ایوب
2 وہ پھول کی طرح کِھلتا اور پھر مُرجھا* جاتا ہے؛
وہ سائے کی طرح گزر جاتا اور غائب ہو جاتا ہے۔
3 پھر بھی تُو نے اُس پر نظریں جمائی ہوئی ہیں
اور تُو اُسے* اپنے ساتھ عدالت لے جاتا ہے۔
4 کیا کوئی ناپاک اِنسان کسی پاک اِنسان کو پیدا کر سکتا ہے؟
ہرگز نہیں!
5 اگر اُس کی زندگی کے دن مقرر ہیں
تو اُس کے مہینوں کا شمار تیرے ہاتھ میں ہے؛
تُو نے اُس کے لیے ایک حد مقرر کی ہے جسے وہ پار نہیں کر سکتا۔
6 اپنی نظریں اُس سے ہٹا لے تاکہ وہ آرام کر سکے
جب تک کہ وہ ایک مزدور کی طرح اپنا دن ختم نہ کر لے۔
7 درخت کے سلسلے میں بھی اُمید ہوتی ہے
کہ اگر اُسے کاٹ ڈالا جائے تو اُس پر دوبارہ کونپلیں نکلیں گی
اور اُس کی شاخیں بڑھتی رہیں گی۔
8 چاہے اُس کی جڑیں زمین میں پُرانی ہو جائیں
اور اُس کا تنا مٹی میں سُوکھ جائے
9 تو بھی پانی کی خوشبو ملتے ہی اُس میں کونپلیں پھوٹتی ہیں
اور ایسی شاخیں نکلتی ہیں جیسی نئے پودے سے نکلتی ہیں۔
10 لیکن اِنسان مر جاتا ہے اور بےبس پڑا رہتا ہے
جب وہ دم توڑ دیتا ہے تو اُس کا وجود ختم ہو جاتا ہے۔*
11 جیسے سمندر کا پانی غائب ہو جاتا ہے
اور جیسے دریا خالی ہو جاتا اور سُوکھ جاتا ہے
12 ویسے ہی اِنسان موت کی نیند سو جاتا ہے اور اُٹھتا نہیں؛
جب تک آسمان مٹ نہیں جاتا، وہ نہیں جاگے گا
اور نہ ہی اُسے نیند سے جگایا جائے گا۔
13 کاش کہ تُو مجھے قبر* میں چھپا دے
اور تب تک چھپائے رکھے جب تک تیرا غصہ ٹھنڈا نہ ہو جائے!
کاش کہ تُو میرے لیے ایک وقت مقرر کرے اور مجھے یاد فرمائے!
14 اگر اِنسان مر جائے تو کیا وہ پھر سے جی سکتا ہے؟
مَیں اپنی جبری خدمت* کے تمام دنوں کے دوران اِنتظار کروں گا
جب تک کہ مجھے چھٹکارا نہیں مل جاتا۔
15 تُو مجھے پکارے گا اور مَیں تجھے جواب دوں گا۔
تجھے اپنے ہاتھوں کی بنائی ہوئی چیز کو دیکھنے کی شدید آرزو* ہوگی۔
16 مگر ابھی تو تُو نے میرے ہر قدم پر کڑی نظر رکھی ہوئی ہے؛
تیری نگاہ صرف میرے گُناہوں پر ہے۔
17 تُو نے میری خطاؤں کو تھیلی میں ڈال کر مُہر لگا دی ہے
اور میری غلطیوں پر گوند لگا دی ہے۔
18 جیسے پہاڑ گِر جاتا اور چُور چُور ہو جاتا ہے؛
جیسے چٹان اپنی جگہ سے ہٹ جاتی ہے؛
19 جیسے پانی پتھروں کو گِھسا دیتا ہے
اور جیسے پانی کا تیز بہاؤ مٹی کو بہا لے جاتا ہے
ویسے ہی تُو نے فانی اِنسان کی اُمید چکنا چُور کر دی ہے۔
20 تُو اُس پر تب تک غالب رہتا ہے جب تک وہ فنا نہیں ہو جاتا
تُو اُس کا حُلیہ بگاڑ کر اُسے دُور بھیج دیتا ہے۔
21 اُس کے بیٹوں کو عزت دی جاتی ہے لیکن اُسے پتہ نہیں چلتا؛
اُنہیں ذِلت کا سامنا ہوتا ہے لیکن اُسے خبر نہیں ہوتی۔
22 اُسے درد کا احساس صرف تب تک ہوتا ہے
جب تک اُس کی سانسیں چلتی ہیں؛
وہ* صرف تب تک ماتم کرتا ہے
جب تک وہ زندہ رہتا ہے۔“