یوحنا
9 جب یسوع وہاں سے جا رہے تھے تو اُنہوں نے ایک آدمی کو دیکھا جو پیدائش سے اندھا تھا۔ 2 اُن کے شاگردوں نے اُن سے پوچھا: ”ربّی، یہ آدمی اندھا کیوں پیدا ہوا؟ کیا اِس نے گُناہ کِیا تھا یا اِس کے ماں باپ نے؟“ 3 یسوع نے جواب دیا: ”نہ تو اِس آدمی نے گُناہ کِیا تھا اور نہ ہی اِس کے ماں باپ نے بلکہ اِس کے ذریعے تو خدا کے کاموں کو ظاہر ہونا ہے۔ 4 جب تک دن ہے، ہمیں اُس کے کام کرنے ہیں جس نے مجھے بھیجا ہے۔ رات آ رہی ہے جس میں کوئی شخص کام نہیں کر سکتا۔ 5 لیکن جب تک مَیں دُنیا میں ہوں، مَیں دُنیا کی روشنی ہوں۔“ 6 یہ کہہ کر یسوع نے زمین پر تھوکا اور مٹی کا لیپ بنا کر اُس آدمی کی آنکھوں پر لگایا 7 اور اُس سے کہا: ”جائیں، سِلُوام کے تالاب میں اپنا مُنہ دھو لیں۔“ (سِلُوام کا ترجمہ ہے: بھیجا گیا۔) اُس آدمی نے جا کر اپنا مُنہ دھویا اور جب وہ واپس آیا تو وہ دیکھ سکتا تھا۔
8 جب اُس آدمی کے جاننے والوں اور اُن لوگوں نے اُسے دیکھا جن کو پتہ تھا کہ وہ فقیر ہے تو اُنہوں نے کہا: ”کیا یہ وہ آدمی نہیں جو بیٹھ کر بھیک مانگا کرتا تھا؟“ 9 کچھ لوگ کہہ رہے تھے: ”ہاں، یہ وہی ہے۔“ دوسرے کہہ رہے تھے: ”نہیں، اِس کی شکل اُس سے ملتی ہے۔“ لیکن وہ آدمی بار بار کہہ رہا تھا: ”مَیں وہی ہوں۔“ 10 اِس پر لوگوں نے اُس سے پوچھا: ”تو پھر تمہاری آنکھیں کیسے ٹھیک ہوئیں؟“ 11 اُس نے جواب دیا: ”جس آدمی کا نام یسوع ہے، اُس نے مٹی کا لیپ بنا کر میری آنکھوں پر لگایا اور کہا کہ جا کر سِلُوام میں اپنا مُنہ دھو لو۔ مَیں نے جا کر مُنہ دھویا اور مجھے دِکھائی دینے لگا۔“ 12 لوگوں نے اُس سے کہا: ”وہ آدمی کہاں ہے؟“ اُس نے کہا: ”مجھے نہیں پتہ۔“
13 لوگ اُس کو فریسیوں کے پاس لے گئے۔ 14 اِتفاق سے جس دن یسوع نے لیپ بنا کر اُس کی آنکھوں کو ٹھیک کِیا، وہ سبت کا دن تھا۔ 15 اِس لیے فریسی بھی اُس سے پوچھنے لگے کہ وہ کیسے ٹھیک ہو گیا۔ اُس نے جواب دیا: ”اُس آدمی نے میری آنکھوں پر لیپ لگایا اور مَیں نے مُنہ دھویا اور ٹھیک ہو گیا۔“ 16 اِس پر کچھ فریسیوں نے کہا: ”وہ خدا کی طرف سے نہیں آیا کیونکہ وہ سبت کے دن کو نہیں مناتا۔“ دوسروں نے کہا: ”ایک گُناہگار بھلا ایسے معجزے کیسے کر سکتا ہے؟“ لہٰذا اُن میں اِختلاف پیدا ہو گیا۔ 17 اُنہوں نے پھر سے اُس آدمی سے کہا: ”اُس نے تمہاری آنکھوں کو ٹھیک کِیا ہے تو تمہارا اُس کے بارے میں کیا خیال ہے؟“ اُس نے جواب دیا: ”وہ ایک نبی ہیں۔“
18 لیکن یہودیوں کو اِس بات پر یقین نہیں آ رہا تھا کہ وہ آدمی اندھا تھا اور اب ٹھیک ہو گیا ہے۔ اِس لیے اُنہوں نے اُس کے ماں باپ کو بلوایا 19 اور اُن سے پوچھا: ”کیا یہ تمہارا وہی بیٹا ہے جس کے بارے میں تُم کہتے ہو کہ یہ پیدائش سے اندھا تھا؟ تو اب اِس کی آنکھیں کیسے ٹھیک ہو گئیں؟“ 20 اُس کے ماں باپ نے جواب دیا: ”ہاں، یہ ہمارا بیٹا ہے اور پیدائش سے اندھا تھا۔ 21 لیکن ہم یہ نہیں جانتے کہ اِسے دِکھائی کیسے دینے لگا اور اِس کی آنکھیں کس نے ٹھیک کی ہیں۔ اِسی سے پوچھیں۔ یہ بالغ ہے اور خود جواب دے سکتا ہے۔“ 22 اُس کے ماں باپ نے یہ اِس لیے کہا کیونکہ وہ یہودیوں سے ڈرتے تھے۔ دراصل یہودیوں نے آپس میں طے کِیا تھا کہ اگر کوئی شخص اِقرار کرے کہ یسوع، مسیح ہیں تو اُسے عبادتگاہ سے خارج کر دیا جائے گا۔ 23 اِسی لیے اُس کے ماں باپ نے کہا: ”یہ بالغ ہے۔ اِسی سے پوچھیں۔“
24 لہٰذا یہودیوں نے دوسری بار اُس آدمی کو بلایا اور اُس سے کہا: ”خدا کو حاضروناظر جان کر سچ بولو۔ ہم جانتے ہیں کہ وہ آدمی گُناہگار ہے۔“ 25 اُس نے جواب دیا: ”مَیں یہ نہیں جانتا کہ وہ آدمی گُناہگار ہے کہ نہیں۔ لیکن مَیں یہ ضرور جانتا ہوں کہ مَیں اندھا تھا مگر اب دیکھ سکتا ہوں۔“ 26 پھر اُنہوں نے اُس سے پوچھا: ”اُس نے کس طرح تمہاری آنکھیں کھولی تھیں؟ اُس نے کیا کِیا تھا؟“ 27 اُس نے جواب دیا: ”مَیں پہلے بھی آپ کو بتا چُکا ہوں لیکن آپ نے میری بات نہیں سنی۔ آپ دوبارہ سے ساری بات کیوں سننا چاہتے ہیں؟ کہیں آپ بھی تو اُس کے شاگرد نہیں بننا چاہتے؟“ 28 اِس پر اُنہوں نے مذاق اُڑاتے ہوئے کہا: ”تُم ہوگے اُس کے شاگرد۔ ہم تو موسیٰ کے شاگرد ہیں۔ 29 ہم جانتے ہیں کہ خدا نے موسیٰ سے باتیں کیں لیکن جہاں تک اُس آدمی کا تعلق ہے، ہمیں نہیں پتہ کہ اُسے کس نے بھیجا ہے۔“ 30 اُس نے کہا: ”یہ تو بڑی عجیب بات ہے کہ آپ نہیں جانتے کہ اُسے کس نے بھیجا ہے حالانکہ اُس نے میری آنکھیں ٹھیک کی ہیں۔ 31 ہم جانتے ہیں کہ خدا گُناہگاروں کی نہیں سنتا لیکن اگر کوئی شخص خدا سے ڈرتا ہے اور اُس کی مرضی پر چلتا ہے تو وہ اُس کی سنتا ہے۔ 32 آج تک کبھی یہ سننے میں نہیں آیا کہ کسی نے ایک پیدائشی اندھے کی آنکھیں ٹھیک کی ہوں۔ 33 اگر وہ آدمی خدا کی طرف سے نہیں آیا تو وہ کچھ بھی نہیں کر سکتا۔“ 34 اِس پر یہودیوں نے کہا: ”تُم خود تو پیدائش سے گُناہگار ہو اور ہمیں سکھا رہے ہو؟“ پھر اُنہوں نے اُس کو عبادتگاہ سے نکال دیا۔
35 یسوع کو خبر ملی کہ اُن لوگوں نے اُس آدمی کو نکال دیا ہے۔ جب وہ اُس سے ملے تو اُنہوں نے کہا: ”کیا آپ اِنسان کے بیٹے* پر ایمان لے آئے ہیں؟“ 36 اُس نے جواب دیا: ”جناب، مجھے بتائیں کہ وہ کون ہے تاکہ مَیں اُس پر ایمان لاؤں؟“ 37 یسوع نے کہا: ”آپ نے اُسے دیکھا ہے۔ دراصل وہ ابھی آپ سے بات کر رہا ہے۔“ 38 اُس آدمی نے کہا: ”جی مالک، مَیں اُس پر ایمان لاتا ہوں۔“ پھر اُس نے اُن کی تعظیم کی۔* 39 یسوع نے کہا: ”مَیں اِسی لیے دُنیا میں آیا ہوں کہ لوگوں کی عدالت کی جائے تاکہ جو اندھے ہیں، وہ دیکھ سکیں اور جو دیکھ سکتے ہیں، وہ اندھے ہو جائیں۔“ 40 جب اُن فریسیوں نے جو اُن کے ساتھ تھے، یہ سنا تو اُنہوں نے کہا: ”تمہارے خیال میں کیا ہم اندھے ہیں؟“ 41 یسوع نے اُن سے کہا: ”اگر آپ اندھے ہوتے تو آپ کو قصوروار نہ ٹھہرایا جاتا۔ لیکن آپ تو کہہ رہے ہیں کہ ”ہم دیکھ سکتے ہیں“ اِس لیے آپ کا گُناہ معاف نہیں ہوگا۔“