تفریح کو کیا ہو گیا ہے؟
قدیم رومی، جنکی تہذیب مبیّنہ طور پر عروج پر تھی، ساتھی انسانوں کی تکلیف کو تفریح کیونکر سمجھ سکتے تھے؟ ”اِس کی وضاحت صرف نئے اور زیادہ اثرآفرین محرکات کیلئے شدید خواہش سے ہی کی جا سکتی ہے،“ گیرہاٹ اُلہارن دی کونفلکٹ آف کرسچینٹی وِد ہیتھنزم میں لکھتا ہے۔ ”تمام ممکنہ لذتوں سے آسودہ، لوگ ایسی دلچسپ چیز کی تلاش میں تھے جو اُنہیں کہیں اَور نہیں ملتی تھی۔“
آجکل بہتیرے لوگ ایسے ”نئے اور زیادہ اثرآفرین محرکات کیلئے شدید خواہش“ ظاہر کرتے ہیں۔ یہ مانتے ہیں کہ وہ شاید حقیقت میں خونریزی یا فحاشی دیکھنے کیلئے جمع نہ ہوں۔ لیکن تفریح کے سلسلے میں اُنکا انتخاب تشدد اور جنس کیلئے ایسے ہی جنون کو ظاہر کرتا ہے۔ چند مثالوں پر غور کریں۔
فلمیں۔ فلموں کا ناقد مائیکل میڈوِڈ بیان کرتا ہے کہ حالیہ برسوں میں فلمسازوں نے ”کجروی کو ترجیح“ دینے کے میلان کا مظاہرہ کِیا ہے۔ وہ مزید بیان کرتا ہے ”فلمی صنعت جو خیال پیش کرتی ہے وہ اِس بات کی حمایت کرتا ہوا دکھائی دیتا ہے کہ سفاکی اور دیوانگی کے منظر شرافت یا نیکی کو نمایاں کرنے کی کوششوں کی نسبت زیادہ سنجیدہ غوروخوض، خصوصی توجہ کے مستحق ہیں۔“
ٹیلیویژن کیساتھ مقابلہبازی نے لوگوں کو فلم تھیئٹروں کی طرف راغب کرنے کیلئے فلمسازوں کو عملاً ہر جائزوناجائز طریقہ آزمانے پر مجبور کر دیا ہے۔ ”ہمیں ایسی فلموں کی ضرورت ہے جو اثرآفرین اور جاذبِتوجہ ہوں، جن میں جارحیت پائی جائے، جو اُن تمام پروگراموں سے منفرد ہوں جنہیں لوگ ٹیوی پر دیکھتے ہیں،“ ایک موشن پکچر سٹوڈیو کا چیئرمین بیان کرتا ہے۔ ”بات یہ نہیں کہ ہمیں خونریزی اور بدمعاشی اور [غلیظ] زبان پسند ہے بلکہ آجکل کسی فلم کو عوام کے سامنے پیش کرنے کیلئے یہ چیزیں لازمی ہیں۔“ بِلاشُبہ، بہتیرے لوگوں کو اب سینما میں اسقدر واضح تشدد دیکھ کر بھی دھچکا نہیں لگتا۔ فلمی ہدایتکار ایلن جے. پاکولا بیان کرتا ہے کہ ”لوگ اسکے اثرات کیلئے بےحس ہوتے جا رہے ہیں۔“ ”لاشیں چارگُنا ہو گئی ہیں، دھماکوں کی قوت میں بےپناہ اضافہ ہو گیا ہے مگر اُنکے کان پر جُوں تک نہیں رینگتی۔ اُنہوں نے وحشیانہ لطفاندوزی کیلئے کبھی آسودہ نہ ہونے والی اشتہا پیدا کر لی ہے۔“
ٹیلیویژن۔ برازیل، یورپ اور جاپان سمیت دُنیا کے بیشتر ممالک میں ٹیوی پر جنس کی بیہودہ نمائش اب عام ہے۔ امریکہ میں ٹیوی دیکھنے والا ایک عام شخص ایک سال میں تقریباً ۱۴۰۰۰ ایسے مناظر دیکھتا ہے جن میں جنس کی تصویرکشی یا اسکی بابت گفتگو کی جاتی ہے۔ ایک تحقیقاتی ٹیم رپورٹ پیش کرتی ہے کہ ”جنسی موضوعات اور انکی کُھلےعام نمائش میں اضافہ ظاہر کرتا ہے کہ اس میں کمی کا کوئی امکان نہیں۔“ ”محرمات سے مباشرت، دوسروں کے دُکھدرد سے خوشی اور جانوروں سے جنسی تعلقات جیسے ممنوع موضوعات آج پرائم ٹائم کیلئے بڑے نفعبخش ہیں۔“
کتاب واچنگ امریکہ کے مطابق، ٹیلیویژن کے اباحتی پاگلپن کی بھی ایک وجہ ہے۔ یہ بیان کرتی ہے: ”جنس بکتی ہے۔ . . . جب سے نٹورکس اور پروڈکشن کمپنیوں کو معلوم ہوا ہے کہ اُنہوں نے زیادہتر ناظرین کے جذبات مجروح کرنے کی بجائے اُن میں جنسی ترنگ کو اُبھارا ہے تب سے اُنہوں نے بیشتر ممنوع موضوعات کو پہلے سے کہیں زیادہ صریحی انداز میں عوام کے سامنے پیش کرنے کی اجازت دیکر اپنے پروگراموں کے امکانی نفع کو بتدریج بڑھا لیا ہے۔“
ویڈیو گیمز۔ پیک-مین اور ڈونکی کونگ کے نسبتاً بےضرر وقت نے خطرناک حد تک سادیانہ گیمز کے نئے دَور کیلئے راہ ہموار کر دی ہے۔ پروفیسر مارشا کنڈر ان گیمز کو ”ٹیوی یا فلم سے بھی بدتر“ کہتی ہے۔ اُنکا ”پیغام“ یہ ہے کہ ”اقتدار حاصل کرنے کا واحد طریقہ تشدد ہے۔“
عوام کی بھلائی کے پیشِنظر، ریاستہائے متحدہ کی ایک صفحۂاوّل کی کمپنی اب اپنی ویڈیو گیمز کے لئے نظامِدرجہبندی استعمال کرتی ہے۔ ایک ”MA-17“ لیبل—جو اس بات کی علامت ہے کہ یہ گیم ”صرف بالغوں کے لئے“ ہے اور ۱۷ سال سے کم عمر والوں کے لئے موزوں نہیں—میں بےتحاشا تشدد، جنسی موضوعات اور فحشکلامی شامل ہوسکتے ہیں۔ تاہم، بعض کو اس بات کا اندیشہ ہے کہ ”صرف بالغوں کیلئے“ کا لیبل لگا دینے سے گیم کی مانگ اَور بڑھ جائیگی۔ گیم کا رَسیا ایک نوجوان لڑکا بیان کرتا ہے کہ ”اگر مَیں ۱۵ سال کا ہوتا اور 17-MA کا سٹیکر دیکھتا تو مَیں ہر قیمت پر وہ گیم حاصل کرتا۔“
موسیقی۔ مقبول موسیقی کی شاعری کی جانچپڑتال کرنے والے ایک رسالے نے بڑے وثوق سے کہا کہ ۱۹۹۵ کے آخر تک، ۴۰ میں سے صرف ۱۰ مشہورالبم فحش کلامی یا منشیات، تشدد یا جنس سے متعلق باتوں سے پاک تھے۔ ”نوعمروں کیلئے دستیاب موسیقی انتہائی خراب ہے، یہ زیادہتر ہر مروّجہ نظام کے بالکل مخالف ہے،“ سینٹ لوئیس پوسٹ-ڈِسپیچ رپورٹ دیتا ہے۔ ”بعض نوجوانوں کی دلپسند [موسیقی] غصے اور نااُمیدی سے پُر ہوتی ہے اور ایسے احساسات کی حوصلہافزائی کرتی ہے کہ دُنیا اور سامع کا مستقبل تاریک ہے۔“
ڈہتھیںچُکھ میٹل، ”گرونج“ راک اور ”گانگسٹا“ ریپ تشدد میں ڈوبا ہوا میوزک دکھائی دیتا ہے۔ اور سان فرانسسِکو کرانیکل رپورٹ کے مطابق، ”تفریحی صنعت کے بہت سے آدمیوں کی پیشگوئی ہے کہ زیادہ خوفوہراس پیدا کرنے والے گروپ شہرت کی بلندیوں کو چھونے کیلئے آگے بڑھ رہے ہیں۔“ آسٹریلیا، یورپ اور جاپان میں غصے اور موت کے نغمات اب بہت مقبول ہو گئے ہیں۔ سچ ہے کہ بعض گروپوں نے زیادہ شائستہ پیغام کا انتخاب کرنے کی کوشش کی ہے۔ تاہم، کرانیکل بیان کرتا ہے: ”یہ بات بالکل عیاں ہے کہ مہذب موسیقی کی کوئی مانگ نہیں۔“
کمپیوٹرز۔ یہ نہایت کارآمد آلات ہیں جنہیں متعدد مثبت طریقوں سے استعمال کِیا جاتا ہے۔ تاہم، بعض لوگوں نے اُنہیں اخلاق سے گِرا ہوا مواد پھیلانے کیلئے بھی استعمال کِیا ہے۔ مثال کے طور پر، میکلینز رسالہ رپورٹ دیتا ہے کہ اس میں ”عجیبوغریب عقائد سے لیکر عصمتفروشی اور بچوں کیساتھ جنسی تعلقات تک ہر چیز کی بابت تصاویر اور تحریر شامل ہے—ایسا مواد جو نہ صرف بچوں بلکہ بڑوں کو بھی حواسباختہ کر دیتا ہے۔
پڑھائی کا مواد. متعدد مشہور کتابیں جنس اور تشدد سے پُر ہوتی جا رہی ہیں۔ ریاستہائے متحدہ اور کینیڈا میں آٹھ سال کی عمر کے نوجوانوں کو نشانہ بنانے والی نہایت پُراسرار کہانیوں کا نیا خبط چل نکلا ہے جسے ”شاک فکشن“ کہا جاتا ہے۔ نیو یارک ٹیچر میں لکھنے والی، ڈِیانا ویسٹ کا دعویٰ ہے کہ یہ کتابیں ”بہت چھوٹے بچوں کو بےحس کر رہی ہیں اور ذہنی صلاحیت کو اسکے بڑھنے سے پہلے ہی روک رہی ہیں۔“
نیشنل کولیشن آن ٹیلیویژن وائلنس (اینسیٹیوی) کا ایک تجزیہ رپورٹ دیتا ہے کہ ہانگکانگ، جاپان اور ریاستہائے متحدہ میں شائع ہونے والی مزاحیہ کتابیں ”انتہائی وحشیانہ جنگی موضوعات، آدمخوری، گردنزنی، شیطانیت، زنابالجبر اور فحاشی“ کو نمایاں کرتی ہیں۔ اینسیٹیوی کے ریسرچ ڈائریکٹر، ڈاکٹر تھامس راڈیکی کہتے ہیں کہ ”اِن رسالوں میں تشدد اور اخلاقسوز جنسی مواد کی شدت حواسباختہ کرنے والی ہے۔“ ”اس سے ظاہر ہوتا کہ ہم نے خود کو کسقدر بےحس بنا لیا ہے۔“
احتیاط کی ضرورت
صاف ظاہر ہے کہ آج کی دُنیا میں جنس اور تشدد میں بڑی دلکشی پائی جاتی ہے اور یہ تفریحی صنعت سے نمایاں ہے۔ صورتحال ویسی ہی ہے جسکا ذکر مسیحی رسول پولس نے کِیا تھا: ”اُنہوں نے سُن ہو کر شہوتپرستی کو اختیار کِیا تاکہ ہر طرح کے گندے کام حرص سے کریں۔“ (افسیوں ۴:۱۹) واجب طور پر بہتیرے آج کسی بہتر چیز کی تلاش میں ہیں۔ کیا آپ ہیں؟ اگر ایسا ہے تو آپ یہ جان کر خوش ہونگے کہ آپ صحتمندانہ تفریح حاصل کر سکتے ہیں جیساکہ اگلا مضمون ظاہر کریگا۔
[صفحہ 5 پر بکس/تصویر]
ٹیلیویژن خطرناک ہو سکتا ہے
ٹیلیویژن کو نیو یارک میں ۱۹۳۹ کے عالمی میلے پر پہلی مرتبہ یو.ایس. عوام کے سامنے متعارف کرایا گیا تھا۔ وہاں موجود ایک صحافی نے اس نئی انوکھی مشین کے مستقبل کی بابت اپنے شکوک کا اظہار کِیا۔ اُس نے لکھا کہ ”ٹیلیویژن کا مسئلہ یہ ہے کہ لوگ بیٹھ کر اپنی آنکھیں سکرین پر جمائے رکھیں؛ اوسط امریکی خاندان کے پاس اِس کیلئے وقت نہیں ہے۔“
اُسکی بات کتنی غلط تھی! بِلاشُبہ، یہ کہا گیا ہے کہ کسی اوسط امریکی شخص کے سکول سے گریجوایشن کرنے کے وقت تک وہ اُستاد کے ساتھ صرف کئے جانے والے وقت سے ۵۰ فیصد زیادہ ٹیوی کے سامنے صرف کر چکا ہوتا ہے۔ ڈاکٹر میڈلین لوائن اپنی کتاب ویواِنگ وائلنس میں بڑے وثوق سے کہتی ہیں کہ ”جو بچے ٹیلیویژن کے بہت شوقین ہوتے ہیں وہ ٹیلیویژن کے کم شوقین اپنے ساتھیوں کی نسبت زیادہ جارحیتپسند، زیادہ قنوطی، زیادہ موٹے، کم تخیلاتی، کم ہمدرد اور نااہل طالبعلم ہوتے ہیں۔“
اُسکا مشورہ؟ ”بچوں کو یہ سکھانے کی ضرورت ہے کہ گھر کے دیگر آلات کی طرح ٹیلیویژن کا بھی ایک مخصوص کام ہے۔ جب ہمارے بال خشک ہو جاتے ہیں تو ہم ہیئر ڈرائر [بال خشک کرنے والی مشین] کو چلتا نہیں چھوڑ دیتے یا جب ٹوسٹ بن جاتا ہے تو ہم ٹوسٹر [ڈبلروٹی کو گرم کرنے والی مشین] کو چلتا نہیں رکھتے۔ ہم ان آلات کے مخصوص تصرفات سے واقف ہیں اور جانتے ہیں کہ اُنہیں کب بند کرنا ہے۔ اپنے بچوں کو ٹیلیویژن کے بارے میں بھی یہی سکھانے کی ضرورت ہے۔“
[صفحہ 7 پر بکس/تصویر]
تفریح پوری دُنیا میں
جاگو! نے دُنیا کے مختلف حصوں میں اپنے مراسلہنگاروں سے اُنکے علاقے میں تفریح سے متعلق رُجحانات کی بابت بیان کرنے کیلئے کہا۔ ذیل میں اُنکے چند تبصرے درج ہیں۔
برازیل: ”ٹیوی پروگرام نہایت اخلاقسوز ہو گئے ہیں۔ تاہم، گھر سے باہر کام کرنے والے بہتیرے والدین اپنے بچوں کو اکثر ٹیوی سے محظوظ ہونے کیلئے گھر پر چھوڑ جاتے ہیں۔ پُراسرار موضوعات والی سیڈی-رومز اور وحشیانہ تشدد کو نمایاں کرنے والی ویڈیو گیمز مقبول ہیں۔“
چیک ریپبلک: ”کمیونزم کے زوال کے وقت سے لیکر، ملک میں ایسی تفریح کی بھرمار ہے جو پہلے کبھی دیکھنے میں نہیں آئی تھی، اس میں مغربی ٹیوی پروگرام اور فحش مواد کی دُکانیں شامل ہیں۔ نوجوان لوگ باقاعدگی سے ڈسکو، بلیئرڈ کلبوں اور شرابخانوں میں جاتے ہیں۔ اکثر نامعقول اشتہاربازی اور ہمسروں کا دباؤ اُنہیں زیادہ متاثر کرتا ہے۔“
جرمنی: ”افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ بہتیرے والدین اپنے بچوں کیلئے تفریح کو منظم نہیں کر پاتے اسلئے نوجوان اکثر موجمستی کیلئے ایک دوسرے پر انحصار کرتے ہیں۔ بعض کمپیوٹر گیمز کیساتھ گوشہنشینی اختیار کر لیتے ہیں۔ دیگر راتبھر جاری رہنے والی رقصوسرود کی محفلوں میں جاتے ہیں جنہیں راویز کہا جاتا ہے اور جہاں منشیات عام ہوتی ہیں۔“
جاپان: ”مزاحیہ کتابیں نوجوانوں اور بالغوں کا پسندیدہ مشغلہ ہیں لیکن یہ اکثر تشدد، بداخلاقی اور فحش زبان سے پُر ہوتی ہیں۔ قماربازی بھی عام ہے۔ ایک اَور پریشانکُن رُجحان یہ ہے کہ بعض لڑکیاں وسیع پیمانے پر مشتہر ٹیلیفون کلبوں کو فون کرتی ہیں جو بداخلاق مقاصد رکھنے والے مردوں کو فراہم کر دی جاتی ہیں۔ بعض محض دللگی کیلئے فون کرتی ہیں جبکہ دیگر پیسے کی خاطر معاشقے کی حد تک چلی جاتی ہیں جو بالآخر عصمتفروشی پر منتج ہوتا ہے۔“
نائجیریا: ”بےضابطہ ویڈیو تھیئٹر مغربی افریقہ میں پھیل رہے ہیں۔ یہ عارضی جھونپڑے بچوں سمیت ہر عمر کے لوگوں کیلئے کُھلے ہیں۔ فحش اور بھیانک ویڈیوز باقاعدگی سے دکھائی جاتی ہیں۔ اسکے علاوہ، ٹیوی پر دکھائی جانے والی مقامی فلموں میں ارواحپرستی کو نمایاں کِیا جاتا ہے۔“
جنوبی افریقہ: ”راویز کی تعداد یہاں بڑھ رہی ہے اور ان پر منشیات اکثر بآسانی دستیاب ہیں۔“
سویڈن: ”سویڈن میں شرابخانے اور نائٹکلب عام ہیں اور اکثر مجرم اور منشیاتفروش ایسی جگہوں کا رُخ کرتے ہیں۔ ٹیلیویژن اور ویڈیو تشدد، ارواحپرستی اور بداخلاقی سے پُر تفریح فراہم کرتے ہیں۔“