ستاروں سے آگے جہاں اَور بھی ہیں
سیارہ X. ہیتدان پرسیول لوول نے ایک غیردریافتشُدہ سیارے کو یہ نام دیا جس کی بابت اُسے شُبہ تھا کہ یہ نیپچون سے بھی کہیں آگے گردش کر رہا ہے۔ اُس نے ۱۹۰۵ میں فلیگسٹاف، آریزونا میں واقع اپنی رصدگاہ میں سیارے X پر تحقیق شروع کی۔ اگرچہ لوول اپنی زندگی میں تو سیارہ X دریافت نہ کر سکا مگر جو تحقیق اُس نے شروع کی وہ اُسکے بعد بھی جاری رہی۔ بالآخر، ۱۹۳۰ میں، لوول کی رصدگاہ پر ہی کلائیڈ ٹومباف نے سیارہ پلوٹو دریافت کر لیا۔ سیارہ X واقعی موجود تھا!
ہیتدان فوراً یہ سوچنے لگے کہ ’کیا کوئی اَور بھی سیارہ X دریافت ہو سکتا ہے؟‘ اس کے بعد چھ عشروں تک وسیع پیمانے پر تحقیق کی گئی، حتیٰکہ اس تحقیق کے بعد کے سالوں میں تو خلائی جہاز بھی استعمال کئے گئے۔ ہزاروں سیارچے، ستارے، کہکشائیں اور سحابیے تو دریافت ہوئے مگر کسی نئے سیارے کی شناخت نہ ہو سکی۔
تاہم، تحقیق کا یہ سلسلہ یہیں ختم نہ ہوا۔ ہماری آنکھوں سے اوجھل گردش کرنے والے اجرام کو تلاش کرنے کیلئے سائنسدانوں نے جدید ٹیکنالوجی اور زیادہ طاقتور دوربینیں استعمال کرنا شروع کر دیں۔ آخرکار اُنکی محنت رنگ لائی۔ آپ یہ جان کر حیران ہونگے کہ اب پلوٹو سے بھی آگے درجنوں چھوٹے سیارے دیکھے گئے ہیں!
ان چھوٹے سیاروں کا مقام کیا ہے؟ مزید کتنے دریافت ہونے کا امکان ہے؟ کیا یہ ہمارے نظامِشمسی میں دُورترین اجرام ہیں؟
دُورترین اجرام
ہمارے نظامِشمسی میں نو سیارے ہیں جو سورج کے گرد گردش کرتے ہیں۔ علاوہازیں، ہزاروں چٹانی سیارچے خلا کے اندر، عموماً مریخ اور مشتری کے درمیان پائی جانی والی پٹی میں تیزرفتاری سے حرکت کرتے ہیں۔ تقریباً ایک ہزار دُمدار ستارے بھی دریافت کئے گئے ہیں۔
ان اجرام میں سے کونسے سورج سے زیادہ فاصلے پر گردش کرتے ہیں؟ درحقیقت، دُمدار ستارے۔
لفظ ”کومٹ“ (اُردو میں دُمدار ستارہ) یونانی لفظ کومیتس سے ماخوذ ہے جسکا مطلب ہے ”لمبے بالوں والا“ اور یہ ان کے روشن سروں کے پیچھے لمبی دُم کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ دُمدار ستارے توہمپرستی اور نفسیاتی خلل کا باعث بھی رہے ہیں۔ ابھی تک بعض مشاہدین کے نزدیک دُمدار ستاروں کا دکھائی دینا ایک مافوقالفطرت مظہر ہے۔ اس نقطۂنظر کی بنیاد ایسے ابتدائی اعتقادات ہیں جن کے مطابق انہیں بھوتپریت خیال کِیا جاتا تھا۔ لوگ ان سے اسقدر خوفزدہ کیوں تھے؟ ایک وجہ تو یہ ہے کہ ان کے نظر آنے کے ساتھ بعضاوقات المناک واقعات بھی رُونما ہوئے ہیں۔
دُمدار ستارے ابھی بھی جنونی حالت پیدا کر دیتے ہیں۔ جب ہیلبوپ دُمدار ستارہ سورج کے قریب پہنچا تو مارچ ۱۹۹۷ میں، کیلیفورنیا، یو.ایس.اے. میں، ہیونز گیٹ نامی فرقے کے ۳۹ افراد نے اکٹھے خودکُشی کر لی۔ کیوں؟ اسلئےکہ اُنکے خیال میں دُمدار ستارے کے پیچھے چھپا ہوا خلائی مخلوق کا جہاز اُنہیں اُٹھا لے جانے کیلئے آ رہا تھا۔
تمام لوگ دُمدار ستاروں کی بابت ایسے نامعقول نظریات نہیں رکھتے۔ چوتھی صدی ق.س.ع. میں، ارسطو نے یہ نظریہ پیش کِیا کہ دُمدار ستارے درحقیقت آسمان میں چمکدار گیس کے بادل ہیں۔ اسکے چند صدیوں بعد، رومی فلسفی سینیکا نے بڑی دانشمندی سے یہ خیال پیش کِیا کہ دُمدار ستارے گردش کرنے والے اجرامِفلکی ہیں۔
دُوربین کی ایجاد اور نیوٹن کے قانونِتجاذب کی دریافت کی مدد سے دُمدار ستاروں پر تحقیق باقاعدہ علم کی صورت اختیار کر گئی۔ ایڈمنڈ ہیلے نے ۱۷۰۵ میں یہ نتیجہ اخذ کر لیا کہ دُمدار ستارے طویل، بیضوی راستوں پر سورج کے گرد چکر لگاتے ہیں۔ مزیدبرآں، اُس نے بیان کِیا کہ ۱۵۳۱، ۱۶۰۷ اور ۱۶۸۲ میں نظر آنے والے دُمدار ستاروں کے راستے بالکل ایک جیسے تھے اور ان کے نمودار ہونے میں درمیانی وقفہ تقریباً ۷۵ سال تھا۔ ہیلے کا یہ بیان بالکل درست تھا کہ ان مواقع پر درحقیقت ایک ہی دُمدار ستارہ دکھائی دیا تھا جو بعدازاں ہیلے کا دُمدار ستارہ کہلانے لگا۔
محققین اب یہ جانتے ہیں کہ دُمدار ستاروں میں ۱ سے ۲۰ کلومیٹر تک کا ٹھوس نوات ہوتا ہے۔ یہ نوات منجمد پانی اور مٹی سے بنا ہوا گدلا برفپارہ ہوتا ہے۔ خلائی جہاز گائیوٹو نے ۱۹۸۶ میں ہیلے کے دُمدار ستارے کی قریب سے جو تصویریں کھینچیں اُن میں دُمدار ستارے سے گیس اور مٹی کے تیز اخراج کو دیکھا جا سکتا ہے۔ اس اخراج ہی سے دُمدار ستارے کا سر اور دُم بنتے ہیں جو زمین سے دکھائی دیتے ہیں۔
دُمدار ستارے کے گروہ
دُمدار ستاروں کے دو گروہ سورج کے گرد چکر لگاتے ہیں۔ دُمدار ستارے کی گروہبندی کا انحصار اُس کی مداری مدت یا سورج کے گرد ایک دوری گردش مکمل کرنے کی مدت پر ہوتا ہے۔ قلیلمدتی دُمدار ستارے—جیسےکہ ہیلے کا دُمدار ستارہ—تقریباً ۲۰۰ سال میں سورج کے گرد چکر مکمل کرتے ہیں۔ یہ دائرۃُالبروج کے قریبی راستوں پر ہی گردش کرتے ہیں، دائرۃُالبروج سے مُراد وہ سماوی تربیت ہے جس کے مطابق زمین اور دیگر سیارے سورج کے گرد گھومتے ہیں۔ ایک بلین کے لگبھگ قلیلمدتی دُمدار ستارے ہو سکتے ہیں جن میں سے اکثر سورج سے کئی بلین دور نیپچون اور پلوٹو سے بھی آگے گردش کر رہے ہیں۔ اینکے کے دُمدار ستارے کی طرح جب کبھیکبھار ان میں سے بعض اچانک کسی بڑے سیارے کے قریب چلے جاتے ہیں تو ان کے مدار بھی کھنچ کر سورج کے قریب ہو جاتے ہیں۔
طویلمدتی دُمدار ستاروں کے مدار کی بابت کیا ہے؟ قلیلمدتی دُمدار ستاروں کے برعکس، طویلمدتی دُمدار ستارے چاروں اطراف سے سورج کے گرد چکر لگاتے ہیں۔ حیاکوتاکی اور ہیلبوپ کا شمار انہی دُمدار ستاروں میں ہوتا ہے جنکی ابتدائی نمود واقعی قابلِدید منظر ہوتی ہے۔ تاہم، ہزاروں سال تک اُنکے دوبارہ دکھائی دینے کی کوئی توقع نہیں ہوتی!
نظامِشمسی سے باہر بیشمار طویلمدتی دُمدار ستارے گردش کر رہے ہیں۔ اس جھنڈ کا نام ایک ڈچ ہیتدان کے نام پر اورٹ بادل رکھا گیا ہے جس نے ۱۹۵۰ میں اس کی موجودگی کا پہلی مرتبہ انکشاف کِیا تھا۔ اس بادل میں کتنے دُمدار ستارے ہیں؟ ہیتدانوں کے اندازے کے مطابق ایک کھرب! ان میں سے بعض دُمدار ستارے سورج سے ایک نوری سال یا اس سے بھی زیادہ عرصے کے فاصلے پر حرکت کر رہے ہیں۔a ان فاصلوں کے پیشِنظر ایک مدار کو پورا کرنے کیلئے دس ملین سے زیادہ سال لگ سکتے ہیں!
اَنگنت چھوٹے سیارے
شروع میں جن نئے دریافتشُدہ چھوٹے سیاروں کا ذکر کِیا گیا ہے وہ پلوٹو سے آگے قلیلمدتی دُمدار ستاروں کے درمیان ہی پائے جاتے ہیں۔ ہیتدانوں نے ۱۹۹۲ سے تقریباً ایسے ۸۰ چھوٹے سیارہنما اجرام کو دریافت کِیا ہے۔ تاہم، ایسے لاکھوں اَور بھی ہونگے جنکا قطر ۱۰۰ کلومیٹر سے زیادہ ہو سکتا ہے۔ یہ صغیر سیارے کاؤپر پٹی تشکیل دیتے ہیں، اسکا یہ نام ایک سائنسدان کے نام پر رکھا گیا ہے جس نے کوئی ۵۰ سال قبل اسکی موجودگی کا خیال پیش کِیا تھا۔ کاؤپر پٹی میں پائے جانے والے اجرام غالباً پتھر اور برف کے بنے ہوئے ہیں۔
کیا ان چھوٹے سیاروں کی حالیہ دریافتوں سے نظامِشمسی کی بابت نظریے میں کوئی تبدیلی واقعی ہوئی ہے؟ یقیناً! پلوٹو اور اسکا چاند شیرون، نیپچون کا سیٹلائٹ ٹرائٹن اور نظامِشمسی کے دیگر برفانی اجرام کی بابت اب یہ سمجھا جاتا ہے کہ یہ کاؤپر پٹی سے آئے ہیں۔ بعض ہیتدانوں کا خیال ہے کہ پلوٹو کو بڑا سیارہ نہیں کہا جانا چاہئے!
انکی ابتدا کیسے ہوئی؟
دُمدار ستارے اور چھوٹے سیارے اتنی زیادہ تعداد میں کاؤپر پٹی میں کہاں سے آ گئے؟ ہیتدانوں کا خیال ہے کہ مٹی کے ذرات اور برف پہلے ہی سے ایک بادل کی صورت میں موجود تھے اور انہی سے یہ اجرام بنے ہیں۔ تاہم، یہ اجرام اِدھراُدھر بکھر کر بڑھتے بڑھتے بڑے سیاروں کی صورت اختیار کر گئے۔
طویلمدتی دُمدار ستارے نظامِشمسی کے بڑے حصے کی نمائندگی بھی کرتے ہیں۔ انکی مجموعی کمیت زمین کی کمیت سے ۴۰ گُنا زیادہ ہے۔ بیشتر کی بابت یہ خیال کِیا جاتا ہے کہ یہ نظامِشمسی کی تاریخ کے اوائل میں دُورترین گیسی ضخام سیاروں کے حلقے میں تشکیل پائے ہونگے۔
کس چیز نے ان دُمدار ستاروں کو سورج سے اسقدر دُور اُنکے موجودہ مداروں میں پھینک دیا؟ بدیہی طور پر، مشتری جیسے بڑے سیاروں نے اپنے نزدیک آنے والے دُمدار ستاروں کو اپنی طاقتور کشش سے دُور پھینک دیا ہے۔
دُمدار ستاروں کا معائنہ
دُمدار ستارے نظامِشمسی میں پائے جانے والے نہایت قدیم مواد سے بنے ہیں۔ ان جاذبِنظر اجرام کا مزید معائنہ کیسے کِیا جا سکتا ہے؟ انکا کبھیکبھار نظامِشمسی میں نمودار ہونا انکا قریبی جائزہ لینے کا موقع فراہم کرتا ہے۔ متعدد خلائی اداروں کا منصوبہ ہے کہ وہ دُمدار ستاروں کا معائنہ کرنے کیلئے آئندہ چند سالوں کیلئے خلائی جہاز بھیجیں گے۔
کون جانتا ہے کہ ہمارے نظامِشمسی میں ابھی کیا کچھ دریافت ہوگا؟ نئی دریافتیں اور سورج کے گرد گھومنے والے دُورترین اجرام کی بابت واضح سمجھ یسعیاہ ۴۰:۲۶ میں درج بائبل کی اس بات کی حمایت کرتی ہے: ”اپنی آنکھیں اُوپر اٹھاؤ اور دیکھو کہ ان سب کا خالق کون ہے۔ وہی جو اُنکے لشکر کو شمار کرکے نکالتا ہے اور ان سب کو نامبنام بلاتا ہے۔“
[فٹنوٹ]
a ایک نوری سال دراصل ایک سال میں روشنی کے طےکردہ فاصلے یا تقریباً چھ کھرب میل کے برابر ہوتا ہے۔
[صفحہ 27 پر بکس]
دُمدار ستارے اور شہابباری
جب آپ کسی خوبصورت شہابیے کو چمک کیساتھ آسمان سے گزرتے ہوئے دیکھتے ہیں تو کیا آپ سوچتے ہیں کہ یہ دُمدار ستارے سے ٹوٹ کر آیا ہے؟ ایسا ممکن ہے۔ جب کوئی دُمدار ستارہ سورج کے قریب پہنچتا ہے تو اُس کا منجمد نوات آہستہآہستہ ٹوٹنے لگتا ہے جس سے پتھریلے ذرات یا شہابے خارج ہوتے ہیں۔ یہ ذرات دُمدار ستارے کی دُم میں موجود مٹی کی طرح ہلکے نہیں ہوتے اس لئے شمسی طوفان میں اُڑ کر خلا میں نہیں چلے جاتے۔ اس کے برعکس یہ ایک جھرمٹ بن جاتے ہیں جو اُسی دُمدار ستارے کے ساتھ ملکر سورج کے گرد گھومتے رہتے ہیں جس میں سے یہ نکلے تھے۔
ہر سال، زمین پر بہتیرے شہابیے گرتے ہیں۔ نومبر کے وسط میں لیونڈ شہابباری ٹیمپل ٹٹل دُمدار ستارے کے چھوڑے ہوئے مواد کی وجہ سے ہوتی ہے۔ یہ شہابباری ہر ۳۳ سال بعد قابلِدید نظارہ پیش کرتی ہے۔ ۱۹۶۶ میں لیونڈ شہابباری دیکھنے والوں کی رپورٹ کے مطابق ایک منٹ میں ۲۰۰۰ سے زائد شہابیے گرتے ہوئے دیکھے گئے جو واقعی طوفان کا سا سماں تھا! ۱۹۹۸ میں اس نے آتشی گولے برسائے اور یقیناً اس سال نومبر میں بھی یہ منظر قابلِدید ہوگا۔
[صفحہ 25 پر ڈائیگرام/تصویریں]
۱. ۱۹۹۷ میں ہیلبوپ دُمدار ستارہ
۲. ایڈمنڈ ہیلے
۳. پرسیول لوول
۴. ۱۹۸۵ میں ہیلے کا دُمدار ستارہ
۵. ۱۹۱۰ میں ہیلے کا دُمدار ستارہ
۶. ہیلے کے دُمدار ستارے سے گیس اور مٹی کا تیز اخراج
[ڈائیگرام]
(تصویر کے لئے چھپے ہوئے صفحے کو دیکھیں)
۷. متعدد دُمدار ستاروں کے مدار
کوہوتک دُمدار ستارہ
ہیلے کا دُمدار ستارہ
سورج
زمین
اینکے کا دُمدار ستارہ
مشتری
[تصویریں]
۸. ۱۹۹۴ میں، دُمدار ستارہ شومیکر-لیوی ۹، مشتری سے ٹکرانے سے پہلے ۲۱ ٹکڑوں میں تقسیم ہو چکا تھا
۹۔ پلوٹو کی سطح
۰. کوہوتک دُمدار ستارہ، ۱۹۷۴
۱۱. سیارچہ ایڈا اپنے چاند ڈیکٹل کے ہمراہ