِس بات کو مشہور کر رہے ہیں کہ جھوٹے مسیحی ”شریر کے فرزند ہیں۔“ (متی ۱۳:۳۸) لیکن غور کریں کہ بائبل میں اصطلاح دانت پیسنا کو تباہی سے منسلک کِیا جاتا ہے۔—زبور ۱۱۲:۱۰۔
f پیراگراف ۱۶: دانیایل ۱۲:۳ میں بتایا گیا ہے کہ ”اہلِدانش نُورِفلک کی مانند چمکیں گے۔“ اِس آیت میں اصطلاح ”اہلِدانش“ ممسوح مسیحیوں کی طرف اشارہ کرتی ہے جو زمین پر مُنادی کا کام کرنے سے چمکتے ہیں۔ لیکن متی ۱۳:۴۳ اُس وقت کی طرف اشارہ کرتی ہے جب وہ آسمان پر بادشاہی میں چمکیں گے۔ پہلے ہم یہ سمجھتے تھے کہ یہ دونوں آیتیں مُنادی کے کام کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔