بعدازموت زندگی—لوگ کیا ایمان رکھتے ہیں؟
”اگر آدمی مر جائے تو کیا وہ پھر جئے گا؟“—ایوب ۱۴:۱۴۔
۱، ۲. بہتیرے موت کے باعث اپنے عزیزوں کو کھو دینے کے بعد تسلی حاصل کرنے کی کوشش کیسے کرتے ہیں؟
نیو یارک شہر کی ایک جنازہگاہ میں دوستاحباب اور خاندان کے افراد ایک ۱۷سالہ لڑکے کی میت کے کھلے تابوت کے پاس خاموشی سے قطار باندھے کھڑے ہیں جسکی جوان زندگی کینسر سے ختم ہوگئی۔ دلشکستہ ماں بار بار یہ کہتی ہے: ”ٹامی اب خوش ہے۔ خدا ٹامی کو آسمان پر بلانا چاہتا تھا۔“ اُسے یہی اعتقاد رکھنے کی تعلیم دی گئی ہے۔
۲ کوئی ۷،۰۰۰ میل دور، جامگڑھ، انڈیا میں، تین بیٹوں میں سے سب سے بڑا اپنے مُتوَفّی باپ کی چتا کو آگ دیتا ہے۔ برہمن آگ کی چرچراہٹ پر سنسکرت میں یہ منتر پڑھتا ہے: ”خدا کرے کہ کبھی نہ مرنے والی جان حقیقتِاصلیہ کے ساتھ ایک ہو جانے کی اپنی کوششیں جاری رکھے۔“
۳. کن سوالات پر لوگ صدیوں سے غور کرتے آئے ہیں؟
۳ ہمارے چاروں طرف موت کی حقیقت موجود ہے۔ (رومیوں ۵:۱۲) ہمارے لئے یہ سوچنا عام بات ہے کہ کیا موت ہی حتمی انجام ہے۔ پودوں کے قدرتی چکر پر روشنی ڈالتے ہوئے، یہوواہ خدا کے ایک قدیم وفادار خادم ایوب نے بیان کِیا: ”درخت کی تو اُمید رہتی ہے کہ اگر وہ کاٹا جائے گا تو پھر پھوٹ نکلے گا اور اُس کی نرم نرم ڈالیاں موقوف نہ ہونگی۔“ تاہم، انسانوں کی بابت کیا ہے؟ ”اگر آدمی مر جائے تو کیا وہ پھر جئے گا؟“ ایوب نے پوچھا۔ (ایوب ۱۴: ۷، ۱۴) صدیوں کے دوران ہر معاشرے کے لوگوں نے اس سوال پر سوچبچار کِیا ہے: کیا موت کے بعد زندگی ہے؟ اگر ایسا ہے تو کس قسم کی زندگی؟ پس لوگ کیا ایمان رکھتے ہیں؟ اور کیوں؟
ایک سوال کئی جواب
۴. مختلف مذاہب کے لوگ بعدازموت زندگی کی بابت کیا ایمان رکھتے ہیں؟
۴ بہتیرے نامنہاد مسیحی ایمان رکھتے ہیں کہ موت کے بعد لوگ یا تو بہشت میں یا پھر دوزخ میں جاتے ہیں۔ اسکے برعکس، ہندو تناسخ پر ایمان رکھتے ہیں۔ اسلامی نظریے کے مطابق موت کے بعد یومِحساب ہوگا جب اللّٰه ہر شخص کی روشِزندگی کو حساب میں لائیگا اور لوگوں کو جنت میں جگہ دیگا یا پھر دوزخ کی آگ میں ڈالیگا۔ بعض ممالک میں مُردوں کی بابت اعتقادات مقامی روایات اور نامنہاد مسیحیت کا عجیب امتزاج ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر، سریلنکا میں بدھسٹ اور کیتھولک دونوں ہی اپنے خاندان میں کسی کی موت واقع ہونے کی صورت میں دروازے اور کھڑکیاں کُھلی رکھتے ہیں اور تابوت کو اسطرح رکھتے ہیں کہ مُتوَفّی کے پاؤں کا رُخ سامنے دروازے کی طرف ہو۔ وہ یقین رکھتے ہیں کہ یہ اقدام مُتوَفّی کی روح یا جان کے باہر نکلنے کو آسان بنا دیتے ہیں۔ مغربی افریقہ میں بہت سے کیتھولک اور پروٹسٹنٹ لوگوں میں، کسی شخص کی وفات پر آئینوں کو ڈھانپ دینے کا رواج ہے تاکہ کوئی شخص آئینہ دیکھتے وقت مُردہ شخص کی روح کو نہ دیکھ لے۔ پھر عزیز کی موت کے ۴۰ دن کے بعد، خاندان اور دوستاحباب جان کے آسمان پر چلے جانے کا جشن مناتے ہیں۔
۵. بیشتر مذاہب کس بنیادی عقیدے پر متفق ہیں؟
۵ مختلف اعتقادات کے باوجود، ایسا لگتا ہے کہ بیشتر مذاہب ایک بنیادی نظریے پر متفق ہیں۔ وہ ایمان رکھتے ہیں کہ ایک شخص کے اندر کوئی نہ کوئی چیز ضرور ہوتی ہے—جسے جان، روح یا آتما کہا جا سکتا ہے—جو غیرفانی ہے اور جسم کی موت کے بعد بھی زندہ رہتی ہے۔ دُنیائےمسیحیت کے سینکڑوں مذاہب اور فرقے جان کی غیرفانیت کے عقیدے کی حمایت کرتے ہیں۔ یہ یہودیت کا بھی باضابطہ عقیدہ ہے۔ ہندومت میں تناسخ کی تعلیم کی بنیاد بھی یہی عقیدہ ہے۔ مسلمان بھی ایمان رکھتے ہیں کہ روح بدن کے مرنے کے بعد زندہ رہتی ہے۔ آسڑیلوی ابریجنی افریقی مظاہرپرست، شنتوئی، سب بدھسٹ بھی اس ایک موضوع پر فرق فرق تعلیم دیتے ہیں۔
۶. بعض عالم جان کی غیرفانیت کے نظریے کو کیسا خیال کرتے ہیں؟
۶ اسکے برعکس، ایسے لوگ بھی ہیں جو یہ نظریہ رکھتے ہیں کہ موت کے وقت شعوری زندگی ختم ہو جاتی ہے۔ اُن کے نزدیک جذبات اور عقلودانش کی حامل زندگی کا بدن سے الگ کسی سایہدار، لاشخصی جان کی صورت میں جاری رہنے کا نظریہ بالکل بعیدازقیاس ہے۔ ۲۰ویں صدی کا ہسپانوی مفکر میگویل ڈیاُنامونو لکھتا ہے: ”جان کی غیرفانیت پر ایمان رکھنے کا مطلب یہ آرزو کرنا ہے کہ شاید جان غیرفانی ہے مگر ایسے یقین کیساتھ اس کی آرزو کرنے پر آمادگی عقلودانش کو پامال کرتی ہوئی دور نکل جاتی ہے۔“ ایسا ہی ایمان رکھنے والوں میں قدیم نامور فلسفی ارسطو اور اپیکورس، حکیم بقراط، سکاٹلینڈ کے فلسفی ڈیوڈ ہیوم، عربی مفکر ابنِرُشد اور آزادی کے بعد پہلے بھارتی وزیرِاعظم جواہر لال نہرو کا نام شامل ہے۔
۷. جان کی غیرفانیت کے عقیدہ کی بابت کونسے اہم سوالات پر اب غور کِیا جانا چاہئے؟
۷ ایسے نظریات اور اعتقادات کا سامنا کرتے ہوئے، ہمیں پوچھنا چاہئے: کیا ہم واقعی ایک غیرفانی جان رکھتے ہیں؟ درحقیقت اگر جان غیرفانی نہیں ہے تو پھر ایسی غلط تعلیم آجکل کے اتنے زیادہ مذاہب کا جزوِلازم کیونکر ہو سکتی ہے؟ اس نظریے کی ابتدا کہاں سے ہوئی؟ ان سوالات کا صحیح اور تسلیبخش جواب حاصل کرنا نہایت ضروری ہے کیونکہ ہمارے مستقبل کا انحصار اس پر ہے۔ (۱-کرنتھیوں ۱۵:۱۹) تاہم سب سے پہلے اس بات کا جائزہ لینا چاہئے کہ جان کی غیرفانیت کے عقیدے کی ابتدا کیسے ہوئی تھی۔
عقیدے کی ابتدا
۸. سقراط اور افلاطون نے جان کے غیرفانی ہونے کے نظریے کو فروغ دینے میں کیا کردار ادا کِیا؟
۸ پانچویں صدی ق.س.ع. کے یونانی فلسفی سقراط اور افلاطون کو سب سے پہلے غیرفانی جان کے عقیدے کو ترقی دینے کا اعزاز حاصل ہے۔ تاہم، وہ اسکے بانی نہیں تھے۔ اسکے برعکس، اُنہوں نے اس نظریے کو حتمی شکل دی اور اسے ایک فلسفیانہ تعلیم میں تبدیل کر کے اسے اپنے اور بعد کے زمانے کے مہذب طبقات کیلئے زیادہ پُرکشش بنا دیا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ قدیم فارس کے زرتشتی مذہب کے لوگ اور اُن سے بھی پہلے مصری جان کی غیرفانیت پر ایمان رکھتے تھے۔ تاہم سوال یہ ہے کہ پھر اس تعلیم کا ماخذ کیا ہے؟
۹. مصر، ایران اور یونان کی قدیم ثقافتوں پر مشترکہ اثر کا ماخذ کِیا تھا؟
۹ کتاب دی ریلجن آف بیبلونیا اینڈ اسیریا کہتی ہے، ”قدیم زمانہ میں مصر، فارس اور یونان بابلی مذہب سے متاثر تھے۔“ مصری مذہبی عقائد کے متعلق کتاب مزید بیان کرتی ہے: ” مصر اور بابل کے مابین ابتدائی تعلق کے پیشِنظر جیسےکہ العمارنہ تختیوں سے آشکارا ہے، بابلی نظریات اور رسمورواج کے مصری مسالک میں سرایت کر جانے کے امکانات یقیناً بہت زیادہ تھے۔“a قدیم فارسی اور یونانی ثقافتوں کے بارے میں بھی یہی کچھ کہا جا سکتا ہے۔
۱۰. بعدازموت زندگی کی بابت بابلی نظریہ کیا تھا؟
۱۰ تاہم کیا قدیم بابلی جان کی غیرفانیت پر ایمان رکھتے تھے؟ یونیورسٹی آف پینسلوانیا، یو.ایس.اے. کے پروفیسر مورس جیسٹرو، جونیئر نے لکھا: ”[بابلی] مذہبی نظریات کے حامی لوگوں اور پیشواؤں نے ایک مرتبہ وجود میں آ جانے والی زندگی کے مکمل خاتمے کی بابت کبھی سوچا بھی نہیں تھا۔ [اُنکے خیال میں] موت ایک دوسری زندگی میں داخل ہونے کا راستہ تھی اور [موجودہ زندگی کی] غیرفانیت سے انکار نے محض اس بات پر زور دیا کہ موت کے ذریعے زندگی میں آنے والی تبدیلی سے بچنا ناممکن ہے۔“ مزیدبرآں، بابلی یہ ایمان رکھتے تھے کہ موت کے بعد بھی زندگی کسی نہ کسی صورت میں جاری رہتی ہے۔ اُنہوں نے مُردہ شخص کے ساتھ آئندہ زندگی میں استعمال کے لئے چیزیں دفن کرنے سے اس کا اظہار کِیا۔
۱۱، ۱۲. طوفان کے بعد، جان کی غیرفانیت کے عقیدے کی ابتدا کہاں سے ہوئی؟
۱۱ واضح طور پر، جان کی غیرفانیت کی تعلیم کی اصل قدیم بابل ہے۔ کیا اسکی کوئی اہمیت ہے؟ یقیناً بائبل کے مطابق، نوح کے پڑپوتے نمرود نے بابل کے شہر کی بنیاد ڈالی تھی۔ نوح کے زمانے کے عالمگیر طوفان کے بعد، تمام لوگ ایک ہی زبان بولتے تھے اور اُنکا ایک ہی مذہب تھا۔ نمرود نہ صرف ”یہوواہ کا مخالف“ تھا بلکہ اُس نے اور اُس کے پیروکاروں نے ایک ”نام پیدا کرنا“ چاہا تھا۔ لہٰذا شہر کی بنیاد ڈالنے اور وہاں ایک بُرج بنانے سے نمرود نے ایک فرق مذہب کی بنیاد ڈالی۔—پیدایش ۱۰:۱، ۶ ۸-۱۰ اینڈبلیو؛ ۱۱:۱-۴۔
۱۲ ایک روایت کے مطابق نمرود پُرتشدد موت مرا۔ اُس کی وفات کے بعد بابلی معقول طور پر اُسے اپنے شہر کے بانی، معمار اور پہلے بادشاہ کے طور پر بہت عزتواحترام دینے کی طرف مائل ہو گئے ہونگے۔ مردوک (مرودک) دیوتا کو بابل کا بانی خیال کئے جانے کی وجہ سے بہت سے بابلی بادشاہوں کے نام اُس کے نام پر رکھے گئے تھے اسلئے بعض مفکرین کا خیال ہے مردوک درحقیقت نمرود ہی کی نمائندگی کرتا ہے جسے معبود کا رتبہ دے دیا گیا تھا۔ (۲-سلاطین ۲۵:۲۷؛ یسعیاہ ۳۹:۱؛ یرمیاہ ۵۰:۲) اگر ایسا ہے تو موت کے بعد انسانی جان کے زندہ رہنے کا نظریہ لازمی طور پر نمرود کی موت کے وقت مقبول ہوگا۔ بہرصورت، تاریخ کے اوراق شاہد ہیں کہ طوفان کے بعد، جان کی غیرفانیت کی تعلیم کی ابتدا کا مقام بابل ہی تھا۔
۱۳. غیرفانی جان کی تعلیم رویِزمین پر کیسے پھیل گئی اور کس نتیجہ کے ساتھ؟
۱۳ بائبل مزید آشکارا کرتی ہے کہ خدا نے بابل کا برج بنانے والوں کی زبانوں میں اختلاف ڈال کر اُن کی کوششوں کو روک دیا۔ جب وہ ایک دوسرے کے ساتھ گفتگو کرنے کے قابل نہ رہے تو وہ اپنا منصوبہ چھوڑ کر ”وہاں سے تمام رویِزمین پر پراگندہ“ ہو گئے۔ (پیدایش ۱۱:۵-۹) ہمیں یہ ذہن میں رکھنا چاہئے کہ بُرج بنانے والوں کی زبان میں تو اختلاف ڈال دیا گیا تھا مگر اُن کے نظریات اور خیالات وہی تھے۔ نتیجتاً جہاں کہیں وہ گئے اُن کے مذہی نظریات اُن کے ساتھ ساتھ ہی رہے۔ اس طرح سے جان کی غیرفانیت کی تعلیم سمیت بابلی مذہبی تعلیمات تمام رویِزمین پر پھیل گئیں اور دُنیا کے بڑے مذاہب کی بنیاد بن گئیں۔ یوں جھوٹے مذہب کی عالمی مملکت معرضِوجود میں آئی جسے موزوں طور پر بائبل میں ”بڑا شہر بابلؔ۔ کسبیوں اور زمین کی مکروہات کی ماں“ کہا گیا ہے۔—مکاشفہ ۱۷:۵۔
جھوٹے مذہب کی عالمی مملکت مشرق کا رُخ کرتی ہے
۱۴. بابلی مذہبی عقائد برِصغیر پاکوہند میں کیسے پھیل گئے؟
۱۴ بعض مؤرخین کا خیال ہے کہ ۳،۵۰۰ سال پہلے، ہجرت کی ایک لہر زرد رنگت والے آریائی لوگوں کو شمالمغرب سے دریائے سندھ کی وادی تک لے آئی جو اب بڑی حد تک پاکستان اور انڈیا میں واقع ہے۔ وہاں سے وہ دریائے گنگا کے میدانوں اور سارے انڈیا میں پھیل گئے۔ بعض ماہرین کے مطابق نقلمکانی کرنے والوں کے مذہبی نظریات قدیم ایرانی اور بابلی تعلیمات پر مبنی تھے۔ بعدازاں یہی مذہبی نظریات ہندومت کی بنیاد بن گئے۔
۱۵. جان کی غیرفانیت کے نظریے نے موجودہ ہندومت کو کیسے متاثر کِیا؟
۱۵ انڈیا میں غیرفانی جان کے نظریے نے عقیدۂتناسخ کی صورت اختیار کر لی۔ انسانوں میں بُرائی اور تکلیف کے عالمگیر مسئلے سے دوچار ہندو ویدوں نے کرما، علتومعلول کا قانون ترتیب دیا۔ اس قانون کو جان کی غیرفانیت سے ملاکر اُنہوں نے تناسخ کی تعلیم کو تشکیل دیا جس میں ایک جنم کے نیک کاموں اور گناہوں کی سزا یا جزا دوسرے جنم میں ملتی ہے۔ وفادار لوگوں کا انعام موکش یا بار بار جنم لینے کے چکر سے نجات حاصل کرنا اور حقیقتِاصلیہ کے ساتھ ایک ہو جانا ہے جسے نروان بھی کہا جاتا ہے۔ صدیوں کے دوران ہندومت کے پھیلنے کے ساتھ ساتھ تناسخ کی تعلیم بھی پھیل گئی ہے۔ یوں یہ عقیدہ آجکل کے ہندومت کا اہم ستون بن گیا ہے۔
۱۶. آئندہ زندگی کی بابت کونسا نظریہ مشرقی ایشیا کی وسیع آبادی کے مذہبی نظریات کو متاثر کرتا ہے؟
۱۶ ہندومت سے دیگر مذاہب جیسےکہ بدھمت، جینمت اور سکھمت نے جنم لیا۔ یہ سب بھی تناسخ پر ایمان رکھتے ہیں۔ مزیدبرآں جب، بدھمت نے مشرقی ایشیا—چین، کوریا، جاپان اور دیگر جگہوں—پر فروغ پایا تو اس نے پورے علاقے کی ثقافت اور مذہب پر بہت گہرا اثر ڈالا۔ اس کے نتیجے میں ایسے مذاہب منظرِعام پر آئے جو بدھمت، ارواح پرستی اور آباؤاجداد کی پرستش جیسے عناصر سمیت مختلف اعتقادات کے امتزاج کی عکاسی کرتے ہیں۔ ان میں تاؤازم، کنفیوشسازم اور شنتو سب سے زیادہ اثرورسوخ رکھتے ہیں۔ اس طرح جسم کے مرنے کے بعد بھی زندگی کے جاری رہنے کا عقیدہ دُنیا کے اس حصے میں آباد انسانوں کی اکثریت کی مذہبی سوچ اور رسمورواج پر مسلّط ہو گیا ہے۔
یہودیت، مسیحیت اور اسلام کی بابت کیا ہے؟
۱۷. قدیم یہودی بعدازموت زندگی کی بابت کیا یقین رکھتے تھے؟
۱۷ یہودیت، مسیحیت اور اسلام کے مذاہب کی پیروی کرنے والے لوگ موت کے بعد زندگی کی بابت کیا ایمان رکھتے ہیں؟ یہودیت ان مذاہب میں سب سے زیادہ قدیم ہے۔ اسکی جڑیں تقریباً ۴،۰۰۰ سال پہلے—سقراط اور افلاطون کے جان کی غیرفانیت کے نظریے کو تشکیل دینے سے بھی کہیں پہلے—ابرہام کے وقت سے جا ملتی ہیں۔ قدیم یہودی انسان کی پیدائشی غیرفانیت کی بجائے مُردوں کی قیامت پر یقین رکھتے تھے۔ (متی ۲۲:۳۱، ۳۲؛ عبرانیوں ۱۱:۱۹) تاہم جان کی غیرفانیت کا عقیدہ یہودیت میں کیسے شامل ہو گیا؟ تاریخ جواب فراہم کرتی ہے۔
۱۸، ۱۹. جان کی غیرفانیت کا عقیدہ یہودیت میں کس طرح داخل ہوا؟
۱۸ یونان کے سکندرِاعظم نے ۳۳۲ ق.س.ع. میں مشرقِوسطیٰ کو فتح کِیا جس میں یروشلیم بھی شامل تھا۔ جب سکندر کے جانشینوں نے یونانی ثقافت کو پھیلانے کے اُسکے پروگرام کو جاری رکھا تو دو ثقافتوں—یہودی اور یونانی—کا امتزاج وقوع میں آیا۔ وقت آنے پر یہودی یونانی سوچ سے آشنا ہو گئے اور بعض تو فلسفی بھی بن گئے۔
۱۹ پہلی صدی ق.س.ع. میں سکندریہ کا فیلو ایک ایسا ہی یہودی فلسفی تھا۔ وہ افلاطون کا بیحد احترام کرتا تھا اور اُس نے یہودیت کو یونانی فلسفے کی اصطلاحات میں بیان کرنے کی کوشش کرتے ہوئے بعد کے یہودی مفکروں کیلئے راہ ہموار کر دی۔ تالمود—ربیوں کی زبانی شریعت کی تحریری تفاسیر—بھی یونانی سوچ سے متاثر ہوئی ہے۔ انسائیکلوپیڈیا جوڈیکا بیان کرتا ہے، ”تالمود کے ربی موت کے بعد جان کے مسلسل زندہ رہنے پر ایمان رکھتے تھے۔“ بعدازاں یہودی صوفیانہ ادب، جیسےکہ کبالا، تناسخ کی تعلیم بھی دینے لگا۔ یوں جان کی غیرفانیت کے نظریے کو یونانی فلسفے کے ذریعے چپکے سے یہودیت میں داخل ہونے کا موقع مل گیا۔ اس تعلیم کے مسیحیت میں داخل ہونے کی بابت کیا کہا جا سکتا ہے؟
۲۰، ۲۱. (ا) افلاطونی یا یونانی فلسفے کے بارے میں ابتدائی مسیحی کس نظریے کے حامل تھے؟ (ب) کیا چیز مسیحی تعلیمات اور افلاطون کے نظریات کے امتزاج کا سبب بنی؟
۲۰ اصلی مسیحیت کا آغاز یسوع مسیح کیساتھ ہوا۔ میگویل ڈیاُنامونو نے، جسکا پہلے حوالہ دیا گیا، یسوع کی بابت لکھا: ”وہ [یونانی] افلاطونی طریق کے مطابق جان کے غیرفانی ہونے کی بجائے یہودی طریق کے مطابق، بدن کی قیامت پر ایمان رکھتا تھا۔“ آخر میں اُس نے کہا: ”جان کا غیرفانی ہونا . . . ایک مُلحد فلسفیانہ عقیدہ ہے۔“ اس کے پیشِنظر، ہم دیکھ سکتے ہیں کہ پولس نے کیوں پہلی صدی کے مسیحیوں کو ایسی ”فیلسوفی اور لاحاصل فریب سے شکار“ نہ ہونے کے خلاف سختی سے آگاہ کِیا تھا ”جو انسانوں کی روایت اور دُنیوی ابتدائی باتوں کے موافق ہیں نہ کہ مسیح کے موافق۔“—کلسیوں ۲:۸۔
۲۱ یہ ”مُلحد فلسفیانہ عقیدہ“ کب اور کیسے مسیحیت میں سرایت کر گیا؟ دی نیو انسائیکلوپیڈیا بریٹینیکا وضاحت کرتا ہے: ”دوسری صدی عیسوی کے وسط سے لیکر یونانی فلسفے کی تھوڑی بہت تربیت حاصل کرنے والے مسیحی اپنی ذہنی تسکین اور تعلیمیافتہ غیرقوم لوگوں کو مسیحی بنانے کی غرض سے اپنے ایمان کو یونانی فلسفے میں ڈھالنے کی ضرورت محسوس کرنے لگے۔ اُنہیں افلاطون کا فلسفہ سب سے زیادہ معقول لگا۔“ مسیحیت کے عقائد کو بہت زیادہ متاثر کرنے والے ایسے ہی دو ابتدائی فلاسفر سکندریہ کا آریگن اور ہپو کا آگسٹین تھے۔ دونوں افلاطون کے نظریات سے بہت متاثر تھے اور یہی ان نظریات کو مسیحی تعلیمات میں شامل کرنے کا ذریعہ بنے۔
۲۲. جان کی غیرفانیت کی تعلیم اسلام میں کیسے ممتاز رہی ہے؟
۲۲ اگرچہ یہودیت اور مسیحیت میں جان کی غیرفانیت کا عقیدہ افلاطونی اثر کا نتیجہ ہے، تاہم اسلام میں یہ نظریہ اسکی ابتدا سے ہی شامل ہے۔ قرآن، اسلام کی مُقدس کتاب، یہ سکھاتا ہے کہ آدمی ایک جان رکھتا ہے جو موت کے بعد زندہ رہتی ہے۔ یہ بتاتا ہے کہ جان کی آخری منزل یا تو آسمانی بہشت میں زندگی ہے یا پھر آتشی دوزخ میں سزا ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ عرب مفکرین نے اسلامی تعلیمات اور یونانی فلسفے کو ہمآہنگ کرنے کی کوشش نہیں کی۔ درحقیقت، دنیائےعرب ارسطو کے نظریات سے کسی حد تک متاثر تھی۔ تاہم، جان کی غیرفانیت مسلمانوں کا ایمان ہے۔
۲۳. اگلے مضمون میں بعدازموت زندگی کے بارے میں سوچ کو اُبھارنے والے کن سوالات پر غور کِیا جائیگا؟
۲۳ واضح طور پر، دُنیا بھر کے مذاہب نے جان کے غیرفانی ہونے کی تعلیم پر مبنی آئندہ زندگی کی بابت بہتیرے پریشانکُن عقائد بنا لئے ہیں۔ نیز ایسے عقائد لوگوں پر اثرانداز ہوئے ہیں، جیہاں، لاکھوں کو مغلوب کر کے اُنہیں غلام بنا لیا ہے۔ اس سب کا سامنا کرتے ہوئے ہم یہ سوال پوچھنے پر مجبور ہو جاتے ہیں: ہمارے مرنے کے بعد جو کچھ واقع ہوتا ہے کیا اُس کی بابت سچائی جاننا ممکن ہے؟ کیا موت کے بعد بھی زندگی ہے؟ بائبل اس کی بابت کیا کہتی ہے؟ اس پر اگلے مضمون میں غور کِیا جائے گا۔
[فٹنوٹ]
a العمارنہ مصری شہر اخیتاتون کے کھنڈرات کا مقام ہے جسکی بابت دعویٰ کِیا جاتا ہے کہ یہ ۱۴ویں صدی ق.س.ع. میں تعمیر کِیا گیا تھا۔
کیا آپ وضاحت کر سکتے ہیں؟
◻بعدازموت زندگی کی بابت بیشتر مذاہب کے عقائد کا مشترک موضوع کیا ہے؟
◻تاریخ اور بائبل غیرفانی جان کے عقیدے کی ابتدا کے سلسلے میں قدیم بابل کی نشاندہی کیسے کرتی ہیں؟
◻کن طریقوں سے مشرقی مذاہب جان کی غیرفانیت کے بابلی عقیدے سے متاثر ہوئے ہیں؟
◻جان کی غیرفانیت کی تعلیم یہودیت، مسیحیت اور اسلام میں کیسے داخل ہوئی؟
[صفحہ 12، 13 پر تصویریں]
سکندرِاعظم کی فتح یونانی اور یہودی ثقافتوں کے امتزاج کا باعث بنی
آگسٹین نے افلاطونی فلسفے کو مسیحیت کیساتھ ملانے کی کوشش کی
[تصویروں کے حوالہجات]
Alexander: Musei Capitolini, Roma; Augustine: From the book
Great Men and Famous Women