بائبل کا نقطۂنظر
کیا شادی کو عمربھر کا بندھن ہونا چاہئے؟
اس سوال کی کیا ضرورت ہے؟ ازدواجی عہدوپیماں کے مطابق کیا شادی ”اچھے یا بُرے وقت میں“ نیز ”تاحیات“ اکٹھے رہنے کا نام نہیں ہے؟ جیہاں، عموماً شادی کے عہدوپیماں یہی بیان کرتے ہیں کہ دُلہا اور دُلہن عمربھر کے رشتے میں داخل ہو رہے ہیں۔ مگر آجکل بیشتر لوگ خود کو اِن سنجیدہ وعدوں کا پابند نہیں سمجھتے۔ اپنے بندھن کو توڑنے والے لوگوں میں نئےنویلے اور پُرانے دونوں طرح کے جوڑوں کی تعداد میں حواسباختہ کرنے والا اضافہ ہو رہا ہے۔ ازدواجی بندھن کا احترام کم کیوں ہوتا جا رہا ہے؟ بائبل اسکا جواب دیتی ہے۔
براہِمہربانی ۲-تیمتھیس ۳:۱-۳ کا جائزہ لیں اور اسکا دُنیا کی موجودہ حالتوں کیساتھ موازنہ کریں۔ جُزوی طور پر یہ آیات بیان کرتی ہیں: ”یہ جان رکھ کہ اخیر زمانہ میں بُرے دن آئینگے۔ کیونکہ آدمی خودغرض۔ زردوست۔ . . . ناشکر۔ ناپاک۔ طبعی محبت سے خالی۔ سنگدل۔ . . . بےضبط۔ . . . ہونگے۔“ یہ پیشینگوئی غیرمعمولی حد تک سچ ثابت ہو رہی ہے۔ ایسے رُجحانات نے دُنیابھر میں ازدواجی رشتے کو کمزور اور داغدار کر دیا ہے جسکی تصدیق طلاق کی بڑھتی ہوئی شرح سے ہوتی ہے۔
بِلاشُبہ، بیشتر لوگ شادی کیلئے کوئی احترام نہیں دکھاتے۔ اس کے پیشِنظر ہم پوچھ سکتے ہیں: کیا شادی کو سنجیدہ معاملہ خیال کرنا چاہئے؟ کیا شادی ایک مُقدس بندھن ہے؟ مسیحیوں کو ازدواجی رشتے کو کیسا خیال کرنا چاہئے؟ فیزمانہ، بائبل بیاہتا جوڑوں کیلئے کونسی مدد فراہم کرتی ہے؟
کیا خدا کا نظریہ بدل گیا ہے؟
ابتدا میں خدا نے ازدواجی بندھن کو عارضی قرار نہیں دیا تھا۔ پیدایش ۲:۲۱-۲۴ بیان کرتی ہیں کہ اُس نے پہلے آدمی اور عورت کو ازدواجی رشتے میں باندھا مگر یہاں طلاق یا علیٰحدگی کے انتخاب کا کوئی ذکر نہیں کِیا گیا۔ اِسکے برعکس، ۲۴ آیت بیان کرتی ہے: ”اس واسطے مرد اپنے ماں باپ کو چھوڑیگا اور اپنی بیوی سے ملا رہیگا اور وہ ایک تن ہونگے۔“ اس صحیفے کا کیا مطلب ہے؟
انسانی بدن پر غور کریں کہ کیسے اس کے مختلف نسیج ایک دوسرے کیساتھ جڑے ہوئے ہیں اور ہڈیاں مضبوط اور رگڑ نہ کھانے والے جوڑوں کی بدولت باہم پیوستہ ہیں۔ کتنی ہمآہنگی! کتنی پائیداری! لیکن جب اس لاثانی نظام کو کوئی سخت نقصان پہنچتا ہے تو کتنی تکلیف ہوتی ہے! اسی لئے پیدایش ۲:۲۴ میں اصطلاح ”ایک تن“ ازدواجی بندھن کی قربت اور دوامیت پر زور دیتی ہے۔ اس کیساتھ ہی ساتھ یہ اس بندھن کے ٹوٹنے کی صورت میں واقع ہونے والی شدید تکلیف سے بھی آگاہ کرتی ہے۔
اگرچہ گزشتہ صدیوں کے بدلتے ہوئے رُجحانات نے انسانی نظریات کو بدل دیا ہے توبھی خدا کے نزدیک شادی ابھی تک عمربھر کا بندھن ہے۔ تقریباً ۲،۴۰۰ سال پہلے، چند یہودیوں نے اپنی پہلی بیویوں کو چھوڑ کر نوجوان عورتوں سے بیاہ کر لیا تھا۔ تاہم، خدا نے اپنے نبی ملاکی کی معرفت یہ کہتے ہوئے اس فعل کی مذمت کی تھی: ”پس تم اپنے نفس سے خبردار رہو اور کوئی اپنی جوانی کی بیوی سے بیوفائی نہ کرے۔ کیونکہ [یہوواہ] اؔسرائیل کا خدا فرماتا ہے مَیں طلاق سے بیزار ہوں۔“—ملاکی ۲:۱۵، ۱۶۔
تقریباً چار صدیوں بعد، یسوع نے پیدایش ۲:۲۴ کا حوالہ دیتے ہوئے ایک بار پھر خدا کے ابتدائی نظریے کی تصدیق کی اور یہ ہدایت دی: ”اِس لئے جسے خدا نے جوڑا ہے اُسے آدمی جُدا نہ کرے۔“ (متی ۱۹:۵، ۶) سالوں بعد، پولس رسول نے نصیحت کی کہ ”بیوی اپنے شوہر سے جُدا نہ ہو“ اور ”نہ شوہر بیوی کو چھوڑے۔“ (۱-کرنتھیوں ۷:۱۰، ۱۱) یہ صحائف واضح طور پر شادی کی بابت خدا کے نظریے کو بیان کرتے ہیں۔
کیا بائبل شادی کو کبھی ختم کرنے کی اجازت دیتی ہے؟ جیہاں، جب بیاہتا ساتھیوں میں سے کوئی وفات پا جاتا ہے تو شادی ختم ہو جاتی ہے۔ (۱-کرنتھیوں ۷:۳۹) مزیدبرآں، زناکاری کی صورت میں بھی اگر بےقصور بیاہتا ساتھی ایسا فیصلہ کرے تو شادی ختم ہو سکتی ہے۔ (متی ۱۹:۹) بصورتِدیگر، بائبل بیاہتا جوڑوں کی اکٹھے رہنے کیلئے حوصلہافزائی کرتی ہے۔
شادی کو دائمی بنانے کا طریقہ
خدا چاہتا ہے کہ شادی ایک سخت کشمکش کی بجائے پُرمسرت سفر کے طور پر قائم رہے۔ وہ چاہتا ہے کہ شوہر اور بیویاں اپنے مسائل کو حل کریں اور ایک دوسرے کی رفاقت سے خوشی حاصل کریں۔ اُسکا کلام خوشحال اور دائمی شادی کے لئے راہنمائی فراہم کرتا ہے۔ براہِمہربانی مندرجہذیل حوالہجات پر غور کریں۔
افسیوں ۴:۲۶: ”سورج کے ڈوبنے تک تمہاری خفگی نہ رہے۔“a اپنی شادی سے خوش ایک شخص کا خیال ہے کہ یہ صحیفہ اُسکی اور اُسکی بیوی کی تمام نااتفاقیوں کو فوری طور پر حل کرنے کیلئے مدد کرتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ ”اگر آپ کو نااتفاقی کے بعد نیند نہ آئے تو سمجھ لیں کہ کچھ گڑبڑ ہے۔ آپ مسئلے کو قائم رہنے کی اجازت نہیں دے سکتے۔“ بعضاوقات وہ اور اُسکی بیوی رات گئے تک مسئلے پر گفتگو کرتے رہتے ہیں جو مفید ثابت ہوتا ہے۔ وہ مزید کہتا ہے: ”بائبل اُصولوں کے اطلاق سے ہمیں شاندار نتائج حاصل ہوئے ہیں۔“ ایسا کرنے سے وہ اور اُسکی بیوی ۴۲ سال سے خوشحال شادی سے لطف اُٹھا رہے ہیں۔
کلسیوں ۳:۱۳: ”ایک دوسرے کی برداشت کرے اور ایک دوسرے کے قصور معاف کرے۔“ ایک شوہر بیان کرتا ہے کہ کیسے اُس نے اور اُسکی بیوی نے اس پر عمل کِیا ہے: ”چونکہ ہر شخص میں کچھ ایسی کمزوریاں اور عادات ہوتی ہیں جو دوسروں کو بُری لگتی ہیں اسلئے بیاہتا ساتھی کسی دانستہ غلطی کے بغیر بھی ایک دوسرے کو ناراض کر سکتے ہیں۔ ہم اِن چیزوں کو اپنے رشتے میں حائل ہونے کی اجازت نہیں دیتے اِسلئے ایک دوسرے کی برداشت کرتے ہیں۔“ بِلاشُبہ اس جذبے نے گزشتہ ۵۴ سالوں کے دوران اس جوڑے کی مدد کی ہے!
ایسے صحیفائی اُصولوں کا اطلاق یقیناً شوہروں اور بیویوں کے بندھن کو مضبوط بناتا ہے۔ یوں اُنکی شادی خوشگوار، اطمینانبخش اور عمربھر کا بندھن ثابت ہو سکتی ہے۔
[فٹنوٹ]
a پہلی صدی کے مشرقِوسطیٰ کے نظاماُلاوقات کے مطابق، دن کا اختتام غروبِآفتاب کیساتھ ہوتا ہے۔ لہٰذا پولس قارئین کی حوصلہافزائی کر رہا تھا کہ ہر دن کے ختم ہونے سے پہلے ایک دوسرے سے صلح کر لیں۔