ایوب
29 اِس کے بعد ایوب نے اپنی بات* جاری رکھتے ہوئے کہا:
2 کاش کہ گزرا ہوا وقت واپس آ جائے؛
وہ دن لوٹ آئیں جب خدا میری حفاظت کرتا تھا؛
3 جب اُس کا چراغ میرے سر پر چمکتا تھا؛
جب مَیں اُس کی روشنی کی مدد سے تاریکی سے گزرتا تھا؛
4 جب میری جوانی عروج پر تھی؛
جب مجھے اپنے خیمے میں خدا کی دوستی کا احساس ہوتا تھا؛
5 جب لامحدود قدرت کا مالک میرے ساتھ تھا؛
جب میرے بچے* میرے آسپاس تھے؛
6 جب میرے پاؤں مکھن میں ڈوبے رہتے تھے
اور چٹانیں میرے لیے تیل کی ندیاں بہاتی تھیں؛
7 جب مَیں شہر کے دروازے پر جایا کرتا تھا
اور چوک میں اپنی جگہ پر بیٹھا کرتا تھا؛
8 جوان آدمی مجھے دیکھ کر راستہ چھوڑ دیتے تھے؛*
بوڑھے آدمی بھی اپنی جگہ سے اُٹھ جاتے اور کھڑے رہتے تھے؛
9 اعلیٰ عہدےدار خاموش رہتے تھے
اور اپنا ہاتھ اپنے مُنہ پر رکھ لیتے تھے؛
10 بااثر آدمی چپ ہو جاتے تھے
اور اُن کی زبان اُن کے تالُو سے چپک جاتی تھی؛
11 جو کوئی میری بات سنتا تھا، میری تعریف کرتا تھا
اور جو شخص مجھے دیکھتا تھا، میرے حق میں بولتا تھا
12 کیونکہ مَیں اُس غریب کو چھڑاتا تھا جو مدد کے لیے پکارتا تھا
اور یتیم اور بےسہارا شخص کو بچاتا تھا۔
13 جو شخص مرنے والا ہوتا تھا، وہ مجھے دُعا دیتا تھا؛
مَیں بیوہ کی مدد کر کے اُس کے چہرے پر خوشیاں بکھیر دیتا تھا۔
14 نیکی میرا لباس تھی
اور اِنصاف میرا چوغہ اور میری پگڑی۔
15 مَیں اندھوں کی آنکھیں
اور لنگڑوں کے پاؤں بنا۔
16 مَیں غریبوں کے لیے باپ کی طرح تھا؛
مَیں اجنبیوں کے مُقدمے کی تفتیش کرتا تھا۔
17 مَیں مُجرم کے جبڑے توڑ دیتا تھا
اور اُس کے دانتوں سے شکار چھڑا لیتا تھا۔
18 مَیں خود سے کہتا تھا: ”میری زندگی کے دن ریت کے ذرّوں کی طرح بےشمار ہوں گے
اور مَیں اپنے آشیانے میں مروں گا؛
19 میری جڑیں پانی کے اندر تک پھیل جائیں گی
اور میری شاخیں رات بھر اوس سے بھیگی رہیں گی؛
20 میری شان برقرار رہے گی
اور میری کمان سے تیر برستے رہیں گے۔“
21 لوگ میری باتیں سننے کے منتظر رہتے تھے
اور خاموشی سے میرے مشورے کا اِنتظار کرتے تھے۔
22 میرے بولنے کے بعد اُن کے پاس کہنے کو کچھ نہیں ہوتا تھا؛
میرے الفاظ اُن کے کانوں میں رس گھولتے* تھے۔
23 وہ ایسے میرا اِنتظار کرتے تھے جیسے کوئی بارش کا اِنتظار کرتا ہے؛
وہ ایسے میری باتیں سننے کے منتظر ہوتے تھے جیسے کوئی مُنہ کھول کر بہار کی بارش کا منتظر ہوتا ہے۔
24 جب مَیں اُنہیں دیکھ کر مسکراتا تھا تو اُنہیں یقین ہی نہیں آتا تھا؛
میرے چہرے کو خوشی سے دمکتا دیکھ کر اُنہیں اِعتماد ملتا تھا۔*
25 مَیں اُن کے سربراہ کے طور پر اُن کی رہنمائی کرتا تھا
اور ایسے رہتا تھا جیسے بادشاہ اپنی فوجوں کے درمیان رہتا ہے
اور جیسے تسلی دینے والا ماتم کرنے والوں کو تسلی دیتا ہے۔