اُنیسواں باب
خدا کا کلام دلیری سے سناتے رہیں
۱. (ا) یسوع مسیح کے شاگردوں نے کس خوشخبری کا اعلان کِیا اور اس کے نتیجے میں اُنہیں کس چیز کا سامنا کرنا پڑا؟ (ب) ہمیں خود سے کونسے سوال کرنے چاہئیں؟
آج سے تقریباً ۲،۰۰۰ سال پہلے خدا کے بیٹے یسوع کو بادشاہ کے طور پر مسح کِیا گیا۔ اس کے کچھ عرصے بعد یسوع کے دُشمنوں نے اُسے مار ڈالا لیکن یہوواہ خدا نے اُسے زندہ کر دیا۔ اب تمام لوگوں کے لئے یسوع مسیح کے ذریعے ہمیشہ کی زندگی حاصل کرنا ممکن ہو گیا تھا۔ یسوع کے شاگرد لوگوں کو یہ خوشخبری سنانے لگے اور اس کے نتیجے میں اُنہیں اذیت کا نشانہ بنایا گیا۔ اُن میں سے کچھ کو قید کرکے پٹوایا گیا اور دھمکایا گیا کہ وہ یسوع کے بارے میں بات کرنا بند کر دیں۔ (اعمال ۴:۱-۳، ۱۷؛ ۵:۱۷، ۱۸، ۴۰) اس صورتحال میں اُنہوں نے کیا کِیا؟ اگر آپ کو اس صورتحال کا سامنا ہوتا تو آپ کیا کرتے؟ کیا آپ خدا کے کلام کی منادی دلیری سے جاری رکھتے؟
۲. (ا) ہمارے زمانے میں کونسی خوشخبری کی منادی کرنا ضروری ہے؟ (ب) اس خوشخبری کی منادی کرنا کس کی ذمہداری ہے؟
۲ سن ۱۹۱۴ عیسوی میں یسوع مسیح نے آسمان پر اپنا تخت سنبھالا۔ اُس وقت اُس نے ”اپنے دُشمنوں میں حکمرانی“ کرنا شروع کر دی۔ (زبور ۱۱۰:۲) اس کے بعد شیطان اور اُس کے بُرے فرشتوں کو زمین پر گِرا دیا گیا۔ (مکاشفہ ۱۲:۱-۵، ۷-۱۲) اس واقعہ کے نتیجے میں زمین پر اُس زمانہ کا آغاز ہوا جسے اخیر زمانہ کہا جاتا ہے۔ اس زمانے کے اختتام پر یہوواہ خدا شیطان کی بُری دُنیا کو تباہ کر دے گا۔ (دانیایل ۲:۴۴؛ متی ۲۴:۲۱) جو لوگ اس تباہی سے بچ نکلیں گے وہ ہمیشہ تک فردوسی زمین پر زندہ رہنے کی اُمید رکھ سکیں گے۔ واقعی یہ ایک بہت بڑی خوشخبری ہے۔ اگر آپ ان باتوں پر ایمان لے آئے ہیں تو آپ یقیناً دوسروں کو بھی ان کے بارے میں بتانا چاہیں گے۔ (متی ۲۴:۱۴) لیکن اس پر لوگوں کا ردِعمل کیا ہوگا؟
۳. (ا) بادشاہت کی خوشخبری سُن کر لوگ کیسا ردِعمل دکھاتے ہیں؟ (ب) ہمیں خود سے کونسا سوال پوچھنا چاہئے؟
۳ جب آپ لوگوں کو بادشاہت کے بارے میں بتائیں گے تو کچھ لوگ آپ کی بات کو سُن کر خوش ہوں گے لیکن زیادہتر لوگ اس خوشخبری میں دلچسپی نہیں لیں گے۔ (متی ۲۴:۳۷-۳۹) یہاں تک کہ بعض لوگ آپ کا مذاق اُڑائیں گے یا پھر آپ کی مخالفت کریں گے۔ یسوع مسیح نے اپنے شاگردوں کو آگاہ کِیا تھا کہ اکثر اُن کے رشتہدار اُن کی مخالفت کریں گے۔ (لوقا ۲۱:۱۶-۱۹) یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ملازمت کی جگہ پر آپ کے ساتھی کارکُن یا پھر سکول میں آپ کے ہمجماعت آپ کی مخالفت کریں۔ کئی ممالک کی حکومتیں بھی بادشاہت کی مُنادی کرنے پر پابندیاں عائد کرتی ہیں۔ اگر آپ کو اس پیراگراف میں بتائی گئی کسی بھی صورتحال کا سامنا ہو تو کیا آپ ’ایمان میں قائم رہ‘ کر خدا کا کلام دلیری سے سناتے رہیں گے؟—۱-کرنتھیوں ۱۶:۱۳۔
خدا کی مدد قبول کریں
۴. (ا) یہوواہ خدا کے وفادار رہنے کے لئے ہمیں کن باتوں کا بھرپور فائدہ اُٹھانا چاہئے؟ (ب) اجلاسوں پر حاضر ہونا مسیحیوں کے لئے اتنا اہم کیوں ہے؟
۴ یہوواہ خدا کے وفادار رہنے کے لئے ہمیں ان تمام باتوں کا بھرپور فائدہ اُٹھانا ہوگا جن کے ذریعے یہوواہ ہمارے ایمان کو مضبوط بناتا ہے۔ مثال کے طور پر ہمیں عبادت کے لئے کلیسیا کے اجلاسوں پر حاضر ہونا چاہئے کیونکہ پاک صحائف میں ہمیں ایسا کرنے کی تاکید کی گئی ہے۔ (عبرانیوں ۱۰:۲۳-۲۵) باقاعدگی سے اجلاسوں پر حاضر ہونے سے مسیحی یہوواہ خدا کے وفادار رہنے میں کامیاب رہ سکتے ہیں۔ ان اجلاسوں پر ہم پاک صحائف کے بارے میں نئی باتیں سیکھتے ہیں اور سیکھی ہوئی باتوں کے بارے میں ہماری سمجھ بھی بڑھتی ہے۔ ہم یہ بھی سیکھتے ہیں کہ ہم ان سچائیوں کو مُنادی کے کام میں اور اپنی زندگی میں کیسے کام میں لا سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ ہم اپنے مسیحی بہنبھائیوں کے زیادہ قریب ہو جاتے ہیں اور خدا کی مرضی بجا لانے کی ہماری حوصلہافزائی بھی ہوتی ہے۔ یہوواہ خدا کی پاک روح اجلاسوں کے ذریعے ہماری راہنمائی کرتی ہے اور اس پاک روح کی بدولت یسوع مسیح ہمارے درمیان موجود ہے۔—متی ۱۸:۲۰؛ مکاشفہ ۳:۶۔
۵. جب یہوواہ کے گواہوں کے اجلاسوں پر پابندیاں عائد ہوتی ہیں تو وہ کیا کرتے ہیں؟
۵ کیا آپ تمام اجلاسوں پر باقاعدگی سے حاضر ہوتے ہیں؟ کیا آپ اجلاسوں پر سیکھی ہوئی باتوں پر عمل کرنے کی بھرپور کوشش کرتے ہیں؟ کئی ممالک میں یہوواہ کے گواہوں کے اجلاسوں پر پابندی عائد ہے۔ ایسی صورت میں وہ چھوٹے گروہوں میں کسی مسیحی کے گھر میں جمع ہوتے ہیں۔ ان اجلاسوں کے منعقد کرنے کی جگہوں اور اوقات میں تبدیلیاں ہوتی رہتی ہیں۔ کبھیکبھار تو یہ اجلاس رات گئے منعقد ہوتے ہیں۔ مشکلات اور خطروں کے باوجود مسیحی بہنبھائی اجلاسوں پر باقاعدگی سے حاضر ہونے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں۔
۶. (ا) ہم یہوواہ خدا پر بھروسہ کیسے ظاہر کر سکتے ہیں؟ (ب) ایسا کرنے سے ہم خدا کے کلام کو دلیری سے سنانے میں کامیاب کیوں رہیں گے؟
۶ باقاعدگی سے دلی دُعا کرنے سے یہوواہ خدا پر ہمارا بھروسہ بڑھ جاتا ہے کیونکہ ایسا کرنے سے ہم ظاہر کرتے ہیں کہ ہم اُس کی مدد کے بغیر کوئی کام انجام نہیں دے سکتے۔ کیا آپ دُعا کرنے کے لئے وقت نکالتے ہیں؟ جب یسوع مسیح زمین پر تھا تو اُس نے ایسا کِیا تھا۔ (لوقا ۳:۲۱؛ ۶:۱۲، ۱۳؛ ۲۲:۳۹-۴۴) اپنی زندگی کی آخری رات اُس نے اپنے شاگردوں کو یوں تاکید کی: ”جاگو اور دُعا کرو تاکہ آزمائش میں نہ پڑو۔“ (مرقس ۱۴:۳۸) جب لوگ بادشاہت کی خوشخبری میں دلچسپی نہیں لیتے تو شاید ہم اس کام میں سُست پڑ جائیں۔ یا پھر شاید ہم اذیت یا لوگوں کے طعنوں سے بچنے کے لئے بادشاہت کے بارے میں تبلیغ کرنا بند کر دیں۔ لیکن اگر ہم دل سے دُعا کریں گے کہ خدا ہمیں اپنی پاک روح عطا کرے تو ہم بادشاہت کی منادی کرنے میں سرگرم رہیں گے اور اُس کے کلام کو دلیری سے بیان کرتے رہیں گے۔—لوقا ۱۱:۱۳؛ افسیوں ۶:۱۸-۲۰۔
دلیری کی داستان
۷. (ا) مسیحیوں کو اعمال کی کتاب میں درج واقعات پر کیوں غور کرنا چاہئے؟ (ب) اس پیراگراف کے بعد دئے گئے سوالوں کے جواب دیجئے اور بتائیے کہ ہم ان میں درج ہدایات پر کیسے عمل کر سکتے ہیں۔
۷ اعمال کی کتاب میں رسولوں اور یسوع کے شاگردوں کی داستان بیان کی گئی ہے۔ یہ لوگ بھی ہمارے جیسے جذبات اور احساسات رکھتے تھے۔ انہوں نے مشکلات کا سامنا کرتے ہوئے وفاداری اور دلیری سے خدا کے کلام کے بارے میں گواہی دی۔ آئیں اب ہم چند صحیفوں اور سوالات کے ذریعے اعمال کی کتاب میں درج کچھ واقعات پر غور کرتے ہیں۔ ایسا کرتے وقت اس بات پر سوچبچار کریں کہ آپ ان میں دی گئی ہدایات پر کیسے عمل کر سکتے ہیں۔
کیا یسوع کے رسولوں نے اعلیٰ تعلیم حاصل کی تھی؟ کیا وہ فطری طور پر دلیر تھے؟ (یوحنا ۱۸:۱۷، ۲۵-۲۷؛ ۲۰:۱۹؛ اعمال ۴:۱۳)
یہودیوں کی جس عدالت نے یسوع کے خلاف فیصلہ سنایا تھا اسی عدالت کے سامنے پطرس رسول دلیری سے بیان دینے کے قابل کیوں تھا؟ (متی ۱۰:۱۹، ۲۰؛ اعمال ۴:۸)
یہودیوں کی صدرعدالت کے سامنے پیش کئے جانے سے پہلے رسول کن کاموں میں مشغول رہے تھے؟ (اعمال ۱:۱۴؛ ۲:۱، ۴۲)
جب مذہبی رہنماؤں نے رسولوں کو حکم دیا کہ وہ یسوع کا نام لے کر تعلیم دینا بند کر دیں تو پطرس اور یوحنا نے اُنہیں کونسا جواب دیا؟ (اعمال ۴:۱۹، ۲۰)
قید سے رِہا ہونے کے بعد رسولوں نے کس سے مدد کی درخواست کی؟ کیا اُنہوں نے دُعا کی کہ لوگ اُن کو اذیت دینے سے باز آئیں؟ اس کی بجائے انہوں نے خدا سے کس بات کی درخواست کی؟ (اعمال ۴:۲۴-۳۱)
جب لوگوں نے تبلیغی کام کو روکنا چاہا تو یہوواہ خدا نے اپنے خادموں کی کیسے مدد کی؟ (اعمال ۵:۱۷-۲۰)
رسولوں نے کیسے ظاہر کِیا کہ وہ سمجھ گئے تھے کہ خدا نے اُنہیں قید سے کیوں رہائی دلائی تھی؟ (اعمال ۵:۲۱، ۴۱، ۴۲)
یسوع کے شاگردوں نے اذیت کی وجہ سے یروشلیم کو چھوڑ کر مختلف علاقوں میں آباد ہونے پر کونسا کام جاری رکھا؟ (اعمال ۸:۳، ۴؛ ۱۱:۱۹-۲۱)
۸. (ا) پہلی صدی میں مسیحیوں کے تبلیغی کام کے کونسے شاندار نتائج نکلے؟ (ب) ہم آج کس کام کو جاری رکھ رہے ہیں؟
۸ بادشاہت کی خوشخبری کی تبلیغ کرنے کے بہت اچھے نتیجے نکلے۔ سن ۳۳ عیسوی کی عیدِپنتِکُست کے موقع پر تقریباً ۳،۰۰۰ لوگوں نے یسوع کے شاگردوں کے طور پر بپتسمہ لے لیا۔ جیہاں، ”ایمان لانے والے مردوعورت خداوند کی کلیسیا میں اَور بھی کثرت سے آ ملے۔“ (اعمال ۲:۴۱؛ ۴:۴؛ ۵:۱۴) اس کے کچھ عرصے بعد ساؤل نامی ایک شخص بھی مسیحی بن گیا۔ اس نے مسیحیوں کو بہت اذیت پہنچائی تھی لیکن مسیحی بننے پر وہ بڑی دلیری سے خدا کے کلام کی سچائیوں کے بارے میں گواہی دینے لگا۔ یہ شخص پولس رسول کے نام سے مشہور ہو گیا۔ (گلتیوں ۱:۲۲-۲۴) اس طرح پہلی صدی میں منادی کے کام کی بنیاد ڈالی گئی تھی۔ یہ کام آج بھی جاری ہے اور اس بُرے زمانے کے آخری دنوں میں اس پر اَور بھی زیادہ زور دیا جا رہا ہے۔ واقعی، بادشاہت کی خوشخبری زمین کے گوشے گوشے میں سنائی جا چکی ہے۔ یہ کتنی خوشی کی بات ہے کہ ہمیں اس کام میں حصہ لینے کا شرف حاصل ہے۔ ایسا کرتے وقت ہم اُن مسیحیوں کی مثال سے سیکھ سکتے ہیں جنہوں نے ہم سے پہلے اس کام کو وفاداری سے انجام دیا۔
۹. (ا) پولس رسول کن موقعوں پر لوگوں کو خدا کی بادشاہت کے بارے میں بتایا کرتا تھا؟ (ب) آپ کن موقعوں پر لوگوں کو خدا کی بادشاہت کے بارے میں بتاتے ہیں؟
۹ جب پولس، یسوع پر ایمان لایا تو وہ ”فوراً عبادتخانوں میں یسوؔع کی مُنادی کرنے لگا کہ وہ خدا کا بیٹا ہے۔“ (اعمال ۹:۲۰) پولس رسول اس بات کے لئے بہت شکرگزار تھا کہ خدا نے اس پر رحم کِیا تھا۔ وہ اس بات کی اہمیت کو سمجھ گیا تھا کہ دوسرے لوگوں کو بھی بادشاہت کی خوشخبری سننے کا موقع دیا جانا چاہئے۔ یہودی ہونے کے ناطے پولس رسول یہودیوں کے عبادتخانوں میں جا کر بادشاہت کی خوشخبری سنانے لگا۔ وہ گھر گھر جا کر اور بازاروں کے چوک پر بھی لوگوں سے خدا کے کلام کے بارے میں بات کرتا۔ اس کے علاوہ وہ دُوردراز علاقوں میں جا کر وہاں بھی تبلیغ کرتا۔—اعمال ۱۷:۱۷؛ ۲۰:۲۰؛ ۱۳:۲-۵۔
۱۰. (ا) ہم کیسے جانتے ہیں کہ پولس رسول بادشاہت کی منادی کرتے وقت لوگوں کے احساسات کا لحاظ بھی رکھتا تھا؟ (ب) رشتہداروں کو یا ملازمت کی جگہ پر یا پھر سکول میں گواہی دیتے وقت ہم پولس رسول کی مثال سے کیا سیکھ سکتے ہیں؟
۱۰ پولس رسول بادشاہت کی منادی دلیری سے کرنے کے ساتھ ساتھ لوگوں کے احساسات کا لحاظ بھی رکھتا تھا۔ مثال کے طور پر یہودیوں کو اُن وعدوں پر بڑا مان تھا جو خدا نے اُن کے باپدادا سے کئے تھے۔ اس لئے پولس رسول نے یہودیوں کے دلوں کو جیتنے کے لئے ان وعدوں کی بِنا پر اُنہیں دلیلیں دیں۔ جبکہ یونانیوں کو خوشخبری سناتے وقت پولس رسول ایسی باتوں کا ذکر کرتا جن سے وہ واقف تھے۔ اور کبھیکبھار وہ دوسروں کو گواہی دینے کی خاطر اُنہیں بتاتا کہ وہ خود مسیحی کیسے بنا تھا۔ پولس رسول نے کہا: ”مَیں سب کچھ اِنجیل کی خاطر کرتا ہوں تاکہ اَوروں کے ساتھ اُس میں شریک ہوؤں۔“—۱-کرنتھیوں ۹:۲۰-۲۳؛ اعمال ۲۲:۳-۲۱۔
۱۱. (ا) اپنے مخالفین سے بار بار تکرار کرنے کی بجائے پولس رسول نے کیا کِیا؟ (ب) ہمیں کن حالات میں پولس رسول کی اس مثال کی نقل کرنی چاہئے اور ہم ایسا کیسے کر سکتے ہیں؟ (پ) ہمیں خوشخبری سنانے کے کام کو جاری رکھنے کے لئے کہاں سے طاقت ملتی ہے؟
۱۱ جب ایک علاقے میں پولس رسول کی بہت مخالفت کی جاتی تو وہ کسی دوسرے علاقے میں جا کر منادی کرنے لگتا کیونکہ وہ بار بار اپنے مخالفین سے تکرار نہیں کرنا چاہتا تھا۔ (اعمال ۱۴:۵-۷؛ ۱۸:۵-۷؛ رومیوں ۱۲:۱۸) لیکن پولس رسول نے بادشاہت کی منادی کرتے وقت کبھی شرم محسوس نہیں کی۔ (رومیوں ۱:۱۶) مخالفین کے ہاتھوں بےعزتی اور اذیت کا سامنا کرتے وقت اُسے دُکھ ضرور ہوا لیکن اس کے ساتھ ساتھ اُسے ”اپنے خدا میں یہ دلیری حاصل ہوئی“ کہ وہ خوشخبری سناتا رہا۔ پولس رسول نے کہا: ”خداوند میرا مددگار تھا اور اُس نے مجھے طاقت بخشی تاکہ میری معرفت پیغام کی پوری مُنادی ہو جائے۔“ (۱-تھسلنیکیوں ۲:۲؛ ۲-تیمتھیس ۴:۱۷) یسوع مسیح کلیسیا کا سردار ہونے کے ناطے آج بھی ہمیں طاقت بخشتا ہے تاکہ ہم اُس کام کو جاری رکھ سکیں جسے اُس نے اپنے شاگردوں کو کرنے کا حکم دیا تھا۔—مرقس ۱۳:۱۰۔
۱۲. (ا) خدا کا کلام دلیری سے سنانے میں کیا کچھ شامل ہے؟ (ب) ہمیں یہ دلیری کیوں حاصل ہے؟
۱۲ یسوع مسیح اور پہلی صدی کے مسیحیوں کی طرح ہمیں بھی لوگوں کو خدا کا کلام دلیری سے سناتے رہنا چاہئے۔ البتہ ہمیں ایسا کرتے وقت لوگوں کا لحاظ رکھنا چاہئے اور اُنہیں خوشخبری سننے پر مجبور نہیں کرنا چاہئے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ جب لوگ خوشخبری میں دلچسپی نہیں لیں گے تو ہم منادی کے کام میں سُست نہیں پڑیں گے اور نہ ہی مخالفت اور اذیت کی وجہ سے اس کو انجام دینے سے گریز کریں گے۔ یسوع کی طرح ہم لوگوں کو بتاتے ہیں کہ خدا کی بادشاہت ہی اِس زمین پر حکمرانی کرنے کا حق رکھتی ہے۔ ہم اس پیغام کو اس لئے دلیری سے سناتے رہیں گے کیونکہ ہم اس کائنات کے حاکمِاعلیٰ یہوواہ خدا کے نام میں بات کرتے ہیں اور یہ اُس کا پیغام ہے نہ کہ ہمارا۔ ہمیں یہ دلیری اس لئے بھی حاصل ہے کیونکہ ہمیں یہوواہ خدا سے دلی محبت ہے اور اس محبت کی بِنا پر ہم اُس کی ستائش کرنا چاہتے ہیں۔—فلپیوں ۱:۲۷، ۲۸؛ ۱-تھسلنیکیوں ۲:۱۳۔
اِن سوالات پر تبصرہ کریں
• ہمیں سب لوگوں کو بادشاہت کی خوشخبری سنانے کی کوشش کیوں کرنی چاہئے؟ اس پر زیادہتر لوگوں کا کیا ردِعمل رہے گا؟
• ہم کیسے ظاہر کر سکتے ہیں کہ ہم یہوواہ خدا کی خدمت انجام دینے کے لئے اُس پر بھروسہ کرتے ہیں؟
• ہم اعمال کی کتاب سے کونسے سبق سیکھ سکتے ہیں؟
[صفحہ ۱۷۳ پر تصویر]
پچھلے زمانہ کے مسیحیوں کی طرح یہوواہ خدا کے خادم آج بھی دلیری سے خدا کا کلام سنا رہے ہیں