پیدائش سے سکول تک
شِیرخوار کے دماغ کو ”کائنات کی سب سے ذہین اور لائق مشین“ کہا گیا ہے۔ اور واقعی پیدا ہوتے ہی بچے میں اِردگِرد کے ماحول کو دیکھنے، سننے اور محسوس کرنے کی صلاحیت ہوتی ہے۔
ایک ننھا بچہ کن چیزوں کی طرف سب سے زیادہ متوجہ ہوتا ہے؟ ایک ماہرِنفسیات نے اپنی کتاب شِیرخواری کا زمانہ میں لکھا: ”اِس بارے میں بڑی تحقیق کی گئی ہے کہ شِیرخوار بچے کن چیزوں کو دیکھنے، کونسی آوازوں کو سننے اور کونسے لمس محسوس کرنے کا شوق رکھتے ہیں۔ اِس سلسلے میں دریافت ہوا ہے کہ ایک ننھے بچے کو سب سے زیادہ اُس شخص کو دیکھنے، سننے اور محسوس کرنے کا شوق ہوتا ہے جو اُس کا خیال رکھتا ہے۔“ اِس سے ظاہر ہوتا ہے کہ والدین بچے کی شخصیت کو ڈھالنے میں نہایت اہم کردار ادا کرتے ہیں۔—یہ کتاب انگریزی میں دستیاب ہے۔
’مَیں بچوں کی طرح بولتا تھا‘
ڈاکٹر اور والدین اِس بات پر حیران ہیں کہ ننھے بچے ایک زبان کو سننے سے ہی اِسے سیکھ جاتے ہیں۔ تحقیقدانوں نے دریافت کِیا ہے کہ بچہ اپنی پیدائش کے کچھ دن بعد اپنی ماں کی آواز پہچاننے لگتا ہے اور کسی دوسرے شخص کی آواز کی نسبت اپنی ماں کی آواز کو سننا زیادہ پسند کرتا ہے۔ کچھ ہفتے بعد بچہ اپنے والدین کی زبان اور دوسری زبانوں میں فرق کرنا سیکھ لیتا ہے۔ اور کچھ مہینے بعد بچے کو اندازہ ہو جاتا ہے کہ آیا لوگ باتیں کر رہے ہیں یا بس آوازیں نکال رہے ہیں۔
یسوع مسیح کے ایک شاگرد پولس رسول نے کہا: ”جب مَیں [شِیرخوار] بچہ تھا تو [شِیرخوار] بچوں کی طرح بولتا تھا۔“ (۱-کرنتھیوں ۱۳:۱۱) کیا شِیرخوار بچے بھی بول سکتے ہیں؟ عام طور پر وہ طرحطرح کی بےمعنی آوازیں نکالتے ہیں۔ اِس سلسلے میں ایک ماہرِنفسیات نے اپنی کتاب پہلے پانچ سالوں میں بچے کے دماغ میں کیا ہوتا ہے؟ میں لکھا: ”یوں تو بچہ اِس لئے پیاریپیاری آوازیں نکالتا ہے تاکہ دوسرے اُس کی طرف متوجہ ہوں۔ لیکن اِس کا ایک اَور بھی فائدہ ہوتا ہے۔ دراصل بولنے کے لئے ہونٹ، زبان، تالُو اور نرخرے میں بہت سے پٹھوں کو مل کر کام کرنا پڑتا ہے۔ لہٰذا جب بچہ ایسی آوازیں نکالتا ہے تو وہ بولنے کی مشق کر رہا ہوتا ہے۔“ —انگریزی میں دستیاب۔
جب بچہ غوںغاں کرتا ہے تو والدین اُس سے لاڈ بھرے لہجے میں بات کرتے ہیں۔ والدین کا لاڈ بھرا لہجہ سُن کر بچہ اپنے طریقے سے اُن کو جواب دیتا ہے۔ جب ماںباپ اور ننھا بچہ اِس طرح ایک دوسرے سے بات کرتے ہیں تو بچہ باتچیت کرنے کا ہنر سیکھتا ہے۔ یہ ہنر زندگیبھر اُس کے کام آئے گا۔
بچے کا راج
بچے کی پیدائش کے بعد والدین اُس کی ضروریات پوری کرنے میں مصروف ہو جاتے ہیں۔ بچہ روتا ہے، والدین اُسے دودھ پلاتے ہیں؛ بچہ روتا ہے، والدین اُس کا نیپی بدلتے ہیں؛ بچہ روتا ہے، والدین اُسے سہلاتے ہیں۔ واقعی زندگی کے اِس مرحلے میں بچہ اپنے والدین کی مدد کا محتاج ہوتا ہے۔ ننھا بچہ اپنے لئے کوئی کام نہیں کر سکتا اِس لئے والدین کو اُس کے لاڈ اُٹھانے چاہئیں۔—۱-تھسلنیکیوں ۲:۷۔
چونکہ والدین اپنے ننھے بچے کے ناز نخرے اُٹھاتے ہیں اِس لئے بچے کو لگتا ہے کہ وہ کائنات کی سب سے اہم ہستی ہے۔ اُس کے خیال میں بڑوں کی زندگی کا واحد مقصد اُس کی خدمت کرنا ہے۔ یہ بچے کی غلطفہمی ہے۔ لیکن یاد رکھیں کہ جب سے بچہ پیدا ہوا، اُس کے والدین اُس کے اشاروں پر ناچ رہے تھے۔ اِس لئے کوئی حیرانی کی بات نہیں کہ بچہ خود کو بادشاہ سمجھتا ہے اور بڑوں کو اپنا غلام۔ ماہرِنفسیات جان روزمنڈ کے مطابق ”زندگی کے پہلے ۲ سال میں بچہ والدین کے رویے سے اِس غلطفہمی کا شکار ہو جاتا ہے کہ وہ سب سے اہم ہے۔ پھر اگلے ۱۶ سال کے دوران والدین اِس غلطفہمی کو دُور کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ عجیب تو ہے لیکن والدین کو ایسا ہی کرنا چاہئے۔ اُنہیں پہلے تو اپنے بچے کو یہ تاثر دینا چاہئے کہ وہ سب سے اہم ہے اور پھر آہستہآہستہ بڑے پیار سے اِس تاثر کو ختم کرنا چاہئے۔“
جب بچے کی عمر تقریباً دو سال ہو جاتی ہے تو اُس کی یہ غلطفہمی دُور ہونے لگتی ہے کہ وہ سب سے اہم ہے۔ اِس عمر میں والدین بچے کی تربیت کرنے لگتے ہیں۔ لہٰذا بچے کو احساس ہونے لگتا ہے کہ والدین کو اُس کا نہیں بلکہ اُس کو والدین کا کہنا ماننا چاہئے۔ یوں سمجھئے کہ بچے کا تختہ اُلٹا دیا گیا ہے اور وہ اِس پر خوش نہیں۔ وہ اپنی حکمرانی کو قائم رکھنے کے لئے زورآزمائی کرتا ہے۔ آئیں، دیکھیں وہ کس طرح سے اپنا رُعب جمانے کی کوشش کرتا ہے۔
راج کا زوال
جب بچے کی عمر دو سال کے لگبھگ ہوتی ہے تو اُس کے مزاج میں تبدیلی آ جاتی ہے۔ بچہ باتبات پر کہتا ہے: ”نہیں کروں گا۔“ اُسے غصے کے دورے پڑتے ہیں۔ وہ چیختا چلاتا ہے، زمین پر ہاتھپاؤں پٹختا ہے اور زورزور سے روتا ہے۔ بچے کی زندگی کا یہ مرحلہ والدین کے لئے آفت سے کم نہیں ہوتا۔ دراصل بچے کے دل میں ملےجلے جذبات اُٹھتے ہیں۔ وہ بیک وقت اپنے والدین سے دُور رہنا چاہتا ہے اور اُن کے پاس رہنا چاہتا ہے۔ اُس کو خود پر اور اپنے ماںباپ پر غصہ آتا ہے۔ والدین کی سمجھ میں نہیں آتا کہ اُن کے بچے کو آخر کیا ہو گیا ہے۔ وہ اُس کو قابو میں رکھنے کی کوشش تو کرتے ہیں لیکن اُنہیں لگتا ہے کہ بچے پر کسی بات کا اثر ہی نہیں ہو رہا۔ بچے کے مزاج میں یہ تبدیلی کیوں آئی ہے؟
دراصل بچے کی زندگی میں ایک بہت بڑی تبدیلی آئی ہے۔ اب تک بچے نے جب بھی چُوں کی، والدین بھاگے آئے اور اُس کی خدمت کرنے لگے۔ لیکن اب اُسے یہ احساس ہو رہا ہے کہ اُس کی حکمرانی کا دور ختم ہو گیا ہے اور اُسے اپنے بعض کام خود کرنے پڑیں گے۔ وہ یہ سمجھنے لگتا ہے کہ اُس کی مرضی نہیں چلے گی بلکہ اُسے اپنے والدین کا تابعدار رہنا ہوگا۔ پاک صحیفوں میں یہ ہدایت دی گئی ہے کہ ”بچو! تمہارا فرض ہے کہ ہر بات میں والدین کے فرمانبردار رہو۔“—کلسیوں ۳:۲۰، نیو اُردو بائبل ورشن۔
بچے کی زندگی کے اِس مشکل مرحلے میں والدین کو کیسا رویہ اپنانا چاہئے؟ اُنہیں اپنے بچے پر واضح کر دینا چاہئے کہ گھر کی باگڈور اُن کے ہاتھ میں ہے۔ اگر وہ بڑے پیار سے ایسا کریں گے اور اِس کے ساتھساتھ اپنی بات کے پکے رہیں گے تو بچے کے لئے اُن کا کہنا ماننا قدراً آسان ہو جائے گا۔ یوں بچے کی شخصیت کو مزید نکھارنے کی راہ ہموار ہو جائے گی۔
ایک خوشکُن تبدیلی
یوں تو چند جانور اور مشینیں بھی انسانوں کی زبان کے کچھ لفظ سمجھ لیتے ہیں اور بول لیتے ہیں۔ لیکن صرف انسان اپنی حرکتوں کا جائزہ لینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ جب بچہ دو تین سال کے لگبھگ ہوتا ہے تو وہ فخر، شرم اور ندامت جیسے احساسات محسوس کرنے لگتا ہے۔ اِس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اُس میں ضمیر کی آواز بیدار ہو رہی ہے۔ وہ ایک ایسا شخص بننے کی طرف قدم بڑھا رہا ہے جو صحیح اور غلط میں تمیز کرکے سیدھی راہ پر قائم رہنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
اِسی عمر میں والدین بچے میں ایک نئی تبدیلی دیکھ کر بہت خوش ہوتے ہیں۔ اُن کا بچہ دوسروں کے احساسات اور جذبات کو محسوس کرنے لگتا ہے۔ دو سال کی عمر تک بچہ دوسرے بچوں سے الگ کھیلا کرتا تھا لیکن اب وہ اُن کے ساتھ مل کر کھیلتا ہے۔ بچے کو یہ بھی اندازہ ہو جاتا ہے کہ اُس کے ماںباپ کس بات سے خوش ہوتے ہیں اور وہ اُن کو خوش کرنا چاہتا ہے۔ اِس لئے بچہ اکثر تربیت قبول کرنے پر راضی ہو جاتا ہے۔
تین سال کی عمر میں بچہ اخلاقی قدریں اور اصول سیکھنے لگتا ہے اور اچھے اور بُرے میں تمیز کرنے لگتا ہے۔ یہی وہ وقت ہوتا ہے جب والدین کو اپنے بچے کی شخصیت میں نکھار لانے کی بھرپور کوشش کرنی چاہئے تاکہ وہ عمدہ شخصیت کا مالک بنے۔
[صفحہ ۵ پر عبارت]
بچہ پیدائش کے کچھ دن بعد اپنی ماں کی آواز پہچاننے لگتا ہے اور کسی دوسرے کی آواز کی نسبت اپنی ماں کی آواز سننا زیادہ پسند کرتا ہے۔
[صفحہ ۶ پر عبارت]
تین سال کی عمر میں بچہ اخلاقی قدریں اور اصول سیکھنے لگتا ہے اور اچھے اور بُرے میں تمیز کرنے لگتا ہے۔
[صفحہ ۶ پر بکس]
غصے کے دورے—بات منوانے کا حربہ
جان روزمنڈ نے بچوں کی پرورش کے سلسلے میں ایک کتاب لکھی جس میں اُنہوں نے کہا: ”بعض والدین کو لگتا ہے کہ بچے کو اِس لئے غصے کے دورے پڑتے ہیں کیونکہ اُنہوں نے بچے کی خواہش پوری نہیں کی، سو غلطی اُن کی ہے۔ لہٰذا وہ اپنی غلطی کی تلافی کرنے کے لئے بچے کو اُس بات کی اجازت دے دیتے ہیں جس کے لئے اُنہوں نے پہلے منع کِیا تھا۔ یا پھر وہ بچے کی فرمائش سے بڑھ کر اُس کو دیتے ہیں کیونکہ اُنہوں نے اُس کی پٹائی کی تھی اور اب اُن کا ضمیر اُن کو کوس رہا ہے۔ والدین کے اِس رویے سے بچے کا غصہ دُور ہو جاتا ہے۔ اِس پر والدین خوش ہوتے ہیں اور بچہ یہ سیکھ جاتا ہے کہ غصہ کرنے سے اپنی بات منوائی جا سکتی ہے۔ لہٰذا وہ باربار اِس حربے کو استعمال کرتا ہے۔“