آپکی زندگی—اسکا مقصد کیا ہے؟
”مَیں نے . . . اپنے دل کو حکمت کی طرف مائل [رکھا] . . . جب تک معلوم [نہ کر لیا] کہ . . . عمربھر . . . بنیآدم کی بہبودی کس بات میں ہے۔“—واعظ ۲:۳۔
۱، ۲. اپنی ذات میں معقول دلچسپی رکھنا کیوں غلط نہیں ہے؟
کیا آپ کو اپنی ذات سے دلچسپی ہے، کیا نہیں ہے؟ یہ فطری بات ہے۔ لہٰذا ہم ہر روز کھانا کھاتے ہیں، جب تھک جاتے ہیں تو سو جاتے ہیں اور ہم دوستاحباب اور عزیزوں کی رفاقت میں رہنا پسند کرتے ہیں۔ اپنی ذات میں متوازن دلچسپی ظاہر کرتے ہوئے ہم کبھیکبھار کھیلتے کودتے، پیراکی کیلئے جاتے یا اپنے منپسند دیگر کام کرتے ہیں۔
۲ اپنی ذات میں ایسی دلچسپی بالکل اُسی بات کے مطابق ہے جسے تحریر کرنے کی خدا نے سلیمان کو تحریک دی: ”پس انسان کیلئے اس سے بہتر کچھ نہیں کہ وہ کھائے پئے اور اپنی ساری محنت کے درمیان خوش ہوکر اپنا جی بہلائے۔“ تجربے کی بِنا پر سلیمان نے مزید کہا: ”مَیں نے دیکھا کہ یہ بھی خدا کے ہاتھ سے ہے۔ اسلئے کہ مجھ سے زیادہ کون کھا سکتا اور کون مزہ اُڑا سکتا ہے؟“—واعظ ۲:۲۴، ۲۵۔
۳. زیادہتر لوگ کونسے پریشانکُن سوالات کو ناقابلِتردید پاتے ہیں؟
۳ تاہم آپ جانتے ہیں کہ زندگی محض کھانے، پینے، سونے اور کچھ نیکی کرنے کا نام نہیں ہے۔ ہمیں تکالیف، مایوسیوں اور پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اور ایسا دکھائی دیتا ہے کہ ہمارے پاس اپنی زندگی کے مقصد پر غور کرنے کیلئے وقت ہی نہیں ہے۔ کیا آپ کے معاملے میں بھی ایسا ہی نہیں ہے؟ دی وال سٹریٹ جرنل کے سابق ایڈیٹر ورمنٹ راسٹر نے ہمارے وسیعتر علم اور مہارتوں کا بخوبی جائزہ لینے کے بعد لکھا: ”یہ ایک انتہائی عجیب بات ہے۔ جب ہم خود انسان پر، اُسکی دوہری مشکلات اور کائنات میں اُسکے مقام پر غور کرتے ہیں تو ہم زندگی کی ابتدا کے وقت سے آگے کچھ نہیں جانتے۔ ابھی تک ہمارے ذہن میں یہی سوالات ہیں کہ ہم کون ہیں اور ہماری زندگی کا مقصد کیا ہے اور ہمارا مستقبل کیا ہے؟“
۴. ہم میں سے ہر ایک کو اپنی ذات سے متعلق سوالات کا جواب دینے کے قابل کیوں ہونا چاہئے؟
۴ آپ ان سوالات کے جواب کیسے دینگے: ہم کون ہیں؟ ہماری زندگی کا مقصد کیا ہے؟ اور ہمارا مستقبل کیا ہے؟ گذشتہ جولائی کے دوران، مسٹر راسٹر وفات پا گئے۔ آپ کے خیال میں کیا اُس وقت تک اُس نے تسلیبخش جوابات حاصل کر لئے تھے؟ خاص بات یہ کہ کیا کوئی ایسا طریقہ ہے جس سے آپ ایسا کر سکیں؟ اور یہ کیسے ایک پُرمسرت، زیادہ بامقصد زندگی سے لطف اندوز ہونے میں آپکی مدد کر سکتا ہے؟ آئیے دیکھیں۔
بصیرت کا اصل ماخذ
۵. جب ہم زندگی کے مقصد کی بابت سوالات پر بصیرت حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو ہمیں خدا پر آس کیوں لگانی چاہئے؟
۵ جیسےکہ بہتیرے مردوں اور عورتوں، حتیٰکہ بہت زیادہ علم اور تجربہ رکھنے والے لوگوں کیساتھ ہوا، اگر ہمیں اپنے بلبوتے پر زندگی کے مقصد کو پانا ہوتا تو ہمیں بہت کم یا پھر کوئی بھی کامیابی حاصل نہ ہوتی۔ لیکن ہمیں تنہا نہیں چھوڑا گیا۔ ہمارے خالق نے مدد فراہم کی ہے۔ جب آپ اسکی بابت سوچتے ہیں تو کیا وہ ”ازل سے ابد تک“ اور کائنات اور تاریخ کا مکمل علم رکھنے والے کی حیثیت سے، بصیرت اور حکمت کا اصل ماخذ نہیں ہے؟ (زبور ۹۰:۱، ۲) اُس نے انسانوں کو خلق کِیا اور تمام انسانی تجربے کا مشاہدہ کِیا ہے، لہٰذا محدود علم اور ادراک والے ناکامل انسانوں کی بجائے، ہمیں بصیرت حاصل کرنے کیلئے اُسی پر آس لگانی چاہئے۔—زبور ۱۴:۱-۳؛ رومیوں ۳:۱۰-۱۲۔
۶. (ا) خالق نے درکار بصیرت کیسے فراہم کی ہے؟ (ب) سلیمان اس میں کیسے شامل ہے؟
۶ اگرچہ ہم خالق سے یہ توقع تو نہیں کر سکتے کہ وہ زندگی کے مقصد کی بابت ہمارے کان میں مکاشفہ پھونک دے توبھی اُس نے بصیرت کا ایک سرچشمہ—اپنا الہامی کلام مہیا کِیا ہے۔ (زبور ۳۲:۸؛ ۱۱۱:۱۰) اس سلسلے میں واعظ کی کتاب بالخصوص قابلِقدر ہے۔ خدا نے اس کے مصنف کو الہام بخشا اور یوں ”سلیمان کی حکمت سب اہلِمشرق کی حکمت . . . پر فوقیت رکھتی تھی۔“ (۱-سلاطین ۳:۶-۱۲؛ ۴:۳۰-۳۴) ”سلیمان کی حکمت“ نے ایک ملاقاتی ملکہ کو اسقدر متاثر کِیا کہ اُس نے کہا کہ اُسے تو آدھا بھی نہیں بتایا گیا تھا اور یہ کہ اُسکی حکمت کو سننے والے یقیناً مبارک ہونگے۔a (۱-سلاطین ۱۰:۴-۸) ہم بھی اُس الہٰی حکمت سے جو ہمارے خالق نے سلیمان کی معرفت فراہم کی بصیرت اور خوشی حاصل کر سکتے ہیں۔
۷. (ا) آسمان کے نیچے کئے جانے والے زیادہتر کاموں کی بابت سلیمان نے کیا نتیجہ اخذ کِیا؟ (ب) کیا چیز سلیمان کے حقیقتپسندانہ خیالات کو ظاہر کرتی ہے؟
۷ واعظ خداداد حکمت کو منعکس کرتی ہے جو سلیمان کے دل اور دماغ پر اثرانداز ہوئی تھی۔ ایسا کرنے کیلئے وقت، وسائل اور بصیرت رکھتے ہوئے، سلیمان نے ”جوکچھ آسمان کے نیچے کِیا جاتا ہے“ اُس کا جائزہ لیا۔ اُس نے دیکھا کہ یہ سب کچھ ”بطلان اور ہوا کی چران ہے،“ جوکہ ایک الہامی تجزیہ ہے جس پر ہمیں زندگی میں اپنے مقصد کی بابت سوچتے ہوئے دھیان دینا چاہئے۔ (واعظ ۱:۱۳، ۱۴، ۱۶) سلیمان نے صافگوئی اور حقیقتپسندی سے کام لیا۔ مثال کے طور پر، واعظ ۱:۱۵، ۱۸ میں پائے جانے والے اُس کے الفاظ پر غور کریں۔ آپ جانتے ہیں کہ صدیوں کے دوران انسانوں نے، بعضاوقات نیکنیتی سے مسائل حل کرنے اور لوگوں کی زندگی کو بہتر بنانے کیلئے مختلف اقسام کی حکومت کو آزمایا ہے۔ تاہم، کیا واقعی کوئی حکومت اس ناکامل نظام کی ”کجرو“ چیزوں کو سدھارنے کے قابل ہوئی ہے؟ اور شاید آپ نے دیکھا ہو کہ ایک شخص کا علم جتنا وسیع ہوتا ہے وہ اُتنا ہی خلوصدلی سے یہ محسوس کرتا ہے کہ اس مختصر سی زندگی میں مکمل طور پر معاملات کو سدھارنا ناممکن ہے۔ ایسی آگہی بہتیروں کیلئے مایوسی کا باعث بنتی ہے لیکن ضروری نہیں کہ ہمارے لئے بھی ہو۔
۸. کونسے نظام کافی عرصہ سے چل رہے ہیں؟
۸ ایک اَور غورطلب بات ہم پر بارہا اثرانداز ہونے والے نظام ہیں جیسےکہ سورج کا طلوع اور غروب ہونا یا ہوا اور پانی کی حرکات۔ یہ موسیٰ، سلیمان، نپولین اور ہمارے بڑےبوڑھوں کے زمانے میں بھی موجود تھے۔ اور اب تک موجود ہیں۔ اسی طرح، ”ایک پُشت جاتی ہے اور دوسری پُشت آتی ہے۔“ (واعظ ۱:۴-۷) انسانی نقطۂنظر سے، بہت کم تبدیلی واقع ہوئی ہے۔ قدیم اور جدید لوگوں کی مماثل سرگرمیاں، اُمیدیں، خواہشات اور کامرانیاں تھیں۔ اگرچہ انسانوں کے درمیان بعض اشخاص نے شہرت حاصل کی یا وہ خوبصورتی یا لیاقت میں غیرمعمولی تھے، آج وہ کہاں ہیں؟ مر گئے یا فراموشی کے عالم میں گم ہو گئے۔ لیکن یہ کوئی خوفناک بات نہیں ہے۔ زیادہتر لوگ اپنے بڑےبوڑھوں کے نام بھی نہیں بتا سکتے یا یہ کہ وہ کہاں پیدا ہوئے اور دفن کئے گئے۔ پس آپ سمجھ سکتے ہیں کہ کیوں سلیمان نے حقیقتپسندی سے انسانی کاموں اور کاوشوں میں بطالت کو محسوس کِیا تھا۔—واعظ ۱:۹-۱۱۔
۹. نوعِانسان کی حالت کی بابت حقیقتپسندانہ بصیرت حاصل کرنے میں ہماری مدد کیسے ہو سکتی ہے؟
۹ ہمیں پریشان کرنے کی بجائے، نوعِانسان کی بنیادی حالت کی بابت یہ الہٰی بصیرت، ہمیں اس بات کی تحریک دیتے ہوئے ہم پر مثبت اثر ڈال سکتی ہے کہ ایسے مقاصد یا حاصلات سے غلط امیدیں وابستہ کرنے سے گریز کریں جو جلد ختم ہو جائینگے اور فراموش کر دئے جائینگے۔ اسے ہمیں اس چیز کا اندازہ لگانے کیلئے مدد دینی چاہئے کہ ہم زندگی سے کیا حاصل کر رہے ہیں اور ہم کیا سرانجام دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔ مثال کے طور پر، گوشہنشینی اختیار کرنے کی بجائے ہم متوازن کھانے اور پینے سے خوشی حاصل کر سکتے ہیں۔ (واعظ ۲:۲۴) اور جیسےکہ ہم دیکھینگے، سلیمان ایک مثبت اور رجائیتپسند نتیجے پر پہنچتا ہے۔ مختصراً یہ کہ ہمیں اپنے خالق کیساتھ اپنے رشتے کی گہری قدر کرنی چاہئے جو ہمیں ہمیشہ کیلئے پُرمسرت، بامقصد مستقبل حاصل کرنے میں مدد دے سکتا ہے۔ سلیمان نے تاکید کی: ”اب سب کچھ سنایا گیا۔ حاصلِکلام یہ ہے۔ خدا سے ڈر اور اُسکے حکموں کو مان کہ انسان کا فرضِکلی یہی ہے۔“—واعظ ۱۲:۱۳۔
دَورِحیات کے پیشِنظر مقصد
۱۰. کس طریقے سے سلیمان نے حیوانوں اور انسانوں کا موازنہ کِیا؟
۱۰ واعظ سے منعکس ہونے والی الہٰی حکمت زندگی میں ہمارے مقصد کی بابت غور کرنے میں ہماری مزید مدد کر سکتی ہے۔ وہ کیسے؟ اس میں سلیمان نے حقیقتپسندی سے دیگر ایسے حقائق پر توجہ دلائی ہے جنکی بابت ہم شاید شاذونادر ہی سوچتے ہیں۔ ان میں سے ایک انسانوں اور حیوانوں کے مابین مماثلتوں کی بابت ہے۔ یسوع نے مشفقانہ طور پر اپنے پیروکاروں کو بھیڑوں سے تشبِیہ دی جبکہ لوگ عموماً پسند نہیں کرتے کہ اُنکا جانوروں کیساتھ موازنہ کیا جائے۔ (یوحنا ۱۰:۱۱-۱۶) تاہم سلیمان چند ایک ناقابلِتردید حقائق پر بھی توجہ مبذول کراتا ہے: ”خدا اُنکو [بنی آدم کو] جانچے اور وہ سمجھ لیں کہ ہم خود حیوان ہیں۔ کیونکہ جوکچھ بنیآدم پر گذرتا ہے وہی حیوان پر گذرتا ہے۔ ایک ہی حادثہ دونوں پر گذرتا ہے جس طرح یہ مرتا ہے اُسی طرح وہ مرتا ہے۔ . . . اور انسان کو حیوان پر کچھ فوقیت نہیں کیونکہ سب بطلان ہے۔ . . . سب کے سب خاک سے ہیں اور سب کے سب پھر خاک سے جا ملتے ہیں۔“—واعظ ۳:۱۸-۲۰۔
۱۱. (ا) ایک جانور کے حقیقی دورِحیات کو کیسے بیان کِیا جا سکتا ہے؟ (ب) آپ ایسے تجزیے کی بابت کیسا محسوس کرتے ہیں؟
۱۱ کسی ایسے جانور کا تصور کریں جسے دیکھ کر آپ خوش ہوتے ہیں، شاید ایک پہاڑی سافان [بجو] یا ایک خرگوش۔ (استثنا ۱۴:۷؛ زبور ۱۰۴:۱۸؛ امثال ۳۰:۲۶) یا آپ ایک گلہری کا تصور کر سکتے ہیں؛ دُنیا میں اسکی ۳۰۰ سے زائد اقسام پائی جاتی ہیں۔ اسکا دورِحیات کیا ہے؟ اسکی پیدائش کے بعد، کچھ ہفتے اسکی ماں اسکی پرورش کرتی ہے۔ جلد ہی اسکے بال نکل آتے ہیں اور یہ باہر جا سکتی ہے۔ آپ شاید اسے خوراک کی تلاش کرنا سیکھنے کیلئے اِدھراُدھر بھاگتے ہوئے دیکھیں۔ لیکن اکثر ایسا دکھائی دیتا ہے کہ وہ محض کھیل رہی ہے، اپنی جوانی سے لطف اُٹھا رہی ہے۔ تقریباً ایک سال کی عمر کو پہنچ کر وہ ساتھی تلاش کر لیتی ہے۔ پھر اُسے ایک گھونسلا یا بھٹ بنانا پڑتا ہے اور اپنے بچوں کی دیکھبھال کرنی پڑتی ہے۔ اگر وہ کافی زیادہ بیریز، جوز اور بیج تلاش کر لیتی ہے تو گلہری کا خاندان تندرستوتوانا ہو سکتا ہے اور اپنے گھرانے کو بڑا کرنے کے قابل ہو سکتا ہے۔ لیکن محض چند سال میں، یہ جانور بوڑھا ہو جاتا اور طبعی طور پر ناگہانی حادثے اور بیماری کا شکار ہو جاتا ہے۔ تقریباً دس سال میں یہ مر جاتا ہے۔ اقسام کے لحاظ سے گلہری کا تھوڑا بہت فرق کیساتھ، دورِحیات ایک سا ہے۔
۱۲. (ا) حقیقتپسندانہ طور پر، کیوں بہت سے انسانوں کا دورِحیات عام جانور کی مانند ہے؟ (ب) جب ہم دوبارہ کسی ایسے جانور کو دیکھتے ہیں جو ہمارے ذہن میں تھا تو ہم کس چیز کی بابت سوچ سکتے ہیں؟
۱۲ زیادہتر لوگ کسی جانور کے ایسے دورِحیات پر اعتراض نہیں کریں گے اور وہ بمشکل ہی ایک گلہری سے زندگی میں معقول مقصد رکھنے کی توقع کرتے ہیں۔ تاہم، بہتیرے انسانوں کی زندگی اس سے کچھ زیادہ مختلف نہیں؟ وہ پیدا ہوتے ہیں اور بچوں کے طور پر پرورش پاتے ہیں۔ وہ کھاتے ہیں، نشونما پاتے ہیں اور جوان ہو کر موجمستی کرتے ہیں۔ جلد ہی وہ بالغ ہو جاتے ہیں، شریکِحیات کی تلاش کرتے ہیں اور رہنے کے لئے جگہ اور خوراک فراہم کرنے کے ذرائع کی جستجو میں لگ جاتے ہیں۔ اگر وہ کامیاب رہتے ہیں تو وہ اچھی زندگی گزار سکتے اور اپنے گھر (گھونسلے) کو وسیع کر سکتے ہیں جس میں وہ اولاد کی پرورش کریں گے۔ لیکن سال بڑی تیزی سے گزر جاتے ہیں اور وہ بوڑھے ہو جاتے ہیں۔ اگر پہلے نہیں تو وہ ”مشقت اور غم“ سے بھرے ہوئے ۷۰ یا ۸۰ سال بعد وفات پا جاتے ہیں۔ (زبور ۹۰:۹، ۱۰، ۱۲) جب آپ اگلی مرتبہ ایک گلہری (یا کسی دوسرے جانور کو جو آپ کے ذہن میں تھا) دیکھتے ہیں تو شاید آپ ان سنجیدہ حقائق کی بابت سوچیں۔
۱۳. حیوانوں اور انسانوں دونوں کیلئے کونسا انجام سچ ثابت ہوا ہے؟
۱۳ اب آپ سمجھ سکتے ہیں کہ سلیمان نے لوگوں کی زندگیوں کا حیوانوں سے کیوں موازنہ کِیا۔ اُس نے لکھا: ”ہر چیز کا ایک موقع [ہے] . . . پیدا ہونے کا ایک وقت ہے اور مر جانے کا ایک وقت ہے۔“ یہ مؤخرالذکر امکانی صورت یعنی موت انسانوں اور حیوانوں کے لئے یکساں ہے، ”جس طرح یہ مرتا ہے اُسی طرح وہ مرتا ہے۔“ اُس نے مزید کہا: ”سب کے سب خاک سے ہیں اور سب کے سب پھر خاک سے جا ملتے ہیں۔“—واعظ ۳:۱، ۲، ۱۹، ۲۰۔
۱۴. بعض انسان عام دورِحیات کو کیسے بدلنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن کس نتیجے کیساتھ؟
۱۴ ہمیں اس حقیقتپسندانہ خیال کو منفی سوچ خیال نہیں کرنا چاہئے۔ سچ ہے کہ بعض لوگ حالت کو تبدیل کرنے کی کوشش کرتے ہیں جیسےکہ اپنے والدین کی نسبت اپنی مالی حالت کو بہتر بنانے کیلئے اضافی کام کرنا۔ ہو سکتا ہے کہ زندگی کی بابت اپنے فہم کو وسیع کرنے کی کوشش کرتے ہوئے، وہ اعلیٰ معیارِزندگی فراہم کرنے کیلئے زیادہ عرصہ تک تعلیم حاصل کریں۔ یا شاید بہتر صحت اور قدرے طویل زندگی حاصل کرنے کیلئے وہ ورزش یا پرہیزی کھانوں پر زیادہ توجہ دیں۔ اور ہو سکتا ہے کہ یہ کاوشیں کسی حد تک فائدے کا باعث بنیں۔ لیکن کون اس چیز کی ضمانت دے سکتا ہے کہ ایسی کاوشیں کامیاب ثابت ہونگی؟ اگر وہ ہو بھی جائیں تو کتنے عرصے تک؟
۱۵. زیادہتر لوگوں کی زندگیوں کی بابت کونسا واضح اندازہ لگانا معقول ہے؟
۱۵ سلیمان نے استفسار کِیا: ”چونکہ بہت سی چیزیں ہیں جن سے بطالت فراوان ہوتی ہے پس انسان کو کیا فائدہ ہے؟ کیونکہ کون جانتا ہے کہ انسان کے لئے اُسکی زندگی میں یعنی اُسکی باطل زندگی کے تمام ایّام میں جنکو وہ پرچھائیں کی مانند بسر کرتا ہے کونسی چیز فائدہمند ہے؟ کیونکہ انسان کو کون بتا سکتا ہے کہ اُسکے بعد دُنیا میں کیا واقع ہوگا؟“ (واعظ ۶:۱۱، ۱۲) چونکہ موت ایک شخص کی کوششوں کو نسبتاً جلدی ختم کر دیتی ہے، کیا مادی اشیاء کو حاصل کرنے کیلئے جدوجہد کرنے یا بنیادی طور پر زیادہ مالومتاع کے حصول کیلئے کئی سال تک پڑھنے کا واقعی کوئی فائدہ ہے؟ اور چونکہ زندگی اسقدر قلیل، پرچھائیں کی مانند گزر جانے والی ہے، بہتیرے لوگ سمجھتے ہیں کہ جب ایک مرتبہ اُنہیں ناکامی کا احساس ہو جاتا ہے تو اس صورت میں کسی دوسرے انسانی نصبالعین کو حاصل کرنے کیلئے کوشش کرنا بیکار ہے؛ نہ ہی ایک شخص اس کی بابت پُراعتماد ہو سکتا ہے کہ ”اُس کے بعد“ اُس کے بچوں کے ساتھ کیا ہوگا۔
نیکنامی حاصل کرنے کا وقت
۱۶. (ا) ہمیں کونسا ایسا کام کرنا چاہئے جو جانور نہیں کر سکتے؟ (ب) اَور کونسے حقائق کو ہماری سوچ پر اثرانداز ہونا چاہئے؟
۱۶ جانوروں کے برعکس، ہم انسان یہ غوروخوض کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، ’میری زندگی کا کیا مقصد ہے؟ کیا یہ پیدا ہونے اور مرنے کے وقت کیساتھ، محض ایک مُتعیّنہ دَور ہے؟‘ اس سلسلے میں، انسان اور حیوان کی بابت سلیمان کے الفاظ کی صداقت کو یاد کریں: ”سب کے سب پھر خاک سے جا ملتے ہیں۔“ کیا اسکا یہ مطلب ہے کہ موت ایک شخص کی زندگی کو قطعی طور پر ختم کر دیتی ہے؟ بائبل ظاہر کرتی ہے کہ انسان غیرفانی جان نہیں رکھتے جو بدن سے الگ ہو کر زندہ رہتی ہے۔ انسان جانیں ہیں اور جو جان گناہ کرتی ہے وہ مرتی ہے۔ (حزقیایل ۱۸:۴، ۲۰) سلیمان نے مفصل طور پر بیان کِیا: ”زندہ جانتے ہیں کہ وہ مرینگے پر مُردے کچھ بھی نہیں جانتے اور اُنکے لئے اَور کچھ اجر نہیں کیونکہ اُنکی یاد جاتی رہی ہے۔ جو کام تیرا ہاتھ کرنے کو پائے اُسے مقدور بھر کر کیونکہ پاتال میں جہاں تُو جاتا ہے نہ کام ہے نہ منصوبہ۔ نہ علم نہ حکمت۔“—واعظ ۹:۵، ۱۰۔
۱۷. واعظ ۷:۱، ۲ کو ہمیں کس چیز پر غوروخوض کرنے کی ترغیب دینی چاہئے؟
۱۷ اس ناگزیر حقیقت کے پیشِنظر اس بیان پر غور کریں: ”نیکنامی بیشبہا عطر سے بہتر ہے اور مرنے کا دن پیدا ہونے کے دن سے۔ ماتم کے گھر میں جانا ضیافت کے گھر میں داخل ہونے سے بہتر ہے کیونکہ سب لوگوں کا انجام یہی ہے اور جو زندہ ہے اپنے دل میں اس پر سوچیگا۔“ (واعظ ۷:۱، ۲) ہمیں اس بات سے اتفاق کرنا چاہئے کہ موت ”سب لوگوں کا انجام“ رہی ہے۔ کوئی انسان ایسے اکسیرِحیات پینے، وٹامن کا مرکب کھانے، پرہیز کرنے یا ایسی ورزش کرنے کے قابل نہیں ہوا جو حیاتِابدی کا باعث بنی ہو۔ اور عموماً اُن کی موت کے بعد جلد ہی ”اُنکی یاد جاتی رہی ہے۔“ لہٰذا نیکنامی ”بیشبہا عطر سے اور مرنے کا دن پیدا ہونے کے دن سے بہتر“ کیوں ہے؟
۱۸. ہم کیوں یہ یقین رکھ سکتے ہیں کہ سلیمان قیامت پر یقین رکھتا تھا؟
۱۸ جیسےکہ بیان کِیا گیا ہے، سلیمان حقیقتپسند تھا۔ وہ اپنے آباؤاجداد ابرہام، اضحاق اور یعقوب کے بارے میں جانتا تھا جنہوں نے ہمارے خالق کے حضور واقعی نیکنامی حاصل کی تھی۔ ابرہام سے اچھی طرح واقف ہونے کی وجہ سے، یہوواہ خدا نے اُسے اور اُس کی نسل کو برکت دینے کا وعدہ کِیا۔ (پیدایش ۱۸:۱۸، ۱۹؛ ۲۲:۱۷) جیہاں، ابرہام خدا کا دوست بنتے ہوئے، اُس کے حضور نیکنام تھا۔ (۲-تواریخ ۲۰:۷؛ یسعیاہ ۴۱:۸؛ یعقوب ۲:۲۳) ابرہام جانتا تھا کہ اُس کی اور اُس کے بیٹے کی زندگی پیدائش اور موت کے کسی غیرمختتم دَور کا حصہ نہیں تھی۔ یقیناً اس کا بخرہ اس سے زیادہ تھا۔ اُن کے پاس دوبارہ زندہ ہونے کا یقینی امکان تھا اس لئے نہیں کہ وہ غیرفانی جان رکھتے تھے بلکہ اس لئے کہ وہ قیامت پائینگے۔ ابرہام اس بات کا یقین رکھتا تھا کہ ”خدا [اضحاق کو] مُردوں میں سے جِلانے پر بھی قادر ہے۔“—عبرانیوں ۱۱:۱۷-۱۹۔
۱۹. واعظ ۷:۱ کے مفہوم کے سلسلے میں ہم ایوب سے کیا بصیرت حاصل کر سکتے ہیں؟
۱۹ یہ اس بات کو سمجھنے کی کُنجی ہے کہ کیسے ”نیکنامی بیشبہا عطر سے اور مرنے کا دن پیدا ہونے کے دن سے بہتر ہے۔“ ایوب کو یاد رکھتے ہوئے، سلیمان اس بات سے قائل تھا کہ جس نے انسانی زندگی خلق کی ہے وہ اُسے بحال کر سکتا ہے۔ جو انسان مر گئے ہیں وہ اُنہیں دوبارہ زندہ کر سکتا ہے۔ (ایوب ۱۴:۷-۱۴) ایماندار ایوب نے کہا: ”تُو [یہوواہ] مجھے پکارتا اور مَیں تجھے جواب دیتا۔ تجھے اپنے ہاتھوں کی صنعت کی طرف رغبت ہوتی۔“ (ایوب ۱۴:۱۵) اسکی بابت سوچیں! اپنے وفادار خادموں کیلئے جو مر چکے ہیں، ہمارا خالق ”رغبت“ رکھتا ہے۔ (”تُو اپنی دستکاری کو دوبارہ دیکھنا چاہیگا۔“—دی جیروضلم بائبل) یسوع مسیح کے فدیے کی قربانی کا اطلاق کرنے سے، خالق انسانوں کو قیامت بخش سکتا ہے۔ (یوحنا ۳:۱۶؛ اعمال ۲۴:۱۵) واضح طور پر، انسان محض مرنے والے جانوروں سے مختلف ہو سکتے ہیں۔
۲۰. (ا) مرنے کا دن پیدا ہونے کے دن سے کب بہتر ہوتا ہے؟ (ب) لعزر کی قیامت نے بہتیرے لوگوں کو کیسے متاثر کِیا ہوگا؟
۲۰ اسکا مطلب ہے کہ اگر ایک شخص یہوواہ کے حضور، نیکنامی حاصل کر لیتا ہے جو مرنے والے ایماندار اشخاص کو قیامت بخش سکتا ہے تو مرنے کا دن اُس شخص کے پیدا ہونے کے دن سے بہتر ہو سکتا ہے۔ عظیم سلیمان، یسوع مسیح نے اسے ثابت کِیا۔ مثال کے طور پر، اُس نے ایماندار آدمی لعزر کو دوبارہ زندگی دی۔ (لوقا ۱۱:۳۱؛ یوحنا ۱۱:۱-۴۴) جیسےکہ آپ تصور کر سکتے ہیں، بہتیرے جنہوں نے لعزر کو زندہ ہوتے دیکھا، بہت زیادہ اثرپذیر ہوئے اور خدا کے بیٹے پر ایمان لے آئے۔ (یوحنا ۱۱:۴۵) آپ کے خیال میں یہ سوچےسمجھے بغیر کہ وہ کون تھے اور اُن کا مستقبل کیا تھا، کیا اُنہوں نے اپنی زندگیوں کو بےمقصد خیال کِیا تھا؟ اس کے برعکس، وہ سمجھ گئے تھے کہ اُنہیں محض حیوانوں کی مانند بننے کی ضرورت نہیں تھی جو پیدا ہوتے، کچھ عرصہ زندہ رہتے اور پھر مر جاتے ہیں۔ زندگی میں اُنکا مقصد براہِراست اور مضبوطی سے یسوع کے باپ کو جاننے اور اُسکی مرضی بجا لانے کیساتھ وابستہ تھا۔ آپ کی بابت کیا ہے؟ کیا اس بحث نے آپکو یہ دیکھنے یا اَور زیادہ واضح طور پر یہ سمجھنے میں مدد دی ہے کہ آپکی زندگی میں کیسے حقیقی مقصد ہو سکتا ہے اور ہونا بھی چاہئے؟
۲۱. ابھی ہم اپنی زندگی میں مقصد حاصل کرنے کے سلسلے میں کس پہلو کا جائزہ لینا چاہینگے؟
۲۱ تاہم، زندگی میں حقیقی اور پُرمعنی مقصد رکھنے کا مطلب موت اور اسکے بعد دوبارہ زندگی کی بابت سوچنے سے کہیں بڑھ کر ہے۔ اس میں یہ بھی شامل ہے کہ ہم اپنی زندگیاں روزمرّہ بنیاد پر کیسے بسر کر رہے ہیں۔ سلیمان نے واعظ میں اُس کی بھی وضاحت کی جیسےکہ ہم اگلے مضمون میں دیکھیں گے۔
[فٹنوٹ]
a ”سبا کی ملکہ کی بابت کہانی سلیمان کی حکمت پر زور دیتی ہے اور اس کہانی کو اکثر ایک فرضی داستان کہا جاتا ہے (۱-سلاطین ۱۰:۱-۱۳)۔ لیکن سیاقوسباق ظاہر کرتا ہے کہ سلیمان سے اُسکی ملاقات درحقیقت تجارتی مقاصد کیلئے تھی اور اس طرح قابلِفہم ہے؛ اسکی تاریخی صداقت پر شک کی گنجائش نہیں ہے۔“—دی انٹرنیشنل سٹینڈرڈ بائبل انسائیکلوپیڈیا (۱۹۸۸)، جِلد ۴، صفحہ ۵۶۷۔
کیا آپ کو یاد ہے؟
▫ جانور اور انسان کن طریقوں سے مماثل ہیں؟
▫ کیوں موت اس بات پر زور دیتی ہے کہ زیادہتر انسانی جدوجہد اور کام بطلان ہے؟
▫ مرنے کا دن پیدا ہونے کے دن سے کیسے بہتر ہو سکتا ہے؟
▫ زندگی میں ہمارے پُرمعنی مقصد کا انحصار کس رشتے پر ہے؟
[صفحہ 10 پر تصویریں]
آپ کی زندگی حیوانوں کی زندگی سے نمایاں طور پر کسطرح مختلف ہے؟