”ہم کو بتا کہ یہ باتیں کب ہوں گی؟“
”یہ باتیں کب ہوں گی؟ اور تیرے آنے اور دُنیا کے آخر ہونے کا نشان کیا ہوگا؟“ —متی ۲۴:۳۔
۱. یسوع مسیح کے رسولوں کی طرح ہم کیا جاننا چاہتے ہیں؟
زمین پر یسوع مسیح کی خدمت ختم ہونے والی تھی اور اُن کے شاگرد یہ جاننا چاہتے تھے کہ مستقبل میں اُن کے ساتھ کیا ہوگا۔ لہٰذا یسوع مسیح کی موت سے چند دن پہلے اُن کے چار رسولوں نے اُن سے پوچھا: ”یہ باتیں کب ہوں گی؟ اور تیرے آنے اور دُنیا کے آخر ہونے کا نشان کیا ہوگا؟“ (متی ۲۴:۳؛ مر ۱۳:۳) اِس سوال کے جواب میں یسوع مسیح نے بہت سے واقعات کے بارے میں بتایا۔ اُن کی یہ پیشگوئی متی ۲۴ اور ۲۵ باب میں درج ہے۔ اُنہوں نے جو بھی باتیں بتائیں، وہ ہمارے لئے بہت اہم ہیں کیونکہ ہم بھی یہ جاننا چاہتے ہیں کہ مستقبل میں کیا ہوگا۔
۲. (الف) یہوواہ خدا کے بندے کافی عرصے سے کس بات کو بہتر طور پر سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں؟ (ب) ہم کن تین سوالوں پر غور کریں گے؟
۲ یہوواہ خدا کے بندے بڑے عرصے سے آخری زمانے کے بارے میں یسوع مسیح کی پیشگوئی کا جائزہ لے رہے ہیں۔ وہ اِس بات کو اَور بہتر طور پر سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ یسوع مسیح نے جن واقعات کا ذکر کِیا، وہ کب ہوں گے۔ یہ دیکھنے کے لئے کہ اِس پیشگوئی کے بارے میں ہماری وضاحت میں کیسے تبدیلی آتی گئی ہے، آئیں، تین سوالوں پر غور کریں۔ ”بڑی مصیبت“ کب شروع ہوگی؟ یسوع مسیح یہ فیصلہ کب کریں گے کہ کونسے لوگ ’بھیڑیں‘ ہیں اور کونسے لوگ ’بکریاں‘ ہیں؟ جب اُنہوں نے اپنی پیشگوئی کی مختلف آیتوں میں اپنے آنے کا ذکر کِیا تو وہ کس وقت کی طرف اشارہ کر رہے تھے؟—متی ۲۴:۲۱؛ ۲۵:۳۱-۳۳۔
”بڑی مصیبت“ کب شروع ہوگی؟
۳. ماضی میں ہم بڑی مصیبت کے بارے میں کیا سمجھتے تھے؟
۳ پہلے ہم یہ سمجھتے تھے کہ ۱۹۱۴ء میں جب پہلی عالمی جنگ کا آغاز ہوا تو اِس کے ساتھ ہی بڑی مصیبت شروع ہوئی۔ پھر یہوواہ خدا نے ۱۹۱۸ء میں ”وہ دن گھٹائے“ یعنی اُس نے اِس جنگ کو روک دیا تاکہ ممسوح مسیحیوں کو تمام قوموں میں بادشاہت کی خوشخبری سنانے کا موقع ملے۔ (متی ۲۴:۲۱، ۲۲) ہمارا خیال یہ تھا کہ جب مُنادی کا کام مکمل ہو جائے گا تو شیطان کی دُنیا کو ختم کر دیا جائے گا۔ لہٰذا ہم سمجھتے تھے کہ بڑی مصیبت کے تین مرحلے ہیں: آغاز (۱۹۱۴ء-۱۹۱۸ء)، ایک وقفہ (۱۹۱۸ء سے) اور ہرمجِدّون پر اختتام۔
۴. یسوع مسیح کی پیشگوئی کے بارے میں اَور باتیں کیسے سامنے آئی ہیں؟
۴ یسوع مسیح کی پیشگوئی کا مزید جائزہ لینے سے ہم نے سیکھا کہ اِس پیشگوئی کے کچھ پہلو دو مختلف موقعوں پر پورے ہوتے ہیں۔ (متی ۲۴:۴-۲۲) پہلی بار تو یہ پہلی صدی میں یہودیہ میں پورے ہوئے اور دوسری بار یہ اب ہمارے زمانے میں پورے ہو رہے ہیں۔ جب ہمیں یہ پتہ چلا تو یسوع مسیح کی پیشگوئی کے بارے میں کچھ اَور باتیں بھی سامنے آئیں۔a
۵. (الف) سن ۱۹۱۴ء میں کونسا مشکل دَور شروع ہوا؟ (ب) یہ دَور پہلی صدی کے کس دَور کے مترادف تھا؟
۵ ہم نے سمجھ لیا کہ بڑی مصیبت کا آغاز ۱۹۱۴ء میں نہیں ہوا تھا۔ ہم اِس نتیجے پر کیوں پہنچے؟ بائبل کی دوسری پیشگوئیوں سے پتہ چلتا ہے کہ بڑی مصیبت کا آغاز قوموں کے درمیان جنگ سے نہیں ہوگا۔ اِس کی بجائے یہ تب شروع ہوگی جب جھوٹے مذاہب کو ختم کِیا جائے گا۔ لہٰذا ۱۹۱۴ء میں ”مصیبتوں کا شروع“ تو ہوا مگر بڑی مصیبت شروع نہیں ہوئی۔ (متی ۲۴:۸) یہ ’مصیبتیں‘ اُن مصیبتوں کے مترادف تھیں جو ۳۳ء سے ۶۶ء میں یروشلیم اور یہودیہ کے لوگوں پر آئیں۔
۶. بڑی مصیبت کا آغاز کس واقعے سے ہوگا؟
۶ بڑی مصیبت کا آغاز کس واقعے سے ہوگا؟ یسوع مسیح نے بتایا: ”جب تُم اُس اُجاڑنے والی مکروہ چیز کو جس کا ذکر دانیؔایل نبی کی معرفت ہوا۔ مُقدس مقام میں کھڑا ہوا دیکھو (پڑھنے والا سمجھ لے) تو جو یہوؔدیہ میں ہوں وہ پہاڑوں پر بھاگ جائیں۔“ (متی ۲۴:۱۵، ۱۶) یسوع مسیح کی یہ بات پہلی بار ۶۶ء میں پوری ہوئی جب رومی فوج (یعنی ”مکروہ چیز“) نے یروشلیم اور ہیکل پر (جو یہودیوں کی نظر میں مُقدس مقام تھا) حملہ کِیا۔ دوسری بار ایسا تب ہوگا جب اقوامِمتحدہ (یعنی ”مکروہ چیز“) جھوٹے مسیحی فرقوں پر (جو اپنے رُکنوں کی نظر میں مُقدس ہیں) اور باقی جھوٹے مذاہب پر حملہ کرے گی۔ اِسی حملے کا ذکر مکاشفہ ۱۷:۱۶-۱۸ میں بھی کِیا گیا ہے۔ بڑے شہر بابل کی تباہی سے بڑی مصیبت کا آغاز ہوگا۔
۷. (الف) پہلی صدی میں ممسوح مسیحیوں کی زندگی کیسے بچ گئی؟ (ب) اِس بات سے ہمیں کیا تسلی ملتی ہے؟
۷ یسوع مسیح نے یہ بھی بتایا کہ ”وہ دن گھٹائے جائیں گے۔“ پہلی بار ایسا ۶۶ء میں ہوا جب رومی فوج نے اپنے حملے کے ”دن گھٹائے“ یعنی اِسے روک دیا۔ یوں یروشلیم اور یہودیہ میں رہنے والے ممسوح مسیحیوں کو بھاگنے کا موقع مل گیا اور اُن کی جان ’بچ‘ گئی۔ (متی ۲۴:۲۲ کو پڑھیں؛ ملا ۳:۱۷) اِس بات سے ہمیں کیا تسلی ملتی ہے؟ یہوواہ خدا بڑی مصیبت کے دوران جھوٹے مذاہب پر حملے کے دنوں کو ’گھٹائے گا‘ تاکہ سچے مذہب پر کوئی آنچ نہ آئے۔ یوں خدا کے بندوں کی جان بچ جائے گی۔
۸. (الف) بڑی مصیبت کے پہلے مرحلے کے بعد کیا ہوگا؟ (ب) ایک لاکھ ۴۴ ہزار کے آخری رُکن کو غالباً کس وقت آسمان پر اُٹھا لیا جائے گا؟ (فٹنوٹ کو دیکھیں۔)
۸ جب بڑی مصیبت کا پہلا مرحلہ گزر جائے گا تو کیا ہوگا؟ یسوع مسیح کی پیشگوئی سے ظاہر ہوتا ہے کہ پھر ایک ایسا دَور آئے گا جو ہرمجِدّون کی جنگ تک چلے گا۔ اِس دَور کے دوران کونسے واقعات ہوں گے؟ اِن کے بارے میں حزقیایل ۳۸:۱۴-۱۶ اور متی ۲۴:۲۹-۳۱ میں بتایا گیا ہے۔ (اِن آیتوں کو پڑھیں۔)b پھر بڑی مصیبت کا آخری مرحلہ شروع ہوگا یعنی ہرمجِدّون کی جنگ۔ یہ جنگ ۷۰ء میں یروشلیم کی تباہی کے مترادف ہوگی۔ (ملا ۴:۱) بڑی مصیبت ایک ایسی مصیبت ہوگی جو ”دُنیا کے شروع سے نہ اب تک ہوئی نہ کبھی ہوگی۔“ (متی ۲۴:۲۱) اِس کے بعد یسوع مسیح کی ہزار سالہ حکمرانی کا آغاز ہوگا۔
۹. بڑی مصیبت کے بارے میں یسوع مسیح کی پیشگوئی پر غور کرنے سے ہم پر کیا اثر ہوتا ہے؟
۹ اِس پیشگوئی پر غور کرنے سے ہمارا حوصلہ بڑھتا ہے کیونکہ اِس سے ہمیں یہ اعتماد حاصل ہوتا ہے کہ خدا کے خادم ایک گروہ کے طور پر بڑی مصیبت سے بچ جائیں گے، چاہے اُنہیں جتنی بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے۔ (مکا ۷:۹، ۱۴) ہمیں اِس بات سے بڑی خوشی بھی ہوگی کہ ہرمجِدّون کے موقعے پر یہوواہ خدا کے نام کی بڑائی ہوگی اور یہ ثابت ہو جائے گا کہ وہی کائنات کا اعلیٰ حکمران ہے۔—زبور ۸۳:۱۸؛ حز ۳۸:۲۳۔
بھیڑوں کو بکریوں سے کب جُدا کِیا جائے گا؟
۱۰. ماضی میں ہم اِس سوال کا کیا جواب دیتے تھے کہ یسوع مسیح بھیڑوں کو بکریوں سے کب جُدا کرتے ہیں؟
۱۰ اب ہم یسوع مسیح کی پیشگوئی کے ایک اَور پہلو پر غور کریں گے۔ ہم دیکھیں گے کہ یسوع مسیح یہ فیصلہ کب کریں گے کہ کونسے لوگ ’بھیڑیں‘ ہیں اور کونسے لوگ ’بکریاں‘ ہیں؟ (متی ۲۵:۳۱-۴۶) ماضی میں ہم یہ سمجھتے تھے کہ یہ فیصلہ پورے آخری زمانے کے دوران کِیا جائے گا جو ۱۹۱۴ء سے شروع ہوا۔ ہمارا خیال تھا کہ جو لوگ بادشاہت کے پیغام کو قبول نہیں کرتے اور بڑی مصیبت شروع ہونے سے پہلے مر جاتے ہیں، اُنہیں بکریاں قرار دیا جائے گا اور اُنہیں زندہ نہیں کِیا جائے گا۔
۱۱. ہم کیسے جانتے ہیں کہ بھیڑوں کو بکریوں سے جُدا کرنے کا کام ۱۹۱۴ء میں شروع نہیں ہوا تھا؟
۱۱ سن ۱۹۹۵ء میں مینارِنگہبانی میں متی ۲۵:۳۱ پر دوبارہ غور کِیا گیا۔ اِس آیت میں لکھا ہے: ”جب ابنِآدم اپنے جلال میں آئے گا اور سب فرشتے اُس کے ساتھ آئیں گے تب وہ اپنے جلال کے تخت پر بیٹھے گا۔“ اِس رسالے میں بتایا گیا کہ یسوع مسیح ۱۹۱۴ء میں خدا کی بادشاہت کے بادشاہ تو بن گئے تھے مگر وہ ’سب قوموں‘ کے منصف کی حیثیت سے ”اپنے جلال کے تخت پر“ نہیں بیٹھے تھے۔ (متی ۲۵:۳۲؛ دانیایل ۷:۱۳ پر غور کریں۔) لیکن بھیڑوں اور بکریوں کی تمثیل میں وہ ایک منصف کے روپ میں نظر آتے ہیں۔ (متی ۲۵:۳۱-۳۴، ۴۱، ۴۶ کو پڑھیں۔) چونکہ یسوع مسیح نے ۱۹۱۴ء میں سب قوموں کی عدالت کرنا شروع نہیں کِیا تھا اِس لئے اُنہوں نے اِس سال میں بھیڑوں کو بکریوں سے جُدا کرنا بھی شروع نہیں کِیا تھا۔c تو پھر وہ یہ کام کب شروع کریں گے؟
۱۲. (الف) یسوع مسیح سب قوموں کی عدالت کب شروع کریں گے؟ (ب) متی ۲۴:۳۰، ۳۱ اور متی ۲۵:۳۱-۳۳، ۴۶ میں کن واقعات کا ذکر کِیا گیا ہے؟
۱۲ آخری زمانے کے بارے میں یسوع مسیح کی پیشگوئی سے ظاہر ہوتا ہے کہ جھوٹے مذاہب کے خاتمے کے بعد یسوع مسیح سب قوموں کی عدالت کرنا شروع کریں گے۔ جیسے پیراگراف ۸ میں بتایا گیا تھا، متی ۲۴:۳۰، ۳۱ میں کچھ ایسے واقعات درج ہیں جو اِس عرصے کے دوران ہوں گے۔ جب آپ اِن آیتوں پر غور کرتے ہیں تو آپ دیکھیں گے کہ اِن میں ایسے ہی واقعات کا ذکر کِیا گیا ہے جو بھیڑوں اور بکریوں کی تمثیل میں بھی ملتے ہیں۔ مثال کے طور پر یسوع مسیح اپنے فرشتوں کے ساتھ اپنے جلال میں آئیں گے؛ سب قومیں اُن کے سامنے جمع کی جائیں گی؛ جن لوگوں کو بھیڑیں قرار دیا جائے گا، وہ اپنے سر اُوپر اُٹھائیں گے کیونکہ وہ ”ہمیشہ کی زندگی“ پائیں گے۔d لیکن جن لوگوں کو بکریاں قرار دیا جائے گا، وہ ”چھاتی پیٹیں“ گے کیونکہ اُنہیں احساس ہوگا کہ وہ ”ہمیشہ کی سزا پائیں گے۔“—متی ۲۵:۳۱-۳۳، ۴۶۔
۱۳. (الف) یسوع مسیح یہ فیصلہ کب کریں گے کہ کونسے لوگ ’بھیڑیں‘ ہیں اور کونسے لوگ ’بکریاں‘ ہیں؟ (ب) اِس بات سے ہم مُنادی کے کام کی اہمیت کے بارے میں کیا نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں؟
۱۳ اِن ساری باتوں پر غور کرنے کے بعد ہم کس نتیجے پر پہنچتے ہیں؟ یسوع مسیح بڑی مصیبت کے دوران یہ فیصلہ کریں گے کہ کونسے لوگ بھیڑوں کی طرح ہیں اور کونسے لوگ بکریوں کی طرح ہیں۔ جن لوگوں کو بکریاں قرار دیا جائے گا، اُنہیں ہرمجِدّون میں ”ہمیشہ کی سزا“ دی جائے یعنی اُنہیں ہلاک کر دیا جائے گا۔ اِس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہمارا مُنادی کا کام کتنا اہم ہے۔ جب تک بڑی مصیبت شروع نہیں ہوتی، لوگوں کے پاس موقع ہے کہ وہ اپنے رویے کو بدلیں اور ’زندگی کو پہنچانے والے سکڑے راستے‘ پر چلیں۔ (متی ۷:۱۳، ۱۴) سچ ہے کہ کچھ لوگ ابھی بھی بھیڑوں جیسا رویہ ظاہر کرتے ہیں اور کچھ لوگ بکریوں جیسا۔ لیکن ہمیں یہ یاد رکھنا چاہئے کہ یہ فیصلہ تو بڑی مصیبت کے دوران ہی کِیا جائے گا کہ کون بھیڑوں کی طرح ہیں اور کون بکریوں کی طرح۔ اِس لئے بہت اہم ہے کہ ہم زیادہ سے زیادہ لوگوں کو بادشاہت کا پیغام سنائیں تاکہ اُنہیں اِسے قبول کرنے کا موقع ملے۔
یسوع مسیح کب ’آئیں گے‘؟
۱۴، ۱۵. کن چار آیتوں میں اُس وقت کی بات کی گئی ہے جب یسوع مسیح عدالت کرنے آئیں گے؟
۱۴ یسوع مسیح کی پیشگوئی کا مزید جائزہ لینے سے کیا اِس بات کی ضرورت محسوس ہوتی ہے کہ ہم اِس کے کچھ پہلوؤں کے بارے میں اپنی وضاحت میں تبدیلی کریں؟ آئیں، اِس میں سے کچھ آیتوں پر غور کریں۔
۱۵ یسوع مسیح نے متی ۲۴:۲۹–۲۵:۴۶ میں خاص طور پر ایسے واقعات کا ذکر کِیا جو آخری زمانے اور بڑی مصیبت کے دوران ہوں گے۔ اِن آیتوں میں اُنہوں نے آٹھ بار اپنے آنے کی بات کی۔ بڑی مصیبت کے سلسلے میں اُنہوں نے کہا: ”سب قومیں . . . ابنِآدم کو . . . آسمان کے بادلوں پر آتے دیکھیں گی۔“ ”تُم نہیں جانتے کہ تمہارا خداوند کس دن آئے گا۔“ ”جس گھڑی تُم کو گمان بھی نہ ہوگا ابنِآدم آ جائے گا۔“ اِس کے علاوہ اُنہوں نے بھیڑوں اور بکریوں کی تمثیل میں کہا: ”ابنِآدم اپنے جلال میں آئے گا۔“ (متی ۲۴:۳۰، ۴۲، ۴۴؛ ۲۵:۳۱) اِن چاروں آیتوں میں مستقبل کے بارے میں بات کی گئی ہے یعنی اُس وقت کے بارے میں جب یسوع مسیح عدالت کرنے آئیں گے۔ یسوع مسیح کی پیشگوئی میں اَور کن آیتوں میں اُن کے آنے کا ذکر ملتا ہے؟
۱۶. اَور کن آیتوں میں یسوع مسیح کے آنے کا ذکر کِیا گیا ہے؟
۱۶ دیانتدار اور عقلمند نوکر کے بارے میں یسوع مسیح نے کہا: ”مبارک ہے وہ نوکر جسے اُس کا مالک آ کر ایسا ہی کرتے پائے۔“ کنواریوں کی تمثیل میں اُنہوں نے کہا: ”جب وہ مول لینے جا رہی تھیں تو دُلہا آ پہنچا۔“ توڑوں کی تمثیل میں یسوع مسیح نے کہا: ”بڑی مُدت کے بعد اُن نوکروں کا مالک آیا۔“ اِسی تمثیل میں مالک نے کہا: ”مَیں آ کر اپنا مال سُود سمیت لیتا۔“ (متی ۲۴:۴۶؛ ۲۵:۱۰، ۱۹، ۲۷) اِن چار آیتوں میں بھی یسوع مسیح کے آنے کا ذکر کِیا گیا ہے۔ یہ آیتیں کس وقت کی طرف اشارہ کرتی ہیں؟
۱۷. متی ۲۴:۴۶ میں جس ’آنے‘ کا ذکر ہوا ہے، اِس کے بارے میں ہم پہلے کیا کہتے تھے؟
۱۷ ماضی میں ہماری کتابوں اور رسالوں میں بتایا گیا کہ اِن چار آیتوں کے مطابق یسوع مسیح ۱۹۱۸ء میں آئے۔ ”دیانتدار اور عقلمند نوکر“ کے بارے میں یسوع مسیح کی بات کی مثال لیں۔ (متی ۲۴:۴۵-۴۷ کو پڑھیں۔) ہم یہ سمجھتے تھے کہ ۴۶ آیت میں جس ’آنے‘ کا ذکر ہوا ہے، یہ اُس وقت کی طرف اشارہ کرتا ہے جب یسوع مسیح ۱۹۱۸ء میں ممسوح مسیحیوں کی جانچ کرنے آئے۔ اور ہمارا خیال تھا کہ اُنہوں نے ۱۹۱۹ء میں نوکر کو اپنے سارے مال کا مختار بنایا۔ (ملا ۳:۱) لیکن یسوع مسیح کی پیشگوئی کا مزید جائزہ لینے سے یہ ظاہر ہوا کہ اِس کے کچھ پہلوؤں کی وضاحت میں تبدیلیاں کرنے کی ضرورت ہے۔ اِس کی کیا وجہ ہے؟
۱۸. یسوع مسیح کی پوری پیشگوئی پر غور کرنے سے اُن کے آنے کے بارے میں کیا پتہ چلتا ہے؟
۱۸ متی ۲۴:۴۶ سے پہلے کی آیتوں میں جب بھی لفظ آنا استعمال ہوا، وہ اُس وقت کی طرف اشارہ کرتا ہے جب یسوع مسیح بڑی مصیبت کے دوران عدالت کریں گے۔ (متی ۲۴:۳۰، ۴۲، ۴۴) اِس کے علاوہ ہم نے پیراگراف ۱۲ میں دیکھا کہ متی ۲۵:۳۱ میں لفظ آنا بھی عدالت کے اِسی وقت کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ اِس سے ہم یہ نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں کہ جب متی ۲۴:۴۶، ۴۷ میں بتایا گیا کہ یسوع مسیح آئیں گے اور نوکر کو اپنے سارے مال کا مختار بنائیں گے تو یہ بھی مستقبل میں ہوگا یعنی بڑی مصیبت کے دوران۔ یاد رکھیں کہ یسوع مسیح کی پوری پیشگوئی پر غور کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ جن آٹھ آیتوں میں یسوع مسیح کے آنے کا ذکر کِیا گیا ہے، وہ سب مستقبل کی طرف اشارہ کرتی ہیں یعنی اُس وقت کی طرف جب یسوع مسیح بڑی مصیبت کے دوران عدالت کرنے آئیں گے۔
۱۹. ہم نے کن نئی وضاحتوں پر غور کِیا ہے؟ اور اگلے مضامین میں ہم کن سوالوں پر غور کریں گے؟
۱۹ اِس مضمون میں ہم نے کیا سیکھا ہے؟ سب سے پہلے ہم نے سیکھا کہ بڑی مصیبت ۱۹۱۴ء میں شروع نہیں ہوئی تھی بلکہ یہ تب شروع ہوگی جب اقوامِمتحدہ بڑے شہر بابل پر حملہ کرے گی۔ ہم نے یہ بھی دیکھا کہ ہم کیوں کہہ سکتے ہیں کہ یسوع مسیح نے ۱۹۱۴ء میں بھیڑوں کو بکریوں سے جُدا کرنا شروع نہیں کِیا تھا بلکہ وہ یہ کام بڑی مصیبت کے دوران کریں گے۔ ہم نے اِس بات پر بھی غور کِیا کہ یسوع مسیح نے دیانتدار نوکر کو ۱۹۱۹ء میں اپنے سارے مال کا مختار نہیں بنایا تھا بلکہ وہ بڑی مصیبت کے دوران ایسا کریں گے۔ اِن باتوں کو بہتر طور پر سمجھنے سے کیا دیانتدار نوکر کے بارے میں یسوع مسیح کی پیشگوئی کی وضاحت میں اَور بھی تبدیلیوں کی ضرورت ہے؟ اور کیا یسوع مسیح کی کچھ تمثیلوں کی وضاحت میں بھی تبدیلی کی ضرورت ہے جو آخری زمانے میں پوری ہو رہی ہیں؟ اگلے مضامین میں ہم اِن سوالوں پر غور کریں گے۔
a پیراگراف ۴: مینارِنگہبانی یکم مئی ۱۹۹۴ء، صفحہ ۱۸-۳۱ اور یکم مئی ۱۹۹۹ء، صفحہ ۸-۲۰ کو دیکھیں۔
b پیراگراف ۸: اِن آیتوں میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ ’برگزیدوں کو جمع‘ کِیا جائے گا۔ (متی ۲۴:۳۱) اِس سے لگتا ہے کہ جتنے بھی ممسوح مسیحی بڑے شہر بابل کی تباہی کے بعد زمین پر موجود ہوں گے، اُن سب کو بڑی مصیبت کے دوران مگر ہرمجِدّون شروع ہونے سے پہلے آسمان پر اُٹھا لیا جائے گا۔ یہ وضاحت اُس وضاحت کی جگہ لیتی ہے جو واچٹاور ۱۵ اگست ۱۹۹۰ء، صفحہ ۳۰ پر پیش کی گئی ہے۔
c پیراگراف ۱۱: مینارِنگہبانی یکم دسمبر ۱۹۹۵ء، صفحہ ۸-۱۸ کو دیکھیں۔
d پیراگراف ۱۲: لوقا ۲۱:۲۸ کو دیکھیں۔