”ہر روز“ اپنی مخصوصیت کے مطابق زندگی بسر کرنا
”اگر کوئی میرے پیچھے آنا چاہے تو اپنی خودی سے انکار کرے اور ہر روز اپنی صلیب اٹھائے اور میرے پیچھے ہو لے۔“—لوقا ۹:۲۳۔
۱. وہ ایک طریقہ کیا ہے جس سے ہم مسیحیوں کے طور پر اپنی کامیابی کا اندازہ لگا سکتے ہیں؟
”کیا ہم واقعی مخصوص لوگ تھے؟“ جاؔن ایف. کینیڈی، ریاستہائے متحدہ کے ۳۵ ویں صدر کے مطابق، اس سوال کا جواب، سرکاری عہدے پر فائز لوگوں کی کامیابی کا اندازہ لگانے میں ایک عنصر ہے۔ یہ سوال مسیحی خادموں کے طور پر ہماری کامیابی کیلئے معیار کے طور پر زیادہ گہری اہمیت کیساتھ کام دے سکتا ہے۔
۲. ایک لغت لفظ ”مخصوصیت“ کی تشریح کیسے کرتی ہے؟
۲ تاہم، مخصوصیت کیا ہے؟ ویبسٹرز نائنتھ نیو کالجیٹ ڈکشنری اسکی ”الہٰی ہستی یا کسی متبرک استعمال کے لئے مخصوص کرنے کی رسم یا عمل،“ ”کسی خاص مقصد کے لئے وقف کرنا یا مخصوص کرنا،“ ”خودایثارانہ عقیدت“ کے طور پر تشریح کرتی ہے۔ جاؔن ایف. کینیڈی لفظ کو بظاہر ”خودایثارانہ عقیدت“ کے مطلب میں استعمال کر رہا تھا۔ ایک مسیحی کیلئے مخصوصیت کا مطلب کہیں زیادہ ہے۔
۳. مسیحی مخصوصیت کیا ہے؟
۳ یسوؔع مسیح نے اپنے شاگردوں کو بتایا: ”اگر کوئی میرے پیچھے آنا چاہے تو اپنی خودی کا انکار کرے اور اپنی صلیب اٹھائے اور میرے پیچھے ہو لے۔“ (متی ۱۶:۲۴) الہٰی استعمال کیلئے مخصوص ہونے میں صرف اتوار کو یا عبادت کی جگہ کا دورہ کرتے وقت پرستش کا کوئی عمل انجام دینا ہی شامل نہیں ہے۔ اس میں کسی کی تمام طرزِزندگی شامل ہے۔ مسیحی ہونے کا مطلب یہوؔواہ خدا کی خدمت کرتے ہوئے جسکی یسوؔع مسیح نے خدمت کی، خودی کا انکار یا خودی سے دستبردار ہونا ہے۔ اسکے علاوہ، ایک مسیحی کسی بھی مصیبت کے تحت ہمت نہ ہارنے سے اپنی ”صلیب“ اٹھاتا ہے جو مسیح کا پیروکار ہونے کی وجہ سے آ سکتی ہے۔
کامل نمونہ
۴. یسوؔع کا بپتسمہ کس چیز کی علامت تھا؟
۴ زمین پر رہتے وقت، یسوؔع نے ظاہر کیا کہ خود کو یہوؔواہ کیلئے مخصوص کرنے میں کیا کچھ شامل ہے۔ اسکے احساسات تھے: ”تو نے قربانی اور نذر کو پسند نہ کیا۔ بلکہ میرے لئے ایک بدن تیار کیا۔“ اسکے بعد اس نے اضافہ کیا: ”دیکھ! میں آیا ہوں۔ (کتاب کے ورقوں میں میری نسبت لکھا ہوا ہے) تاکہ اَے خدا! تیری مرضی پوری کروں۔“ (عبرانیوں ۱۰:۵-۷) ایک مخصوص قوم کے فرد کے طور پر، وہ پیدائش ہی سے یہوؔواہ کیلئے مخصوص ہو چکا تھا۔ پھر بھی، اپنی زمینی خدمتگزاری کے آغاز میں، اس نے یہوؔواہ کی مرضی بجا لانے کیلئے اپنی ذات کی پیشکش کی علامت میں بپتسمے کیلئے خود کو پیش کیا، جس میں اس کیلئے اپنی زندگی کو فدیے کی قربانی کے طور پر پیش کرنا شامل ہوگا۔ یوں اس نے مسیحیوں کیلئے ایک نمونہ قائم کیا کہ جو کچھ بھی یہوؔواہ کی مرضی ہے وہ پوری کریں۔
۵. یسوؔع نے مادی چیزوں کیلئے ایک مثالی نظریہ کیسے ظاہر کیا؟
۵ اپنے بپتسمے کے بعد یسوؔع نے زندگی کی ایسی روش اختیار کی جو بالآخر قربانی کی موت کا سبب بنی۔ وہ پیسہ بنانے میں یا آرامدہ زندگی بسر کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتا تھا۔ بلکہ اسکی زندگی کا محور اسکی خدمتگزاری تھی۔ اس نے اپنے شاگردوں کو ”پہلے اسکی بادشاہی اور اسکی راستبازی کی تلاش“ کرتے رہنے کی تلقین کی اور اس نے خود ان الفاظ کی مطابقت میں زندگی بسر کی۔ (متی ۶:۳۳) اس نے ایک مرتبہ یہ بھی کہا: ”لومڑیوں کے بھٹ ہوتے ہیں اور ہوا کے پرندوں کے گھونسلے مگر ابنِآدم کیلئے سر دھرنے کی بھی جگہ نہیں۔“ (متی ۸:۲۰) اپنے پیروکاروں سے پیسہ بٹورنے کی غرض سے وہ اپنی تعلیمات کو اسکے مطابق ڈھال سکتا تھا۔ بڑھئی ہوتے ہوئے وہ بیچنے کیلئے فرنیچر کی کوئی خوبصورت چیز بنانے کیلئے وقت نکال سکتا تھا تاکہ وہ چاندی کے چند اضافی سکے حاصل کر سکے۔ لیکن اس نے مادی خوشحالی کی جستجو میں اپنی صلاحیتیوں کو استعمال نہ کیا۔ خدا کے مخصوصشُدہ خادم کے طور پر، کیا ہم مادی چیزوں کو صحیح پسِمنظر میں دیکھنے کیلئے یسوؔع کی نقل کر رہے ہیں؟—متی ۶:۲۴-۳۴۔
۶. ہم خودایثار، خدا کے مخصوصشُدہ خادم ہونے میں، یسوؔع کی نقل کیسے کر سکتے ہیں؟
۶ خدا کی اپنی خدمت کو پہلا درجہ دینے میں، یسوؔع نے اپنے ذاتی مفادات کو تلاش نہ کِیا۔ اس کی ساڑھے تین سال کی اعلانیہ خدمتگزاری کے دوران اس کی زندگی خودایثارانہ تھی۔ ایک موقع پر ایک مصروف دن کے بعد، کھانا کھانے کیلئے بھی وقت نکالے بغیر، یسوؔع لوگوں کو تعلیم دینے کیلئے تیار تھا جو ”ان بھیڑوں کی مانند جنکا چرواہا نہ ہو خستہحال اور پراگندہ تھے۔“ (متی ۹:۳۶؛ مرقس ۶:۳۱-۳۴) اگرچہ ”سفر سے تھکا ماندہ“ تھا تو بھی اس نے سامری عورت سے باتچیت کرنے کے لئے پہل کی جو سُوخاؔر میں یعقوؔب کے کنوئیں پر پانی بھرنے آئی تھی۔ (یوحنا ۴:۶، ۷، ۱۳-۱۵) اس نے ہمیشہ دوسروں کی فلاح کو اپنی ذاتی فلاح سے مقدم رکھا۔ (یوحنا ۱۱:۵-۱۵) ہم خدا اور دوسروں کی خدمت کرنے کے لئے فیاضی کے ساتھ اپنے ذاتی مفادات کو قربان کرنے سے یسوؔع کی نقل کر سکتے ہیں۔ (یوحنا ۶:۳۸) کمسےکم مطلوبہ کام کرنے کی بجائے اس مفہوم میں سوچنے سے کہ ہم خدا کو واقعی کیسے خوش کر سکتے ہیں، ہم اپنی مخصوصیت کے مطابق زندگی گزار رہے ہونگے۔
۷. ہم یہوؔواہ کو ہمیشہ عزت دینے میں یسوؔع کی نقل کیسے کر سکتے ہیں؟
۷ لوگوں کی مدد کرنے سے یسوؔع کسی طرح سے بھی اپنی طرف توجہ راغب کرانے کی کوشش نہیں کر رہا تھا۔ وہ خدا کی مرضی بجا لانے کی خاطر اس کیلئے مخصوص تھا۔ لہٰذا اس نے ہمیشہ اس چیز کا یقین کر لیا کہ جو کچھ بھی انجام دیا گیا تھا اس کے لئے اس کا باپ، یہوؔواہ جلال حاصل کرے۔ جب ایک حاکم لفظ ”نیک“ کو لقب کے طور پر استعمال کرتے ہوئے اسے ”اَے نیک استاد“ کہہ کر مخاطب ہوا تو یسوؔع نے یہ کہتے ہوئے اس کی اصلاح کی: ”کوئی نیک نہیں مگر ایک یعنی خدا۔“ (لوقا ۱۸:۱۸، ۱۹؛ یوحنا ۵:۱۹، ۳۰) کیا ہم یسوؔع کی طرح جلدی سے عزت کو اپنی طرف سے یہوؔواہ کی طرف موڑ دیتے ہیں؟
۸. (ا) ایک مخصوصشُدہ انسان کے طور پر، یسوؔع نے خود کو دنیا سے الگ کیسے رکھا؟ (ب) ہمیں اسکی نقل کیسے کرنی چاہئے؟
۸ زمین پر اپنی پوری مخصوصشُدہ زندگی کی روش میں، یسوؔع نے ظاہر کیا کہ اس نے خود کو الہٰی خدمت کے لئے وقف کر رکھا تھا۔ اس نے خود کو پاکصاف رکھا تاکہ وہ خود کو ”ایک بےعیب اور بےداغ برّے“ کے طور پر فدیے کی قربانی ہونے کے لئے پیش کر سکے۔ (۱-پطرس ۱:۱۹؛ عبرانیوں ۷:۲۶) اس نے موسوی شریعت کے ہر اخلاقی ضابطے کی پابندی کی، اس طرح اس نے شریعت کو پورا کیا۔ (متی ۵:۱۷؛ ۲-کرنتھیوں ۱:۲۰) اس نے اخلاقیات کی بابت اپنی ذاتی تعلیم کے مطابق زندگی گزاری۔ (متی ۵:۲۷، ۲۸) جائز طور پر کوئی بھی اس پر بُرے محرکات کا الزام نہ لگا سکا۔ یقیناً، اس نے ”بدکاری سے عداوت رکھی۔“ (عبرانیوں ۱:۹) خدا کے بندوں کے طور پر، آئیے ہم اپنی زندگیوں اور اپنے محرکات کو یہوؔواہ کی نظر میں پاک رکھنے میں یسوؔع کی نقل کریں۔
عبرتناک مثالیں
۹. پولسؔ نے کس عبرتناک مثال کا حوالہ دیا، اور ہمیں اس مثال پر کیوں غور کرنا چاہئے؟
۹ یسوؔع کے نمونے کے برعکس، ہمارے پاس اسرائیلیوں کی عبرتناک مثال ہے۔ یہ اعلان کرنے کے بعد بھی کہ یہوؔواہ نے جو کچھ انہیں کرنے کا حکم دیا ہے وہ سب اسے کرینگے، وہ اسکی مرضی بجا لانے میں ناکام ہوگئے۔ (دانیایل ۹:۱۱) پولسؔ رسول نے مسیحیوں کی حوصلہافزائی کی کہ جو کچھ اسرائیلیوں کیساتھ واقع ہوا اس سے سبق سیکھیں۔ آئیے بعض واقعات کا جائزہ لیں جسکا پولسؔ نے کرنتھیوں کے نام اپنے پہلے خط میں حوالہ دیا اور دیکھیں کہ ہمارے زمانے میں خدا کے مخصوصشُدہ خادموں کو کن پوشیدہ خطرات سے بچنے کی ضرورت ہے۔—۱-کرنتھیوں ۱۰:۱-۶، ۱۱۔
۱۰. (ا) اسرائیلیوں نے ’بُری چیزوں کی خواہش‘ کیسے کی؟ (ب) خوراک کی بابت دوسری مرتبہ بڑبڑانے پر اسرائیلی زیادہ جوابدہ کیوں تھے، اور ہم اس عبرتناک مثال سے کیا سیکھ سکتے ہیں؟
۱۰ پہلے، پولسؔ ہمیں آگاہ کرتا ہے کہ ”بُری چیزوں کی خواہش“ نہ کریں۔ (۱-کرنتھیوں ۱۰:۶) یہ شاید آپکو اس موقع کی یاد دلائے جب اسرائیلیوں نے صرف من ہی حاصل کرنے کی بابت شکایت کی تھی۔ یہوؔواہ نے ان کے لئے بٹیر بھیجے۔ اسی طرح کی بات کوئی ایک سال پہلے سِینؔ کے بیابان میں، اسرائیلیوں کے یہوؔواہ کے لئے اپنی مخصوصیت کا اعلان کرنے سے تھوڑا پہلے واقع ہو چکی تھی۔ (خروج ۱۶:۱-۳، ۱۲، ۱۳) لیکن صورتحال بالکل ویسی نہ تھی۔ جب یہوؔواہ نے پہلی مرتبہ بٹیر مہیا کئے تو اس نے اسرائیلیوں سے انکے بڑبڑانے کی جوابطلبی نہ کی۔ تاہم، اس مرتبہ صورتحال مختلف تھی۔ ”گوشت انہوں نے دانتوں سے کاٹا ہی تھا اور اسے چبانے بھی نہیں پائے تھے کہ خداوند کا قہر ان لوگوں پر بھڑک اٹھا اور خداوند نے ان لوگوں کو بڑی سخت وبا سے مارا۔“ (گنتی ۱۱:۴-۶، ۳۱-۳۴) کیا تبدیلی ہو گئی تھی؟ ایک مخصوص قوم کے طور پر، اب انہیں جوابدہ ٹھہرایا گیا تھا۔ جو کچھ یہوؔواہ نے کہا تھا وہ سب کچھ کرنے کے لئے ان کے وعدے کے باوجود یہوؔواہ کی فراہمیوں کے لئے انکی کمقدری ان کے لئے یہوؔواہ کے خلاف شکایت کرنے کا سبب بنی! آجکل یہوؔواہ کے دسترخوان کی بابت شکایت کرنا ویسا ہی ہے۔ بعض ”دیانتدار اور عقلمند نوکر“ کے ذریعے یہوؔواہ کی روحانی فراہمیوں کی قدر کرنے میں قاصر رہتے ہیں۔ (متی ۲۴:۴۵-۴۷) تاہم، یاد رکھیں کہ ہماری مخصوصیت ہم سے تقاضا کرتی ہے کہ جو کچھ یہوؔواہ نے ہمارے لئے کیا ہے اسے شکرگزاری کیساتھ یاد رکھیں اور اس روحانی خوراک کو قبول کریں جو یہوؔواہ فراہم کرتا ہے۔
۱۱. (ا) اسرائیلیوں نے یہوؔواہ کیلئے اپنی پرستش کو بُتپرستی سے کیسے آلودہ کیا؟ (ب) ایک قسم کی بُتپرستی سے ہم کیسے متاثر ہو سکتے ہیں؟
۱۱ اسکے بعد، پولسؔ نے آگاہ کیا: ”تم بُتپرست نہ بنو جسطرح بعض ان میں سے بن گئے تھے۔“ (۱-کرنتھیوں ۱۰:۷) ظاہری طور پر رسول یہاں بچھڑے کی پرستش کا حوالہ دے رہا تھا جو کوہِسیناؔ پر یہوؔواہ کیساتھ اسرائیلیوں کے عہد باندھنے کے بعد واقع ہوئی۔ آپ کہہ سکتے ہیں، ’یہوؔواہ کے مخصوصشُدہ خادم کے طور پر، میں کبھی بھی بُتپرستی میں شامل نہیں ہونگا۔‘ تاہم، اسرائیلیوں کے نقطۂنظر سے نوٹ کریں کہ، انہوں نے یہوؔواہ کی پرستش کرنا بند نہ کی؛ پھر بھی، انہوں نے بچھڑے کی پرستش—خدا کی نظر میں مکروہ چیز—کو رائج کیا۔ اس قسم کی پرستش میں کیا شامل تھا؟ لوگوں نے بچھڑے کے سامنے قربانیاں پیش کیں، اور اسکے بعد انہوں نے ”بیٹھ کر کھایا پیا اور اٹھکر کھیلکود میں لگ گئے۔“ (خروج ۳۲:۴-۶) آجکل، بعض شاید دعویٰ کریں کہ وہ یہوؔواہ کی پرستش کرتے ہیں۔ لیکن شاید انکی زندگیاں یہوؔواہ کی پرستش پر مرتکز نہ ہوں، بلکہ اس دنیا کی چیزوں سے لطفاندوز ہونے پر ہوں، اور وہ یہوؔواہ کی اپنی پرستش کو انکے مطابق بنانے کی کوشش کرتے ہوں۔ سچ ہے کہ یہ بچھڑے کے سامنے سجدہ کرنے کی طرح اتنا سنگین نہیں ہے، تاہم اصولی طور پر یہ زیادہ فرق بھی نہیں ہے۔ اپنی ذاتی خواہش کو ایک معبود بنا لینا کسی کا یہوؔواہ کیلئے مخصوصیت کے مطابق زندگی بسر کرنے سے کہیں بعید ہے۔—فلپیوں ۳:۱۹۔
۱۲. بعلؔ فغور کیساتھ اسرائیلیوں کے تجربے سے، ہم اپنی خودی کا انکار کرنے کے متعلق کیا سیکھتے ہیں؟
۱۲ اگلی عبرتناک مثال میں ایک قسم کی تفریحطبع شامل تھی جس کا پولسؔ نے ذکر کیا۔ ”اور ہم حرامکاری نہ کریں جس طرح ان میں سے بعض نے کی اور ایک ہی دن میں تیئیس ہزار مارے گئے۔“ (۱-کرنتھیوں ۱۰:۸) اسرائیلیوں کا موآؔب کی بیٹیوں کی طرف سے پیشکردہ بداخلاق عیشوعشرت کے فریب میں آ جانا، شطیمؔ میں بعلؔ فغور کی پرستش کرنے کا سبب بنا۔ (گنتی ۲۵:۱-۳، ۹) یہوؔواہ کی مرضی بجا لانے کیلئے اپنی خودی کا انکار کرنے میں اسکے معیاروں کو تسلیم کرنا شامل ہے کہ اخلاقی طور پر کیا پاک ہے۔ (متی ۵:۲۷-۳۰) گرتے ہوئے معیاروں کے اس دور میں، یہوؔواہ کے اختیار کی اطاعت کرتے ہوئے کہ کیا اچھا ہے اور کیا بُرا ہے، ہمیں خود کو ہر قسم کے بداخلاق چالچلن سے پاک رکھنے کی ضرورت کی یاددہانی کرائی گئی ہے۔—۱-کرنتھیوں ۶:۹-۱۱۔
۱۳. فینحاؔس کی مثال یہ سمجھنے میں ہماری مدد کیسے کرتی ہے کہ یہوؔواہ کیلئے مخصوصیت میں کیا کچھ شامل ہے؟
۱۳ اگرچہ شطیمؔ میں بہتیرے حرامکاری کے پھندے میں پھنس گئے، بعض یہوؔواہ کیلئے قومی مخصوصیت پر پورے اُترے۔ ان میں سے، فینحاؔس غیرت میں نمایاں تھا۔ جب اس نے ایک اسرائیلی سردار کو ایک مدیانی عورت کو اپنے خیمے میں لاتے دیکھا تو فینحاؔس نے فوراً اپنے ہاتھ میں برچھی لی اور انہیں چھید ڈالا۔ یہوؔواہ نے موسیٰؔ سے کہا: ”فینحاؔس . . . نے میرے قہر کو بنی اسرائیل پر سے ہٹایا کیونکہ انکے بیچ اسے میرے لئے غیرت آئی۔ اسی لئے میں نے بنی اسرائیل کو اپنی غیرت کے جوش میں نابود نہیں کیا۔“ (گنتی ۲۵:۱۱) یہوؔواہ کیلئے کسی بھی رقابت کو گوارا نہ کرنا—مخصوصیت کا مطلب یہی ہے۔ ہم کسی بھی چیز کو اجازت نہیں دے سکتے جو ہمارے دلوں میں یہوؔواہ کیلئے مخصوصیت کی جگہ لے لے۔ یہوؔواہ کیلئے ہماری غیرت کو سنگین بداخلاقی کی بزرگوں کو خبر دینے سے، اس سے درگزر نہ کرتے ہوئے، کلیسیا کو پاک رکھنے کی بھی تحریک دینی چاہئے۔
۱۴. (ا) اسرائیلیوں نے یہوؔواہ کی آزمائش کیسے کی؟ (ب) یہوؔواہ کیلئے مکمل مخصوصیت ”بےدل“ نہ ”ہونے“ کیلئے کیسے ہماری مدد کرتی ہے؟
۱۴ پولسؔ نے ایک اور عبرتناک مثال کا حوالہ دیا: ”اور ہم خداوند کی آزمائش نہ کریں جیسے ان میں سے بعض نے کی اور سانپوں نے انہیں ہلاک کیا۔“ (۱-کرنتھیوں ۱۰:۹) پولسؔ یہاں پر اس وقت کا ذکر کر رہا تھا جب اسرائیلیوں نے خدا کے خلاف موسیٰؔ سے شکایت کی جب انکی ”جان اس راستہ سے عاجز آ گئی۔“ (گنتی ۲۱:۴) کیا آپ کبھی ایسی غلطی کرتے ہیں؟ جب آپ نے خود کو یہوؔواہ کیلئے مخصوص کیا تو کیا آپ نے سوچا تھا کہ ہرمجدون بہت نزدیک ہے؟ کیا یہوؔواہ کا صبر آپکی توقع سے زیادہ طویل رہا ہے؟ یاد رکھیں، ہم نے خود کو یہوؔواہ کیلئے ایک خاص وقت یا صرف ہرمجدون تک کیلئے مخصوص نہیں کیا تھا۔ ہماری مخصوصیت ابد تک رہتی ہے۔ پس، ”ہم نیک کام کرنے میں ہمت نہ ہاریں کیونکہ اگر بےدل نہ ہونگے تو عین وقت پر کاٹیں گے۔“—گلتیوں ۶:۹۔
۱۵. (ا) اسرائیلی کس کے خلاف بڑبڑائے؟ (ب) یہوؔواہ کیلئے ہماری مخصوصیت تھیوکریٹک اختیار کا احترام کرنے کیلئے ہمیں کیسے تحریک دیتی ہے؟
۱۵ آخر میں، پولسؔ نے یہوؔواہ کے مقررشُدہ خادموں کے خلاف ”بڑبڑانے والا“ بننے کی بابت آگاہ کیا۔ (۱-کرنتھیوں ۱۰:۱۰) اسرائیلی اسوقت موسیٰؔ اور ہاؔرون کے خلاف شدت سے بڑبڑائے جب ملکِکنعاؔن میں دریافت کرنے کیلئے بھیجے گئے ۱۲ میں سے ۱۰ جاسوس بُری خبریں لائے۔ انہوں نے تو اپنے پیشوا کے طور پر موسیٰؔ کو ہٹانے اور واپس مصرؔ جانے کے حق میں بھی باتیں کیں۔ (گنتی ۱۴:۱-۴) آجکل، کیا ہم یہوؔواہ کی روحالقدس کے ذریعے فراہمکردہ پیشوائی کو قبول کرتے ہیں۔ دیانتدار اور عقلمند نوکر جماعت کے ذریعے فراہمکردہ باافراط روحانی دسترخوان کو دیکھنے سے، یہ بات واضح ہے کہ یسوؔع ”وقت پر . . . کھانا“ دینے کیلئے کس کو استعمال کر رہا ہے۔ (متی ۲۴:۴۵) پورے دلوجان سے یہوؔواہ کیلئے مخصوصیت ہم سے تقاضا کرتی ہے کہ اسکے مقررکردہ خادموں کیلئے احترام دکھائیں۔ دعا ہے کہ ہم جدید زمانے کے بعض بڑبڑانے والوں کی طرح نہ بنیں جو علامتی طور پر نئے پیشوا کی طرف راغب ہو گئے ہیں، جو انکے واپس دنیا میں لوٹ جانے کا سبب بنا ہے۔
کیا یہ میری پوری کوشش ہے؟
۱۶. خدا کے مخصوصشُدہ خادم شاید خود سے کونسے سوالات پوچھنا چاہیں؟
۱۶ اسرائیلی ایسی سنگین غلطکاریوں میں نہ پڑے ہوتے اگر انہوں نے یاد رکھا ہوتا کہ یہوؔواہ کے لئے ان کی مخصوصیت غیرمشروط تھی۔ ان بےایمان اسرائیلیوں کے برعکس، یسوؔع مسیح نے آخر تک اپنی مخصوصیت کے مطابق زندگی بسر کی۔ مسیح کے پیروکاروں کے طور پر، ہم ”آدمیوں کی خواہشوں کے مطابق [نہیں] . . . بلکہ خدا کی مرضی کے مطابق،“ اپنی زندگیاں گزارتے ہوئے، پورے دلوجان سے اس کے عقیدتمندانہ نمونے کی نقل کرتے ہیں۔ (۱-پطرس ۴:۲؛ مقابلہ کریں ۲-کرنتھیوں ۵:۱۵۔) آجکل یہوؔواہ کی مرضی یہ ہے کہ ”سب آدمی نجات پائیں اور سچائی کی پہچان تک پہنچیں۔“ (۱-تیمتھیس ۲:۴) اس مقصد کے لئے، اس سے پیشتر کہ خاتمہ آئے، ہمیں ”بادشاہی کی اس خوشخبری“ کی منادی کرنا ہے۔ (متی ۲۴:۱۴) اس خدمت میں ہم کتنی کوشش کرتے ہیں؟ شاید ہم خود سے پوچھنا چاہیں، ’کیا یہ میری پوری کوشش ہے؟‘ (۲-تیمتھیس ۲:۱۵) حالات مختلف ہوتے ہیں۔ یہوؔواہ ”جو آدمی کے پاس ہے“ اُسکے موافق خدمت کرانے سے خوش ہوتا ہے نہ کہ ”جو اسکے پاس نہیں۔“ (۲-کرنتھیوں ۸:۱۲؛ لوقا ۲۱:۱-۴) کسی بھی شخص کو دوسرے کی مخصوصیت کی گہرائی اور خلوص کے متعلق رائے قائم نہیں کرنی چاہئے۔ ہر ایک کو شخصی طور پر یہوؔواہ کیلئے اپنی ذاتی عقیدت کی وسعت کا اندازہ لگانا چاہئے۔ (گلتیوں ۶:۴) یہوؔواہ کیلئے ہماری محبت کو ہمیں خود سے یہ سوال پوچھنے کی تحریک دینی چاہئے کہ ’میں یہوؔواہ کو کیسے خوش کر سکتا ہوں؟‘
۱۷. عقیدت اور قدردانی کے مابین کیا تعلق ہے؟ مثال دیکر سمجھائیں۔
۱۷ یہوؔواہ کیلئے ہماری عقیدت اُس وقت گہری ہوتی ہے جب اس کیلئے ہم اپنی قدردانی میں بڑھتے ہیں۔ جاپان میں ایک ۱۴ سالہ لڑکے نے خود کو یہوؔواہ کیلئے مخصوص کیا اور اس مخصوصیت کی علامت میں پانی میں بپتسمہ لیا۔ بعد میں، وہ اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کی کوشش جاری رکھنا اور ایک سائنسدان بننا چاہتا تھا۔ اس نے کُلوقتی خدمتگزاری کی بابت کبھی نہیں سوچا تھا، لیکن مخصوصشُدہ خادم کے طور پر، اس نے یہوؔواہ اور اسکی دیدنی تنظیم کو چھوڑنا نہ چاہا۔ اپنے پیشہوارانہ نصبالعین کو حاصل کرنے کیلئے، وہ یونیورسٹی گیا۔ وہاں پر اس نے یونیورسٹی سے فارغالتحصیل ہونے والوں کو اپنی کمپنیوں یا اپنی پڑھائی کیلئے اپنی پوری زندگی کو مخصوص کرنے کیلئے مجبور کئے جاتے دیکھا۔ اس نے سوچا، ’میں یہاں کیا کر رہا ہوں؟ کیا میں حقیقت میں انکی طرح کی طرزِزندگی کی جستجو کر سکتا اور خود کو دنیاوی کام کیلئے مخصوص کر سکتا ہوں؟ کیا میں پہلے ہی سے یہوؔواہ کیلئے مخصوص نہیں ہوں؟‘ قدردانی کی تجدید کیساتھ، وہ ریگولر پائنیر بن گیا۔ اپنی مخصوصیت کی بابت اسکی سمجھ گہری ہو گئی اور اسے اپنے دل میں فیصلہ کرنے کی تحریک دی کہ وہاں جائے جہاں اسکی ضرورت تھی۔ اس نے منسٹریل ٹریننگ سکول سے تربیت حاصل کی اور غیر ملک میں مشنری کے طور پر تفویض حاصل کی۔
۱۸. (ا) یہوؔواہ کیلئے ہماری مخصوصیت میں کتنا کچھ شامل ہے؟ (ب) یہوؔواہ کیلئے اپنی مخصوصیت سے ہم کیا اجر حاصل کر سکتے ہیں؟
۱۸ مخصوصیت میں ہماری پوری زندگی شامل ہے۔ ضرور ہے کہ ہم خودی کا انکار کریں اور ”ہر روز“ یسوؔع کے عمدہ نمونے کی پیروی کریں۔ (لوقا ۹:۲۳) خودی کا انکار کرنے پر، ہم یہوؔواہ سے چھٹی یا طویل رخصت نہیں مانگ سکتے۔ ہماری زندگیاں ان اصولوں کے مطابق ہوتی ہیں جو یہوؔواہ اپنے خادموں کے لئے قائم کرتا ہے۔ ایسے حلقوں میں بھی جہاں ہم ذاتی انتخاب کر سکتے ہیں یہ دیکھنا ہمارے لئے فائدہمند ہے کہ آیا ہم یہوؔواہ کے لئے مخصوص زندگی بسر کرنے کے لئے اپنی پوری کوشش کر رہے ہیں۔ جب ہم اسے خوش کرنے کے لئے اپنی پوری کوشش کرتے ہوئے، روزبروز اس کی خدمت کرتے ہیں تو ہم مسیحیوں کے طور پر کامیاب ہونگے اور یہوؔواہ کی خوشنودی کی برکت پائیں گے جو ہماری پورے دلوجان سے عقیدت کا مستحق ہے۔ (۱۴ ۳/۰۱ w۹۵)
کیا آپ وضاحت کر سکتے ہیں؟
▫ یسوؔع مسیح کے لئے مخصوصیت میں کیا کچھ شامل تھا؟
▫ ہمیں یہوؔواہ کے خلاف بڑبڑانے سے کیوں بچنا چاہئے؟
▫ کس طریقے سے ہم بُتپرستی کو اپنی زندگیوں میں عیارانہ طریقے سے سرایت کرنے کی اجازت دینے سے گریز کر سکتے ہیں؟
▫ کس بات کو یاد رکھنا ہماری مدد کریگا کہ خدا کی مرضی پوری کرنے میں ”بےدل“ نہ ”ہوں“؟
[تصویر]
مخصوصشُدہ مسیحی ”نیک کام کر نے میں ہمت نہیں ہار تے“