شیخی بگھارنے سے خبردار رہیں
آجکل بہتیرے شیخی بگھارنے کو ایک صفت خیال کرتے ہیں۔ کسی کا اپنی خوبیوں، مہارتوں اور کامرانیوں کی نمائش کرنا فیشن بن گیا ہے۔ بعض یقین رکھتے ہیں کہ شیخی بگھارنا کامیابی کے لئے ضروری ہے۔ دیگر محسوس کرتے ہیں کہ یہ کسی کے عزتِنفس کو بلند کرتا ہے۔ ٹائم میگزین مشاہدہ کرتا ہے: ”انکساری کا خیال اگرچہ بمشکل ہی متروک ہوا ہے تو بھی تقریباً دقیا نوسی دکھائی دینے لگا ہے۔“ مصنفہ جوؔڈی گیلن تبصرہ کرتی ہے: ”بدقسمتی سے، بےشرم شیخی بازی . . . جدید فیشن ہے۔ دوست یا واقفکار کے ساتھ باتچیت ایک نیا لازمہ رکھتی ہے: خودستائی۔“
تقلیدی کرداروں نے معیار قائم کیا ہے۔ شاید آپ نے سابقہ باکسنگ چیمپیئن کے الفاظ سنے ہوں: ”یہ کوئی حادثہ نہیں ہے کہ میں تاریخ میں اس وقت عظیمترین آدمی ہوں۔“ میوزک گروپ بِیٹلز کے ایک ممبر کا بیان بھی کافی مشہور ہے: ”اس وقت ہم یسوؔع مسیح سے زیادہ مقبول ہیں۔“ جبکہ بعض نے ایسے تبصروں کو معصومیت میں کہی گئی بات خیال کیا، دیگر نے یہ سمجھا کہ وہ جنہوں نے ذاتی ترقی کے تقلیدی کرداروں کے طور پر یہ الفاظ کہے، وہ اس لائق ہیں کہ ان کی پیروی کی جائے۔
شیخی بگھارنے کے عام ہو جانے سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے: کیا کسی کا اپنی خوبیوں یا صلاحتیوں کی بابت ڈینگیں مارنا صحتمندانہ ہے؟ بےشک کسی کا اپنی کامرانیوں پر فخر کرنا اور قریبی دوستوں اور رشتہداروں کو بھی ان میں شریک کرنا قدرتی بات ہے۔ لیکن ان کی بابت کیا ہے جو اس قول کے مطابق زندگی بسر کرتے ہیں، ”اگر آپ کے پاس کچھ ہے تو اسے فخر سے دکھائیں۔“ مزید، ان کی بابت کیا ہے جو اعلانیہ تو شیخی نہیں مارتے مگر چالاکی سے اس بات کی تسلی کر لیتے ہیں کہ دوسرے ان کی خوبیوں اور کامرانیوں کو جان جائیں؟ کیا ایسی ذاتی تشہیر خوشگوار ہے اور ضروری بھی ہے جیسے کہ بعض دعویٰ کرتے ہیں؟
تعلقات پر اثر
دوسروں کے شیخی بگھارنے کا جو اثر آپ پر پڑتا ہے اس پر غور کریں۔ مثال کے طور پر، آپ مندرجہذیل بیانات کا کیسے جواب دیتے ہیں؟
”جو کتابیں میں نے نہیں لکھیں وہ دیگر لوگوں کی لکھی ہوئی کتابوں سے بہتر ہیں۔“—معروف مصنف۔
”اگر میں تخلیق کے وقت موجود ہوتا تو میں نے کائنات کی ترتیب کے لئے کچھ مفید مشورے دئے ہوتے۔“—قرون وسطیٰ کا بادشاہ۔
”کوئی خدا ہو ہی نہیں سکتا کیونکہ اگر کوئی ہوتا تو مجھے یقین نہیں آتا کہ میں وہ [خدا] کیوں نہیں۔“—۱۹ صدی کا فلاسفر۔
کیا آپ کو ان افراد کے تبصرے دلکش لگتے ہیں؟ آپ کے خیال میں آپ ان کی رفاقت سے محظوظ ہوتے؟ غالباً نہیں۔ عام طور پر، شیخی بگھارنا—اشتیاق سے یا مذاق سے بھی—دوسروں کے کھنچاؤ محسوس کرنے، برہم ہونے اور شاید رشک کرنے کا سبب بنتا ہے۔ یہی اثر زبورنویس آؔسف پر پڑا تھا جس نے اقرار کیا: ”میں نے شیخی بگھارنے والوں پر رشک کیا۔“ (زبور ۷۳:۳، اینڈبلیو) یقیناً، ہم میں سے کوئی بھی اپنے دوستوں اور رفیقوں میں بُرے احساسات کی وجہ نہیں بننا چاہتا! پہلا کرنتھیوں ۱۳:۴ بیان کرتی ہے: ”محبت شیخی نہیں مارتی۔“ خدائی محبت اور دوسروں کے احساسات کے لئے اثرپذیری ہمیں تحریک دے گی کہ اپنی مبیّنہ مہارتوں اور خوبیوں کی نمائش کرنے سے باز رہیں۔
جب کوئی شخص خود پر قابو رکھتا اور انکساری سے بات کرتا ہے تو وہ اپنے چوگرد دوسروں کو اپنی بابت پُرسکون اور اچھا محسوس کرنے دیتا ہے۔ یہ ایک انمول صلاحیت ہے۔ شاید برطانوی مدّبر چؔیسٹرفیلڈ کے ذہن میں یہی بات تھی جب اس نے اپنے بیٹے کو مشورہ دیا: ”اگر تم دوسرے لوگوں سے عقلمند بن سکو تو بنو؛ لیکن انہیں مت بتاؤ۔“
لوگوں کے پاس ایک جیسی لیاقتیں نہیں ہیں۔ ایک بات جو ایک شخص کے لئے آسان ہے وہ محض دوسرے کی استطاعت میں نہیں ہوتی۔ محبت ایک شخص کو تحریک دے گی کہ ان لوگوں کے ساتھ ہمدردی سے پیش آئے جو ان حلقوں میں وہ لیاقتیں نہیں رکھتے جس میں وہ صلاحیتیں رکھتا ہے۔ غالباً، دوسرا شخص دیگر میدانوں میں لیاقتیں رکھتا ہے۔ پولسؔ رسول نے ہمیں بتایا: ”میں اس توفیق کی وجہ سے جو مجھ کو ملی ہے تم میں سے ہر ایک سے کہتا ہوں کہ جیسا سمجھنا چاہئے اس سے زیادہ کوئی اپنے آپ کو نہ سمجھے بلکہ جیسا خدا نے ہر ایک کو اندازہ کے موافق ایمان تقسیم کیا ہے اعتدال کے ساتھ اپنے آپ کو ویسا ہی سمجھے۔“—رومیوں ۱۲:۳۔
شیخی بگھارنے کا ماخذ کمزوری ہے
جبکہ ہو سکتا ہے کہ بعض لوگ شیخی بگھارنے والوں کی موجودگی میں کمتر محسوس کرتے ہوئے ان سے دُور رہیں تو بھی دیگر لوگوں کا ردعمل مختلف ہوتا ہے۔ وہ یہ نتیجہ اخذ کر لیتے ہیں کہ شیخی بگھارنے والے غیرمحفوظ ہیں۔ مصنف فرؔینک ٹرائیپٹ وضاحت کرتا ہے کہ کیوں شیخی بگھارنے والا شخص ستمظریفی سے دوسروں کی نظروں میں اپنی ساکھ کو کم کر سکتا ہے: ”دل میں ہر شخص جانتا ہے کہ شیخی مارنا عام طور پر کسی ذاتی جذباتی کمزوری کا اشارہ دیتا ہے۔“ تاہم، بہتیرے شیخی بگھارنے والے کی بہانہبازی دیکھ لیتے ہیں تو کیا یہ دانشمندی نہیں ہے کہ محض لفظی خودستائی سے گریز کیا جائے۔
”لیکن یہ سچ ہے!“
اس طرح سے بعض ذاتی بڑائی کی توجیہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ محسوس کرتے ہیں کہ ان کو واقعی کسی خاص پہلو میں صلاحیت حاصل ہے اس لئے بصورتِدیگر تصنع سے کام لینا ریاکاری ہوگا۔
لیکن کیا ان کا شیخی بگھارنا سچ ہے؟ ذاتی رائے قائم کرنا غیرحقیقت پسندانہ بننے کی طرف مائل ہوتا ہے۔ ہم اپنے اندر جس غیرمعمولی صلاحیت کو بھانپ لیتے ہیں وہ دوسروں کو شاید معمولی بات نظر آئے۔ یہ حقیقت کہ ایک شخص اپنی صلاحیت کی نمائش کرنے کے لئے مجبور محسوس کرتا ہے یہ اشارہ بھی دے سکتی ہے کہ وہ صلاحیت بہرحال اتنی زوردار نہیں ہے—اتنی بھی نہیں کہ اشتہاربازی کے بغیر خود سے پہچانی جا سکے۔ بائبل یہ نصیحت کرتے وقت خود کو فریب دینے کی طرف مائل انسانی رجحان کو تسلیم کرتی ہے: ”جو خود کو قائم سمجھتا ہے خبردار رہے کہ گر نہ پڑے۔“—۱-کرنتھیوں ۱۰:۱۲۔
اگر کوئی شخص کسی خاص حلقے میں غیرمعمولی قدرتی صلاحیت رکھتا ہو تو بھی، کیا اس سے ڈینگیں مارنے کا جواز پیدا ہو جاتا ہے؟ نہیں، کیونکہ ڈینگیں مارنے سے انسانوں کی بڑائی ہوتی ہے، جبکہ کوئی بھی قدرتی صلاحیت جو ہمارے پاس ہے وہ خدا کی طرف سے ہے۔ بڑائی صرف اسی کی ہونی چاہئے۔ جو چیز ہمیں پیدائشی طور پر ملی ہے ہم اپنے سر اسکا سہرا کیوں لیں؟ (۱-کرنتھیوں ۴:۷) اس کے علاوہ، جیسے کہ ہم خوبیاں رکھتے ہیں تو ہم کمزوریاں بھی رکھتے ہیں۔ کیا دیانتداری اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ ہم اپنی خامیوں اور عیبوں پر توجہ دلائیں؟ کم ہی شیخیباز ایسا سوچتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ شاہ ہیرؔودیس اگرپا اوّل شاید واقعی ایک لائق مقرر ہو۔ پھر بھی اس میں انکساری کی کمی نہایت ہی ناخوشگوار موت کا باعث بنی۔ یہ بھیانک واقعہ ظاہر کرتا ہے کہ خدا کے نزدیک یہ تکبّر کسقدر بدذوق تھا جیسے کہ یہ بہتیرے انسانوں کے لئے بھی ہے۔—اعمال ۱۲:۲۱-۲۳۔
صلاحیتیں اور خوبیاں عام طور پر غیرواجبی اشتہاربازی کے بغیر ہی جانی جاتی ہیں۔ جب دیگر لوگ کسی شخص کی خوبیوں یا کامرانیوں کو پہچانتے ہیں تو جس شخص کی تعریف کی جاتی ہے یہ بات اس کے لئے مزید نیکنامی کا موجب ہوتی ہے۔ امثال ۲۷:۲ دانشمندی سے کہتی ہے: ”غیر تیری ستایش کرے نہ کہ تیرا ہی مُنہ۔ بیگانہ کرے نہ کہ تیرے ہی لب۔“
کامرانی کے لئے درکار؟
بہتیرے محسوس کرتے ہیں کہ آجکل کے مقابلہباز معاشرے میں کامیابی کے لئے ذاتی ترقی کا اعتماد ضروری ہے۔ ان کو فکر ہے کہ اگر وہ اپنی صلاحتیوں کے متعلق بات نہیں کرتے یا انکا اشتہار نہیں دیتے تو ان پر کوئی توجہ نہیں دی جائیگی یا ان کی قدر نہیں کی جائیگی۔ ووگ میگزین میں یہ تبصرہ ان کی پریشانی کا نمائندہ ہے: ”جبکہ ماضی میں ہمیں سکھایا گیا تھا کہ انکساری ایک صفت ہے، اب ہم سیکھ رہے ہیں کہ کمگوئی ایک معذوری ہو سکتی ہے۔“
وہ جو اس دنیا کے معیاروں کے مطابق ترقی کرنے کی تمنا کرتے ہیں ان کی یہ فکرمندی شاید جائز ہو سکتی ہے۔ لیکن مسیحی کی صورتحال فرق ہے۔ وہ جانتا ہے کہ خدا فکر رکھتا ہے اور ان لوگوں کی صلاحتیوں کو استعمال کرنے کا انتخاب کرتا ہے جو فروتن ہیں نہ کہ متکبر۔ لہٰذا، مسیحی کو خودپسندی کی تدابیر کی سعی کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ سچ ہے کہ خوشفہم شخص شاید زبردستی کرنے والا بننے یا سازباز کرنے سے عارضی وقار حاصل کر لے۔ پھر بھی وقت آنے پر اسے بےنقاب اور عاجز کر دیا جاتا ہے، حتیٰکہ اس کی تحقیر بھی کی جاتی ہے۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے یسوؔع نے بیان کیا: ”جو کوئی اپنے آپ کو بڑا بنائے گا وہ چھوٹا کیا جائے گا اور جو اپنے آپ کو چھوٹا بنائے گا وہ بڑا کیا جائے گا۔“—متی ۲۳:۱۲؛ امثال ۸:۱۳؛ لوقا ۹:۴۸۔
انکساری کے فوائد
راؔلف والڈو ایمرسن نے لکھا: ”میں جس آدمی سے بھی ملتا ہوں وہ کسی نہ کسی طرح سے مجھ سے برتر ہے۔ یوں میں اس کی بابت سیکھ لیتا ہوں۔“ اس کا تبصرہ پولسؔ رسول کی خدا کی طرف سے مُلہَم فہمائش سے اتفاق کرتا ہے کہ مسیحی ”تفرقے اور بیجا فخر کے باعث کچھ نہ [کریں] بلکہ فروتنی سے ایک دوسرے کو اپنے سے بہتر سمجھے۔“ (فلپیوں ۲:۳) یہ منکسر نقطۂنظر ایک شخص کو دوسروں سے سیکھنے کی حیثیت میں لا کھڑا کرتا ہے۔
پس خبردار رہیں کہ آپ کی صلاحیت آپ کی کمزوری نہ بن جائے۔ شیخی بگھارنے سے اپنی قابلیتوں اور کامرانیوں کی کمقدری نہ کریں۔ یہی چیز دوسروں کی نظروں میں واقعی کسی کے وقار کو بلند کرے گی۔ یہ ساتھی انسانوں کے ساتھ بہتر تعلقات سے لطفاندوز ہونے کے لئے کسی شخص کی مدد کرتی ہے اور یہوؔواہ خدا کی مقبولیت کا باعث ہوتی ہے۔—میکاہ ۶:۸؛ ۲-کرنتھیوں ۱۰:۱۸۔ (۱۹ ۹/۱ w۹۴)