آپ مایوسی پر قابو پا سکتے ہیں!
ایک ۲۳سالہ آدمی کی شکستہحالی پر نظر کریں۔ اسکے پاس محدود تعلیم ہے اور بہت ہی کم اجرت پر کام کر رہا ہے۔ اس کیلئے شادی اور ایک مطمئن زندگی کے خیالات بعید از قیاس معلوم ہوتے ہیں۔ یہ حیرانکن نہیں کہ ماں کہتی ہے: ”وہ بیحد غمگین اور مایوس ہے۔“ اس نوجوان کا معاملہ دیگر لاکھوں کی ایسی ہی حالت کی ایک مثال ہے۔ کسی نہ کسی وجہ سے، زندگی کے تمام شبعوں میں لوگ مایوس ہیں۔
مایوسی ”عدم تحفظ، حوصلہشکنی، اور بےاطمینانی کا ایک شدید مستقل احساسحالت ہے جو کہ ناکام خواہشات، اندرونی اختلافات، یا دیگر حلطلب مسائل سے جنم لیتا ہے۔“ (ویبسٹرز تھرڈ نیو انٹرنیشنل ڈکشنری) ہمیں اس وقت مایوسی کا تجربہ ہوتا ہے جب ہم کسی کام کو انجام دینے کیلئے سخت کوشش کرتے ہیں لیکن کامیاب نہیں ہوتے۔ ہر موڑ پر ہمیں رکاوٹ محسوس ہوتی ہے، گویا کہ ہم کامیابی کے کسی امکان کے بغیر ہی ایک چٹانی دیوار کیساتھ سر ٹکرا رہے تھے۔ ہم سب اس احساس سے واقف ہیں۔
بظاہر غیراطمینانبخش نوکریوں پر کام کرنے والے شاید ناکارہ ہونے کے احساسات رکھتے ہوں۔ اگر روزمرہ کی پریشانیوں اور تھکا دینے والے فرائض کیساتھ جدوجہد کرتی ہوئی بیویوں اور ماؤں کی قدر نہ کی جائے تو شاید وہ بھی خود کو فضول اور بےقدر محسوس کریں۔ اسکول میں آزمائشوں کا سامنا کرنے والے نوجوان لوگ شاید تعلیم حاصل کرنے کی اپنی کاوشوں کی بابت مایوسی کا سامنا کر رہے ہوں۔ اقلیتی گروپوں کے ممبر شاید اس بات سے قائل ہو کر شاید پریشان اور ناخوش ہوں کہ وہ غیرمنصفانہ امتیاز کا شکار ہیں۔ ایسے کاروباری اشخاص جو ایمانداری سے عمدہ اشیاء یا خدمات فراہم کرنے کی کوشش کرتے ہیں شاید بددیانت اور بےاصول حریفوں کی وجہ سے مالی طور پر کچلے جا رہے ہوں۔ یہ اور اسطرح کے دیگر تجربات مایوسی کا باعث بنتے ہیں اور بہتیروں کو ناامیدی کے احساسات میں چھوڑ دیتے ہیں۔
ایک دانشور آدمی جو کئی صدیاں پہلے ہو گذرا اپنی مایوسیوں کو الفاظ کی شکل دینے کے قابل ہوا جنہیں ہم سمجھ سکتے ہیں۔ اسرائیل کے بادشاہ سلیمان نے کہا: ”پھر میں نے ان سب کاموں پر جو میرے ہاتھوں نے کئے تھے اور اس مشقت پر جو میں نے کام کرنے میں کھینچی تھی نظر کی اور دیکھا کہ سب بطلان اور ہوا کی چران ہے اور دنیا میں کچھ فائدہ نہیں۔ کیونکہ آدمی کو اسکی ساری مشقت اور جانفشانی سے جو اس نے دنیا میں کی کیا حاصل ہے؟ کیونکہ اس کیلئے عمربھر غم ہے اور اسکی محنت ماتم ہے بلکہ اسکا دل رات کو بھی آرام نہیں پاتا۔ یہ بھی بطلان ہے۔“ (واعظ ۲:۱۱، ۲۲، ۲۳) سلیمان کے الفاظ اس ناامیدی کا اظہار کرتے ہیں جس کا بہتیروں کو ان مایوسیوں پر قابو پانے کی کوشش کرنے میں احساس ہوتا ہے جو ان سے ایک بااجر زندگی کو چھین لیتی ہے۔
مایوس لوگ ہو سکتا ہے کہ بیقرار بھی ہو جائیں۔ سنگین حالات میں بعض نے معاشرے سے الگتھلگ بےراہروی کی زندگی اختیار کرنے سے جدوجہد کو ترک کر دیا ہے۔ اسے حاصل کرنے کیلئے جسکا وہ خود کو حقدار سمجھتے ہیں، بعض نے جرموتشدد کی طرف رجوع کیا ہے۔ بیرحم دباؤ نے شادی اور خاندانی رشتوں کو پاش پاش کر دیا ہے۔
ہم میں سے بہتیروں کو شاید مایوسی پر قابو پانے کے طریقوں کی تلاش کرنے میں بہت کوشش کرنی پڑے۔ جو کچھ بھی ہم کرتے ہیں اس سے قطعنظر، حالات شاید خرابتر ہوتے دکھائی دیں۔ امثال ۱۳:۱۲ کہتی ہے: ”امید کے برآنے میں تاخیر دل کو بیمار کرتی ہے۔“ ہماری جسمانی اور روحانی صحت شاید خطرے میں ہو۔ کیا حالت ناامیدی والی ہے؟ کیا ہمیں ہماری کوتاہیوں یا غلطیوں کی سزا میں مستقل مایوسی کیساتھ زندہ رہنا ہے؟ کیا ایک زیادہ مطمئن زندگی سے لطفاندوز ہونے کے سلسلے میں مایوسی پر قابو پانے کیلئے کچھ عملی اقدام اٹھائے جا سکتے ہیں؟ آئیے ہم اسکو دیکھیں۔
مایوسی پر قابو پانے کے چند طریقے
جب ہمیں کوئی مسئلہ درپیش ہوتا ہے اور نصیحت کے حاجتمند ہوتے ہیں تو عموماً ہم ایک ایسے صاحبحکمت، تجربہکار شخص کے پاس جاتے ہیں جس پر ہم بھروسہ کر سکتے ہیں۔ امثال ۳:۵، ۶ سفارش کرتی ہے: ”سارے دل سے خداوند پر توکل کر اور اپنے فہم پر تکیہ نہ کر۔ اپنی سب راہوں میں اسکو پہچان اور وہ تیری راہنمائی کریگا۔“ عملی نصیحت خدا کے کلام، بائبل، میں مل سکتی ہے۔ بصیرت کی ان چند مثالوں پر غور کریں جو یہ فراہم کرتی ہے۔
ہو سکتا ہے کہ مایوسی کا تعلق روزی کمانے سے ہو۔ مثلاً، ہماری ملازمت تو شاید اطمینانبخش ہو، لیکن کماجرت شاید افسردگی کا ذریعہ ہو۔ ہم اپنے خاندانوں سے پیار کرتے ہیں اور ان کیلئے خوبترین کے خواہشمند ہیں۔ پھر بھی، اپنے مالی فرائض پر پورا اترنے کی بابت پریشانی کا کوئی خاتمہ دکھائی نہیں دیتا۔ شاید ہم اوورٹائم کام کریں اور ہو سکتا ہے کہ دوسری نوکری بھی کر لیں۔ تھوڑے عرصہ کے بعد زندگی کھانےپینے، سونے، اور کام کرنے کا ایک اکتا دینے والا سلسلہ دکھائی دیتی ہے۔ تاہم، بل جمع ہونے لگتے ہیں، قرضوں میں اضافہ ہوتا ہے، اور مایوسی بڑھنے لگتی ہے۔
دنیاوی ملازمت کا اولین مقصد ہماری ضروریات کو پورا کرنا ہے۔ لیکن ہماری ضرورت کتنی ہے؟ رسول پولس نے لکھا: ”نہ ہم دنیا میں کچھ لائے اور نہ کچھ اس میں سے لے جا سکتے ہیں۔ پس اگر ہمارے پاس کھانے پہننے کو ہے تو اسی پر قناعت کریں۔“ کیا ہم اس سے زیادہ حاصل کرنے اور جو کچھ دوسروں کے پاس ہے یا جو کچھ وہ کرنے کے قابل ہیں اسکا مقابلہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں؟ اگر ایسا ہے تو شاید ہم مایوسی کی صورت میں اسکے نتائج بھگت رہے ہوں۔ پولس نے آگاہ کیا: ”جو دولتمند ہونا چاہتے ہیں وہ ایسی آزمایش اور پھندے اور بہت سی بیہودہ اور نقصان پہنچانے والی خواہشوں میں پھنستے ہیں جو آدمیوں کو تباہی اور ہلاکت کے دریا میں غرق کر دیتی ہیں۔ کیونکہ زر کی دوستی ہر قسم کی برائی کی جڑ ہے جس کی آرزو میں بعض نے ایمان سے گمراہ ہو کر اپنے دلوں کو طرح طرح کے غموں سے چھلنی کر لیا ہے۔“ (۱-تیمتھیس ۶:۷-۱۰) اپنے مادی حاصلات کا ایک دیانتدارانہ جائزہ شاید بعض غیرضروری چیزوں کی نشاندہی کرے۔ کفایت شعاری کرنے اور ایک منکسر طرززندگی اپنانے کی بابت چند معقول تبدیلیاں شاید ہماری مایوسی کو کم کرنے میں مددگار ثابت ہوں۔
دبی ہوئی فطری خواہشات بھی بڑی حد تک مایوسی کا باعث بنی ہیں۔ مثال کے طور پر، ایک جوان عورت کیلئے شادی کرنے اور خاندانی زندگی سے حاصل ہونے والے تحفظ اور شفقت کی شدید خواہش رکھنا ایک فطری بات ہے۔ شاید وہ جدید فیشنوں اور بناؤ سنگھار کی مدد سے خود کو مزید پرکشش بنانے کیلئے کافی زیادہ کوشش کرے اور شاید محبت کے بیماروں کیلئے مشورت پیش کرنے والے رسالوں کی شوقین قاری بن جائے۔ ایسی عورت شاید ایک مناسب ساتھی حاصل کرنے کی آس میں متواتر سماجی اجتماعوں میں جانے لگے—بغیر کسی کامیابی کے۔ سالوں گزر جاتے ہیں، اور مایوسی ناقابلبرداشت ہو جاتی ہے۔ بیقراری کی حالت میں شاید وہ کسی غیرموزوں شخص کیساتھ شادی کرنے کی اکساہٹ پائے۔ اس سے بھی بدتر یہ کہ شفقت حاصل کرنے کی اپنی خواہش کو تسکین دینے کیلئے شاید وہ بداخلاق چالچلن میں پڑ جائے۔
ایسی حالت میں، تحمل اور اچھی تمیز نہایت ضروری ہیں۔ ایک ناموزوں شخص کیساتھ شادی—خاص طور پر ایک ایسے شخص کیساتھ جس میں یہوواہ پر ایمان کی کمی ہو—ایک انتہائی سنگین غلطی ہوگی۔ (۱-کرنتھیوں ۷:۳۹، ۲-کرنتھیوں ۶:۱۴، ۱۵) بداخلاقی ناگزیر طور پر درددل اور ناامیدی کا باعث ہوتی ہے۔ (امثال ۶:۳۲، ۳۳) دیانتدارانہ ذاتی جائزہ، بمع ایک معقول طریقے کے رسائی کرنے میں مدد دے سکتا ہے۔ انوکھی طرز کے کپڑوں یا غیر معمولی میکاپ کے سامان کی نسبت ”حلم اور مزاج کی غربت“ ایک درست قسم کے ساتھی کی توجہ کو آپکی طرف کہیں زیادہ مبذول کرا سکتی ہے۔ (۱-پطرس ۳:۳، ۴) دنیاوی ماہرین کی عموماً کوتاہبیں یا معمولی مشورت پر بھروسہ کرنے کی بجائے یہ نہایت اہم ہے کہ یہ سیکھنے کیلئے شادی کے بانی کے پاس جایا جائے کہ ایسی بیوی بننے کیلئے کیا درکار ہے جس سے محبت اور پیار کیا جاتا ہے۔ (امثال، باب ۳۱) غیرشادیشدہ آدمیوں اور عورتوں کو ایسی خوبیوں کو ظاہر کرنے کی کوشش کرنی چاہیے جنہیں وہ اپنے ساتھی میں دیکھنے کے خواہشمند ہیں۔ یہ کسقدر دانشمندی کی بات ہے کہ ایسے لوگوں کیساتھ عمدہ رفاقت کے خواہاں ہوں جو بائبل اصولوں کا احترام کرتے ہیں۔ اگر ہم انہیں اپنی زندگیوں میں عائد کرتے ہیں تو ایک خوشحال شادی کیلئے ہمارے امکانات نہایت ہی بہتر ہونگے۔ اگرچہ فوراً سے شادی نہ بھی ہو تو بھی صحائف کی مطابقت میں کام کرنا باعثخوشی ہوگا اور کنوارپن کی زندگی کو بہت بااجر بنا دیگا۔
فرائض کا بھاری بوجھ شاید ہمیں سخت غصہ دلانے کی حد تک لے جانے کا باعث بنے۔ ہو سکتا ہے کہ سب طرف سے دباؤ ہو۔ شاید ہم اپنے خاندان کی اشد ضروریات کی بابت پریشان ہوں، اور ہمارا مالک ہم سے کبھی مطمئن نہ ہو۔ شاید رشتےدار ہر بار مشکلات میں ہم سے مدد کی توقع کریں۔ بہت زیادہ بوجھوں کی وجہ سے شاید بےتوجہی کے شکار بہت سے ذاتی نوعیت کے مسائل ہماری توجہ چاہتے ہوں۔ شاید ایسا معلوم دے کہ بیکوقت ہمارے وقت اور طاقت کو درجنوں مختلف سمتوں میں کام کرنا ہے۔ مایوسی شاید سخت غصے میں تبدیل ہو جائے اور شاید ہم ہمت ہارتے ہوئے محسوس کریں۔ پس، ہمیں کیا کرنا چاہیے؟
ہمارے لئے یہ دانشمندی ہوگی کہ ایک بار پھر اپنی اولیتوں کا جائزہ لیں۔ چونکہ ہم ایک حد تک ہی کچھ کر سکتے ہیں اسلئے یہ ناممکن ہوگا کہ دوسروں کے ہر تقاضے پر پورا اتریں۔ ہمیں صرف [”زیادہ اہم باتوں“، NW] پر ہی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ (فلپیوں ۱:۱۰) بہرصورت ”زندہ کتا مردہ شیر سے بہتر ہے۔“ (واعظ ۹:۴) بعض اہم فرائض تشویشناک ہوتے ہیں جنہیں پس پُشت نہیں ڈالا جا سکتا، جبکہ دیگر کم اہم فرائض کو بعد کیلئے رکھا جا سکتا ہے۔ ہو سکتا ہے ہم نے بعض ایسے کاموں کی پوری ذمہداری اٹھا رکھی ہو جسے دوسرے بانٹ سکتے ہیں۔ اگر بعض ذمہداریاں لازمی نہیں تو انہیں بالکل نظرانداز کیا جا سکتا ہے۔ اگرچہ ایسا کرنا شاید شروع میں بےچینی یا دوسروں کو مایوس کرنے کا سبب بنے لیکن ہمیں اپنی جسمانی اور جذباتی حدبندیوں کا پاسولحاظ رکھنے کی ضرورت ہے۔
ایک کمزور کر دینے والی بیماری بھی سخت مایوسی لا سکتی ہے کیونکہ شاید یہ ہمیں لگاتار کئی دنوں یا ہفتوں کیلئے بستر پر ڈالدے۔ شدید درد بھی ہمیں سخت تکلیف میں مبتلا کر سکتا ہے۔ علاج کی جستجو میں شاید ہم ایک کے بعد دوسرے ڈاکٹر کے پاس جائیں یا شاید بہت سی دوائیں یا وٹامنز کھائیں اس امید کیساتھ کہ کچھ بہتری لائینگی۔ تو بھی، شاید ہم بیمار ہی رہیں اور یہ سوچنا شروع کر دیں کہ آیا زندگی جدوجہد کی مستحق ہے۔
یہ ایک ایسا مسئلہ ہو سکتا ہے جس کا حل صرف خدا کے نئے نظام ہی میں ممکن ہے۔ (۲-پطرس ۳:۱۳، مقابلہ کریں یسعیاہ ۳۳:۲۴۔) چونکہ انسان ناکامل ہیں، ڈاکٹر اور دوائیں محض ایک حد تک ہی کام کر سکتی ہیں۔ کسی وقت پر، شاید ہمیں اپنی تکلیف کو زندگی کے ایک حصے کے طور پر تسلیم کرنا پڑے۔ رسول پولس کے ”جسم میں ایک کانٹا“ تھا شاید اسے آنکھ یا جسم کے کسی اور حصے میں تکلیف تھی جو کہ اس قدر تکلیفدہ تھی کہ اس نے بارہا اسکے دور ہو جانے کیلئے دعا کی۔ (۲-کرنتھیوں ۱۲:۷-۱۰) لیکن خدا نے پولس کو شفا نہ دی اور شاید رسول کو اپنی موت تک اس تکلیف کیساتھ جدوجہد کرنی پڑی تھی۔ وہ اپنی تکلیف کیساتھ زندہ رہا، اس نے رحم کی درخواست نہیں کی اور نہ ہی اس نے اپنی خوشی کو کھونے دیا۔ (۲-کرنتھیوں ۷:۴) اگرچہ راستباز شخص ایوب نے بہت تکلیف برداشت کی تو بھی اس نے یہوواہ پر اپنا ایمان قائم رکھا اور یہ اس کیلئے بڑے اجر کا باعث ہوا۔ (ایوب ۴۲:۱۲، ۱۳) اگر ہم خدا کے خادم ہیں تو ہم ان مثالوں پر غور کرنے اور یہوواہ سے دعا کرتے رہنے سے تقویت حاصل کر سکتے ہیں۔—زبور ۴۱:۱-۳۔
مایوسیوں کے باوجود مضبوط
یہوواہ کے لوگ کسی بھی طرح کی مایوسیوں کے باوجود روحانی طور پر مضبوط رہ سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر، اگرچہ ہمیں بیماری کی برداشت کرنی پڑے تو بھی ہم خدا کی روحانی فراہمیوں سے پوری طرح مستفید ہوتے ہوئے ”ایمان میں مضبوط“ رہ سکتے ہیں۔ (ططس ۲:۱، ۲) جبکہ ہم شاید مالی طور پر مایوسی کی حد تک غریب ہوں تو بھی ہم شاندار طریقے سے روحانی طور پر امیر ہو سکتے ہیں۔
حکمت اور طاقت کیلئے خدا پر توکل کرنے سے، ہم ان مایوسیوں پر قابو پا سکتے ہیں جو شاید گھریلو حالات میں پیدا ہو جائیں۔ مثال کیطور پر، نابال کی بیوی، ابیجیل پر غور کریں۔ وہ ”بڑا بےادب اور بدکار“ تھا اور اسکے نام کا مطلب ”احمق، بیوقوف ہے“۔ ایسے شخص کیساتھ زندگی گذارنا کسقدر مایوسکن ہوگا! تاہم، ابیجیل ”سمجھداری“ سے کام کرتی رہی اور قطعاً ناامید نہ ہوئی۔ بلاشُبہ اسکے الفاظ اور کام اتنی سمجھداری کے تھے کہ ایک مشکل کے دوران اس نے داؤد کو قائل کر لیا کہ اسے نابال کی اہانتوں اور ناشکری کا بدلہ خونریزی کرنے اور یہوواہ پر بھروسہ رکھنے میں ناکام ہوتے ہوئے نہیں لینا چاہیے۔—۱-سموئیل ۲۵:۲-۳۸۔
یہانتک کہ اگر مسیحی کلیسیا سے رفاقت رکھنے والے کسی شخص سے متعلق صورتحال ہمیں مایوس کر رہی ہے تو بھی ہم یہوواہ کی طرف سے آنے والی قوت کیساتھ برداشت کر سکتے ہیں۔ اسے اس حقیقت سے ظاہر کیا گیا ہے کہ دیترفیس کے ممکنہ طور پر مایوسکن چالچلن نے بھی خداپرست آدمی گیس کو نیکی کرنے سے اور یوں خوشی اور بہت زیادہ روحانی برکات حاصل کرنے سے باز نہ رکھا۔—اعمال ۲۰:۳۵، ۳-یوحنا ۱-۱۰۔
نتیجہ مایوسی ہو سکتا ہے اگر ہم کلیسیا میں اپنے ساتھی ایمانداروں کی خدمت کرنے کے خواہشمند ہوتے ہیں لیکن ہماری بجائے دوسروں کو بزرگ یا خدمتگزار خادم مقرر کر دیا جاتا ہے۔ تاہم، بجائے اسکے کہ ہم مایوسی کو اپنے اوپر حاوی ہونے دیں، آئیے ہم خود کو روحانی طور پر مضبوط کریں اور خدا کی روح کو اجازت دیں کہ وہ اور بھی زیادہ عمدہ پھل ہمارے اندر پیدا کرے۔ (گلتیوں ۵:۲۲، ۲۳) ان ۴۰سالوں کے دوران جو موسی نے مدیان میں گزارے، خدا نے اسکے اندر اسرائیلیوں کے راہنما کیطور پر درپیش مشکلات اور مایوسیوں پر قابو پانے کیلئے درکار حلیمی اور برداشت، اور دیگر صفات کو بدرجہاتم پیدا کیا۔ اسی طرح سے، اگر ہم روحانی طور پر مضبوط رہیں اور مایوسی کا شکار نہ ہوں تو شاید یہوواہ ہمیں مستقبل میں خدمتی استحقاقات کیلئے تیار کر رہا ہو جو ممکن ہے کہ ہمیں حاصل ہو جائیں۔
مایوسی سے چھٹکارا—عنقریب!
ہماری مایوسیاں خواہ کسی بھی قسم کی کیوں نہ ہوں، کیا وہ کبھی ختم ہونگی؟ ہمیں اپنی حالت شاید مایوسکن دکھائی دے، لیکن ہمارے خالق، یہوواہ خدا کیلئے ایسا نہیں۔ وہ مایوسی کے تابع نہیں۔ یسعیاہ نبی کی معرفت، خدا نے کہا: ”اسیطرح میرا کلام جو میرے مُنہ سے نکلتا ہے ہوگا۔ وہ بےانجام میرے پاس واپس نہ آئیگا بلکہ جو کچھ میری خواہش ہوگی وہ اسے پورا کریگا اور اس کام میں جس کیلئے میں نے اسے بھیجا مؤثر ہوگا۔“ (یسعیاہ ۵۵:۱۱) چونکہ یہوواہ کے پاس تمام قوت اور اختیار ہے، اسکے نزدیک کوئی بھی چیز ناممکن نہیں۔ (مرقس ۱۰:۲۷) اپنے لوگوں کیلئے ابدی برکات لانے کے اسکے وعدے یقیناً پورے ہونگے۔—یشوع ۲۱:۴۵۔
مایوسی کے بڑے بڑے عنصر شک اور تذبذب ہیں۔ تاہم، اس کے برعکس ”ایمان امید کی ہوئی چیزوں کا اعتماد ہے۔“ (عبرانیوں ۱۱:۱) خدا پر ایمان یہ ضمانت دیتا ہے کہ بائبل پر مبنی ہماری تمام امیدیں ضرور پوری ہونگی۔ بائبل کا مجموعی موضوع یہوواہ کے بادشاہتی حکمرانی کے وعدے کو نمایاں کرتا ہے، جسکے تحت زمین ایک کامل فردوس بن جائیگی جس میں راستباز لوگ ہمیشہ تک خوشی سے رہینگے۔ (زبور ۳۷:۱۱، ۲۹) ہر بری چیز—بشمول مایوسی—ختم ہو جائیگی کیونکہ خدا ”ہر جاندار کی خواہش کو پورا“ کریگا۔—زبور ۱۴۵:۱۶۔
جبتک یہ برکات حقیقت نہیں بن جاتیں، ہم سب کسی نہ کسی طرح سے مایوس ہونگے۔ لیکن صحیفائی امید ہمیں ثابتقدم رہنے کیلئے حوصلہ اور برداشت دے سکتی ہے۔ اچھی مشورت جو ہم بائبل میں پاتے ہیں ہمیں دکھا سکتی ہے کہ کیسے اچھی تمیز اور معقولپسندی کو ایسے طریقے سے استعمال کریں جو ہماری زندگیوں کیلئے استحکام اور ہمارے دلوں کیلئے اطمینان لائے۔ مایوسیوں کے باوجود، ہم ”خدا کا اطمینان جو سمجھ سے بالکل باہر ہے“ اسکا تجربہ کر سکتے ہیں۔ (فلپیوں ۴:۶، ۷) پس مایوسی کے خلاف لڑائی لاحاصل نہیں۔ یہوواہ کی مدد کیساتھ ہم آج اسکے ساتھ نپٹ سکتے اور کل اور اس پر فتح پا سکتے ہیں۔ (۲۸ ۹/۱۵ W۹۲)
[عبارت]
مایوسی پر قابو پانے میں خدا آپکی مدد کر سکتا ہے، بالکل اسی طرح جیسے اس نے ایوب، موسی، ابیجیل، اور پولس کی مدد کی