خداداد آزادی کے مقصد کو بیفائدہ نہ ہونے دیں
”جہاں کہیں [یہوواہ] کی روح ہے وہاں آزادی ہے۔“ ۲-کرنتھیوں ۳:۱۷۔
۱. یسعیاہ ۶۵:۱۳، ۱۴ یہوواہ کے گواہوں پر کیوں لاگو ہوتی ہیں؟
یہوواہ آزادی کا خدا ہے۔ اور خدا داد آزادی کیا ہی بڑی نعمت ہے! کیونکہ اس کے مخصوصشدہ خادموں کے پاس ایسی آزادی ہے، حاکم اعلیٰ یہوواہ کے یہ الفاظ ان پر عائد ہوتے ہیں: ”دیکھو میرے بندے کھائینگے پر تم بھوکے رہوگے۔ میرے بندے پئینگے پر تم پیاسے رہوگے۔ میرے بندے شادمان ہونگے پر تم شرمندہ ہوگے۔ اور میرے بندے دل کی خوشی سے گائینگے پر تم دلگیری کے سبب نالاں ہوگے اور جانکاہی سے واویلا کرو گے۔“ یسعیاہ ۶۵:۱۳، ۱۴۔
۲. یہوواہ کے لوگ روحانی طور پر کیوں ترقی پر ہیں؟
۲ خدا کے لوگ اس روحانی طور پر کامیاب حالت سے لطفاندوز ہوتے ہیں کیونکہ اس کی روح، یا سرگرم قوت ان کی راہنمائی کرتی ہے۔ رسول پولس نے کہا: ”[یہوواہ] روح ہے اور جہاں کہیں [یہوواہ] کی روح ہے وہاں آزادی ہے۔“ (۲-کرنتھیوں ۳:۱۷) خداداد آزادی کا مقصد کیا ہے؟ اور اسے پوری طرح سے استعمال کرنے کے لئے ہم سے کس چیز کا تقاضا کیا جاتا ہے؟
جو آزادی خدا کے پاس ہے
۳. خدا کس قسم کی آزادی رکھتا ہے اور کیوں؟
۳ مطلق آزادی صرف یہوواہ ہی رکھتا ہے۔ اس کی مخلوقات میں سے کوئی بھی اس کی آزادی کو محدود نہیں کر سکتا کیونکہ وہ قادرمطلق خدا اور کائنات کا حاکماعلیٰ ہے۔ جیسے کہ وفادار آدمی ایوب نے کہا: ”کون اسے روک سکتا ہے؟ کون اس سے کہیگا کہ تو کیا کرتا ہے؟“ (ایوب ۹:۱۲) بالکل اسی طرح بابلی بادشاہ نبوکدنظر کو زبردستی یہ ماننا پڑا: ”کوئی نہیں جو [خداکا] ہاتھ روک سکے یا اس سے کہے کہ تو کیا کرتا ہے؟“ دانیایل ۴:۳۵۔
۴. یہ کسطرح ہے کہ یہوواہ اپنی آزادی کو محدود رکھتا ہے؟
۴ تاہم، یہوواہ کے اپنے راست اصول اس مطلق آزادی کو حدود میں رکھتے ہیں۔ اس کا مظاہرہ اس وقت کیا گیا جب ابرہام نے سدوم اور عمورہ کے باشندوں کیلئے اپنی فکرمندی کا اظہار کیا اور یہ پوچھا: ”کیا تمام دنیا کا انصاف کرنے والا انصاف نہ کریگا؟“ خدا کا جواب ظاہر کرتا ہے کہ وہ جو کچھ درست ہے اسے کرنے کی اپنی ذمہداری کو بخوبی سمجھتا ہے۔ اس نے سدوم کو کبھی بھی تباہ نہ کیا ہوتا اگر اس میں کوئی راستباز باشندے رہ گئے ہوتے۔ (پیدایش ۱۸:۲۲-۳۳) خدا اس لئے بھی اپنی آزادی کو حدود کے اندر رکھتا ہے کیونکہ اس کی محبت اور حکمت اسے قہر کرنے میں دھیما بناتی ہیں اور وہ ضبط نفس کو عمل میں لاتا ہے۔ یسعیاہ ۴۲:۱۴۔
انسانی آزادی کی تحدید
۵. چند کونسے عناصر ہیں جو انسانی آزادی کو محدود کرتے ہیں؟
۵ اگرچہ یہوواہ مطلق آزادی رکھتا ہے، لیکن دیگر سب اپنی فطرت، صلاحیتوں، اور رہنے کی جگہوں، اور اس کیساتھ ساتھ ایسی حدبندیوں کے اندر رہ کر کام کرتے ہیں، جس میں کہ موجودہ وقت کے گنہگار انسانوں کی محدود عمر جیسے عناصر بھی شامل ہیں۔ خدا نے انسان کو کامل آزادی کے ساتھ خلق کیا تاکہ وہ اس قلمرہ کے اندر رہ کر کام کرے جو یہوواہ نے اس کے لئے مقرر کیا تھا۔ اس کے علاوہ بھی اس کی کئی اور وجوہات ہیں کہ کیوں انسانی آزادی مطلق نہیں بلکہ محدود ہے۔
۶. خدا کے حضور جوابدہی کا ہماری آزادی کیساتھ کیا تعلق ہے؟
۶ اول، انسانی آزادی اس لئے محدود ہے کیونکہ خدا نے انسان کو اپنے مقصد کے تحت خلق کیا تھا۔ یہوواہ ”ہی تمجید اور عزت اور قدرت کے لائق ہے کیونکہ اسی نے سب چیزیں پیدا کیں اور وہ اسی کی مرضی ہی سے تھیں اور پیدا ہوئیں۔“ (مکاشفہ ۴:۱۱) لہذا انسان اپنے خالق کے حضور جوابدہ ہے، جس نے بالکل مناسب طور پر ایسے قوانین بنائے ہیں جو انسان پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ قدیم اسرائیل میں موسوی شریعت کے تحت، خدا اس کا تقاضا کرتا تھا کہ اگر کوئی شخص اس کے نام پر کفر بکے اور لعنت کرے یا سبت کے قانون کو توڑے تو وہ جان سے مارا جائے۔ (خروج ۲۰:۷، ۳۱:۱۴، ۱۵، احبار ۲۴:۱۳-۱۶، گنتی ۱۵:۳۲-۳۶) اگرچہ ہم مسیحیوں کے طور پر شریعت کے ماتحت تو نہیں، لیکن ہماری آزادی محدود ہے کیونکہ ہم یہوواہ کے حضور جوابدہ ہیں جو ہمارا منصف، شریعت دینے والا، اور بادشاہ ہے۔ یسعیاہ ۳۳:۲۲، رومیوں ۱۴:۱۲۔
۷، ۸. (ا)کیسے طبیعیاتی قوانین انسانی آزادی کو محدود کرتے ہیں؟ (ب) خدا کے دیگر کونسے قوانین انسانوں کے طور پر ہماری آزادی کو محدود کرتے ہیں؟
۷ دوئم، انسانی آزادی خدا کے طبیعیاتی قوانین کی وجہ سے بھی محدود ہے۔ مثال کے طور پر، کشش ثقل کے قانون کی وجہ سے، ایک آدمی ایک نہایت اونچی عمارت سے خود کو نقصان پہنچائے بغیر یا بغیر ہلاک کئے چھلانگ نہیں لگا سکتا۔ واضح طور پر، خدا کے طبیعیاتی قوانین بعض کاموں کو کرنے کے سلسلے میں انسان کی آزادی کو محدود کرتے ہیں۔
۸ سوئم، انسانی آزادی خدا کے اخلاقی قوانین کی وجہ سے بھی محدود ہے۔ بہت اغلب ہے کہ آپ نے بھی اس چیز کا مشاہدہ کیا ہو جسے پولس نے گلتیوں ۶:۷، ۸ میں تحریر کیا ہے: ”فریب نہ کھاؤ۔ خدا ٹھٹھوں میں نہیں اڑایا جاتا کیونکہ آدمی جو کچھ بوتا ہے وہی کاٹیگا۔ جو کوئی اپنے جسم کیلئے بوتا ہے وہ جسم سے ہلاکت کی فصل کاٹیگا اور جو روح کیلئے بوتا ہے وہ روح سے ہمیشہ کی زندگی کی فصل کاٹیگا۔“ یقینی طور پر، یہوواہ خدا کے اخلاقی قوانین بھی ہماری آزادی کو محدود کر دیتے ہیں، لیکن زندگی حاصل کرنے کیلئے ہم سے یہ تقاضا کیا جاتا ہے کہ ہم انکی فرمانبرداری کریں۔
۹. انسانی معاشرے کا ایک حصہ ہونا ہماری آزادی کو کس طرح محدود کرتا ہے؟
۹ چہارم، انسان کی آزادی اس لئے بھی محدود ہے کیونکہ وہ انسانی معاشرے کا ایک حصہ ہے۔ لہذا، اسے اسی حد تک آزادی مل سکتی ہے کہ وہ بیجا طور پر دوسروں کی آزادی میں مخل نہ ہو۔ مسیحیوں کو اس وقت تک حکومت کے ”اعلیٰ اختیار والوں“ کے تابع رہنا ہے، جب تک انکی فرمانبرداری کسی ایسی بات کا تقاضا نہیں کرتی جس سے کہ ہم خدا کے احکام کی مخالفت کریں۔ (رومیوں ۱۳:۱، اعمال ۵:۲۹) مثال کے طور پر، ہمیں ٹیکسوں کی ادائیگی، گاڑی کو جس رفتار سے چلانا ہے، اور اسی طرح کے دوسرے قوانین کی فرمانبرداری کرنی ہے۔ یہ حقیقت کہ ہمیں ”قیصر“ کے اس قسم کے قوانین کی پابندی کرنی ہے مزید اس بات کا ثبوت ہے کہ ہماری خداداد آزادی قطعی نہیں ہے۔ مرقس ۱۲:۱۷، رومیوں ۱۳:۷۔
نسبتی آزادی کیوں؟
۱۰، ۱۱. یہوواہ نے انسانوں کو نسبتی آزادی کیوں دی ہے؟
۱۰ خدا نے کیوں انسانوں کو نسبتی آزادی دی؟ ایک وجہ تو یہ تھی کہ شاید خالق زمین پر ایسی ذی شعور مخلوق کو پیدا کرنا چاہتا ہو جو اپنے عمدہ قولوفعل کے ذریعہ اس کیلئے حمدوتعریف اور عزت کا باعث ہونگے۔ انسان یہ کر سکتے ہیں، جبکہ جانور ایسا نہیں کر سکتے۔ چونکہ جانور جبلت کے تابع ہوتے ہیں، اس لئے وہ اخلاقیات کی بابت کچھ نہیں جانتے۔ آپ ایک کتے کو یہ تو تربیت دے سکتے ہیں کہ کوئی چیز نہ اٹھائے، لیکن آپ اسے یہ نہیں سکھا سکتے کہ چوری کرنا غلط کیوں ہے۔ گویا ایک جانور اپنی پروگرامشدہ کارگزاری کیساتھ ، جو پہلے ہی سے ہے، کوئی ایسا فیصلہ نہیں کر سکتا جو کہ خدا کے لئے حمدوتعریف اور عزت کا باعث ہو، جبکہ ایک انسان محبت اور قدردانی سے لبریز ہو کر بڑی آزادی سے اپنے خالق کی خدمت کرنے کا انتخاب کر سکتا ہے۔
۱۱ خدا انسانوں کو یہ آزادی انکے فائدے اور خوشی کیلئے بھی دیتا ہے۔ وہ اپنی اس نسبتی آزادی کو استعمال کرتے ہوئے مخترع اور ایجادپسند، فیضرساں اور معاون ہو سکتے ہیں۔ انسانوں کو پیشے اور جائے رہائش جیسے معاملات میں بھی انتخاب کی آزادی ہے۔ آجکل، معاشی اور سیاسی عنصر بھی اکثر انتخاب کی اس آزادی کو محدود کر دیتے ہیں، لیکن یہ شاید انسانی لالچ کی وجہ سے ہو، نہ کہ اس لئے کہ خدا نے ابتدائی طور پر انسان کو ایسا خلق کیا تھا۔
۱۲. انسانوں کی اکثریت غلامی میں کیوں ہے؟
۱۲ اگرچہ خدا نے انسانوں کو بہت آزادی دی ہے، آجکل لوگوں کی اکثریت ایک مایوسکن غلامی میں پڑی ہوئی ہے۔ ہوا کیا؟ پہلے انسانی جوڑے، آدم اور حوا نے، خداداد آزادی کے مقصد کوبیفائدہ ہو جانے دیا۔ وہ اپنی آزادی کے سلسلے میں الہی حدود سے آگے بڑھ گئے اور یوں اپنے اوپر بطور حاکم اعلیٰ یہوواہ کی راست حکمرانی کو چیلنج کیا۔ (پیدایش ۳:۱-۷، یرمیاہ ۱۰:۱۰، ۵۰:۳۱) اپنی آزادی سے خدا کو جلال دینے سے مطمئن نہ ہوتے ہوئے، انہوں نے اسے خودغرضی سے استعمال کیا، تاکہ خود ہی اس کا فیصلہ کریں کہ کیا درست ہے اور کیا غلط ہے، اور یوں یہوواہ کے خلاف بغاوت میں شیطان کیساتھ مل گئے۔ تاہم، اور زیادہ آزادی حاصل کرنے کی بجائے، گنہگار آدم اور حوا دشوارگزار پابندیوں اور غلامیوں میں پڑ گئے، جس سے انکی آزادی ختم ہوتی گئی، اور بالآخر موت ان پر آ گئی۔ انکی اولاد نے آزادی کی اس محرومی کو ورثہ میں پایا۔ ”اسلئے کہ سب نے گناہ کیا اور خدا کے جلال سے محروم ہیں۔“ ”کیونکہ گناہ کی مزدوری موت ہے۔“ رومیوں ۳:۲۳، ۵:۱۲، ۶:۲۳۔
۱۳. شیطان انسانوں کو غلام بنانے کے قابل کیوں ہوا ہے؟
۱۳ عدن میں بغاوت کی وجہ سے، آدم اور اس کی اولاد بھی شیطان ابلیس کی غلامی میں آ گئے۔ ”ساری دنیا اس شریر کے قبضہ میں پڑی ہوئی ہے“! (۱-یوحنا ۵:۱۹) یہ اس کے اعلیٰ اختیار اور لیاقت کی بدولت ہی ہے کہ شیطان خدا سے بیگانہ تمام بنیآدم کو دھوکا دینے اور اپنا غلام بنانے کے قابل ہوا ہے۔ اس کے علاوہ، خودغرض انسانوں نے اپنے ساتھی انسانوں پر حکومت کر کے دکھ پایا ہے۔ (واعظ ۸:۹) پس، عمومی طور پر نوعانساں اب گناہ اور موت، شیطان اور اسکے شیاطین، اور اس دنیا کے سیاسی، معاشی، اور مذہبی نظاموں کی غلامی میں ہیں۔
حقیقی آزادی ممکن بنا دی گئی
۱۴. حقیقی آزادی کے لئے انسانی امید کس چیز کیساتھ وابستہ ہے؟
۱۴ گناہ، موت، اور ابلیس اور اس کی دنیا سے آزادی حاصل کرنا خدا کی اپنی عالمگیر فرمانروائی کے حق کے سلسلے میں متنازع مسئلے کو حل کرنے کے عزممصمم کیساتھ وابستہ ہے۔ کیونکہ شیطان نے اس متنازع مسئلے کو اٹھایا تھا، یہوواہ نے اسے موجود رہنے کی اجازت دی ہے، بالکل اسی طرح جیسے اس نے فرعون کو ایک وقت تک رہنے کی اجازت دی تھی۔ یہ اس لئے ہے کہ یہوواہ پوری طرح سے اپنی طاقت کا مظاہرہ کر سکے اور اپنے نام کو تمام زمین پر مشہور کروائے۔ (خروج ۹:۱۵، ۱۶) خدا جلد ہی خود کو بطور کائنات کے حاکماعلیٰ کے سربلند کریگا اور اپنے پاک نام کی تقدیس کرنے کے لئے اس تمام ملامت کو دور کریگا جو باغی شیطان، آدم، اور حوا کے ذریعے اس پر آئی تھی۔ یوں، وہ جو یہوواہ سے ڈرتے ہیں گناہ اور موت کی غلامی سے آزاد کئے جائیں گے اور خداداد آزادی والی ایک نئی دنیا میں داخل کئے جائیں گے۔ رومیوں ۸:۱۹-۲۳۔
۱۵. بنیآدم کے لئے آزادی کو بحال کرنے میں یسوع نے کیا کردار ادا کیا؟
۱۵ نوعانساں کی آزادی کو بحال کرنے کیلئے، خدا نے اپنے بیٹے کو اس زمین پر بطور انسان بھیجا۔ رضاکارانہ طور پر اپنی کامل انسانی زندگی کو دینے سے، خدا کے بیٹے، یسوع مسیح، نے فدیہ کی قربانی فراہم کی، جو کہ نوعانساں کو آزاد کرانے کی بنیاد ہے۔ (متی ۲۰:۲۸) اس نے آزادی کے ایک پیغام کا بھی اعلان کیا۔ اپنی خدمتگزاری کے شروع میں، اس نے ان الفاظ کا اپنے اوپر اطلاق کیا: ”[ حاکماعلیٰ یہوواہ] خدا کی روح مجھ پر ہے کیونکہ اس [یہوواہ] نے مجھے مسح کیا تاکہ حلیموں کو خوشخبری سناؤں۔ اس نے مجھے بھیجا ہے کہ شکستہ دلوں کو تسلی دوں۔ قیدیوں کو رہائی اور اسیروں کیلئے آزادی کا اعلان کروں۔“ یسعیاہ ۶۱:۱، لوقا ۴:۱۶-۲۱۔
۱۶. حقیقی آزادی حاصل کرنے کے لئے پہلی صدی کے یہودیوں کو کونسے اقدام اٹھانے پڑے تھے؟
۱۶ لوگ کیسے اس آزادی کو حاصل کرینگے؟ یسوع نے کہا: ”اگر تم میرے کلام پر قائم رہو گے تو حقیقت میں میرے شاگرد ٹھہرو گے۔ اور سچائی سے واقف ہوگے اور سچائی تم کو آزاد کریگی۔“ لہذا، یسوع کے شاگرد روحانی آزادی سے لطفاندوز ہونے کے قابل ہوئے ہیں۔ (یوحنا ۸:۳۱، ۳۲، ۳۶) مزیدبرآں، یسوع نے رومی گورنر پنطس پیلاطس کو بتایا: ”میں اس لئے پیدا ہوا اور اس واسطے دنیا میں آیا ہوں کہ حق پر گواہی دوں۔ جو کوئی حقانی ہے میری آواز سنتا ہے۔“ (یوحنا ۱۸:۳۷) جن یہودیوں نے سچائی کو اسی طرح قبول کیا جیسے یسوع نے منادی کی اور نمونہ دیا، انہوں نے اپنے گناہوں سے توبہ کی، اپنی غلط روش کو درست کیا، خود کو یہوواہ کے سامنے پیش کیا، اور اسی طرح بپتسمہ پایا جیسے یسوع نے لیا تھا۔ (متی ۳:۱۳-۱۷، اعمال ۳:۱۹) اس طرح سے وہ نسبتی خداداد آزادی سے لطفاندوز ہونے کے قابل ہوئے۔
۱۷. یہوواہ کیوں اپنے خادموں کو آزادی عطا کرتا ہے؟
۱۷ یہوواہ بنیادی طور پر خود اپنی حاکمیت کی سربلندی کے لئے اپنے وفادار خادموں کو آزادی دیتا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ ان کے اطمینان اور فائدے کے لئے بھی۔ اس نے اسرائیل کو مصر کی غلامی سے آزاد کرایا تاکہ وہ شاہی کاہنوں، اسکے گواہوں، کے طور پر اسے جلال دے سکیں۔ (خروج ۱۹:۵، ۶، یسعیاہ ۴۳:۱۰-۱۲) اسی طرح، یہوواہ اپنے لوگوں کو بابلی اسیری سے نکال لایا، بنیادی طور پر اس لئے کہ وہ اس کے مقدس کو دوبارہ تعمیر کریں اور سچی پرستش کو بحال کریں۔ (عزرا ۱:۲-۴) جب اسیروں نے صرف اپنی مادی آسائشوں پر ہی توجہ دی تو یہوواہ نے اپنے نبی حجی اور زکریاہ کو بھیجا تاکہ ان کو خدا کے لئے ان کی ذمہداریوں سے آگاہ کریں۔ یوں اپنی خداداد آزادی کو مناسب مقام پر رکھنا مقدس کی تعمیر کی تکمیل، خدا کے جلال، اور اس کیساتھ ساتھ اس کے لوگوں کے اطمینان اور خوشحالی پر منتج ہوا۔
خداداد آزادی کے مقصد کو بیفائدہ نہ ہونے دینا
۱۸. یہ کیونکر کہا جا سکتا ہے کہ یہوواہ کے جدید زمانہ کے خادموں نے اپنی خداداد آزادی کے مقصد کو بیفائدہ نہیں ہونے دیا؟
۱۸ خدا کے جدید زمانے کے خادموں کی بابت کیا ہے؟ بطور ایک تنظیم کے انہوں نے اپنی خداداد آزادی کے مقصد کو بیفائدہ نہیں ہونے دیا۔ ۱۸۷۰ کے دہوں میں انہوں نے بابلی غلط کاریوں سے آزاد ہونا اور وسیعتر مسیحی آزادی سے لطفاندوز ہونا شروع کیا۔ یہ امثال ۴:۱۸ کی مطابقت میں تھا جو کہتی ہے: ”صادقوں کی راہ نورسحر کی مانند ہے جسکی روشنی دوپہر تک بڑھتی ہی جاتی ہے۔“ تاہم، جیسے خدا کے ماضی کے لوگوں کو کچھ مدت کے لئے بابلی اسیری میں لے جایا گیا، اسی طرح ۱۹۱۸ میں، یہوواہ کے خادم ایک حد تک بابل عظیم کی غلامی میں آ گئے۔ (مکاشفہ ۱۷:۱، ۲، ۵) اس جھوٹے مذہب کی عالمی مملکت کے ممبروں نے اس وقت بڑی خوشی منائی جب علامتی ”دو گواہ“ روحانی طور پر مردہ ہو گئے۔ لیکن خدا کے غیر مستحق فضل کی بدولت، ۱۹۱۹ میں، اس کے ممسوح خادم روحانی طور پر آزاد ہو کر پھر سے تازہ دم ہو گئے۔ (مکاشفہ ۱۱:۳، ۷-۱۱) اپنی خداداد آزادی کو استعمال کرتے ہوئے، وہ بلندوبالا خدا کے سرگرم گواہ بن گئے۔ اس لئے، یہ کتنا مناسب تھا کہ انہوں نے، ۱۹۳۱ میں، بڑی خوشی سے نام یہوواہ کے گواہ کو اپنایا! (یسعیاہ ۴۳:۱۰-۱۲) بالخصوص ۱۹۳۵ سے لیکر ان ممسوح گواہوں کیساتھ ”ایک بڑی بھیڑ“ آ ملی ہے، جو زمین پر ابدی زندگی کی امید رکھتے ہیں۔ وہ بھی اپنی خدا داد آزادی کے مقصد کو بیفائدہ نہیں ہونے دے ر ہے۔ مکاشفہ ۷:۹-۱۷۔
۱۹، ۲۰. (۱)ایک قابلغور طریقہ کونسا ہے جس سے یہوواہ کے لوگ اپنی خداداد آزادی کا اچھا استعمال کرتے ہیں؟ (ب) ایک اور کونسے قابلغور طریقہ سے یہوواہ کے لوگ اس آزادی کو استعمال کرتے ہیں جو خدا نے انہیں عطا کی ہے؟
۱۹ یہوواہ کے لوگ اپنی خداداد آزادی کو خاص طور پر دو قابلغور طریقوں سے عمدہ استعمال میں لا رہے ہیں۔ ایک تو یہ ہے کہ وہ اسے ایک راست روش کو تلاش کرنے کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ (۱-پطرس ۲:۱۶) اور ان کو کیا ہی اچھی شہرت حاصل ہے! مثال کے طور پر، ایک مرتبہ زیورچ، سویٹزرلینڈ، میں ایک شخص کنگڈم ہال میں داخل ہوا، اور کہا کہ وہ یہوواہ کے گواہوں میں سے ایک بننا چاہتا ہے۔ جب پوچھا گیا کہ کیوں، تو اس نے جواب دیا کہ اس کی بہن ایک گواہ تھی اور اب بداخلاقی کی وجہ سے اسے خارج کر دیا گیا ہے۔ اس نے کہا: ”یہی وہ تنظیم ہے جس کے ساتھ میں شامل ہونا چاہتا ہوں ایسی تنظیم جو بداخلاقی کو برداشت نہیں کرتی۔“ اسی وجہ سے دی نیو کیتھولک انساکلوپیڈیا نے یہ مشاہدہ کیا ہے کہ یہوواہ کے گواہوں نے ”دنیا میں بہترین اخلاق والے گروپوں“ میں سے ایک کے طور پر شہرت حاصل کی ہے۔
۲۰ یہوواہ کے گواہ یسوع کی طرح بادشاہتی خوشخبری کی منادی کرنے کے اپنے کام کو سرانجام دیکر بھی اپنی خداداد آزادی کو استعمال میں لاتے ہیں۔ (متی ۴:۱۷) زبانی کلام اور اشاعتوں کے ذریعہ دونوں رسمی اور غیررسمی طریقوں سے وہ، یہوواہ کی بادشاہی کا اعلان کر رہے ہیں۔ ایسا کرنے سے وہ اپنے ایمان کو مضبوط کرتے ہوئے اور اپنی امید کو روشن کرتے ہوئے بہت زیادہ فائدہ حاصل کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ، یہ کارگزاری انکی اور ان کے سننے والوں دونوں کی نجات کا باعث ہوتی ہے۔ (۱-تیمتھیس ۴:۱۶) اس کارگزاری کے سلسلے میں، کتاب ڈائنیمک ریلیجس موومنٹس کہتی ہے: ”کسی اور گروپ میں اپنے مذہب کے لئے گواہوں جیسے سخت محنت کرنے والے ممبروں کا ملنا بیحد مشکل ہوگا۔“
۲۱. اس کی کیا شہادت ہے کہ یہوواہ اپنے لوگوں کی خدمتگزاری کو برکت دے رہا ہے؟
۲۱ ہماری خداداد آزادی کے مقصد کو پورا کرنے کے کام میں یہوواہ ہم کو کسقدر برکت دے رہا ہے! یہ گذشتہ سال کی خدمتی رپورٹ سے دیکھا جا سکتا ہے یسوع کی موت کی یادگار پر دس ملئن سے زائد کی حاضری کیساتھ ساتھ ، چار ملئین بادشاہتی پبلشروں کی انتہائی تعداد۔ ایک سروے کے مطابق، آئرلینڈ کو ۲۹ سلسلہوار ماہانہ پبلشروں کی انتہائی تعدادیں حاصل ہوئیں، میکسیکو کو ۸۰ مہینوں کے دوران ۷۸ سلسلہوار انتہائی تعدادیں حاصل ہوئیں، اور جاپان کو لگاتار ۱۵۳ انتہائی تعدادیں حاصل ہوئیں!
اپنی خداداد آزادی کو اچھی طرح سے استعمال کریں
۲۲. خیال کو تحریک دینے والے ان بعض سوالات کا نچوڑ کیا ہے جو ہمیں خود سے پوچھنے چاہئیں؟
۲۲ اگر آپ یہوواہ کے مخصوص شدہ گواہوں میں سے ایک ہیں تو کیا آپ اپنی خداداد آزادی کو اچھی طرح سے استعمال کر رہے ہیں؟ ہم میں سے ہر ایک کو خود سے یہ پوچھنا چاہیے: ”کیا میں اپنی خداداد آزادی کو اس طرح دھیان سے استعمال کرتا ہوں کہ غلط چالچلن کی وجہ سے کسی کو ٹھوکر کھلانے سے گریز کروں؟ خدا کے احکام کو پہلا درجہ دیتے ہوئے، کیا میں فرضشناسی کے ساتھ قیصر کے قوانین کی فرمانبرداری کرتا ہوں؟ کیا میں پوری طرح سے کلیسیائی بزرگوں کے ساتھ تعاون کرتا ہوں؟ کیا میں خوشخبری کی منادی میں اپنی خداداد آزادی کو پوری طرح استعمال کر رہا ہوں؟ کیا میرے پاس ”خداوند کے کام میں افزائش کرنے کے لئے“ ہمیشہ بہت کچھ ہے؟ کیا میں حرص کے ساتھ ایک دنیاوی نوکری کی تلاش میں ہوں جبکہ میں کلیسیا میں یا کل وقتی خدمت میں بھاری ذمہداریوں کو قبول کر کے اپنی خدمتگزاری کو وسیع کرتے ہوئے اپنی خداداد آزادی کو بہتر طور پر استعمال کر سکتا ہوں؟“ ۱-کرنتھیوں ۱۵:۵۸۔
۲۳. ہمیں کیا کرنا چاہیے تاکہ اپنی خداداد آزادی کے مقصد کو بیفائدہ نہ ہونے دیں؟
۲۳ دعا ہے کہ ہم سب ”آزما کر [دیکھیں] کہ یہواہ کتنا مہربان ہے۔“ (زبور ۳۴:۸) آئیے ہم اس پر بھروسہ کریں، اس کے آئین کی تعمیل کریں، اور گرمجوشی سے اس کی بادشاہی کا اعلان کرتے ہوئے اس کے پاک نام کو جلال دیں۔ یاد رکھیں کہ ”جو بہت بوتا ہے بہت کاٹیگا۔“ (۲-کرنتھیوں ۹:۶) اس لئے، آئیے ہم یہوواہ کی خدمت پورے دلوجان سے کرتے رہیں اور یہ ظاہر کریں کہ ہم نے اپنی خداداد آزادی کے مقصد کو بیفائدہ نہیں ہونے دیا۔ (۹۲ ۸ ۳/۱۵ w)
آپ کیا جواب دیں گے؟
▫ خدا کس قسم کی آزادی رکھتا ہے؟
▫ انسانی آزادی کی حدود کیا ہیں؟
▫ حقیقی آزادی کیسے ممکن بنا دی گئی تھی؟
▫ خداداد آزادی کے مقصد کو بیفائدہ ہونے سے بچانے کے لئے ہم کیا کر سکتے ہیں؟
[تصویر]
انسانی آزادی قانونثقل جیسے عناصر کی وجہ سے محدود ہے