ایوب
9 یہ سُن کر ایوب نے کہا:
2 ”مَیں اِس حقیقت سے اچھی طرح واقف ہوں۔
لیکن فانی اِنسان خدا کے سامنے صحیح کیسے ہو سکتا ہے؟
3 اگر کوئی خدا سے بحث کرنا چاہے*
تو اُس کے ہزار سوالوں میں سے ایک کا بھی جواب نہیں دے پائے گا۔
4 وہ اِنتہائی دانشمند اور بےحد طاقتور ہے۔
کون ہے جو اُس کے خلاف جائے اور صحیح سلامت رہے؟
5 وہ پہاڑوں کو کھسکا* دیتا ہے اور کسی کو پتہ بھی نہیں چلتا؛
وہ غصے میں اُنہیں اُلٹا دیتا ہے۔
6 وہ زمین کو اُس کی جگہ سے ہلا دیتا ہے
اور اُس کے ستون کانپ جاتے ہیں۔
7 وہ سورج کو حکم دیتا ہے کہ نہ چمکے
اور ستاروں کی روشنی بند کر دیتا ہے۔
8 وہ خود آسمان کو چادر کی طرح پھیلاتا ہے
اور سمندر کی اُونچی لہروں پر چلتا ہے۔
9 اُس نے عاش،* کیسل* اور کیماہ* نامی جُھرمٹ بنائے ہیں
اور جنوبی آسمان کے ستاروں کے جُھرمٹ بھی۔
10 وہ ایسے کام کرتا ہے جو عظیم اور سمجھ سے باہر ہیں؛
ایسے حیرانکُن کام جن کو شمار کرنا ممکن نہیں۔
11 وہ میرے پاس سے گزر جاتا ہے اور مَیں اُسے دیکھ نہیں پاتا؛
وہ میرے سامنے سے آگے نکل جاتا ہے اور مَیں اُسے پہچان نہیں پاتا۔
12 جب وہ کچھ چھینتا ہے تو کون اُسے روک سکتا ہے؟
کون اُس سے کہہ سکتا ہے کہ ”تُو کیا کر رہا ہے؟“
13 خدا اپنا غصہ نہیں روکے گا؛
رہب* کے مددگار بھی اُس کے سامنے جھک جائیں گے۔
14 تو پھر بھلا مَیں اُسے کیسے جواب دے سکتا ہوں؟
مجھے تو اُس سے بات کرنے کے لیے سوچ سمجھ کر لفظوں کا اِنتخاب کرنا ہوگا۔
15 اگر مَیں صحیح بھی ہوں تو بھی مَیں اُسے جواب نہیں دوں گا؛
مَیں بس اپنے منصف* سے رحم کی بھیک مانگ سکتا ہوں۔
16 اگر مَیں اُسے پکاروں تو کیا وہ مجھے جواب دے گا؟
مجھے نہیں لگتا کہ وہ میری آواز سنے گا
17 کیونکہ وہ مجھے مصیبتوں کے طوفان سے کچلتا ہے
اور مجھے بِلاوجہ زخم پر زخم دیتا ہے؛
18 وہ مجھے سانس بھی نہیں لینے دیتا
اور میری زندگی کو تلخیوں سے بھرتا رہتا ہے۔
19 اگر طاقت کی بات کی جائے تو اُس جتنا طاقتور کون ہے؟
اگر اِنصاف کی بات کی جائے تو وہ کہتا ہے: ”کون مجھ سے جواب طلب کر سکتا ہے؟“*
20 اگر مَیں صحیح بھی ہوں تو میرا اپنا مُنہ مجھے قصوروار ٹھہرائے گا؛
21 اگر مَیں بےقصور بھی ہوں*
تو بھی مَیں اپنے بارے میں یقین سے کچھ نہیں کہہ سکتا؛
نہیں چاہیے مجھے ایسی زندگی۔*
22 خیر، بات تو ایک ہی ہے۔ اِسی لیے مَیں کہتا ہوں:
”خدا بےقصور* اور بُرے لوگوں دونوں کو تباہ کر دیتا ہے۔“
23 جب کوئی سیلاب اچانک بہت سی زندگیاں بہا لے جاتا ہے
تو وہ بےقصوروں کی بےبسی کا مذاق اُڑاتا ہے۔
24 زمین بُرے لوگوں کے حوالے کر دی گئی ہے؛
اُس نے اِس کے منصفوں کی آنکھوں پر پٹی باندھ دی ہے۔*
اگر یہ اُس نے نہیں کِیا تو پھر کس نے کِیا ہے؟
25 میری زندگی کے دن دوڑنے والے سے بھی تیز بھاگ رہے ہیں؛
وہ کچھ اچھا دیکھے بغیر ہی تیزی سے گزرتے جا رہے ہیں۔
26 وہ سرکنڈے کی تیز رفتار کشتیوں کی طرح ہیں
اور اُن عقابوں کی طرح جو پُھرتی سے اپنے شکار پر جھپٹتے ہیں۔
27 اگر مَیں کہوں: ”مَیں اپنا دُکھ بھول جاؤں گا
اور اپنے چہرے سے اُداسی دُور کر کے خوش رہوں گا“
28 تو بھی مَیں اپنی ساری تکلیفوں کی وجہ سے خوفزدہ ہوں گا۔
مَیں جانتا ہوں کہ تُو مجھے بےقصور نہیں سمجھے گا۔
29 اگر مجھے قصوروار* ہی ٹھہرایا جانا ہے
تو پھر مَیں خود کو بےقصور ثابت کرنے کی کوشش کیوں کروں؟
30 اگر مَیں پگھلتی برف کے پانی میں نہا لوں
اور صابن* سے اپنے ہاتھ دھو لوں
31 تو تُو مجھے کیچڑ کے گڑھے میں دھنسا دے گا
اور میرے کپڑوں کو بھی مجھ سے گِھن آئے گی۔
32 وہ میری طرح اِنسان نہیں ہے کہ مَیں اُسے جواب دوں
اور ہم دونوں عدالت میں جا کے مُقدمہ لڑیں۔
34 اگر خدا مجھے مارنا بند کر دے*
اور اپنی دہشت سے مجھے خوفزدہ نہ کرے
35 تو مَیں بغیر کسی خوف کے اُس سے بات کروں گا
کیونکہ مَیں ایسا نہیں ہوں کہ ڈر ڈر کر بات کروں۔