اِن جیسا ایمان پیدا کریں | داؤد
’جنگ تو یہوواہ کی ہے‘
داؤد نے دیکھا کہ سپاہی میدانِجنگ سے بھاگ رہے ہیں۔ اُن سپاہیوں کی آنکھوں میں شدید خوف نظر آ رہا تھا۔ لیکن وہ اِتنے خوفزدہ کیوں تھے؟ ایک آدمی کی وجہ سے۔ بھاگتے ہوئے اُن کے مُنہ سے ضرور اُس آدمی کا نام نکل رہا ہوگا۔ وہ آدمی بڑی اکڑ سے وادی میں کھڑا تھا۔ داؤد نے اِتنا لمبا تڑنگا شخص پہلے کبھی نہیں دیکھا ہوگا۔
اُس آدمی کا نام جولیت تھا۔ اُسے دیکھتے ہی داؤد کو اندازہ ہو گیا کہ سپاہی اُس سے اِتنے خوفزدہ کیوں تھے۔ وہ آدمی پہاڑ کی طرح اُونچا تھا۔ جنگی لباس کے بغیر بھی اُس کا وزن غالباً دو لمبے چوڑے آدمیوں کے وزن سے زیادہ تھا۔ لیکن اُس وقت تو وہ ہتھیاروں سے لیس تھا۔ وہ ایک بہت طاقتور اور تجربہکار جنگجو تھا۔ وہ بنیاِسرائیل کو مقابلے کے لیے للکار رہا تھا۔ ذرا تصور کریں کہ جب وہ اِسرائیلی سپاہیوں اور اُن کے بادشاہ، ساؤل کو طعنے دے رہا ہوگا تو اُس کی آواز وادی میں کتنی زور سے گُونج رہی ہوگی! وہ اِسرائیلی فوج کو للکار رہا تھا کہ اُن کا کوئی آدمی آ کر اُس سے لڑے تاکہ ایک ہی بار جنگ کا فیصلہ ہو جائے۔—1-سموئیل 17:4-10۔
اِسرائیلی اور فلستی فوج کی اِس صورتحال کو ایک مہینے سے زیادہ عرصہ ہو چُکا تھا۔ دونوں فوجیں اپنی اپنی جگہ پر ٹکی ہوئی تھیں اور جولیت ہر روز اِسرائیلی فوج کو طعنے دیا کرتا تھا۔ بادشاہ ساؤل اور اِسرائیلی سپاہی جن میں داؤد کے تین بڑے بھائی بھی شامل تھے، بہت ڈرے ہوئے تھے۔ اِس ساری صورتحال کو دیکھ کر داؤد بہت پریشان ہو گئے۔ یہ کتنی شرم کی بات تھی کہ بادشاہ ساؤل اور اُن کے سپاہی اِتنے خوفزدہ تھے! داؤد کے نزدیک وہ بُتپرست فلستی صرف اِسرائیلی فوج کی نہیں بلکہ بنیاِسرائیل کے خدا، یہوواہ کی توہین کر رہا تھا۔ لیکن داؤد تو ابھی کمعمر ہی تھے، بھلا وہ اِس صورتحال میں کیا کر سکتے تھے؟ ہم ایمان کے سلسلے میں داؤد سے کیا سیکھ سکتے ہیں؟—1-سموئیل 17:11-14۔
”اُسے مسح کر کیونکہ وہ یہی ہے“
آئیں، اِس جنگ سے کچھ عرصہ پہلے کے واقعات پر غور کریں۔ ایک شام داؤد شہر بیتلحم کی نزدیکی پہاڑیوں پر اپنے ابو کی بھیڑیں چرا رہے تھے۔ وہ ایک حسین نوجوان تھے؛ اُن کا رنگ سُرخ و سفید تھا اور اُن کی آنکھیں بہت خوبصورت تھیں۔ فارغ وقت میں وہ اکثر بربط بجاتے تھے اور خدا کی تخلیق پر غور کرتے تھے۔ وقت کے ساتھ ساتھ موسیقی کے حوالے سے اُن کی مہارتیں نکھر گئی تھیں۔ اُس شام داؤد کے ابو نے اُنہیں گھر بلایا کیونکہ وہ فوراً اُن سے ملنا چاہتے تھے۔—1-سموئیل 16:12۔
گھر پہنچ کر داؤد نے دیکھا کہ اُن کے ابو ایک بوڑھے آدمی سے باتیں کر رہے ہیں۔ یہ بوڑھے آدمی خدا کے نبی سموئیل تھے۔ یہوواہ خدا نے اُنہیں یسی کے ایک بیٹے کو اِسرائیل کے اگلے بادشاہ کے طور پر مسح کرنے کے لیے بھیجا تھا۔ داؤد کے آنے سے پہلے سموئیل اُن کے ساتوں بڑے بھائیوں سے مل چُکے تھے اور یہوواہ خدا نے سموئیل کو بتا دیا تھا کہ اُس نے اُن میں سے کسی کو بھی نہیں چُنا۔ مگر جب داؤد گھر پہنچے تو یہوواہ خدا نے سموئیل سے کہا: ”اُسے مسح کر کیونکہ وہ یہی ہے۔“ سموئیل نے داؤد کے بڑے بھائیوں کے سامنے اُن کے سر پر تیل ڈالا اور اُنہیں مسح کِیا۔ مسح ہونے کے بعد داؤد کی زندگی بالکل بدل گئی۔ پاک کلام میں لکھا ہے: ”[یہوواہ] کی روح اُس دن سے آگے کو داؔؤد پر زور سے نازل ہوتی رہی۔“—1-سموئیل 16:1، 5-11، 13۔
کیا اِس واقعے کے بعد داؤد حکومت کرنے کے حوالے سے منصوبے بنانے لگے؟ جی نہیں۔ وہ اُس وقت کا اِنتظار کرنے کے لیے تیار تھے جب خدا کی پاک روح اُنہیں بتاتی کہ اب اُنہیں بھاری ذمےداریاں سنبھالنی ہیں۔ جب تک وہ وقت نہیں آیا تب تک وہ بھیڑیں چرانے کا معمولی کام کرتے رہے۔ داؤد اِس کام کو بڑی لگن اور دلیری سے کرتے تھے۔ ایک مرتبہ ایک شیر اور ایک مرتبہ ایک ریچھ نے اُن کی بھیڑوں پر حملہ کر دیا۔ داؤد نے اُن درندوں کو دُور دُور سے نہیں بھگایا بلکہ اُن سے لڑائی کی تاکہ وہ اپنی بھیڑوں کو بچا سکیں۔ دونوں مرتبہ اُنہوں نے اکیلے ہی اُن خونخوار درندوں کو مار گِرایا۔—1-سموئیل 17:34-36؛ یسعیاہ 31:4۔
داؤد کی شہرت بادشاہ ساؤل کے کانوں تک بھی پہنچ گئی اور اُنہوں نے داؤد کو بلوایا۔ اگرچہ ساؤل اب بھی ایک طاقتور جنگجو تھے لیکن وہ یہوواہ خدا کی خوشنودی کھو بیٹھے تھے کیونکہ اُنہوں نے اُس کی نافرمانی کی تھی۔ یہوواہ خدا نے اپنی روح اُن سے ہٹا لی تھی جس کی وجہ سے اُن پر ایک بُری روح حاوی ہو جاتی تھی یعنی اُنہیں غصے کے دورے پڑتے تھے، وہ دوسروں سے بدگمان ہو جاتے تھے اور تشدد کرنے لگتے تھے۔ ایسی صورت میں جو چیز اُنہیں سکون بخشتی تھی، وہ موسیقی تھی۔ ساؤل کے کچھ آدمیوں نے سنا تھا کہ داؤد ایک بہت اچھے موسیقار اور بہادر شخص ہیں۔ اِس لیے بادشاہ نے داؤد کو بلایا اور جلد ہی داؤد ساؤل کے دربار کے موسیقاروں اور سلاحبرداروں (ہتھیار اُٹھانے والوں) میں شامل ہو گئے۔—1-سموئیل 15:26-29؛ 16:14-23۔
ہم سب، خاص طور پر نوجوان ایمان کے سلسلے میں داؤد سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔ داؤد اپنے فارغ وقت میں ایسے کام کرتے تھے جن سے وہ یہوواہ خدا کے قریب جا سکیں۔ اُنہوں نے ایسے ہنر بھی سیکھے جن کی وجہ سے اُنہیں آسانی سے نوکری مل سکے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ اُنہوں نے یہوواہ خدا کی پاک روح کی رہنمائی کو قبول کِیا۔ بےشک ہم سب داؤد سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔—واعظ 12:1۔
”اُس شخص کے سبب سے کسی کا دل نہ گھبرائے“
جب داؤد، ساؤل کے محل میں کام کر رہے تھے تو وہ اکثر بھیڑوں کی دیکھبھال کرنے کے لیے اپنے گھر جایا کرتے تھے۔ ایک مرتبہ جب وہ کچھ دنوں کے لیے اپنے گھر آئے ہوئے تھے تو اُن کے ابو نے اُنہیں بھیجا کہ وہ اپنے تین بڑے بھائیوں کا پتہ کر کے آئیں جو ساؤل کی فوج میں تھے۔ داؤد نے اپنے ابو کا حکم مانا اور اپنے بھائیوں کے لیے ضروری سامان لے کر اَیلہ کی وادی کی طرف چل پڑے۔ جب وہ وہاں پہنچے تو وہ اُس صورتحال کو دیکھ کر بہت مایوس ہوئے جس کا اِس مضمون کے شروع میں ذکر کِیا گیا ہے۔ وادی کے ایک طرف کے پہاڑ پر فلستی اور دوسری طرف کے پہاڑ پر اِسرائیلی فوج تھی۔—1-سموئیل 17:1-3، 15-19۔
جب داؤد نے دیکھا کہ یہوواہ خدا کی فوج ایک اِنسان سے اور وہ بھی ایک بُتپرست اِنسان سے ڈر کر بھاگ رہی ہے تو وہ چپ نہیں رہ سکے۔ اُن کے نزدیک جولیت بنیاِسرائیل کی نہیں بلکہ یہوواہ خدا کی توہین کر رہا تھا۔ لہٰذا وہ بڑے جوش کے ساتھ سپاہیوں سے جولیت کو شکست دینے کے بارے میں بات کرنے لگے۔ جب داؤد کے بڑے بھائی اِلیاب کو اُن کی باتوں کا پتہ چلا تو اُنہوں نے داؤد کو بڑی سختی سے ڈانٹا اور کہا کہ ”مَیں . . . تیرے دل کی شرارت سے واقف ہوں۔ تُو لڑائی دیکھنے آیا ہے۔“ لیکن داؤد نے اُنہیں جواب دیا: ”مَیں نے اب کیا کِیا؟ کیا بات ہی نہیں ہو رہی ہے؟“ اِس کے بعد وہ پھر سے بڑے اِعتماد کے ساتھ سپاہیوں سے جولیت کو شکست دینے کی بات کرنے لگے۔ آخرکار کسی نے داؤد کی بات ساؤل تک پہنچا دی۔ اِس پر ساؤل نے حکم دیا کہ داؤد کو اُن کے سامنے لایا جائے۔—1-سموئیل 17:23-31۔
داؤد نے جولیت کے بارے میں بات کرتے ہوئے ساؤل سے یہ حوصلہافزا الفاظ کہے: ”اُس شخص کے سبب سے کسی کا دل نہ گھبرائے۔“ ساؤل اور اُن کے سپاہی، جولیت کی وجہ سے ہمت ہار چُکے تھے۔ شاید وہ ایک عام اِنسان کی طرح اپنا موازنہ جولیت سے کر رہے تھے اور سوچ رہے تھے کہ وہ تو مشکل سے اُس لمبے تڑنگے آدمی کے پیٹ یا سینے تک ہوں گے۔ شاید وہ یہ بھی سوچ رہے ہوں کہ اُنہیں شکست دینا جولیت کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔ لیکن داؤد ایسا نہیں سوچ رہے تھے۔ وہ اِس صورتحال کو بالکل فرق نظر سے دیکھ رہے تھے۔ اِس لیے اُنہوں نے کہا کہ وہ جولیت سے لڑیں گے۔—1-سموئیل 17:32۔
لیکن ساؤل نے کہا: ”تُو اِس قابل نہیں کہ اُس فلستی سے لڑنے کو اُس کے سامنے جائے کیونکہ تُو محض لڑکا ہے اور وہ اپنے بچپن سے جنگی مرد ہے۔“ کیا داؤد واقعی بچے تھے؟ جی نہیں۔ یہ سچ ہے کہ فوج میں بھرتی ہونے کے حساب سے اُن کی عمر کم تھی اور شاید وہ اپنی عمر سے چھوٹے بھی لگتے تھے۔ لیکن اُس وقت اُن کی عمر شاید 17 سے 19 سال کے بیچ تھی اور وہ ایک بہادر شخص کے طور پر مشہور تھے۔—1-سموئیل 16:18؛ 17:33۔
داؤد نے ساؤل کو یقین دِلانے کی کوشش کی کہ وہ اُس فلستی سے لڑ سکتے ہیں۔ اُنہوں نے ساؤل کو بتایا کہ اُنہوں نے ایک شیر اور ایک ریچھ کو کیسے مارا تھا۔ کیا داؤد شیخی بگھار رہے تھے؟ جی نہیں۔ وہ جانتے تھے کہ اُن درندوں سے لڑائی جیتنے میں کس نے اُن کی مدد کی تھی۔ اُنہوں نے ساؤل سے کہا: ”[یہوواہ] نے مجھے شیر اور ریچھ کے پنجہ سے بچایا۔ وہی مجھ کو اِس فلستی کے ہاتھ سے بچائے گا۔“ آخرکار ساؤل نے داؤد کی بات مان لی اور کہا: ”جا [یہوواہ] تیرے ساتھ رہے۔“—1-سموئیل 17:37۔
کیا آپ داؤد جیسا ایمان پیدا کرنا چاہتے ہیں؟ داؤد کا ایمان محض سنی سنائی باتوں پر مبنی نہیں تھا۔ وہ اپنے خدا پر اِس لیے ایمان رکھتے تھے کیونکہ اُنہوں اُس کے بارے میں علم حاصل کِیا تھا اور دیکھا تھا کہ اُس نے کیسے فرق فرق صورتحال میں اُن کی مدد کی تھی۔ وہ جانتے تھے کہ یہوواہ خدا اپنے بندوں سے پیار کرتا ہے اور اُن کی حفاظت کرتا ہے۔ وہ یہ بھی جانتے تھے کہ خدا اپنے ہر وعدے کو پورا کرتا ہے۔ اگر ہم بھی داؤد جیسا ایمان پیدا کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں پاک کلام سے سچے خدا یہوواہ کے بارے میں سیکھتے رہنا چاہیے۔ پھر جب ہم سیکھی ہوئی باتوں پر عمل کریں گے اور یہ دیکھیں گے کہ اِس سے ہمیں کتنا فائدہ ہو رہا ہے تو ہمارا ایمان بھی مضبوط ہوگا۔—عبرانیوں 11:1۔
’یہوواہ تجھ کو میرے ہاتھ میں کر دے گا‘
ساؤل نے داؤد کو اپنا جنگی لباس دیا تاکہ وہ اِسے پہن کر جولیت سے لڑنے کے لیے جائیں۔ یہ لباس تانبے سے بنا ہوا تھا اور جولیت کے جنگی لباس سے ملتا جلتا تھا۔ شاید اِس میں ایک بڑا زِرہ بکتر بھی شامل تھا جو دھات کے ٹکڑوں کو جوڑ کر بنایا گیا تھا۔ پورا جنگی لباس بہت بڑا اور وزنی تھا۔ جب داؤد نے اِس لباس کو پہن کر چلنے کی کوشش کی تو اُنہیں اندازہ ہو گیا کہ وہ اِسے پہن کر لڑ نہیں سکیں گے۔ چونکہ داؤد سپاہی نہیں تھے اِس لیے وہ جنگی لباس پہننے کے عادی نہیں تھے اور ویسے بھی یہ لباس تو ساؤل کا تھا جو بنیاِسرائیل میں سب سے لمبے شخص تھے۔ (1-سموئیل 9:2) لہٰذا اُنہوں نے ساؤل کا جنگی لباس اُتار کر اپنا چرواہے والا لباس پہن لیا اور وہ چیزیں ساتھ لے لیں جو وہ اپنی بھیڑوں کی حفاظت کے لیے اپنے پاس رکھتے تھے۔—1-سموئیل 17:38-40۔
داؤد نے اپنی لاٹھی، اپنا تھیلا اور اپنا فلاخن لیا۔ شاید ہمیں فلاخن اِتنا خطرناک ہتھیار نہ لگے لیکن اصل میں یہ ایک خطرناک ہتھیار تھا۔ فلاخن چمڑے کی دو باریک اور لمبی پٹیوں سے بنا ہوتا تھا جن کے سروں کے بیچ میں ایک چھوٹا سا چوڑا ٹکڑا لگا ہوتا تھا۔ ایک چرواہے کے لیے یہ ہتھیار بڑا کارآمد ثابت ہوتا تھا۔ وہ فلاخن کے چوڑے ٹکڑے میں ایک پتھر رکھتا، اِسے اپنے سر کے اُوپر بڑی تیزی سے گھماتا اور پھر اِس کی ایک پٹی چھوڑ دیتا جس کے نتیجے میں پتھر بڑی تیزی سے نشانے کی طرف بڑھنے لگتا۔ اگر یہ پتھر صحیح نشانے پر لگتا تو یہ بہت نقصاندہ ثابت ہوتا۔ یہ ہتھیار اِس قدر کارآمد تھا کہ کبھی کبھار فوج میں ایک ایسا دستہ ہوتا تھا جو جنگ کے دوران فلاخن اِستعمال کِیا کرتا تھا۔
داؤد پوری تیاری کے ساتھ اپنے دُشمن کا سامنا کرنے چل پڑے۔ ہم تصور کر سکتے ہیں کہ جب داؤد سُوکھے ہوئے نالے سے پانچ چکنے پتھر اُٹھا رہے ہوں گے تو اُنہوں نے یہوواہ خدا سے کتنی شدت سے دُعا کی ہوگی۔ پھر وہ بھاگتے بھاگتے میدانِجنگ کی طرف گئے۔
جب جولیت نے داؤد کو دیکھا تو اُس نے کیا سوچا؟ پاک کلام میں لکھا ہے: ”اُس فلستی نے . . . اُسے ناچیز جانا کیونکہ وہ محض لڑکا تھا اور سُرخرُو اور نازک چہرہ کا تھا۔“ جولیت نے چلّا کر داؤد سے کہا: ”کیا مَیں کُتا ہوں جو تو لاٹھی لے کر میرے پاس آتا ہے؟“ اِس سے پتہ چلتا ہے کہ جولیت نے داؤد کی لاٹھی تو دیکھی لیکن فلاخن پر دھیان نہیں دیا۔ اُس نے اپنے دیوتاؤں کا نام لے کر داؤد پر لعنت کی اور اُن سے کہا کہ ”تُو میرے پاس آ اور مَیں تیرا گوشت ہوائی پرندوں اور جنگلی درندوں کو دوں گا۔“—1-سموئیل 17:41-44۔
داؤد نے جولیت کی اِس بات کا جو جواب دیا، اُس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اُن کا ایمان کتنا مضبوط تھا۔ ذرا تصور کریں کہ ایک نوجوان لڑکا ایک لمبے تڑنگے شخص کو یہ کہہ رہا ہے: ”تُو تلوار بھالا اور برچھی لئے ہوئے میرے پاس آتا ہے پر مَیں ربُالافواج [یہوواہ] کے نام سے جو اِؔسرائیل کے لشکروں کا خدا ہے جس کی تُو نے فضیحت [یعنی بےعزتی] کی ہے تیرے پاس آتا ہوں۔“ داؤد جانتے تھے کہ یہ لڑائی جیتنے کے لیے طاقت اور ہتھیار اِتنے اہم نہیں ہیں۔ اِس لیے اُنہوں نے کہا کہ ”جنگ تو [یہوواہ] کی ہے۔“ جولیت نے یہوواہ خدا کی توہین کی تھی اور یہوواہ خدا نے ہی اُسے سزا دینی تھی۔—1-سموئیل 17:45-47۔
یقیناً داؤد دیکھ سکتے تھے کہ جولیت کتنا لمبا ہے اور اُس کے پاس کتنے ہتھیار ہیں۔ لیکن پھر بھی وہ اُس سے خوفزدہ نہیں ہوئے۔ اُنہوں نے وہ غلطی نہیں کی جو ساؤل اور اُن کی فوج نے کی تھی۔ اُنہوں نے اپنا موازنہ جولیت سے نہیں کِیا بلکہ یہ سوچا کہ یہوواہ خدا کے سامنے جولیت کی کیا حیثیت ہے۔ اگرچہ جولیت کا قد تقریباً تین میٹر (تقریباً ساڑھے نو فٹ) تھا لیکن کُل کائنات کے حاکم یہوواہ خدا کے سامنے وہ محض ایک کیڑے کی طرح تھا جسے یہوواہ خدا بہت جلد کچلنے والا تھا۔
داؤد جولیت کی طرف بھاگے؛ اپنے تھیلے سے پتھر نکالا؛ اِسے فلاخن میں لگایا اور پھر فلاخن کو اپنے سر کے اُوپر بڑی تیزی سے گھمانے لگے۔ دوسری طرف جولیت اپنے سپر بردار کے پیچھے پیچھے داؤد کی طرف بڑھنے لگا۔ جولیت کے لمبے قد کا ایک نقصان یہ تھا کہ اُس کا سپر بردار جس کا قد ایک عام آدمی جتنا تھا، سپر کو اِتنا اُونچا نہیں کر سکتا تھا کہ جولیت کا سر محفوظ رہے۔ اور داؤد نے اِسی بات کا فائدہ اُٹھایا۔—1-سموئیل 17:41۔
پھر داؤد نے فلاخن سے پتھر چھوڑا۔ ذرا تصور کریں کہ میدانِجنگ میں کتنی خاموشی چھا گئی ہوگی جب پتھر نشانے کی طرف بڑھ رہا ہوگا! پتھر سیدھا نشانے پر لگا اور جولیت کے ماتھے میں جا گھسا۔ داؤد کو دوسرا پتھر پھینکنے کی ضرورت ہی نہیں پڑی کیونکہ یہوواہ خدا نے اُن کی مدد کی کہ پہلی بار میں ہی اُن کا نشانہ صحیح لگے۔ پتھر لگتے ہی جولیت مُنہ کے بل زمین پر گِر گیا۔ اُس کا سپر بردار خوف کے مارے بھاگ گیا۔ داؤد جولیت کے پاس گئے، اُس کی تلوار نکالی اور اُس کا سر قلم کر دیا۔—1-سموئیل 17:48-51۔
یہ دیکھ کر ساؤل اور اُن کی فوج کا حوصلہ بحال ہو گیا۔ وہ للکارتے ہوئے فلستی فوج کی طرف بڑھے اور جنگ کا نتیجہ بالکل وہی نکلا جو داؤد نے جولیت سے کہا تھا کہ ”[یہوواہ] . . . تُم کو ہمارے ہاتھ میں کر دے گا۔“—1-سموئیل 17:47، 52، 53۔
ماضی میں یہوواہ خدا کے بندے جنگیں لڑتے تھے مگر آجکل وہ ایسا نہیں کرتے۔ (متی 26:52) لیکن پھر بھی ہمیں داؤد جیسا ایمان پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ اُن کی طرح ہمیں بھی یہوواہ خدا کو ایک حقیقی ہستی سمجھنا چاہیے یعنی صرف اُسی کی عبادت کرنی چاہیے اور اُسی کا خوف رکھنا چاہیے۔ کبھی کبھار جب ہمیں کسی مشکل کا سامنا ہوتا ہے تو ہمیں لگتا ہے کہ یہ مشکل بہت بڑی ہے اور ہم اِس کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔ لیکن یاد رکھیں کہ یہوواہ خدا کے سامنے ہماری مشکلیں کچھ بھی نہیں ہیں۔ اگر ہم داؤد کی طرح یہوواہ خدا پر ایمان رکھتے ہیں تو ہم کسی بھی مشکل یا پریشانی سے خوفزدہ نہیں ہوں گے۔ یہوواہ خدا اپنی بےپناہ طاقت سے ہماری بڑی سے بڑی مشکل کو حل کر سکتا ہے۔