سموئیل کی پہلی کتاب
17 فِلسطینیوں نے اپنی فوجوں کو جنگ کے لیے اِکٹھا کِیا۔ وہ یہوداہ کے شہر شوکہ میں جمع ہوئے اور شوکہ اور عزیقہ کے بیچ اِفسدمّیم میں پڑاؤ ڈالا۔ 2 ساؤل اور اِسرائیل کے آدمی اِکٹھے ہوئے، وادیِاِیلاہ میں پڑاؤ ڈالا اور فِلسطینیوں سے جنگ کرنے کے لیے صفیں باندھیں۔ 3 ایک پہاڑ پر فِلسطینی تھے اور دوسرے پہاڑ پر اِسرائیلی اور اُن کے درمیان وادی تھی۔
4 پھر فِلسطینیوں کی خیمہگاہوں سے ایک سُورما نکلا جس کا نام جولیت تھا۔ وہ شہر جات سے تھا اور اُس کا قد چھ ہاتھ اور ایک بالشت* تھا۔ 5 اُس کے سر پر تانبے کا ہیلمٹ تھا اور اُس نے تانبے کا بکتر* پہنا ہوا تھا جس کا وزن 5000 مِثقال* تھا۔ 6 اُس نے اپنی پنڈلیوں پر تانبے کے بکتر پہنے ہوئے تھے اور اُس کے کندھوں کے بیچ میں تانبے کی برچھی لٹکی ہوئی تھی۔ 7 اُس کے نیزے کا لکڑی کا دستہ جُلاہے کی کھڈی کے شہتیر جیسا تھا اور اُس نیزے کے لوہے کے پھل کا وزن 600 مِثقال* تھا۔ اُس کا ڈھال اُٹھانے والا سپاہی اُس کے آگے آگے چل رہا تھا۔ 8 پھر جولیت کھڑا ہوا اور اِسرائیل کی صفوں کو للکار کر کہنے لگا: ”تُم لوگ صفیں باندھ کر جنگ کرنے کیوں آئے ہو؟ مَیں فِلسطینیوں کا سب سے زبردست جنگجو ہوں اور تُم ساؤل کے خادم ہو! اپنا کوئی آدمی چُنو اور اُسے میرا مقابلہ کرنے کے لیے نیچے میرے پاس بھیجو۔ 9 اگر اُس نے مجھ سے لڑ کر مجھے مار گِرایا تو ہم تمہارے خادم بن جائیں گے لیکن اگر مَیں اُس پر غالب آ گیا اور اُسے مار گِرایا تو تُم ہمارے خادم بن جاؤ گے اور ہماری خدمت کرو گے۔“ 10 پھر اُس فِلسطینی نے کہا: ”مَیں آج اِسرائیل کی صفوں کو للکارتا ہوں۔* کسی مرد کو بھیجو میرے پاس! ہو جائے مقابلہ!“
11 جب ساؤل اور سب اِسرائیلیوں نے اُس فِلسطینی کی یہ باتیں سنیں تو وہ دہشتزدہ ہو گئے اور اُن پر شدید خوف طاری ہو گیا۔
12 داؤد یہوداہ کے علاقے بیتلحم میں رہنے والے ایک اِفراتی کے بیٹے تھے جس کا نام یسی تھا۔ یسی کے آٹھ بیٹے تھے اور ساؤل کے زمانے میں یسی بوڑھے ہو چُکے تھے۔ 13 یسی کے تینوں بڑے بیٹے ساؤل کے ساتھ جنگ میں گئے ہوئے تھے۔ اُن کے پہلوٹھے بیٹے کا نام اِلیاب تھا، دوسرے بیٹے کا نام ابینداب تھا اور تیسرے بیٹے کا نام سمّہ تھا۔ 14 داؤد اُن کے سب سے چھوٹے بیٹے تھے اور اُن کے تینوں بڑے بیٹے ساؤل کے ساتھ تھے۔
15 داؤد اپنے والد کی بھیڑیں چرانے کے لیے ساؤل کے پاس سے بیتلحم آیا جایا کرتے تھے۔ 16 اِس دوران وہ فِلسطینی آدمی صبح شام آ کر کھڑا ہو جاتا اور اِسرائیلیوں کو للکارتا تھا۔ وہ 40 دن تک ایسا کرتا رہا۔
17 ایک دن یسی نے اپنے بیٹے داؤد سے کہا: ”بیٹا! یہ ایک اِیفہ بُھنا ہوا اناج* اور یہ دس روٹیاں جلدی سے اپنے بھائیوں کے پاس خیمہگاہ میں لے جاؤ۔ 18 اور یہ پنیر* کے دس ٹکڑے اُن کے دستے* کے سربراہ کو دے دینا۔ اِس کے ساتھ ساتھ اپنے بھائیوں کا حال چال بھی پتہ کرنا اور اُن سے کوئی ایسی نشانی لے کر آنا جس سے مجھے پتہ چلے کہ وہ ٹھیک ہیں۔“ 19 داؤد کے بھائی ساؤل اور اِسرائیل کے باقی آدمیوں کے ساتھ وادیِاِیلاہ میں فِلسطینیوں سے جنگ لڑنے گئے ہوئے تھے۔
20 داؤد صبح سویرے اُٹھے اور کسی کو بھیڑوں کی ذمےداری سونپی۔ پھر اُنہوں نے سامان باندھا اور یسی کے حکم کے مطابق چل پڑے۔ جب وہ خیمہگاہ پہنچے تو فوجی للکارتے ہوئے میدانِجنگ میں جا رہے تھے۔ 21 اِسرائیلیوں اور فِلسطینیوں نے ایک دوسرے کے آمنے سامنے صفیں باندھیں۔ 22 داؤد نے فوراً اپنا سامان سازوسامان کی رکھوالی کرنے والے شخص کے پاس چھوڑا اور میدانِجنگ کی طرف بھاگے۔ جب وہ وہاں پہنچے تو وہ اپنے بھائیوں کی خیریت پوچھنے لگے۔
23 جب داؤد اُن لوگوں سے بات کر رہے تھے تو جات کے علاقے کا فِلسطینی سُورما جولیت فِلسطینیوں کی صفوں سے باہر آیا۔ اُس نے پھر سے وہی باتیں کہیں جو اُس نے پہلے کہی تھیں اور داؤد نے اُس کی باتیں سنیں۔ 24 جب اِسرائیل کے آدمیوں نے اُس شخص کو دیکھا تو وہ سب خوفزدہ ہو کر اُس سے دُور بھاگ گئے۔ 25 اِسرائیل کے آدمی کہہ رہے تھے: ”اِس آدمی کو دیکھو جو آ رہا ہے! یہ اِسرائیل کو للکارنے آتا ہے۔* جو شخص اِس آدمی کو مار گِرائے گا، بادشاہ اُسے مالامال کرے گا، اپنی بیٹی کی شادی اُس سے کرائے گا اور اُس کے والد کے گھرانے کو ٹیکس اور خدمات کے حوالے سے چُھوٹ دے گا۔“
26 داؤد اپنے پاس کھڑے آدمیوں سے پوچھنے لگے: ”اُس آدمی کو کیا ملے گا جو اِس فِلسطینی کو مار گِرائے گا اور اِسرائیل کی بدنامی دُور کرے گا؟ اِس غیرمختون فِلسطینی کی یہ مجال کہ یہ زندہ خدا کی فوج کو للکارے؟“* 27 تب لوگوں نے داؤد کو پہلے والی باتیں بتاتے ہوئے کہا کہ جو شخص اِس آدمی کو مار گِرائے گا، اُسے یہ یہ ملے گا۔ 28 جب داؤد کے سب سے بڑے بھائی اِلیاب نے اُنہیں لوگوں سے باتیں کرتے سنا تو وہ اُن پر غصہ ہوئے اور کہنے لگے: ”تُم یہاں کیوں آئے ہو؟ اور تُم نے اُن تھوڑی سی بھیڑوں کو ویرانے میں کس کے پاس چھوڑا ہے؟ مَیں جانتا ہوں کہ تُم کتنے گستاخ* ہو اور تمہاری نیت صاف نہیں ہے۔ تُم بس یہاں جنگ دیکھنے آئے ہو۔“ 29 اِس پر داؤد نے کہا: ”اب مَیں نے کیا کِیا؟ مَیں بس ایک سوال ہی تو پوچھ رہا تھا!“ 30 پھر داؤد اُن کے پاس سے کسی اَور کے پاس چلے گئے اور اُس سے وہی بات پوچھی اور لوگوں نے داؤد کو پھر سے وہی جواب دیا۔
31 کچھ لوگوں نے داؤد کی باتیں سُن کر ساؤل کو بتائیں۔ اِس لیے ساؤل نے داؤد کو بُلوایا۔ 32 داؤد نے ساؤل سے کہا: ”اُس فِلسطینی کی وجہ سے کسی کا دل نہ گھبرائے۔* آپ کا خادم جائے گا اور اُس سے لڑے گا۔“ 33 لیکن ساؤل نے داؤد سے کہا: ”آپ اُس فِلسطینی سے نہیں لڑ سکتے کیونکہ آپ بس ایک چھوٹے لڑکے ہو اور وہ چھوٹی عمر سے سپاہی* ہے۔“ 34 اِس پر داؤد نے ساؤل سے کہا: ”آپ کا خادم اپنے والد کی بھیڑوں کا چرواہا ہے۔ ایک بار ایک شیر آیا اور ایک بار ایک ریچھ اور وہ دونوں ہمارے گلّے سے ایک ایک بھیڑ اُٹھا کر لے گئے۔ 35 مَیں اُن کے پیچھے گیا اور اُنہیں پکڑ لیا اور اُن کے مُنہ سے اپنی بھیڑوں کو بچا لیا۔ جب اُنہوں نے مجھ پر حملہ کِیا تو مَیں نے اُنہیں بالوں* سے پکڑ لیا اور گِرا کر مار ڈالا۔ 36 آپ کے خادم نے شیر اور ریچھ دونوں کو مار گِرایا اور اِس غیرمختون فِلسطینی کا بھی وہی حال ہوگا کیونکہ اِس نے زندہ خدا کی فوج کو للکارا ہے۔“* 37 پھر داؤد نے کہا: ”یہوواہ نے مجھے شیر اور ریچھ کے پنجوں سے بچایا اور وہی مجھے اِس فِلسطینی کے ہاتھ سے بھی بچائے گا۔“ اِس پر ساؤل نے داؤد سے کہا: ”جاؤ، یہوواہ آپ کے ساتھ ہو۔“
38 پھر ساؤل نے داؤد کو اپنا جنگی لباس پہنایا۔ اُنہوں نے اُن کے سر پر تانبے کا ہیلمٹ رکھا اور پھر اُنہیں بکتر پہنایا۔ 39 اِس کے بعد داؤد نے اُس جنگی لباس پر تلوار باندھی اور چلنے کی کوشش کی لیکن چل نہیں سکے کیونکہ وہ اِس کے عادی نہیں تھے۔ داؤد نے ساؤل سے کہا: ”مَیں یہ چیزیں پہن کر نہیں جا سکتا کیونکہ مَیں اِن کا عادی نہیں ہوں۔“ اِس لیے داؤد نے اُنہیں اُتار دیا۔ 40 پھر اُنہوں نے اپنے ہاتھ میں اپنی لاٹھی لی اور ندی کی تہہ سے* پانچ چکنے پتھر اُٹھا کر اُنہیں اپنے تھیلے* کی جیب میں رکھا۔ اُن کے ہاتھ میں اُن کی فلاخن* تھی۔ اِس کے بعد وہ اُس فِلسطینی کی طرف بڑھنے لگے۔
41 وہ فِلسطینی داؤد کے قریب آتا گیا اور اُس کا ڈھال اُٹھانے والا سپاہی اُس کے آگے آگے تھا۔ 42 جب اُس فِلسطینی نے داؤد کو دیکھا تو وہ حقارتبھری نظروں سے اُنہیں گھورنے لگا کیونکہ داؤد بس ایک سُرخوسفید اور خوبصورت سے لڑکے تھے۔ 43 اُس نے داؤد سے کہا: ”کیا مَیں کُتا ہوں جو تُم چھڑی لے کر میرا مقابلہ کرنے آئے ہو؟“ پھر وہ فِلسطینی اپنے دیوتاؤں کے نام لے کر داؤد پر لعنت بھیجنے لگا۔ 44 اِس کے بعد اُس نے داؤد سے کہا: ”میرے پاس آؤ تو سہی۔ مَیں تمہارا گوشت آسمان کے پرندوں اور زمین کے جنگلی جانوروں کو کھلاؤں گا۔“
45 داؤد نے اُس فِلسطینی کو جواب دیا: ”تُم تلوار اور نیزہ اور برچھی لے کر مجھ سے لڑنے آ رہے ہو۔ لیکن مَیں فوجوں کے خدا یہوواہ کے نام سے تمہارا مقابلہ کرنے آ رہا ہوں جو اِسرائیل کی فوج کا خدا ہے اور جسے تُم نے للکارا ہے۔* 46 آج ہی یہوواہ تمہیں میرے ہاتھ میں کر دے گا اور مَیں تمہیں مار گِراؤں گا اور تمہارا سر کاٹ دوں گا۔ اور آج ہی کے دن مَیں فِلسطینی سپاہیوں کی لاشیں آسمان کے پرندوں اور زمین کے جنگلی جانوروں کو کھلاؤں گا اور زمین کے سب لوگ جان جائیں گے کہ اِسرائیل میں ایک خدا ہے۔ 47 اور جتنے لوگ یہاں جمع ہیں، اُنہیں* پتہ چل جائے گا کہ یہوواہ تلوار یا نیزے کے ذریعے نہیں بچاتا کیونکہ یہ جنگ یہوواہ کی ہے اور وہی تُم سب کو ہمارے حوالے کر دے گا۔“
48 تب وہ فِلسطینی داؤد پر حملہ کرنے کے لیے اُن کی طرف بڑھا۔ اور داؤد اُس فِلسطینی کا مقابلہ کرنے کے لیے دُشمن فوج کی طرف بھاگے۔ 49 داؤد نے اپنے تھیلے میں ہاتھ ڈالا اور ایک پتھر نکال کر اُسے فلاخن میں رکھا۔ اُنہوں نے اِسے گھما کر اُس فِلسطینی کے ماتھے کی طرف پھینکا۔ پتھر سیدھا جا کر اُس فِلسطینی کے ماتھے میں دھنس گیا اور وہ مُنہ کے بل زمین پر گِر گیا۔ 50 اِس طرح داؤد ایک فلاخن اور ایک پتھر کے ذریعے اُس فِلسطینی پر غالب آئے۔ اُنہوں نے اُس فِلسطینی کو مار گِرایا حالانکہ اُن کے ہاتھ میں کوئی تلوار نہیں تھی۔ 51 داؤد اُس کی طرف بھاگتے گئے اور جا کر اُس کے اُوپر کھڑے ہو گئے۔ پھر داؤد نے اُس کی تلوار پکڑ کر میان سے نکالی اور اُس کا سر قلم کر کے یہ پکا کِیا کہ وہ مر چُکا ہے۔ جب فِلسطینیوں نے دیکھا کہ اُن کا سُورما مر گیا ہے تو وہ بھاگ گئے۔
52 یہ دیکھ کر اِسرائیل اور یہوداہ کے آدمی اُٹھے اور نعرے مارنے لگے۔ وہ وادی سے عِقرون کے دروازوں تک فِلسطینیوں کے پیچھے گئے اور اُنہیں مارتے گئے۔ شعریم سے جات اور عِقرون تک پورے راستے میں فِلسطینیوں کی لاشیں بچھی ہوئی تھیں۔ 53 پوری شدت سے فِلسطینیوں کا پیچھا کرنے کے بعد جب اِسرائیلی واپس آئے تو اُنہوں نے اُن کے خیموں کو لُوٹ لیا۔
54 پھر داؤد اُس فِلسطینی کے سر کو یروشلم لے آئے لیکن اُنہوں نے اُس کے ہتھیار اپنے خیمے میں رکھ لیے۔
55 جب ساؤل نے دیکھا کہ داؤد اُس فِلسطینی کا مقابلہ کرنے جا رہے ہیں تو اُنہوں نے اپنی فوج کے سربراہ ابنیر سے پوچھا: ”ابنیر! یہ لڑکا کس کا بیٹا ہے؟“ ابنیر نے جواب دیا: ”بادشاہ سلامت! آپ کی جان کی قسم! مَیں نہیں جانتا۔“ 56 بادشاہ نے کہا: ”پتہ لگاؤ کہ یہ نوجوان کس کا بیٹا ہے؟“ 57 جیسے ہی داؤد اُس فِلسطینی کو مار کر واپس آئے، ابنیر اُنہیں ساؤل کے پاس لے گئے۔ داؤد نے اُس فِلسطینی کا سر اپنے ہاتھ میں پکڑا ہوا تھا۔ 58 ساؤل نے داؤد سے پوچھا: ”آپ کس کے بیٹے ہو؟“ داؤد نے جواب دیا: ”مَیں آپ کے خادم یسی کا بیٹا ہوں جو بیتلحم میں رہتے ہیں۔“