’دلودماغ میں تجسّس کی آگ‘
”از دیئر اے کریئٹر ہو کیئرز اباؤٹ یو؟ کا مطالعہ کرنے سے حاصل ہونے والی خوشی اور ہیجان کو مَیں الفاظ میں بیان نہیں کر سکتی جو ہر لمحہ بڑھتی ہی جاتی ہے۔ یہ ایک شخص میں مزید علم حاصل کرنے کی خواہش کی بجائے ایک ضرورت پیدا کر دیتی ہے۔ میرے دلودماغ میں تجسّس کی آگ بھڑکانے کیلئے آپ کا شکریہ۔“
شمالی کیرولینا، یو.ایس.اے. سے ایک یہوواہ کی گواہ نے ۱۹۹۸/۱۹۹۹ کے دوران منعقد ہونے والے ”زندگی کی خدائی راہ“ ڈسٹرکٹ کنونشنوں پر واچ ٹاور سوسائٹی کی طرف سے ریلیز ہونے والی کتاب کی بابت کچھ اس طرح سے اظہارِخیال کِیا۔ اگر آپ کے پاس کتاب کی کاپی نہ بھی ہو توبھی دیگر لوگوں کے اظہارات پر غور کیجئے۔
سان ڈیگو، کیلیفورنیا، یو.ایس.اے. کے کنونشن پر اپنی کاپی حاصل کرنے کے کئی دن بعد، ایک آدمی نے لکھا: ”میرے لئے یہ کتاب ایمان کیلئے بڑی تقویتبخش ثابت ہوئی ہے۔ اس نے میرے دل کو یہوواہ کے تخلیقی کاموں کیلئے گہری قدردانی سے معمور کر دیا ہے۔ مَیں ۹۸ صفحے تک پہنچ گیا ہوں اور مَیں اُس دن کا سامنا بالکل نہیں کرنا چاہتا جب مَیں اس کے اختتام کو پہنچوں گا! یہ واقعی اطمینانبخش ہے۔“
ایک مشرقی خاتون نے لکھا: ”کنونشن پر مقرر نے ’ایک لاثانی کتاب‘ کی اصطلاح استعمال کی اور یہ اصطلاح واقعی نفسِمضمون کے مطابق ہے۔ اس کتاب کا نمایاں پہلو یہ ہے کہ یہ قاری کو خدا کے وجود کو تسلیم کرنے کے لئے مجبور نہیں کرتی بلکہ یہ حقائق پیش کرتی ہے۔“
ان حقائق میں ہماری کائنات، زندگی اور ہماری اپنی ذات کی بابت دلکش سائنسی دریافتیں شامل ہیں۔ اس سے بہتیرے متاثر ہوئے ہیں۔ کیلیفورنیا سے ایک خاتون نے لکھا، ”مَیں یہ بیان ہی نہیں کر سکتی کہ اس چھوٹی سی کتاب نے مجھے کسقدر متاثر کِیا ہے۔ ہر صفحہ ہماری کائنات اور خود زندگی کی بابت ایسی نئی نئی دریافتوں کا انکشاف کرتا ہے کہ کتاب بند کرنے کو دل ہی نہیں چاہتا۔ مَیں نے واقعی بہت کچھ سیکھ لیا ہے! مَیں اس کتاب کو سنبھال کر رکھونگی اور زیادہ سے زیادہ لوگوں کو اس کی معلومات سے روشناس کرانے کی کوشش کرونگی۔“
خالق کی شخصیت کو اُجاگر کرتے ہوئے یہ کتاب جس طریقے سے بائبل کا خاکہ پیش کرتی ہے وہ بھی بہتیروں کو اچھا لگتا ہے۔ ایک خاص تبصرہ یہ ہے، ”کتاب کے آخر پر پیشکردہ بائبل کا جائزہ اُن سب سے بہترین ہے جنہیں مَیں نے کبھی پڑھا ہے۔“ نیو یارک یو.ایس.اے. میں پہلے کنونشن کے اختتام پر ایک دوسری خاتون نے لکھا: ”آپکی شائعکردہ تمام مطبوعات میں سے نئی ریلیز سب سے زیادہ جاذبِتوجہ ہے۔ مَیں تو خالق کے وجود کی بابت سائنسی ثبوتوں کی شیدائی ہو گئی۔ بائبل کا جامع خاکہ ہی زیرِبحث نکتے کی وضاحت اور مزید پڑھنے کی خواہش پیدا کرنے کیلئے کافی ہے۔“
قابلِفہم سائنس
پہلے ابواب میں پیش کی جانے والی سائنسی معلومات شاید بوکھلا دینے والی معلوم ہوں مگر چند خاص تبصرے پیشِخدمت ہیں۔
ایک کنیڈین آدمی نے لکھا: ”یہ اُن ٹیکنیکل کُتب سے کتنی مختلف ہے جن کے مصنّفین بڑے بڑے الفاظ استعمال کرکے ہمیں متاثر کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ طبیعیات، کیمیا، ڈیایناے، کروموسومز جیسے موضوعات کو ہمارے لئے اسقدر قابلِفہم بنانے میں آپ کی علمیت واقعی غیرمعمولی ہے۔ کاش یونیورسٹی کی وہ کتابیں آپ نے لکھی ہوتیں جو مَیں نے برسوں پہلے پڑھی تھیں!“
ایک یونیورسٹی کے طبیعیات کے پروفیسر نے لکھا: ”[یہ] تکنیکی تفصیلات میں پڑے بغیر زیرِبحث مسائل کو واضح انداز میں پیش کرتی ہے۔ کتاب قاری کیساتھ استدلال کرتی ہے اور بہتیرے نامور سائنسدانوں کا حوالہ دیتی ہے۔ کائنات اور زندگی کی ابتدا میں دلچسپی رکھنے والے کسی بھی شخص کو خواہ وہ سائنسدان ہو یا عام آدمی، اسے ’ضرور پڑھنا‘ چاہئے۔“
نرسنگ کی تربیت حاصل کرنے والی ایک نوجوان خاتون نے تبصرہ کِیا: ”میری تو آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں جب مَیں نے اس کتاب کے باب ۴ کو کھولا اور اُس اقتباس کو پڑھا جو اس کتاب میں سے تھا جسے ہم اپنی جماعت میں استعمال کر رہے ہیں! مَیں نے یہ کتاب اپنے پروفیسر کو دی اور اُسے بتایا کہ مجھے معلوم ہے کہ آپ ان معلومات کو تازگی بخش پائینگے۔ مَیں نے اُسے دماغ کی بابت صفحہ ۵۴ دکھایا۔ اُس نے اُسے پڑھا اور کہا: ’یہ بہت دلچسپ ہے! مَیں ضرور اسکی تحقیق کرونگا۔‘“
بیلجیئم میں پارلیمنٹ کے ایک رُکن نے کہا: ”جس بات نے مجھے حیران اور گرویدہ کِیا وہ سائنسی وضاحت تھی جو یہ ثابت کرتی ہے کہ جدید سائنس بائبل کے عقیدۂوحدانیت کے خلاف نہیں بلکہ اسکی حمایت میں ہے۔ یہ ایک غورطلب نکتہ ہے۔“
خالق کو بہتر طور پر جاننا
اس کتاب نے بہتیرے ممالک کے لوگوں کی خدا کو بہتر طور پر جاننے اور اُسکی قربت حاصل کرنے میں مدد کی ہے۔ جاپان کے شہر، فوکووکا کے ایک قاری نے بیان کِیا: ”ایسا پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ ساری کی ساری توجہ یہوواہ پر مُرتکز کر دی گئی ہے۔ کتاب حیرتانگیز طریقے سے قائل کرتی ہے۔ مَیں یہوواہ کو ایسے زاویے سے جاننے کے قابل ہوا ہوں جو میرے وہموگمان میں بھی نہیں تھا۔“ سیلواڈور سے ایک شخص نے لکھا: ”آپ نے بڑی عمدگی سے وضاحت کی ہے کہ خدا کسقدر رحیم، مہربان، قہر کرنے میں دھیما اور شفقت میں غنی ہے۔ واقعی، ہمیں اُسکے اور اُسکے بیٹے کی قربت حاصل کرنے کیلئے بالکل اسی چیز کی ضرورت ہے۔ یہ پہلی کتاب ہے جو یہوواہ کے جذبات اور اُسکے بیٹے، یسوع کے انسانی احساسات کی وضاحت کرتی ہے۔“ نیز زمبیا سے ایک قاری نے بیان کِیا: ”یہوواہ نے میرے لئے بالکل نیا مفہوم اختیار کر لیا۔“
قابلِفہم طور پر یہوواہ کے گواہ بڑے جوشوجذبے کے ساتھ یہ کتاب از دیئر اے کریئٹر ہو کیئرز اباؤٹ یو؟ کو دوسروں میں تقسیم کر رہے ہیں۔ ایک نے بیان کِیا: ”جب مَیں نے باب ۱۰ [”اگر خالق پرواہ کرتا ہے تو اتنا دُکھتکلیف کیوں ہے؟“] کی پڑھائی ختم کی تو مَیں یہ کہے بغیر رہ نہ سکی کہ ’جاپان میں ہمیں بس اسی کتاب کی ضرورت ہے!‘ مَیں اس باب کے مواد کو ذہننشین کرنا اور میدانی خدمت میں زیادہ سے زیادہ استعمال کرنا چاہونگی۔“ ایک اَور خاتون ایک لڑکی کے ساتھ بائبل مطالعہ کر رہی ہے جس نے بدھمت کے ایک مندر میں پرورش پائی تھی جہاں اُس کا باپ پجاری ہے۔ ”اُسے خالق کے نظریے کو قبول کرنا بہت مشکل لگا۔ اس کتاب کی وضاحت میں کسی قسم کی راسخالاعتقادی نہیں پائی جاتی بلکہ اس میں حقائق پیش کئے گئے ہیں اسلئے میرے خیال میں بدھسٹ بھی بِلاہچکچاہٹ اسے پڑھ سکتے ہیں۔ یہ ہمیں یہوواہ کی محبت کو اَور زیادہ محسوس کرنے کے قابل بناتی ہے۔“
قدردانی سے بھرپور یہ تبصرہ انگلینڈ سے ہے: ”مَیں نے کریئٹر بک کی پڑھائی ابھی ختم ہی کی ہے اور اسے دوبارہ شروع کرنے والی ہوں۔ کیا ہی شاندار کتاب! اس کتاب کو صرف پڑھنے سے ہی ہر شخص یہوواہ سے محبت کریگا۔ مَیں نے ایک کتاب اپنی پڑوسن کو دی جس نے اس کے صرف دو ابواب پڑھنے کے بعد کہا، ’یہ اسقدر ہیجانخیز ہے کہ مَیں اسے بند کرکے نیچے نہیں رکھ سکتی۔‘ مجھے یقین ہے کہ یہ ہمارے عظیم خالق کو جاننے اور اُس سے محبت کرنے کیلئے لوگوں کی مدد کریگی۔“
میریلینڈ، یو.ایس.اے. سے ایک آدمی نے کہا: ”یہ تو میری روحانی ہڈیوں اور گودے میں اُتر گئی ہے! مَیں اسے اپنے تمام کاروباری ساتھیوں کو بھی دینے کا ارادہ رکھتا ہوں۔ بعضاوقات مجھے ایسے مصروف اور تعلیمیافتہ لوگوں کو گواہی دینا مشکل لگتا ہے۔ اس کتاب کی مدد سے مَیں اب جاذبِتوجہ، مؤثر رسائی کر سکوں گا۔“
واقعی، یہ کتاب از دیئر اے کریئٹر ہو کیئرز اباؤٹ یو؟ ساری زمین کے لوگوں پر مثبت اثر ڈالیگی۔
[صفحہ 25 پر تصویر کا حوالہ]
Cover photo above, Eagle Nebula: J. Hester and P. Scowen
AZ State Univ.(, NASA)