میری کہانی میری زبانی
یہوواہ نے ہمیں صبرواستقلال سکھایا
از ارِسٹاٹولس اپوسٹولیڈس
کیکاؤس پہاڑوں کے شمالی دامن میں اپنے معدنی چشموں اور لطیف آبوہوا کی وجہ سے مشہور روسی شہر، پیاٹیگورسک آباد ہے۔ یہاں میری پیدائش ۱۹۲۹ میں یونانی پناہگزینوں میں ہوئی۔ دس سال بعد، اسٹالینی جارحیت، دہشت اور نسلی صفائی کے بھیانک دَور کے بعد ہم پھر پناہگزین بن گئے اور ہمیں زبردستی یونان بھیج دیا گیا۔
پائریوس یونان میں منتقل ہونے کے بعد، لفظ ”پناہگزین“ نے ہمارے لئے بالکل ایک نیا مطلب اختیار کر لیا۔ ہم بالکل اجنبی محسوس کرنے لگے۔ اگرچہ میرا اور میرے بھائی کا نام مشہور یونانی فلاسفر سقراط اور ارسطو کے نام پر رکھا گیا تھا توبھی ہمیں شاذونادر ہی کوئی ان ناموں سے پکارتا تھا۔ سب ہمیں چھوٹے روسی کہتے تھے۔
دوسری عالمی جنگ کے تھوڑی دیر بعد، میری پیاری والدہ وفات پا گئیں۔ وہ ہمارے گھر کا محور تھیں اور اُن کی موت ایک المیہ تھی۔ چونکہ وہ کچھ عرصے سے بیمار تھیں اس لئے انہوں نے مجھے بہتیرے گھریلو کام سکھا دئے تھے۔ یہ تربیت بعد کی زندگی میں بہت مفید ثابت ہوئی۔
جنگ اور آزادی
جنگ، نازی قبضے اور اتحادی فوجوں کی بمباری کی وجہ سے ہر دن آخری دن معلوم ہوتا تھا۔ یہاں غربت، بھوک اور موت بہت زیادہ تھی۔ مَیں نے ۱۱ سال کی عمر میں اپنے باپ کے ساتھ کام کرنا شروع کر دیا تاکہ ہم تینوں کی گزربسر ہو سکے۔ میری تعلیم یونانی زبان کے محدود علم اور جنگ اور اس کے مابعدی اثرات کی وجہ سے رُک گئی۔
یونان پر جرمن قبضہ ۱۹۴۴ میں ختم ہو گیا۔ اس کے تھوڑی دیر بعد، میرا یہوواہ کے گواہوں سے رابطہ ہوا۔ مایوسی اور مصیبت کے عالم میں خدا کی بادشاہت کے تحت روشن مستقبل کی بائبل اُمید نے مجھ پر گہرا اثر کِیا۔ (زبور ۳۷:۲۹) زمین پر پُرامن حالتوں کے تحت ابدی زندگی کی بابت خدا کا وعدہ میرے زخموں کے لئے حقیقی مرہم ثابت ہوا۔ (یسعیاہ ۹:۷) مَیں نے اور میرے والد نے ۱۹۴۶ میں یہوواہ کے لئے اپنی مخصوصیت کی علامت میں بپتسمہ لے لیا۔
اگلے سال مجھے پائریوس میں منظم کی جانے والی دوسری کلیسیا میں ایڈورٹائزنگ سرونٹ (بعدازاں میگزین سرونٹ) کے طور پر اپنی پہلی تفویض حاصل ہوئی۔ ہمارا علاقہ پائریوس سے لیکر ایلیوسس تک تھا جو تقریباً ۵۰ کلومیٹر کا فاصلہ ہے۔ اُس وقت، بہتیرے روح سے مسحشُدہ مسیحی کلیسیا میں خدمت کرتے تھے۔ مجھے ان کے ساتھ کام کرنے اور سیکھنے کا شرف حاصل تھا۔ مَیں نے ان کی رفاقت سے استفادہ کِیا کیونکہ ان کے پاس منادی کے کام کو انجام دینے کے لئے درکار سخت کوشش کی بابت بیان کرنے کے لئے بیشمار تجربات تھے۔ ان کی زندگیوں سے، یہ بات واضح تھی کہ یہوواہ کی وفاداری سے خدمت کرنے کے لئے کافی زیادہ صبرواستقلال کی ضرورت پڑتی ہے۔ (اعمال ۱۴:۲۲) مَیں کتنا خوش ہوں کہ آج اس علاقے میں یہوواہ کے گواہوں کی ۵۰ سے زائد کلیسیائیں ہیں!
ایک غیرمتوقع چیلنج
تھوڑے عرصہ کے بعد، میری ملاقات پترس کے شہر میں ایک خوبصورت، سرگرم مسیحی خاتون، ایلینا سے ہوئی۔ سن ۱۹۵۲ کے آخر میں ہماری منگنی ہو گئی۔ تاہم چند ماہ بعد ایلینا شدید بیمار ہو گئی۔ ڈاکٹر نے دریافت کِیا کہ اس کے دماغ میں رسولی کی تشویشناک حالت کی وجہ سے فوری طور پر آپریشن کرانا ہوگا۔ کافی کوشش کے بعد، ہم ایتھنز میں ایک ڈاکٹر کا پتہ لگانے کے لائق ہوئے جو اُس وقت محدود ذرائع کے باوجود ہمارے مذہبی اعتقادات کے مطابق خون کے بغیر آپریشن کرنے کے لئے تیار ہو گیا۔ (احبار ۱۷:۱۰-۱۴؛ اعمال ۱۵:۲۸، ۲۹) آپریشن کے بعد، ڈاکٹر میری منگیتر کی زندگی کی بابت پُراُمید تھے لیکن انہوں نے بیماری کے دوبارہ وارد ہونے کو خارجازامکان قرار نہیں دیا تھا۔
اس صورتحال میں مجھے کیا کرنا ہوگا؟ تبدیلشُدہ حالات کے پیشِنظر، کیا مجھے اپنی منگنی توڑ کر خود کو آزاد کر لینا چاہئے تھا؟ ہرگز نہیں! مَیں اپنی منگیتر کے ساتھ وعدہ کر چکا تھا اور مَیں چاہتا تھا کہ میری ہاں کا مطلب ہاں ہو۔ (متی ۵:۳۷) ایک لمحے کے لئے بھی مَیں نے منگنی توڑنے کی بابت نہیں سوچا تھا۔ اپنی بڑی بہن کی نگہداشت میں، ایلینا کسی حد تک ٹھیک ہو گئی اور دسمبر ۱۹۵۴ میں ہماری شادی ہو گئی۔
تین سال بعد، ایلینا کی طبیعت پھر خراب ہو گئی اور اُسی ڈاکٹر کو ایک اَور آپریشن کرنا پڑا۔ اس مرتبہ اس نے دماغ سے رسولی کی جڑ ختم کرنے کی کوشش کی۔ نتیجتاً میری بیوی کسی حد تک مفلوج ہو گئی اور اُس کی قوتِگویائی بُری طرح متاثر ہوئی۔ اب ہم دونوں کے لئے بالکل نئے اور پیچیدہ مسائل کھڑے ہو گئے۔ چھوٹا سا کام بھی میری پیاری بیوی کے لئے ایک بڑی رکاوٹ بن گیا۔ اس کی خراب صحت نے ہمارے روزمرّہ معمول میں انتہائی تبدیلیوں کو ضروری بنا دیا۔ سب سے بڑھکر، اس نے بڑے صبرواستقلال کا تقاضا کِیا۔
اس وقت کے دوران جو تربیت مَیں نے اپنی ماں سے حاصل کی تھی وہ بڑی مفید ثابت ہوئی۔ ہر صبح سویرے مَیں کھانے کی تمام چیزیں تیار کرتا اور ایلینا اُنہیں پکا دیا کرتی تھی۔ ہم اکثراوقات کُلوقتی خادموں، اپنے بائبل مطالعوں اور کلیسیا کے ضرورتمند ساتھی مسیحیوں کو اپنے گھر پر مدعو کرتے تھے۔ وہ سب ان لذیذ کھانوں کی بہت تعریف کرتے تھے! مَیں اور ایلینا اپنے گھر کو صافستھرا رکھنے کیلئے دیگر گھریلو کام بھی ملکر کرتے تھے۔ یہ کٹھن صورتحال ۳۰ سال تک قائم رہی۔
معذوری کے باوجود سرگرمی
یہ بات میرے اور دیگر اشخاص کے لئے انتہائی تحریکانگیز تھی کہ کوئی بھی چیز یہوواہ کے لئے میری بیوی کی محبت اور اس کی خدمت کے لئے اس کے جوش کو کم نہ کر سکی۔ کچھ عرصے بعد اور مستقل کوشش سے ایلینا محدود الفاظ کے ساتھ بولنے کے لائق ہو گئی۔ اسے گلیکوچوں میں لوگوں کو بائبل کی خوشخبری سنانا بہت پسند تھا۔ جب مَیں اپنے کاروبار کے سلسلے میں کہیں جاتا تو اسے اپنے ساتھ لے جاتا اور اپنی کار کسی ایسے فٹپاتھ کے نزدیک کھڑی کر دیتا جہاں لوگوں کی کافی چہلپہل ہوتی تھی۔ وہ کار کی کھڑکی کھول کر راہگیروں کو مینارِنگہبانی اور جاگو! دیا کرتی تھی۔ ایک موقع پر، اس نے دو گھنٹوں میں ۸۰ کاپیاں تقسیم کیں۔ اکثراوقات وہ کلیسیا میں دستیاب تمام پُرانے رسالے استعمال کرتی تھی۔ ایلینا منادی کے دوسرے حلقوں میں بھی باقاعدہ شرکت کرتی تھی۔
اپنی بیماری کے تمام سالوں کے دوران وہ ہمیشہ میرے ساتھ اجلاسوں پر جاتی تھی۔ وہ کسی بھی کنونشن یا اسمبلی سے غیرحاضر نہیں ہوتی تھی حالانکہ یونان میں یہوواہ کے گواہوں پر اذیت کے باعث ہمیں مُلک سے باہر بھی جانا پڑتا تھا۔ اپنی کمزوری کے باوجود، وہ آسٹریا، جرمنی، قبرص اور دیگر ممالک میں کنونشنوں پر حاضر ہوئی۔ ایلینا نے کبھی شکایت یا زیادہ توجہ کا تقاضا نہیں کِیا تھا اگرچہ یہوواہ کی خدمت میں میری اضافی ذمہداریاں اس کے لئے کبھیکبھار مشکل پیدا کر دیتی تھیں۔
جہاں تک میرا تعلق ہے، اس صورتحال نے مجھے دائمی فوائد والا صبرواستقلال سکھایا۔ مجھے یہوواہ کی مدد کا بہت مرتبہ تجربہ ہوا۔ بھائی بہنوں نے ہر ممکن طریقے سے مدد کرنے کے لئے حقیقی قربانیاں دیں اور ڈاکٹروں نے بھی مہربانی کے ساتھ ہماری مدد کی۔ ان تمام کٹھن سالوں کے دوران ہمیں کبھی بھی ضروریاتِزندگی کی کمی نہیں ہوئی اگرچہ ہمارے صبرآزما حالات نے میرے لئے کُلوقتی ملازمت کرنا ناممکن بنا دیا تھا۔ یہوواہ کے مفادات اور خدمت کو ہمیشہ ترجیح دی گئی۔—متی ۶:۳۳۔
بہتیروں نے پوچھا کہ ان صبرآزما اوقات میں کس چیز نے ہمیں سنبھالے رکھا۔ اب ماضی پر نگاہ ڈالنے سے مجھے احساس ہوتا ہے کہ بائبل کا ذاتی مطالعہ، خدا سے دلی دُعا، مسیحی اجلاسوں پر باقاعدہ حاضری اور منادی کے کام میں سرگرم شرکت نے ہمارے صبرواستقلال کو تقویت بخشی تھی۔ ہمیں ہمیشہ زبور ۳۷:۳-۵ کے حوصلہافزا الفاظ یاد آتے ہیں: ”[یہوواہ] پر توکل کر اور نیکی کر۔ . . . اپنی راہ [یہوواہ] پر چھوڑ دے اور اُس پر توکل کر۔ وہی سب کچھ کرے گا۔“ زبور ۵۵:۲۲ بھی ہمارے لئے قابلِقدر ثابت ہوئی: ”اپنا بوجھ [یہوواہ] پر ڈالدے۔ وہ تجھے سنبھالیگا۔“ اپنے باپ پر مکمل بھروسا کرنے والے بچے کی مانند، ہم نے نہ صرف یہوواہ پر اپنا بوجھ ڈال دیا بلکہ اسی پر چھوڑ بھی دیا۔—یعقوب ۱:۶۔
اپریل ۱۲، ۱۹۸۷ کو جب میری بیوی ہمارے گھر کے سامنے منادی کر رہی تھی تو ایک وزنی آہنی دروازہ گھوم کر اسے لگا جس سے وہ نیچے گِر پڑی اور کافی زخمی ہو گئی۔ اس کے نتیجے میں وہ اگلے تین سال تک بیہوشی میں رہی۔ اُس نے ۱۹۹۰ کے اوائل میں وفات پائی۔
اپنی صلاحیتوں کے مطابق یہوواہ کی خدمت کرنا
مَیں نقایہ، پائریوس میں ۱۹۶۰ میں کلیسیائی خادم کے طور پر مقرر ہوا۔ اُس وقت سے لے کر، مجھے پائریوس کی دیگر کئی کلیسیاؤں میں خدمت کرنے کا شرف حاصل ہوا ہے۔ اگرچہ میرے اپنے کوئی بچے نہیں ہیں توبھی مجھے سچائی میں ثابتقدم رہنے میں بہتیرے روحانی بچوں کی مدد کرنے کی خوشی حاصل ہوئی ہے۔ ان میں سے بعض اس وقت کلیسیائی بزرگوں، خادموں، پائنیروں اور بیتایل خاندان کے ارکان کے طور پر خدمت کر رہے ہیں۔
جب ۱۹۷۵ میں، یونان میں جمہوریت بحال ہوئی تو یہوواہ کے گواہ آزادی کے ساتھ کنونشنیں منعقد کرنے کے لائق ہوئے اب انہیں جنگلوں میں چھپنے کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔ بیرونی ممالک میں کنونشنیں منظم کرنے کے دوران حاصل ہونے والا تجربہ اس وقت گرانقدر ثابت ہوا۔ لہٰذا، مجھے کئی سالوں سے مختلف کنونشن کمیٹیوں میں خدمت کرنے کا شرف حاصل ہوا ہے۔
اس کے بعد، ۱۹۷۹ میں، یونان میں ایتھنز کے مضافات میں، پہلا اسمبلی ہال تعمیر کرنے کی منصوبہسازی کی گئی۔ مجھے اس بہت بڑے تعمیراتی پروجیکٹ کو منظم اور پورا کرنے میں مدد کی خاطر مقرر کِیا گیا۔ اس کام کے لئے بھی کافی زیادہ صبرواستقلال کی ضرورت تھی۔ تین سال تک سینکڑوں خودایثار بھائیوں کے ساتھ کام کرنے سے ہمارے درمیان محبتواتحاد کا ایک مضبوط بندھن قائم ہو گیا۔ اس پروجیکٹ کی یادیں میرے دل پر پوری طرح نقش ہیں۔
قیدیوں کی روحانی ضروریات پوری کرنا
چند سال بعد، میرے لئے ایک نیا دروازہ کھلا۔ میری کلیسیا کے نزدیک، کوریڈالوس میں، یونان کا سب سے بڑا قیدخانہ ہے۔ اپریل ۱۹۹۱ سے مجھے یہوواہ کے گواہوں کے ایک خادم کی حیثیت سے ہر ہفتے اس قیدخانے میں جانے کے لئے مقرر کِیا گیا ہے۔ وہاں مجھے بائبل مطالعے اور دلچسپی رکھنے والے قیدیوں کے ساتھ مسیحی اجلاس منعقد کرانے کی اجازت ہے۔ ان میں سے بہتیروں نے بڑی تبدیلیاں پیدا کرکے خدا کے کلام کی بڑی طاقت کو ثابت کِیا ہے۔ (عبرانیوں ۴:۱۲) اس بات نے قیدخانہ کے عملے اور دیگر قیدیوں کو متاثر کِیا ہے۔ جن قیدیوں کے ساتھ مَیں نے مطالعہ کِیا اُن میں سے بعض رِہا ہونے کے بعد اب خوشخبری کے مُناد بن گئے ہیں۔
کچھ عرصہ تک مَیں نے تین بدنام منشیاتفروشوں کے ساتھ مطالعہ کِیا۔ جب انہوں نے روحانی ترقی کی تو اُنہوں نے داڑھی منڈوائی، بال بنائے اور یونان میں انتہائی گرم مہینے اگست کے وسط میں شرٹ اور ٹائی پہن کر اپنے بائبل مطالعے کے لئے آئے! قیدخانہ کے ڈائریکٹر، چیف نگران اور بعض ملازم اپنے دفاتر سے بڑی تیزی کے ساتھ اس عجیبوغریب منظر کو دیکھنے کے لئے نکلے۔ انہیں اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آ رہا تھا!
عورتوں کے قیدخانہ میں، ایک اَور حوصلہافزا تجربہ پیش آیا۔ قتل کے الزام میں عمرقید کاٹنے والی ایک عورت کے ساتھ بھی بائبل مطالعہ شروع ہو گیا تھا۔ وہ اپنی باغیانہ روش کے لئے مشہور تھی۔ تاہم، جلد ہی بائبل سچائی کی وجہ سے قابلِدید تبدیلیاں پیدا ہونا شروع ہو گئیں جنہیں دیکھ کر بہتیروں نے کہا کہ وہ شیر سے ایک بھیڑ بن گئی ہے! (یسعیاہ ۱۱:۶، ۷) اس نے جلد ہی قیدخانہ کے ڈائریکٹر کا احترام اور بھروسا حاصل کر لیا۔ مَیں اُسے عمدہ روحانی ترقی اور خود کو یہوواہ کے لئے مخصوص کرتے دیکھ کر خوش تھا۔
کمزور اور عمررسیدہ اشخاص کی مدد کرنا
اپنی بیوی کو بیماری سے طویل جنگ لڑتے دیکھنے سے مجھ میں بیمار اور عمررسیدہ اشخاص کے لئے اَور زیادہ احساس پیدا ہو گیا تھا۔ ہماری مطبوعات میں ایسے اشخاص کی مشفقانہ مدد کرنے کی حوصلہافزائی کے سلسلے میں شائع ہونے والے تمام مضامین میرے لئے بڑی دلچسپی کے حامل ہوتے تھے۔ مَیں نے ایسے مضامین کی قدر کرتے ہوئے انہیں سنبھال کر رکھا ہے۔ کچھ سال گزرنے کے بعد، مَیں نے ایک فولڈر میں ایک سو سے زائد صفحات جمع کر لئے—یہ جولائی ۱۵، ۱۹۶۲ دی واچٹاور کے شمارے کے اس مضمون سے شروع ہوتا ہے، ”عمررسیدہ اور غمزدہ اشخاص کے لئے پاسولحاظ۔“ ان میں سے بہتیرے مضامین نے ظاہر کِیا کہ ہر کلیسیا کے لئے بیمار اور عمررسیدہ لوگوں کی ملکر مدد کرنا فائدہمند ہے۔—۱-یوحنا ۳:۱۷، ۱۸۔
بزرگوں نے کلیسیا کے بیمار اور عمررسیدہ اشخاص کی ضروریات کی دیکھبھال کے لئے خود کو دستیاب رکھنے والے بھائی بہنوں کا ایک گروہ تشکیل دیا۔ ہم نے مختلف ٹیموں میں رضاکار منظم کئے—جن میں سے بعض نے دن کے وقت مدد دینی تھی، دیگر رات کے وقت مدد کر سکتے تھے، بعض سواری فراہم کر سکتے تھے اور کچھ ۲۴ گھنٹے دستیاب رہتے تھے۔ یہ آخری افراد فلائنگ سکواڈ کی مانند تھے جو فوری طور پر مدد پہنچانے کے لئے تیار تھے۔
ایسی کوششوں کے نتائج حوصلہافزا رہے۔ مثال کے طور پر، تنہا رہنے والی ایک بہن روزانہ کی ایک ملاقات کے دوران فرش پر بیہوش پائی گئی۔ ہم نے ایک بہن کو اطلاع دی جو قریب ہی رہتی تھی اور جس کے پاس کار تھی۔ وہ بیمار بہن کو صرف دس منٹ میں قریبی ہسپتال لے گئی! ڈاکٹروں نے کہا کہ ایسا کرنے سے اس کی جان بچ گئی ہے۔
کمزور اور عمررسیدہ اشخاص کی طرف سے گروپ کے ارکان کے لئے دکھائی جانے والی شکرگزاری انتہائی تسکینبخش ہے۔ خدا کے نئے نظام میں مختلف حالات کے تحت ان بھائی بہنوں کے ساتھ زندہ رہنے کی اُمید دل کو گرما دینے والی ہے۔ اس کے علاوہ، اس بات کا علم بھی ایک اجر ہے کہ اپنی تکلیف کے دوران انہیں حاصل ہونے والی مدد سے برداشت کرنے میں ان کی مدد ہوئی ہے۔
بااجر استقلال
مَیں اس وقت پائریوس کی ایک کلیسیا میں بزرگ کے طور پر خدمت کر رہا ہوں۔ عمررسیدہ ہونے اور صحت کے مسائل کے باوجود مَیں خوش ہوں کہ اب تک کلیسیا کے کاموں میں سرگرم شرکت کر رہا ہوں۔
ان سالوں کے دوران، صبرآزما حالات، کٹھن چیلنج اور حادثات نے انتہائی استقلال اور ثابتقدمی کا تقاضا کِیا ہے۔ تاہم، یہوواہ نے مجھے ان مشکلات پر غالب آنے کے لئے ہمیشہ ضروری طاقت دی ہے۔ مجھے باربار زبورنویس کی اس بات کی سچائی کا تجربہ ہوا ہے: ”جب مَیں نے کہا میرا پاؤں پھسل چلا تو اَے [یہوواہ]! تیری شفقت نے مجھے سنبھال لیا۔ جب میرے دل میں فکروں کی کثرت ہوتی ہے تو تیری تسلی میری جان کو شاد کرتی ہے۔“—زبور ۹۴:۱۸، ۱۹۔
[صفحہ ۲۵ پر تصویر]
سن ۱۹۵۷ میں، دوسرے آپریشن کے وقت اپنی بیوی ایلینا کیساتھ
[صفحہ ۲۶ پر تصویر]
سن ۱۹۶۹ میں، نیورمبرگ، جرمنی میں کنونشن پر
[صفحہ ۲۸ پر تصویر]
بیمار اور عمررسیدہ اشخاص کی مدد کرنے والے بھائی بہنوں کا گروپ