ناکامل جسم پر گناہ کی گرفت کو ختم کرنے کیلئے جدوجہد کرنا
”جسمانی نیت موت ہے مگر روحانی نیت زندگی اور اطمینان ہے۔“—رومیوں ۸:۶۔
۱. انسانوں کو کس مقصد کے لئے خلق کیا گیا تھا؟
”خدانے انسان کو اپنی صورت پر پیدا کِیا۔ خدا کی صورت پر اُسکو پیدا کِیا۔ نروناری اُنکو پیدا کِیا۔“ (پیدایش ۱:۲۷) ایک صورت کسی چیز یا ماخذ کا عکس ہوتی ہے۔ لہٰذا، انسانوں کو خدا کے جلال کا عکس ہونے کے لئے خلق کیا گیا تھا۔ اپنی تمام کارگزاریوں میں خدائی صفات—جیسے کہ محبت، نیکی، انصاف، اور روحانیت—کو ظاہر کرنے سے وہ خالق کے لئے حمد اور تعظیم اور اپنے لئے خوشی اور اطمینان لاتے ہیں۔—۱-کرنتھیوں ۱۱:۷؛ ۱-پطرس ۲:۱۲۔
۲. پہلا انسانی جوڑا نشانے سے کیسے چوک گیا؟
۲ کاملیت میں خلق کئے گئے پہلے جوڑے کو اس کردار کے لئے خوب لیس کیا گیا تھا۔ انتہائی چمک کے لئے پالشکردہ آئینوں کی مانند وہ فراست اور وفاداری کے ساتھ خدا کے جلال کا عکس پیش کرنے کے لائق تھے۔ تاہم، جب اُنہوں نے قصداً اپنے خالق اور خدا کی نافرمانی کرنے کو منتخب کیا تو اُنہوں نے اس انتہائی چمک کو ماند پڑ جانے کی اجازت دے دی۔ (پیدایش ۳:۶) اس کے بعد سے، وہ پھر کبھی مکمل طور پر خدا کے جلال کو منعکس نہ کر سکے۔ خدا کی صورت پر اپنے خلق کئے جانے کے مقصد کو پورا کرنے میں قاصر رہتے ہوئے وہ خدا کے جلال سے محروم ہو گئے۔ دوسرے لفظوں میں اُنہوں نے گناہ کیا۔a
۳. گناہ کی حقیقی نوعیت کیا ہے؟
۳ یہ گناہ کی حقیقی نوعیت کو سمجھنے میں ہماری مدد کرتا ہے جو خدا کی شبِیہ اور جلال کے انسانی عکس کو بگاڑ دیتا ہے۔ گناہ ایک شخص کو بدکار بنا دیتا ہے جو روحانی اور اخلاقی لحاظ سے ناپاک اور داغدار ہے۔ آدؔم اور حوؔا کی اولاد ہونے کے ناطے تمام نوعِانسانی اسی داغدار اور ناپاک حالت میں پیدا ہوئی ہے اور خدا کی توقعات پر اُس کے بچوں کے طور پر پورا اُترنے میں ناکام ہو گئی ہے۔ اور انجام؟ بائبل وضاحت کرتی ہے: ”پس جس طرح ایک آدمی کے سبب سے گناہ دنیا میں آیا اور گناہ کے سبب سے موت آئی اور یوں موت سب آدمیوں میں پھیل گئی اس لئے کہ سب نے گناہ کِیا۔“—رومیوں ۵:۱۲؛ مقابلہ کریں یسعیاہ ۶۴:۶۔
ناکامل جسم پر گناہ کی گرفت
۴-۶. (ا) آجکل زیادہ لوگ گناہ کی بابت کیسا نظریہ رکھتے ہیں؟ (ب) گناہ کی بابت جدید نظریات کا کیا نتیجہ نکلا ہے؟
۴ آجکل زیادہتر لوگ خود کو ناپاک، داغدار، یا گنہگار خیال نہیں کرتے۔ دراصل، گناہ، بطور ایک لفظ کے زیادہتر لوگوں کے ذخیرۂالفاظ سے عملاً غائب ہو گیا ہے۔ وہ شاید غلطیوں، حماقتوں، اور غلط قیافوں کی بابت بات کریں گے۔ لیکن گناہ کی بابت؟ بمشکل ہی! عمرانیات کے ایک پروفیسر، ایلنؔ وولف رائے پیش کرتے ہیں کہ اُن لوگوں کے لئے بھی جو ابھی تک خدا پر ایمان رکھنے کا دعویٰ کرتے ہیں، ”اُس کی تعلیمات نے ایک ضابطۂاخلاق کی بجائے اخلاقی اعتقادات کے ایک مجموعے کو مرتب کیا، اُن کے لئے ۱۰ احکام ۱۰ تجاویز ہیں۔“
۵ اس اندازِفکر کا نتیجہ کیا ہے؟ گناہ کی حقیقت سے انکار یا کمازکم غفلت۔ اس نے صحیح اور غلط کی بابت نہایت ہی بگڑا ہوا نظریہ رکھنے والے لوگوں کی ایک ایسی نسل کو پیدا کیا ہے جو طرزِعمل کے اپنے ذاتی معیار قائم کرنے کے لئے آزاد محسوس کرتی ہے اور وہ خواہ کچھ بھی کرنے کا انتخاب کرے اُس کے لئے کسی کے سامنے جوابدہی کا احساس نہیں رکھتی۔ ایسے لوگوں کے لئے، نیکی کا احساس ہی اس بات کا فیصلہ کرنے میں واحد معیار ہوتا ہے کہ آیا کوئی روش مناسب ہے یا نہیں۔—امثال ۳۰:۱۲، ۱۳؛ مقابلہ کریں استثنا ۳۲:۵، ۲۰۔
۶ مثال کے کے طور پر، ٹیلیوژن پر ایک مباحثے میں نوجوان لوگوں کو نامنہاد سات مُہلک گناہوں کی بابت اپنے خیالات کا اظہار کرنے کے لئے مدعو کِیا گیا۔b ”تکبّر گناہ نہیں ہے،“ ایک حصہ لینے والے نے کہا۔ ”آپ کو اپنی بابت ایک عمدہ رائے رکھنی چاہئے۔“ سُستی کے سلسلے میں، ایک اور نے کہا: ”بعض اوقات اس طرح کا ہونا فائدہمند ہوتا ہے۔ . . . بعض اوقات آرام کرنا اور خود کو ذاتی وقت دینا اچھا ہوتا ہے۔“ میزبان نے بھی یہ مختصر سا تبصرہ پیش کیا: ’سات مُہلک گناہ بُرے اعمال نہیں بلکہ، اس کی بجائے، عالمگیر انسانی مجبوریاں ہیں جو پریشان کرنے والی اور انتہائی پُرلطف بھی ہو سکتی ہیں۔‘ جیہاں، گناہ کے تصور کے ساتھ ساتھ احساسِخطا بھی ختم ہو گیا ہے، کیونکہ، بہرصورت، خطا نیکی کے احساس کے بالکل برعکس ہے۔—افسیوں ۴:۱۷-۱۹۔
۷. بائبل کے مطابق، انسان گناہ سے کیسے متاثر ہوئے ہیں؟
۷ اس سب کے بالکل اُلٹ، بائبل صاف طور سے بیان کرتی ہے: ”سب نے گناہ کِیا اور خدا کے جلال سے محروم ہیں۔“ (رومیوں ۳:۲۳) پولسؔ رسول نے بھی تسلیم کیا: ”میں جانتا ہوں کہ مجھ میں یعنی میرے جسم میں کوئی نیکی بسی ہوئی نہیں البتہ ارادہ تو مجھ میں موجود ہے مگر نیک کام مجھ سے بن نہیں پڑتے۔ چنانچہ جس نیکی کا ارادہ کرتا ہوں وہ تو نہیں کرتا مگر جس بدی کا ارادہ نہیں کرتا اُسے کر لیتا ہوں۔“ (رومیوں ۷:۱۸، ۱۹) پولسؔ یہاں خود پر ترس کھانے کے احساس کا شکار نہیں ہو رہا تھا۔ اس کی بجائے، چونکہ وہ سمجھ گیا تھا کہ نوعِانسانی کس حد تک خدا کے جلال سے محروم ہو چکی ہے اس لئے ناکامل جسم پر گناہ کی گرفت کے درد سے پوری طرح واقف تھا۔ ”ہائے میں کیسا کمبخت آدمی ہوں!“ اُس نے بیان کیا، ”اس موت کے بدن سے مجھے کون چھڑائیگا؟“—رومیوں ۷:۲۴۔
۸. ہمیں خود سے کونسے سوالات پوچھنے چاہئیں؟ کیوں؟
۸ اس معاملے کی بابت آپ کی کیا رائے ہے؟ آپ شاید تسلیم کریں کہ آدؔم کی اولاد ہوتے ہوئے ہر دوسرے شخص کی طرح، آپ بھی ناکامل ہیں۔ لیکن یہ علم آپ کی سوچ اور آپ کے طرزِزندگی کو کس طرح متاثر کرتا ہے؟ کیا آپ اسے زندگی کی ایک حقیقت کے طور پر تسلیم کرتے ہیں اور محض اپنے فطری رجحان کے مطابق چلتے رہتے ہیں؟ یا جو کچھ بھی آپ کرتے ہیں اُس میں جتنا ممکن ہو روشن طریقے سے خدا کے جلال کو منعکس کرنے کی کوشش کرنے سے، کیا آپ ناکامل جسم پر گناہ کی گرفت کو ختم کرنے کے لئے مسلسل جدوجہد کرتے ہیں؟ پولسؔ نے جو کچھ کہا اُس کے پیشِنظر اسے ہم میں سے ہر ایک کے لئے سنجیدہ فکرمندی کا حامل ہونا چاہئے: ”جو جسمانی ہیں وہ جسمانی باتوں کے خیال میں رہتے ہیں لیکن جو روحانی ہیں وہ روحانی باتوں کے خیال میں رہتے ہیں۔ اور جسمانی نیت موت ہے مگر روحانی نیت زندگی اور اطمینان ہے۔“—رومیوں ۸:۵، ۶۔
جسمانی نیت
۹. ایسا کیوں ہے کہ ”جسمانی نیت موت ہے“؟
۹ پولسؔ کا اس سے کیا مطلب تھا جب اُس نے کہا کہ ”جسمانی نیت موت ہے“؟ بائبل میں ”جسم“ کی اصطلاح کو اکثر آدمی کو اُسکی ناکامل حالت میں ظاہر کرنے کے لئے استعمال کیا گیا ہے جو باغی آدؔم کی اولاد کے طور پر ’گناہ میں ماں کے پیٹ میں‘ پڑا ہے۔ (زبور ۵۱:۵؛ ایوب ۱۴:۴) لہٰذا، پولسؔ مسیحیوں کو یہ تلقین کر رہا تھا کہ اپنے ذہنوں کو گنہگارانہ رغبتوں، حسرتوں، اور ناکامل، نفسانی جسم کی آرزؤں پر نہ لگائیں۔ اور کیوں نہیں؟ کسی اور جگہ پر پولسؔ نے ہمیں بتایا کہ جسم کے کام کیا ہیں اور پھر اس آگاہی کا اضافہ کیا: ”ایسے کام کرنے والے خدا کی بادشاہی کے وارث نہ ہونگے۔“—گلتیوں ۵:۱۹-۲۱۔
۱۰. ”نیت“ سے کیا مراد ہے؟
۱۰ لیکن کیا کسی چیز کی نیت کرنے اور اُسے عمل میں لانے کے درمیان بہت فرق نہیں ہے؟ یہ سچ ہے کہ کسی چیز کی بابت سوچنا ہمیشہ اُسے کرنے کا سبب نہیں بنتا۔ تاہم، نیت محض ایک سطحی خیال رکھنے سے بڑھکر ہے۔ جس لفظ کو پولسؔ نے استعمال کیا وہ یونانی میں فرونیما ہے، اور یہ ”اندازِفکر، ذہنی رجحان، . . . مقصد، تمنا، جدوجہد“ کو ظاہر کرتا ہے۔ اس لئے ”جسمانی نیت“ سے مراد ناکامل جسم کی خواہشات کے قابو میں، قبضہ میں، محکوم، اور ان سے متحرک ہونا ہے۔—۱-یوحنا ۲:۱۶۔
۱۱. قائنؔ کی نیت جسمانی کیسے تھی، اور نتیجہ کیا نکلا تھا؟
۱۱ اس نکتے کی وضاحت اس روش سے اچھی طرح کی گئی ہے جس پر قائنؔ نے عمل کیا تھا۔ جب قائنؔ کے دل میں حسد اور غصہ بھڑک اٹھا تو یہوؔواہ خدا نے اُسے آگاہ کیا: ”تُو کیوں غضبناک ہوا؟ اور تیرا مُنہ کیوں بگڑا ہوا ہے؟۔ اگر تُو بھلا کرے تو کیا تُو مقبول نہ ہوگا؟ اگر تُو بھلا نہ کرے تو گناہ دروازہ پر دبکا بیٹھا ہے اور تیرا مشتاق ہے پر تُو اُس پر غالب آ۔“ (پیدایش ۴:۶، ۷) قائنؔ کے سامنے ایک انتخاب تھا۔ کیا وہ ”بھلا کرے“ گا یعنی اپنے ذہن، مقصد، اور تمنا کو کسی اچھے کام پر لگائے گا؟ یا کیا وہ جسمانی نیت کو برقرار رکھے گا اور اپنے دل میں دبی ہوئی بُری رغبتوں پر اپنی سوچ کو مرتکز رکھے گا؟ جیسے کہ یہوؔواہ نے وضاحت کی، گناہ اس انتظار میں ”دروازہ پر دبکا بیٹھا“ تھا کہ اگر قائنؔ نے اُسکو اجازت دی تو وہ اُسے دبوچ لے اور پھاڑ کھائے۔ اپنی نفسانی خواہش کو ختم کرنے کے لئے جدوجہد کرنے اور اس پر ”غالب“ آنے کی بجائے، قائنؔ نے اُسے خود کو مغلوب کرنے کی اجازت دے دی—ایک تباہکن انجام کے لئے۔
۱۲. ہمیں کیا کرنا چاہئے کہ ”قائنؔ کی راہ“ پر نہ چلیں؟
۱۲ آجکل ہماری بابت کیا ہے؟ جیسا کہ پہلی صدی کے مسیحیوں کے درمیان چند خاص لوگوں کے سلسلے میں یہوؔداہ نے فریاد کی یقیناً ہم ”قائنؔ کی راہ“ پر نہیں چلنا چاہتے۔ (یہوداہ ۱۱) ہمیں کبھی بھی پُرفریب توجیہ نہیں کرنی چاہئے اور نہ ہی یہ سوچنا چاہئے کہ تھوڑا بہت اپنی حسرتوں کو پورا کر لینا یا کبھی کبھار قوانین کی خلافورزی کرنے کے لئے آزادی محسوس کرنا بےضرر ہے۔ اس کے برعکس، ہمیں ہر اُس ناپاک اور بُرے اثر کی شناخت کرنے کے لئے جو ہمارے دل اور دماغ پر پڑ سکتا ہے ہوشیار رہنا اور اس سے پہلے کہ یہ جڑ پکڑے اسے جلدی سے ختم کر دینا چاہئے۔ ناکامل جسم پر گناہ کی گرفت کو ختم کرنے کے لئے جدوجہد اندر ہی سے شروع ہوتی ہے۔—مرقس ۷:۲۱۔
۱۳. ایک شخص کس طرح ”اپنی ہی خواہشوں میں . . . پھنس“ سکتا ہے؟
۱۳ مثال کے طور پر، شاید آپکو ایک بُرے یا دہشتناک منظر یا پھر بالخصوص ایک نازیبا یا شہوتانگیز تصویر کی جھلک نظر آئے۔ یہ کسی کتاب یا رسالے کی تصویر، کسی فلم یا ٹیلیوژن کی سکرین کا منظر، دیوار کا کوئی اشتہار، یا کوئی حقیقی حالت بھی ہو سکتی ہے۔ اسے بذاتِخود چونکا دینے کی کوئی ضرورت نہیں، کیونکہ ایسا واقع ہو سکتا ہے—اور ہوتا بھی ہے۔ تاہم، یہ تصویر یا منظر، اگرچہ چند لمحوں کے لئے ہی قائم رہا ہو، ذہن کے اندر گھر کرنے اور وقتاًفوقتاً دوبارہ اُبھر آنے کی طرف مائل ہو سکتا ہے۔ جب ایسے واقع ہوتا ہے تو آپ کیا کرتے ہیں؟ کیا آپ فوراً اس خیال کو ختم کرنے کے لئے کارروائی کرتے اور اسے اپنے ذہن میں سے نکال باہر کرتے ہیں؟ یا شاید جب وہ خیال آتا ہے تو ہر بار اس تجربے کو دوہرانے سے آپ اسے اپنے ذہن میں بسیرا کرنے کی اجازت دے دیتے ہیں؟ یہ موخرالذکر کام کرنے سے یعقوب کے ذریعے بیانکردہ واقعات کے سلسلے کو شروع کر لینے کا خطرہ لاحق ہو جاتا ہے: ”ہر شخص اپنی ہی خواہشوں میں کھنچ کر اور پھنس کر آزمایا جاتا ہے۔ پھر خواہش حاملہ ہوکر گناہ کو جنتی ہے اور گناہ جب بڑھ چکا تو موت پیدا کرتا ہے۔“ اسی لئے پولسؔ نے کہا تھا: ”جسمانی نیت موت ہے۔“—یعقوب ۱:۱۴، ۱۵؛ رومیوں ۸:۶۔
۱۴. ہمیں ہر روز کس چیز کا سامنا ہوتا ہے اور ہمیں کیسا ردعمل دکھانا چاہئے؟
۱۴ جب ہم ایسی دنیا میں رہ رہے ہیں جس میں جنسی بداخلاقی، تشدد، اور مادہپرستی کی بڑائی کی جاتی ہے—کتابوں، رسالوں، فلموں، ٹیلیوژن پروگراموں، اور مشہور موسیقی میں کھلےعام اور آزادانہ نمائش کی جا رہی ہے—واقعی ہم پر ہر روز غلط خیالات اور نظریات کی بھرمار ہو رہی ہے۔ آپکا ردعمل کیا ہے؟ کیا آپ اس سب سے خوشی اور تفریح محسوس کرتے ہیں؟ یا کیا آپ راستباز لوؔط کی طرح محسوس کرتے ہیں، ”جو بیدینوں کے ناپاک چالچلن سے دق تھا . . . اُن کے بےشرع کاموں کو دیکھ دیکھ کر . . . اپنے سچے دل کو شکنجہ میں کھینچتا تھا“؟ (۲-پطرس ۲:۷، ۸) ناکامل جسم پر گناہ کی گرفت کو ختم کرنے کے لئے جدوجہد کرنے میں کامیاب ہونے کے لئے ہمیں وہی کام کرنے کا عزم کرنے کی ضرورت ہے جسے زبورنویس نے کیا تھا: ”میں کسی خباثت کو مدِنظر نہیں رکھونگا۔ مجھے کجرفتاروں کے کام سے نفرت ہے۔ اُس کو مجھ سے کچھ سروکار نہ ہوگا۔“—زبور ۱۰۱:۳۔
روحانی نیت
۱۵. اپنے اُوپر گناہ کی گرفت کو ختم کرنے کے لئے جدوجہد کرنے میں ہمارے پاس کونسی مدد ہے؟
۱۵ ناکامل جسم پر گناہ کی گرفت کو ختم کرنے کے لئے جدوجہد کرنے میں جو چیز ہماری مدد کر سکتی ہے وہ پولسؔ کے مُنہ کی بات ہے: ”روحانی نیت زندگی اور اطمینان ہے۔“ (رومیوں ۸:۶) لہٰذا، جسم سے مغلوب ہونے کی بجائے، ہمیں چاہئے کہ ہم اپنے ذہن کو روح کے زیرِاثر آنے دیں اور روح کی باتوں میں آگے بڑھنے دیں۔ وہ کیا ہیں؟ فلپیوں ۴:۸ میں، پولسؔ ان کی ایک فہرست کو ترتیب دیتا ہے: ”غرض اے بھائیو! جتنی باتیں سچ ہیں اور جتنی باتیں شرافت کی ہیں اور جتنی باتیں واجب ہیں اور جتنی باتیں پاک ہیں اور جتنی باتیں پسندیدہ ہیں اور جتنی باتیں دلکش ہیں غرض جو نیکی اور تعریف کی باتیں ہیں اُن پر غور کِیا کرو۔“ آئیے ہم اسکا قریبی جائزہ لیں اور جس پر ہمیں غور کرتے رہنا چاہئے اُس کی بہتر سمجھ حاصل کریں۔
۱۶. پولسؔ نے کن خوبیوں پر ”غور کِیا کرو“ کی حوصلہافزائی دی، اور ہر ایک میں کیا شامل ہے؟
۱۶ سب سے پہلے تو یہ کہ پولسؔ نے آٹھ اخلاقی خوبیوں کو فہرست کیا اور پھر ہر ایک سے پہلے لفظ ”جتنی“ لگایا۔ یہ اصطلاح ظاہر کرتی ہے کہ مسیحی ہمہوقت صرف صحیفائی اور عقائد سے متعلق معاملات کی سوچ تک ہی محدود نہیں ہیں۔ موضوعات اور عنوانات کی کئی اقسام ہیں جن پر ہم اپنے ذہنوں کو لگا سکتے ہیں۔ لیکن اہم بات یہ ہے کہ انہیں پولسؔ کے ذریعے واضحکردہ اخلاقی خوبیوں کے معیار پر پورا اُترنا چاہئے۔ ”باتوں“ کی اقسام میں سے ہر ایک جس کا حوالہ پولسؔ نے دیا ہماری توجہ کی مستحق ہے۔ آئیے ہم باری باری ان پر غور کریں۔
▫ ”سچ“ میں محض درست یا غلط ہونے سے زیادہ کچھ شامل ہے۔ اسکا مطلب سچا، راستباز، اور قابلِاعتماد ہونا ہے یعنی ایسی چیز جو حقیقی ہے نہ کہ محض ویسی دکھائی دینے والی۔—۱-تیمتھیس ۶:۲۰۔
▫ ”شرافت“ ایسی باتوں کا اشارہ دیتی ہے جو باوقار اور عزت والی ہیں۔ یہ کسی ایسی بات کے لئے تعظیم کے احساس کو اُبھارتی ہے جو بازاری اور گھٹیا ہونے کی بجائے اعلیٰ، شریفانہ، اور قابلِاحترام ہے۔
▫ ”واجب“ کا مطلب ہے خدا کے معیار پر پورا اُترنا نہ کہ انسان کے۔ دنیاوی آدمی اپنے ذہنوں کو غیرواجب منصوبوں میں مشغول رکھتے ہیں، لیکن ہمیں اُن باتوں کی بابت سوچنا اور اُن ہی میں مسرور رہنا ہے جو خدا کی نگاہ میں واجب ہیں۔—مقابلہ کریں زبور ۲۶:۴؛ عاموس ۸:۴-۶۔
▫ ”پاک“ کا مطلب ہے خالص اور پاکیزہ نہ صرف چالچلن (جنسی یا دیگر کاموں) میں بلکہ خیال اور محرک میں بھی۔ ”حکمت جو اُوپر سے آتی ہے اول تو وہ پاک ہوتی ہے،“ یعقوب کہتا ہے۔ یسوؔع، جو کہ ”پاک“ ہے، غور کرنے کے لئے ہمارے واسطے عین کامل نمونہ ہے۔—یعقوب ۳:۱۷؛ ۱-یوحنا ۳:۳۔
▫ ”پسندیدہ“ وہ ہے جو دوسروں میں محبت کو اُبھارتا اور بڑھاتا ہے۔ ہمیں ”نیک کاموں کی ترغیب دینے کے لئے ایک دوسرے کا لحاظ“ رکھنا ہے بجائے اس کے کہ اپنے ذہنوں کو ایسی باتوں پر لگائے رکھیں جو نفرت، تلخی، اور فساد کو برپا کرتی ہیں۔—عبرانیوں ۱۰:۲۴۔
▫ ”دلکش“ کا مطلب محض ”مُعزز“ ہونا یا ”اچھی ساکھ“ رکھنا نہیں ہے، بلکہ فعال مفہوم میں تقویتبخش اور قابلِستائش ہونا بھی ہے۔ ہم اپنے ذہنوں کو ایسی باتوں پر لگاتے ہیں جو گری ہوئی اور ناگوار ہونے کی بجائے صحتبخش اور تقویتبخش ہوتی ہیں۔—افسیوں ۴:۲۹۔
▫ ”نیکی“ کا بنیادی مطلب ”بھلائی“ یا ”اخلاقی فضیلت“ ہے، لیکن اس سے مراد کسی بھی طرح کی فضیلت ہو سکتی ہے۔ لہٰذا، ہم خدا کے معیار کی مطابقت میں دیگر لوگوں کی بیشقیمت خوبیوں، لیاقتوں اور کامرانیوں کی بھی قدر کر سکتے ہیں۔
▫ ”تعریف“ کی باتیں واقعی ایسی ہی ہوتی ہیں اگر تعریف خدا یا اُس کی طرف سے واجب طور پر منظورشدہ اختیار سے حاصل ہو۔—۱-کرنتھیوں ۴:۵؛ ۱-پطرس ۲:۱۴۔
زندگی اور اطمینان کا وعدہ
۱۷. ”روحانی نیت“ کونسی برکات پر منتج ہوتی ہے؟
۱۷ جب ہم پولسؔ کی نصیحت پر عمل کرتے اور ”اُن [باتوں] پر غور“ کرتے رہتے ہیں تو ہم ”روحانی نیت“ میں کامیابی حاصل کریں گے۔ نتیجہ صرف زندگی، یعنی موعودہ نئی دنیا میں ابدی زندگی کی برکت ہی نہیں بلکہ اطمینان بھی ہے۔ (رومیوں ۸:۶) کیوں؟ اس لئے کہ ہمارے ذہن جسمانی باتوں کے بُرے اثر سے محفوظ رہتے ہیں اور اب ہم مزید جسم اور روح کے درمیان ذہنی کوفت پیدا کرنے والی کشمکش سے بہت زیادہ متاثر نہیں ہوتے ہیں جیسے کہ پولسؔ نے بیان کیا۔ جسم کے اثر کی مزاحمت کرنے سے، ہم خدا کا اِطمینان بھی حاصل کرتے ہیں ”اس لئے کہ جسمانی نیت خدا کی دشمنی ہے۔“—رومیوں ۷:۲۱-۲۴؛ ۸:۷۔
۱۸. شیطان کونسی لڑائی لڑ رہا ہے، اور ہم کیسے فاتح ہو سکتے ہیں؟
۱۸ شیطان اور اُس کے کارندے خدا کے جلال کے ہمارے عکس کو دُھندلا کرنے کے لئے جو کچھ بھی اُن کے بس میں ہے وہ سب کر رہے ہیں۔ وہ ہمارے ذہنوں پر جسمانی خواہشات کی بھرمار کرنے سے قبضہ کرنا چاہتے ہیں، کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ یہ بالآخر خدا سے دشمنی اور موت پر منتج ہوگا۔ لیکن ہم اس لڑائی میں فاتح ہو سکتے ہیں۔ پولسؔ کی طرح ہم بھی باآوازِ بلند کہہ سکتے ہیں: ہمارے واسطے ناکامل جسم پر گناہ کی گرفت کو ختم کرنے کی خاطر امداد فراہم کرنے کے لئے ”خداوند یسوؔع مسیح کے وسیلہ سے خدا کا شکر“ ہو۔—رومیوں ۷:۲۵۔ (۱۲ ۶/۱۵ w۹۴)
[فٹنوٹ]
a بائبل عام طور پر ”گناہ“ کو بیان کرنے کے لئے عبرانی فعل شاتا اور یونانی فعل ہامرتانو کو استعمال کرتی ہے۔ چوک جانے یا کسی مقصد، نشان، یا ہدف تک نہ پہنچنے کے مفہوم میں ان دونوں الفاظ کا مطلب ”چوک جانا“ ہے۔
b روایت کے مطابق، روحانی ترقی کے لئے مُہلک سات گناہ، تکبّر، حرص، ہوس، حسد، بسیارخوری، غصہ، اور سُستی ہیں۔
کیا آپ وضاحت کر سکتے ہیں؟
▫ گناہ کیا ہے اور یہ ناکامل جسم پر گرفت کو کیسے مضبوط کر سکتا ہے؟
▫ ہم ”جسمانی نیت“ کو ختم کرنے کے لئے کیسے جدوجہد کر سکتے ہیں؟
▫ ”روحانی نیت“ کو فروغ دینے کے لئے ہم کیا کر سکتے ہیں؟
▫ ”روحانی نیت“ کسطرح زندگی اور اطمینان لاتی ہے؟
[تصویر]
قائنؔ نے اپنی ہی بربادی کیلئے نفسانی رجحانات کو خود پر مسلّط ہو نے کی اجازت دے دی
[تصویریں]
روحانی نیت زندگی اور اطمینان ہے