”پچھلا دشمن“ شکست کھائیگا!
جب آپ بچے تھے تو شاید آپ اندھیرے سے ڈرا کرتے تھے۔ ڈراؤنی کہانیوں اور بعض پریوں کی کہانیوں نے بھی شاید آپکو پریشان کر دیا ہو۔ یہ کسقدر ہمتافزا بات تھی کہ جب آپ نے سونے کی کوشش کی تو آپ کی ماں یا باپ نے بتی کو جلتا چھوڑ دیا۔
موت بھی اسی طرح بہتیروں کو خوفزدہ کرتی ہے۔ تاہم اسے ایسا کرنے کی ضرورت نہیں۔ کیوں؟ حقیقت میں موت جو کچھ ہے اسکی وجہ سے۔
اپنے دشمن کو جانیں
قدیم اسرائیل کے دانشمند بادشاہ سلیمان نے بیان کیا: ”زندہ جانتے ہیں کہ وہ مرینگے پر مردے کچھ بھی نہیں جانتے۔“ (واعظ ۹:۵) آپکی اپنی بائبل میں پائے جانے والے اس الہی طور پر ملہم خیال کی مطابقت میں، موت محض زندگی کی ضد ہے۔ مردے کوئی ہوشمند وجود نہیں رکھتے۔
تمثیلی انداز میں موت کا ذکر کرتے ہوئے، مسیحی رسول پولس لکھتا ہے: ”اے موت تیری فتح کہاں رہی؟ اے موت تیرا ڈنک کہاں رہا؟“ وہ ڈنک کیا ہے جو موت پیدا کرتی ہے؟ پولس کہتا ہے: ”موت کا ڈنک گناہ ہے۔“ (۱-کرنتھیوں ۱۵:۵۵، ۵۶، ہوسیع ۱۳:۱۴) پس اس مہلک ڈنک کا ماخذ کیا ہے؟ صحائف میں کسی اور جگہ پر پولس بیان کرتا ہے: ”ایک آدمی کے سبب سے گناہ دنیا میں آیا اور گناہ کے سبب سے موت آئی اور یوں موت سب آدمیوں میں پھیل گئی اسلئے کہ سب نے گناہ کیا۔“ (رومیوں ۵:۱۲) رسول اس ”ایک آدمی“ کی شناخت کی بابت کوئی شک نہیں چھوڑتا جب وہ کہتا ہے: ”آدم میں سب مرتے ہیں۔“ (۱-کرنتھیوں ۱۵:۲۲) جیہاں، اپنے پہلے جدامجد، آدم کی نافرمانی کے سبب سے، ہم سب موت کے ڈنک سے متاثر ہوتے ہیں۔—پیدایش ۳:۱-۱۹۔
اچھی صحت اور خوشگوار ماحول میں ایک پرمحبت خاندان کے ساتھ، ہم میں سے کوئی بھی مرنے کا انتخاب نہیں کریگا۔ تاہم، جیسے بائبل ظاہر کرتی ہے، ”وقت اور حادثہ“ ہم کو زندگی سے محروم کر سکتا ہے۔ (واعظ ۹:۱۱) حقیقت میں، ہم نہیں جانتے کہ کل کو ہماری زندگی کے ساتھ کیا واقع ہوگا۔ (یعقوب ۴:۱۴) ایک بات یقینی ہے—ہم سب نے گناہ اور موت ورثہ میں پائی ہے۔ اسلئے موت ہمیں آ دبوچتی اور ایک دشمن کی طرح حملہ کرتی ہے۔
کسی عزیز کی موت سے نپٹنا
موت خاص طور پر اس وقت ایک دشمن ہوتی ہے جب یہ ایک عزیز پر وار کرتی ہے۔ ”یہ آپ کیلئے زیادہ برا ہوگا،“ بیماری کے آخری مرحلے میں ایک بیوی نے اپنے شوہر سے کہا جب اس نے اپنی موت پر دھیان دیا۔ وہ ایسے کیوں کہہ سکتی تھی؟ کیونکہ بائبل کہتی ہے: ”جو کام تیرا ہاتھ کرنے کو پائے اسے مقدور بھر کر کیونکہ پاتال [بنی آدم کی عام قبر] میں جہاں تو جاتا ہے نہ کام ہے نہ منصوبہ۔ نہ علم نہ حکمت۔“ (واعظ ۹:۱۰) متوفی پھر کوئی دکھ نہیں اٹھاتا۔ لیکن غم کا بوجھ پسماندہ رشتےداروں اور دوستوں پر پڑتا ہے۔ کیا اس طرح کی تکلیف کے سلسلے میں کچھ کیا جا سکتا ہے؟
خدا کے کلام، بائبل کے اوراق میں تسلی کی بہت سی باتیں پائی جاتی ہیں۔ مثال کے طور پر، مزامیر کو پڑھنا اور ان پر غوروفکر کرنا یقینی طور پر تشفی کا ایک ذریعہ ہے۔ واقعی اس طرح کے الفاظ تسلیبخش ہوتے ہیں جیسے کہ یہ ہیں: ”خداوند مبارک ہو جو ہر روز ہمارا بوجھ اٹھاتا ہے۔ وہی ہمارا نجات دینے والا خدا ہے۔“—زبور ۶۸:۱۹۔
تسلی کا ایک اور ذریعہ مسیحی کلیسیا ہے۔ پہلی صدی س۔ع۔ میں، پولس رسول نے لکھا: ”ان بیواؤں کی جو واقعی بیوہ ہیں عزت کر۔ اور اگر کسی بیوہ کے بیٹے یا پوتے ہوں [جو مادی طور پر اسکی دیکھ بھال کر سکتے ہیں] تو وہ پہلے اپنے ہی گھرانے کے ساتھ دینداری کا برتاؤ کرنا اور ماں باپ [اور انکے ماں باپ] کا حق ادا کرنا سیکھیں کیونکہ یہ خدا کے نزدیک پسندیدہ ہے۔ وہی بیوہ فرد میں لکھی جائے جو ساٹھ برس سے کم کی نہ ہو اور ایک شوہر کی بیوی ہوئی ہو۔ اور نیک کاموں میں مشہور ہو۔ بچوں کی تربیت کی ہو۔ پردیسیوں کیساتھ مہماننوازی کی ہو۔ مقدسوں کے پاؤں دھوئے ہوں۔ مصیبتزدوں کی مدد کی ہو اور ہر نیک کام کرنے کے درپے رہی ہو۔“ (۱-تیمتھیس ۵:۳، ۴، ۹، ۱۰) آجکل یہوواہ کے گواہ اسی طرح سے ایسے ساتھی ایمانداروں کو مدد اور تسلی دیتے ہیں۔
سوگواروں کو اکثر جو بڑا ردوبدل کرنا پڑتا ہے وہ جذباتی نوعیت کا ہوتا ہے۔ ”میں اپنی بیوی سے بہت محبت رکھتا تھا،“ ایک آدمی نے لکھا جسکی بیاہتا ساتھی دو سال پہلے مر گئی تھی۔ ”میری زندگی کا یہ نہایت غمناک واقعہ ہے، اور میں اسے برداشت کرنا مشکل پاتا ہوں۔“ ایک شخص جو کچھ وقت کیلئے شادیشدہ رہا ہے وہ انسانی رشتوں میں سے نہایت قریبی رشتے میں دیگر مرد یا عورت کا شریکحیات رہا ہوتا ہے۔ جب ایک بیاہتا ساتھی مر جاتا ہے، تو پسماندہ ساتھی قدرتی طور پر بڑا نقصان محسوس کرتا ہے۔ وہ مدد کیلئے کس کی طرف مڑ سکتا ہے؟
ایسے حالات میں، اچھے مسیحی ساتھی حوصلہافزا ثابت ہو سکتے ہیں۔ ایک پرحکمت امثال کہتی ہے، ”دوست ہر وقت محبت دکھاتا ہے اور بھائی مصیبت کے دن کیلئے پیدا ہوا ہے۔“ (امثال ۱۷:۱۷) ایک بیوہ یا رنڈوے کو مدد کی ضرورت ہوتی ہے—ایسے ساتھیوں کی جو حقیقی حمایت دیتے ہیں۔ عقلمند دوست غمزدہ شخص کی حوصلہافزائی کرتے ہیں کہ باتچیت کرے، خواہ ایسا کرنے سے آنسو بھی بہہ نکلیں۔ شاید ایک مسیحی جو پہلے ہی ایک بیاہتا ساتھی کو کھو دینے کے صدمے اور درد کا تجربہ کر چکا ہے شاید کچھ مشفقانہ مدد پیش کر سکتا ہے۔ بائبل مشورت دیتی ہے، ”کمہمتوں کو دلاسا دو۔“ (۱-تھسلنیکیوں ۵:۱۴) لیکن یاد رکھیں بیوائیں اور رنڈوے اپنے بیاہتا ساتھیوں کی کمی محسوس کرتے ہیں۔ اسلئے سوگوار کو دوسروں کو صرف ایسے حالات کے تحت ہی ہمراز بنانا چاہیے جو سب کو پاکیزہ چالچلن قائم رکھنے کے قابل بنائیں۔—۱-پطرس ۲:۱۲۔
اس درد کیلئے بہترین تریاق دوسروں کی مدد کرنے میں مصروف رہنا ہے جو موت کے باعث آتا ہے—ان کیلئے بڑا چیلنج ہے جو یہ یقین رکھتے ہیں کہ صرف ان ہی کو مدد کی ضرورت ہے! یہاں بےغرضی اپنا کردار ادا کرتی ہے۔ بےغرضی سے دوسروں کیلئے کام کرنا غم اور افسردگی کو دل سے دور کرنے کیلئے سازگار ثابت ہوتا ہے، کیونکہ یسوع نے کہا: ”دینا لینے سے مبارک ہے۔“—اعمال ۲۰:۳۵۔
موت پر فتح
شہد کی مکھی کا ڈنک بہت تکلیفدہ، یہانتک کہ مہلک بھی ہو سکتا ہے۔ تاہم، عام طور پر آپکی جلد میں سے گڑے ہوئے کیڑے کے ڈنک کو نکالنا آرام پہنچانے میں مدد دیتا ہے۔ لیکن موت پیدا کرنے والے ڈنک سے آرام کے کیا امکان ہیں؟
یہ وضاحت کرنے کے بعد کہ موت پیدا کرنے والا ڈنک گناہ ہے، پولس پکار اٹھتا ہے: ”مگر خدا کا شکر ہے جو ہمارے خداوند یسوع مسیح کے وسیلہ سے ہم کو فتح بخشتا ہے۔“ (۱-کرنتھیوں ۱۵:۵۷) موت پر فتح کا مسیح کیساتھ کیونکر تعلق ہے؟ یسوع نے ظاہر کیا کہ معاملہ ایسا ہے جب اس نے اپنی بابت کہا: ”ابنآدم اسلئے نہیں آیا کہ خدمت لے بلکہ اسلئے کہ خدمت کرے اور اپنی جان بہتیروں کے بدلے فدیہ میں دے۔“ (متی ۲۰:۲۸) جیہاں، ان کیلئے آدم سے ورثہ میں پائی ہوئی موت مستقل نیستی پر منتج نہ ہوگی جو خدا کے بیٹے، یسوع مسیح، اور فدیے کی قربانی پر ایمان رکھتے ہیں جسے یہوواہ نے اسکے ذریعے فراہم کیا ہے۔—یوحنا ۳:۱۶۔
یقیناً یسوع کے الفاظ ہمتافزا ہیں: ”وہ وقت آتا ہے کہ جتنے قبروں میں ہیں اسکی آواز سنکر نکلینگے۔ جنہوں نے نیکی کی ہے زندگی کی قیامت کے واسطے اور جنہوں نے بدی کی ہے سزا کی قیامت کے واسطے۔“—یوحنا ۵:۲۸، ۲۹۔
صدیوں پہلے ہی، خدا کا نبی یسعیاہ پیشینگوئی کر چکا تھا: ”وہ [یہوواہ خدا] موت کو ہمیشہ کیلئے نابود کریگا اور خداوند خدا سب کے چہروں سے آنسو پونچھ ڈالیگا۔“ (یسعیاہ ۲۵:۸) پھر مکاشفہ ۲۱:۴ میں بائبل اس شاندار امکان کو پیش کرتی ہے: ”[خدا] انکی آنکھوں کے سب آنسو پونچھ دیگا۔ اسکے بعد نہ موت رہیگی اور نہ ماتم رہیگا۔ نہ آہونالہ نہ درد۔ پہلی چیزیں جاتی رہیں۔“ جو موت میں سو رہے ہیں ان کیلئے اس بائبل امید سے تقویت پا کر، سوگواروں کو ”اوروں کی مانند جو ناامید ہیں غم“ کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔—۱-تھسلنیکیوں ۴:۱۳۔
جیسے بائبل میں آشکارا کیا گیا ہے، جو کچھ خدا نے بنیآدم کیلئے محفوظ رکھا ہے اسکا تصور کرنے کی کوشش کریں۔ سر پر کھڑی ”بڑی مصیبت“ کا مطلب موجودہ شریر نظام کیلئے تباہی ہے۔ (مکاشفہ ۷:۱۴) جو جھوٹے مذہب پر چلتے ہیں اپنا خاتمہ دیکھینگے۔ حریص سیاسی اور تجارتی عناصر گئے گزرے ہونگے جو قحط اور جنگ کا سبب بنتے ہیں۔ یسوع مسیح شیطان ابلیس کو اتھاہ گڑھے میں ڈالنے کیلئے کارروائی کرتا ہے، جو کافی زیادہ انسانی اموات کا سبب بنا ہے۔ اسکے بعد مسیح ہزارسالہ حکمرانی شروع کرتا ہے، جسکے دوران وہ اپنی فدیے کی قربانی کی قدروقیمت کو بنیآدم کیلئے عمل میں لائیگا۔ متوقع قیامت میں مردے واپس آتے ہیں، خدا کے کلام سے روشنی اتنی شدت سے چمکتی ہے کہ بنیآدم کی دشمن، موت کے متعلق توہمپرستانہ نظریات کا وجود باقی نہیں رہتا۔ اس وقت جتنے زندہ ہونگے خدا کی راہیں سیکھنے اور اسکے راست معیاروں کے مطابق بننے کا موقع حاصل کرینگے۔—امثال ۴:۱۸، اعمال ۲۴:۱۵، عبرانیوں ۲:۱۴، ۱۵، مکاشفہ ۱۸:۴-۸، ۱۹:۱۹-۲۱، ۲۰:۱-۳۔
”اسکے بعد آخرت ہوگی،“ پولس کہتا ہے، ”جب یسوع مسیح بادشاہی کو خدا یعنی باپ کے حوالہ کر دیگا۔ کیونکہ جب تک کہ سب دشمنوں کو اسکے پاؤں تلے نہ لے آئے اسکو بادشاہی کرنا ضرور ہے۔ سب سے پچھلا دشمن جو نیست کیا جائیگا وہ موت ہے۔“ (۱-کرنتھیوں ۱۵:۲۴-۲۶) آدم کے گناہ کے نتیجے میں ہر معذوری ختم ہو چکی ہے۔ ایک آخری امتحان شروع ہوتا ہے، اور خدا کے پیارے وفاداری سے اس پر پورا اترتے ہیں۔ (مکاشفہ ۲۰:۴-۱۰) کاملیت پائے ہوئے، یہ فرمانبردار انسان صرف ستر سال یا ایک سو دس سال تک ہی نہیں بلکہ ہمیشہ تک زندہ رہینگے۔ خدا کی طرف سے اسکے پیارے بیٹے کے ذریعے کیا ہی بخشش!—رومیوں ۶:۲۳۔
پس، آپ کب تک زندہ رہ سکتے ہیں؟ آپکی زندگی کی میعاد طویل ہو سکتی ہے۔ جیسے کہ آپ اس دنیا کے ”آخری زمانہ“ میں زندگی گزار رہے ہیں، شاید آپ کبھی نہ مریں۔ (دانیایل ۱۲:۴، یوحنا ۱۱:۲۵، ۲۶، ۱۷:۳) اگر آپ الہی مرضی کو پورا کرتے ہیں تو آپ خدا کی وعدہ کی ہوئی نئی دنیا کے اندر زندہ رہ سکتے ہیں۔—۲-پطرس ۳:۱۳۔
تاہم، اگر آپ کی کافی عمر ہو گئی ہے، تو حقیقتپسندانہ طور پر آپکو مرنے کے امکان پر سوچنے کی ضرورت ہے۔ یقیناً امیدقیامت خوشی لاتی ہے۔ لیکن آپ شاید سوچیں کہ یہوواہ اس نئے نظام میں خاندانی زندگی کا کیسے بندوبست کریگا۔ آپ کو ایسے معاملات کی بابت فکرمند ہونے کی ضرورت نہیں، کیونکہ یہوواہ انکی ابدی خوشی کا خیال رکھیگا جو اسکے لئے ہمیشہ وفادار رہے ہیں۔
جب شیطان کے شریر نظام کا ”اخیر زمانہ“ اپنے خاتمے کی طرف بڑھتا ہے تو موت کے خوف کو اجازت نہ دیں کہ اس وقت یہوواہ کی خدمت کرنے کے استحقاق کو آپ سے چھینے۔ (۲-تیمتھیس ۳:۱) اگر آپ کسی عزیز کو موت میں کھو دیتے ہیں، تو اسکی عارضی نوعیت کی گرفت سے خود کو دلاسا دیں۔ (مکاشفہ ۲۰:۱۳، ۱۴) امیدقیامت پر بھروسہ رکھیں۔ لہذا، خواہ آپ نئی دنیا میں بڑی مصیبت سے بچنے کے ذریعے یا قیامت کے ذریعے داخل ہوتے ہیں، ملہم ضمانت کا یقین رکھیں کہ آخری دشمن، موت کو نیست کر دیا جانا ہے۔—مکاشفہ ۷:۹، ۱۴۔ (۴ ۱۵/۱۱ w۹۳)
[تصویر]
اچھے مسیحی ساتھی سوگوار کی روحانی طور پر ہمتافزائی کر سکتے ہیں
[تصویر]
دوسروں کی مدد کرنے میں مصروف رہنا کسی عزیز کی موت کے ذریعے پیدا ہونے والے غم کو کم کرتا ہے